(انوار ھدایت) صلہ رحمی کی اہمیت - پروفیسر محمد یونس جنجوعہ

15 /

صلہ رحمی کی اہمیتپروفیسر محمد یونس جنجوعہ

حسنِ سلوک اسلامی اخلاق کا ایک اہم عنوان ہے۔ مسلمان وہ ہے جو ہر کسی کے ساتھ اچھا برتائو کرتا ہے اور دوسروں کو تکلیف نہیں دیتا۔ انسان کے حسن سلوک کے سب سے زیادہ مستحق اس کے اقارب یعنی قریبی رشتہ دار ہیں۔ قریبی رشتہ داروں کے ساتھ اچھے تعلقات ہوں تو یہ خوشیوں میں شریک ہو کر اس کی رونق کو دوبالا کر دیتے ہیں جبکہ مصیبتوں اور بیماریوں میں خیر خواہی کا باعث بنتے ہیں ۔یوں بُرے حالات میں انسان اپنے آپ کو بےیارومددگار اور بے سہارا نہیں پاتا۔ حسن سلوک کے باعث آپس میں اتفاق و اتحاد اور پیار محبّت بڑھتا ہے۔ رسول اللہﷺ کی زندگی اس پر شاہد ہے آپؐ کا سلوک اپنے اقارب کے ساتھ مثالی تھا۔ آپﷺ کافرمان مبارک ہے :’’مجھے معلم اخلاق بنا کر بھیجا گیا ہے۔ ‘‘
اقارب میں اوّلین ماں باپ ہیں اوراس کے بعد بہن بھائی اور والدین کی وساطت سے دوسرے رشتہ داریعنی چچا‘ خالہ‘ ماموں‘ پھوپھی اور ان کی اولاد وغیرہ ہیں۔والدین کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا ط} (العنکبوت:۸)
’’ہم نے انسان کو ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ۔‘‘
اسی طرح سورئہ بنی اسرائیل کی آیت ۲۴ میں توحید کے بعد ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے:
{وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاط}
’’تمہارے رب نے حکم دیا ہے کہ بجز اس کے اور کسی کی عبادت مت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔‘‘
والدین کے بعد قریب ترین رشتے وہ ہیں جو ماں باپ کی نسبت سے وجود میں آتے ہیں۔ ان کے بارے میں حکم ِربانی ہے : {وَاتَّقُوا اللہَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ ط} (النساء:۱)’’اُس اللہ سے ڈرو جس کے نام سے ایک دوسرے سے سوال کرتے ہواور رشتے ناتے توڑنے سے بھی بچو!‘‘جس طرح قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم ہے اسی طرح ان کے ساتھ بدسلوکی پر شدید وعید ہے۔فرمانِ الٰہی ہے:
{الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَہْدَ اللّٰہِ مِنْم بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ ص وَیَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَیُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ ط اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ(۲۷)} (البقرۃ)
’’جو توڑ دیتے ہیں اللہ کے (ساتھ کیے ہوئے) عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد‘اور کاٹتے ہیں اُس چیز کو جسے اللہ نے جوڑنے کا حکم دیاہےاور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔‘‘
اس سلسلہ میں رسول اللہﷺ کے کئی تاکیدی حکم ہیں کہ رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگرچہ تمہارے ساتھ ان کا برتائو اچھا نہ ہو ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’احسان کا بدلہ احسان سے ادا کرنے والا صلہ رحمی کرنے والا نہیں‘ بلکہ صلہ رحمی کرنے والا تو وہ ہے کہ جب اس سےرشتہ قطع کیا جائے تو وہ اس کو جوڑے۔‘‘ (صحیح البخاری عن عبداللہ بن عمروؓ)
رسول اللہﷺ نے جہاں شرک سے دور رہنے‘ نماز پنج گانہ ادا کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے والے کو جنّت کی بشارت دی وہاں صلہ رحمی کو بھی بخشش کا باعث فرمایا ہے۔حضرت خالد بن زید انصاریؓبیان کرتے ہیں :
اَنَّ رَجُلًا قَالَ: یَارَسُوْلَ اللہِ اَخْبِرْنِیْ بِعَمَلٍ یُدْخِلُنِی الْجَنَّۃَ وَیُبَاعِدُنِیْ مِنَ النَّارِ۔ فَقَالَ النَّبِیُّﷺ : ((تَعْبُدُ اللہَ وَلَا تُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا وَتُقِیْمُ الصَّلَاۃَ وَتُؤْتِی الزَّکَاۃَ وَتَصِلُ الرَّحِمَ)) (متفق علیہ)
’’ایک آدمی نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ! مجھے ایسا عمل بتا دیجیے جو مجھے جنت میں لے جائے اور جہنم سے دور کر دے۔ اس پر نبیﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور صلہ رحمی کرو۔‘‘
اسلام قبول کرنے سے پہلےابوسفیان نے ہرقل کے دربار میں رسول اللہﷺ کا تعارف اس طرح کرایا کہ وہ ایک اللہ کی عبادت کرنے‘ شرک نہ کرنے اور باپ دادا کی پیروی نہ کرنے کا کہتے ہیں۔ نیز نمازپڑھنے‘ سچائی اور پاک دامنی اختیار کرنے اور صلہ رحمی کا حکم فرماتے ہیں۔ (ماخوذ من الصحیحین عن ابی سفیان صخر بن حرب) قریبی رشتوں کا تعلق رِحم سے ہوتا ہے جو ماں کے پیٹ میں ایک عضو ہے جس میں بچہ پرورش پاتا ہے جبکہ رَحَم کا معنی مہربانی اور ہمدردی ہے۔رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:’’رِحم (رشتہ) عرشِ الٰہی میں معلق ہے اور کہتا رہتا ہے کہ جو شخص مجھ کو ملائے گا اس کو اللہ تعالیٰ ملائے گا اور جو مجھے قطع کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو قطع کرے گا ۔‘‘(متفق علیہ عن عائشۃ الصّدیقہؓ) یہ چیز پسندیدہ ہے کہ جو شخص صدقہ یا خیرات کرے‘ وہ پہلے اپنے رشتہ داروں کی ضرورت دیکھے کیونکہ اس طرح اس کا ثواب کئی گنا ہوجائے گا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’رشتہ دار کے لیے دوباتیں ہیں یعنی دگنا ثواب ہے: ایک صدقہ کا‘ دوسرا صلہ رحمی کا‘‘۔ (رواہ الترمذی‘ عن سلمان بن عامرؓ)
اُمّ المومنین حضرت میمونہؓ نے رسول اللہﷺ کو بتایا کہ میں نے اپنی باندی آزاد کردی ہے ۔ آپؐ نے فرمایا:’’اگر تم اپنی یہ باندی اپنے ماموں کو دے دیتیں تو یہ تمہارے لیے زیادہ ثواب کا باعث ہوتا۔‘‘(متفق علیہ)
عقل سلیم کا تقاضا بھی یہی ہے کہ صدقہ و خیرات کرتے وقت اپنے اقارب میں سے مستحقین کو اوّلیت دی جائے‘ اگرچہ وہ کافر اور مشرک ہی کیوں نہ ہوں۔ حضرت اسماء بنت ِ ابوبکرؓکہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں میری والدہ مجھ سے کچھ طلب کرنے کے لیے مکہ سے مدینہ آئیں۔ وہ مشرکہ تھیں۔ مَیں نے اس بارے میں رسول اللہﷺ سے دریافت کیا کہ وہ مجھ سے کچھ طلب کرنے کی خواہش مند ہیں ۔کیا مَیں اپنی ماں کے ساتھ حسنِ سلوک کروں؟آپؐنے فرمایا:’’ہاں اپنی ماں کےساتھ حسنِ سلوک کرو۔‘‘ (متفق علیہ)
نبی اکرمﷺ سے دریافت کیا گیا :اللہ تعالیٰ نے کیا چیز دے کر آپؐ کو مبعوث فرمایا ہے؟
آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’صلہ رحمی کرنے اور بتوں کو توڑنے کا حکم دے کر۔‘‘(صحیح البخاری عن عمرو بن عبسہؓ)
صحیح بخاری اورصحیح مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ قَاطِعٌ)) (عن ابی محمد جبیر بن مطعمؓ)
اس حدیث میں آپﷺ نے قاطع رحم کے بارے میں فرمایاکہ وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ اس حدیث کو پڑھ کر تو ہر مسلمان کو عہد کر لینا چاہیے کہ چاہے اس کے رشتہ دار اس کے ساتھ کیسا ہی سلوک کریں ‘وہ ان کے ساتھ تعلقات ہرگز قطع نہ کرے گا۔
حضرت ابوبکرصدیقؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نےفرمایا:’’ سرکشی کرنا اور قطع رحمی کرنا (ایسے گناہ ہیں کہ) کوئی گناہ ان سے زیادہ اس بات کا مستحق نہیں کہ اس کا ارتکاب کرنے والے کو خدا تعالیٰ جلدی سے دنیا میں بھی سزا دے دے ‘علاوہ اس سزا کے جو اس نے اس کے لیے آخرت میں رکھی ہے ۔‘‘ (سنن ابی دائود)
اگر غور کیا جائے تو رشتہ داری کا مطلب ہی یہ ہے کہ اقربا ءآپس کے تعلقات مضبوط رکھیں‘ ایک دوسرے کی خوشی میں شامل ہوں۔ اگر کسی کو صدمہ پہنچے تو اس کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کریں۔ اگر کوئی ضرورت مند ‘غریب‘ مسکین ہو تو اس کی مدد کریں۔اگر کوئی رشتہ داروں کی قدر نہ کرے گا تو وہ تنہا رہ جائے گا ۔یہ سزا اسے دنیا ہی میں مل جائے گی۔ بعض اوقات رشتہ داروں کی آپس کی ناراضگیاں بڑھتے بڑھتے دشمنی میں بدل جاتی ہیں جس کا نقصان کسی سے چھپا ہوا نہیں۔ اس لیے اپنے رشتہ داروں کی غلطیوں اور خطائوں سے درگزر کا رویہ اپنانا چاہیے۔ مختصراً یوں سمجھیے کہ صلہ رحمی سے دنیا کی زندگی میں بھی سہولت پیدا ہوتی ہے جبکہ آخرت میں یہ ثواب کا باعث بنتی ہے۔ چنانچہ کسی کی طرف سے اگر بدسلوکی کا مظاہرہ ہو تو بھی جواباً اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔یہی مردانگی ہے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اس کا رزق کشادہ ہو اور اس کی عمر میں برکت ہو تو وہ صلہ رحمی کرے۔‘‘ (بخاری عن انس بن مالک)
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’نسب کی اتنی تعلیم حاصل کر لو جس سے اپنے رشتہ داروں کو جان سکو‘ کیونکہ صلہ رحمی سے اپنے لوگوں میں محبّت پیدا ہوتی ہے‘مال بڑھتا ہے‘ اور موت پیچھے ہٹتی ہے۔ ‘‘ (ترمذی)

***