(عرض احوال) پاکستان کا معاشرتی نظام - ایوب بیگ مرزا

15 /

پاکستان کا معاشرتی نظامقرآن کریم کا ہر قاری جانتا ہے کہ اس آخری آسمانی صحیفے میں جتنی تفصیل سے اور جتنے واشگاف انداز میں انسان کے معاشرتی معاملات کا ذکر ہے اُس کا عُشْرِ عَشِیْر بھی انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے کسی دوسرے گوشے کے بارے میں نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت محمدﷺآخری نبی اوراِسلام آخری دین ہے‘ لہٰذا قرآن پاک اور احادیث ِ مبارکہ کے ذریعے اگرچہ زندگی کے تمام گوشوں کے حوالے سے انسان کو بھرپور تعلیمات اور ہدایات دے دی گئیں لیکن خاص طور پر معاشرتی اور سماجی سطح پر اسلام ایک واضح اور مکمل نقشہ سامنے لاتا ہے ۔ گھر کو بنیادی یونٹ قرار دے کر اہل خانہ کی دینی تعلیم و تربیت پر اصرار کرتا ہے تاکہ ایک صالح معاشرہ کی بنیاد پڑ سکے۔ اسی تربیت کے زیر اثر یہ دعویٰ کیاجاسکتا تھا کہ اکیلی اور نہتی عورت بھی دور دراز کا سفر کرے تو کوئی اُس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت بھی نہیں کرسکتا۔ البتہ جب سے دنیا پر مغرب اور اس کی تہذیب کا غلبہ ہوا ہے وہ تمام معاشرتی و سماجی اقدار جو انسان کو اشرف المخلوقات بناتی ہیں رفتہ رفتہ اس کے کردار و عمل سے محو ہوتی جارہی ہیں اور ان کی جگہ غیر انسانی ، غیر اخلاقی اور حیوانی نوعیت کی عادات و خصائل نے لے لی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ غالب قوم مغلوب قوم پر تہذیبی اور ثقافتی لحاظ سے بھی اثر انداز ہوتی ہے۔
برصغیر ہند انیسویں صدی سے بیسویں صدی کے وسط تک انگریز کے زیر تسلط رہا۔ بدقسمتی سے انگریز نے دوسری غالب قوتوں سے ایک قدم آگے بڑھ کر اپنی تہذیب اہل ہند پر مسلط کرنے کی کوشش کی۔ برصغیر میں دو بڑی قومیں بستی تھیں :ہندو اور مسلمان۔ ہندو تو صدیوں سے بیرونی قوتوں کےغلام تھے‘ اُن کا تو محض آقا تبدیل ہوا۔ لہٰذا معاشرتی سطح پر تبدیلی سے انہوں نے کوئی بڑا فرق محسوس نہ کیا‘ جبکہ مسلمانانِ ہند کو پہلی مرتبہ غلامی کا قلادہ اپنی گردن میں ڈالنا پڑا۔ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے ذریعے ایک باقاعدہ سماجی نظام عطا فرمایا ‘چنانچہ اسلامی تہذیب اسی سماجی نظام پر اُستوار رہی جو اُن کے دین کا ایک لازمی جزو ہے۔ انگریز نے اس فرق کو سمجھتے ہوئے مسلمانوں کو خاص طور پرٹارگٹ کیا۔ عجب بات یہ ہے کہ انگریز کے دورِ حکومت میں تو مسلمانوں نے ان کوششوں کو زیادہ کامیاب نہ ہونے دیا اور بہت کم لوگوں نے حکمرانوں کی تہذیب اور ان کے طرز بودوباش کو اپنایا لیکن بدقسمتی سے قیام ِپاکستان کے بعد ہر گزرتے دن کے ساتھ مسلمانانِ پاکستان مغربی تہذیب اور انگریزی طرزِزندگی سے متاثر ہوتے چلے گئے ۔ یہ کہنا ہرگز مبالغہ نہ ہوگا کہ اُنہوں نے مغرب کی بے حیا تہذیب کو خود پر مسلط کر لیا اور اسلامی تہذیب سے ہی نہیں بلکہ مشرق کی اقدار سے بھی منہ موڑ لیا۔ قیام پاکستان کے وقت کی جو تصاویر یا ویڈیوز ہمارے سامنے آتی ہیں ان میں مَردوں کے لباس اسلامی اور مشرقی اقدار کے مطابق تھے ۔اکثریت کا لباس شلوار قمیض ‘ پگڑی ‘ تہبند تھا۔ اسی طرح عورتوں میں پردہ ‘ چادر اور باحیا لباس رائج تھا‘ یہاں تک کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں بعض غیر مسلم عورتیں بھی ؃’’پردہ‘‘ کرتی نظر آتی تھیں۔ یہ بھی رواج تھا کہ مسلمان عورت کو ڈولی میں بٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا جاتا تھا۔ یہ اس معاشرے کی بات ہے جب برصغیر میں انگریز کا تقریباً دو سو سالہ تسلط مکمل ہورہا تھا۔
کیایہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ انگریز نے اس دو سوسالہ دور تسلط میں ہمارے معاشرتی نظام کو بدلنے کی کوشش نہ کی ہو؟ یقیناً اس نے ایسا کیا … لیکن اس کے باوجود وہ ہماری معاشرت کو تباہ نہ کر سکا۔ اگرچہ قائداعظم محمد علی جناح اور ان جیسے چند بڑے لیڈرز کا لباس مغربی تھا لیکن پاکستان بننے کے بعد ایک دن بھی قائداعظم نے مغربی لباس نہیں پہنابلکہ پوری طرح سے مشرقی طرز بودو باش اختیار کرلی۔ مغربی لباس کو مکمل طور پر ترک کر دیا۔ چونکہ نیا ملک اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آرہا تھا‘ لہٰذا قائداعظم نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ ہمارا آئین قرآن ہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قیام ِ پاکستان کے بعد ہماری معاشرت قرآن و سنت کےاحکامات کی عملی تعبیر ہوتی‘ لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہماری جس معاشرت کو انگریز اپنے دو سو سالہ دور تسلط میں تباہ نہ کر سکا وہ آزادی کے بعد ہم نے خود مغرب کی نقالی میں تباہ کرڈالی۔ آج جب ہم بازاروں میں نکلتے ہیں تو ایک اسلامی معاشرہ تو دور کی بات‘یہ تو مشرقی اقدار کا حامل معاشرہ بھی نظر نہیں آتا۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام ایک دین فطرت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مرد اور ایک عورت سے نسل انسانی کی افزائش کا سلسلہ شروع کیا اور دونوں کے حقوق و فرائض متعین کر دیے۔ بحیثیت انسان مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں البتہ ہر ایک کا دائرہ کار مختلف ہے۔ مغربی تہذیب نے اس نظام کو تلپٹ کر دیا ‘ مرد اور عورت ایک دوسرے کے دائرہ کار میں گھس گئے اور فرائض و حقوق کے حوالے سے غیر فطری انداز اپنا لیا گیا۔ مغرب کا سماجی نظام تو مکمل تباہی و بربادی کا شکار ہو چکا ہے۔ اب مغرب نے اپنی تمام کوششوں کا رُخ اسلامی ممالک کی طرف پھیر دیا ہے تاکہ سوشل انجینئرنگ پروگرام اور دوسرے خوشنما ناموں کے ذریعے ہمارے خاندانی نظام کو بھی تباہ کرد ے۔ وہ بے حیا معاشرے کو ہم پر مسلط کرنے کی کوشش میں مصروف ہے جب کہ اسلام ایک باعفت و با حیا معاشرہ کی تشکیل چاہتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں حیا پر بڑا زور دیا گیا ہے۔ اہل ایمان مَردوں اور عورتوں کو سورۃ النور میں نگاہوں اور شرم گاہوں کی حفاظت کا حکم دیا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ جو لوگ اہل ایمان میں فحاشی پھیلانا چاہتے ہیں اُن کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک سزا ہے۔
آج مسلمانوں سے حیا ختم کرنے کے لیے اغیار تو محنت کر ہی رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے انہیں ہمارے ہی معاشرے سے بھی ایسے دست و بازو میسّر ہیں جو مغرب زدہ ہیں اور اس معاملے میں اُس کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔ بے حیائی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے خواتین کو عزّت و شرف سے محروم کرکے مَردوں کے ہاتھوں ان کا استحصال کرنے اور اشتہاری جنس بنانے کے لیے نت نئے پروگرام ترتیب دیے جا رہے ہیں ۔ قرآن حکیم نے صراحت سے بیان کیا ہے کہ مسلمانوں کے خیر اُمت ہونے کی وجہ ہی نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کی ذمہ داری ادا کرنا ہے‘ لہٰذا بے حیائی کے اس سیلاب کے آگے بند باندھنا نہ صرف ہماری دینی بلکہ قومی ذمہ داری بھی ہے۔ قومی ذمہ داری اس لیے کہ قیام پاکستان کا مقصد یہ تھا کہ ہم یہاں اللہ کے دین کے مطابق اپنا سیاسی ‘ معاشی اور معاشرتی نظام قائم کریں گے۔ قائداعظم نے بار بار اپنے خطبات میں یہی فرمایا کہ بحیثیت مسلمان قوم ہماری طرز بود وباش غیر مسلموں سے بالکل الگ تھلگ ہے۔ ہمارا جینا مرنا ‘ ہماری اقدار و روایات اور رسوم و رواج سب کچھ مختلف ہے۔ صرف اسی مقصد کے تحت مسلمانانِ برصغیر نے جان و مال کی بے مثال قربانیاں پیش کیں اور اپنے گھر بار ‘ زمین و جائیداد اور کاروبار وملازمت چھوڑ کر پاکستان کو اپنا وطن بنایا۔اس کے پس پردہ صرف ایک ہی خواب تھا کہ پاکستان میں سیاسی ‘ معاشی اور معاشرتی طور پر خلافت راشدہ کے دور کی یاد تازہ ہوگی‘ ورنہ ہندوؤں سے الگ ہوکر علیحدہ ملک بنانے کی ضرورت ہی کیا تھی! انفرادی طور پر نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ اور حج کا اہتمام تو متحدہ ہندوستان میں بھی ہورہا تھا۔ لہٰذا بحیثیت پاکستانی قوم بھی یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق اسلامی معاشرت قائم کرنے کی کوشش کریں۔
اب ہم پاکستان کی معاشرت پر اثر انداز ہونے والے چند اہم واقعات اور محرکات کا تذکرہ کریں گے تاکہ قارئین کو اندازہ ہو سکے کہ ہمارے معاشرے کو تباہی سے دو چار کرنے میں کس کا کتنا ہاتھ ہے۔ عائلی قوانین کے حوالےسے بعض سرکاری دستاویزات مثلاً شادی‘ طلاق کی رجسٹریشن وغیرہ تو فی نفسہٖ یقیناً بے ضرر ہیں‘ بلکہ دنیوی معاملات کو طے کرنے کے لیے سود مند ہیں لیکن مرد کو ایک سے زائد شادی کرنے کے لیے کسی حکومتی مصالحتی ادارے کا یا پہلی بیوی یا بیویوں کی اجازت کا محتاج بنا دینایکسر خلافِ شریعت ہے۔ اللہ تعالیٰ مرد کو ایک وقت میں چار بیویاں رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔ ایسی صورت میں کسی قانون سازی سے اللہ تعالیٰ کی فراہم کردہ اس اجازت کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنا لازماً خلافِ شریعت ہے۔العلیم اورالحکیم ہونا صرف اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں اور اُس نے مرد کو چار شادیوں کی اجازت اپنے علم اور حکمت کی بنیاد پر دی ہے‘ لہٰذا اگر کوئی حکومت یا معاشرہ ایسی قانون سازی کرتا ہے جس سے مرد کا یہ اختیار مفلوج‘ منسوخ یا محدود ہوتا ہے تو یہ مالکِ کائنات کے خلاف کھلی بغاوت ہے۔ یہ ظلم ہے جو کسی صورت روا نہیں رکھا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک طرف مرد کو یہ اجازت تو دیتا ہے لیکن دوسری طرف خود قرآن پاک میں اور اپنے آخری رسول ﷺکی مبارک سیرت و سنت کے ذریعے مرد کی شخصیت کو ایسی اخلاقی تعلیم و تربیت سے مزین کرتا ہے کہ وہ اپنی ازدواجی زندگی میں عدل کو بنیاد بنا کر توازن قائم کر سکے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں ایک فوجی طالع آزمانے ایک منکر ِ حدیث کی ذمہ داری لگائی کہ وہ عائلی قوانین ترتیب دے اور پھر اُس نے خود ڈکٹیٹر کی حیثیت سے اُنہیں زبردستی مسلمانوں پر مسلط بھی کر دیا۔ یہ عائلی قوانین مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے علماء نے خلافِ اسلام و شریعت قرار دے دیے۔ ان کے خلاف احتجاج بھی ریکارڈ کروایا‘ لیکن تقریباًساٹھ سال سے کوئی بھی سول یا فوجی حکمران انہیں تبدیل نہ کر سکا۔ یہ عائلی قوانین اسلام کے معاشرتی نظام سے کس قدر متصادم ہیں‘ اس کا علماء کرام تفصیل سے زبانی اور تحریری طور پر ذکر کر چکے ہیں اور ہم ہرگز اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اس میں کمی بیشی کر سکیں۔ قارئین اس حوالے سے علماء کرام کے دیئے گئے فتاویٰ سے استفادہ کریں۔
عائلی قوانین جیسے داخلی محرکات کی مزید تفصیل دینے سے پہلے ہم کچھ بیرونی عوامل کا ذکر کریں گے جو پاکستانی معاشرت پر اثرانداز ہوئے۔ عورت کو اپنے حقوق سے آشنا کرا نے کے نام پر طاغوتی قوتوں نے دجالی ایجنڈے کے تحت کچھ بین الاقوامی کا نفرنسیں منعقد کیں ۔ بظاہر ان کا مقصد عورت کے مسائل کو حل کرنا بتایا گیا۔ پہلی کانفرنس ۱۹۷۵ء میں ہوئی۔ دو سری کانفرنس میکسیکو میں منعقد ہوئی جس میں ۶۷ممالک نے حصہ لیا۔تیسری کانفرنس ۱۹۸۵ء میں نیرو بی میں ہوئی جس میں ۱۳۰ملک شریک ہوئے۔ اس کے بعد ۱۹۹۴ء میں قاہرہ کانفرنس ہوئی۔ ۱۹۹۵ ء میں بیجنگ میں وہ کانفرنس منعقد ہوئی جس نے دنیا کی عورت کو’’ بیجنگ پلیٹ فارم فار ایکشن‘‘ BPFAدیا۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر سے تیس ہزار سے زا ئد خوا تین نے شر کت کی۔ ۲۰۰۰ء میں نیویارک میں عورتوں کی عا لمی کانفرنس اقوامِ متحدہ کے ایک خصوصی اجلاس کے طور پر منعقد کی گئی جس میں این جی اوز نے بہت بڑی تعداد میں شر کت کی اور دستا ویزکی تیا ری میں بھرپور طور پر اثر انداز ہوئیں۔ اسے بیجنگ پلس فائیو (B+5) کا نام دیا گیا ۔۲۰۰۵ء میں بیجنگ کانفرنس کی دسویں سا لگرہ کوB+10کا نام دیا گیا‘ جسے پاکستان میں بھی بھرپور انداز میں منایا گیا۔
’’ بیجنگ پلیٹ فارم فار ایکشن‘‘ کے ۱۲مخصوص میدان کار ہیں جو عورت کی پوری زندگی کا احاطہ کر تے ہیں۔اُس میں تعلیم‘ صحت‘ غربت‘ انسانی حقوق‘ ذرائع ابلاغ‘ ماحول‘ معیشت‘ ادا رہ جا تی نظا م‘ مسلح جا رحیت‘ فیصلہ سازی میں شمولیت اورتشدد کے مو ضوعات شامل ہیں۔ تمام حکومتیں اس کی پابند ہیں کہ عورت کے لیے اس حوالے سے جو کام ہو چکے ہیں ‘ جو ابھی با قی ہیں اور جو حکمتِ عملی تر تیب دی جاتی ہے‘ اُس کی ایک جا مع رپورٹ ہر سال اقوامِ متحدہ کو پیش کریں۔گویا خوشنما نعروں کی آڑ میں مغربی اور دجالی تہذیب کو ہمارے معاشرے پر مسلط کرنے اور شعائر اسلام سے دوری پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔
پاکستانی معاشرت اور معاشرتی اقدار کو تلپٹ کرنے میں کچھ بین الاقوامی معاہدات نے بھی کلیدی رول ادا کیا۔ اس حوالےسے سب سے خوفناک حملہ ۱۹۷۹ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے پاس کیے جانے والا ’’سیڈا‘‘ (CEDAW)معاہدہ ہے جومخفف ہے :
"Convention on the Elimination of All Forms of Discrimination Against Women "
اسے۳دسمبر ۱۹۸۱ء کو قانونی حیثیت دی گئی اوراب تک دنیا کے ۱۸۱ ممالک اس کو منظور اور لاگو کر چکے ہیں۔ پاکستان نے ۱۹۹۶ء میں اس کو منظور کیا۔ حیرت کا مقام ہے کہ جن مٹھی بھر ممالک نے اسے منظور اور لاگو نہیں کیا ان میں سے ایک دنیا میں خواتین کے حقوق کا سب سے بڑا علمبردار خود امریکہ ہے۔ ’’سیڈا‘‘ کی ۱۶بنیادی شقوں کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اس کے ذریعے معاشرتی خاص طور پر خاندانی نظام کو تباہ کرنا مقصود ہے۔ ظاہری طور پر سیڈا کے نکات جو بھی ہوں لیکن پس پردہ ان کے مقاصدبہت واضح ہیں جن کی ایک اجمالی فہرست درج ذیل ہے :
۱) عورتیں مَردوں کی طرح ہوتی ہیں۔ ۲) مرد کو تعددِ ازدواج کی اجازت نہیں ہے۔ ۳) بچوں کے نام ان کی ماؤں کے نام پر رکھے جائیں۔ ۴) عورت کی کوئی عدت نہیں۔ ۵) مرد کو عورت پر برتری حاصل نہیں ہے اور باپ کو اپنی بیٹیوں کی سرپرستی کا کوئی حق نہیں۔ ۶)مرد اور عورت کی میراث ایک سی ہے۔ ۷) ایک مرد اپنے جیسے مرد سے شادی کر سکتا ہے‘ ایک عورت اپنے جیسی عورت سے شادی کر سکتی ہے۔ ۸)خواتین کو اسقاطِ حمل کا حق حاصل ہے۔ ۹)میاں بیوی دونوں کے لیے شادی سے باہر جنسی تعلقات کوئی جرم نہیں ہیں۔ ۱۰) عورت جس سے چاہے تعلق قائم کرے اور جب چاہے جدا ہو جائے‘ اور جب چاہے دوبارہ جڑ جائے۔ ۱۱) شادی کی عمر اٹھارہ سال کے بعد ہے۔ وغیرہم
جو ملک یا معاشرہ اسلام سے وابستہ ہونے کے باوجود ان مغربی دجالی قوانین اور نظریات کے ساتھ کھڑا ہونا اور اس کا دفاع کرنا چاہتا ہے اسے جان لینا چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا ارتکاب کر رہا ہے۔ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول ﷺکی سنت کا انکار کررہا ہے‘ جس کے دنیوی اور اُخروی لحاظ سے بدترین نتائج برآمد ہوں گے۔
خالق کائنات خود یا اُس کی مخلوق میں سے کوئی جب لفظ انسان استعمال کرتا ہے تو اُس کی مراد مرد اور عورت دونوں ہوتے ہیں‘ البتہ ترجیح اور فضیلت مرد کو حاصل ہے۔ ترجیح یوں کہ مرد کو پہلے پیدا کیا گیا اور فضیلت یوں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ میں اپنی روح پھونکنے کے بعد فرشتوں کو آدمؑ کو سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ اُس وقت تک ظاہری اور جسمانی طور پر عورت کا کوئی وجود نہیں تھا۔ یہ ترجیح اور فضیلت ظاہر کرنے کے فوری بعد عورت کو بھی سامنے لایا گیا۔ شجرممنوعہ کا پھل کھانے کی خطا پر اُنہیں دنیا میں اتار دیا گیا‘ جہاں آدم اور حوّا علیہما السلام کے ملاپ سےنسل انسانی کا آغاز ہوا۔ گویا حضرت آدمؑ اگر انسانوں کے باپ ہیں تو حوّا ؑانسانوں کی ماں ہیں۔ اس لحاظ سے یہ مقدس جوڑا انتہائی قدر و منزلت کا حق دار ہے‘ لیکن گزرے وقتوں میں جب انبیاء اور رُسل علیہم السلام کی تعلیمات کو مسخ کیا گیا تو مَردوں نے عورت کو انتہائی ڈی گریڈ کیا‘ یعنی اُسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ اُونچے مقام سے گرا دیا۔ یہ اُس وقت کی موجود دنیا میں ہر جگہ ہوا۔ بچی کی پیدائش پر باپ اپنے معاشرے میں یوں منہ چھپاتا پھرتا تھا جیسے اُس سے گناہ کبیرہ کا ارتکاب ہوگیا ہے۔ جزیرہ نمائے عرب میں دور جہالت میں بچیوں کو زندہ درگور کرنے جیسے انتہائی ظالمانہ فعل کی نوبت بھی آجاتی ۔مغرب میں چند صدیاں پہلے تک عورت نفرت کا استعارہ تھی۔ انگریزی زبان کے لفظ woman سے مراد یہ لیا جاتا تھا کہ عورت man کی wo یعنی غلام ہے۔
۱۵۰۰سال پہلے تک دنیا میں عورت کی حالت یہ تھی کہ وہ مرد کے پاؤں کی جوتی تھی اور ظلم و ستم کا شکار رہتی تھی ۔ زیادہ سے زیادہ اُسے اس لیے برداشت کر لیا جاتا تھا کہ وہ مرد کی ضرورت تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ کی دنیا پر رحمت خصوصی نازل ہوئی اور اُس نے اپنے آخری رسول محمد ﷺ کو آخری اور حتمی کتاب دے کر دنیا میں بھیجا ۔ دین اسلام کا کیچ ورڈ’’ عدل‘‘ ہے۔ اس دین نے انقلاب برپا کر دیا۔ انسانوں کی انفرادی زندگی میں ہمالائی تبدیلی آگئی جبکہ اجتماعی زندگی کے تینوں گوشوں میں ایسا نظام کار فرما کیا کہ آغاز میں جزیرہ نمائے عرب اور بعد ازاں معلوم دنیا کا بہت بڑا حصہ جنت نظیر بن گیا۔ اہم ترین اور کلیدی تبدیلی معاشرتی نظام میں آئی۔ گھریلو زندگی میں ایک طرف مرد کو قوام قرار دیا۔ آپ کہہ سکتے ہیں یہ مرد کی قانونی حیثیت ہے اس لیے کہ گھر ایک یونٹ ہے‘ ایک ادارہ ہے اور کسی ادارے کا ایک ہی سربراہ ہو سکتا ہے۔ کوئی ادارہ نہ بغیر سربراہ کے چل سکتا ہے اور نہ ہی ایک سے زائد سربراہوں کا متحمل ہو سکتا ہے۔دونوں صورتوں میں انتشار اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔دوسری طرف عورت کو اخلاقی سطح پر ایسا اعلیٰ اور ارفع مقام دیا کہ مرد کو بھی سر اُٹھا کر دیکھنا پڑتا ہے۔ عورت کو نبی یا رسول نہیں بنایا لیکن آدمؑ کے سوا ہر نبی اور رسول کو عورت نے ہی جنم دیا۔ عزّت‘ خدمت اور احترام کے حوالے سے ماں کا درجہ باپ پر تین گُنا زیادہ بتایا گیا۔ پھر یہ کہ وراثت میں اگر مرد کا حصّہ عورت کے حصہ سے دگنا ہے تو عورت اپنے مرد باپ کی وراثت میں بھی حصہ دار ہے اور شوہر کی وراثت میں بھی حصہ دار ہے۔ قصہ کوتاہ ‘مرد اور عورت کے مابین جو عدل اور توازن دین اسلام میں ہے وہ بے نظیر اور لاجواب ہے۔ اس سے ایک انچ آگے یا پیچھے ہونا ظلم ہے‘ انتشار ہے اور معاشرے کی تباہی و بربادی کا باعث ہے۔
مغرب کو جب دنیا میں بالادستی حاصل ہوئی تو اُس نے اس فطری اور عادلانہ نظام میں مداخلت کی۔ یہ مغرب کی ایسی سنگین غلطی تھی کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں حیرت انگیز ترقی اور آسائش اور سہولتوں کی فراوانی کے باوجود آج انسانی زندگی عذاب بن چکی ہے۔ Sleeping Pills کے بغیر سویا نہیں جاتا۔ ناکام شادیوں اور طلاقوں کی شرح اس قدر بڑھ چکی ہے کہ مغرب میں لوگ اب شادی کرنے سے ہی انکاری ہیں۔ امریکہ کے ایک سابق صدر کہتے تھے کہ آنے والے وقت میں امریکہ بغیر شادی کے پیدا ہونے والے افراد کا ملک ہوگا۔ مادّی دولت سے بھری ہوئی اس دنیا میں خود کشیاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ شمار کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ مغرب عورت کو پُرسکون گھر سے کھینچ کر بازار میں لے آیا ہے۔ عورت سے بہت بڑا دھوکا کیا گیا ہے۔ حقوق اور مساوی درجہ دینے کا فریب دے کر روزگار کمانے کی ذمہ داری اُس پر بھی ڈال دی گئی ہے۔ نسوانی حسن کوکاروبار کی بڑھوتری کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔پروڈکٹ پُرکشش بنانے کے لیے عورت کو استعمال کیاگیا۔ جواز یہ پیش کیا گیا کہ عورت کی ذاتی دولت اور وسائل میں اضافےسے اُس کی عزت اور احترام میں بھی اضافہ ہوگا۔
بدقسمتی سے اکیسویں صدی کے آغاز میں پاکستان پر ایک فوجی طالع آزما جبراً مسلط ہوگیا۔ اس ناجائز حکمران کو مغرب خاص طور پر امریکہ کی سیاسی حمایت درکار تھی۔ پھر یہ کہ وہ خود ذہنی طور پر ایک عیاش بلکہ اوباش انسان تھا۔بعد ازاں اُس کے بہت سے سکینڈلز بھی سامنے آئے۔ اُس نے انٹرنیشنل میڈیا کو ایک انٹرویو دونوں ہاتھوں میں کتے کا پلّا اٹھا کر دیا۔ در حقیقت وہ مغرب کو اپنی روشن خیالی کا پیغام دے رہا تھا تاکہ اُس کی حکومت کو مستحکم کرنے میں مغرب اپنا رول ادا کرے۔صدر پرویز مشرف کے سیاہ دور میں بدنام زمانہ’’ تحفظ نسواں بل ‘‘۱۵ نومبر ۲۰۰۶ء کو پارلیمان سے منظور کیا گیا جس پر تمام مکاتب فکر کے علماء نے پُرزور مذمّت کرتے ہوئے اسے خلاف شریعت قرار دیا۔یہ درحقیقت سیکولر اور لبرل دنیا کو خوش کرنے‘ ہمارے ملک کے مذہب بے زار طبقہ کی خواہشات کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے اور پاکستان میں مغربیت کو فروغ دینے کی ایک مذموم کوشش تھی۔اس حوالے سے علماء و محققین ِ اسلام کی بیش بہا تحریریں صفحۂ قرطاس پر منتقل ہو چکی ہیں‘ جن سے قارئین استفادہ کر سکتے ہیں ان کے مطالعے سے صحیح ادراک ہو سکے گا کہ اُس دور کے ابن الوقت سیاسی اتحادی‘ جن میں سے اکثر آج بھی سیاسی میدان میں سرگرم عمل نظر آتے ہیں‘ اُنہوں نے پاکستان کے اسلامی معاشرتی نظام و طرزِ بودوباش اور خاندانی نظام پر کس قدر خطرناک حملے کیے۔ پھر یہ کہ اُس وقت اور اُس کے بعد کے ادوار میں مغرب زدہ این جی اوز کو ہمارے معاشرتی نظام اور اسلامی و مشرقی اقدار سے کھلواڑ کرنے کی بے لگام آزادی دی گئی۔
وزراتِ داخلہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۸ءمیں پاکستان میں بیس ہزار سے زائد این جی اوز کام کر رہی تھیں جن کی اکثریت بیرونی خاص طور پر مغربی ممالک اور اداروں کی امداد سے چل رہی تھیں۔ یہ داستان بھی ہماری ملکی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ پاکستان میں ویلنٹائن ڈے‘ نیو ایئر نائٹ اور بسنت جیسے بیہودہ تہوار اگرچہ کم تر سطح پرپہلے بھی منائے جاتے تھے لیکن صدر مشرف نے حکومتی وسائل سے ان میں بے تحاشا اضافہ کر دیا۔ علاوہ ازیں مخلوط میراتھن دوڑ کا اضافہ کرکے رہی سہی کسر بھی نکال دی۔ یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ اس دور میں پاکستانی معاشرہ پر عریانی‘ بے حیائی اور فحاشی کا زبردست حملہ کیا گیا ۔ یقیناً اُس کےنہایت بُرے اثرات معاشرے پر مرتب ہوئے‘ خاص طور پر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں انتہائی افسوسناک مناظر دیکھنےمیں آئے۔ جنسی ہراسگی اور بے راہروی کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ ٹیلی ویژن کی سکرین پر انتہائی ناشائستہ اور نازیبا مناظر سامنے آنا شروع ہوگئے۔ سوشل میڈیا فحاشی اور بے حیائی کی تشہیر میں سب پر سبقت لے گیا۔ گویا پاکستان کے معاشرتی نظام اور نظریۂ پاکستان کی بنیاد اور جڑ پر ایٹمی حملہ کیا گیا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اگرچہ ہم اسلامی تہذیب سے بہت دور نکل چکے ہیں اور ہمیں اس خوفناک حملے سے بہت نقصان ہوا ہے‘ البتہ ہمارے معاشرے میں موجود اسلام کے مجاہد افراد اور تناظیم ابھی بھی مزاحمت کر رہے ہیں جس کے نتیجہ میں اسلامی تعلیمات حاصل کرنا‘ اسلامی اور مشرقی اقدار کو آگے بڑھانا صاف نظر آتا ہے۔ اس مزاحمت کو کمک بلکہ تقویت پہنچانے کی اشدضرورت ہے‘ وگرنہ اس ابلیسی اور دجالی تہذیب کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ مسلمانوں کو اس محاذ پر سود و زیاں سے لاتعلق ہو کر بے جگری سے لڑنا ہوگا۔ اسلام کا معاشرتی نظام ہمارے دفاع کی آخری لائن ہے۔ ہم سیاسی اور معاشی محاذ پر تو پہلے ہی شکست کھا چکے ہیں‘ معاشرتی نظام کی حفاظت ہمارے لیے اتنی ضروری ہے کہ الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ ہمیں یہ جنگ محلوں‘ گلیوں اور گھروں کی سطح پر لڑنا ہوگی۔ عریانی اور بے حیائی ہی نہیں‘ بے پردگی اور غیروں کے رسم و رواج کے خلاف بھی سیسہ پلائی دیوار بننا ہوگا۔ یہ ہماری عزّت و عفت کا مسئلہ ہے۔ یہ ہماری چادر اور چاردیواری کا مسئلہ ہے۔ یہ ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔

***