(معرکۂ روح و بدن) فتنۂ دجّال اور درپیش چیلنجز - آصف حمید

15 /

فتنۂ دجّال اور درپیش چیلنجزآصف حمید
ناظم شعبہ سمع و بصر‘ مرکزی انجمن خدّام القرآن لاہور وتنظیم اسلامی
نحمدہٗ ونصلی علیٰ رسولہٖ الکریم
زیر نظرموضوع اس قدر وسیع اور مختلف جہات پر مبنی ہے کہ جب مَیں اس کی تیّاری کرنے بیٹھا تو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اسے کہاں سے شروع کیا جائے اور کہاں تک بات کو لے کر جایا جائے۔ لہٰذا قارئین سے درخواست ہے کہ میرے لیے دعا کریں کہ فی الحال جومَیں نے سوچا ہے‘ وہ بخوبی آپ تک پہنچایا جا سکے۔
قصّہ آدم و ابلیس سے سبق
اس سے قبل کہ ہم دجّال اور دورِ حاضر میں دجّالیت کے مظا ہر پر بات کریں‘ ضروری ہے کہ ہم قصّہ آدم و ابلیس کا خلاصہ اپنے دماغ میں تازہ کر لیں‘ کیونکہ اس واقعے کا بہت گہرا تعلق ان گزارشات سے ہے جو کہ مَیں آپ کے سامنے پیش کرنے والا ہوں۔
قصّہ آدم و ابلیس قرآن مجید میں سات مقامات پر آیا ہےجو کہ اس واقعہ کی اہمیت پر دلالت کرتا ہے‘ لیکن عموماً ایک قاری اس کو محض ایک واقعے کے طور پر پڑھ کر گزر جاتا ہے‘ اِلا ما شاء اللہ۔ جیسے کہ ایک واقعہ ہو ا کہ تخلیق آدم کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمام ملائکہ کو حکم دیا کہ آدم ؑکو سجدہ کرو۔ تمام ملائکہ نے حضرت آدم ؑکو سجدہ کیا ‘ سوائے ابلیس کے۔اس نے تکبر اور حسد کے باعث سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے راندۂ درگاہ اور مردود قراردیا۔ پھر ابلیس نے اللہ کی عزّت کی قسم کھائی کہ مَیں سب انسانوں کو گمراہ کرکے رہوں گا۔ اس کے بعد اُس نے حضرت آدم اور حضرت حوّا (علیہما السلام) کو جنّت کے ایک درخت سے پھل کھانے پر ورغلایا جس کو کھانے سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا تھا۔ ان دونوں نے اس درخت کا پھل کھالیا اور اس طرح ابلیس نے انہیں جنّت سے نکلوا دیا ------اور قصّہ ختم!! غور طلب بات یہ ہے کہ کیا یہ واقعہ محض ایک قصے کے طور پر پڑھنے کے لیے بیان کیا گیا تھا!
قرآن مجید کے بارے میں ہمارا ایمان ہے کہ اس میں کوئی حرف بھی بے معنی یا غیر اہم نہیں‘ کجا یہ واقعہ جو سات بار بیان ہوا اور ہر بار کچھ مزید تفصیل کے ساتھ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ معاملہ بہت اہم ہے۔ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس واقعہ کی اہمیت حضرت آدم ؑکی تخلیق سے روزِ قیامت تک ہے‘ اور ابتدا سے آخر تک خیروشر کا معرکہ جاری ہے اور رہےگا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جونہی ہم اس واقعہ کو محض ایک قصّہ سمجھ کر گزرجاتے ہیں تو ہماری نگاہوں سے وہ معرکہ خیر وشر بھی اوجھل ہو جاتا ہے جس کی بنیاد پر آخرت میں جزا و سزا کا معاملہ ہونا ہے۔
اس واقعہ میں اہم ترین معاملہ جس کی طرف توجّہ مبذول کرانی مقصود ہے‘ یہ ہے کہ حسد اور تکبر سے لبریز ابلیس کو جب اللہ تعالیٰ نے مردود قرار دے دیا توان دونوں کے مابین کیا کیا مکالمے ہوئے۔ ذیل میں وہ سات مقامات درج ہیں:
(۱) {وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰئِۗکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ ۭ اَبٰی وَ اسْتَکْبَرَ ۤۡ وَ کَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ(۳۴)} (البقرۃ)
’’اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو! تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔ اُس نے انکار کیا اور تکبر کیا‘ اور وہ کافروں میں سے ہو گیا۔‘‘
(۲) {قَالَ مَامَنَعَکَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُکَ ۭ قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ ۚ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ (۱۲) قَالَ فَاھْبِطْ مِنْھَا فَمَا یَکُوْنُ لَکَ اَنْ تَتَکَبَّرَ فِیْھَا فَاخْرُجْ اِنَّکَ مِنَ الصّٰغِرِیْنَ(۱۳) قَالَ اَنْظِرْنِیْٓ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ(۱۴) قَالَ اِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ (۱۵) قَالَ فَبِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَھُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ (۱۶) ثُمَّ لَاٰتِیَنَّھُمْ مِّنْۢ بَیْنِ اَیْدِیْھِمْ وَمِنْ خَلْفِھِمْ وَعَنْ اَیْمَانِھِمْ وَعَنْ شَمَاۗئِلِہِمْ ۭ وَلَا تَجِدُ اَکْثَرَھُمْ شٰکِرِیْنَ (۱۷) قَالَ اخْرُجْ مِنْھَا مَذْءُوْمًا مَّدْحُوْرًا ۭ لَمَنْ تَبِعَکَ مِنْھُمْ لَاَمْلَئَنَّ جَھَنَّمَ مِنْکُمْ اَجْمَعِیْنَ (۱۸)} (الاعراف)
’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تجھے کس بات نے سجدہ کرنے سے روکا جب کہ میں نے تجھے حکم دیا تھا؟ اُس (ابلیس) نے کہا: مَیں اس سے بہتر ہوں‘ آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو خاک سے پیدا کیا ہے۔ (حق تعالیٰ نے) فرمایا: تُو آسمان سے اتر‘ تجھ کو کوئی حق حاصل نہیں کہ تُو آسمان میں رہ کر تکبّر کرے‘ سو نکل بیشک تو ذلیلوں میں سے ہے۔ اُس نے کہا کہ مجھ کو مہلت دیجئے قیامت کے دن تک۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تجھ کو مہلت دی گئی۔ اُس نے کہا: بسبب اس کے کہ آپ نے مجھ کو گمراہ کیا ہےمَیں قسم کھاتا ہوں کہ مَیں اُن کے لیے آپ کی سیدھی راہ پر بیٹھوں گا۔ پھر اُن پر حملہ کروں گا اُن کے آگے سے بھی اور اُن کے پیچھے سے بھی‘ اُن کی داہنی جانب سے بھی اور اُن کی بائیں جانب سے بھی‘ اور آپ اُن میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہاں سے ذلیل و خوار ہو کر نکل جا‘ جو شخص اُن میں سے تیرا کہنا مانے گا مَیں ضرور تم سب سے جہنم کو بھر دوں گا۔‘‘
(۳) {قَالَ یٰٓاِبْلِیْسُ مَالَکَ اَلَّا تَکُوْنَ مَعَ السّٰجِدِیْنَ (۳۲) قَالَ لَمْ اَکُنْ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَہٗ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ(۳۳) قَالَ فَاخْرُجْ مِنْھَا فَاِنَّکَ رَجِیْمٌ (۳۴) وَّاِنَّ عَلَیْکَ اللَّعْنَۃَ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنِ(۳۵) قَالَ رَبِّ فَاَنْظِرْنِیْٓ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ(۳۶) قَالَ فَاِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ(۳۷) اِلٰی یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ(۳۸) قَالَ رَبِّ بِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَھُمْ فِی الْاَرْضِ وَلَاُغْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ (۳۹) اِلَّا عِبَادَکَ مِنْھُمُ الْمُخْلَصِیْنَ(۴۰) قَالَ ھٰذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَقِیْمٌ(۴۱) اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغٰوِیْنَ (۴۲) وَاِنَّ جَھَنَّمَ لَمَوْعِدُھُمْ اَجْمَعِیْنَ (۴۳)} (الحجر)
’’(اللہ تعالیٰ نے) فرمایا: اے ابلیس تجھے کیا ہوا کہ تو سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا؟ وہ (ابلیس) بولا کہ مَیں ایسا نہیں کہ ایسے انسان کو سجدہ کروں جسے تو نے کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹّی سے پیدا کیا ہے۔ اللہ نے فرمایا: اب تُو بہشت سے نکل جا‘ کیوں کہ تو راندۂ درگاہ ہے۔ اور تجھ پر میری پھٹکار ہے قیامت کے دن تک۔ اُس (ابلیس) نے کہا: اے میرے ربّ! مجھے اُس دن تک ڈھیل دے کہ لوگ دوبارہ اُٹھا کھڑے کیے جائیں۔ اللہ نے فرمایا کہ اچھا تُو ان میں سے ہے جنہیں مہلت ملی ہے روزِ مقرر کے وقت تک۔ (ابلیس نے) کہا: اے میرے رب! چونکہ تُو نے مجھے گمراہ کیا ہے مَیں بھی لازماً زمین میں ان کے لیے (نافرمانی کو) مزین کروں گا اور ان سب کو لازماً بہکاؤں گا‘ سوائے تیرے اُن بندوں کے جو منتخب کرلیے گئے ہیں۔ اللہ نے فرمایا: ہاں! یہی مجھ تک پہنچنے کی سیدھی راہ ہے۔ میرے بندوں پر تجھے کوئی غلبہ نہیں‘ سوائے اُن گمراہ لوگوں کے جو تیری پیروی کریں۔ یقیناً ان سب کے وعدے کی جگہ جہنّم ہے۔‘‘
(۴) {قَالَ ءَاَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًا (۶۱) قَالَ اَرَءَیْتَکَ ھٰذَا الَّذِیْ کَرَّمْتَ عَلَیَّ ۡ لَئِنْ اَخَّرْتَنِ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لَاَحْتَنِکَنَّ ذُرِّیَّتَہٗٓ اِلَّا قَلِیْلًا(۶۲) قَالَ اذْھَبْ فَمَنْ تَبِعَکَ مِنْہُمْ فَاِنَّ جَھَنَّمَ جَزَاۗؤُکُمْ جَزَاۗءً مَّوْفُوْرًا(۶۳) وَاسْتَفْزِزْ مَنِ استَطَعْتَ مِنْہُمْ بِصَوْتِکَ وَاَجْلِبْ عَلَیْھِمْ بِخَیْلِکَ وَرَجِلِکَ وَشَارِکْہُمْ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ وَعِدْھُمْ ۭ وَمَا یَعِدُھُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا (۶۴) اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطٰنٌ ۭ } (بنی اسرائیل)
’’ اس (ابلیس) نے کہا کہ کیا مَیں اسے سجدہ کروں جسے تُو نے مٹّی سے پیدا کیا ہے! دیکھ لے اسے تو نے مجھ پر بزرگی تو دی ہے لیکن اگر مجھے بھی قیامت تک تُو نے ڈھیل دی تو میں اس کی اولاد کو‘ بجز تھوڑے لوگوں کے‘ اپنے بس میں کرلوں گا۔ ارشاد ہوا کہ جا ان میں سے جو بھی تیرا تابعدار ہو جائے گا تو تم سب کی سزا جہنم ہے جو پورا پورا بدلہ ہے۔ ان میں سےجن کو بھی تُو اپنی آواز سے پھسلا سکے تو پھسلا لے‘ اور تُو چڑھا لا ان پر اپنے سواروں کو اور اپنے پیادوں کو اور تُو ان کے ساتھ مشارکت کر مال اور اولاد میں اور ان سے (جھوٹے) وعدے کر۔ یقیناً شیطان ان سے وعدہ نہیں کرتا سوائے دھوکے کے۔ بلا شبہ میرے بندوں پر تجھے کوئی اختیار نہیں ہوگا۔‘‘
(۵) {وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰئِۗکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ ۭ کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّہٖ ۭ اَفَتَتَّخِذُوْنَہٗ وَذُرِّیَّتَہٗٓ اَوْلِیَاۗءَ مِنْ دُوْنِیْ وَھُمْ لَکُمْ عَدُوٌّ ۭ بِئْسَ لِلظّٰلِمِیْنَ بَدَلًا(۵۰) } (الکہف)
’’اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا‘ یہ جنوں میں سے تھا‘ اُس نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی۔ کیا پھر بھی تم اُسے اور اُس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کر اپنا دوست بنا رہے ہو؟ حالانکہ وہ تم سب کے دشمن ہیں۔ ایسے ظالموں کا کیا ہی برا بدلہ ہے!‘‘
(۶) {وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰئِۗکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ ۭ اَبٰی(۱۱۶) فَقُلْنَا یٰٓاٰدَمُ اِنَّ ھٰذَا عَدُوٌّ لَّکَ وَلِزَوْجِکَ فَلَا یُخْرِجَنَّکُمَا مِنَ الْجَنَّۃِ فَتَشْقٰی (۱۱۷)} (طٰہٰ)
’’اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا‘ اُس نے صاف انکار کر دیا۔ تو ہم نے کہا: اے آدم! یہ تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے (خیال رکھنا) ایسا نہ ہو کہ وہ تم دونوں کو جنّت سے نکلوا دے کہ تُو مصیبت میں پڑ جائے۔‘‘
(۷) {قَالَ یٰٓاِ بْلِیْسُ مَا مَنَعَکَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ ۭاَسْتَکْبَرْتَ اَمْ کُنْتَ مِنَ الْعَالِیْنَ (۷۵) قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ ۭخَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍوَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ(۷۶) قَالَ فَاخْرُجْ مِنْھَا فَاِنَّکَ رَجِیْمٌ(۷۷) وَّاِنَّ عَلَیْکَ لَعْنَتِیْٓ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنِ(۷۸) قَالَ رَبِّ فَاَنْظِرْنِیْٓ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ (۷۹) قَالَ فَاِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ(۸۰) اِلٰی یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ(۸۱) قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَاُغْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ (۸۲) اِلَّا عِبَادَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِیْنَ(۸۳) قَالَ فَالْحَقُّ ۡ وَالْحَقَّ اَقُوْلُ (۸۴) لَاَمْلَئَنَّ جَھَنَّمَ مِنْکَ وَمِمَّنْ تَبِعَکَ مِنْہُمْ اَجْمَعِیْنَ (۸۵)} (صٓ)
’’اللہ نے فرمایا: اے ابلیس! تجھے کس چیز نے روکا کہ تُو اُسے سجدہ کرے جسےمَیں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا! کیا تُو گھمنڈ میں آگیا ہے؟ یا تُو بڑے درجے والوں میں سے ہے؟ اُس (ابلیس) نے جواب دیا کہ مَیں اس سے بہتر ہوں‘ تُو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹّی سے بنایا ہے۔ ارشاد ہوا کہ تُو یہاں سے نکل جا‘ تُو مردود ہوا۔ اور تجھ پر قیامت کے دن تک میری لعنت و پھٹکار ہے۔ کہنے لگا: میرے رب! مجھے لوگوں کے اُٹھ کھڑے ہونے کے دن تک مہلت دے۔ (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا: تُو مہلت والوں میں سے ہے‘ متعین وقت کے دن تک۔ کہنے لگا: پھر تو تیری عزّت کی قسم! مَیں اُن سب کو یقیناً بہکا دوں گا۔ سوائے تیرے اُن بندوں کے جو چنیدہ اور پسندیدہ ہوں۔ فرمایا: سچ تو یہ ہے‘ اور مَیں سچ ہی کہا کرتا ہوں کہ مَیں تجھ سے اور تیرے تمام ماننے والوں سے جہنّم کو بھر کر رہوں گا۔‘‘
اگر ان ساتوں مقامات کی ترجمانی کی جائے تو ابلیس جس کو قیامت کے دن تک مہلت دی گئی ہے‘کا کردار اور ٹارگٹ کچھ یوں نظر آتے ہیں :
۱۔ کردار: تکبّر کرنے والا‘ حسد کرنے والا‘ نافرمانی کرنے والا‘ نافرمانی پر ڈٹ جانے والا‘ انتقام لینے والا‘ انسان کا دشمن۔
۲۔ ٹارگٹ: اُس کا اصل ٹارگٹ جس پر اُس نے اللہ کی عزّت کی قسم کھائی ہے‘ یہ ہے کہ وہ بنی آدم کو گمراہ کرے گا اور یوں جہنّم میں بھجوا کر رہے گا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے وہ درج ذیل کام کرے گا:
نیکی اور سیدھی راہ پر گھات لگائے گا۔ہر طرف سے انسانوں پر حملہ کرے گا۔ لوگوں کو اللہ کا ناشکرا بنائے گا۔ دنیا کو مزین کرکے پیش کرے گا کہ لوگ نافرمانی کریں۔ لوگوں کو سیدھے راستے سے بہکائے گا۔ آدم کی اولاد کو اپنی آواز سے بہلائے گا ‘ اپنے کارندوں سےان کے ایمان پر حملہ کرے گا۔ حلال اور حرام کی تمیز ختم کرکے لوگوں کے مال اور اولاد میں مشارکت کرے گا۔ جھوٹے وعدے کرے گا اور دھوکے دے گا۔
عجیب معاملہ یہ ہے کہ ہم جب قرآن مجید پڑھتے ہیں تو ا س واقعہ کو صرف ایک سرگزشت کی صورت میں پڑھ کر گزر جاتے ہیں۔ اس کے صرف ظاہر کو دیکھتے ہیں کہ ایک واقعہ ہوا اور ختم ہو گیا۔ اگر غور کریں تو اکثریت کے ذہن میں یہی بات ہوتی ہے کہ ہاں یہ ابتدائے آفرینش کا واقعہ تھا‘ جو ختم ہو گیا۔ بہت کم لوگ اس بات کا شعور رکھتے ہیں کہ ابلیس کا وہ چیلنج آج تک جاری ہے ‘اور قیامت تک جاری رہے گا۔ شیطان نے اللہ کی عزّت کی جوقَسم کھائی تھی اس کی آج تک لاج رکھی ہوئی ہے۔ اُس نے یہ عہد پورا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ‘بلکہ وہ آگے سے آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
اس ساری بحث کا حاصل یہ ہے کہ اس واقعے کے حوالے سے ہمیں یاد رہنا چاہیے کہ نیکی اور بدی کا معرکہ پہلے دن سے چل رہا ہے۔ ابلیس نے اللہ ربّ العزت کو جوچیلنج کیا ہے اس کی حقیقت کیا ہے اور وہ اپنے ٹارگٹ کو حاصل کرنے کے لیے کیا کچھ کررہا ہے! یہ معرکہ خیر و شر حضرت آدم ؑسے قیامِ قیامت تک بپا ہے‘ جووقت کے ساتھ تیز سے تیز ترہو رہا ہے اور اپنے انجام کی طرف بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ہمارے ذہنوں میں اور ہماری نگاہوں کے سامنے خیر و شر کی ایک جنگ چل رہی ہے‘جس کا ہمیں ہر روز سامنا ہوتا ہے۔ لازم ہے کہ ہمیں اس کا پورا شعور ہو کہ ہم اُس معرکے کے دو فریقین میں سے کہیں ایک طرف کھڑے ہیں۔ یا تو شیطان کی طرف ہیں یا رحمٰن کی طرف !اسی لحاظ سے قرآنِ مجید میں دو ہی گروہوں کا ذکر آیا ہے: حزب اللہ اور حزب الشیطان۔
اگر ہم تھوڑا سا مزید تجزیہ (analysis) کریں تو ہمیں حزب اللہ اور حزب الشیطان کے اندر دو‘ دو گروہ اور بھی نظر آئیں گے۔ حزب اللہ میں کچھ لوگ تو وہ ہیں جو حقیقی طور پر اس معرکہ خیر وشر کو سمجھتے ہیں اور ابلیسی ایجنڈے سے شعوری طور پر آگاہ رہتے ہیں۔ وہ خیال رکھتے ہیں کہ کہیں اَنجانے میں ان سے وہ اُمور سرزد نہ ہو جائیں جن کی پاداش میںان کا شمارحزب الشیطان میں ہو جائے ۔ یہ لوگ دنیا کی چکا چوند اور ترقی کو خیرو شر‘ جائز و ناجائز اور حلال و حرام کے پیمانے پر پرکھتے ہیں۔ اندھا دھند جدیدیت کی طرف نہیں بھاگے چلے جاتے بلکہ اس کے تمام پہلوؤں کو کتا بُ اللہ اور سُنّت ِ رسول ﷺ کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔
البتہ بہت بڑی اکثریت ایسے غیر شعوری نیکوکاروں کی بھی ہے جو دین پر واجبی سا عمل پیرا ہیں۔ پس خاندانی روایات ہیں‘ خاندانی شرافت ہے‘ کچھ اَخلاقیات پر عمل پیرا ہونا ہے ‘کچھ بُری روایات سے بچنا ہے۔ سب کچھ حقوق العباد ہی ہیں۔ باقی دنیا کے اندر جو ہورہا ہے اس کے بارے میں یہی کہتے ہیں کہ کیا کریں جی‘ پس دنیا کی نئی اَقدار ہیں۔ آخر دنیا کے ساتھ بھی تو چلنا ہے۔ مذہب تو انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔ ستر و حجاب پُرانے دَور کی باتیں تھیں‘ اب تو زمانہ ترقی کر گیا ہے۔ سُود سے بچنا اور صرف حلال کمائی پر اکتفا اب ممکن نہیں‘ وغیرہ وغیرہ۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ نماز پڑھنی چاہیے‘ روزے رکھنے چاہئیں‘ حج اور قربانی بھی کرلو‘ زکوٰۃ بھی مارے باندھے کو دے دی۔ اللہ اللہ خیرسلّا۔ اس بات سے انہیں کوئی سرو کار نہیں کہ ابلیس نے اللہ کے سامنے جودعویٰ کیا تھا وہ اس کی تکمیل میں مسلسل لگا ہوا ہے۔ اس کا ایجنڈا کیا ہے اور اس ایجنڈے کی تکمیل میں کون کون سی طاقتیں شب ور وز ایک کیے ہوئے ہیں! سیاسی سطح پر سیکولرازم‘ معاشی سطح پر سودی نظام اور معاشرتی سطح پر بے حیائی‘ عریانی اور فحاشی کا نظام انسانیت پر مسلط کیا جا رہا ہے۔ دنیا تیزی سے شیطانی ایجنڈے کی تکمیل میں آگے بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس چیز کو وہ کبھی شیطان کا حملہ نہیں سمجھتے یا جسے ہم دجالیت کہتے ہیں ‘ اُس سے نہیں جوڑتے۔ یہ معرکہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ برپا ہے اور المیہ یہ ہے کہ ہماری قوم کی اکثریت کو اس سے شعوری طور پر آگاہی حاصل نہیں ہے۔
اسی طرح حزب الشیطان کا بھی ایک لائٹر ورژن ایسا ہے جس میں لوگ کہتے ہیں بس ٹھیک رہو‘ یہ دین و مذہب کوئی شے نہیں‘ آخرت کی بھی کوئی حقیقت نہیں۔ جیسا نظریہ چاہے اختیار کرلو۔ حلال وحرام بھی کوئی چیز نہیں‘ اصل بات تو پسند نا پسند کی ہے۔ ہفتے میں پانچ دن جانوروں کی طرح کام کرو اور ویک اینڈ عیش و عشرت میں گزارو۔ کچھ اَخلاقیات ہونے چاہئیں‘ آپس کے معاملات کو ٹھیک رکھو‘ حقوقِ انسانی کا خیال رکھو‘ جانوروں کے حقوق کا بھی خیال کر لو۔ مغرب پورا بھرا پڑا ہے اس سے۔ زندگی کے معاملات کا کوئی تعلق اللہ اور اُس کے قانون سے نہیں‘ کوئی تعلق آخرت سے نہیں۔ یہ لوگ غیر شعوری طور پر شیطان کی راہ پر بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ حزب الشیطان کا ہراول دستہ وہ لوگ ہیں جو واقعی شیطان کے نظام اور اس کے ایجنڈے کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کا کام دنیا میں اللہ سے بغاوت پر مبنی نظام کو مسلط کرنا‘ سودی معیشت کے ذریعہ سے پوری دنیا کو اپنے قابو میں کرنااور اسی کے ذریعہ سے دنیا کے تمام وسائل پر قبضہ کرنا‘ عریانی اور فحاشی کے ذریعہ سے انسان کو جانوروں سے بد تر کردینا اور اسے اس سطح تک لے جانا جس کے بارے میں قرآن میں فرمایا گیا: {اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ }(الاعراف:۱۷۹)’’وہ چوپایوں کی مانند ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ہیں۔‘‘ (جاری ہے )
***