(بیان القرآن) دورۂ ترجمۂ قرآن سُوْرَۃُ الصَّفِّ - ڈاکٹر اسرار احمد

15 /

 

دورۂ ترجمۂ قرآن سُوْرَۃُ الصَّفِّڈاکٹر اسرار احمدتمہیدی کلماتسورۃ الصف اور سورۃ الجمعہ کا آپس میں جوڑے کا تعلق ہے۔ زیر مطالعہ مدنی سورتوں کے گروپ (سورۃ الحدید تا سورۃ التحریم ) کے اندر ان دو سورتوں کی ظاہری مماثلت بہت نمایاں نظر آتی ہیں۔ ان دونوں کا آغاز تسبیح سے ہو رہا ہے اورالمُسَبِّحات میں سے صرف یہی دو سورتیں ہیں جو ترتیب میں اکٹھی ایک ساتھ ہیں۔ باقی تینوں المُسَبِّحات (سورۃ الحدید‘ سورۃ الحشر اور سورۃ التغابن) میں سے کوئی بھی دو سورتیں اکٹھی نہیں ہیں۔
ان دونوں سورتوں کے آغاز میں تسبیح کے صیغے ان کی نسبت ِزوجیت کی نشاندہی بھی کرتے ہیں۔ (دو جنسوں یا دو چیزوں کے مابین نسبت ِزوجیت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بعض پہلوئوں سے ان میں باہم مشابہت ہونے کے علاوہ دونوں ایک دوسرے کے لیے تکمیلی خصوصیت کی حامل ہیں ‘یعنی دونوں مل کر کسی خاص مقصد کی تکمیل کرتی ہیں۔)سورۃ الصف کی پہلی آیت میں تسبیح کے ذکر کے لیے ماضی کا صیغہ (سَبَّحَ لِلہِ …) آیا ہے‘جبکہ سورۃ الجمعہ کے آغاز میں مضارع کا صیغہ (یُسَبِّحُ لِلہِ …) ہے اور فعل مضارع میں زمانہ حال اور زمانہ مستقبل دونوں کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اس طرح ان سورتوں کے آغاز کی آیات میں تینوں زمانے (ماضی ‘ حال اور مستقبل) اکٹھے ہونے سے تسبیح کے دائمی اور ابدی ہونے کا مفہوم پیدا ہو گیا ہے ‘کہ کائنات کی ہر شے اللہ کی تسبیح کر رہی ہے‘ یہ تسبیح ہمیشہ سے ہوتی رہی ہے‘ ہر دم ہو رہی ہے اور ہمیشہ ہوتی رہے گی۔
سورۃ الصف کا مضمون غلبہ ٔدین اور اس کے لیے عملی و انقلابی جدّوجُہد سے متعلق ہے ۔اس اعتبار سے اس سورت کے چار حصے ہیں۔ پہلے تین حصے چار چار آیات پر مشتمل ہیں ‘جبکہ آخری حصے میں دو آیات ہیں۔ پہلی چار آیات کی حیثیت تمہید کی بھی ہے ‘اور ایک اعتبار سے ان میں اصلی پیغام کا خلاصہ بھی آ گیا ہے۔ دوسرے حصے کی چار آیات میں سابقہ اُمّت ِمسلمہ یعنی یہود کے طرزِعمل کا ذکر ہے۔ تیسرے حصے میں بعثت ِمحمدیﷺ کا مقصد بیان ہوا ہے اور اہل ِایمان کو جہاد کی پُرزور دعوت دی گئی ہے‘جبکہ آخری حصے یعنی آخری دو آیات میں اس سورت کے پیغام کو قبول کرنے والے لوگوں کا ذکر ہے کہ دنیا میں بھی ان لوگوں کو فتح و کامرانی سے ہمکنار کیا جائے گا اور آخرت میں بھی انہیں اعلیٰ مدارج و مراتب سے نوازا جائے گا۔
یہاں پر یہ فلسفہ بھی اچھی طرح سے سمجھ لیجیے کہ غلبہ ٔدین ِاسلام کے لیے جہاد یا انقلابی جدّوجُہد کا بنیادی مقصد اور اصل ہدف انسانیت کی فلاح و بہبود ہے۔ انسانی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ’’انسان‘‘ نے بادشاہوں اور سرمایہ داروں کی غلامی میں بہت سختیاں جھیلی ہیں اور اس غلامی کا طوق اپنی گردنوں سے اتار پھینکنے کے لیے قربانیاں بھی بہت دی ہیں۔مگر تاریخ شاہد ہے کہ نادار و محروم عوام اگر کبھی استحصالی طبقے کے ظلم سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے بھی تو وہ ’’آسمان سے گراکھجور میں اٹکا ‘‘کے مصداق پہلے سے بڑے ظالم کے پنجے میں جاپھنسے۔گویا کھجور سے گرکر کسی گہری کھائی میں جا گرے۔ فرانس میں بھوکوں مرتے مظلوم مزدوروں اور کسانوں نے بادشاہوں کی لوٹ کھسوٹ اور عیاشیوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور جانوں کی قربانیاں دیں تو اس کا نتیجہ انقلابِ فرانس کی صورت میں سامنے آیا۔اَن گنت قربانیوں اور خوفناک خونریزی کے نتیجے میں نظام تو بدل گیا لیکن عوام الناس کی مصیبتوں اور محرومیوں کا ازالہ نہ ہو سکا ۔ کہنے کو تو بادشاہت کی جگہ عوام الناس کی اپنی حکومت (جمہوریت) نے لے لی‘ لیکن حقیقت میں وہ سرمایہ داروں کی آمریت ہی کا ایک بہروپ تھا۔ چنانچہ ظالمانہ ٹیکسوں کا سلسلہ جمہوری حکومت کے تحت بھی حسب ِسابق جاری رہااور مزدور کو اس کی محنت کا منصفانہ معاوضہ ملنے کا خواب اس کی ’’اپنی حکومت‘‘ میں بھی شرمندئہ تعبیر نہ ہو سکا۔ البتہ اتنا فرق ضرور پڑا کہ پہلے اس کی خون پسینے کی کمائی پر بادشاہ اور شہزادے عیش کرتے تھے‘ اب ان کی جگہ کارخانہ دار اور سرمایہ دار اس کا خون نچوڑ نچوڑ کر اپنی شام کی محفلوں کو رنگین کرنے لگے۔ علّامہ اقبال نے اس تلخ حقیقت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے : ع ’’خواجہ از خونِ رگِ مزدور سازد لعل ِناب ‘‘کہ سرمایہ دار مزدوروں کی رگوں سے خون نچوڑ کر اپنے لیے سرخ شراب تیّار کرتے ہیں۔دوسری طرف انقلابِ روس کا نتیجہ بھی اس سے مختلف نہیں تھا۔ وہاں کے عوام بھی زار کے آہنی شکنجے سے نکل کر یک جماعتی آمریت (one party dictatorship) کے سنہری پنجرے میں آپھنسے۔ غرض آقا بدلتے رہے‘ نظاموں کے نام بدلتے رہے‘ لیکن نہ بدلی تو مزدور کی قسمت نہ بدلی۔ اس طبقے کی محرومیاں جیسی کل تھیں ویسی ہی آج بھی ہیں۔ کل مزدور کے بچے تخت ِشاہی کے سائے تلے بھوکے سوتے تھے اور آج مزدور کے بچے شجر ِجمہوریت کی چھائوں میں بیٹھ کر روٹی کو ترستے ہیں۔
دراصل یہ مسئلہ کسی ایک طبقے کا مسئلہ نہیں‘ اور نہ ہی یہ کسی ایک ملک کے مزدوروں اور کسانوں کا مسئلہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اجتماعی انصاف کا شفّاف نظام پوری دنیا کی ضرورت ہے جس کی تلاش میں نسل ِانسانی صدیوں سے دربدر ٹھوکریں کھارہی ہے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ مسئلہ اس قدر اہم ہے کہ اُس نے دنیا میں جتنے بھی رسول بھیجے ان سب کا مشن یہی تھا کہ انسانیت کو عدل و قسط کے شفّاف نظام کے ثمرات سے بہرہ ور کیا جائے۔ مَیں عرض کر چکا ہوں کہ سورۃ الحدید کی آیت ۲۵ میں فلسفہ ٔانقلاب عریاں ترین صورت میں موجود ہے: {لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج} ’’ہم نے بھیجا اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں کے ساتھ اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان اُتاری تاکہ لوگ عدل پر قائم ہوں۔‘‘
سورئہ آلِ عمران کی آیت ۱۸ میں اللہ تعالیٰ نے خود اپنے بارے میں بھی فرمایا ہے کہ وہ قسط (عدل) کو قائم کرنے والا {قَـآئِمًا  بِالْقِسْطِ ط}ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بحیثیت ِاُمّت اس دنیا میں جو کردار ادا کرنے کا فریضہ سونپا وہ بھی بنیادی طور پر یہی ہے کہ وہ یہاں عدل و انصاف قائم کریں:{یٰٓــایُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآئَ لِلہِ} (النساء:۱۳۵) ’’اے اہل ِ ایمان! کھڑے ہو جائو پوری قوت کے ساتھ عدل کو قائم کرنے کے لیے اللہ کے گواہ بن کر‘‘ ۔ سورۃ المائدۃ میں یہی حکم الفاظ کی دوسری ترتیب کے ساتھ اس طرح آیا ہے : {یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَـوّٰمِیْنَ لِلہِ شُہَدَآئَ بِالْقِسْطِ ز} (آیت۸) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بن جائو !‘‘
اللہ تعالیٰ کی طرف سے مذکورہ مشن کے ساتھ انبیاء و رسل ؑتو پے در پے آتے رہے اور نسل ِانسانی تک اللہ تعالیٰ کا پیغام بھی پہنچاتے رہے ‘لیکن اس کے باوجود لوگ بار بار گمراہ ہوتے رہے۔ کسی قوم نے جوشِ عقیدت میں اپنے پیغمبر کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دے دیا تو کسی نے اپنے پیغمبر کی باقاعدہ پوجا شروع کر دی‘ لیکن معاشرے کے اجتماعی نظام کو اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کسی نے نہ کی ‘ تاوقتیکہ اجتماعی عدل و قسط کے قیام کا یہ مشن نبی آخر الزماں حضر ت محمدﷺ کو سونپا گیا۔ چنانچہ سورۃ الحدید کی آیت ۲۵ میں ’’رسالت‘‘ کے جس مشن کا ذکر جمع کے صیغے (لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا) میں آیا ہے‘ حضورﷺ کے حوالے سے سورۃ الصف کی اس آیت میںاس کے لیے واحد کا صیغہ استعمال ہوا ہے:{ہُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ}(التوبہ:۳۳‘الفتح:۲۸‘ الصف:۹) ’’وہی تو ہے جس نے بھیجا ہے اپنے رسول ؐکو الہدیٰ اور دین ِحق دے کر تا کہ غالب کردے اسے کل کے کل دین (نظامِ زندگی) پر۔‘‘
بہرحال پوری انسانی تاریخ میں یہ اعزاز صرف اللہ کے آخری رسول حضرت محمد عربیﷺ کو حاصل ہوا کہ آپﷺ نے عرب معاشرے سے ظالمانہ نظام کی بیخ کنی کر کے اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ نظامِ عدل و قسط بالفعل قائم کر دیا ۔گویا آپﷺ نے تمام انبیاء و رسلؑ کے اس مشن کی تکمیل فرما دی جس کا ذکر سورۃ الحدید کی آیت ۲۵ میں آیا ہے اور اسی لیے آپؐ رسولِ کامل ہیں۔ حضورﷺ کے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد پوری دنیا کے حوالے سے نظامِ عدل و قسط کے قیام کا یہ مشن اب آپؐ کی اُمّت کو منتقل ہو چکا ہے ‘جس کے لیے اُمّت کو منظّم اور مسلسل جدّوجُہد کرنی ہے۔
سورۃ الصف اپنے موضوع کے اعتبار سے اس قدر جامع اور پُرتاثیر سورت ہے کہ اگر کسی بندئہ مسلمان کو یہ ایک سورت بھی سمجھ میں آجائے تو اُس کے لیے زندگی کا راستہ بالکل واضح ہو جاتا ہے۔ البتہ جہاد و قتال کے حوالے سے اس سورت کے احکام پر عمل کرنے کے لیے اُسوئہ رسول ؐاور منہج ِ نبویؐ کا اتباع ضروری ہے۔اگر کوئی جماعت منہج ِ نبویؐ کی ترتیب کو پیش نظر رکھے بغیر جوشِ جہاد میں ہتھیار اُٹھا کر میدان میں کود پڑے گی تو اس کا یہ عمل خودکشی کے مترادف ہو گا۔ چنانچہ منہج ِ نبویؐ سے راہنمائی لیتے ہوئے اس کٹھن راستے پر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت مرحلہ وار آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ پہلے مرحلے میں دعوت و تبلیغ کے ذریعے ’’مردانِ کار‘‘ کو جمع کرنا ہوگا۔ ایسے مردانِ کار جو اللہ کی محبّت کے مقابلے میں دُنیوی محبتوں کو تج کر کے واقعتاً آخرت کے طالب بن چکے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا ایک ایک لفظ ان کی روحوں کی گہرائیوں میں جذب ہو چکا ہو:{فَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْ ئٍ فَمَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج وَمَا عِنْدَ اللہِ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ(۳۶)} (الشوریٰ) ’’پس جو کچھ بھی تمہیں دیا گیا ہے وہ دنیا ہی کی زندگی کا ساز وسامان ہے‘ اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ بہتر اور باقی رہنے والا ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیںاور اپنے ربّ پرتوکّل کرتے ہیں‘‘۔ پھر ان مردانِ کار کا تربیت کے ضروری مراحل سے گزرنا اور اپنے لیڈر کے ساتھ سمع و طاعت کے سخت ڈسپلن کے تحت مربوط ہونا بھی ضروری ہے۔ بہرحال جب مذکورہ صفات کے حامل افراد اچھی خاصی تعداد میں اکٹھے ہوجائیں اور تربیت و تنظیم کے ضروری مراحل بھی طے کر چکیں تب ان کے امیر یا لیڈر کو حالات و ماحول کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے اقدام کے مرحلے میں داخل ہونے کا فیصلہ کرنا ہوگا۔
مختصراً یوں سمجھیں کہ منہج ِانقلابِ نبوی ﷺے بنیادی مراحل دو ہیں:تیّاری کا مرحلہ اور تصادم یا ٹکرائو کا مرحلہ۔مَیں نے اپنی کتاب ’’منہج ِانقلابِ نبویؐ‘‘ میں پہلے مرحلے کو منہج ِانقلابِ نبویؐ کا ’’اساسی منہاج‘‘ جبکہ دوسرے مرحلے کو ’’تکمیلی منہاج‘‘ کا نام دیا ہے اور ظاہر ہے اس پورے منہاج کا مرکز و محور تو قرآن ہی ہے۔ علّامہ اقبال نے انقلابِ اسلامی کے ان دو مراحل کا ذکر بایں الفاظ کیا ہے : ؎

با نشہ درویشی در ساز و دمادم زن

چوں پختہ شوی خود را بر سلطنت ِجم زن!

جبکہ اکبر الٰہ آبادی نے ان دو مراحل کی ترتیب کا فلسفہ بڑی سادگی اور خوبصورتی سے ان دو مصرعوں میں بیان کر دیا ہے : ؎
خدا کے کام دیکھو بعد کیا ہے اور کیا پہلےنظر آتا ہے مجھ کو بدر سے غارِ حرا پہلے!گویا بدر کے میدان میں اہل ِایمان نے جو کامیاب معرکہ لڑا اس کی تیّاری کا آغاز بہت پہلے غارِ حرا کی تنہائیوں میں فردِ واحد کی سوچ بچار سے ہوا تھا۔ حضورﷺ نے مکّہ کی گلیوں میں دعوت و تبلیغ کی صبر آزما مہم تن ِتنہا شروع کی۔ پھر اس دعوت پر لبیک کہنے والے ’’مردانِ کار‘‘ نے آپﷺ کی نگرانی و راہنمائی میں ۱۴ سال تک تزکیہ و تعلیم‘ ذہنی ونفسیاتی تربیت‘ سخت سے سخت جسمانی تشدد کی برداشت‘ ہرصورت میں ہاتھ بندھے رکھنے کی مشق اور ایسے کئی جاں گداز مراحل کامیابی سے طے کیے تو تب کہیں جا کر وہ تصادم کے مرحلے میں قدم رکھنے اور بدروحنین جیسے معرکے سر کرنے کے قابل ہوئے۔آج ہمیں بھی غلبہ دین کی جدّوجُہد کے دوران حضورﷺ کے اسی منہج کی پیروی کا اہتمام کرنا ہے۔
آیات ۱ تا ۴

سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ۚ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ(۱) یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ (۲) کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ (۳) اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّھُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ (۴)

آیت ۱{سَبَّحَ لِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ج وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ(۱)} ’’تسبیح کرتی ہے اللہ کی ہر وہ شے جو آسمانوں میں ہے اور جوزمین میں ہے ‘اور وہ بہت زبردست ہے ‘ کمال حکمت والا۔‘‘
آیت۲ {یٰٓــاَیـُّـھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(۲)}’’اے مسلمانو! تم کیوں کہتے ہو وہ جو کرتے نہیں ہو؟‘‘
اس آیت میں زجر و توبیخ اور جھنجھوڑنے کا وہی انداز پایا جاتا ہے جو اس سے قبل ہم سورۃ الحدید میں بھی دیکھ چکے ہیں۔ بلکہ یہ اسلوب زیر مطالعہ مدنی سورتوں میں جگہ جگہ پایا جاتا ہے۔ قبل ازیں سورۃ الحدید کے تمہیدی کلمات میں اس اسلوب کی وجہ بھی بیان کی گئی ہے کہ ان سورتوں کے زمانہ نزول (۵ ہجری کے بعد) تک پرانے مسلمانوں کی نسبت نومسلموں کی تعداد زیادہ ہو چکی تھی۔ایمان کی گہرائی اور جذبہ ایثار وقربانی کے حوالے سے نووارد مسلمانوں کی کیفیت چونکہ ’’السابقون الاوّلون‘‘ اور ابتدائی دور کے اہل ِایمان کی سی نہیں تھی‘ اس لیے مسلمانوں کے ایمان و عمل کے اجتماعی معیار کے اوسط میں قدرے کمی واقع ہوئی تھی اور اسی وجہ سے انہیں اس انداز میں جھنجھوڑاجا رہا ہے۔ لیکن قرآن مجید چونکہ ہر زمانے کے لوگوں سے مخاطب ہے ‘اس لیے اس آیت کو پڑھتے ہوئے یوں سمجھیں کہ آج یہ ہم سے سوال کر رہی ہے کہ اے ایمان کے دعوے دارو! تم کیسے مسلمان ہو؟ تمہارے قول و فعل میں اتنا تضاد کیوں ہے؟ تم اللہ پر ایمان کا اقرار بھی کرتے ہو اور دن رات اُس کے احکام کو پائوں تلے روندتے بھی رہتے ہو! تم رسول اللہﷺ کی ذات سے عشق و محبّت کے دعوے بھی کرتے ہو‘لیکن جب عمل کے میدان میں آتے ہو تو آپﷺ کی سنتوں کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیتے ہو! ذرا تصوّر کیجیے! آج اگر اللہ کا کلام نازل ہو تو ہمارے ایمان‘ ہمارے کردار اور ہمارے عمل پر کیا کیا تبصرہ کرے! اور اگر آج حضورﷺ خود تشریف لاکر اپنی اُمّت کی حالت دیکھ لیں تو کیسا محسوس کریں!
آیت ۳{کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(۳)} ’’بڑی شدید بیزاری کی بات ہے اللہ کے نزدیک کہ تم وہ کہو جو تم کرتے نہیں۔‘‘
یہ بہت سخت الفاظ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں سے اس سے بڑی ڈانٹ اور گرفت اور بھلا کیا ہو سکتی ہے؟ لیکن اس ڈانٹ اور اظہارِ بیزاری کے بعد اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا اور محبّت کا معیار بھی بتا دیا ہے کہ اگر تم جاننا چاہتے ہو کہ اللہ کو کیسے لوگ پسند ہیں اور یہ کہ وہ کیسے لوگوں سے محبّت کرتا ہے تو سنو!
آیت۴ {اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ(۴)} ’’اللہ کو تو محبوب ہیں وہ بندے جو اُس کی راہ میں صفیں باندھ کر قتال کرتے ہیں ‘جیسے کہ وہ سیسہ پلائی دیوار ہوں۔‘‘
آج کے زمانے میں ’’بنیانِ مرصوص‘‘ reinforced concrete wallکو کہا جائے گا۔ ایسی دیواریں بڑے بڑے damsکے لیے بنائی جاتی ہیں۔ البتہ پرانے زمانے میں اگر کسی دیوار کو غیر معمولی طو رپر مضبوط کرنا مقصود ہوتا توچنائی کرنے کے بعد اس کے اندر پگھلا ہوا تانبا ڈالا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اردو میں عام طور پر’’ بنیانِ مرصوص ‘‘کا ترجمہ ’’سیسہ پلائی ہوئی دیوار ‘‘کے الفاظ میں کیا جاتا ہے۔ پرانے زمانے میں اس طریقہ سے ’’سیسہ پلائی ہوئی دیوار‘‘بنانے کا تصوّرسورۃ الکہف کی آیت ۹۶ میں بھی ملتا ہے۔ ذوالقرنین بادشاہ نے یاجوج ماجوج کے حملوں سے حفاظت کے لیے لوہے کے تختوں کی مدد سے دیوار کھڑی کرنے کے بعد حکم دیا تھا: {اٰتُوْنِیْٓ اُفْرِغْ عَلَیْہِ قِطْرًا(۹۶)} ’’ اب لائومَیںاس پر پگھلا ہوا تانبا ڈال دوں‘‘۔ بہرحال یہاں ’’بنیانِ مرصوص‘‘ سے مراد میدانِ جنگ میں مجاہدین کی ایسی صفیں ہیں جن میں کوئی رخنہ یا خلا نہ ہو اور ایک ایک مجاہد اپنی جگہ پر اس قدر مضبوطی سے کھڑا ہو کہ دشمن کے لیے صف کے کسی ایک حصے کو بھی دھکیلنا ممکن نہ ہو۔
یہاں ضمنی طور پر یہ مسئلہ بھی سمجھ لیں کہ نماز کے لیے ہماری صف بندی کی بھی یہی کیفیت ہونی چاہیے۔ ایک صف کے تمام نمازیوں کو کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونا چاہیے اور ان کے پیروں کے محاذات بھی ایک ہونے چاہئیں ‘یعنی تمام لوگوں کے پائوں ایک سیدھ میں ہوں تاکہ صف سیدھی رہے۔ دو آدمیوںکے درمیان خلا بالکل نہیں ہونا چاہیے ۔حضورﷺ کا فرمان ہے کہ جماعت کی صف میں دو نمازیوں کے درمیان خلا کی جگہ سے شیطان گزر جاتا ہے ۔ جماعت کے لیے صف بندی کا اہتمام کرانا دراصل امام کی ذِمّہ داری ہے ‘لیکن مقامِ افسوس ہے کہ ہمارے اکثر ائمہ مساجد اس طرف کوئی توجّہ ہی نہیں دیتے۔ البتہ اس ضمن میں ضرورت سے زیادہ شدّت بھی مناسب نہیں ‘جیسے بعض لوگ غیر معمولی طور پر ٹانگیں پھیلا کر دوسرے نمازی کے پائوں پر اپنا پائوں چڑھا دیتے ہیں اور دوسروں کے لیے کوفت کا باعث بنتے ہیں۔
بہرحال ہمارے لیے اس آیت کا اصل پیغام یہ ہے کہ اسلام میں سب سے بڑی نیکی اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل ’’قتال فی سبیل اللہ‘‘ ہے۔ فلسفے کی اصطلاح میں سب سے اعلیٰ خیر یا نیکی کو summum bonum کہتے ہیں۔ ہر فلسفہ ٔ اخلاق میں ایک ’’خیر اعلیٰ‘‘(summum bonum) یا بلند ترین نیکی (highest virtue)کا تصوّر ہوتا ہے۔چنانچہ اس آیت کے اصل پیغام کو اگر فلسفہ کی زبان میں بیان کریں تو یوں کہیں گے کہ اسلام کے نظامِ فکر اور اس کے نظریۂ اخلاق میں بلند ترین نیکی یا ’’خیر اعلیٰ‘‘(summum bonum) قتال فی سبیل اللہ ہے۔ چنانچہ جو کوئی اللہ کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہو اُسے اپنی سب سے قیمتی متاع یعنی اپنی جان اس کی راہ میں قربانی کے لیے پیش کرنا ہو گی۔ جو شخص اس قربانی کے لیے تیّار نہ ہو اسے چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبّت و قربت کا دعویٰ بھی نہ کرے۔ بقول غالب ؔ ع ’’جس کو ہو جان و دل عزیز اُس کی گلی میں جائے کیوں!‘‘
یہاں سورت کے پہلے حصے کا مطالعہ مکمل ہو گیا۔ اب آئندہ چار آیات میں بنی اسرائیل کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبروں کے ساتھ اُن کا طرزِعمل کیا تھا۔ یہود کی تاریخ کے حوالے سے دراصل مسلمانوں کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ قول و عمل کا تضاد اور ایمان کے عملی تقاضوں کی ادائیگی سے پہلوتہی ہی وہ اصل جرم تھا جس کی پاداش میں یہود اس مقام اور منصب سے معزول کردیے گئے جس پر اب تم فائز کیے گئے ہو۔
آیات ۵ تا ۸

وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰقَوْمِ لِمَ تُؤْذُوْنَنِیْ وَقَدْ تَّعْلَمُوْنَ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ ۭ فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللہُ قُلُوْبَھُمْ ۭ وَاللہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ(۵)وَاِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْٓ اِسْرَاۗئِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىۃِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُہٗٓ اَحْمَدُ ۭ فَلَمَّا جَاۗءَھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا ھٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ(۶)وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللہِ الْکَذِبَ وَھُوَ یُدْعٰٓی اِلَی الْاِسْلَامِ ۭ وَاللہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ (۷)یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللہِ بِاَفْوَاھِہِمْ وَاللہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ (۸)

آیت ۵ {وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰــقَوْمِ لِمَ تُؤْذُوْنَنِیْ} ’’اور یاد کرو جب کہ موسیٰ ؑ نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم کے لوگو! تم کیوں مجھے ایذا دے رہے ہو؟‘‘
یہ جس ایذا کا ذکر ہے وہ ذاتی نوعیت کی بھی ہو سکتی ہے ۔ ظاہر ہے انبیاء و رسلؑبھی آخر انسان تھے اور طبع بشری کے تحت ہر طرح کی تکلیف کو محسوس بھی کرتے تھے ۔جیسے سورۃ الاحزاب کی آیت ۶۹ میں حضرت موسیٰؑ کے لیے ایک تکلیف دہ معاملے کا ذکر آیا ہے یا جیسے خود حضورﷺ کو مشرکینِ مکّہ کی طرف سے بھی ذاتی نوعیت کی تکالیف پہنچائی جا تی رہیں اور منافقین کے طرزِعمل سے بھی شدید ذہنی و قلبی اذیت سے دوچار ہونا پڑا۔ لیکن حضرت موسیٰؑ کے لیے بنی اسرائیل کی طرف سے اصل اور سب سے بڑی ا یذا وہ تھی جو حکم ِجہاد سے ان کے انکار کی وجہ سے آپؑ کو پہنچی تھی۔ اپنی قوم کے اس انکار کے بعد آپؑ نے اللہ تعالیٰ سے جو دعا کی تھی اس کے ایک ایک لفظ میں شدّتِ تکلیف کے احساسات کی جھلک نظر آتی ہے۔ ملاحظہ ہوں آپؑ کی دعا کے یہ الفاظ:
{قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَآ اَمْلِکُ اِلَّا نَفْسِیْ وَاَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ (۲۵)} (المائدۃ)
’’موسٰی ؑنے عرض کیا :پروردگار‘ مجھے تو اختیار نہیں ہے سوائے اپنی جان کے اور اپنے بھائی (ہارونؑ کی جان) کے‘ تو اب تفریق کردے ہمارے اوران نافرمان لوگوں کے درمیان۔ ‘‘
{وَقَدْ تَّعْلَمُوْنَ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَـیْکُمْ ط}’’جبکہ تم جانتے ہو کہ مَیں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں۔‘‘
میرے نزدیک یہاں لفظ ’’رسول‘‘ نبی کے معنی میں آیا ہے۔ دراصل حضرت موسیٰؑ کی بعثت اپنی قوم یعنی بنی اسرائیل کی طرف ’’نبی‘‘ کی حیثیت سے تھی‘ بطور ’’رسول ‘‘نہیں تھی۔ جبکہ قومِ فرعون کی طرف آپؑ بحیثیت ’’رسول‘‘ مبعوث ہوئے تھے:
{وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰیٰتِنَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَمَلَائِہٖ فَقَالَ اِنِّیْ رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۴۶)} (الزخرف)
’’اور ہم نے بھیجا تھا موسیٰ ؑکو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اُس کے سرداروں کی طرف تو اُس نے کہا کہ (دیکھو) میں تمام جہانوں کے پروردگار کا بھیجا ہوا (رسول) ہوں۔‘‘
کسی قوم کی طرف ’’رسول‘‘ کی بعثت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا قانون ہمیشہ یہ رہا ہے کہ متعلقہ قوم پر اپنے رسول کی فرمانبرداری لازم ہوتی تھی ۔ چنانچہ جو قوم اپنے رسول ؑکی دعوت کو رد کردیتی تھی اسے ہلاک کر دیا جاتا تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس قانون کا اطلاق بنی اسرائیل پر نہیں ہوااور حضرت موسیٰؑ کی پے در پے نافرمانی کے باوجود انہیں ہلاک نہیں کیاگیا ۔ دوسری طرف قومِ فرعون آپؑ کی نافرمانی کی وجہ سے ہلاک کر دی گئی۔ چنانچہ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کے لیے حضرت موسیٰؑ کی حیثیت نبی کی تھی‘ جبکہ آلِ فرعون کی طرف آپؑ ’’رسول‘‘ مبعوث ہو کر آئے تھے ۔
{فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغَ اللہُ قُلُوْبَہُمْ ط} ’’پھر جب وہ ٹیڑھے ہو گئے تو اللہ نے اُن کے دلوں کوٹیڑھا کر دیا۔‘‘
یہ آیت اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس میں لوگوں کی ہدایت کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کا ایک بنیادی اصول اور قانون بیان ہوا ہے ۔اس اصول کی روشنی میں قرآن مجید کی اُن آیات کو سمجھنا بھی آسان ہوجاتا ہے جن میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کو گمراہ کرنے یا اُن کے دلوں پر مہر کر دینے کا ذکر آتا ہے۔اللہ تعالیٰ کے اس قانون کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ہدایت کے راستے کو پہچان لینے کے بعد بھی اسے اختیار نہ کرے بلکہ گمراہی کی روش پر ہی چلتے رہنے کو ترجیح دے‘ پھر وہ اس راستے پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ مہلت کی حدود پھلانگ کر ایسے مقام پر پہنچ جائے جہاں سے اس کی واپسی کا کوئی امکان نہ ہو (point of no return) تو ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ اُس شخص کے دل پر مہر لگا دیتا ہے اور اس پر ہدایت کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیتا ہے ‘یعنی بندہ جب سمجھتے بوجھتے ہوئے ٹیڑھا راستہ اختیار کرتا ہے تو اس کی سزا کے طور پر اللہ تعالیٰ اس کا دل ہمیشہ کے لیے ٹیڑھا کر دیتا ہے۔ (اعاذنا اللہ من ذٰلک!)
{وَاللہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ(۵)} ’’اور اللہ فاسقوں کو(زبردستی) ہدایت نہیں دیتا۔‘‘
آیت ۶ {وَاِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ یٰــبَنِیْٓ اِسْرَآئِ‘یْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَـیْکُمْ} ’’اور یاد کرو جب عیسیٰ ؑابن مریم نے کہا کہ اے بنی اسرائیل! مَیں اللہ کا رسول ہوں تمہاری طرف‘‘
اس آیت میں بنی اسرائیل کے دوسرے دور کا ذکر ہے جب اُن کی طرف حضرت عیسیٰؑ رسول بن کر آئے۔ بحیثیت رسول آپؑ کی بعثت کا ذکر سورئہ آل عمران کی آیت ۴۹ کے الفاظ {وَرَسُوْلًا اِلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ} میں آیا ہے۔
{مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىۃِ}’’مَیں تصدیق کرتے ہوئے آیا ہوں اُس کی جو میرے سامنے موجود ہے تورات میں سے‘‘
{وَمُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْ م بَعْدِی اسْمُہٗٓ اَحْمَدُط} ’’اور بشارت دیتا ہوا ایک رسول کی جو میرے بعد آئیں گے ‘ ان کا نام احمد(ﷺ)ہوگا۔‘‘
{فَلَمَّا جَآئَ ہُمْ بِالْبَـیِّنٰتِ قَالُوْا ہٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ (۶)} ’’پھر جب وہ (عیسیٰؑ) آئے اُن کے پاس واضح نشانیوں کے ساتھ تو انہوں نے کہہ دیا کہ یہ تو کھلا جادو ہے۔‘‘
اس کے بعد حضرت محمد رسول اللہﷺ کی بعثت کے ساتھ بنی اسرائیل کا تیسرا دور شروع ہوا ۔ حضورﷺ کی رسالت کے بعد بنی اسرائیل کو واضح طور پر بتا دیا گیا: {عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یَّرْحَمَکُمْ ج   وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا } (بنی اسرائیل: ۸) ’’ہوسکتا ہے کہ اب تمہارا رب تم پر رحم کرے‘ اور اگر تم نے وہی روش اختیار کی تو ہم بھی وہی کچھ کریں گے‘‘۔یعنی اے بنی اسرائیل !تم ہمارے لاڈلے تھے ‘ہم نے تمہیں خود برگزیدہ کیا تھا: {وَلَقَدِ اخْتَرْنٰـھُمْ عَلَی عِلْمٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ(۳۲)} (الدُّخان)مگر تم نے اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے اپنے آپ کو راندئہ درگاہ بنالیا۔ بہرحال ہماری رحمت اور محبّت کے دروازے اب بھی تمہارے لیے کھلے ہیں۔ اگر تم لوگ توبہ کر کے اپنی روش درست کر لو تو ہم اب بھی تمہیں اپنی آغوشِ رحمت میں لینے کے لیے تیّار ہیں۔ لیکن اس کے لیے تمہیں خود کو محمد رسول اللہ(ﷺ) کے قدموں میں ڈالنا ہوگا اور قرآن کو اپنا راہبر ماننا ہو گا:{اِنَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنَ یَہْدِیْ لِلَّتِیْ ہِیَ اَقْوَمُ وَیُـبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمْ اَجْرًا کَبِیْرًا(۹)}(بنی اسرائیل) ’’یقیناً یہ قرآن راہنمائی کرتا ہے اُس راہ کی طرف جو سب سے سیدھی ہے اور بشارت دیتا ہے اُن اہل ِایمان کو جو نیک عمل بھی کریں کہ اُن کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔‘‘
تم پر واضح ہونا چاہیے کہ اب ہمارے قصر ِرحمت کا شاہدرہ ’’قرآن‘‘ ہے۔ اگر تم ہماری رحمت کی پناہ میں آنا چاہتے ہو تو تمہیں اسی شاہدرہ کی راہ سے گزر کر آنا ہو گا۔لیکن اگرتم نے اپنے طرزِعمل کی اصلاح نہ کی ‘اپنی نافرمانیاں اسی طرح جاری رکھیں تو پھر ہم بھی تمہارے ساتھ ویسا ہی سلوک کریں گے جیسا کہ ماضی میں تمہارے ساتھ ہوتا رہا ہے:{وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا}۔جیسے ماضی میں ہمارے حکم پر تم لوگ بخت نصر (Nebukadnezar)‘ یونانیوں‘ شامیوں‘ رومیوں وغیرہ کے ہاتھوں بار بار نشانِ عبرت بنتے رہے ہو ویسے ہی ایک مرتبہ پھر ہم تمہیں تمہاری بداعمالیوں کی سزا دلوائیں گے۔ (بیسویں صدی میں نازیوں کے ہاتھوں یہود کا جو انجام ہوا وہ بھی عبرت انگیز ہے۔ ان کا اپنا دعویٰ ہے کہ ’’ہولوکاسٹ‘‘ میں ۶۰لاکھ افراد مارے گئے۔)
آیت ۷{وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللہِ الْکَذِبَ} ’’اور اُس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ تراشے‘‘
{وَہُوَ یُدْعٰٓی اِلَی الْاِسْلَامِ ط} ’’درآں حالیکہ اُسے بلایا جا رہاہو اسلام کی طرف!‘‘
یعنی اب اللہ کے آخری رسولﷺ تم لوگوں کو دعوتِ ایمان و اسلام دے رہے ہیں اور تم لوگ اس دعوت پر لبیک کہنے کے بجائے اُن ؐکی نبوت و رسالت اور قرآن کے بارے میںاللہ پر جھوٹ باندھ رہے ہو۔
{وَاللہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ(۷)} ’’اور اللہ ایسے ظالموں کو (زبردستی) ہدایت نہیں دیتا۔‘‘
اب اگلی آیت میں یہودیوں کی ان کوششوں اور سازشوں کاذکر ہے جو انہوں نے حضورﷺ اور قرآن کے خلاف شروع کررکھی تھیں۔یہ آیت زیر مطالعہ مضمون کے کلائمکس کا درجہ رکھتی ہے:
آیت ۸{یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللہِ بِاَفْوَاہِہِمْ} ’’وہ تلے ہوئے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ (کی پھونکوں) سے بجھا کررہیں گے‘‘
{وَاللہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ(۸)} ’’اور اللہ اپنے نُور کا اتمام فرما کررہے گا ‘خواہ یہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔‘‘
یہ آیت الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ سورۃ التوبہ میں اس طرح آئی ہے:{یُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّطْفِئُوْا نُوْرَ اللہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَیَاْبَی اللہُ اِلَّآ اَنْ یُّتِمَّ نُوْرَہٗ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ(۳۲)} ’’یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو بجھا دیں اپنے منہ (کی پھونکوں )سے اور اللہ کو ہر گز منظور نہیں ہے مگر یہ کہ وہ اپنے نور کا اتمام فرما کر رہے ‘چاہے یہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔‘‘
اللہ کے نور کو منہ کی پھونکوںسے بجھانے کے استعارے میں یہودِ مدینہ کی ان بودی کوششوں کی طرف اشارہ ہے جو وہ حضورﷺ اور مسلمانوں کے خلاف اُس وقت کر رہے تھے۔یعنی وہ سامنے آکر براہِ راست مقابلہ کرنے کے بجائے مسلمانوں کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کرتے ‘ افواہیں اڑاتے ‘ درپردہ سازشوں کے جال بنتے رہتے ‘ کبھی قریش کے پاس جاتے کہ تم مدینہ پر حملہ کرو اور کبھی کسی دوسرے قبیلے کو سبز باغ دکھا کر مسلمانوں کے خلاف ابھارتے ۔سورۃ الحشر میں ان کی بزدلی اور اندرونی کمزوری کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا گیا ہے: {لَا یُقَاتِلُوْنَکُمْ جَمِیْعًا اِلَّا فِیْ قُرًی مُّحَصَّنَۃٍ اَوْ مِنْ وَّرَآئِ جُدُرٍط} (آیت ۱۴) کہ یہ لوگ کھلے میدان میں اکٹھے ہو کر تمہارا مقابلہ کرنے کی جرأت نہیں کر سکتے‘ہاں چھپ چھپا کر دیواروں کی اوٹ سے وہ تم پر ضرور وار کریں گے۔ مولانا ظفر علی خاں نے اس آیت کے مضمون کی ترجمانی اپنے ایک شعر میں یوں کی ہے : ؎
نُورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا!
یہاںیہ اصولی نکتہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس آیت اور اس مضمون کی حامل قرآن کی اور بہت سی دوسری آیات کے مفہوم کا دائرہ صرف حضورﷺ کے زمانے کے یہودیوں اور ان کی اسلام دشمن سرگرمیوں تک ہی محدود نہیں ‘بلکہ ان میں تاقیامِ قیامت ہر زمانے کے یہودیوں اور ان کی ان سازشوں کا ذکر ہے جو وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مسلسل کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ موجودہ دور میں اگرچہ یہ لوگ پوری عیسائی دنیا کو اپنی مٹھی میں لے کر عالم ِاسلام کے خلاف صف آراء ہو چکے ہیں‘ مگر قرائن بتاتے ہیں کہ ان کے فیصلے کا وقت اب قریب آلگا ہے۔ آیت زیر مطالعہ کے الفاظ کے مطابق اللہ کے نور کا اتمام یعنی روئے ارضی پر دین ِ اسلام کا غلبہ تو ایک طے شدہ امر ہے۔ اس کے لیے قیامت سے پہلے دنیا کو ایک انتہائی خوفناک جنگ کا سامنا کرنا ہے۔ اس جنگ میں یہودی اور عیسائی مل کر مسلمانوں کے خلاف لڑیں گے۔ احادیث میں اس جنگ کو اَلْمَلْحَمَۃُ الْعُظْمٰی کا نام دیا گیا ہے‘ جبکہ عیسائیوں اوریہودیوں کی اصطلاح میںاسے’’ہرمجدون‘‘ (Armageddon) کہا جاتا ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں یہودی مکمل طو ر پر نیست و نابود ہو جائیں گے اور اسلام واحد طاقت کے طور پر پوری دنیا پر غالب آجائے گا۔ یہ ہے آیت کے الفاظ وَاللہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ کے مفہوم کا خلاصہ جس کی تفصیل ہمیں احادیث میں ملتی ہے۔
آیات ۹ تا ۱۲

ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ (۹)یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ (۱۰) تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ۭ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (۱۱)یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَیُدْخِلْکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ وَمَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ۭ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (۱۲)

یہاں سے اس سورت کے تیسرے حصے کا آغاز ہو رہا ہے۔ آیت۹ میں حضورﷺ کی بعثت کا ذکر ہوا ہے :
آیت ۹ {ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ}’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسولؐ کو الہدیٰ اور دین ِحق کے ساتھ تاکہ غالب کر دے اس کو پورے نظامِ زندگی پر‘‘
حضورﷺ کے مقصد ِبعثت کے حوالے سے یہ آیت خصوصی اہمیت کی حامل ہے اور اسی اہمیت کے باعث قرآن مجید میں اسے تین بار (اس مقام کے علاوہ سورۃ التوبہ ‘آیت ۳۳ اور سورۃ الفتح ‘آیت ۲۸ کے طور پر) دہرایا گیا ہے۔ تمام انبیاء و رسلؑکے لیے قرآن مجید میں بشیر‘ نذیر ‘ مذکر‘ شاہد‘ معلم وغیرہ الفاظ مشترک استعمال ہوئے ہیں‘ لیکن اس آیت کا مضمون اور اسلوب صرف محمد رسول اللہﷺ کے لیے خاص ہے ۔ الہُدٰی سے مراد یہاں وہ ہدایت نامہ (قرآن) ہے جو آپﷺ پر کامل ہو گیا‘ جبکہ آپ سے پہلے تمام انبیاء کو اپنے اپنے دور میں جو میزان (شریعت) عطا ہوتی رہی تھی حضورﷺ کی بعثت میں وہ کامل ہو کر ’’دین الحق‘‘ یعنی سچّے اور عادلانہ نظامِ زندگی کی شکل اختیار کر گئی۔ چنانچہ آپﷺ کو الہدیٰ اور دین حق کے ساتھ اس لیے بھیجا گیا تاکہ اللہ تعالیٰ کے نظامِ عدل و قسط کو دنیا کے تمام نظاموں پر غالب کر دیا جائے ۔ یہ تھا حضورﷺ کی بعثت کا مشن جسے تکمیل کے لیے آپؐ ہمارے سپرد فرما گئے تھے۔ لیکن ہم نے تو اس مشن کو کبھی اپنایا ہی نہیں۔ ہمارا مشن تو یہ ہے کہ حلال و حرام طریقے سے جیسے بھی ہو ‘دولت اکٹھی کرو‘ پھر اسی دولت سے صدقہ و قربانی دو‘ حج کرو اور رمضان میں ہر سال عمرے کے لیے چلے جایا کرو۔ ہمارا سارا زور ritualsپر ہے اور دین اگر دنیا میں پامال ہے تو ہوتا رہے‘ ہماری بلا سے! تصوّر کریں‘ اگرآج صرف ایک سال میں حج پر اکٹھے ہونے والے افراد ہی سروں پر کفن باندھ کر غلبہ ٔدین کی جدّوجُہد کے لیے میدان میں کود پڑیں تو دنیا کو بدل سکتے ہیں۔ مگر افسوس‘ صد افسوس! ؎
رہ گئی رسم اذاں روح بلالیؓ نہ رہی

فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی!{وَلَــوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ(۹)} ’’اور خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو!‘‘
ظاہر ہے مشرکین کب چاہیں گے کہ دنیا میں اسلام کا غلبہ ہو‘ نظامِ توحید کا نفاذ ہو اور اللہ کی حکومت بالفعل قائم ہوجائے۔ یہاں پر مُشْرِکُوْنَ کا لفظ خاص طور پر لائق ِتوجّہ ہے۔ اس سے مراد صرف وہ مشرکین ہی نہیں ہیں جو بتوں اور دیوی دیوتائوں کو پوجتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کے حضور ان کی سفارش کر دیں گے‘ بلکہ سب سے بڑے مشرک تو وہ ہیں جو دنیا میں خدائی کے دعوے دار بنے بیٹھے ہیں‘جو نمرود اور فرعون کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں اور جن کا دعویٰ ہے کہ اقتدارِ اعلیٰ (sovereignty)کے مالک ہم ہیں۔ فرعون بھی تو یہی کہتا تھا:{اَلَـیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ وَھٰذِہِ الْاَنْھٰرُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْ ج}(الزخرف:۵۱)کہ دیکھو! کیا یہ مصر کی حکومت میری نہیں ہے؟ اور کیا یہ پورا نہری نظام میرے تابع نہیں ہے؟تو فرعون کے اس دعوے اور ’’عوام کی حاکمیت‘‘ کے نعرے میں کیا فرق رہ گیا؟صرف یہی نا کہ وہاں اقتدار کا دعویٰ کرنے والا ایک فرد تھا اور یہاں پوری قوم حاکمیت کی دعوے دار ہے۔اب ظاہر ہے اگر اس ماحول میں آپ اللہ کی حاکمیت کا نعرہ لگائیں گے اور اللہ کے نظامِ عدل و قسط کے قیام کے مشن کو لے کر آگے بڑھنا چاہیں گے تو ’’اپنی حاکمیت‘‘ کے یہ دعوے دار خم ٹھونک کر آپ کے مقابلے میں آ کھڑے ہوں گے ۔اس کے بعد بھی اگر آپ اپنے موقف پر قائم رہیں گے تو ان سے آپ کا تصادم ناگزیر ہو جائے گا اور آپ کو مال و جان کی قربانی کی صورت میں اپنے اس موقف کی قیمت چکانا پڑے گی۔ چنانچہ اب اگلی آیات میں اسی صورت ِحال کا ذکر کیا جا رہا ہے :
آیت ۱۰{ یٰٓــاَیـُّـھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ھَلْ اَدُلُّــکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ(۱۰)} ’’اے ایمان کے دعوے دارو! کیا میں تمہیں ایسی تجارت کے بارے میں بتائوں جو تمہیں دردناک عذاب سے چھٹکارا دلا دے؟‘‘
آیت۱ ۱{تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ط}’’(وہ یہ کہ) تم ایمان لائو اللہ اور اُس کے رسول ؐپر اور جہاد کرو اللہ کے راستے میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ۔‘‘
یعنی اللہ اور اُس کے رسولؐ پر ایسے ایمان لائو جیسا کہ ایمان لانے کاحق ہے۔ سورۃ النساء کی یہ آیت بھی اسی مفہوم میں اہل ایمان کو ایمان لانے کا حکم دے رہی ہے :{یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ…} (آیت ۱۳۶)’’اے ایمان والو! ایمان لائو اللہ پر اور اُس کے رسولؐ پر… ‘‘گویا یہ ایمان کے دعوے داروں کے لیے ایسا مؤمن بننے کی دعوت ہے جو سورۃ الحجرات کی اس آیت کے معیار پر پورے اترتے ہوں:{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ ط} (آیت ۱۵)’’مؤمن تو بس وہی ہیں جو ایمان لائے اللہ اور اُس کے رسولؐ پر ‘پھر شک میں ہر گز نہیں پڑے اور انہوں نے جہاد کیا اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں۔‘‘
{ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّــکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۱۱)}’’یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم سمجھ رکھتے ہو۔‘‘
آیت۱۲{یَغْفِرْلَــکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَیُدْخِلْکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ} ’’وہ تمہارے لیے تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں داخل کرے گا اُن باغات میں جن کے دامن میںنہریں بہتی ہوں گی‘‘
{وَمَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ط  ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۲)}’’اور بہت پاکیزہ مساکن عطا کرے گا رہنے کے باغات میں۔ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔‘‘
اصل اور سب سے بڑی فوز و فلاح اور کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے۔ ایک بندئہ مؤمن کو چاہیے کہ دنیا کی کامیابیوں سے بے نیاز ہو کر اسی کامیابی کو اپنا ہدف بنائے۔ حتیٰ کہ غلبہ ٔدین یا اقامت ِدین کے لیے جدّوجُہد کا نصب العین بھی آخرت کی کامیابی ہی ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ اگر ہم اس جدّوجُہد میں دُنیوی کامیابی پر نظر رکھیں گے تو اپنی کوششوں کو کامیاب نہ ہوتے دیکھ کر یا تو مایوس ہو کر بیٹھ جائیں گے یا الٹے سیدھے طریقے سے (by hook or by crook) مثبت نتائج حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیوی نتائج کو منزل سمجھ لینے کی وجہ سے اس راہ کی بڑی بڑی تحریکیں یا تو مایوسی کے قبرستان میں دفن ہو گئیں یا شارٹ کٹ لگانے کی کوشش میں غلط موڑ مڑ کر اصل راستہ ہی گم کر بیٹھیں۔ چنانچہ اقامت ِدین کی جدّوجُہد کے دوران ہمیں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اورآخرت کی کامیابی پر نظر رکھنی چاہیے اور دنیا کی کامیابی یا ناکامی کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔
اس حوالے سے یہ نکتہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ ہم صرف کوشش کرنے کے مکلّف ہیں ‘ اس کوشش کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے ہم مکلّف نہیں۔ہاں اپنی جدّوجُہد کے طریق کار پر حالات و ماحول کے مطابق نظر ثانی ضرور کرتے رہنا چاہیے‘ لیکن بنیادی طور پر ہمارا طریقہ اور راستہ وہی رہنا چاہیے جو منہج ِنبویؐ سے ماخوذ ہو۔یہ منہج حضورﷺ کے توسط سے ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : {لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْـکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْہَاجًاط}(المائدۃ:۴۸)’’تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک شریعت اور ایک راہِ عمل طے کر دی ہے‘‘۔ چنانچہ ہم پر لازم ہے کہ ہم اقامت ِدین کی جدّوجُہد کی راہیں متعین کرتے ہوئے روشنی اور راہنمائی منہج ِمحمدیؐ سے ہی حاصل کریں۔
آیات ۱۳‘۱۴

وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَا ۭ نَصْرٌ مِّنَ اللہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ ۭ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ (۱۳) یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا اَنْصَارَ اللہِ کَمَا قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّٖنَ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللہِ ۭ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللہِ فَاٰمَنَتْ طَّاۗئِفَۃٌ مِّنْۢ بَنِیْٓ اِسْرَاۗئِیْلَ وَکَفَرَتْ طَّاۗئِفَۃٌ ۚ فَاَیَّدْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلٰی عَدُوِّھِمْ فَاَصْبَحُوْا ظٰھِرِیْنَ(۱۴)

اب اگلی آیت میں اس ’’بونس‘‘ کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کبھی کبھی اس دنیا میں بھی عطا کر دیتا ہے‘چنانچہ فرمایا:
آیت۱۳{وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَہَاط}’’اور ایک اور چیز جو تمہیں بہت پسند ہے۔‘‘
یعنی اس جہاد میں تمہیں دنیا کی کامیابی بھی مل سکتی ہے۔اگرچہ تمہاری یہ کامیابی اللہ تعالیٰ کے ہاں اس قدر اہم نہیں جس قدر تم اسے اہم سمجھتے ہو ۔وہ غلبہ ٔدین کے لیے تمہاری کوششوں کا محتاج نہیں۔ وہ چاہے تو آنِ واحد میں دین کو غالب کر دے ۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جو چیز اہم ہے وہ تمہاری جدّوجُہد اور اس جدّوجُہد میں تمہارا جذبۂ ایثار و خلوص ہے‘اور یہی تمہارا اصل امتحان ہے۔ اگر تم اس امتحان میں کامیاب ہو جاتے ہو تو اللہ کے ہاں کامیاب ہو‘ چاہے دنیوی لحاظ سے تم ناکام ہی رہو۔ لیکن اللہ کو معلوم ہے کہ بربنائے طبع بشری تم لوگ اپنی اس جدّوجُہد کے مثبت نتائج اس دنیا میں بھی دیکھنا چاہتے ہواور دُنیوی فتح حاصل ہونے پر تم لوگ بہت خوش ہوتے ہو‘ اس لیے اللہ تعالیٰ تمہاری خوشی کے لیے وہ بھی تمہیں عطا فرمائے گا۔
{نَصْرٌ مِّنَ اللہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ ط}’’اللہ کی طرف سے مدد اور قریبی فتح۔‘‘
بس اب اللہ تعالیٰ کی مدد آیا ہی چاہتی ہے اور دنیوی فتح بھی تمہارے قدم چومنے ہی والی ہے۔ یہ کس مدد اور کونسی فتح کی بشارت ہے ؟یہ سمجھنے کے لیے غزوئہ احزاب کے حالات و واقعات کو ایک دفعہ پھر سے ذہن میں تازہ کر لیجیے ۔ اس اعتبار سے یوں سمجھئے کہ سورۃ الصف کی حیثیت سورۃ الاحزاب کے ضمیمے کی سی ہے۔
{وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۳)}’’اور (اے نبیﷺ) آپ مؤمنین کو خوشخبری سنا دیجیے۔‘‘
غزوئہ احزاب کے بعد حضورﷺ نے صحابہؓ کو یہ خوشخبری ان الفاظ میں سنائی تھی : ((لَنْ تَغْزُوْکُمْ قُرَیْشٌ بَعْدَ عَامِھِمْ ھٰذَا وَلٰـکِنَّـکُمْ تَغْزُوْنَھُمْ))(تفسیر ابن کثیر:۶/۳۹۶)کہ اب اس سال کے بعد قریش تم پر کبھی چڑھائی نہیں کرسکیں گے ‘بلکہ آئندہ تم لوگ ان پر چڑھائی کرو گے۔ یہ ان کی طرف سے آخری حملہ تھا‘ کفر کی کمر ٹوٹ چکی اور کفار حوصلہ ہار گئے‘ اب اقدام تمہاری طرف سے ہو گا۔ چنانچہ اس کے بعد اگلے سال ۶ ہجری میں حضورﷺ نے چودہ سو صحابہ کے ساتھ عمرے کی نیت سے مکّہ کا سفر اختیار فرمایا‘ جس کے نتیجے میں مسلمانوں اور قریش کے مابین حدیبیہ کے مقام پر صلح کا معاہدہ طے پایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس معاہدے کو ’’فتح مبین‘‘ قرار دیا: {اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا(۱)} (الفتح)’’یقیناً ہم نے آپ ؐکو ایک بڑی روشن فتح عطا فرمائی ہے۔‘‘
دوسری طرف اس بشارت کا تعلق آخرت سے بھی ہے کہ اپنے مال و جان کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کے نتیجے میں مؤمنین ِ صادقین کو جنّت کی نعمتیں بھی ملیں گی اور اللہ کے ہاں انہیں ایک خاص مقام بھی عطا ہو گا۔ اور وہ ہو گا اللہ کے مددگار ہونے کا مقام!
یہاں یہ بات خصوصی طور پر لائق ِتوجّہ ہے کہ ان آیات میں عذابِ الیم سے چھٹکارے کو ایمانِ حقیقی اور جہاد فی سبیل اللہ کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے۔ آیت ۱۰ میں یہ بات جس دو ٹوک انداز میں واضح کی گئی ہے اسے فزیالوجی کی زبان میں"All or none Law"کہتے ہیں۔یعنی ایسی صورتِ حال جس میں کوئی چیز واقع ہوتی ہے تو پوری ہو تی ہے اور اگر نہیں واقع ہوتی تو بالکل نہیں ہوتی۔ اس میں کوئی درمیانی راستہ یا تناسب ممکن نہیں ہوتا۔ ہمارے ارادی عضلات (voluntary muscles)کے سکڑنے کا معاملہ ایسا ہی ہے ‘اگر محرک (stimulus) پورا مل جاتا ہے تو متعلقہ muscleکی پوری contraction ہو تی ہے اور اگر stimulus کم ہوتاہے تو contraction بالکل نہیں ہوتی۔ اس مفہوم میں آیت ۱۰ تا ۱۳ کے مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ یہ راستہ اختیار کریں گے ان کے سب گناہ بھی معاف ہوجائیں گے (بشرطیکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے ایمان و عمل کو درجہ قبولیت مل جائے)‘ انہیں عذابِ الیم سے چھٹکارا بھی ملے گا اور جنّت ِعدن میں ٹھکانہ بھی نصیب ہو گا۔ صرف یہی نہیں ‘بلکہ دنیا میں انہیں اللہ کی مدد سے فتح بھی ملے گی اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مددگار قرار پائیں گے --- اس کے برعکس اگر ہم لوگ ایمان کے دعوے تو بہت کریں اور اللہ و رسولؐ سے محبّت کے نعرے بھی لگائیں ‘لیکن مذکورہ دو شرائط (ایمانِ حقیقی اور جہاد فی سبیل اللہ) پوری کرنے میں سنجیدہ نہ ہوں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارا رویّہ اللہ تعالیٰ کی بیزاری کو دعوت دینے کے مترادف ہے:{کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(۳)}(الصّف) ’’بڑی شدید بیزاری کی بات ہے اللہ کے نزدیک کہ تم وہ کہو جو کرتے نہیں‘‘۔چنانچہ جو لوگ مذکورہ شرائط کا حق ادا کیے بغیر ہی سمجھتے ہیں کہ وہ آخرت میں نجات پا جائیں گے وہ ایک خود ساختہ خیال کے سہارے زندگی بسر کر رہے ہیں اور اپنی سوچ سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ان آیات کے الفاظ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یعنی یہ ‘معاذ اللہ ‘کلامِ مہمل ہے۔
اس سورئہ مبارکہ کی آخری آیت ایک طویل آیت ہے اور منطقی اعتبار سے یہ اس سلسلہ ٔمضمون کا ایک انتہائی اہم اور بلند ترین مقام ہے جو گزشتہ آیات میں چلا آ رہا ہے۔ فرمایا:
آیت۱۴{یٰٓـــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْٓا اَنْصَارَ اللہِ}’’اے اہل ِایمان! تم اللہ کے مددگار بن جائو‘‘
اللہ کے مددگار بننے کا طریقہ یہ ہے کہ تم اللہ کے دین کا جھنڈا سربلند کرنے پر کمربستہ ہوجائو۔ اور اگر تم اس مشن کو آگے بڑھانے کے لیے جدّوجُہد کرو گے تو تم محمد عربی ﷺ کے مددگار بھی بن جائو گے ‘کیونکہ غلبہ دین کا یہ مشن اصل میں تو اللہ کے رسولﷺ کا مشن ہے۔ تو اے اہل ِایمان! آئو آگے بڑھو! اللہ کے دین کا جھنڈا اٹھائو! جان و مال کا سرمایہ لگائو اور اللہ اور اُس کے رسولﷺ کے مددگاروں میں اپنانام لکھوا لو۔
{کَمَا قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّٖنَ}’’جیسے کہا تھا عیسیٰ ؑابن مریم نے اپنے حواریوں سے‘‘
{مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللہِ ط} ’’کون ہے میرا مددگار اللہ کی طرف؟‘‘
یعنی کون ہے جو میری مدد کرے اللہ کی راہ میں؟مدد مجھے درکار ہے ‘لیکن مشن اللہ کا ہے۔ اس فقرے میں وہی دو نسبتیں نظر آ رہی ہیں جن کا ذکر سورۃ الفتح کی اس آیت میں حضورﷺ کی بیعت کے حوالے سے آیا ہے : {اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللہَ ط یَدُ اللہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ ج}(آیت۱۰)۔یعنی بیعت حضورﷺ کے ہاتھ پر ہو رہی ہے لیکن سودا اللہ تعالیٰ سے ہے۔ گویا عملی طورپر اس بیعت میں دو کے بجائے تین ہاتھ ہیں:بیعت کرنے والے کا ہاتھ‘ حضورﷺ کا ہاتھ اور اللہ کا ہاتھ۔ چنانچہ اللہ کی مدد کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ آپ اُس ’’بندے‘‘ کی مدد کریں جو اللہ کے مشن کو لے کر اُس کے راستے پر نکلا ہو ۔ اسی فلسفے کے تحت حضرت عیسیٰؑ کے حواریوں نے اللہ کی مدد کے لیے آپؑ کی آواز پر لبیک کہا تھا اور اسی جذبے کے ساتھ حضورﷺ کے صحابہؓ نے اپنا سب کچھ آپؐ کے قدموں میں نچھاور کر کے {وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ}(الفتح:۲۹)کی فہرست میں اپنے نام لکھوائے تھے۔ چنانچہ آج بھی اس مشن کو آگے بڑھانے کا یہی طریقہ ہے کہ اللہ کی توفیق سے اللہ کا کوئی بندہ خود کو اس مشن کے لیے وقف کر کے {مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللہِ}کی صدا بلند کرے کہ اے اللہ کے بندو! میں نے تو یکسو ہو کر اللہ کی طرف رجوع کر لیا ہے۔ مجھے تو اب اس راستے پر چلنا ہی چلنا ہے۔ کوئی ساتھی ملے گا تب بھی چلوں گا اور اگر کوئی ساتھی نہیں ملے گا تب بھی چلوں گا۔ تو آئو آگے بڑھو اور میرے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اللہ کے مددگار بن جائو!
{قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللہِ}’’ حواریوں نے کہا کہ ہم ہیں اللہ کے مددگار!‘‘
یعنی حضرت عیسیٰؑ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے مددگار بن گئے۔ بنیادی طور پر اس آیت میں حضرت عیسیٰؑ کے حواریوں کے خلوص و ایثار کا ذکر ہے کہ انہوں نے {مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللہِ}کی دعوت پر بلاتأمل خود کو پیش کر دیا۔
{فَاٰمَنَتْ طَّآئِفَۃٌ مِّنْ  بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ وَکَفَرَتْ طَّآئِفَۃٌج}’’تو بنی اسرائیل کا ایک گروہ (حضرت مسیحؑ پر)ایمان لے آیا اور دوسرا گروہ کفر پر اَڑا رہا۔‘‘
{فَاَیَّدْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلٰی عَدُوِّہِمْ}’’تو ہم نے مدد کی اُن کی جو ایمان لائے تھے ان کے دشمنوں کے خلاف‘‘
{فَاَصْبَحُوْا ظٰہِرِیْنَ (۱۴)}’’تو (بالآخر) وہی غالب ہوئے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے حضرت عیسیٰ ؑ کے نام لیوا دنیا میں غالب ہوئے اور اللہ کے رسول ؑکا انکار کرنے والے یہودی مغلوب ہوئے ----لیکن حضرت عیسیٰؑ کے پیروکاروں کو یہ کامیابی آسانی سے نہیں ملی تھی‘ اس کے لیے ان لوگوں کو تین سو سال تک جاں گداز جدّوجُہد کرنی پڑی اور بڑی بڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ (اس کے مقابل حضورﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ کی ابتلاء و آزمائش کا دورانیہ چند سال کے عرصے میں سمٹ گیا تھا۔) بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جتنے طویل عرصے تک حضرت عیسیٰؑکے پیروکاروں نے مخالفین کی طرف سے تکلیفیں اور سختیاں برداشت کی ہیں اس کی کوئی مثال کسی اور نبی ؑیا رسول ؑکے پیروکاروں میں نہیں ملتی۔ قرآن مجید میں ان کی آزمائشوں اور قربانیوں کا ذکر متعدد مقامات پر آیا ہے۔ مثلاً سورئہ یٰسین کے آغاز میں جن تین رسولوں کاذکر آیا ہے ان کے بارے میں زیادہ تر مفسرین کی رائے یہی ہے کہ وہ حضرت مسیح ؑ کے حواریوں میں سے تھے ۔یعنی وہ حضرت مسیحؑ کے فرستادہ (رسول ؑ کے رسول) تھے۔ا سی طرح سورۃ البروج میںجن اہل ایمان کا واقعہ بیان ہوا ہے وہ بھی عیسائی تھے اور انہیں بادشاہِ وقت ’ابونواس‘ نے خندقوں میں ڈال کر زندہ جلا دیا تھا۔ پھر اصحاب الکہف جو رومی بادشاہ کے تشدد کے خوف سے غار میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے وہ بھی عیسائی تھے۔ بہرحال حضرت مسیحؑکے پیروکاروں کی تین صدیوں پر محیط لازوال قربانیوں کے بعد بالآخر ۳۰۰ عیسوی میں رومی سلطنت نے عیسائیت قبول کر لی ۔آیت میں اسی غلبے کا ذکر ہے۔
اس کے بعد حضرت مسیحؑ کے پیروکار جب گمراہ ہونے پر آئے تو انہوں نے شرک بھی بدترین ایجاد کیا۔ یعنی انہوں نے اپنے پیغمبر کو بربنائے عقیدت اللہ کا صلبی بیٹا بنا ڈالا (نعوذ باللہ)۔ اس ضمن میں آج ہمیں بھی اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں بھی بعض نعت خواں حضرات حضورﷺ سے عقیدت اور عشق و محبّت کے نام پر اتنا غلو کرتے ہیں کہ آپؐ کو اللہ کے برابر بٹھانے سے کم پر ان کی تسلی ہی نہیں ہوتی۔ حتیٰ کہ ایسے لوگوں نے ہندوئوںکی دیکھا دیکھی حضورﷺ کے لیے ’’اوتار‘‘ کا عقیدہ بھی گھڑ لیا ہے۔ عبرت کے لیے ملاحظہ ہوں یہ اشعار: ؎
وہی جو مستویٔ عرش تھا خدا ہو کر

اُتر پڑا وہ مدینے میں مصطفیٰؐ ہو کر!اور: ؎
مدینے کی مسجد میں منبر کے اوپر

بغیر عین کا اِک عرب ہم نے دیکھا!اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {یٰٓـاَھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ}(النساء:۱۷۱) کہ اے اہل ِکتاب! اپنے دین میں غلو نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم صرف یہود و نصاریٰ کے لیے ہی نہیں تھا‘ ہمارے لیے بھی ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے احکام کو بھی درخورِ اعتناء نہیں سمجھا اور ہر اُس گناہ اور جرم میں بے دھڑک اپنا حصّہ ڈالنے کی کوشش کی جس کا ارتکاب کر کے پچھلی اُمتیں راندئہ درگاہ ہوئی تھیں۔سوائے اس کے کہ قرآن کے متن میں ہم تحریف نہیں کر سکے اور وہ بھی اس لیے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی تحفظ حاصل ہے۔ ورنہ اگر ممکن ہوتا تو اس میدان میں بھی ہم کسی سے پیچھے نہ رہتے۔