(خصوصی مضمون) دُعااور عبادت کا ربط و تعلق - ڈاکٹر اسرار احمد

15 /

دُعااور عبادت کا ربط و تعلقبانیٔ تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ

بانیٔ تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے رمضان المبارک ۱۴۰۶ھ (۱۹۸۶ء) میں ناظم آباد نمبر۵ کراچی کی جامع مسجد میں نماز تراویح کے ساتھ دورئہ ترجمۂ قرآن مکمل کیا تھا۔ اس موقع پر ڈاکٹر صاحب نے جو افتتاحی خطاب فرمایا تھا وہ ’’عظمت ِصیام و قیامِ رمضانِ مبارک‘‘ کے عنوان سے کتابچے کی صورت میں شائع ہوتا ہے۔ اس رمضان المبارک میں بانی محترمؒ نے ناظم آباد کراچی کی تین مختلف مساجد میں جمعہ کے خطابات بھی ارشاد فرمائے تھے ‘ جو مئی ۱۹۸۸ء کے میثاق میں شائع ہوئے تھے ۔ پیش نظر خطاب اس سلسلے کا دوسرا خطابِ جمعہ ہے‘ جو نظر ِثانی اور مزید ایڈیٹنگ کے بعد مکرر شائع کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

الحمد للہ وکفیٰ والصلٰوۃ والسلام علٰی عبادہ الذین اصطفیٰ خصوصًا علٰی افضلھم وخاتم النبیّین محمد الامین وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ اجمعین … امَّا بَعد فقد قال اللہ تبارک وتعالٰی:
اعوذ باللّٰہ من الشَّیطٰن الرَّجیم ۔ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

{وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌط اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ(۱۸۶)}(البقرۃ)

وقال اللہ عزّوجل:
{وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْط اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیْنَ (۶۰)} (المؤمن)
وقال النبی ﷺ : ((اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ)) (رواہ الترمذی)
وقال ﷺ : ((اَلدُّعَاءُ ھُوَ الْعِبَادَۃُ)) (رواہ الترمذی)

رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَیَسِّرْ لِیْ اَمْرِیْ وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْ یَفْقَھُوا قَوْلِیْ


سورۃ البقرۃ کے ۲۳ویں رکوع میں روزے کا حکم بھی آیا ہے ‘ اس کی حکمت کا بیان بھی ہے اور اس کے تفصیلی احکام بھی آئے ہیںـ۔ انہی کے ذیل میں یہ آیت مبارکہ وارد ہوئی ہے جس کی اوّلاً تلاوت کی گئی ہے: {وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ط}’’اور (اے نبیﷺ!) جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں دریافت کریں تو (انہیں بتا دیجیے کہ) مَیں قریب ہی ہوں‘‘۔کہیں دور نہیں ہوں۔ {اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ} ’’مَیں جواب دیتا ہوں (اور قبول کرتا ہوں) ہر دُعا کرنے والے کی دُعا کا جب بھی وہ مجھے پکارے (جب بھی مجھ سے دُعا کرے)‘‘{فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ}’’تو چاہیے کہ وہ بھی میری پکار پر لبیک کہیں (یعنی میرے احکام کو مانیں اور تسلیم کریں)۔‘‘{وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ}’’اور مجھ پرپختہ ایمان اور یقین رکھیں‘‘{لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ(۱۸۶)}’’تاکہ وہ رشد و فوز سے ہمکنار ہوں۔‘‘
بظاہر اس آیت مبارکہ میں نہ روزے کا ذکر ہے نہ رمضان کا‘ لیکن کسی بھی باشعور ہستی کے کلام میں ربط کا ہونا ضروری ہے اور غیر مربوط کلام ایک باشعور ہستی کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جس سے بڑھ کر باشعور اور حکیم ہستی کا تصوّر تک نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ کلام ربط سے خالی ہو! جن لوگوں نے ربط و تعلق ِآیات پر زیادہ توجّہ صَرف نہیں کی ‘وہ یقیناً قرآن مجید کی حکمت و معرفت کے ایک بہت اہم پہلو سے محروم رہ گئے۔ بلاشبہ قرآن کی ہر آیت اپنی جگہ پر علم و حکمت اور معرفت و عرفان کا ایک بیش قیمت موتی ہے۔ جیسے آپ کسی ہار میں موتیوں کو پروتے ہیں تو اس کے نظم و ترتیب سے ان کا حسن دوبالا ہو جاتا ہے‘ اسی طرح کا معاملہ قرآن حکیم کا بھی ہے۔
لہٰذا قرآن مجید پر غور و فکر کے ضمن میں ضروری ہے کہ انسان دو باتوں کو ملحوظ رکھے۔ ایک یہ کہ آیت کے الفاظ پر اپنی توجہات کو اس طرح مرتکز کر دے جیسے کسی نہایت لطیف اور خفیف ترین شے کے مشاہدے کے لیے مائیکرو سکوپ کو فوکس (focus) کر دیا جاتا ہے۔ آیت کے ایک ایک لفظ پر غورو فکر کاحق ادا کیا جائے اور ان کی تراکیب پر تدبر و تفکر کر کے انہیں خوب اچھی طرح سمجھنےکی کوشش کی جائے۔ پھر اس کا سیاق و سباق ملاحظہ کیا جائے اور اس ربط و تعلق سے آیت ِزیر مطالعہ میں جو نئے معانی اور نئی معرفت کا سراغ ملتا ہے اسے تلاش کیا جائے۔
سورۃ البقرۃ کے ۲۳ویں رکوع کی پہلی آیت میں مجرد روزے کا حکم اور اس کی حکمت کا بیان ہے: {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ(۱۸۳)}’’اے ایمان والو! تم پر روزہ رکھنا فرض کیا گیا ہے جیسے کہ تم سے پہلوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو جائے‘‘۔ دوسری آیت میں ابتدائی احکام ہیں۔ تیسری آیت میں رمضان المبارک کا ذکر ہے اور اس پورے مہینے کے روزوں کی فرضیت کا بیان ہے : {شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ…} ’’رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا لوگوں کے لیے ہدایت بنا کر‘ اور ہدایت اور حق و باطل کے درمیان امتیاز کی روشن دلیلوں کے ساتھ …‘‘اس آیت کے بعد یہ آیت مبارکہ وارد ہوئی ہے جو زیر مطالعہ ہے۔ پھر اس سے اگلی آیت میں روزے کے تفصیلی احکام آئے ہیں‘ جو اس رکوع کی طویل ترین آیت ہے۔ درمیان میں جو یہ موتی ٹکا ہوا ہے ‘ اب ہم اپنی توجّہات اس پر مرتکز کرتے ہیں۔
قربِ الٰہی کا جذبہ فطری ہے!
پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ اس آیت مبارکہ کا اصل مضمون دُعا کی عظمت ہے۔ جب کسی انسان کے دل میں اللہ کی طرف توجّہ اور انابت پیدا ہو جائے اور اس کے دل میں اپنے رب سے تقرب حاصل کرنے کا ایک جذبہ اُبھرے‘ تو نبی اکرمﷺ سے فرمایا جا رہا ہے کہ ایسے شخص کو سب سے پہلے تو یہ خوشخبری دیجیے کہ تمہارا ربّ کہیں دُور نہیں ہے۔ اس ربّ سے ہم کلام ہونے کے لیے کہیں جنگلوں میں جا کردھونی رمانے‘ کہیں پہاڑوں کی کھوئوں میں جا کر ڈیرا لگانے یا کہیں برفانی پہاڑوں کی چوٹیوں پر جا کر تپسیائیں کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ دنیا کے دوسرے مذاہب میں خدا کا جو بھی تصوّر رہا ہے ‘ اسی کے ساتھ یہ نظریہ بھی رہا ہے کہ خدا سے قرب حاصل کرنے کے لیے آبادیوں کو چھوڑنا‘ گھر گرہستی سے ترکِ تعلق اور تجرد کی زندگی ضروری ہے۔ چنانچہ آبادیوں اور گھروں کی آسائشوں کو چھوڑو‘ کہیں جنگلوں میں جائو‘ کہیں غاروں اور کھوئوں میں خاص آسنوں کے ساتھ بیٹھ کر پرماتما سے لو لگائو‘ کہیں ہمالیہ کی کسی برفانی چوٹی پر جہاں سرد ہوائیں چل رہی ہوں‘ ننگے بدن بیٹھو یا کہیں کسی گڑھے میں اپنے آپ کو دفن کرو۔ یہ سو طرح کے جتن ہیں جو انسان اپنے تصوّرِ خدا کے مطابق اس سے قرب حاصل کرنے کے لیے کرتا رہا ہے۔ انسان اپنی دانست میں یہ ساری مشقتیں کسی اعلیٰ و ارفع مقصد کے لیے جھیلتا ہے اور وہ ہے اپنے تصوّرِ خدا کے مطابق اس کا قرب حاصل کرنا۔ یہ انسان کی ایک فطری اور طبعی خواہش ہے۔
خواہ وہ اپنے رب کو صحیح طو رپر پہچان نہ پایا ہو اور اس کی توحید کا بھی اسے صحیح ادراک نہ ہو سکا ہو‘ لیکن فطرتِ انسانی میں اپنے پیدا کرنے والے سے قرب وتعلق قائم کرنے کا جذبہ طبعی اور فطری طو رپر موجود ہے۔ جیسے انسان چاہے یہ جانتا نہ ہو کہ بھوک کیا شے ہے لیکن اسے اس کا احساس بہرحال ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ احسا س نوزائیدہ بچے کو بھی ہوتا ہے جو بھوک کی وجہ سے روتا ہے تو ماں اسے دودھ پلاتی ہے ۔ یہ اصل میں اس کی جبلت اور فطرت ہے۔ چنانچہ جس طرح انسان میں اپنی مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تقاضوں کا شعور اس کے اندر سے ابھرتا ہے‘ ایسے ہی ایک روحانی پیاس بھی انسان کے اندر سے اُبھرتی ہے۔ بہتوں میں یہ کم اُبھرتی ہے اور بہت سوں میں زیادہ اُبھرتی ہے۔ بہت سے لوگ اس دنیا میں اتنے مشغول ہوجاتے ہیں اور اپنے حیوانی تقاضوں کی تسکین و تکمیل میں اتنے منہمک ہو جاتے ہیں کہ انہیں اپنی روح کی پکار سنائی نہیں دیتی‘ یا وہ اس کی طرف التفات نہیں کرتے۔ تاہم کوئی انسان‘ انسان ہونے کے ناطے اس سے بالکل محروم نہیں ہے۔
یہ پیاس اندر سے ابھرتی ہے جو لوگوں کو جنگلوں تک میں لے جاتی ہے۔ یہی پیاس تھی جس نے گوتم بدھ کو اپنے محل سے نکال کر نہ معلوم کن کن جنگلوں کی خاک چھنوائی اور اسے کن کن منیوں اور رشیوں کے پاس لے گئی اور اس سے کس کس کی جوتیاں سیدھی کرائیں۔ اس نے یہ سب کس لیے کیا؟وہ کپل وستو کا راج کمار تھا۔ محل میں اسے تمام آسائشیں اور ہر طرح کا آرام حاصل تھا لیکن اس کے دل میں مکتی کے حصول او ر دکھ سکھ کی حقیقت جاننے اور اپنے تصوّر کے مطابق اپنے ایشور کا گیان دھیان حاصل کرنے کا ایک جذبہ اُبھرا ۔پھر وہ اپنے محل‘ اپنی جوان بیوی اور شیر خوار بچے کو چھوڑ کر نکل کھڑا ہوا۔ درحقیقت یہ فطرت کی ایک پیاس تھی جس نے اس سے یہ سب کچھ چھڑوا دیا۔ یہ فطرت کی پکار ہی تھی جو حضرت سلمان فارسیؓ کو ایران سے نکال کر شام کے مختلف علاقوں میں لے گئی‘ جہاں وہ مختلف راہبوں کی خدمت کرتے رہے۔ ان کے دل میں اپنے رب کی معرفت کی ایک پیاس تھی۔ جس کے دل میں یہ ایک سچی پیاس کی حیثیت سے اُبھر آئے تواسے اس وقت تک چین نہیں آ سکتا جب تک کہ اس کی اس پیاس کی سیری کا کوئی بندوبست نہ ہوجائے۔
صیام و قیام : قربِ الٰہی کے جذبے کو اُبھارنے کاذریعہ
اب اس آیت مبارکہ کا رمضان اور اس کے روزوں کے حکم و فرضیت سے جو ربط و تعلق ہے ‘ اسے سمجھ لیجیے ۔روزے کی حکمت بیان فرمائی گئی :’’لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘ اور رمضان میں ان کی فرضیت کی دوسری حکمت بیان فرمائی ’’لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ‘‘۔ ہمارے اندر جو ملکوتی روح ہے اور اس کی جو پیاس ہے ‘ وہ ہمارے جسمانی و حیوانی اور جبلّی تقاضوںتلے دبی رہتی ہے۔ ہم کاروبارِ دنیا میں منہمک رہتے ہیں‘ دنیا کی آسائشوں اور کام و دہن کی لذتوں میں مستغرق رہتے ہیں۔ بھوک لگی تو کھانا کھا لیا اور پیاس لگی تو پانی پی لیا۔ جنسی جذبے نے جوش مارا تو جائز طریقہ سے اس کی تسکین کر لی ۔ ان تقاضوں کو پورا کرنے میں انسان اس قدر منہمک رہتا ہے کہ روح کی پیاس اسے محسوس ہی نہیں ہوتی۔ رمضان کے روزوں کا پروگرام درحقیقت یہ ہے کہ پورے مہینے کے لیے معمولات کو الٹ دیا گیا ہے۔ اب دن میں بھوک اور پیاس برداشت کرو‘ جنسی خواہش کی تسکین پر قدغن لگائو۔ رات کو جبکہ آرام و استراحت کا شدید ترین داعیہ اُبھرتا ہے ‘حکم ہوتا ہے کہ قرآن کے ساتھ کھڑے ہو جائو۔ گویا نفس کے جتنے تقاضے ہیں‘ ان کی مخالفت ہو رہی ہے ۔
دن بھر بھوک‘ پیاس اور جنسی تقاضے کی مخالفتیں آپ نے برداشت کیں‘ اب جو یہ بند کھلا اور آپ نے اپنے پیٹ کو بھرا تو حکم ہو گیا کہ کھڑے ہو جائو اور صلوٰۃ العشاء کے بعد صلوٰۃ التراویح ادا کرو‘ جس کا اہل ِسُنّت کے تین فقہی مسالک میں بیس رکعات کا نصاب مقرر ہے۔ یہ کم سے کم نصاب ہے‘ ورنہ مطلوب یہ ہے کہ رمضان کی راتوں کا اکثر و بیشتر حصّہ قرآن مجید کے ساتھ جاگ کر گزارا جائے۔ نبی اکرمﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی شان تو یہ تھی کہ:
{یٰٓاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُ(۱) قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا (۲) نِّصْفَہٗٓ اَوِانْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا(۳) اَوْ زِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا(۴)}
’’اے کمبل میں لپٹ کر لیٹنے والے (ﷺ)! آپ کھڑے رہا کریں رات کو (نماز میں) سوائے اس کے تھوڑے سے حصے کے۔ (یعنی) اس کا آدھا یا اس سے تھوڑا کم کر لیجیے۔ یا اس پر تھوڑا بڑھا لیں‘ اور ٹھہر ٹھہر کر قرآن پڑھتے جائیے۔‘‘
تو اس کی کچھ مشابہت اور اس کا کوئی عکس تو ہمارے اندر رمضان المبارک کی راتوں میں آجائے۔ بہرحال‘ نمازِعشاء کے بعد گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کی اضافی مشقّت بھی اُس وقت ہے جب طبیعت پر کسل کا شدید ترین غلبہ طاری ہوتا ہے۔ یہ سب کیا ہے! اسے مَیں ایک لفظ سے تعبیر کرتا ہوں کہ یہ reversalہے۔ گیارہ مہینے جو عمل (process)جاری رہتا ہے اس میں ریورس گیئرہے جو رمضان میں اس طور پر لگایا گیا ہے کہ اپنے نفس اور کام و دہن کے تقاضوں کو دبائو۔ جب یہ دبتے ہیں تو اندر سے روح کی پیاس ابھرتی ہے۔ جب یہ ابھرے تو پہلی خوشخبری دی گئی کہ جان لو کہ تمہارا ربّ تمہارے بالکل قریب ہے: {وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ط}
جن لوگوں نے یورپ کی تاریخ پڑھی ہے‘ وہ جانتے ہیں کہ انسانی حقوق کے لیے وہاں کیسی کشمکش ہوئی۔ انسان نے اپنے سیاسی حقوق حاصل کرنے اور مطلق العنان بادشاہوں کے چنگل اور جاگیرداروں کے شکنجے سے نجات پانے کے لیے وہاں جو جدّوجُہد کی ہے اور پاپائیت کے منحوس اور بدترین نظام کا جو جُو ا اُن کے کاندھوں پر رکھا ہوا تھا‘ اس سے رستگاری پانے اور آزادی حاصل کرنے کے لیے جو قربانیاں دی ہیں ان کا تاریخ انسانی کے اہم ترین اور ناقابل فراموش واقعات میں شمار ہوتا ہے۔ یہ وہ نشاناتِ راہ ہیں جن پر چل کر حقوقِ انسانی کا منشور وجود میں آیا ہے۔ میرے نزدیک اس آیت مبارکہ کی رو سے انسانی حقوق کا سب سے بڑا منشور (Magna Carta) یہ ہے کہ انسان کو یہ اطمینان دلایاجائے کہ تمہارا ربّ تم سے دُور نہیں ہے ‘بلکہ نقشہ یہ ہے کہ :
دل کے آئینے میں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی!
یہ ہے بندے کا معاملہ اپنے رب کے ساتھ ۔رب تو ہر دم ‘ ہر آن مائل بہ کرم رہتا ہے۔ وہ تو ہم سے غافل نہیں ہے۔ ہم ہی اس سے غافل اور غائب ہو جاتے ہیں۔ عربی کا یہ شعر مَیں نے دسویں جماعت کے کورس میں پڑھا تھا کہ ؎
اَغِیْبُ وَ ذُو اللَّطَائِفِ لَا یَغِیْبُ
وَاَرْجُوْہُ رَجَاءً لَا یَخِیْبُ!
مَیں غائب ہو جاتا ہوں‘ وہ جو صاحب ِاَلطاف و کرم ہے وہ تو غائب نہیں ہوتا۔ وہ تو ہر آن اور ہر جگہ موجود ہے۔وہ تو منتظر رہتا ہے کہ میرا بندہ میری طرف متوجّہ ہو۔یہ تو ہم ہیں جو اُس کی طرف رُخ ہی نہیں کرتے۔ ہم نے تو اس سے پیٹھ موڑی ہوئی ہے۔ ہم نے اس دنیا کو اپنا محبوب اور مطلوب بنا لیا ہے اور دولت کے پجاری بن گئے ہیں۔ ہم اپنے نفس کی غلامی میں لگے ہوئے ہیں۔ ہم کہاں اُس ذُواللّطائف ہستی کی طرف رخ کرتے ہیں! حدیث ِقدسی میں یہاں تک الفاظ آتے ہیں کہ میرا بندہ اگر میری طرف چل کر آتا ہے تو مَیں اُس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔ میرا بندہ میری طر ف بالشت بھر آتا ہے تو مَیں اس کی طرف ہاتھ بھر آتا ہوں۔ میرا بندہ اگر مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو مَیں اسے اپنے جی میں یاد کرتا ہوں۔ میرا بندہ اگر میرا ذکر کسی محفل میں کرتا ہے تو مَیں اس سے بہت اعلیٰ محفل میں اس کا ذکر کرتاہوں‘ یعنی ملائکہ مقربین کی محفل میں اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے کا ذکر فرماتے ہیں۔ علّامہ اقبال نے اسی کی ترجمانی ’’جوابِ شکوہ‘‘ میں ا س طرح کی ہے کہ ؎
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے رہروِ منزل ہی نہیں!
لیکن اگر بندے میں یہ پیاس ابھر آئے تو جب چاہے‘ جہاں چاہے اللہ سے ہم کلام ہوجائے جہاں کوئی حاجب نہیں‘ کوئی دربان نہیں۔ اس کی بھی علّامہ اقبال نے بہترین تعبیر کی ہے ؎
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو!
رب اور بندے کے درمیان کوئی حائل نہیں!
یہ تو درحقیقت ہماری غفلت ہے‘ ہماری نادانی ہے۔ کچھ ہوشیار لوگوں کی چالاکی ہے کہ وہ استھان بنا کر بیٹھ جاتے ہیں کہ اگر تم کو اپنے رب سے ہم کلام ہونا ہے تو پہلے یہاں  نذر و نیاز پیش کرو‘ ہماری مٹھیاں گرم کرو۔ ہم اس کے دربار کے حاجب اور دربان ہیں اور ہم جس بزرگ کی قبر کے مجاور بنے بیٹھے ہیں‘ ان بزرگ کی اللہ کے یہاں بڑی رسائی ہے۔ تمہاری درخواست اللہ کے یہاں ان کے ذریعہ سے پہنچ سکے گی اور ان تک پہنچنے کا ذریعہ ہم ہیں۔ پہلے ہمیں خوش کرو‘ ہماری مٹھی گرم کرو تو تمہار اکام بنے۔
دنیا میں ساری لوٹ کھسوٹ اور جابرانہ استحصال صرف سیاسی سطح پر ہی نہیں ہوتا ‘ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ نوعِ انسانی کا سب سے بڑا استحصال(exploitation) مذہب کے میدان میں ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو سورۃ التوبہ میں بالکل واشگاف کر دیا گیا ہے ۔ فرمایا:{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَالرُّھْبَانِ لَیَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ ۭ} (آیت۳۴) ’’اے اہل ِ ایمان! اکثر علماء و مشائخ کا حال یہ ہے کہ لوگوں کے مال باطل طور طریقوں سے کھاجاتے ہیںاور اللہ کی (توحید کی) راہ سے لوگوں کو روکتے ہیں۔‘‘ مذہب کے نام پر باطل اور ناجائز طریقوں سے لوگوں کے اموال ہڑپ کرنے کے لیے اس طرح کے نظام بنائے گئے ہیں کہ یہ دیوی دیوتا ہیں‘ یہ ان کے مندر استھان ہیں‘ یہ ان کے بُت ہیں اور یہ ان کے پروہت ہیں‘ یہ ان کے پجاری ہیں‘ یہ پنڈت ہیں۔ کوئی پیر صاحب ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ ان کی فلاں فلاں بزرگوں سے نسبت ہے ۔ کہیں پادری یا پوپ صاحب ہیںجن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اللہ کے بیٹے مسیحؑ کے چہیتے ہیں۔ ان حضرات کی خدمت کرو گے ‘ ان کو راضی رکھو گے‘ ان کی نازبرداریاں اٹھائو گے تب ہی ایشور تک رسائی ہو گی۔ ان کو خوش کرو گے تب ہی اللہ خوش ہو گا۔ ان کو راضی رکھو گے تب ’’ابن اللہ‘‘ تمہارے کام آئیں گے ۔
مَیںحیران ہوا کرتا ہوں کہ مذہب کے نام پر جو استحصالی نظام ہیں وہاں یہ حرف ’’پ‘‘ ہی آپ کو ہر جگہ ملے گا۔ حتیٰ کہ پادری کے لیے جو انگریزی لفظ priestہے وہاں بھی یہ ’’پ‘‘ موجودہے۔ اسی ’’پ‘‘ کی گردان آپ کو ہر جگہ نظر آئے گی۔ اللہ کاشکر ہے کہ عربی زبان میں ’’پ‘‘ ہے ہی نہیں۔ اس نے تو اس ’’پ‘‘کی ایسی جڑ کاٹی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ جو دین ہمیں دے کر تشریف لے گئے ہیں‘ اُس نے اس تصوّر کی بالکلیہ نفی کر دی ۔
اب آیت کی طرف پھر رجوع کیجیے۔ فرمایا : {وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ط}’’اور (اے نبیﷺ!) جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں دریافت کریں تو (بتا دیجیے کہ) مَیں بہت قریب ہوں۔‘‘ یعنی جب بندے میں اپنے رب سے ہم کلام ہونے کی سچی اور حقیقی پیاس پیدا ہوتی ہے اور اس کے قلب کی گہرائی سے واقعتاً اپنے رب سے مناجات کرنے اور اپنی غفلت پر پشیمان ہو کر ا س سے توبہ و استغفار کرنے کا جذبہ اُبھرتا ہے تو وہ اپنے بندے سے دور نہیں‘ قریب ہی ہوتا ہے۔ اُس کا در اُس کی طرف رجوع کرنے والوں کے لیے ہمیشہ کھلا ہے۔ اسلام میں توبہ کا دروازہ کس درجہ کھلا رکھا گیا ہے‘حدیث شریف کے الفاظ ہیں: ((اِنَّ اللہَ یَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَالَـمْ یُغَرْغِرْ))(رواہ الترمذی)’’یقیناً اللہ تعالیٰ اُس وقت تک بندے کی توبہ قبول کرتا ہے جب تک موت کا گھنگھرو نہ بولنے لگے۔‘‘ یعنی جب تک عالم ِنزع طاری نہ ہو جائے‘ توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے اگرچہ کسی کے کوہِ اُحد جتنے گناہ ہوں۔ شیخ ابوسعید ابوالخیرؒنے اسی مفہوم کی یوں ترجمانی کی ہے:
باز آ‘ باز آ‘ ہر آنچہ ہستی باز آ!
گر کافر و گبر و بُت پرستی باز آ!
ایں درگہ ما درگہ نومیدی نیست
صد بار اگر توبہ شکستی باز آ!
’’واپس آ جائو‘ واپس آ جائو! تم جو بھی ہو‘ واپس پلٹ آئو! تم چاہے کافر ہو‘ مجوسی ہو یا بت پرست ہو‘ واپس پلٹ آئو! ہماری یہ بارگاہ ناامیدی کی بارگاہ نہیں ہے۔ اگر سوبار توبہ توڑ چکے ہو تو بھی واپس پلٹ آئو!‘‘
آج اگر خلوص و اخلاص کے ساتھ پھر متوجّہ ہوگے تو یہ بارگاہ وہ ہے جو کبھی بند نہیں ہوتی۔ اس پر کوئی حاجب اور دربان نہیں۔ سچی پشیمانی اور خلوص کے ساتھ رجوع کرو۔ اس ارادہ کے ساتھ اللہ سے توبہ کرو کہ مَیں شرم سار ہوں‘ پشیمان ہوں‘ تجھ سے مغفرت کا طلب گار ہوں۔ اے اللہ! اب تک جو زندگی غفلت میں گزری ہے‘ گناہوں میں بسر ہوئی ہے اسے تُو معاف فرما دے۔ اب مَیں ازسر نو تجھ سے عہد کر رہا ہوں‘ پورے خلوص و اخلاص کے ساتھ‘ پورے عزم کے ساتھ کہ اب تیرے حکم کے خلاف نہیں چلوں گا اور تیری مرضی کے مطابق زندگی بسر کروں گا ۔ تو نے جو کرنے کو فرمایا ہے وہ کروں گا اور جس سے بچنے کا حکم دیا ہے اس سے بچوں گا۔ تجھ پر ایمان پختہ رکھوں گا۔
ربّ اور بندے کا تعلق دو طرفہ ہے!
چنانچہ اس آیت کا اگلا حصّہ یہی ہے جو اس وقت مَیں نے عرض کیا ہے : {فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ}’’انہیں بھی توچاہیے کہ میرا کہنا مانیں۔‘‘یک طرفہ معاملہ نہیں چلے گا کہ تم مجھ سے اپنی منواناچاہو اور میری مانو نہیں۔ مجھے اپنی احتیاجیں سنانا چاہو اور میری بات سنو ہی نہیں۔ مجھ سے تم چاہو کہ مَیں تمہاری مدد کروں جبکہ تم میرے دشمنوں کی مدد کرو اور ان کے ساتھ سازباز کرو۔ تم میرے باغیوں کے ساتھ وفاداری کا رشتہ استوار کرو اور میرے نافرمانوں کے نقش قدم کو اپنے لیے نشانِ راہ بنائو ۔یہ نہیں ہو گا‘ بلکہ دو طرفہ معاملہ ہوگا : {فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ} (البقرۃ:۱۵۲)’’تم مجھے یاد رکھو‘ مَیں تمہیں یاد رکھوں گا۔‘‘ {اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ(۷)} (محمد)’’اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گااور تمہارے قدم جما دے گا ۔‘‘ اللہ کی مدد کیا ہے؟ یہ دراصل اُس کے دین کی خدمت ہے۔ اس کے دین کی اقامت کے لیے تن من دھن لگانا! اللہ ہم سے روزی نہیں چاہتا۔ سورئہ طٰہٰ میں نبی اکرمﷺ کی وساطت سے نوعِ انسان سے فرمایا گیا: { لَانَسْئَلُکَ رِزْقًاط نَحْنُ نَرْزُقُکَ ط} (آیت۱۳۲) ’’(اے نبیﷺ!) ہم آپ سے روزی طلب نہیں کرتے‘ بلکہ ہم آپ کو رزق دیتے ہیں۔‘‘سورۃ الذاریات میں یہ اٹل بات فرما دی: {وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶)}’’اور مَیںنے جنوں اور انسانوں کو نہیں پیدا کیا مگر اسی لیے کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘{مَآ اُرِیْدُ مِنْھُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ(۵۷)} ’’مَیں ان (جِن و انس) سے رزق کا خواہاں نہیں ہوں اور نہ اس کا خواہاں ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں‘ پلائیں‘‘ {اِنَّ اللہَ ھُوَ الرَّزَّاقُ ذُوالْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ (۵۸)}’’تحقیق اللہ تو خود ہی رزّاق ہے (روزی رساں ہے) بڑی قوت والا ہے‘ بڑا زبردست ہے۔‘‘ ہاںاُس کے دین کا جھنڈا اٹھائو۔ اس کو سربلند کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائو تو پھر جو دُعا کرو گے اسے ہم قبول کریں گے۔ تمہاری جو پکار ہو گی اس پر ہمیں موجود پائو گے۔
ایک حدیث شریف میں یہاں تک الفاظ آئے ہیں: ((اِحْفَظِ اللہَ تَجِدْہُ اَمَامَکَ))(رواہ احمد)’’تم اللہ کو یاد کرو تو اُسے اپنے سامنے موجود پائو گے۔‘‘ وہ کہیں دور ہے ہی نہیں۔ سورئہ قٓ میں فرمایا : {نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ(۱۶)}’’ہم تو انسان کی رگِ جان سے بھی زیادہ اُس کے قریب ہیں۔‘‘سورۃ الحدید میں فرمایا: {ھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ ۭ} (آیت۴) ’’وہ (اللہ) تمہارے ساتھ موجود ہوتا ہے جہاں کہیں بھی تم ہوتے ہو۔‘‘ یہ تو تمہاری بے التفاتی اور عدم توجہی ہے کہ ہماری طرف رخ نہیں کرتے۔ تمہارے دل کے سنگھاسن پر ہماری محبّت کے بجائے کسی اور کی محبّت براجمان ہے۔ تمہارے دل پر تو حب ِجاہ‘ حب ِشہرت اور زر ‘ زمین اور زن کی محبتوں نے ڈیرے جما رکھے ہیں۔ اگر دل کو ان محبتوں سے پاک کر کے میری محبّت سے آباد کر لو تو جہاں تم ہو‘وہاں مَیں ہوں۔ حدیث قدسی میں یہاں تک الفاظ آتے ہیں کہ پھر ایک مقام وہ بھی آتا ہے کہ مَیں اپنے بندے کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے‘ مَیں اپنے بندے کے پائوں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے‘ مَیں اپنے بندے کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے‘ مَیں اپنے بندے کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے۔
ربّ کی پکارپر لبیک کہو!
{اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ}(آیت ۱۸۶) ’’مَیں تو ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں۔‘‘ اجابت اور استجابت کے معنی قبول کرنے کے بھی ہیں۔ سورۃ الشوریٰ میں آپ کو یہ آیت ملے گی: {اِسْتَجِیْبُوْا لِرَبِّکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَہٗ مِنَ اللہِ ۭ مَا لَکُمْ مِّنْ مَّلْجَاٍ یَّوْمَئِذٍ وَّمَا لَکُمْ مِّنْ نَّکِیْرٍ(۴۷)}’’اپنے رب کی پکار پر لبیک کہو‘اس سے پہلے کہ اللہ کی طرف سے وہ دن آن دھمکے جسے لوٹایا نہ جا سکے گا۔ اس دن نہ کوئی تمہارا پشت پناہ ہوگا اور نہ ہی تمہاری طرف سے کوئی انکار کرنے والا ہو گا۔‘‘اس آیت مبارکہ سے ثابت ہو گیا کہ استجابت کے معنی ’’قبول کرنا‘‘ ہیں۔ {اِسْتَجِیْبُوْا لِرَبِّکُمْ}’’لبیک کہو اپنے رب کی پکار پر‘ مانو اپنے رب کے مطالبہ کو۔‘‘ سورۃ البقرۃ کی زیر گفتگو آیت میں فرمایا: {فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ}’’ان کو بھی تو چاہیے کہ میری پکار کو سنیں ‘ میری بات کوقبول کریں۔‘‘
ہمارے رب کی پکار کیا ہے؟ اس کے ضمن میں تین چیزیں خاص طو رپر گن لیجیے۔ پہلی پکار ہے: { اُعْبُدُوْا رَبَّکُمْ}(البقرۃ:۲۱) ’’اپنے رب کی بندگی کرو۔‘‘ ہمہ تن اللہ کے بندے بن جائو اور پورے وجود کے ساتھ اس کے سامنے جھک جائو‘ یعنی: {اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص} (البقرۃ:۲۰۸) ’’اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائو۔‘‘ اسلام میں جزوی داخلہ اللہ کو قبول نہیں ہے۔ آنا ہے تو پورے آئو‘ ورنہ دور ہو جائو۔ہماری کوئی احتیاج نہیں ہے‘ احتیاج تمہاری ہے۔
دوسری پکار یہ ہے کہ ہماری وہ امانت تمہارے پاس ہے جو ہم نے پہلے عطا کی تھی اپنے محبوب بندے محمدﷺ کو۔انہوںؑ نے اس امانت کا حق ادا کر دیا‘ اسے تم تک پہنچا دیا۔ انہوںؑ نے حق تبلیغ ادا کر دیا اور اس دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے گواہی لے گئے:((اَلَا ھَلْ بَلَّغْتُ؟)) سوالاکھ کے مجمع نے حجۃ الوداع میں اقرار کیا: اِنَّا نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَ اَدَّیْتَ وَنَصَحْتَ! ’’بے شک (حضورﷺ)! ہم گواہ ہیں کہ آپؐ نے حق ِتبلیغ ادا فرما دیا ‘ آپؐ نے حق ِامانت ادا فرما دیا اور آپؐ نے حق ِنصیحت ادا فرما دیا۔‘‘یہ گواہی لے کر آپؐ نے ارشاد فرمایا: ((فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ))۔اب یہ ذمہ داری میرے کاندھوں سے اتر کر تمہارے کاندھوں پر آ گئی ہے‘ لہٰذا اب جو یہاں موجود ہیں پہنچائیں ان کو جو موجود نہیں ہیں! اس لیے کہ میری رسالت صرف تمہارے لیے نہیں ہے بلکہ پوری دنیا اور پوری نوعِ انسانی کے لیے ہے۔ ازروئے الفاظِ قرآنی: {وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا} (سبا:۲۸) ’’(اے نبیﷺ!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام انسانوں کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر‘‘۔لہٰذا دوسری پکار یہ ہوئی کہ توحید کی خود بھی گواہی دو اور اس کی دعوت کو عام کرو اور قرآن کے پیغام کو پوری نوعِ بشر تک پہنچائو۔
تیسری پکار یہ ہے کہ میرے دین کو قائم کرو ‘ میرے کلمہ کو سربلند کرو۔ {وَکَبِّرْہُ تَکْبِیْرًا(۱۱۱)}(بنی اسرائیل)اُس کی بڑائی کرو‘ اُس کی بڑائی قائم کرو جیسے کہ بڑائی کی جاتی اور قائم کی جاتی ہے۔ وہ نظام بالفعل قائم اور نافذ کرو جس میں
’Supreme Authority‘صرف اللہ کو تسلیم کیا جائے۔ اُسی کا دین قائم اور غالب ہوجائے اور اس سے اوپر کوئی نہ رہے۔ تیسری پکار یہ ہے کہ اس کام کے لیے اپنے آپ کو لگائو‘ کھپائو اور اپنی صلاحیتوں کو صَرف کرو۔
یہی بات ہے جو آیت ِزیر مطالعہ میں فرمائی جا رہی ہے: {فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ} ’’انہیں بھی چاہیے کہ میری پکار پر لبیک کہیں۔‘‘ {وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ}’’اور مجھ پر ایمان رکھیں‘‘۔یہ ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے جو پونجی درکار ہے ‘ وہ ایمان ہے۔ جس شخص کو اللہ پر ایمان و یقین اور توکّل ہے اور اس کی مدد ونصرت پر بھروسا ہے وہی اللہ کی پکار پر لبیک کہہ سکے گا اور اس کے احکام کی تعمیل کر سکے گا۔ اس آیت مبارکہ کا اختتام ہوتا ہے ان الفاظ پر: {لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ(۱۸۶)}’’تاکہ لوگ رشد و ہدایت کی راہ پر آ جائیں۔‘‘ یعنی روزہ‘ اللہ کی تکبیر‘ اس کا شکر‘ اس سے تعلق‘ اس سے دُعا اور مناجات‘ یہ تمام امور وہ ہیں کہ اگر ایک بندئہ مؤمن ان کا خلوص و اخلاص کے ساتھ اہتمام کرے تو وہ رشد و ہدایت اورفوز و فلاح سے ہمکنار ہوسکتا ہے۔
یہ ہے وہ آیت مبارکہ جس کے ذریعہ سے ہمارے سامنے یہ بات آجاتی ہے کہ دُعا کا روزے اور رمضان کے دوگونہ پروگرام سے کیا تعلق ہے! مَیں رمضان کو اس لیے شامل کر رہا ہوں کہ روزہ تو دن کا ہے اور رات کو درحقیقت رمضان کا خصوصی پروگرام ہے۔ رمضان کیا ہے : {شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ}’’رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے‘‘۔چنانچہ یہ رات کی تراویح‘ یہ رات کا قیام‘ یہ قرآن مجید کا سننا‘ سنانا اوراس کا سمجھنا‘ یہ اصل میں رمضان کا حق ہے۔ روزے تو خواہ کسی مہینے کے فرض ہو جاتے ‘ان کی برکات تو وہی رہتیں‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ دو آتشہ پروگرام بنایا کہ دن کا روزہ ہو اور رات کا قیام تاکہ دونوں کا نتیجہ یہ نکلے کہ تمہارے اندر اپنے رب کے ساتھ قریبی تعلق قائم کرنے کی پیاس اُبھرے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبّت اور اس کی معرفت کا ایک جذبہ دل میں جوش مارے۔ جب یہ کیفیت ہو جائے تو اے نبیﷺ! ان کو میری طرف سے خوشخبری دیجیے کہ مَیں قریب ہی ہوں اور پکارنے والے کی پکار کو قبول کرتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارے۔ پس یہ بھی میری پکار پر لبیک کہیں اور مجھ پر پختہ ایمان رکھیں تاکہ رشد و ہدایت سے ہمکنار ہوں۔
دعا اور عبادت مترادف ہیں!
اس آیت مبارکہ کی اہمیت مَیں مزید چند آیات کے حوالے سے واضح کرنا چاہتا ہوں۔ سورۃ المؤمن کی ایک آیت عام طور پر جمعہ میں خطبہ اوّل کے اختتام پر پڑھی جاتی ہے :
{وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْط اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیْنَ(۶۰)}
یہ اس اعتبار سے بڑی جامع آیت ہے کہ اس میں دُعا اور عبادت کا ہم معنی اور مترادف ہونا بالکل واضح اور ظاہر و باہر ہو جاتا ہے۔ اس آیت مبارکہ کے دو حصے ہیں اور ہمیں ان دونوں حصوں کے مابین ربط و تعلق کوجاننا ہو گا۔ پہلے حصے میں فرمایا:{وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ط}’’اور تمہارے رب نے یہ فرمایا ہےکہ مجھے پکارو مَیں تمہاری دُعا قبول کروں گا۔‘‘ ایک حدیث میں نبی اکرمﷺ نے اس کی بڑی پیاری وضاحت فرمائی ہے: ((اِنَّہٗ مَن لَمْ یَسْأَلِ اللہَ یَغْضَبْ عَلَیْہِ))(رواہ الترمذی) ’’حقیقت یہ ہے کہ جو اللہ سے نہیں مانگتا اللہ اُس سے ناراض ہو جاتا ہے ‘‘۔ دنیا میں اگر کسی سے کچھ مانگا جائے تو بالعموم انسان کو ناگوار ہوتا ہے۔ بڑے سے بڑے سخی کا حال بھی یہ ہوتا ہے کہ آپ نے ایک سوال کیا ‘اس نے پورا کردیا ‘لیکن اگر سوال کا سلسلہ دراز ہوا تو ایک حد تک آ کر اس کے ماتھے پر بھی بل پڑ جائیں گے۔ اس کے برعکس اللہ ربّ العزت کا معاملہ یہ ہے کہ وہ نہ مانگنے سے ناراض ہوتا ہے اور اُس سے جتنا مانگا جائے اتنا ہی وہ خوش ہوتا ہے ‘اور جتنا مانگا جائے صرف اتنا ہی نہیں بلکہ بے حساب دیتا ہے۔ آپ اللہ سے دُعا کرتے ہیں‘ اس سے مانگتے ہیں تو اس لیے کہ آپ کو یقین ہوتا ہے کہ وہ آپ کی دُعا سنتا ہے‘ آپ کی تکلیف کو رفع کر سکتا ہے‘ آپ کی احتیاج کو پورا کر سکتا ہے ۔ اس طرح آپ کی طرف سے اللہ کے سمیع ہونے اور اس کے عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ہونے کے یقین کا اقرار و اظہار ہوتا ہے۔ یہی چیزیں درحقیقت ایمان کا لب ِلبا ب ہیں۔
اگر ہماری شخصیتیں مسخ ہو گئی ہوں اور ہمارے اخلاقی تصوّر میں فساد پیدا ہو گیا ہو تو یہ بات دوسری ہے‘ ورنہ آپ سوچیے کہ اگر کوئی شریف شخص کسی سے کوئی درخواست کرے کہ میرا یہ کام کر دیجیے اور وہ اس کام کو کر دے توکیا وہ یہ نہیں سمجھے گا کہ اگر اس نے میری کوئی تکلیف رفع کی ہے یا میری کوئی ضرورت پوری کی ہے اور آڑے وقت میں میرا ساتھ دیا ہے تو مجھ پر بھی اس کا کوئی حق قائم ہو گیا ہے! ہر شریف اور بامروّت انسان کا یہ ردّ ِعمل لازمی ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر آپ اللہ سے دُعا کریں گے‘ اس کی استعانت کے طالب ہوں گے تو اگر آپ کی شخصیت مسخ نہ ہوئی ہو تو خود بخود آپ کے دل میں یہ جذبہ اُبھرے گا کہ آپ اپنے محسن کے شکر گزار بنیں۔ چنانچہ دُعا کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا چاہیے کہ آپ میں عبدیت پیدا ہو۔ آپ یہ سمجھیں کہ آپ پر اللہ کا یہ حق ہے کہ آپ اس کا ہر حکم تسلیم کریں۔ چونکہ آپ اس سے دُعا کر رہے ہیں‘ اس سے حاجت روائی اور مشکل کشائی کی استدُعا کر رہے ہیں لہٰذا اس کا معقول‘ فطری اور منطقی تقاضا یہ ہے کہ آپ اس کی بندگی اختیار کریں۔ چنانچہ آیت مبارکہ کے اس حصّہ کا دوسرے حصّہ سے نہایت گہرا ربط و تعلق قائم ہو گیا ہے۔
اس ربط کی تفہیم کے لیے ہم پوری آیت مبارکہ کا دوبارہ مطالعہ کرتے ہیں: {وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ط اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیْنَ(۶۰)}’’اور تمہارے رب نے کہا ہے کہ تم مجھے پکارو(مجھ سے دُعا کرو) مَیں تمہاری دُعائوں کو قبول کروں گا۔ یقیناً وہ لوگ جو میری عبادت سے استکبار کرتے ہیں (یعنی تکبّر کی بناـ پر میری بندگی سے منہ موڑتے ہیں) یہی لوگ عنقریب جہنّم میں داخل ہوں گے ذلیل و خوار ہو کر۔ ‘‘آ پ نے دیکھا کہ اس آیۂ مبارکہ میں دُعا اور عبادت کس طرح ایک دوسرے کے مترادف کے طور پر آئے ہیں۔
دُعا درحقیقت اللہ تعالیٰ سے کلام کرنے اور مناجات کرنے کے مظہر کے ساتھ ساتھ اس امر کی بھی دلیل ہے کہ آپ اُسے حاضر و ناظر تسلیم کرتے ہیں۔ اُسے القَدِیر سمجھتے ہیں‘ اُسے السَّمِیع جانتے ہیں‘ اُسے مشکل کشا اور حاجت روا مانتے ہیں‘ اُسے الرَّحْمٰن الرَّحِیْم تسلیم کرتے ہیں‘ اُسے فریاد رس اور عادل و منصف سمجھتے ہیں۔ علّامہ اقبال کے تیسرے لیکچر کا عنوان ہے :

’’The Conception of God and the Meaning of Prayer‘‘

ان کے لیکچرز کی زبان خاصی مشکل ہے لیکن یہ لیکچر نسبتاً آسان ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’دُعا کا اصل مفہوم یہ ہےکہ ہماری انائے صغیر اُس انائے کبیر کے روبرو ہو جائے‘ہم اللہ سے خطاب کرر ہے ہوں۔‘‘ ایک ہے غائبانہ ذکر یا passive ذکر‘ جیسے ہم سبحان اللہ‘ الحمد للہ اور اللہ اکبر کا ورد کرتے ہیں۔ یہ بھی اللہ کا ذکر ہے لیکن اس میں اس سے خطاب نہیں ہے۔ اس میں مکالمہ اور مخاطبہ والی بات نہیںہے۔ البتہ جب آپ کہتے ہیں : {اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ  }’’اے اللہ! ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور کریں گے اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں اور مانگیں گے‘‘ تو اس میں اللہ سے خطاب ہے۔ یہاں ہماری انائے صغیر (finite علیہما السلامgo) روبرو آجاتی ہے انائے کبیر (Infinite Ego) کے۔ یہ جو بالمشافہہ بات ہو رہی ہے ‘ یہ درحقیقت فکر کی معراج (climax) ہے۔ یہ active ذکر ہے۔ اس میں اللہ کو مخاطب کر کے اس کو یاد کیا جارہا ہے ۔
اللہ سے کیا مانگا جائے؟
دُعا کے ضمن میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے رب سے کن چیزوں کی دُعا کرنی چاہیے۔ اختصار سے عرض کرتا ہوں کہ اس کے بارے میں ایک طرف تو نبی اکرمﷺ نے ہمیں یہاں تک تلقین فرمائی ہے کہ اگر جوتی کا تسمہ بھی درکار ہو تو اللہ سے مانگو۔ یعنی یہ کہ حقیر سے حقیر شے بھی اللہ ہی سے مانگو اور بڑی سے بڑی شے بھی اُسی سے مانگو۔ اس طرحگویا تلقین فرمائی جا رہی ہے کہ کسی اور سے کچھ نہ مانگو۔ تمہارے لیے اتنی بڑی بارگاہ کھلی ہوئی ہے‘ یہاںسے کیوں نہیں مانگتے؟تمام انسانوں کے دل اللہ تعالیٰ کی انگلیوں کے مابین ہیں۔ وہ تمہاری ضرورت جس کے ذریعے سے چاہے گا ‘پوری کر دے گا۔ تم کیوں اپنے جیسے انسان کے سامنے دست ِسوال دراز کر کے اپنی انسانیت کو رسوا کرتے ہو؟ آپ نے کسی اور کے سامنے ہاتھ پھیلایا تو گویا اپنی عزّتِ نفس کا دھیلا کر دیا۔ لہٰذا جو کچھ بھی مانگنا ہو‘ اللہ سے مانگو۔ کوئی چیز اس کے دائرئہ اختیار سے باہر نہیں ہے۔
سورۃ الکہف میں دویتیم بچوں کے مکان کی دیوار کا ذکر آیا ہے جو بوسیدگی کی وجہ سے گر رہی تھی۔ ان کے والدین نیکوکار تھے۔ انہوں نے کچھ پونجی اپنے یتیم بچوں کے لیے اس دیوار کے نیچے گاڑی ہوئی تھی تاکہ بچے جب بڑے ہو جائیں تو ان کے کام آئے۔ وہ دیوار گرا چاہتی تھی کہ اس کو بچانے کے لیے حضرت خضر پہنچ گئے۔ اللہ تعالیٰ کے نظام میں اللہ کے احکام کی تنفیذ کرنے والے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے محافظت کرنے والے نہ معلوم کہاں کہاں موجود ہیں‘ ہم تو جانتے تک نہیں۔ {وَمَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ اِلَّا ھُوَ ۭ} (المدثر:۳۱)’’تمہارےرب کے لشکروں کو کوئی نہیں جانتا سوائے اُس کے۔‘‘وہ جس کے ذریعے سے چاہے گا ‘تمہاری ضرورت کو پورا کرا دے گا۔ لہٰذا کسی سے کچھ نہ مانگو اور جو کچھ مانگنا ہے اُسی سے مانگو۔
جیسے معرفت اور ہدایت کے مختلف درجے ہیں : {لَتَرْکَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ(۱۹)} (الانشقاق)’’البتہ تم کو چڑھنا ہے سیڑھی پر سیڑھی۔‘‘ یہ تو ایک ایسا مسلسل عمل ہے کہ آپ کبھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ آج مجھے کُل ہدایت حاصل ہو گئی‘ اسی طرح دُعا کے بھی درجات ہیں۔ دُعا کے ضمن میں بلند ترین درجہ یہ ہے کہ اللہ سے کچھ نہ مانگو سوائے ہدایت اور استقامت کے ۔ دُنیا کی کوئی شےاللہ سے نہ مانگو‘اس لیے کہ تمہیں کیا پتہ کہ جو کچھ تم اللہ سے مانگ رہے ہو‘ وہ حقیقت میں تمہارے لیے خیر ہے یا شر ہے۔ وہ جانتا ہے‘ تم نہیں جانتے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ ۚ وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّھُوَ شَرٌّ لَّکُمْ ۭ وَاللہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۲۱۲)} (البقرۃ)یعنی ہو سکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناپسند ہو اور تم اللہ سے اسے اپنے سے دور کر دینے کی دُعا کرو ‘حالانکہ اسی میں تمہارے لیے خیر ہو‘ اور ہو سکتا ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرتے ہو اور اس کے حصول کے لیے اللہ کے حضور گڑگڑا کر اور ماتھا رگڑ کر دُعا کرتے رہو اور حقیقت میں وہی چیز تمہار ےلیے موجب ِشر ہو۔ اللہ جانتا ہے ‘ تم نہیں جانتے۔ پھر سورئہ بنی اسرائیل میں فرمایا:{وَیَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاۗءَہٗ بِالْخَیْرِ ۭ وَکَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا(۱۱)}’’اور انسان خیر مانگتے مانگتے اپنے لیے شر مانگ بیٹھتا ہے‘ چونکہ انسان جلد باز ہے۔‘‘انسان حقیقت کو نہیں دیکھتا جبکہ اللہ تعالیٰ حقیقت کو دیکھتا ہے۔ لہٰذااس سے مانگنے کی اصل چیز ہے ہدایت۔ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ’’اے اللہ‘ اے ہمارے رب! ہمیں سیدھے راستہ کی ہدایت عطا فرما۔‘‘
((اَللّٰھُمَّ اھْدِنَا فِیْمَنْ ھَدَیْتَ‘ وَعَافِنَا فِیْمَنْ عَافَیْتَ‘ وَتَوَلَّنَا فِیْمَنْ تَوَلَّیْتَ‘ وَبَارِکْ لَنَا فِیْمَا اَعْطَیْتَ‘ وَقِنَا شَرَّ مَا قَضَیْتَ‘ فَاِنَّکَ تَقْضِیْ وَلَا یُقْضٰی عَلَیْکَ‘ اِنَّہٗ لَا یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ‘ وَلَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ‘ تَبَارَکْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَیْتَ‘ نَسْتَغْفِرُکَ وَنَتُوْبُ اِلَیْکَ))
(حدیث میں آتا ہے کہ یہ دُعا نبی اکرمﷺ نے حضرت حسن بن علی iکو صلوٰۃ الوتر میں پڑھنے کی خاص طورپر تلقین فرمائی تھی۔ بحوالہ ترمذی‘ ابودائود‘ نسائی‘ ابن ماجہ)
’’اے اللہ! تُو ہماری رہبری فرما ان لوگوں میں جن کی تُو نے رہبری کی ہے‘ اور ہمیں عافیت دے ان لوگوں میں جن کو تُو نے عافیت دی ہے‘ اور ہمیں دوست بنا لے ان لوگوں میں جن کو تُو نے دوست بنالیا ہے‘ اور ہمیں برکت دے اس چیز میں جو تُو نے ہمیں عطا کی ہے ‘اور ہمیں ہر اُس برائی سے بچا لے جو تُو نے مقدّر کررکھی ہے‘ کیونکہ تُو ہی فیصلہ کرتا ہے اور تیرے خلاف فیصلہ نہیں کیاجا سکتا۔ واقعہ یہ ہے کہ جس کا تُو دوست بن جائے وہ ذلیل نہیں ہو سکتا اور جس سے تُو دشمنی کرے وہ معزز نہیںہو سکتا۔ اے ہمارے رب! تُو برکت والا ہے اور بلند و برتر ہے۔ ہم تجھ سے مغفرت چاہتے ہیں اور ہم تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیں۔‘‘
پھر اللہ تعالیٰ سے استقامت طلب کی جائے:
((اَللّٰھُمَّ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قُلُوْبَنَا عَلٰی دِیْنِکَ‘ وَیَا مُصَرِّفَ الْقُلُوْبِ صَرِّفْ قُلُوْبَنَا عَلٰی طَاعَتِکَ))
’’اے دلوں کو الٹ پلٹ کرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنے دین پر جمائے رکھنا۔ اور اے دلوں کو پھیرنے والے! ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طر ف پھیر دے۔‘‘ (آمین!)
پھر اللہ ربّ العزت سے ہدایت میں افزونی اور علم میں اضافہ کی دُعا کیجیے۔ سورئہ طٰہٰ میں اللہ تعالیٰ نبی اکرمﷺ سے فرماتا ہے : {وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا(۱۱۴)} ’’اور (اے نبیﷺ!) کہا کیجیے کہ اے میرے رب‘ میرے علم میں اضافہ فرما !‘‘اللہ تعالیٰ سے علم نافع کی دُعا کیجیے۔ نماز میں سلام پھیرنے کے بعد حضورﷺ جو دُعائیںمانگا کرتے تھے ‘ اس میں یہ دُعا بھی ہوتی تھی: ((اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ عِلْمًا نَّافِعًا وَّرِزْقًا طَیِّبًا وَّعَمَلًا مُّتَقَبَّلًا))’’اے اللہ! مَیں تجھ سے سوال کرتا ہوں نفع دینے والے علم اور پاک اور حلال روزی اور مقبول ہونے والے عمل کا ۔‘‘ اور اللہ سے مانگنے کی چیز ہے فہم و فراست۔ جیسے روایات میں ایک دُعا منقول ہے : ((اَللّٰھُمَّ اَرِنِیْ حَقِیْقَۃَ الْاَشْیَاءِ کَمَا ھِیَ)) ’’اے اللہ! مجھے اشیاء کی حقیقت دکھا جیسی کہ فی الواقع وہ ہیں۔‘‘ظاہر تو سب ہی دیکھ رہے ہیں لیکن مجھے ہر شے کی اصل حقیقت پر مطلع فرما! اقبال نے کیا خوب کہا ہے ؎
اے اہل نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا !
تو اللہ سے وہ نظر مانگیے جو اشیاء کی حقیقت تک پہنچے۔ اس دُعا کو حرزِ جان بنایئے :
{رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً ۚ اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ(۸)} (آل عمران)
’’اے رب ہمارے! ہمارے دلوں کو ٹیڑھا مت کردینا اس کے بعد کہ تُو ہمیں ہدایت دے چکا اور ہم کو اپنے خاص خزانۂ فضل سے رحمت عنایت فرما۔ بے شک تُو ہی ہے سب کچھ دینے والا۔‘‘
اب ایک راز کی بات سمجھ لیجیے۔ انسان معرفت ِالٰہی میں جتنا بڑھتا چلا جائے گا ‘ اتنا ہی اس کی دُعا کا دائرہ محدود ہوتا چلا جائے گا اور وہ اپنی طلب کو ایک نکتے پر مرکوز کرتا چلا جائے گا۔ یعنی یہ کہ اللہ سے کیا دولت مانگے‘ کیا اولاد مانگے‘ کیا دنیا کی کوئی چیز مانگے! ہمیں کیا پتہ کہ وہ ہمارے حق میں خیر ہے یا شر!
دُعا کے باب میں اوّلیت پرتو وہ دُعا رہ جائے گی جس کا نام دُعائے استخارہ ہے۔ صحابہ کرامؓ کا کہنا ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ہمیں یہ دُعا ایسے سکھائی اور تلقین فرمائی جیسے قرآن مجید کی سورتیں سکھاتے اور تلقین فرماتے تھے۔ وہ دُعا یہ ہے :
((اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَاسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَاسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ ‘ فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا اَقْدِرُ وَتَعْلَمُ وَلَا اَعْلَمُ وَاَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ‘ اَللّٰھُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ھٰذَا لْاَمْرَ خَیْرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ اَمْرِیْ فَاقْدُرْہُ لِیْ وَیَسِّرْہُ لِیْ ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہ ‘ وَاِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ھٰذَا الْاَمْرَ شَرٌّ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ اَمْرِیْ فَاَصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنیْ عَنْہُ ‘ وَاقْدُرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِیْ بِہٖ)) (رواہ البخاری)

’’اے اللہ! مَیں تیرے علم کے ذریعہ سے بھلائی مانگتا ہوں اور تیری قدرت کے ذریعہ سے قدرت چاہتا ہوں۔ اور مانگتا ہوں تیرے فضل عظیم سے۔ کیونکہ بالیقین تُو ہی قادر ہے ‘مَیں قادر نہیں ہوں اور تُو ہی جانتا ہے ‘ مَیں نہیں جانتا۔ اورتُو ہی علّام الغیوب ہے۔ اے میرے اللہ! اگر تُو جانتا ہے کہ یہ کام میرے دین‘ میری معاش اور انجام کار کے اعتبار سے میرے لیے اچھا ہے تو اسے تُو میرے قابو میں کر دے اور اس کو میرے لیے آسان بنا دے‘ پھر اس میں میرے لیے برکت عطا فرما۔ اور اگر تیرے علم کامل میں یہ کام میرے لیے دین و دنیا اور انجام کار کے اعتبار سے شر ہے تو اس کام کو مجھ سے پھیر دے اور مجھے اس سے پھیر دے‘ اورمیرے لیے بھلائی مقرر فرما دے جہاں کہیں بھی وہ ہو‘ اور پھر مجھے اس پر راضی فرما دے۔‘‘
ہدایت اور معرفت کی طرح دُعا کے بھی درجے ہیں۔ چنانچہ اصولی بات تو یہ ہو گی کہ اگر مانگنا ہی ہے تو اللہ سے مانگو‘ یہاں تک کہ جوتی کا تسمہ تک اسی سے مانگو۔ البتہ اللہ سے مانگنے کی اعلیٰ و ارفع چیزیں دوسری ہیں۔ توپ سے مکھیاں نہیں مارا کرتے۔ دُعا ایک بہت بڑی توپ ہے۔ اس سے بڑی شے کا شکار کرو‘ اس کے ذریعے یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں کیا مانگ رہے ہو! دنیا کی حقیر چیزیں مانگ کر تم نے دُعا جیسی مؤثر شے ان پر صَرف کر دی۔ دُعا تو اعلیٰ و ارفع چیزوں کے لیے ہونی چاہیے۔ وہ ہدایت کے لیے ہو‘ دین کے علم اور اس کے فہم کےلیے ہو اور دین پر عمل پیرا ہونے اور اس پر استقامت و ثبات کے لیے ہونی چاہیے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے یہ توفیق طلب کرنی چاہیے کہ اپنا تن من دھن اس کے دین کی سرفرازی و سربلندی کے لیے لگا دیا جائے۔ اس سے اس کے دین کا جھنڈا سربلند کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دینے کی ہمت طلب کی جائے۔ اللہ تعالیٰ سے شہادت کی موت مانگیے‘ اس لیے کہ خود حضرت محمد رسول اللہﷺ نے یہ آرزو کی ہے:
((وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ‘ لَوَدِدْتُ اَنِّیْ اَغْزُوْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ فَاُقْتَلُ‘ ثُمَّ اَغْزُوْ فَاُقْتَلُ‘ ثُمَّ اَغْزُوْ فَاُقْتَلُ)) (متفق علیہ)
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ)کی جان ہے !میری یہ تمنّا اور خواہش ہے کہ مَیں اللہ کی راہ میں جنگ کروں اور قتل کر دیا جائوں‘پھر (مجھے زندہ کیا جائے اور) مَیں جنگ کروں اور قتل کر دیا جائوں‘ (پھر مجھے زندہ کیا جائے اور) میںجنگ کروں اور قتل کر دیا جائوں!‘‘
حضورﷺ کا یہ ارشاد گرامی بھی ملاحظہ کیجیے :
((مَنْ مَاتَ وَلَمْ یَغْزُ وَلَمْ یُحَدِّثْ بِہٖ نَفْسَہٗ مَاتَ عَلٰی شُعْبَۃٍ مِّنْ نِفَاقٍ)) (رواہ مسلم)
’’ جو (مسلمان) اس حال میں مرا کہ نہ تو اس نے (اللہ کی راہ میں) جنگ کی اور نہ اس کے دل میں اس کی تمنا ہی پیدا ہوئی‘ اس کی موت نفاق کے ایک شعبہ پر ہوئی۔‘‘
چنانچہ اللہ سے مانگنے کی چیزیں جذبۂ جہاد اور شوق شہادت ہیں۔( صحیح بخاری میں منقول ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓطلب شہادت کے لیے کثرت سے یہ دُعا مانگا کرتے تھے جو قبول بھی ہوئی اور آپؓ مدینۃ النبیﷺ میں ایک مجوسی غلام کے ہاتھوں شہید ہوئے: اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ شَھَادَۃً فِیْ سَبِیْلِکَ وَاجْعَلْ مَوْتِیْ فِیْ بَلَدِ رَسُوْلِکَ ﷺ ’’اے اللہ! تُو مجھے اپنے راستہ میں شہادت کی موت عطا فرما اور میری موت تیرے رسولﷺ کے شہر میں واقع ہو‘‘۔ مرتّب)
’’دعا ہی اصل عبادت ہے!‘‘
گفتگو سورۃ المؤمن کی آیت۶۰پر چل رہی تھی جس سے واضح ہوتا ہے کہ دُعا اور عبادت ہم معنی اور ہم مفہوم ہیں۔ اب سورئہ مریم کی چند آیات ملاحظہ کیجیے ۔ ان میں بھی دُعا اور عبادت کو ہم معنی اور مترادف کے طور پر لایا گیا ہے۔ گویا دُعا اور عبادت ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں۔ ان آیات کا پس منظر یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیمؑنے اپنے والد کو دعوتِ توحید دی جو اپنے ملک کے مشرکانہ نظامِ حکومت میں ایک بڑے عہدے پر فائز تھے‘ خود بت تراش بھی تھے اور سب سے بڑے مندر کے پروہت بھی‘ تو باپ نے نہایت سختی سے انہیں جھڑک دیا اور حکم دیا کہ فوراً میرے گھر سے نکل جائو‘ ورنہ میں تم کو سنگسار کر دوں گا۔ اس پر حضرت ابراہیمؑ نے اپنے گھر کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہا اور اس موقع پر آنجنابؑ نے جو الوداعی کلمات کہے ‘ ان کو اللہ تعالیٰ نے سورئہ مریم میں بایں الفاظ بیان فرمایا ہے:
{قَالَ سَلٰمٌ عَلَیْکَ ۚ سَاَسْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیْ ۭ اِنَّہٗ کَانَ بِیْ حَفِیًّا(۴۷) وَاَعْتَزِلُکُمْ وَمَا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ وَاَدْعُوْا رَبِّیْ ڮ عَسٰٓی اَلَّآ اَکُوْنَ بِدُعَاۗءِ رَبِّیْ شَقِیًّا(۴۸) فَلَمَّا اعْتَزَلَھُمْ وَمَا یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ ۙ وَھَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ ۭ وَکُلًّا جَعَلْنَا نَبِیًّا(۴۹)وَ وَھَبْنَا لَھُمْ مِّنْ رَّحْمَتِنَا وَجَعَلْنَا لَھُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِیًّا(۵۰)}
’’(باپ کی جھڑکی اور اظہارِ غیظ و غضب کے بعد حضرت ابراہیمؑ نے کہا:) اچھا تو آپ کو میراسلام!(مَیں الگ ہو جاتا ہوں‘ پھر بھی) مَیں اپنے رب سے آپ کی مغفرت کی دُعا کروں گا‘ بے شک وہ مجھ پر بڑا ہی مہربان ہے۔ مَیں آپ لوگوں سے بھی کنارہ کرتا ہوں اور ان(ہستیوں) سے بھی جنہیں آپ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں‘ مَیں تو اپنے رب ہی کو پکاروں گا‘ اُمید ہے کہ مَیں اپنے رب کو پکار کر محروم نہ رہوں گا۔ پھر جب ابراہیم ؑ ان لوگوں سے اور ان(بتوں) سے جنہیں وہ اللہ کے سوا پوجا کرتے تھے کنارہ کش ہو گیا تو ہم نے اسے اسحٰق اور (اسحٰق کا بیٹا)یعقوب عطا فرمایا ‘اور ہر ایک کو نبی بنایا۔ اور ہم نے ان کو اپنی رحمت سے نوازا اور ان کو سچی ناموری عطا کی۔‘‘
ان آیات سے بھی یہ بات مزید مؤکدہو گئی کہ دُعا اور عبادت ہم معنی ہیں۔ جس کو تم نے واقعتاً اپنا معبود مانا ہے‘ اسی سے دُعا کرو گے‘ اسی کو حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے پکارو گے‘ اسی سے فریاد کرو گے اور اسی کی دہائی دو گے۔
مَیں نے اس موقع پر سورۃ المؤمن کی ایک‘ اور سورئہ مریم کی چار آیات کے حوالے سے دُعا اور عبادت کا جو ربط و تعلق بیان کیا ہے‘ بعینہٖ یہی نقشہ ہے سورۃ الفاتحہ کی مرکزی آیت کا۔ سورۃ الفاتحہ کی سات آیتیں ہیں‘ پہلی تین میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور تمجید ہے۔
{اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ  الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ  مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ}
چوتھی آیت مرکزی آیت ہے:{اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ} ’’(اے رب!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور کریں گے اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور مانگیں گے‘‘۔(عربی زبان میں فعل مضارع میںزمانہ حال اورزمانہ مستقبل دونوں شامل ہوتے ہیں۔مرتّب)استعانت کے معنی ہیں مدد مانگنا۔ استعانت‘ استد عا‘ استمداد‘ استنصار اور استغاثہ عربی مبین کے ایسے الفاظ ہیں جن سب میں مدد مانگنے کا مفہوم مشترک ہے اور یہ دُعا ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔ یہ ساری چیزیں درحقیقت صرف اللہ کے لیے ہیں۔ سورۃ الفاتحہ کی مرکزی آیت میں دو چیزیں عبادت و استعانت بالکل یک جان ہو گئیں۔ {اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ}
احادیث ِنبوی ؐ حکمت ِقرآنی کا عظیم ترین خزانہ ہے۔ قرآن حکیم کا لب لباب اور جوہر رسول اللہ ﷺ کے چھوٹے چھوٹے ارشادات اور فرمودات میں مل جائے گا‘ بالکل سمندر کو کوزے میں بند کرنے کےمصداق۔ آپﷺ نے فرمایا : ((اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃُ))(سنن الترمذی‘ عن انس بن مالکؓ)’’دُعا عبادت کا مغز ہے۔‘‘ لفظ’’مُـخّ‘‘ میں مغز کے علاوہ گودا‘ جوہر اور لب لباب کے مفاہیم بھی موجود ہیں۔ دوسری حدیث میں تو یہ پردہ بھی اٹھا دیا گیا‘ ارشاد فرمایا: ((اَلدُّعَاءُ ھُوَ الْعِبَادَۃُ))(سنن الترمذی‘ عن النعمان بن بشیرؓ) ’’دُعا ہی اصل عبادت ہے۔‘‘ جس سے تم دُعا کر رہے ہووہی تمہارا معبود ہے۔ اگر اللہ کے سوا کسی اور کو پکارا ہے تو وہی آپ کا معبود ہے‘ چاہے آپ زبان سے کہہ رہے ہوں لَا الٰہ اِلَّا اللہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی اور کو معبود نہیں مانتے! لیکن اگر آپ نے کہا’’یا علی مدد‘‘ تو آپ نے علی ؓ کو اپنا معبود بنا لیا۔ آپ حضرت علیؓ کی پرستش اور بندگی کر رہے ہیں‘چاہے آپ اس کا اقرار کریں‘ چاہے نہ کریں۔ توحید کا تقاضا یہی ہے کہ استدعا‘ استعانت‘ استمداد‘استنصار‘ استغاثہ صرف اللہ کے ساتھ مخصوص ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی دُعائوں کو صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات بابرکات کے لیے خالص کر لیں۔
دعا کی قبولیت کے مختلف انداز
دُعا کے ضمن میں ایک عملی بات یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ کے ارشاد کے مطابق کوئی دُعا کبھی بیکار یا رائیگاں نہیں جاتی۔ دُعا ہمیشہ قبول ہوتی ہے لیکن اس کی مقبولیت کی تین مختلف شکلیں ہیں۔ پہلی یہ کہ بندہ اللہ تعالیٰ سے جو چیز مانگتا ہے وہ اگر اللہ تعالیٰ کے علم کامل میں اس کے لیے خیر ہے تووہ اسے وہی چیز عطا فرما دیتا ہے۔دوسری شکل یہ ہے کہ اگر اللہ کے علم کامل میں یہ ہے کہ میرا بندہ لاعلمی میں مجھ سے ایسی چیز مانگ رہا ہے جو اس کے حق میں مفید نہیں ہے‘ جیسے آپ کا بچہ آپ سے چاقو مانگے تو آپ اسے چاقو نہیں دیتے‘اسی طرح اگر اللہ کے علم کے مطابق یہ چیز اس بندے کے حق میں مفید نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں بندے کو وہ چیز عطا فرما دیتا ہے جو اس کے حق میں واقعتاً مفید ہو۔ تیسری شکل یہ ہے کہ اگر اس وقت کوئی شے بھی بندے کو دینا اللہ تعالیٰ کی حکمت ِکاملہ میں نہیں تو اللہ تعالیٰ اس دُعا کو بندے کے لیے توشہ آخرت بنا لیتا ہے۔ آخرت میں وہ دُعا اس بندے کے لیے اجر و ثواب کا ذریعہ بن جائے گی۔

اقول قول ھذا واستغفر اللہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات00