(حقوق و فرائض) میرا گھر میری ذِمہ داری - انجینئر سید نعمان اختر

15 /

میرا گھر میری ذِمہ داریانجینئر سید نعمان اختر

جناب انجینئر سید نعمان اختر صاحب (نائب ناظم اعلیٰ‘ جنوبی پاکستان زون و صدرِ انجمن خدّام القرآن سندھ‘ کراچی) نے تنظیم اسلامی کے سالانہ اجتماع منعقدہ نومبر۲۰۲۱ء بمقام بہاولپور میں رفقا ئے تنظیم اسلامی اور احباب کے لیے نہایت بصیرت آموز اور پندو نصائح پر مبنی خطاب فرمایا۔رفقاء و احباب کی دلچسپی اور افادئہ عام کے لیے اس خطاب کو ترتیب و تسوید کے بعد پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

تنظیم اسلا می اقامت دین کی علمبردار ہے۔ قرآن حکیم اس کی دعوت و تربیت کا مرکز و محور ہے ۔ عالمی سطح پر بھی اور ہمارےاعزّہ و اقارب اور حلقہ احباب میں بھی ہماری پہچان داعیٔ قرآن اور بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے شاگردوں کی حیثیت سے ہے۔ تنظیم سے وابستہ ہر رفیق اپنی حیثیت میں اور اپنے دائرئہ اختیار میں اقا مت ِدین کی دعوت و تبلیغ میں مصروف ہے‘ اور الحمد للہ اس کے امید افزا نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں۔
ذرا اپنے آپ کو جانچنے کی کوشش کریں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ مَیں دعوتِ قرآنی اور انقلابی فکر سے پوری دنیا کو تو منور کررہا ہوں لیکن میرا اپنا گھر ا س نور سے منور نہیں!مَیں اس انقلابی فکر سے جوڑنے کے لیے احباب پر توکام کررہاہوں ‘ان کی منتیں کررہا ہوں لیکن میرے گھر کا کوئی فرد اس فکر سے روشناس نہیں‘اس مشن میں میرا دست و بازو نہیں۔اور مجھے اس لحاظ سے ا ن کی فکر بھی نہیں۔ ایسے میں بانیٔ تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے ذراسخت الفاظ اپنے ذہن میں تازہ کر لیجیے جب ایک موقع پر انہوں نے فرمایا تھا: ’’آپ جو کچھ بھی کر رہے ہیں اپنی شخصیت کی پروجیکشن کے لیے‘ آپ اپنے نام کو نمایاں کرنے کے لیے اور ہوسِ اقتدار کے اندر مبتلا ہو کر کر رہے ہیں ۔‘‘ اقامت ِدین کا ہر داعی ان الفاظ پر غور کرکے اپنا جائزہ لے‘ تاکہ اپنا مقام اور اپنی جدّوجہد کی صحیح سمت اس کی نظروں کے سامنے آجائے۔
گھر والوں کی تربیت ہمارا دینی بلکہ اخلاقی فر یضہ بھی ہے۔ اس پر ہمیں خصوصی توجہ دینی ہے۔ رفقاءکو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ تنظیم اسلامی میں ہماری پرورش ذمہ داریوں میں  ہوئی ہے۔الحمد للہ ہمیں کسی منصب یا عہدے کا شعور نہیں دیا گیا۔چنانچہ انقلابی دوست جو اس مشن کو آگے بڑھانے کے لیے اہم ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیںان کے ذہن میں یہ بھی مستحضر رہے کہ ایک اہم ذمہ داری میرا اپنا گھر بھی ہے۔گھر والوں کی اصلاح اور انہیں اقامت ِدین کا شعور دینا بھی میری ہی ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں اللہ کے سامنے مَیں مسئول بھی ہوں۔
اس حوالے سے چند بنیادی باتیں ہیں جن کا ہمیں ادراک ہونا ضروری ہے:
گھر کا مقصد
پہلی اہم چیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جس گھر میں پیدا کیا ہےاور اس میں جس حیثیت سے بھی ہم اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ‘اس کا مقصد خود اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیا ہے۔ سورۃ النحل کی آیت میں ارشاد فرمایا:
{وَاللّٰهُ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْۢ بُيُوْتِكُمْ سَكَنًا} (النحل:۸۰)
’’ اللہ نے تمہارے لیے تمہارے گھروں کو جائےسکون بنایا ہے ‘‘
بازاروں میں ایک تختی ملتی ہے جو مغرب کی اختراع ہے ‘ جس پر لکھا ہوتا ہے ’’ ہوم سویٹ ہوم‘‘ (Home Sweet Home) ۔یہاں غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ کیا محض یہ تختیاں آویزاں کرنے سے گھر سویٹ ہوم بن جائیں گے؟کیا ہماری اس خوش فہمی سے ہمارے گھر امن و سکون کا گہوارہ بن جائیں گے؟ ہر گز نہیں!یہ خیال ہے جو محال ہے۔سکون و راحت کی فضا قائم کرنے کے لیے اصل چیز گھر کے ہر فرد کا اپنے فرائض کو پہچاننا اور اپنے کردار و عمل سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہے ۔تب ہی یہ امید کی جاسکتی ہے کہ ہمارے گھروں میں سکون و عافیت کا ماحول پیداہوجائے ۔
آج مغرب نے حقوق کی ایک لمبی فہرست ہمارے ہاتھوں میں تھمادی ہے جس پر ہر شخص اپنے حقوق کا طلب گار ہے جبکہ اپنے فرائض سے چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہے۔اس کے برعکس دین اسلام کا اصول یہ ہے کہ ہر فرد کے ہاتھ میں فرائض کی فہرست ہو۔ اس طرح جب وہ اپنے فرائض ادا کرے گا تولامحالہ دوسروں کے حقوق ادا ہوجائیں گے۔یہ وہ فطری ترتیب ہے جس کے خاطر خواہ نتا ئج بر آمد ہوسکتے ہیں۔
شوہر اور بیوی کے تعلق کا مقصد
گھرشوہر اور بیوی کے تعلق سے بنتا ہے۔قرآن حکیم میں زوجین کے تعلق کو سکون و راحت کا ذریعہ قرار دیاگیا ہے۔ارشاد ِربّانی ہے:
{وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْهَا}(الروم:۲۱)
’’ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے کہ اُس نے تمہارے لیے تمہاری نوع میں سے جوڑے بنائےتاکہ تم سکون حاصل کرو۔‘‘
نکاح ایک ایسی گرہ اور ایسا معاہدہ ہے جو پوری زندگی کے لیے قائم ہوتا ہے۔اس بندھن کا مقصد یقیناً جنسی جذبے کی تسکین بھی ہے‘ جس کو نسل انسانی کے تسلسل کے لیے انسان کے اندر ودیعت کیا گیا ہے‘لیکن جائز راستے کے تعین کے ساتھ۔ اس کے حصول کے لیے آج مغرب بے راہ روی کی زندگی کے تحت در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہے۔مختلف کلبوں اور حرام کاریوں کے اڈوں پر جا کراپنی جنسی پیاس بجھا رہا ہے۔نفسِ امارہ کے منہ زور گھوڑے کو قابو میں نہ رکھا جائے تو انسانی معاشرہ اسی طرح کی گندگی اور تعفن کی آماج گاہ بن جاتا ہےجس کا مظہر آج مغرب بنا ہوا ہے۔البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ زوجین کا پوری زندگی کا یہ تعلق صرف جنسی جذبہ کی تسکین پر منحصر نہیں‘ بلکہ اس کو نبھانے کے لیے ذہنی اور قلبی سکون بھی درکار ہے جو صرف اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی ہی سے ممکن ہے۔
موضوع کی اہمیت
اس موضوع کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے قرآن و سُنّت سے جو رہنمائی حاصل ہوتی ہے ان میں سے چند نکات درج ذیل ہیں:
(۱) گھر والوں کی ایسی تربیت کرناکہ جس کے ذریعہ سے وہ جہنّم کی آگ سے بچ سکیں۔ یہ اللہ ربّ العزت کا حکم ہے ۔ سورۃ التحریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ} (التحریم:۶)
’’ اے ایمان والو! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنّم کی آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں‘‘
اِس آیت کے حوالے سے حضرت عمرؓ نے نبی کریمﷺ سے دریافت کیاکہ گھر والوں کوجہنّم سے کیسے بچائیں‘ تو آپؐ نے فرمایا :
((تأمرونهم بما يحبه الله وتنهونهم عما يكره الله)) (أخرج ابن مردويه)
’’جو باتیں اللہ کو محبوب ہیں اُن کی گھر والوں کو تلقین کرو اور جو باتیں اللہ کو ناپسند ہیں اُن سےگھر والوں کو روکو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ہماری ذمہ داری صرف یہ نہیں لگائی کہ ہم ساری جدّوجُہد اور بھاگ دوڑ اپنے اہل خانہ کے پیٹ کی آگ بجھانے میں ہی صَرف کردیں اور انہیں جہنّم کی آگ سے بچانے کی کوئی سعی وجُہد نہ کریں۔
(۲) روزِ قیامت گھر والوں کے حوالے سے ہم سے سوال ہونا ہے کہ اُن کی تربیت کیسے کی! جناب نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
((اَلَا كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ)) (صحيح البخاري)
’’آگاہ ہوجاؤ کہ تم میں سے ہر ایک نگران ہے‘اور اس کے ماتحت رعیت کے بارے میں (روزِ قیامت) اس سے سوال ہونا ہے ۔‘‘
ذمہ داری کی حساسیت کا اندازہ اس روایت سے بھی ہوتا ہے جس میں آپﷺ نے جنّت کی خوشبو سے محرومی کی وعید سنائی ہے:
((مَا مِنْ عَبْدٍ اسْتَرْعَاهُ اللهُ رَعِيَّةً فَلَمْ يَحُطْهَا بِنَصِيحَةٍ إِلَّا لَمْ يَجِدْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ)) (متفق علیہ)
’’اللہ تعالیٰ نےجس بندے کو کسی رعیت کا حاکم بنایا اوراُس نے خیرخواہی کے ساتھ اس کی حفاظت نہیں کی تو اس کو جنّت کی خوشبو تک نہیں پہنچے گی۔‘‘
اصل میں یہ وہ دو کیفیات ہیں جو نتیجہ کے طور پر قیامت کے دن ظاہر ہوں گی۔ ایک کیفیت وہ ہے جس میں اہلِ جنّت کا قول نقل کیا گیاہے :
{قَالُوْٓا اِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِيْٓ اَهْلِنَا مُشْفِقِيْنَ(۲۶)} (الطور)
’’ وہ(اہل ِجنّت) کہیں گے ہم دنیا میں اپنے گھر والوں میں ڈرتے ہوئے رہتے تھے ۔‘‘
یہ خوف وہ حساسیت ہے کہ کہیں میری بیوی بے پردہ ہوکر توگھر سے نہیں نکل رہی ۔مَیں اپنے بچوں کی تربیت دینی خطوط پر کر رہا ہوں کہ نہیں؟ کیا مَیں اپنی اولاد کو اُمّت کے لیے ایک فعال اور دینی مزاج کا حامل بنا پایا ہوں کہ نہیں؟ یہ ہے ایک نتیجہ جو مستقبل میں ظاہر ہونے والا ہے۔ اللّٰھم اجعلنا منھم!
اس کے برعکس ایک نتیجہ وہ ہے جس کا نقشہ قرآن مجید میں اہل جہنّم کی روش کے طور پر بیان کر دیا گیا:
{اِنَّهٗ كَانَ فِيْٓ اَهْلِهٖ مَسْرُوْرًا(۱۳)} (الانشقاق)
’’بے شک وہ (اہل جہنّم ) اپنے گھر والوں میں مست رہتے تھے۔ ‘‘
انہیں کوئی پرواہ نہیں تھی کہ ان کے بچوں کا اٹھنا بیٹھنا کہاں ہے! وہ کس سوسائٹی میں اپنے زیادہ اوقات گزار رہے ہیں‘ کیا تعلیم حاصل کر رہے ہیں‘ بیوی کس طرح سے بے پردہ ہوکر گھر سے باہر جارہی ہے! اس کی انہیں کوئی فکر نہیں تھی۔بہر حال ہمیں اپنے گھر کا تجزیہ کرنا چاہیےکہ مَیں کون سا نتیجہ اپنے لیےمرتّب کر رہا ہوں۔
(۳) ہمارا اصل خسارہ دنیا کا نہیں بلکہ آخرت کا ہے۔ آخرت میں خسارہ پانے والے لوگوں کی نشان دہی قرآن حکیم اس طرح کرتا ہے:
{اِنَّ الْخٰسِرِیْنَ الَّذِیْنَ خَسِرُوْٓا اَنْفُسَھُمْ وَاَھْلِیْھِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ۭ} (الشورٰی:۴۵)
’’بے شک اصل خسارہ پانے والے تو وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو قیامت کے دن خسارے میں ڈالا ۔ ‘‘
ایسے لوگ مجرم بن کر اللہ کی عدالت میں پیش ہوں گے جہاں اُن کی آرزو یہ ہوگی کہ اپنی نجات کے لیے گھر والوں کو بطور ِفدیہ دے دیں:
{یَـوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ یَفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْمِئِذٍۢ بِبَنِیْہِ(۱۱) وَصَاحِبَتِہٖ وَاَخِیْہِ(۱۲) وَفَصِیْلَتِہِ الَّتِیْ تُئْوِیْہِ(۱۳) وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ۙ ثُمَّ یُنْجِیْہِ (۱۴)} (المعارج)
’’اُس روز مجرم چاہے گا کہ کاش وہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے فدیے میں دے دے اپنے بیٹوں کو ‘اور اپنی بیوی کو اور اپنے بھائی کو‘ اور اپنے کنبے کو جو اُسے پناہ دیتا تھا ‘اور روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کو ‘ پھر یہ (فدیہ) اس کو بچا لے!‘‘
اللہ تعا لیٰ اس انجامِ بد سے ہماری حفاظت فرمائے۔آمین!
تربیت کے ذیل میں چند باتیںاس موضوع کی اہمیت و حساسیت کو سمجھنے کےبعد تربیت کے ضمن میں چند اہم باتیں قابلِ توجّہ ہیں:
دنیا کی حقیقت واضح کرنا
گھر والوں کی تربیت کے ضمن میں بنیاد یہ ہے کہ کیا مَیں نے اس دنیا کی اصل حقیقت ان پر واضح کی ہے یا نہیں۔کیا مَیں اللہ کے رسول ﷺ کے اس فرمان مبارک کو گھر والوں کے اندر اُتار پایا ہوں کہ:
((لَوْ کَانَتِ الدُّنْیَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللہِ جَنَاحَ بَعُوْضَۃٍ مَا سَقٰی کَافِرًا مِنْھَا شَرْبَۃَ مَاءٍ)) (رواہ الترمذی)
’’ اس دنیا کی حقیقت اللہ کے نزدیک مچھرکے پَر کے برابربھی ہوتی تو وہ کافر کو پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ دیتا۔‘‘(ترمذی)
رسول کریمﷺ نے بکری کے بچےکی مثال بھی دی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ راہ چلتے ہوئے رسول اللہﷺ نے بکری کا ایک مرا ہوا بچہ دیکھاجس کے کان کٹے ہوئے ‘پیٹ پھولا ہوا اور اس میں سے بوآرہی تھی۔ اللہ کے رسول ﷺ نےصحا بۂ کرامؓ سے دریافت فرمایا:’’ تم میں سے کون اسے ایک درہم میں خریدے گا؟‘‘صحابہ کرامؓ نے حیرت زدہ ہوکر جواب دیا کہ حضور اس مرے ہوئے بچے کو ایک درہم میں کون خریدے گا! اس پر اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :’’ جس طرح تمہاری نظر میں اس مرے ہوئے ‘کان کٹے ہوئے اور پیٹ پھولے ہوئے بچے کی کوئی حیثیت نہیں اس سے کہیں کم تر اللہ کی نگاہ میں اس دنیا کی حقیقت ہے۔‘‘(مسلم)
ذرا سوچیے کہ یہ باتیں صرف عوام الناس کے لیے ہیں یا ہم اپنے گھر والوں کے ذہنوں میں بھی دنیا کی یہ حقیقت واضح کر پارہے ہیں ؟ہم انقلابی فکر رکھنے کے دعوے داراگر خدانخواستہ خود ہی قیمتی قالین‘ مہنگے ڈنر سیٹ اور شو پیسز کے دلدادہ ہوجائیں‘ہماری گاڑی اور ہمارے موبائل سالانہ بنیادوں پر تبدیل ہوتے رہیں تو پھر ہم کیسے اپنے گھر والوں کے طرزِ زندگی میں اس دنیا کی اصل حقیقت اور اس کی بے ثباتی اجاگر کر پائیں گے؟اس پہلو پر ہمیں سنجیدگی سے توجّہ دینے کی ضرورت ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ہمارے لیے ہر لحاظ اور ہر زاویے سے رسول اکرم ﷺ ہی اسوہ ہیں۔ ترمذی شریف کی روایت میں ہے کہ چٹائی پر لیٹنے کی وجہ سے آپؐ کی کمر مبارک پر نشان پڑ گئے تھے‘ صحابۂ کرامؓ یہ منظر دیکھ کر لرز گئے اور بے چین ہو کر دریافت کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! کہاں وہ قیصر و کسریٰ کے عیش و آرام اور آپؐ کی کمر مبارک پر یہ چٹائی کے نشان؟ کیا ہم آپؐ کے لیے کسی آرام دہ گدے کا انتظام کردیں ؟رسول کریم ﷺ نے فرمایا:
((مَا لِي وَمَا لِلدُّنْيَا ‘ مَا أَنَا فِي الدُّنْيَا إِلَّا كَرَاكِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَةٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَكَھَا)) (رواه الترمذي)
’’ میرا تمہاری دنیا سے کیا کام! اس دنیا میں میرا قیام ایک مسافر کی طرح ہے جو کسی درخت کے سائے میں آکر تھوڑا آرام کرتا ہے اورپھر اپنی منزل کی طرف چل پڑتا ہے۔‘‘
مسافر کی نگاہ اس کی منزل کی طرف ہی ہوتی ہے‘ اور ہماری منزل متعین ہے۔یہاں احساسِ زیاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ تو دنیا میں مسافر کی طرح رہیں‘ تکلیفیں برداشت کریں ‘ ہدایت کا خزانہ پہنچا کر جائیں‘جبکہ ان کی محبّت کے دعوے دار دنیا کی رعنائیوں میں مست رہیں ! رسول اللہ ﷺ کے اپنے گھر کا حال تو یوں ہے کہ حجرے میں کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ کھولتے تو دیواروں سے ٹکراتے اور اوپر اٹھاتے تو چھت سے جا لگتے۔حجرے کے دروازے پر پردے کے لیے کمبل لٹکے ہوتے تھے۔ کئی کئی دن چولہا نہ جلنے کی وجہ سے چولہے میں گھاس اُگ آتی‘ اور کتنے ہی دن فاقوں میں گزر جاتے ۔یہ تھے رسول کریم ﷺ کی حیات ِ طیبہ کے روز و شب‘ لیکن شانِ بندگی دیکھیں کہ پھر بھی آپ ﷺ کی زبانِ مبارک سے یہ دعا نکل رہی ہے:
اَللّٰھُمَّ اَحْیِنِیْ مِسْکِیْنًا وَّ اَمِتْنِیْ مِسْکِیْنًا وَّاحْشُرْنِیْ فِیْ زُمْرَۃِ الْمَسَاکِیْنِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ (رواه الترمذي)
’’ یا الٰہی! مجھے مسکین زندہ رکھ ‘ حالت ِمسکینی میں ہی موت عطا فرما اور مساکین کے ساتھ ہی قیامت میں مجھے اٹھا۔‘‘ (ترمذی)
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کسی درجے میں ہمارے اندر بھی یہی کیفیت پید افرمادے کہ ہم خود بھی دنیا کی اس بے ثباتی سے پوری طرح آگاہ ہوں اور اپنے گھر والوں کے اندر بھی اس کا صحیح شعور اجاگر کر پائیں۔یہ ایک اصولی بات ہے کہ اگر ہم نے اس دنیوی زندگی کی چیک لسٹ میں آخرت کو سر فہرست رکھا ہوا ہے تو اس کی بنیاد پر ہماری زندگی استوار ہوگی اور اگر اس پر دنیا سرِ فہرست لکھ دی ہے تو اسی کے زیرِ اثر ہماری زندگی کا لائحہ عمل بنے گا۔
غمی و خوشی
خوشی اور غمی اس دنیا کا لازمی حصّہ ہیں۔ہم ایسی خوش نصیب اُمّت ہیں کہ ان کیفیات کے لیے بھی ہمارے سامنے رسول کریمﷺ بہترین نمونہ ہیں ۔ ذرا چشم تصور سے دیکھئے کہ وہ کون سا غم تھا جس سے اللہ کے رسول ﷺ نہ گزرے ہوں!یتیمی آپؐ نے دیکھی۔ والدہ کی وفات کے صدمے سے آپ ؐ دوچار ہوئے۔ اوائل عمر میں دادا ساتھ چھوڑ گئے۔ شریک حیات حضرت خدیجہ الکبریٰؓ کے وصال کا غم آپ کو سہنا پڑا۔دو بچیوں کی طلاق کا دکھ آپ ؐ کو اپنی زندگی ہی میں برداشت کرنا پڑا۔بیٹے کم سنی میں وفات پاگئے۔ صحیح بخاری میں ذکر ہے کہ اپنے صاحب زادے سیدناابراہیم کو نزع کے عالم میں دیکھ کر نبی اکرمﷺ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل آئے لیکن آپﷺ نے فرمایا :
’’ابراہیم ہم تجھے اللہ کے فیصلے سے بچا نہیں سکتے۔‘‘ اور ’’آنکھ آنسو بہاتی ہے‘ دل مغموم ہے لیکن زبان سے ہم وہی کہیں گے جو ہمارے رب کو پسند ہے۔‘‘
غیر متزلزل صبرو ثبات ا ور ہدایتِ کاملہ کا یہ کیسا بہترین سبق ہے جو محض ایک جملے سے حاصل ہوتا ہے۔گھر والے بھی اس موقع پر موجود ہیں مگر صبر کا دامن کسی سے نہیں چھوٹا۔
آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ رشد و ہدایت کا یہ سلسلہ اور تربیت کا یہ ماحول ہمارے گھروں سے رخصت ہوچکا ہے۔اسی کا نتیجہ ہے کہ جب گھروں سے میت اٹھانے کا موقع ہوتا ہے تو خواتین سینہ کوبی اور بین کرتی نظر آتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سُنّت کی روشنی میں تسلیم و رضا کی اس کیفیت کو ہمیں اپنی ذات میں اور اپنے اہل خانہ کے اندر بھی پیدا کرنے کی حتی المقدور فکر کرنی چاہیے۔اس حوالے سے مولانا محمد علی جوہر کا وہ طرزِ عمل تسلیم و رضا کا اعلیٰ نمونہ ہے جب تحریک کے دوران ان کو جیل کاٹنی پڑی ۔دورانِ اسیری پہلی بیٹی کا ٹی بی سے انتقال ہوگیا۔ دوبارہ جیل گئے تو دوسری بیٹی بھی اسی موذی مرض میں مبتلا ہوگئی۔بیٹی نزع کی کیفیت میں ہے اور خود جیل میں قید کاٹ رہے ہیں ۔ گھر جا نہیں سکتے‘ لہٰذا حالت اسیری میں ہی اپنی بچی کو تسلیم و رضا میں ڈوبے چند اشعار لکھ کے بھیج دیتے ہیں:
مَیں تو مجبور سہی اللہ تو مجبور نہیں
تجھ سے مَیں دور سہی وہ تو مگر دور نہیں
امتحاں سخت سہی پر دلِ مؤمن ہی وہ کیا
جو ہر اِک حال میں اُمید سے معمور نہیں
تیری صحت ہمیں مطلوب ہے لیکن اُس کو
نہیں منظور تو پھر ہم کو بھی منظور نہیں!
اصل غم تو آخرت کا غم ہے ‘ اصل خوشی بھی آخرت کی خوشی ہے۔اس دنیا کے غم اور یہاں کی خوشیاں عارضی ہیں۔اَسلاف کی مائیں ‘ امہات المو منین کی آنکھوں سے بھی آنسو بہے تھے۔اماں عائشہؓ کی آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کو دیکھ کر اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ’’عائشہ کیوں رورہی ہو ؟ ‘‘ عرض کی :اے اللہ کے رسولﷺ! جہنّم کی ہولناکیاں ذہن میں آگئیں تو آنسو بے قابو ہوگئے۔
آنسو تو ہمارے گھروں کی خواتین کی آ نکھوں سےبھی جارہی ہوتے ہیں مگر کسی فلم یا ڈرامے کے غمگین منظر(sad scene)یا غم انگیز گانا سن کر۔ اس صورتِ حال میں تو بعض اوقات مَرد بھی رو پڑتے ہیں۔انا للہ و انا الیہ راجعون!یہی آنسو اگر آخرت کی فکر میں بہائے جائیں ‘ اپنے گناہوں کا اعتراف کر کےاپنے رب کے حضور آنسو ؤں کا یہ نذرانہ پیش کیا جائےتو انسان کا بیڑا ہی پار ہوجائے۔اللہ پاک ہم سب کو اس کا صحیح فہم عطا فرمائے!
ہمارے دین میں خوشیاں منانے (celebrate کرنے) کے حوالے سے بھی ہدایات موجود ہیں۔اسلام دین فطرت ہے‘ اس نے انسانی زندگی کا کوئی گوشہ تشنہ نہیں چھوڑا ۔ حضرت فاطمہؓ کی شادی کے سلسلے میں جب حضرت علیؓ کا پیغام آیا تو رسول مکرمﷺ نے فرما یا کہ مجھے اپنی بچی سے پوچھ لینے دو۔ یہاں ایک باپ ہونےکے باوجود اپنی مرضی مسلط نہیں کی گئی‘لیکن بنت ِ محمد ﷺ نے بھی شرم سے نگاہیں نیچی کر لیں۔ آج کی بچیاں کیسے بے باکی کے ساتھ آنکھیں ملا کر اس موضوع پر گفتگو کرتی نظر آتی ہیں‘اِلا ماشاء اللہ!نکاح منعقد ہو گیا ‘ چھوہارے تقسیم ہوئے‘ اُمّ ایمن حضرت فاطمۃ الزہراءؓ کا ہاتھ تھام کر حضرت علیؓ کے حجرے میں چھوڑ آئیں۔آج اگر ہم ایک انقلابی فکر رکھنے والوں کے ہاں ولیمے کے موقع پر کھانوں میں اسراف دیکھیں تو ذرا سوچیں کہ اس طرح کی روش اختیار کر کے ہم کس منہ سے کسی اور کو سادگی اور تہذیب کا درس دیں گے!اس کے علاوہ وقت کی پابندی کابھی کوئی احساس نہیں ہوتا ۔دیر سے آنا ایک فیشن بن گیاہے۔ان حالات میں جب ہم وقت کی اہمیت کا احساس سورۃ العصر کی روشنی میں بیان کر یں گے تو کسی پر کیا اثر ہوگا؟
اصل میں ایک خاموش تبلیغ ہم اپنے طرزِ عمل سے بھی کرتے ہیں اورہمار ا یہ انداز ہی دوسروں کے لیے بگاڑ اور بناؤ کا سبب بنتا ہے۔ہمیں اس نکتے کی حساسیت کا ادراک ہی نہیں ہوتا۔بانی محترم ؒنے بھی اپنے بچوں اور بچیوں کی شادیاں کی تھیں۔ کیا وہ ہمارے لیے قابل تقلید نہیں ہیں؟ان کے طریقہ کار کو دیکھ کر کالم نویسوں نے ’’پاکستان ٹائمز‘‘ اور دیگر اخبارات میں ان الفاظ میں تبصرہ کیا تھا کہ ’’ایک ٹن وعظ کے مقابلےمیں ایک اونس عمل زیادہ وزنی ہوا کرتا ہے۔‘‘
بچوں کی تربیت
بچوں کی تعلیم کا بندوبست ہماری ذمہ داری ہے ۔علم کے حصول پر کلام سب سے زیادہ دین اسلام نے کیا ہے ۔تعلیم ضرور دلوائیں لیکن ایسے نہیں کہ نصابی معرکے توسر کیے جائیں اور کردار سازی کی طرف کوئی توجہ نہ ہو۔ نوجوانوں میں جو جفاکشی ‘ بہادری ‘ دریا دلی اسلام دیکھنا چاہتا ہے وہ سرے سے ہمار ی نئی نسل میں نظر ہی نہ آئے۔ یہ صورت حال ہمارے مستقبل کے لیے نہایت بھیانک ہے۔ہمارا ماضی تو اتنا تابناک ہے کہ ایک سترہ سالہ نوجوان محمد بن قاسم ؒ سندھ کو فتح کرکے اسلام کا دروازہ کھولتے ہیں۔جماعتی زندگی تو انقلابی فکر رکھنے والوں کے لیے ایک نعمت ہے اور اس ذمہ داری کی ادائیگی میں ممد و معاون ہے۔گھریلو اسرہ کی ترغیب اسی اجتماعیت سے ملتی ہے۔ہمارے بچے انقلابی فکر میں رنگے نظر آنے چاہئیں۔ اس کو مزید مؤثر کرنے کے لیے بانی محترم ؒ اور امیر محترم کے ویڈیوز دکھانے کا سلسلہ شروع کیا جاسکتا ہے۔بچوں کو ان کی ذہنی سطح کے مطابق مواد فراہم کرنا چاہیے اور بچیوں کے لیے ان کی افتادِ طبع کے مطابق درس و تدریس کا معاملہ ہونا چاہیے۔ ہماری بچیوں کو نئے گھر کی زینت بننا ہے‘اس لیے ان کی کردار سازی اسلامی خطوط پر اور شرم و حیا کی تعلیم کے ساتھ کرنا ناگزیر ہے۔ اگرلڑکی کو معاملہ فہمی کی تربیت نہیں دی گئی تو سسرال میں پیچیدگیاں لاحق ہوسکتی ہیں۔آج کل سرعت کے ساتھ طلاقوں کا سلسلہ معاشرے کے لیے تشویش ناک بنا ہوا ہے۔زوجین نے طلاق کو گڑیا گڈے کا کھیل بنا رکھا ہے۔رفیق تنظیم کی حیثیت سے اس حساس پہلو کی طرف بھی خصوصی توجّہ کی ضرورت ہے۔
صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ ماں بیٹی کو یہ سبق سکھاتی ہے کہ سسرال جاتے ہی شوہر کو اپنے قابو میں کرنا ہے اور ساس سسرسے الگ کرکے نئے گھر کا تقاضا کرنا ہے۔اللہ پاک سب کی بیٹیوں ‘ بیٹوں اور دونوں خاندانوں کو عقل سلیم عطا فرمائے کہ وہ اس رشتے کی نزاکت کو سمجھیں۔خاص طور پر بچیوں کو حیا کے زیور سے آراستہ کریں۔شادی بیاہ کے مواقع پر انتہائی افسوس ناک صورتحال ہوتی ہے کہ نوعمربچیوں کو بغیر آستین (sleeveless) لباس پہنا کر لایا جاتا ہے۔اس تشویش ناک صورتِ حال میں ایک بڑا کردار ٹیلی ویژن کے علاوہ موبائل اور انٹرنیٹ کا بھی ہے۔اس حوالے سے ایک درد مند شخص نے بڑااثر انگیز تبصرہ لکھا ہے جو ہمیں غور و فکر کی دعوت دیتا ہے:
’’گھروں میں موجود بچے بظاہر تو آپ کے ساتھ ہیں لیکن درحقیقت وہ اغوا ہو چکے ہیں۔ دروازے توڑ کر‘ دیواریں پھلانگ کر‘ گھروں میں گھس کر آپ کے بچوں کو اغوا کیا جا رہا ہے۔آپ کا ٹی وی‘ لیپ ٹاپ‘ موبائل و دیگر چھوٹی بڑی سکرینیں آپ کے بچوں کے دماغ پر قبضہ کر رہے ہیں۔ان کے دل کو سیاہ اور پرا گندہ کیا جا رہا ہے۔ ان کے کان اور آنکھیں حیا سے عاری اور مادر پدر آزاد بنائی جارہی ہیں۔ گویا ان کے اعضاء کاٹے جارہے ہیں۔ اب یہ صرف مسخ شدہ نعشیں ہیں۔ بچوں کا چہرہ سامنے ہونا ہی ان کا موجود یا محفوظ ہونا نہیں کہلاتا۔ بچیوں کے سروں پر سے پردہ سرک کر بدن سے بھی جان چھڑانے کے چکروں میں ہے۔ اب یہ سر پر پردہ تک کا بوجھ برداشت کرنے کی متحمل نہیں رہیں۔
وہ گھر چلانا اور گھر بنانا چھوڑ رہی ہے۔ وہ باہر کی دنیا کی اسیر ہو چکی ہے۔ بچے ہونے کے باوجود مائیں بے اولاد کی جا رہی ہیں۔آج کی بچیاں کل کی ماں بننے کے لائق نہیں چھوڑی جا رہیں۔انہیں ذہنی اور جسمانی طور پر بانجھ کیا جا رہا ہے۔ ہم بچوں کو اپنے ہاتھوں سے بھاری فیس دے دے کر اس تہذیب کے حوالے کر رہے ہیں‘ وہ تہذیب کہ جس نے آپ سے آپ کا خالق چھین لیا ‘ اورآپ کی آنے والی نسلیں بھی ۔
یہ بچے نہیں ‘ اگلی نسل کے والدین اغوا ہو رہے ہیں۔یہ اغوا شدہ بچے کل کو کس طرح کے ماں باپ ہوں گے‘ اس کا تصوّر بھی بھیانک ہے۔ جب کردار مسخ کر دیے جائیں‘ جب افکار کچل دیے جائیں‘ جب تہذیب مار دی جائے‘ نسلیں اغوا ہوجائیں تو یہ ہوتی ہے kidnapping۔ یہ ہوتے ہیں اصل missing persons جو نظروں کے سامنے ہو کر بھی کسی اور کے پیروکار ہوں۔ تو فکر ہونی چاہیے‘ یہ فکر ابھی کیجیے اور جان رکھیں کہ جو آپ کے پاس ہے وہ آپ کے ساتھ نہیں۔‘‘
مائوں کا کردار
ماں کا کرداراسی وقت شروع ہو جاتا ہے جب بچہ ابھی رحم مادرمیں ہی ہوتا ہے۔ ماں کامثبت کرداربچے پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے ۔ یہاں ہماری اسلاف کی ماؤں کا حوالہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے ضروری ہوگا۔ حضرت خنساءؓایک جلیل القدر صحابیہ تھیں۔ جنگ قادسیہ کا واقعہ ہے ‘ اگلے دن غزوہ ہونا ہے۔ چار نوجوان بیٹوں کو جنگ کے لیے تیار کر رہی ہیں۔ کہتی ہیں: ’’ بچو! کل جب تم جنگ کرو تو اللہ کی راہ میں دیوانہ وار تلوار چلانا ۔اگر ہو سکے تو عین آتش دان جنگ میں کودپڑنا اور دشمن کے سپہ سالار پر ٹوٹ پڑنا اور اس کو ختم کر دینا۔ اگر تم کامیاب ہو گئے یعنی واپس آ گئے تو کامیابی اور اگر واپس نہ آئے‘ شہید ہو گئے تو یہ اس سے بھی بڑی کامیابی ہوگی کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ہاں جو بھی لازوال نعمتیں موجود ہیں تم ان کو پا جاؤ گے۔‘‘ اگلے دن غزوہ ہوتا ہے۔چاروں بیٹوں کی شہادت کی خبر پاتی ہیں تو سجدہ ریز ہو جاتی ہیں اور اللہ کا شکر بجا لاتی ہیں کہ اُس نے میرے بیٹوں کو اپنے اعلیٰ مشن کے لیے قبول کر لیا۔
ہمارے اَسلاف کی مائیں دودھ پلاتے پلاتے جذبہ جہاد و دین سبق آموزواقعات کے ذریعے سے بچوں میں منتقل کر دیتی تھیں۔ لہٰذا اسلاف میں ہمیں جفاکش‘ بہادر ‘ آنکھوں میں  آنکھیں ڈالنے والے اور باطل نظام پر ہاتھ ڈالنے والے نوجوان نظر آتے ہیں! آج کی مائیں بھی بچوں کودود ھ پلاتی ہیں لیکن انہیں گہری نیند سلانے کے لیے‘ تاکہ وہ خود اپنی دُنیوی مصروفیات‘ فلموں‘ ڈراموں میں وقت ضائع کرنے کے لیے آزاد ہوجائیں ‘ اِلا ماشاء اللہ! شاید اسی لیےپوری قوم سو رہی ہے۔
تعلق زوجین
زوجین کے تعلقات بھی ہمارے معاشرے کا ایک اہم مسئلہ ہے۔اللہ کے رسولﷺ نے فرما یا:((خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي ))’’تم میں سے بہترین وہ ہیںجو اپنے گھر والوں کے ساتھ بہترین ہیں اور( اپنی مثال پیش کی )مَیں تم میں سب سے زیادہ اپنے گھر والوں کے ساتھ بہترین ہوں۔‘‘(ترمذی)
ہم دوسروں کے لیےتوبہترین اور ملائم ہو ں‘ ہمارا اندازِ گفتگو نرم ہو‘ رُحَمَاءُ بَیْنَھُمْ والی کیفیت ہو‘ لیکن جیسے ہی گھر کی دہلیز پار کر کے اندر داخل ہوں تو اخلاق و تہذیب کو بالائے طاق رکھ دیا جائے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ ناک پہ آجائے اور کبھی ہاتھ بھی بے قابو ہوجائے۔ گھروں سے شکایتوں کی بازگشت شروع ہو جائے کہ آپ کے ساتھ تو آپ کے رفیق بڑے ملا ئم ہیں‘ بڑے مہذب ہیں مگر ہمارے ساتھ تو یہ منہ پھٹ اور ہاتھ جھاڑنے والے معاملات کرتے ہیں۔
قرآنِ حکیم میں اس تعلق کے لیےلباس کا استعارہ استعمال کیاگیا ہے:{ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَھُنَّ ط}(البقرۃ:۱۸۷)  کیا ہم کبھی گندے ہاتھ اپنے لباس سے پونچھتے ہیں؟ تو پھرشوہر اور بیوی نے ایک دوسرے کو ٹشو پیپرزبنا کےکیوں رکھا ہوا ہے ؟ میاں بیوی کے تعلق میں مزاج کی تلخی ملاحظہ فرمائیں کہ اگر قمیص کا بٹن ٹوٹ جائے تو فورا ً لگا لیتے ہیں لیکن اگر دونوں میں سے کسی کا دل ٹوٹ جائے یا ناراضگی ہوجائے تو ا سے انا کامسئلہ بنا لیا جاتا ہے‘ازدواجی تعلقات میں بد مزگی اور تناؤ پیدا ہو جاتا ہے۔ زوجین کے مابین تعلقات کو خوشگوار رکھنے کے لیے اگر یہ حکمت عملی اپنا لی جائےکہ اگر ایک کسی بات پر خفا ہوگا تو دوسرا اسے منا لے گا اور اگر دوسرا روٹھ جائے تو پہلا منا لے گا‘ تو اس طرح تعلقات میں کبھی تناؤ پیدا نہیں ہو گا۔ خوبیوں پر نگاہ رکھ کر زندگی بسر ہو جاتی ہے‘ عیبوں پر نگاہ رکھ کر دو دن بھی جینا مشکل ہوجاتا ہے۔
گھر والوں کی تربیت سے حاصل ہونے والےفوائد
• پہلا فائدہ یہ ہوگا کہ جب ہم گھر والوں کی تربیت کریں گے تو اپنی بھی تربیت ہوگی۔جو باتیں ہم چاہیں گے کہ اپنے بچوں میں دیکھیں وہ ہم اپنے اندر بھی پیدا کرنے کی کوشش کریں گے ۔دوسروں کو توجّہ دلائی جائے گی تو اپنی طرف انگلیاں اُٹھنے کا خوف بھی ہوگا۔
• گھر والوں کی تربیت کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ فرائض دینی کی ادائیگی میں ہمارے لیے آسانی ہو جائے گی۔پورا گھرانہ اگر ایک جیسے نظریات کا حامل ہو تو بہت آسانیاں ہو جاتی ہیں۔
• ہمارےکردار کے متعلق گھر والوں کی طرف سے مثبت گواہی ہی بہترین گواہی ہے ۔ آپ چھ سو کلومیٹر دورجاکے کسی شخص کو سینہ تان کر دعوت دیں تو وہ تو مرعوب ہوگا ہی ‘ کیوں کہ وہ آپ کی اصلیت سے واقف نہیں ہوتا ۔گھر والے ہماری تمام عادات و اطوار سے بخوبی واقف ہوتے ہیں ‘ جب ہی تو گھر by pass ہوتا ہے۔گھروالوں کو تبلیغ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی‘ ان سے نگاہیں چار کرنا مشکل ہوتا ہے۔اس لیے گھر کی گواہی بہت وزن رکھتی ہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہؓ سےرسول اللہ ﷺ کے اخلاق کے بارے میںجب پوچھا گیا تو فرمایا: ’’تم نے قرآن نہیں پڑھا ؟‘‘ صحابہ نے کہا: ہم قرآن تو پڑھتے ہیں‘ لیکن ہمارا سوال تو اخلاق کے بارے میںہے ۔ تو فرمایا: ’’کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآن‘‘’’آپﷺ کا اَخلاق قرآن ہی تو ہے۔‘‘ (مسند احمد)تم قرآن پڑھو اوراس کی چلتی پھرتی تصویر اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ کی شکل میں عملی طور پر دیکھو!بہر حال‘ جب ہم تمام گھر والوں کی تربیت نظریاتی سطح پر کریں گے تو ہم سب ایک پیج پر ہوں گے اور دین کے رنگ میں رنگے جائیں گے۔ قرآن مجید میں خوشخبری ہے کہ ایسا گھرانہ ان شاءاللہ جنّت میں بھی ساتھ ہو گا ۔ سورۃ الطور میں ربّ کائنات کا فرمان ہے:
{وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا اَلَتْنٰھُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ ط} (آیت ۲۱)
’’اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی (راہ) ایمان میں ان کے پیچھے چلی‘ ہم ان کی اولاد کو بھی ان (کےدرجے) تک پہنچا دیں گے اور ان کے اعمال میں سےکچھ کم نہ کریں گے۔‘‘
اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں بھی ایسا خوش نصیب گھرانا عطا فرمائے اور ہمارا گھر سکون ورحمت اور برکت کا مسکن بن جائے۔آمین یا ربّ العالمین!
میرے مولا مجھے اتنا تو معتبر کردے
مَیں جس مکان میں رہتا ہوں اسے گھر کر دے!
***