تفسیر اور تاویل اور ان کا باہمی فرقبسلسلہ علم تفسیر اورمفسرین کرام(۱۱)پروفیسر حافظ قاسم رضوانتفسیر کا لغوی مفہوم
تفسیر کے لغوی معنیٰ واضح کرنے اور کھول کر بیان کرنے کے ہیں۔ سورۃ الفرقان میں ارشاد ہوتا ہے:
{وَلَا یَاْتُوْنَکَ بِمَثَلٍ اِلَّا جِئْنٰکَ بِالْحَقِّ وَ اَحْسَنَ تَفْسِیْرًا(۳۳)}
’’وہ جو مثال بھی آپ کے پاس لائیں گے‘ ہم اس کے بدلے آپ کے پاس حق اور اس کی بہترین وضاحت لائیں گے۔‘‘
اس آیت میں تفسیر سے مراد بیان اورتفصیل ہے۔ لفظ تفسیر کا مادہ’’فسر‘‘ ہے اور اس کے معنی ظاہر کرنا‘ کھول دینا اور بے حجاب کرنا کے ہیں۔ فسرٌ مصدر ہے جو فعل ضَرَبَ اور نَصَرَدونوں کے وزن پر آتا ہے(القاموس)۔ صاحب ِلسان العرب کا کہنا ہے کہ فسر کے معنی ہیں اظہار و بیان‘ تفسیر کا مفہوم بھی یہی ہے۔مزید کہتے ہیں کہ فسر بے حجاب کرنے کو کہتے ہیں‘ تفسیر کرتے وقت بھی مشکل الفاظ کے معنی و مفہوم کو گویا بے حجاب کر دیا جاتا ہے۔ مشہور مفسر اور نحوی ابوحیان لکھتے ہیں کہ سواری کا پالان اُتار کر اس کی پیٹھ ننگی کرنے کو بھی تفسیر کہتے ہیں۔ ثعلب نحوی کا بھی یہی قول ہے‘ ظاہر ہے کہ ننگا کرنے میں کشف و اظہار کا مفہوم پایا جاتا ہے‘ اس لیے کہ زین اتارنے سے پیٹھ کھل کر سامنے آجاتی ہے(البحرالمحیط)۔ تفسیر کے معنی کشف واظہار کے بھی ہیں‘ چونکہ اس علم میں قرآن پاک کے مطالب و معانی کی توضیح کی جاتی ہے‘ اس لیے یہ علم اس نام سے موسوم ہوا۔ اگرچہ دوسرے علوم میں بھی کشف و بیان پایا جاتا ہے مگر یہ نام اسی علم کے ساتھ مخصوص ہے‘ اس لیے کہ یہ علم جلیل القدر اور زیادہ استعداد کا محتاج ہے۔ اس میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ارشادِ خداوندی سے مراد کیا ہے۔ گویا کشف و اظہار کا حامل صرف یہی علم ہے‘ کوئی دوسرا نہیں(مناہل العرفان)۔مذکورہ دلائل سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ لفظ تفسیر بلحاظ لغت محسوسات اور معقولات دونوں کے اظہار کے لیے استعمال ہوتا ہے‘ البتہ عقلی اور غیر مادی اشیاء کے لیے یہ لفظ مقابلتاً زیادہ مستعمل ہے۔
تفسیر کا اصطلاحی مفہوم
بعض علماء تفسیر کا شمار ان علوم میں نہیں کرتے جن کے لیے کسی جامع و مانع تعریف کی ضرورت ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علم تفسیر دیگر علوم کی طرح کچھ لگے بندھے قواعد اور خاص ملکہ کانام نہیں جو کسی علم کے بکثرت تکرار و اعادہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے عقلی علوم اور علم تفسیر کے مابین کوئی خاص مماثلت نہیں پائی جاتی‘ چنانچہ ان کے نزدیک علم تفسیر کی تعریف کی کوئی ضرورت نہیں ‘ صرف یہ کہنا کافی ہے کہ علم تفسیر کلام اللہ کی تشریح و توضیح کا نام ہے‘ یا یہ کہ تفسیر ایک ایسا علم ہے جو قرآن مجید کے الفاظ و معانی واضح کرتا اور کھولتا ہے۔
بخلاف ازیں علماء کی ایک دوسری جماعت اس بات کی قائل ہے کہ تفسیر کا تعلق ان مسائل جزئیہ یا قواعد ِکلیہ یا اس ملکہ ٔ راسخہ کے ساتھ ہے جو قواعد کے تحفظ و نگہداشت سے پیدا ہوتا ہے۔ اس بنا پرا س علم کے لیے تعریف کی بھی ضرورت ہے‘ نیز فہم قرآن کے ضمن میں دیگر علوم مثلاً لغت و قراءت اور صرف ونحووغیرہ بھی مطلوب ہیں۔ جن علماء نے علم تفسیر کی جامع ومانع تعریف بیان کی ہے‘ وہ مختلف الآراء ہیں اور کسی ایک تعریف پر متفق نہیں ہو سکے‘ تاہم اختلاف و تنوع کے باوصف یہ تعریفات ِکثیرہ لفظاً مختلف لیکن معنی ومفہوم کے اعتبار سے متحد ہیں۔
(ا ) ابوحیان نے البحر المحیط میں تفسیر کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے کہ تفسیر ایک ایسا علم ہے جس میں الفاظِ قرآن کے تلفظ‘ ان کے مفہوم و مدلول‘ان کے احکامِ افرادی و ترکیبی اور ان معانی سے بحث کی جاتی ہےجن کے حالت ترکیب میں وہ حامل ہوتے ہیں اور ان کے تتمات کا بیان کیا جاتا ہے۔ اب اس تعریف میں جو قیود ہیں‘ ان کے فوائد بتاتے ہوئے ابوحیان کا کہنا ہے کہ اس تعریف میں ’علم‘ کا لفظ جنس کی حیثیت رکھتا ہے جس میں سب علوم شامل ہیں۔ جیسے علم القراءت سے قرآنی الفاظ کے نطق و تلفظ کا پتہ چلتا ہے‘ الفاظ کے معانی و مفہوم علم لغت سے معلوم ہوتے ہیں جن کی تفسیر میں اشد ضرورت پڑتی ہے‘ الفاظ کے احکامِ افرادی و ترکیبی کا حال علومِ صرف ونحو اور بیان و بدیع بتاتے ہیں۔ باقی رہی یہ قیدکہ حالت ترکیب میںالفاظ جن معانی کے حامل ہوتےہیں تو اس سے حقیقی و مجازی معانی مراد ہیں‘ اس لیے کہ بعض الفاظ کی ترکیب ایک خاص معنی کی متقاضی ہوتی ہے مگر ظاہراً ایک ایسا مانع موجود ہوتا ہے جو حقیقی معنی کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے‘ تو اس لیے مجازی مفہوم مراد لیا جاتا ہے۔ تتمہ و ضمیمہ کے لفظ سے ناسخ و منسوخ اور سبب نزول کی پہچان نیز ایسا واقعہ مراد ہے جو مبہمات ِقرآن کی وضاحت کرتا ہو۔
( ب) تفسیر کی تعریف امام زرکشی نے یوں کی ہے کہ تفسیر ایک ایسا علم ہے جس کی مدد سے نبی اکرمﷺ پر نازل شدہ اللہ کی کتاب ’’قرآن‘‘ کے معانی سمجھے جاتے ہیں اور اس کے احکام و مسائل اور اسرار و حکم (کا استنباط کر کے ان) سے بحث کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں علم لغت‘ نحو‘ صَرف‘ علم بیان‘ قراءت اور اصولِ فقہ سے مدد لی جاتی ہے‘ اسبابِ نزول اور ناسخ ومنسوخ کی معرفت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ (البرہان)
( ج) تفسیر کی ایک تعریف اس طرح سے بیان ہوئی ہے کہ تفسیر ایک ایسا علم ہے جس میں بشری استطاعت کی حد تک اس امر سے بحث کی جاتی ہے کہ الفاظِ قرآنی سے اللہ تعالیٰ کی کیا مراد ہے۔ (منہج الفرقان)
(د) تفسیر کی ایک اور تعریف کچھ اس طرح سے سامنے آتی ہے کہ تفسیر ایک ایسا علم ہے جس میں قرآنی آیات کے نزول‘ ان کے واقعاتِ متعلقہ و اسباب نزول نیز مکی ومدنی‘ محکم و متشابہہ‘ ناسخ و منسوخ ‘ خاص وعام‘ مطلق و مقید‘مجمل ومفسر‘ حلال و حرام‘ وعدووعید‘ امر ونہی اور عبرت و امثال وغیرہ سے بحث کی جاتی ہے۔ (الاتقان)
(ھ) تفسیر کی ایک تعریف یوں بھی ہے کہ تفسیر کا تعلق پیروی اور سماع سے ہے اور تاویل کا تعلق استنباط سے۔
مذکورہ تعریفات میں یہ بات قدر مشترک کے طور پر پائی جاتی ہے کہ تفسیر ایک ایسا علم ہے جس میں انسانی استطاعت کی حد تک مرادِ الٰہی کو واضح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے‘ بنابریں تفسیر ہر اس علم کو بھی سموئے ہوئے ہے جس پر قرآن مجید کی مراد اور مقصود کا سمجھنا موقوف ہو۔
مفتی محمد تقی عثمانی کے بقول لفظ تفسیر دراصل فَسْرٌ سے نکلا ہے ‘ جس کے معنی ہیں کھولنا‘ اور اس علم میں چونکہ قرآن کریم کے مفہوم کو کھول کر بیان کیا جاتا ہے‘ اس لیے اسے علم تفسیر کہتے ہیں‘ چنانچہ قدیم زمانے میں تفسیر کا اطلاق قرآن مجید کی تشریح پر ہی ہوتا تھا۔ عہد رسالت کے قرب اور علوم کے اختصار کی بنا پر اس علم میں زیادہ شاخیں نہیں تھیں‘ لیکن جب علم تفسیر نےایک مدوّن علم کی صورت اختیار کی اور مختلف پہلوئوں سے اس میں پھیلائو آیااور اس کی فکری خدمت ہوتی گئی تو یہ ایک انتہائی وسیع اور پہلو دار علم بن گیا۔ اب ’علم تفسیر‘ جن تفصیلات کو شامل ہےاس کی اصطلاحی تعریف یوں ہے کہ
’’ علم تفسیر وہ علم ہے جس میں الفاظِ قرآنی کی ادائیگی کے طریقے‘ ان کے مفہوم‘ ان کے افرادی اور ترکیبی احکام اور ان معانی سے بحث کی جاتی ہے جو ان الفاظ سے ترکیبی حالت میں مراد لیے جاتے ہیں۔ نیز ان معانی کا تکملہ‘ ناسخ و منسوخ ‘ شانِ نزول اور مبہم قصوں کی توضیح کی شکل میں بیان کیا جاتا ہے۔‘‘ (روح المعانی)
اس تعریف کی روشنی میں علم تفسیر درج ذیل اجزاء پر مشتمل ہے:
(۱) الفاظ ِ قرآن کی ادائیگی کے طریقے‘ یعنی الفاظِ قرآن کو کس کس طریقے سے پڑھا جا سکتا ہے۔ اسی کی وضاحت کے لیے قدیم عربی مفسرین اپنی تفسیروں میں ہر آیت کے ساتھ اس کی مختلف قراء تیں تفصیل سے بتاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مقصد کے لیے ایک مستقل علم’قراءت‘ کے نام سے بھی موجود ہے۔
(۲) الفاظِ قرآنی کے مفہوم یعنی ان کے لغوی معنی‘ اس کام کے لیے علم لغت سے پوری طرح باخبر ہونا ضروری ہے‘ اور اسی بنا پر کتب تفاسیر میں علمائے لغت کے حوالے اور عربی ادب کے شواہد بکثرت ملتے ہیں۔
(۳) الفاظ کے انفرادی احکام‘ یعنی ہر لفظ کےبارے میں یہ معلوم ہونا کہ اس کا مادّہ کیا ہے‘یہ موجودہ صورت میں کس طرح سے آیا ہے‘ اس کا صرفی وزن کیا ہے اور اس وزن کے معانی و خواص کیا ہیں۔ ان تمام باتوں کے لیے’علم الصرف‘ کی ضرورت پڑتی ہے۔
(۴) الفاظ کے ترکیبی احکام‘ یعنی ہر لفظ کے بارے میں یہ پتہ ہونا کہ وہ دوسرے الفاظ کے ساتھ مل کر کیا معنی دے رہا ہے‘ اس کی نحوی ترکیب کیا ہے‘ اس پر موجودہ حرکات اور اعراب کیوںآئے ہیں اور کن معانی پر دلالت کر رہے ہیں۔اس سارے کام کے لیے ’علم النحو‘ اور ’علم المعانی‘ سے مدد لی جاتی ہے۔
(۵) ترکیبی حالت میں الفاظ کے مجموعی معنی‘ یعنی پوری آیت اپنے سیاق و سباق میں کیامعنی اور مفہوم دے رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے آیت کے مضامین کے لحاظ سے مختلف علوم سے مدد لی جاتی ہے۔مذکورہ علوم کے علاوہ بعض اوقات علم ادب اور علم بلاغت سے کام لیا جاتا ہے اور بسا اوقات علم حدیث یا علم اصول فقہ سے بھی مدد لی جاتی ہے۔
(۶) معانی کے تکملے‘ یعنی آیات قرآنی کا پس منظر اور جو بات قرآن حکیم میں مجمل ہے اس کی تفصیل وغیرہ‘ اس غرض کے لیے زیادہ تر علم حدیث سے کام لیا جاتا ہے۔
لیکن اس کے علاوہ بھی یہ میدان اتنا وسیع ہے کہ اس میں دنیا کے ہر علم وفن کی معلومات کھپ سکتی ہیں‘ کیونکہ بعض اوقات قرآن حکیم میں ایک مختصرسا جملہ ارشاد ہوتا ہے لیکن اس میں حقائق و اسرار کی ایک غیر متناہی کائنات پوشیدہ ہوتی ہے‘ مثلاً سورۃ الذاریات میں فرمان الٰہی ہے: {وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ(۲۱)}’’اورتمہاری اپنی ذات (جان)میں بھی (نشانیاں ہیں)‘ تو کیا تم دیکھتے نہیں ہو؟‘‘اب غور کریں کہ اس مختصر سے جملے کی تشریح و توضیح میں مکمل علم الابدان اور پورا علم نفسیات سما سکتا ہے‘ اس کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنی تخلیقی حکمت بالغہ کے جن اسرار کی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ سب پورے ہو گئے ہیں۔ چنانچہ تفسیر کے اس ذیلی جزو میں عقل و تدبر اور تجربات و مشاہدات کے ذریعے انتہائی متنوع مضامین شامل ہو جاتے ہیں۔
تاویل کا لغوی مفہوم
لفظ تاویل کاسہ حرفی مادہ اول(رجوع کرنا) ہے۔ اس ضمن میں صاحب قاموس کا کہنا ہے:آلَ اِلَیْہِ اَوْلًا‘ یعنی رجوع کرنا اور منحرف ہونا‘ تاویل الکلام سے مراد اس کی تشریح و توضیح ہے۔ تاویل‘ خواب کی تعبیر کو بھی کہتے ہیں۔ لسان العرب میں ہے کہ اَوْلٌ کے معنی رجوع کرنا اور کسی چیز سے منحرف ہونا کے ہیں‘ تاویل الکلام کے معنی اظہار و بیان ہیں۔ حدیث پاک میں ارشاد ہوتا ہے: مَنْ صَامَ الدَّھْرَ فَلَاصَامَ وَلَا آلَ’’جس نے ہمیشہ روزہ رکھا‘ نہ اس کا روزہ ہوا اور نہ اس نے (نیکی کی طرف) رجوع کیا‘‘۔ بنا بریں تاویل کا لفظ اَوْلٌ (رجوع) سے ماخوذ ہے‘ گویا جو شخص تاویل کرتا ہے وہ کلام کو اس کے متعدد معانی میں سے کسی ایک معنی کی جانب لوٹاتا ہے۔اگرچہ احتمال ان تمام معانی کا ہوتا ہے لیکن وہ ان میں سے ایک کو مراد لیتا ہے۔بعض علماء کے نزدیک تاویل ’ایالۃ‘ (سیاست و حکمرانی) سے ماخوذ ہے‘ گویا مووِّل (تاویل کرنے والا) کلام پر حکمرانی کرتا اور اسے مناسب موقع و مقام پر رکھتا ہے۔ اس حوالے سے مفسر اور ماہر و علم لغت زمخشری ’اساس البلاغہ‘ میں لکھتے ہیں: آل الرَّعِیَّۃَ اِیَالَۃً حَسَنَۃً وَّھُوَحَسَنُ الْاِیَالَۃِ’’اس نےرعیت پر بہت اچھی طرح حکمرانی کی اور وہ بہترین حکمران ہے۔‘‘
قرآن مجید کے مطالعہ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ تاویل کا لفظ متعدد آیات قرآنی میں مختلف معانی کے لیے استعمال ہوا ہے‘ مثلاً سورئہ آلِ عمران کی آیت ہے:
{فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَاۗءَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَاۗءَ تَاْوِیْلِہٖ څ} (آیت۷)
’’پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ پیروی کرتے ہیں متشابہات کی‘گمراہی پھیلانے کی غرض سے اوراس کی مراد معلوم کرنے کی وجہ سے۔‘‘
اس آیت میں تاویل کا لفظ تفسیر و تعیین کےمعنی میں استعمال ہوا ہے۔ سورۃ النساء میں فرمانِ الٰہی ہے:
{فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا(۵۹) }
’’پھراگرتم کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹائو(رجوع کرو) اللہ کی طرف اور رسول ؐ کی طرف‘ اگر تمہیں اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اورانجام کے اعتبار سے بہت اچھا ہے۔‘‘
اس آیت میں تاویل سے نتیجہ اور انجام مراد ہے۔ سورۃ الاعراف میں ارشاد ہوتا ہے:
{ھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا تَاْوِیْلَہٗ ۭ یَوْمَ یَاْتِیْ تَاْوِیْلُہٗ .....} (آیت ۵۳)
’’ان لوگوں کو کسی بات کا انتظار نہیں‘ صرف اس کے اخیر نتیجے کا انتظار ہے‘ جس روز اس کا اخیر نتیجہ پیش آئے گا.....‘‘
نیز سورئہ یونس میں فرمایا:
{بَلْ کَذَّبُوْا بِمَا لَمْ یُحِیْطُوْا بِعِلْمِہٖ وَلَمَّا یَاْتِھِمْ تَاْوِیْلُہٗ ط} (آیت ۳۹)
’’بلکہ ایسی چیز کو جھٹلانے لگے جس کو اپنے احاطہ علمی کے اندر نہیں لائے اور ہنوز ان کو اس کا آخری نتیجہ نہیں ملا۔‘‘
ان دونوں آیات میں تاویل سے ایسے واقعہ کا ظہور پذیر ہونا مراد ہے جس کی کسی رسول یا نبی نے اطلاع دی تھی۔
سورئہ یوسف کی درج ذیل آیات ملا حظہ کریں:{وَکَذٰلِکَ یَجْتَبِیْکَ رَبُّکَ وَیُعَلِّمُکَ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ}(آیت۱۶)’’اور اسی طرح تیرا پروردگار تجھے برگزیدہ کرے گا اور تجھے خوابوں کی تعبیر بھی سکھائے گا۔‘‘ {لَا یَاْتِیْکُمَا طَعَامٌ تُرْزَقٰنِہٖٓ اِلَّا نَبَّاْتُکُمَا بِتَاْوِیْلِہٖ ق}(آیت۳۷)’’تمہیں جو کھانا دیا جاتا ہے اس کےتمہارے پاس پہنچنے سے پہلے ہی مَیں تمہیں اس(خواب) کی تعبیر بتلا دوں گا۔‘‘ {وَمَا نَحْنُ بِتَاْوِیْلِ الْاَحْلَامِ بِعٰلِمِیْنَ(۴۴)}’’اور ہم ایسے شوریدہ پریشان خوابوں کی تعبیر جاننے والے نہیں ہیں‘‘۔ ان تینوں آیات میں تاویل سے مراد تعبیر خواب ہے۔
سورۃ الکہف میں ارشاد ہوتا ہے: {سَاُنَبِّئُکَ بِتَاْوِیْلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَیْہِ صَبْرًا(۷۸)}’’اب مَیںآپ کو ان باتوں کی اصلیت اور وجہ بھی بتا دوں گا جس پر آپ سے صبر نہ ہو سکا۔‘‘ نیز:{ذٰلِکَ تَاْوِیْلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَّلَیْہِ صَبْرًا(۸۲)}’’یہ تھی اصل حقیقت ان واقعات کی جن پر آپ سے صبر نہ ہو سکا‘‘۔ ہر دو آیات میں تاویل سے ان افعال کا موجب و محرک مراد ہے‘ جو حضرت خضر نے کشتی کو توڑنے‘ لڑکے کو قتل کرنے اور دیوار کی تعمیر کے سلسلے میں سرانجام دیے تھے۔
سلف کے نزدیک تاویل کا اصطلاحی مفہوم
علمائے سلف کے ہاں تاویل سے دو مطلب مراد لیے جاتے ہیں:
(ا ) کلام کے معنی ومفہوم کو واضح کرنا‘ خواہ وہ ظاہر کلام کے موافق ہو یامخالف‘ اس صورت میں تاویل اور تفسیر مترادف ہیں اور ان میںکوئی معنوی فرق نہیں۔ مشہور تابعی مجاہد جب کہتے ہیں کہ علماء قرآن کی تاویل جانتے ہیں تو ’تاویل‘ سےان کی مراد تفسیر ہی ہے۔ ابن جریر طبری اپنی تفسیر میں اکثر یوں لکھتے ہیں:’القول فی تاویل قولہ تعالٰی کذا و کذاََ’’فلاں قولِ باری تعالیٰ (آیت) کی تاویل یوں ہے‘‘ یہاں وہ ’تاویل‘سے تفسیر ہی مراد لے رہے ہوتےہیں۔
( ب) علمائے سلف کی رائے میں کسی کلام سے جو مفہوم مراد ومقصود ہے‘ وہی تاویل ہے۔ سلف کے نزدیک یہ تاویل کے دوسرے معنی ہیں۔ چنانچہ اگر کلام کسی طلب یا خبر پر مشتمل ہو تو جوفعل مطلوب ہے یا جو خبر دی جا رہی ہے وہی اس کی تاویل ہوتی ہے۔ اس وضاحت سے پہلے اور دوسرے معنی کا فرق پورے طور پرواضح ہو جاتا ہے۔
خلف کے نزدیک تاویل کا اصطلاحی مفہوم
علمائے خلف کی نگا ہ میں تاویل کا مطلب یہ ہے کہ کسی دلیل کی بنا پر ایک لفظ کے راجح معنی کو ترک کر کے مرجوح معنی مراد لیے جائیں۔اصولِ فقہ اور اختلافی مسائل میں تاویل سے یہی مفہوم مراد لیا جاتا ہے۔ علمی مبادلۂ افکار کے دوران جب ایک فریق کہتا ہے کہ یہ حدیث یا نص مووّل ہے یا فلاں بات پر محمول ہے‘تو دوسرا فریق اس کے جواب میں کہتا ہے کہ یہ تاویل ہے اس لیے محتاجِ دلیل ہے۔ مذکورہ بیان سےیہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ تاویل کرنے والے سے دو باتوں کا مطالبہ کیاجائے گا:
(ا) وہ کسی لفظ سے جو مفہوم مراد لیتا ہے‘ اب ثابت کرے کہ آیا وہ لفظ اس معنی کے لیے استعمال ہوتا بھی ہے یا نہیں؟
(ب) وہ یہ بتائے کہ کون سی دلیل راجح معنی لینے سے مانع اور مرجوح معنی کی مقتضی ہے؟
اگرتاویل کرنے والا یہ دونوں باتیں ثابت کرنے سے قاصر رہتا ہے تواس کی تاویل فاسد اور وہ شرعی نصوص کا مذاق کرنے والا ٹھہرے گا۔ جمع الجوامع اور اس کی شرح میں لکھا ہے کہ ظاہر اورمتبادر معنی کو ترک کر کے مرجوح معنی مراد لینے کو تاویل کہتے ہیں۔ اگر کسی دلیل و برہان کی بنا پر ایسا کیا جائے تو درست ہے۔اگر ظنی دلیل کی بنا پر مرجوح معنی مراد لیا جائے تو فاسد‘اور اگر یقینی یا ظنی کوئی دلیل بھی موجود نہ ہو تویہ نصوص کے ساتھ مذاق ہے‘تاویل نہیں۔ ابن تیمیہؒ کے بقول صفاتِ باری تعالیٰ کے مسئلہ میں جو تاویل متنازع فیہ ہے وہ یہی ہے‘ چنانچہ بعض علماء اس کی مذمت کرتے اوراس سے باز رکھتے ہیں‘ بخلاف ازیں علماء کا دوسرا گروہ تاویل کی تعریف کرتا اور اس کو واجب قراردیتا ہے۔
تفسیر و تاویل کا فرق و امتیاز اور مختلف افکار و آراء
علمائے کرام کے ہاں اس امر میں اختلاف ہے کہ تفسیر و تاویل کے مابین کیافرق و امتیاز پایا جاتا ہے۔اس فرق کا معلوم کرنا ایک دشوار علمی کام ہے اور وہی شخص اس کا اہل ہو سکتا ہے جوتوفیق ربانی سےبہرہ ور اورخاص علمی بصیرت کا حامل ہو۔ ابن حبیب نیسابوری لکھتے ہیں کہ ہمارے زمانے میں ایسے مفسر پیدا ہوگئے ہیں جن سے اگر تاویل وتفسیر کا باہمی فرق دریافت کیا جائے تو نہ بتا سکیں۔(الاتقان)
تفسیر و تاویل کے مفہوم میں جو اختلاف پیدا ہوا ہے اس کی وجہ مصری فاضل امین الخولی نے ان الفاظ میں بیان کی ہے: اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن میں تاویل کا لفظ وارد ہوا‘ پھر علمائے اصول اس لفظ کو ایک خاص اصطلاح کی حیثیت سے استعمال کرنے لگے‘حالانکہ یہ لفظ متکلمین اہل مذاہب کی زبان و قلم پر عام طور سے جاری و ساری ہے۔(التفسیر :معالم حیاتہ)
اختلافِ اقوال سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے درج ذیل حوالہ جات پیش خدمت ہیں:
(۱) ابوعبیدہ اور علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ تفسیر و تاویل کے الفاظ مترادف ہیں اور ان میں کوئی فرق و اختلاف نہیں پایا جاتا۔ متقدمین اہل تفسیر کا زاویۂ نگاہ بھی یہی ہے۔(الاتقان)
(۲) امام راغب اپنے مقدمہ تفسیر میں لکھتے ہیں کہ تفسیر کے لفظ میں تاویل کی نسبت زیادہ عموم پایا جاتا ہے۔ تفسیر کا لفظ عموماً الفاظ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور تاویل معانی کے لیے‘ مثلاً خواب کی تعبیر کو ’تاویل الرئویا‘ کہتے ہیں۔ علاوہ ازیں تاویل کا لفظ اکثر وبیشتر کتب مقدّسہ کے لیے بولا جاتا ہے اور تفسیر کتب مقدّسہ و دیگر کتب کے سلسلہ میں ۔اسی طرح تفسیر کا لفظ زیادہ تر الفاظِ مفردہ کے ضمن میں بولتے ہیں اور تاویل جملوں اور مرکبات کے دوران۔ مزید برآں تفسیر کا لفظ الفاظ نادرہ غریبہ کی شرح و توضیح کے لیے بولا جاتا ہے۔ مثلاً البحیرۃ‘ السائبہ اور الوصیلۃ وغیرہ یا جو معنی مقصود و مرادہو اس پر روشنی ڈالنے کے لیے جیسے سورۃ البقرۃ کی یہ آیت{وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَط الخ} (آیت۱۱۰)یا ایسے کلام کے‘سلسلہ میں جس میں کوئی واقعہ مذکور ہو اور اس کے بغیر کلام کا مطلب سمجھ میں نہ آتا ہو‘ جیسے سورۃ التوبہ کی یہ آیت {اِنَّمَا النَّسِیْٓءُ زِیَادَۃٌ فِی الْکُفْرِ}(آیت۳۷)’’بے شک مہینوں کا آگے پیچھے کر دینا کفر کی زیادتی ہے‘‘۔ اس کے برخلاف تاویل کا لفظ بعض اوقات عام اور بعض اوقات خاص استعمال کیا جاتا ہے۔ جس طرح کفر کا لفظ مطلق انکار کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے اور خاص باری تعالیٰ کے انکار کے لیے بھی‘ اسی طرح ایمان مطلق تصدیق کو بھی کہتے ہیں اور خاص دین اسلام کی تصدیق اور ماننے کو بھی ۔
(۳) امام ماتریدی کا کہنا ہے کہ تفسیر کے معنی قطعیت و یقین کے ساتھ یہ کہنا ہے کہ اس لفظ کا یہی مطلب ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں یہی مفہوم مراد ہے۔ اب اس کی اگر کوئی قطعی وحتمی دلیل موجود ہو تو وہ تفسیر پھر ٹھیک ہے‘ ورنہ یہ تفسیر بالرائے کہلائے گی جو کہ شرعاً بالکل ممنوع ہے۔ اس کے برعکس ایک لفظ میں جن مختلف معانی کا احتمال پایا جاتا ہو ان میں سے ایک کو ترجیح دینے کا نام تاویل ہے‘ اس میں قطعیت و یقین کا ہونا ضروری نہیں۔(الاتقان)
(۴) ابوطالب ثعلبی اس حوالے سے تحریر کرتے ہیں کہ لفظ جس معنی کے لیے موضوع ہو‘ حقیقۃً یا مجازاً اس کے بیان کرنے کو تفسیر کہتے ہیں‘جیسے لفظ ’صراط‘ کی تفسیر طریقہ(راستہ) اور ’صیب‘ کی مطر(بارش) کے ساتھ‘ بخلاف ازیں کسی لفظ کے اندرونی اور باطنی مفہوم کے واضح کرنے کو تاویل کہا جاتا ہے۔ تاویل کا سہ حرفی مادہ ’اول‘ ہے جس کے معنی کسی چیز کے نتیجہ و انجام کی جانب رجوع کرنا کے ہیں‘ اس لیے حقیقت ِمراد سے آگاہ کرنے کو تاویل اور دلیل مراد کے اظہار و اخبار کو تفسیر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ (الاتقان)
(۵) مفسر بغوی اور الکواشی کا قول ہے کہ تاویل کے معنی آیت سے ایسا مفہوم مراد لینا ہے جس کی اس میں گنجائش ہو‘ وہ مفہوم آیت کے سیاق وسباق سے ہم آہنگ ہو اور کتاب و سُنّت کے بھی خلاف نہ ہو‘ جبکہ کسی آیت کے شانِ نزول او رمتعلقہ واقعہ کے ذکر وبیاں کو تفسیر کہتے ہیں۔(معالم التنزیل)
(۶) الاتقان کے مطابق بعض علماء کی رائے میں تفسیر کا تعلق روایت اورتاویل کا درایت کے ساتھ ہوتا ہے۔
(۷) ابونصر القشیری کا کہنا ہے کہ تفسیر کا تعلق پیروی اور سماع سے ہے اورتاویل کا تعلق استنباط سے۔
(۸) کچھ مفسرین کے نزدیک ترتیب ِعبارت سے جو مفہوم مستفاد ہو‘ اس کے بیان کرنے کو تفسیر کہتے ہیں۔ اس کے برعکس عبارت سے جو مفہوم اشارۃً معلوم ہوتا ہے اس کے کشف و اظہار کا نام تاویل ہے۔ متأخرین کے نزدیک یہی بات مشہور ہے‘ مشہور مفسر علامہ آلوسی نے روح المعانی کے مقدمہ میں اسی کی تائید کی ہے۔
مذکورہ بالا اقوال میں سے جو قول اقرب الی الصواب ہے‘ وہ یہ ہے کہ تفسیر کا تعلق روایت کے ساتھ ہوتا ہے اور تاویل کا درایت کے ساتھ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ تفسیر نام ہے کشف و بیان کا‘ اور مرادِ ربّانی کا اظہار جزم و وثوق کے ساتھ اس وقت ممکن ہے جب وہ حضور اقدسﷺ یا صحابۂ کرامؓ سے منقول ہو جو کہ نزولِ وحی کے چشم دید گواہ اور اس سے متعلقہ واقعات و حوادث سے بخوبی آگاہ و آشنا تھے۔ اصحابِ رسول ؐ کے لیے یہ شرف کیا کم ہے کہ انہوں نے صحبت نبویؐ سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور مشکلاتِ قرآن کے فہم وادراک میں آنحضرتﷺ سے خوب استفادہ کیا۔ جبکہ تاویل میں یہ بات پیش نظر ہوتی ہے کہ ایک لفظ میں جس قدر معانی کی گنجائش ہےان میں سے ایک معنی کو دلیل کی بنیاد پر ترجیح دی جائے۔ اس ترجیح کا انحصار اجتہاد پر ہوتا ہے اور اجتہاد کے ضمن میں اس کے مناسب وسائل و ذرائع سے مدد لی جاتی ہے‘مثلاً یہ دیکھاجاتا ہے کہ اس مفرد لفظ کے معنی لغت ِ عرب میں کیا ہیں‘سیاق و سباق کے اعتبار سے یہاں کون سے معنی اقرب الی الصواب ہیں۔ پھر عربی زبان کے حوالے سے اسالیب کلام کو دیکھ کر معنی کا استنباط کیا جاتا ہے۔ امام زرکشیؒ کا اس ضمن میں ارشاد ہے:
’’علماء نے تفسیر و تاویل کے مابین جس فرق وامتیاز کو ملحوظ رکھا ہے‘ اس کا سبب یہی ہے کہ تفسیر میں منقولات پر اعتماد کیا جاتا ہے اور تاویل کا مدارو انحصار استنباط پر ہوتا ہے۔‘‘(الاتقان)
مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنی کتاب علوم القرآن میں تفسیر اور تاویل کے فرق کے حوالے سےیوں روشنی ڈالی ہے:
’’ قدیم زمانے میں تفسیر کے لیے ایک اور لفظ تاویل بھی استعمال ہوتا رہا ہے اور خود قرآن کریم نے بھی اپنی تفسیر کے لیے یہ لفظ استعمال کیا ہے: {وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗ اِلَّا اللہُ}آنے والے دور کے علماء میں اسی ضمن میں یہ بحث چھڑ گئی کہ آیا یہ دونوں لفظ بالکل ہم معنی ہیں یا ان میں کچھ فرق بھی ہے!‘‘
امام ابو عبیدہ وغیرہ کا کہنا ہے کہ یہ دونوں الفاظ بالکل مترادف ہیں‘ دوسرے حضرات نے ان دونوں الفاظ میں فرق بیان کیا ہے‘ چند اقوال ملاحظہ کریں:
(ا ) تفسیر ایک لفظ کی انفرادی تشریح کا نام ہے اور تاویل جملے کی مجموعی تشریح کا ۔
(ب) تفسیر الفاظ کے ظاہری معنی بیان کرنے کو کہتے ہیں اور تاویل اصل مراد کی توضیح کو۔
( ج) تفسیر اس آیت کی ہوتی ہے جس میں ایک سے زیادہ معنی کا احتمال نہ ہو اور تاویل کا مطلب یہ ہے کہ آیت کی جو مختلف تشریحات ممکن ہیں‘ ان میں سے کسی ایک کو(شرعی) دلیل کے ساتھ اختیار کر لیا جائے۔
(د) تفسیر یقین کے ساتھ تشریح کرنے کو کہا جاتا ہے اور تاویل تردّد کے ساتھ تشریح کرنے کو۔
(ذ) تفسیر الفاظ کا مفہوم بیان کر دینے کانام ہے اورتاویل اس مفہوم سے نکلنے والے سبق اور نتائج کی توضیح کا‘ وغیرہ۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس معاملہ میں ابوعبیدہ ہی کی رائے درست لگتی ہے کہ ان دونوں الفاظ میں استعمال کے لحاظ سے کوئی بنیادی فرق نہیں۔جن حضرات نے یہ فرق بیان کرنے کی کوشش کی ہے ان کے شدید اختلافِ رائے پر غور کرنے سے ہی یہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس حوالے سے کوئی معیّن اور متفق علیہ اصطلاح نہیں بن پائی۔ اگر ان الفاظ میں حقیقتاً فرق ہوتا تو اس شدید اختلاف کا کوئی موقع نہ تھا۔یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانے سے لے کر آج تک کے مفسرین ان الفاظ کے ساتھ ہم معنی الفاظ کا سامعاملہ کرتے ہوئے بلاتکلف ایک دوسرے کی جگہ استعمال کرتے رہے ہیں۔ (جاری ہے)
***
tanzeemdigitallibrary.com © 2025