(شہر عظیم) رجوع الی القرآن و استقبالِ رمضان - عبدالرزاق کوڈواوی

15 /

رجوع الی القرآن و استقبالِ رمضانعبدالرزاق کوڈواوی

یہ اللہ تعالیٰ کابے پایا ں لطف وکرم ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر ہمیں اس عظیم دولت سے مالا مال کررہا ہے جسے ہم رمضان المبارک کے نام سے جانتے ہیں۔یہ رمضان نزولِ قرآن کامہینہ‘گناہوں کو جلادینے والا مہینہ‘ روزے اورتراویح کا مہینہ ‘ اعتکاف اور شب ِ قدر کا مہینہ ‘ دعاؤں کی قبولیت اور گناہوں کو بخشوانے کا مہینہ‘ صدقہ فطر کی ادائیگی کا مہینہ ‘قربِ خداوندی اورحصولِ معرفت ِ الٰہی کا مہینہ ہے۔یہ وہ مہینہ ہے جس میں مؤمن کا رزق بڑھا دیا جاتاہے اورسرکش شیاطین کو قید کردیا جاتاہے۔اس مہینہ میں ایک نفل کی ادائیگی کا ثواب فر ض کے برابر اور ایک فرض کا ثواب ستر فرائض کی ادائیگی کے برابر کردیا جاتاہے۔یہ لوگوں کے ساتھ غم خواری اور صبر کا مہینہ ہے۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’ رمضان کا مہینہ آگیا ہےجو بڑی برکتوں اور عظمتوں والا مہینہ ہے۔اس میں اللہ تعالیٰ تمہاری طرف متوجہ ہوتے ہیں‘دعاؤں کو قبول اور گناؤں کو معاف فرماتے ہیں۔پس اللہ کو اپنی نیکی دکھلاؤ۔ بد نصیب ہے وہ مسلمان جو اس مہینے میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو جائے۔ ‘‘(صحیح البخاری)
رمضان المبارک کی یہ ساری فضیلت نزولِ قرآن کی بدولت ہے کہ اس مبارک مہینے میں نزولِ قرآن کا آغاز ہوا۔یہ ہدایت اور روشنی کی کتاب ہے‘نسخۂ کیمیا اور کتابِ انقلاب ہے۔ حضرت عثمان بن عفانؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:
((خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَ عَلَّمَهُ))(صحیح البخاری)
’’تم میں سے افضل ترین لوگ وہ ہیں جو قرآن سیکھیں اور اس کو سکھائیں۔‘‘
قرآن حصولِ معرفت ِ الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے‘چنانچہ حدیث مبارکہ میںارشاد ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل درجہ کا مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک علم حاصل نہ کرے‘عالم بلا عمل کے نہیں ہوسکتا‘عمل بغیر زُہد کے نصیب نہیں ہوتا‘ زُہد بنا تقویٰ کے حاصل نہیں ہوتا ‘تقویٰ بغیر انکساری کے حاصل نہیں ہوتا‘ انکساری بغیر نفس کی معرفت کے حاصل نہیںہوتی اور نفس کی معرفت اس وقت تک حاصل نہیں ہوتی جب تک قرآنِ حکیم میں تدبر اور تفکر نہ کیاجائے۔‘‘(خطباتِ نبویؐ )
معلوم ہوا کہ قرآن اصلاح و تربیت ‘ حصولِ علم ‘حصولِ تقویٰ‘حصولِ انکساری اور حصولِ معرفت کا بہترین ذریعہ ہے۔قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنے ‘ غور و فکر کرنے اور اس میں تدبراور تفکر کرنے کو درحقیقت قرب ِخداوندی اور معرفت کے حصول کا ذریعہ قرار دیا گیاہے۔
اسی مقصد کے حصول کے لیے تنظیم اسلامی اور انجمن خدام القرآن کے تحت اس ماہِ مبارک میں نمازِتراویح کے ساتھ دورۂ ترجمہ ٔقرآ ن اور خلاصۂ مضامین ِ قرآن کے پروگرام منعقد ہوتے ہیں تاکہ اس کتاب کو شعوری طور پر سمجھنے کی کوشش کی جائے ۔الحمد للہ اس رمضان میں بھی ملک بھر میںپچاس سے زیادہ مقامات پر یہ پروگرام ہوں گے جن میںشرکت کا خصوصی اہتمام کیا جانا چاہیے ۔
نبی اکرم ﷺ نے ایک موقع پر اپنے خطبہ میں قرآن مجید کا تعارف کرواتے ہوئے فرمایا کہ ’’عنقریب ایک فتنہ سر اٹھائے گا!‘‘حضرت علیؓ نے سوال کیا:یا رسول اللہﷺ! ’’اس فتنہ سے کیا چیز ہمیں نجات دے گی؟‘‘آپ ﷺنے فرمایا:
’’قرآن مجید!جس میں تمہارے اگلوںکے (سبق آموز) واقعات ہیں اور تمہارے بعد کی اس میں اطلاعات ہیں اور تمہار ے درمیان جو مسائل پیدا ہوں گے اس میں ان کا فیصلہ موجود ہے۔یہ قرآن ایک دو ٹوک کتاب ہے‘کوئی دل لگی نہیں… جو اس قرآن کو چھوڑ دے گا اللہ اس کی کمر توڑ دے گا اورجواس کے علاوہ کسی اور شے کومرجع ِہدایت بنائے گا ‘اللہ اس کو گمراہ کرد ے گا۔اللہ عزوجل کا بتایاہوا سیدھا راستہ یہی ہے۔اس قرآن کے ہوتے ہوئے خواہشیں گمراہ نہیں ہوتیں ‘زبانیں لڑکھڑاتی نہیں ‘علماء اس سے کبھی آسودہ نہیں ہوتے ۔اس کے سنتے ہی جِنّات پکار اٹھے کہ ہم نے ایک عجیب و غریب قرآن سناہے تو ہم اس پر ایمان لائے ۔جس نے قرآن کے موافق بات کہی اُس نے سچ کہا‘جس نے اس پر عمل کیاوہ اجر وثواب کا مستحق ہوا‘ اور جس نے اس کی طرف دعوت دی اس کو صراطِ مستقیم کی ہدایت نصیب ہو گئی۔ ‘‘
قرآنِ مجید کےبرکات اور انوارات کی یہ صرف چند ایک مثالیں ہیں اور اسی قرآن پر عمل پیر ا ہوکر ہم دنیا اورآخرت کی تمام سعادتوں کو حاصل کرسکتے ہیں جب کہ اسے چھوڑکر ہم اپنی دنیا اورآخرت دونوں کو برباد کرنے والے ہو ںگے۔
آج ہم جن حالات اورپریشانیوں سے گزررہے ہیں اس کی واحد وجہ قرآن مجید سے دوری ہے ۔یہ مبارک مہینہ ہمیںاس ظلم عظیم سے توبہ کرنے اور قرآن مجیدکی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیتاہے۔ علّامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا ہے:
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر!روزہ
رمضان المبارک کی اہم ترین عبادت روزہ ہے جو ہر عاقل وبالغ مسلمان پر فرض کیا گیا ہے۔ سورۃالبقرۃ کی آیت ۱۸۳میں اس کی فرضیت کا حکم اس طرح دیا گیاہے:
{یٰٓاَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ(۱۸۳)}
’’اے لوگوجو ایمان لائے ہو‘ تم پرروزہ رکھنا فرض کیا گیاہےجس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم میںتقویٰ پیدا ہوسکے۔‘‘
روزہ کی فرضیت کا اصل مقصدحصولِ تقویٰ ہے ۔ تقویٰ پر ہیزگاری کا‘گناہوں سے بچنے کا‘نیکی کو اختیار کرنے کانام ہے۔اسی طرح تقویٰ حب ِخدا کا نام بھی ہے اور خوفِ خدا کا بھی‘بایں طور کہ اللہ تعالیٰ سے محبت عمل پر اُبھارتی ہے اور خوفِ خدا گناہ سے بچاتاہے۔چنانچہ ایسے روزہ کا حکم دیا گیا جو بندے کے اندر تقویٰ پیداکر سکے۔ روزہ محض صبح سے شام تک بھوکا پیاسا رہنے کانام نہیں‘بلکہ یہ انسان کے ایک ایک عضو کا روزہ ہے۔مثلاًدماغ غلط بات اور کام نہ سوچے‘ کان فضول بات‘جھوٹ اور غیبت نہ سنے ‘زبان جھوٹ ‘غیبت ‘ گالی گلوچ اوردل آزاری کرنے سے باز رہے۔اس ضمن میں دواحادیث ملاحظہ ہوں:
(۱) صحیح بخاری کی روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
((مَنْ لَّمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہٖ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَۃٌ فِیْ اَنْ یَّدَعَ طَعَامَہٗ وَ شَرَابَہٗ))(صحیح البخاری)
’’جو شخص روزے کی حالت میں جھوٹ بولنا اور اس پرعمل کرنا نہیں چھوڑتا تو اللہ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘
(۲) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:
((وَإِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ فَلَا يَرْفُثْ وَلَا يَصْخَبْ‘ فَإِنْ سَابَّهٌ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ فَلْيَقُلْ: إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ))(صحیح البخاری)
’’جب تم میںسے کسی کے روزے کا دن ہو تو نہ اپنی زبان سے کوئی بری بات کہے اورنہ شور شرابہ کرے۔ اور اگر کوئی اس سے بدزبانی یا لڑائی کرے تو اسے چاہیے کہ کہے کہ مَیں روزے دار ہوں۔‘‘
پھر روزہ کی ایک بہت اہم شرط یہ ہے کہ روزہ ایمان اور احتساب کی کیفیت کے ساتھ ہو۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اُس سے اجر وثواب کی امید ہو۔ایسے ہی روزے داروں کو گناہوں کی معافی کی بشارت دی گئی ہے۔رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَلَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ)) (متفق علیہ)
’’جس نے روزے رکھے رمضان میں ایمان اور اجر و ثواب کی امید کے ساتھ تو بخش دیے گئے اس کے تمام سابقہ گناہ۔‘‘
اعتکاف اور لیلۃ القدر
رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوںمیںشب ِقدر کو تلاش کیا جائے اور ان راتوں میں نوافل‘ ذکر ِالٰہی اورقرآن پاک کی تلاوت کا اہتمام کیا جائے ۔قرآن مجید میںایک مکمل سورۃ’القدر‘ ہے جس میںشب ِقدر کو ہزار مہینے سے افضل قرار دیا گیا۔اسی شب ِقدر کی برکات کے حصول کے لیے نبی اکرمﷺ اعتکا ف کا اہتمام فرمایاکرتے تھے۔یہ عمل فرض ِ کفایہ کادرجہ رکھتاہے۔اس شب قدر کی برکت کی وجہ بھی قرآن مجید کے نزول کا آغاز ہے۔اعتکاف کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نبی مکرمﷺ نے فرمایا:’’ معتکف شوال کی چاند رات کو اپنے گھر نہیں لوٹتا مگر اس کے سارے گناہ معاف ہوچکے ہوتے ہیں۔‘‘
ذکر ِالٰہی کا اہتمام
رمضان میںکثرت سے ذکر ِالٰہی کا اہتمام کرناچاہیے‘خاص طور پر کلمہ طیبہ‘ درود شریف اور استغفار ۔جنّت کی طلب اور جہنم سے پناہ کی دعائیں کرنی چاہئیں۔ ذکر ِالٰہی کی فضیلت مسلّم ہے‘ اس لیے صرف رمضان میں ہی نہیں‘بلکہ ساری زندگی ذکر کا اہتمام کرنا چاہیے۔ذکر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
((أَلَا أُنَبِّئُکُمْ بِخَيْرِ أَعْمَالِکُمْ وَأَزْکَاھَا عِنْدَ مَلِيْکِکُمْ ، وَأَرْفَعِھَا فِي دَرَجَاتِکُمْ ، وَخَيْرٍ لَکُمْ مِنْ إِنْفَاقِ الذَّھَبِ وَالْوَرِقِ ، وَخَيْرٍ لَکُمْ مِنْ أَنْ تَلْقَوْا عَدُوَّکُمْ ، فَتَضْرِبُوْا أَعْنَاقَھُمْ وَیَضْرِبُوْا أَعْنَاقَکُمْ؟ قَالُوْا : بَلٰی! قَالَ : ذِکْرُ اللهِ تَعَالٰی)) (سنن الترمذی)
’’کیا مَیں تمہیں تمہارے اعمال میں سے سب سے اچھا عمل نہ بتاؤں جو تمہارے مالک کے ہاں بہتر اور پاکیزہ ہے‘ تمہارے درجات میں سب سے بلند ہے‘ تمہارے سونے اور چاندی کی خیرات سے بھی افضل ہے اور تمہارے دشمن کا سامنا کرنے یعنی جہاد سے بھی بہتر ہے درآنحالیکہ تم انہیں قتل کرو اور وہ تمہیں؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا : کیوں نہیں! آپ ﷺ نے فرمایا : وہ عمل اللہ کا ذکر ہے۔‘‘
دعا
دعا عبادت کامغز اورمؤمن کا ہتھیار ہے۔دعا ہی آسمان وزمین کانور اوربلاؤں کے ٹالنے کا سبب ہے اور دعا کی تاثیر یہ بیان کی گئی ہے کہ دعا مانگنے والااپنے دل میں ایک ٹھنڈک محسوس کرے اور اُسے محسوس ہوکہ اس کی دعا کی قبولیت کا اعلان ہواہے‘جسے اس کے کانوں نے نہیں‘دل نے سناہے۔
رمضان المبارک سارےکا ساراخاص طور پر دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے اور اس میں کوئی لمحہ ایسا نہیںہےجودعاؤں کی قبولیت کا نہ ہو‘مثلاًروزہ دار کی دعا قبول کی جاتی ہے‘ افطاراورسحری کے وقت دعا قبول ہوتی ہے ‘فرض نمازوں کے بعد ‘ذکر ِالٰہی اور تلاوت کے بعد دعاقبول کی جاتی ہے۔گویا سارادن روزہ کی وجہ سے اور رات کو قیام اللیل کی بدولت دعا قبول ہوتی ہے۔ 
ہم رمضان المبارک کس طرح گزاریں؟
رمضان المبارک گزارنے کے حوالے سے دس اہم نکات درج ذیل ہیں:
۱۔ رمضان المبارک کی آمد سے پہلے مضبوط اور قوی ارادہ اور عزم کرلیں کہ مجھے اس رمضان سے پورا فائدہ اٹھاناہے ‘ ہو سکتاہےکہ یہ رمضان میری زندگی کا آخری رمضان ہو۔
۲۔ رمضان کی آمد سے پہلے کاروباری معاملات‘گھر کے ضروری کام اور عید کی تیاری وغیرہ کے کام پہلے ہی مکمل کرلیں تاکہ یکسوئی کے ساتھ روزہ اورقیام اللیل کا اہتمام کیا جا سکے۔
۳۔ نمازِ تراویح کے ساتھ ہونے والے دورۂ ترجمہ ٔ قرآن اور خلاصہ ٔمضامین ِقرآن کے پروگراموں میں پابندی سے شرکت کی جائے اور کم از کم ایک مرتبہ قرآن مجید کی ناظرہ تلاوت کی جائے۔اگر ترجمہ کے ساتھ ممکن ہو تو یہ بہت بہتر ہو گا۔
۴۔ دعاؤں اور ذکر ِالٰہی کا خصوصی اہتمام کیا جائے۔
۵۔ روزہ کی حالت میں لغواور فضول باتوںاورکاموں سے اجتناب ‘بالخصوص زبان کی حفاظت کا اہتمام کیا جائے۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’زبان کی بدولت مسلما ن نیکی کی ایک فصل بوتا ہے جسے آخرت میں جنّت کی شکل میں کاٹے گااور زبان ہی کی بدولت گناہ کی ایک فصل بوتاہے جسے آخرت میں جہنّم کی شکل میں کاٹے گا۔‘‘
۶۔ تمام نمازوں کا باجماعت اور کوشش کرکے تکبیر اولیٰ کے ساتھ ادا کرنا۔
۷۔ زکوٰۃکے علاوہ صدقہ وخیرات ‘غریبوں کی امداد اور ان کے ساتھ شفقت کا معاملہ اور ان کی خبر گیری جیسے دوسرے اعمال بجا لانا۔
۸۔ اپنے آپ کو بدنظری سے بچانا۔بدنظری وہ برائی ہے جو انسان کی قلبی وروحانی کیفیت اور حلاوت کو سلب کر لیتی ہے۔
۹۔ افطار اورسحری میں مناسب خوراک کا اہتمام کرنا‘بہت پیٹ بھر کر کھانے سے اور چٹخارے دار کھانوں سے اجتناب کرنا۔
۱۰۔ شب قدر کی تلاش میںخاص طور پر آخری عشرہ کی طاق راتوں میں قیام اللیل اور نوافل کا خصوصی اہتمام کرنااورصدقہ فطر کی ادائیگی کا اہتمام کرنا۔صدقہ فطر ایک طرف ہمارے روزہ کے دوران ہونے والی کوتاہیوں کا کفّارہ ہے تودوسری طرف غریب اور مساکین کو ہمارے ساتھ عید کی خوشیوں میں شرکت کرنے کامعاملہ ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سارارمضان المبارک پوری ایمانی کیفیت‘ایمان و احتساب اورصحت و تندرستی کے ساتھ گزارنے اور اس ماہ میں وہ تمام اعمال اداکرنے کی توفیق عطا فرمائےجو رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کیا کرتے تھے۔ آمین یاربّ العالمین!

***