رمضان المبارک کا جامع پروگرام :
دن کا روزہ ‘ رات کا قیامعاطف محمود
ناظم تعلیمات‘ قرآن اکیڈمی یٰسین آباد‘ کراچی
دین ِاسلام میں عبادات دوقسم پر ہیں: ایک بدنی اور دوسری مالی۔ بدنی عبادت سے مراد وہ عبادت ہے جس میں بدن کا استعمال زیادہ ہوتا ہے جب کہ مالی عبادت میں مال کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ نماز اور روزہ بدنی عبادات ہیں‘ جب کہ زکوٰۃ مالی عبادت ہے۔ حج مالی اور بدنی عبادات دونوں کا جامع ہے۔ ان عبادات میں روزہ خاص اہمیت کی حامل عبادت ہے ۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ آلِہٖ وَسَلَّمَ: ((إِنَّ رَبَّكُمْ يَقُولُ: كُلُّ حَسَنَةٍ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلٰى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ وَالصَّوْمُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ ۔ الصَّوْمُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ)) (سنن الترمذی)
’’حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : بے شک تم لوگوں کا ربّ فرماتا ہے کہ ہر نیکی کا اجر دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ملتا ہے‘ البتہ روزہ خاص میرے لیے ہے اور مَیں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ روزہ جہنم سے بچاؤ کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔‘‘
قرآنِ حکیم میں روزہ فرض کرنے کی حکمت حصولِ تقویٰ بتائی گئی ہے۔ چنانچہ اللہ ربّ العزت کا ارشاد ہے:
{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ(۱۸۳)} (البقرة)
’’اے ایمان والو ! تم پر روزہ رکھنا فرض کردیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو۔‘‘
رمضان المبارک کی بہت سی فضیلتیں ہیں‘ البتہ اس کی ایک اہم فضیلت یہ ہے کہ اس ماہِ مبارک میں قرآنِ حکیم کا نزول ہوا۔ قرآنِ حکیم اللہ ربّ العزت کی سب سے بڑی نعمت ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کے ساتھ جو چیز جڑ جائے گئی‘اسے بھی بے پناہ فضیلت حاصل ہوجائے گی۔ چنانچہ علامہ ابن کثیر ؒ اپنی معرکۃ الآراء تفسیر میں فرماتے ہیں:
فلهذاأنزلَ أشرف الكتب بأشرف اللغات ‘ على أشرف الرسل ‘ بسفارة أشرف الملائكة ‘ وكان ذٰلك في أشرف بقاع الأرض ‘ وابتدأ إنزاله في أشرف شھور السنة وهو رمضان
’’اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے سب سے زیادہ باعزّت کتاب کو سب سے زیادہ باعزّت زبان( یعنی عربی )میں ‘سب سے زیادہ با عزّت رسول(ﷺ) پر‘سب سے زیادہ باعزّت فرشتے کے ذریعے‘ سب سے زیادہ باعزّت سر زمین پر نازل کیا‘ اور سب سے زیادہ باعزّت مہینے میں یعنی رمضان المبارک میں اس کے نزول کا آغاز فرمایا۔‘‘
قرآنِ حکیم میں بھی ماہ رمضان المبارک کی فضیلت کی اہم وجہ نزولِ قرآن کو بتا یا گیا ہے۔ چنانچہ اللہ ربّ العزت ارشاد فرماتے ہیں:
{شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ ۚ} (البقرة:۱۸۵)
’’رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے سراپا ہدایت اور ایسی روشن نشانیوں کا حامل ہے جو صحیح راستہ دکھاتی اور حق و باطل کے درمیان دو ٹوک فیصلہ کردیتی ہیں۔‘‘
اب تک کی گفتگو سے یہ بات سامنے آئی کہ ماہ رمضان المبارک کی دو اہم ترین فضیلتیں روزہ اور قرآنِ حکیم کا نزول ہے۔یہ بھی امر واقعہ ہےکہ قرآنِ حکیم سے ہدایت حاصل کرنے کے لیے تقویٰ ضروری ہے اور تقویٰ کے حصول کا ایک بہت بڑا ذریعہ روزہ ہے۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے رمضان المبارک میں دو اہم ترین عبادات رکھی گئی ہیں یعنی دن کا روزہ اور رات کا قیام ۔ کیونکہ رات کے قیام کا ایک اہم مقصد قرآنِ حکیم کی تلاوت اور سماعت ہے ۔ چنانچہ احادیث مبارکہ میں دن کے روزہ اور رات کے قیام کو ایک ہی انداز میں ذکر کیا گیا ہے‘ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ))(صحیح البخاری)
’’جس نے رمضان میں ایمان اور ثواب کی امید رکھتے ہوئے روزہ رکھا تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے۔‘‘
اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ))(صحیح البخاری)
’’جس نے رمضان میں ایمان اور ثواب کی امید رکھتے ہوئے رات کو قیام کیا تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے۔‘‘
ان احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جس طرح آدمی پورا دن روزہ میں گزارتا ہے اسی طرح پوری رات یا کم از کم رات کا اکثر حصہ قیام یعنی تراویح میں گزارے۔ چنانچہ روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان المبارک میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو تین دن جماعت سے نماز پڑھائی اور راوی کا بیان ہے کہ تیسرے دن اتنی طویل نماز پڑھائی کہ لگتا تھا کہ شاید آج سحری کرنے کا وقت ہی نہ ملے۔اس کے بعد حضور ﷺ نے تو اس اندیشے سے کہ کہیں یہ رات کی نماز اُمّت پر فرض نہ ہو جائے ‘جماعت کے ساتھ نماز پڑھانے کا سلسلہ مزید جاری نہیں رکھا ‘ البتہ صحابہ کرا مؓ اس کو تنہا ادا فرماتے رہے ‘ تاآنکہ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دورِ خلافت میں تراویح کی نماز کو باجماعت شروع کروانے کا اہتمام فرمایا جس پر آج تک متواتر عمل ہوتا چلا آ رہا ہے۔
رمضان المبارک کی ایک بڑی فضیلت قرآنِ حکیم کا نزول ہے اور قرآنِ حکیم سے تعلق کو مضبوط کرنے کے لیے ہمارے دین میں نمازِ تراویح کو رمضان کی ایک اہم عبادت قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ جمہور فقہاء کے نزدیک تراویح سُنّت ِمؤکدہ ہے اور اس کے ادا کرنے کی تفصیل میں یہ بات بیان کی جاتی ہے کہ ہر چار رکعات باجماعت ادا کرنے کے بعد اتنی دیر تک بیٹھنا مسنون ہے کہ جتنی دیر میں چار رکعات ادا کی گئی ہیں ۔ اس وقفہ میں ہر آدمی اپنے انفرادی معمولات میں مشغول رہے جس میں دعا‘ نوافل‘ قرآن حکیم کی تلاوت‘ ذکر واذکار وغیرہ شامل ہیں۔ اہل ِمکہ اس وقفہ میں طواف کیا کرتے تھے جبکہ اہل ِمدینہ مزید چار رکعات پڑھا کرتے تھے ۔اسی لیے امام مالکؒ کے نزدیک تراویح کی ۳۶رکعات ہیں۔
اگر اس معمول کے ساتھ تراویح کی نماز ادا کی جائے تو یقیناً اس میں رات کا اچھا خاصا وقت صَرف ہو گا اور یہی نمازِتراویح کی اصل روح ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی طویل نماز پڑھائی‘اسی طرح صحابہ کرامؓ کا معمول بھی یہی نظر آ تا ہے‘ چنانچہ امام مالکؒ حدیث کی اپنی مشہور کتاب موطا ٔمیں چند صحابہ کرامؓ کا معمول اس طرح بیان فرماتے ہیں:
عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ أَنَّهُ قَالَ:۔۔۔۔۔۔۔۔وَقَدْ كَانَ الْقَارِئُ يَقْرَأُ بِالْمِئِينَ حَتّٰى كُنَّا نَعْتَمِدُ عَلَى الْعِصِيِّ مِنْ طُولِ الْقِيَامِ وَمَا كُنَّا نَنْصَرِفُ إِلَّا فِي فُرُوعِ الْفَجْرِ (موطأ امام مالک)
’’سائب بن یزیدؒ سے روایت ہے‘وہ بیان کرتے ہیں کہ تراویح کی امامت کرنے والا ایک ہی رکعت میں سو سو آیات تلاوت کیا کرتا تھا‘ یہاں تک کہ ہم طویل قیام کی وجہ سےلکڑیوں کا سہارا لیتے تھے اور طلوعِ فجر کے بالکل قریب ہی فارغ ہوتے تھے۔ ‘‘
عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: كُنَّا نَنْصَرِفُ فِي رَمَضَانَ فَنَسْتَعْجِلُ الْخَدَمَ بِالطَّعَامِ مَخَافَةَ الْفَجْرِ (موطا امام مالک)
’’عبداللہ بن ابی بکرؒ سے راویت ہے کہ مَیں نے اپنے والد سے سنا‘ وہ فرماتے تھے کہ ہم رمضان میں تراویح پڑھ کر جب واپس آتے تھے توفجر کے طلوع ہونے کے ڈر سے اپنے خُدّام کو سحری جلد لانے کی تاکید کرتے تھے ۔‘‘
عَنْ دَاوٗدَ بْنِ الْحُصَيْنِ أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ الرَّحْمٰنِ بْنَ هُرْمُزَ الأَعْرَجَ يَقُولُ: کَانَ الْقَارِئُ يَقُومُ بِسُورَةِ الْبَقَرَةِ فِى ثَمَانِ رَكَعَاتٍ‘ وَإِذَا قَامَ بِھَا فِى اثْنَتَىْ عَشْرَةَ رَكْعَةً رَأَى النَّاسُ أَنَّهُ قَدْ خَفَّفَ (موطا امام مالک)
’’حضرت عبدالرحمٰن بن ہرمزؒ فرماتے تھے کہ تراویح میں قاری آٹھ رکعات میں سورۃ البقرہ کی تلاوت کیاکرتا تھا ‘اور اگر قاری اس سورت کو بارہ رکعات میں پڑھتا تو لوگ سمجھتے کہ قاری نے آج ہلکی تراویح پڑھائی ہے۔‘‘
ان روایات سے یہ معلوم ہوا کہ صحابہ کرامؓ کا معمول تراویح میں طویل قیام کا تھا اور اسی کو دیکھتے ہوئے فقہائے کرام ؒ نے اسے سُنّت قرار دیا ہے۔ البتہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ اس میں بتدریج کمی آتی چلی گئی اور اب صورتِ حال یہ ہے کہ مشکل سے ایک گھنٹے میں بیس تراویح پڑھ کر لوگ فارغ ہوجاتے ہیں اور پھررمضان المبارک کے قیمتی اوقات بازاروں اور دیگر خرافات میں ضائع کرتے ہیں۔
رمضان المبارک کا اصل مقصد قرآنِ حکیم سے تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر بنانا ہے جب کہ اُمّت ِمسلمہ اب اس حوالے سے انتہائی کمزوری اور غفلت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔اس کمزوری کو رفع کرنے اوراُمّت ِمسلمہ کا تعلق دوبارہ قرآنِ حکیم سے استوار کرنے کے لیے شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ نے بھی اسی عزم کا اظہار اپنی زندگی کے آخری ایام میں فرمایا تھا‘چنانچہ مالٹا کی قید سے واپس آ کر علماء سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:
’’مَیں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے ۔ ایک ان کا قرآن حکیم کو چھوڑ دینا ‘دوسرے ان کے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی۔اس لیے وہیں سے عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صَرف کروں کہ قرآن حکیم کو لفظا ً و معنا ً عام کیا جائے ‘ بچوں کے لیے لفظی تعلیم کے مکاتب ہر بستی بستی میں قائم کیے جائیں ‘بڑوں کو عوامی درسِ قرآن کی صورت میں اس کے معانی سے روشناس کرایا جائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کیا جائے ‘اور مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے۔‘‘ (اقتباس از’’وحدتِ اُمّت‘‘ مفتی محمد شفیع ؒ)
شیخ الہند ؒ کی زندگی نےزیادہ دیر وفا نہ کی ‘ چنانچہ وہ اس خواہش کو عملی جامہ نہ پہنا سکے‘ البتہ موجودہ دور میں اس کام کو ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے خوش اسلوبی سے انجام دیا۔ چنانچہ عوامی دروسِ قرآن کی مجالس کو ملک بھر میں قائم فرمایا اور رمضان المبارک میں خاص طور پر نمازِ تراویح کے ساتھ قرآن حکیم کی مختصر تشریح بیان کرنے کا سلسلہ بھی جاری فرمایا ۔ شروع میں بعض حضرات نے اس پر اعتراض بھی کیا کہ یہ ایک نئی بدعت شروع ہو گئی ہے‘ لیکن بعد ازاں اس کی افادیت کو دیکھتے ہوئے اب الحمد للہ علماء کے حلقے میں بھی اس کو سراہا جا رہا ہے‘ بلکہ اب بیشتر ائمہ اپنی مساجد میں تراویح کے بعد مختصر خلاصہ مضامین قرآن کا اہتمام فرمارہے ہیں۔
غور کیا جائے تو یہ کوئی بدعت نہیں ہے‘ بلکہ اس کا جواز خود فقہاء کرام کےفتاویٰ سے ملتا ہے۔ تراویح کا اصل مقصد قرآنِ حکیم سے تعلق کو مضبوط بنانا ہے ‘ اس لیے تراویح کو حتی الامکان طول دینا سُنّت ہے۔ اگر دیکھا جائے توآج کے دور میں اس سنت کو زندہ کرنے میں ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا بہت بڑا کردار ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے اس پروگرام کو’’ دورۂ ترجمہ ٔقرآن‘‘ کے نام سے پہچانا جاتا ہے جس میں تراویح میں پڑھے جانے والے قرآن حکیم کے ایک حصے کا پہلے ترجمہ اور مختصر تشریح بیان کی جاتی ہے‘ پھر اتنے ہی حصّہ کی تراویح میں تلاوت کی جاتی ہے ۔ یہ سلسلہ قرآنِ حکیم کے پیغام کوعام کرنے اور اس کے پیغام کو سمجھنے میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔
اللہ ربّ العزت سے دعا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس پروگرام کو ڈاکٹر اسرار احمدؒ اور ان کے متبعین کے لیے صدقہ جاریہ بنائے اوریہ پروگرام اُمّت ِمسلمہ کا قرآن حکیم سے تعلق دوبارہ استوار کرنے میں ممد و معاون بن سکے۔ (آمین!)
***
tanzeemdigitallibrary.com © 2025