(اسلامی معاشرت) عقیقہ : احکام وفضائل - احمد علی محمودی

15 /

عقیقہ : احکام وفضائلاحمد علی محمودیعقیقہ کےمعنی
عقیقہ ‘عقّ سے مشتق ہے‘ جس کے لغوی معنی پھاڑنے کے ہیں اورشرعی اصطلاح میں عقیقہ اس جانور کو کہا جاتا ہےجو نومولود کی پیدائش پر ساتویں دن اس نعمت یا رحمت کے اظہار کے طور پرذبح کیا جائے ۔عقیقہ کادوسرا نام نسیکہ یا ذبیحہ ہے ۔ عقیقہ سے اسلام کے ایک شعار کا اظہار ہوتا ہے ‘ اللہ کی بڑائی اور اس کی حمدوثنا بھی ہوجاتی ہے۔خالص اللہ کی رضا کے لیے عقیقہ کرنے سے اللہ کا تقرب حاصل ہوتا ہے اوربچے کے بہت سے دنیاوی اور دینی امور ربّ العالمین کی توفیق سے سہل ہوجاتے ہیں ۔
عقیقہ سُنّت ِمؤکدہ
عقیقہ کرنا بعض اہل ِعلم کے نزدیک احادیث ِمبارکہ کی روشنی میں سُنّت ِمؤکدہ ہے ۔ نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے:
((مَنْ وُلِدَ لَهُ وَلَدٌ فَأَحَبَّ أن يَنسُكَ عَنْهُ فَلْيَنْسُكْ))(سنن ابی داوٗد)
’’جس کے ہاں بچے کی ولادت ہو اور وہ اس کی طرف سےقربانی (عقیقہ )کرنا چاہتا ہو تو وہ کرے۔‘‘
یہاں اَحَبَّ کا لفظ بتلارہاہے کہ عقیقہ واجب نہیں ہے ۔اس سے بعض اہل ِعلم نے استحباب کا حکم اخذ کیاہے جبکہ دیگر احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے سُنّت مؤکدہ کا حکم راجح معلوم ہوتا ہے ۔
عقیقہ اوردیگر اقوام
یہ بات بھی غور طلب ہے کہ یہود یوں کے یہاں بھی عقیقہ کا رواج تھا مگر صرف لڑکوں کی طرف سے ۔اسلام نے لڑکے کی طرف سے دو جانور اور لڑکی کی طرف سے ایک جانور ذبح کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس سےایک طرف جہاں عورتوں کا مقام ومرتبہ بلند ہوتا ہے تو دوسری طرف عربوں یا دیگر قوموں کے ہاں عورتوں کی نحوست کا عقیدہ بھی خود بخودباطل ہوجاتا ہے۔
بچی کی پیدائش کی خوشی میں عقیقہ کرنا
اسلام اپنے ماننے والوں کونعمت یا رحمت ملنے پر اس کے اظہار کا بعض مواقع پر حکم دیتا ہے ‘ ان میں سے ایک موقع بچہ یا بچی کی پیدائش بھی ہے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے اوراس کی قدر اس سے پوچھیں جو اولاد سے محروم ہے۔اکثر لوگ بچی کی پیدائش پر مرجھا جاتے ہیں۔ایسے مسلمانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں جو بیٹیوں کی پیدائش پر خوشی کے بجائے غم مناتے ہیں یا ماں کے پیٹ میں بچی کا علم ہونے پر اسقاط کروادیتے ہیں ۔ جبکہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بچی کی پیدائش رحمت اور اس کی صحیح تعلیم وتربیت حصولِ جنت کا سبب ہے۔یہی وجہ ہے کہ نہ صرف بچے بلکہ بچی کی پیدائش پر بھی خوشی کا اظہارکرتے ہوئے عقیقہ کرنا چاہیے ۔
عقیقہ کے فوائدو برکات
* زندگی کی ابتدائی سانسوں میں نومولود بچہ / بچی کے نام سے خون بہاکر اللہ تعالیٰ سے اس کا تقرب حاصل کیا جاتا ہے۔
* یہ اسلامی ویکسی نیشن (vaccination)ہے‘ جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے بعض پریشانیوں‘ آفتوں اور بیماریوں سے راحت مل جاتی ہے۔ ہمیں دنیاوی ویکسی نیشن کے ساتھ اس ویکسی نیشن کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔
* بچہ/بچی کی پیدائش پر جو اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ورحمت ہے‘ خوشی کا اظہارہو جاتاہے۔
* بچہ / بچی کا عقیقہ کرنے پر کل قیامت کے دن باپ بچہ / بچی کی شفاعت کا مستحق بن جائے گا‘ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں مذکور ہے۔
* عقیقہ کی دعوت سے رشتے دار‘ دوست واحباب اور دیگر متعلقین کے درمیان تعلق بڑھتا ہے‘ جس سے ان کے درمیان محبت والفت پیدا ہوتی ہے۔
عقیقہ کے متعلق احادیث
(۱) رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’بچہ /بچی کے لیے عقیقہ ہے‘ اس کی جانب سے تم خون بہاؤ اور اس سے گندگی (سر کے بال) کو دور کرو۔‘‘ (صحیح بخاری)
(۲) رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’ہر بچہ / بچی اپنا عقیقہ ہونے تک گروی ہے۔ اس کی جانب سے ساتویں دن جانور ذبح کیا جائے‘ اس دن اس کا نام رکھا جائے اور سرمنڈوایا جائے۔‘‘ (ترمذی‘ ابن ماجہ ‘ نسائی‘ مسند احمد)
نبی اکرم ﷺکےدرج بالا فرامین کی شرح میں علماء کرام نے بیان فرمایا ہے کہ کل قیامت کے دن بچہ / بچی کو باپ کے لیے شفاعت کرنے سے روک دیا جائے گا‘اگر باپ نے استطاعت کے باوجود بچہ / بچی کا عقیقہ نہیں کیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حتی الامکان بچہ / بچی کا عقیقہ کرنا چاہیے۔
(۳) رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’لڑکے کی جانب سے دو بکریاں اور لڑکی کی جانب سے ایک بکری (عقیقہ) ہے۔ ‘‘(ترمذی ‘مسند احمد)
(۴)رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’لڑکے کی جانب سے دو بکرے اور لڑکی کی جانب سے ایک بکرا ہے ۔ عقیقہ کے جانور مذکر ہوں یا مؤنث ‘ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا(یعنی بکرا یا بکری جو چاہیں ذبح کردیں)۔‘‘ (ترمذی ‘مسند احمد)
(۵) رسول اللہ ﷺ نے اپنے نواسوں حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کا عقیقہ ساتویں دن کیا‘ اسی دن ان کانام رکھا اور حکم دیا کہ ان کے سروں کے بال مونڈ دیے جائیں۔(ابو داؤد)
عقیقہ کے بدلے گروی کا مفہوم
حضرت سمرہ بن جندبؓ سے روایت ہےکہ رسول کریمﷺ نے فرمایا:
((اَلْغُلَامُ مُرْتَھَنٌ بِعَقِيْقَتِهٖ یُذْبَحُ عَنْہُ یَوْمَ السَّابِعِ وُيُسَمّٰى وَيُحْلَقُ رَأْسُهُ))(مشکاۃ المصابیح‘ ج۲‘ ص۴۴۴)
’’ ہر بچہ اپنے عقیقہ کے بدلے گروی ہے‘ ( اس کی پیدائش کے ) ساتویں دن اس کے (عقیقہ کے ) لیے ( جانور ) ذبح کیا جائے‘ ( ساتویں ہی دن ) اس کا نام رکھا جائے اور اس کا سر مونڈھا جائے۔ ‘‘
اس حدیث کی شرح میں علامہ نواب قطب الدین خان دہلویؒ ’’مظاہر ِحق‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’ظاہر ہے کہ بچہ چونکہ مکلّف نہیں ہے کہ اگر اس کا عقیقہ نہ کیا جائے تو اس کے ماخوذ و معتوب ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہو گا ‘ اس صورت میں بجا طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر عقیقہ کے عوض بچے کے گروی ہونے کا کیا مطلب ہے ؟ چنانچہ حضرت امام احمدؒ نے تو اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جس بچے کا عقیقہ نہیں ہوتا اور وہ کم سنی میں مر جاتا ہے تو اس کو اپنے والدین کی شفاعت کرنے سے روک دیا جاتا ہے کہ جب تک والدین اس کا عقیقہ نہ کر دیں ‘وہ اس کے حق میں شفاعت کرنے کا اہل نہیں ہو گا۔ بعض حضرات نے یہ معنی بیان کیے ہیں کہ جب تک والدین بچہ کا عقیقہ نہیں کرتے اس کو بھلائیوں‘ سلامتی آفات اور بہتر نشوو نما سے باز رکھا جاتا ہے‘ اور پھر اس کے جو برے نتائج پیدا ہوتے ہیں ‘وہ حقیقت میں والدین کے مواخذہ کا سبب بنتے ہیں کہ ترکِ عقیقہ انہوں نے ہی کیا ہے۔اور بعض یہ کہتے ہیں کہ گروی ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ بچہ اپنے بالوں وغیرہ کی گندگی و اذیت میں مبتلا رہتا ہے ۔ جیسا کہ ایک حدیث میں آیا ہے: ((فأمیطوا عنه الأذی))’’ بچے سے اذیت کو ہٹاؤ ‘‘ (یعنی اس کے بال میل کچیل اور خون وغیرہ صاف کرو) لہٰذا جب بچہ کا عقیقہ ہوتا ہے تو وہ گویا سر کے بال وغیرہ صاف ہو جانے سے اس اذیت سے نجات پا جاتا ہے۔‘‘
عقیقہ‘ بچے کی طرف سے خون بہانا
حضرت سلمان بن عامر الضبیؓ کا بیان ہے کہ مَیں نے رسول اﷲ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
((مَعَ الْغُلَامِ عَقِيقَةٌ فَأَهْرِيقُوا عَنْهُ دَمًا وَأَمِيطُوا عَنْهُ الْأَذٰی))(صحیح البخاری۔ سنن الترمذی)
’’ لڑکے کے ساتھ عقیقہ ہے‘ لہٰذا اس کی طرف سے خون بہاؤ اور اس سے تکلیف کو دورکرو۔‘‘
مذکورہ ودیگر احادیث کی روشنی میں علمائے کرام فرماتے ہیں کہ بچے کی پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کرنا‘ بال منڈوانا‘ نام رکھنا اورختنہ کرانا سُنّت ہے‘ لہٰذا باپ کی ذمہ داری ہے کہ اگر وہ اپنے نومولود بچہ /بچی کا عقیقہ کرسکتا ہے تو اسے چاہیےکہ وہ نبی اکرمﷺ کی اس سُنّت کو ضرور زندہ کرے تاکہ عند اللہ اجرعظیم کا مستحق بنے‘نومولود بچہ /بچی کو اللہ کے حکم سے بعض آفتوں اور بیماریوں سے راحت مل سکے‘ نیز کل قیامت کے دن بچہ / بچی کی شفاعت کا مستحق بن سکے۔
کیا ساتویں دن عقیقہ کرنا شرط ہے؟
عقیقہ کرنے کے لیے ساتویں دن کا اختیار کرنا مستحب ہے۔ ساتویں دن کو اختیار کرنے کی اہم وجہ یہ ہے کہ زمانہ کے ساتوں دن بچہ / بچی پر گزر جاتے ہیں‘ لیکن ساتویں دن ممکن نہ ہو تو ساتویں دن کی رعایت کرتے ہوئے چودھویں یا اکیسویں دن کرنا چاہیے‘ جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کا فرمان احادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ اگر کوئی شخص ساتویں دن کے بجائے چوتھے یا آٹھویں یا دسویں دن یا اس کے بعد کبھی بھی عقیقہ کرے تو یقیناً عقیقہ کی سُنّت ادا ہوجائے گی‘ اس کے فوائد ان شاء اللہ حاصل ہوجائیں گے‘ اگرچہ عقیقہ کا مستحب وقت چھوٹ گیاہو۔
بچہ / بچی کے عقیقہ میں فرق کیوں رکھا گیا ؟
اسلام نے عورتوں کومعاشرہ میں ایک ایسا اہم اور باوقار مقام دیا ہے جو کسی بھی سماوی یا خود ساختہ مذہب میں نہیں ملتا‘ لیکن پھر بھی قرآن کی آیات :{وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ ط} ( البقرۃ:۲۲۸)‘{اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ} (النساء:۳۴)اوراحادیث شریفہ کی روشنی میں یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کے نظام کو چلانے کے لیے مَردوں کو عورتوں پر کسی درجہ میں فوقیت دی ہے‘جیسا کہ دنیا کے وجود سے لے کر آج تک ہر قوم میں اور ہر جگہ دیکھنے کو ملتا ہے۔شریعت اسلامیہ نے بچہ کے عقیقہ کے لیے دو اور بچی کے عقیقہ کے لیے ایک خون بہانے کا جو حکم دیا ہے ‘ اس کی حقیقت خالق کائنات ہی بہتر جانتا ہے۔
کیاعقیقہ میں بکرا / بکری کے علاوہ دیگر جانور کو ذبح کیا جاسکتا ہے؟
اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے مگر تحقیقی بات یہ ہے کہ حدیث (۱ اور ۲) کی روشنی میں بکرا/ بکری کے علاوہ اونٹ یا گائے کو بھی عقیقہ میں ذبح کرسکتے ہیں‘ کیونکہ اس حدیث میں عقیقہ میں خون بہانے کے لیے نبی اکرمﷺ نے بکرا/ بکری کی کوئی شرط نہیں رکھی۔ نیز عقیقہ کے جانور کی عمر وغیرہ کے لیے تمام علماء نے عیدالاضحی کی قربانی کے جانور کی شرائط تسلیم کی ہیں۔
کیا اونٹ یا گائے وغیرہ کے حصّہ میں عقیقہ کیا جاسکتا ہے؟
اگر کوئی شخص اپنےدو لڑکوں اور دولڑکیوں کا عقیقہ ایک گائے کی قربانی میں کرنا چاہے‘ یعنی قربانی کی طرح حصوں میں عقیقہ کرنا چاہے ‘ تو اس کے جواز سے متعلق علماء کا اختلاف ہے۔ علمائے کرام نے قربانی پر قیاس کرکے اس کی اجازت دی ہے‘ البتہ احتیاط اسی میں ہے کہ ہر بچہ / بچی کی طرف سے کم از کم ایک خون بہایا جائے۔
کیا بالغ مرد وعورت کا بھی عقیقہ کیا جا سکتا ہے؟
جس شخص کا عقیقہ بچپن میں نہیں کیا گیا‘ لیکن اسے بڑی عمر میں اس کا شعور ہورہا ہے تو وہ یقیناً اپنا عقیقہ کرسکتا ہے‘ کیونکہ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے نبوت ملنے کے بعد اپنا عقیقہ کیا۔ (اخرجہ ابن حزم فی ’’المحلّی‘‘ والطحاوی فی’’المشکل‘‘) نیز احادیث میں کسی بھی جگہ عقیقہ کرنے کے آخری وقت کا ذکر نہیں کیا گیا ۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ بڑی بچی کے سرکے بال منڈوانا جائز نہیں ۔ ایسی صورت میں بال نہ کٹوائیں‘ کیونکہ اس کے بغیر بھی عقیقہ کی سُنّت ادا ہوجائے گی۔
دیگر مسائل
قربانی کے جانور کی طرح عقیقہ کے جانور کی کھال یا تو غرباء ومساکین کو دے دیں یا اپنے گھریلو استعمال میں لے آئیں۔ کھال یا کھال کو فروخت کرکے اس کی قیمت قصائی کو بطور اجرت دینا جائز نہیں ۔ قربانی کے گوشت کی طرح عقیقہ کے گوشت کو خود بھی کھاسکتے ہیں اور رشتہ داروں کو بھی کھلاسکتے ہیں۔ اگر قربانی کی طرح عقیقے کے گوشت کے تین حصے کرلیے جائیں تو بہتر ہے: ایک اپنے لیے ‘ ایک رشتے داروں کے لیے اور تیسرا حصہ غریبوں کے لیے‘ لیکن یہ تین حصے کرنا کوئی ضروری نہیں ۔ عقیقہ کے گوشت کو پکاکر رشتے داروں کو بلاکر بھی کھلاسکتے ہیں اور کچا گوشت بھی تقسیم کرسکتے ہیں۔
حاصل ِکلام
بچہ ہو یا بچی ہرکسی کی پیدائش پر عقیقہ کا اہتمام کرنا چاہیے۔نبی ﷺ نے اپنے پیارے نواسوں حضرت حسنؓ وحسینؓ کی جانب سے عقیقہ کیااور آپ ﷺکے بعد صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ وتبع تابعینؒ اس سُنّت کو زندہ کیےرہے ۔ لہٰذاہمیں بھی اس سُنّت کاپاس ولحاظ کرنا چاہیے ۔ ہاں ایک بات کا خیال رکھیں کہ اگر ساتویں دن عقیقہ کی طاقت نہیں تو نہ کریں ‘ کسی سے قرض لینے کی بھی ضرورت نہیں ‘مگر جب اللہ تعالیٰ آسانیاں فراہم کرے تب اپنے بچہ کی جانب سے عقیقہ کرنے میں سستی یا غفلت نہ کریں ۔

***