(عرض احوال) امریکہ کی غلامی اور فتنۂ دجّال - ادارہ

8 /

بسم اللہ الرحمن الرحیم

امریکہ کی غلامی اور فتنۂ دجّالمعرکۂ حق و باطل اپنے آخری دور میں داخل ہو چکا ہے ۔جوں جوں ظہور دجّال کا زمانہ قریب آرہا ہے دنیا پر دجل ‘ فریب اور باطل کا غلبہ بڑھتا چلا جارہا ہے ۔کہنے کو تو خلافت ِعثمانیہ کا خاتمہ محض ایک صدی قبل ہوا اور اس کے بعد اُمّت کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہر ٹکڑے پر ایک مخصوص مافیا کو بٹھا دیاگیالیکن حقیقت میں اس مافیا کی تعلیم و تربیت کلونیل مقاصد کے زیر سایہ بہت پہلے شروع ہوئی۔ نوآبادیاتی (colonial) دور میں اس مافیا کو پالا پوسا گیا اور نام نہاد آزادی کے بعد اس کو مسلم دنیا پر مسلط کر دیا گیا اور حکومت ‘ عہدوں اور مراعات کے بدلے جو ذمہ داریاں تفویض کی گئیں وہ بنیادی طور پر دو طرح کی تھیں:
(۱) آئیڈیالوجیکل چینج: یعنی اسلام کی عمارت کے اجتماعی گوشے (سیاست ‘ معیشت اور معاشرت) کو مسمار کرنااور اس کی جگہ سیکولرزام اور سرمایہ دارانہ نظام کی عمارت کھڑی کرنا‘ دینی طبقے کا سماجی ‘ سیاسی اور معاشی گھیراؤ ۔گمراہ فرقوں کو پروموٹ کرنا جبکہ حقیقی اسلامی روح کی اشاعت کا راستہ روکنا۔ دجّالی تہذیب اور کلچر کو فروغ دینا ۔
(۲) ڈیموگرافک چینج :یعنی اسلام کی بنیاد پر قائم مسلمانوں کو مٹانا ‘ زیر کرنا اور ان کی جگہ گمراہ اور اسلام سے متصادم نظریات و عقائد اور تصوّرات کے ماننے والوں کا تسلط اور غلبہ قائم کرنا ۔
نائن الیون کے بعد دنیا میں صرف اتنی تبدیلی آئی کہ اس سے پہلے ان دوبنیادی دجّالی نکات پر عمل درآمد ڈھکے چھپے انداز میں کئی صدیوں سے جاری تھا(سوائے سپین کے جہاں کھلے عام مسلمانوں کو مٹا دیا گیا ) ۔ نائن الیون کے بعد وہی ایجنڈاکھل کر سامنے آگیا جس کے تحت پوری دنیا میں حقیقی اسلامی روح کا گھیرا تنگ کیا گیا ‘ حقیقی اسلام کو بدنام کرنے کے لیے دہشت گردی سمیت ہر مکروہ سازش رچائی گئی ۔ علماء اور مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ‘ اسلامی انقلابی جماعتوں پر پابندیاں لگائی گئیں ‘ ان کے لٹریچرکو تلف کیا گیا ۔ جو اسلامی انقلابی جماعتیں نفاذِ اسلام کی طرف بڑھ رہی تھیں ان کا راستہ روکا گیا اور انہیں کچلنے کے لیے انسانی تاریخ کے بدترین مظالم ڈھائے گئے ۔ الاخوان اور افغان طالبان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔مدرسوں اور تناظیم پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ ڈرون حملے ‘ فضائی بمباری اور اس کے علاوہ بھی مختلف حیلوں بہانوں سے لاکھوں مسلمانوں کو شہید کیا گیا ‘ غائب کیا گیا اور دنیا بھر کی جیلوں میں اذیتوں سے گزارا گیا ۔یہ سب کچھ پوری دنیا کے سامنے ہوا۔ کسی نے اس کی وجہ گریٹر اسرائیل کے قیام کو قرار دیا ‘ کسی نے دہشت گردی کا شاخسانہ کہا ‘ کسی نے تہذیبوں کا تصادم کا نام دیا اور کسی نے اسلام دشمنی اور اسلامو فوبیا کا عنوان دیا ‘لیکن اس جنگ کابنیادی مقصد کیا ہے اس پر کسی نے غور نہیں کیا۔ حالانکہ دجّالی طاقتوں کا ہدف واضح تھا کہ وحی الٰہی کی بنیاد اور اثرات پر قائم معاشروں ‘ اقدار و روایات اور انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا کر دنیا پر دجّالی نظام ‘ دجّالی تہذیب اور معاشرت کو غالب کر دیا جائے ۔
نائن الیون سے پہلے تک تو کم از کم شام اور عراق کے مسلمانوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ خود اپنے ہی وطن میں اجنبی بن جائیں گے ۔ وہ بھی ہماری طرح یہی سمجھ رہے تھے کہ ہمارا ملک ہے ‘ ہماری وراثت ہے ۔ہماری جائیداد ‘ کاروبار ‘ علاقہ ‘ اقدار و روایات کون ہم سے چھین سکتا ہے؟ لیکن آج وہاں کا ڈیموگرافک اسٹرکچر مکمل طور پر تبدیل ہو چکا ہے ۔ وہ مسلمان جو اسلام کی اصل بنیادوں پر قائم تھے انہیں یا تو مار دیا گیا ‘ یا وہ مہاجر ہو گئے‘یا پھر تباہ شدہ شہروں اور بستیوں کے کھنڈرات میں دفن ہو گئے۔ ان کے بچوں کی لاشیں کہیں سمندروں پر تیر رہی ہیں ‘ عورتیں کہیں دربدر ہیں۔ اگرچہ گریٹر اسرائیل کا راستہ ہموار کرنا بھی اسی جنگ کا ایک مقصد تھا‘لیکن اس کا اصل ہدف دجّال کی عالمی حکومت کا قیام ہے اور اس کے راستے میں اصل رکاوٹ وہ ہیں جو ایک اللہ کو ماننے والے اور صحیح العقیدہ مسلمان ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جنگ صرف شام اور عراق تک محدود نہیں رہی بلکہ دنیا بھرمیں جہاں کہیں بھی ایک اللہ کو ماننے والے مسلمان تھے وہ اس جنگ کی لپیٹ میں آئے ۔ حتیٰ کہ سری لنکا ‘ میانمار ‘ آسام اور سنکیانگ کے مسلمانوں سے اسرائیل کو کیا خطرہ ہو سکتا تھا‘لیکن ان کا بھی قتل عام جاری ہے اور اس عمل کو حتمی شکل دینے کے لیے بھارت اور اسرائیل سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف قانون سازیاں ہو رہی ہیں ‘ انہیں شہریت سے محروم کیا جارہا ہے ‘ کہیں بے دخل اور کہیں قتل کیا جارہا ہے ۔کہیں نام نہاد روشن خیالی اور ماڈرنائزیشن کے نام پر مسلمانوں کو ایمان اور اسلامی اقدار سے دور کیا جارہا ہے ۔گویا نائن الیون کے بعد شروع جنگ کا اصل ہدف ایسا گلوبل ڈیموگرافک اینڈ آئیڈیالوجیکل چینج ہے جو دجّال کے استقبال کے تقاضے پورے کر سکے‘چاہے بظاہر اس ہدف کا نام گریٹر اسرائیل یا اکھنڈ بھارت ہی کیوں نہ رکھ دیا جائے ۔
نائن الیون کے بعد یہی جنگ افغانستان اور پاکستان پر بھی مسلط کی گئی ۔ پاکستان نے اس جنگ میں افغانستان کے خلاف دجّالی قوتوں کا ساتھ دیا ۔ آج اٹھارہ سال بعد ہم کہتے ہیں افغان یہ جنگ جیت گئے ۔ جبکہ دوسری طرف ہم یہ بھی کہتے ہیںکہ پاکستان یہ جنگ جیت گیا ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب آپ اس جنگ میں افغانوں کے دشمن امریکہ کے ساتھ کھڑے تھے تو پھر آپ کیسے جیت گئے ؟ حقیقت میں افغان ۱۸ سال یہ جنگ لڑنے کے بعد جیت چکے ہیں جبکہ آپ اٹھارہ سال پہلے ہی یہ جنگ ہار چکے تھے جب نائن الیون سے پہلے ہی امریکہ نے پرویز مشرف کو تخت پر بٹھا دیاتھا ۔ اس کے بعد یہاں جنگ کے بغیر ہی وہ سب کچھ ہوا جو عالمی قوتیں جنگ جیتنے کے بعد کرنا چاہتی تھیں‘اور اسی کو آپ اپنی جیت کہتے ہیں‘حالانکہ اُمّت کے مفاد کے لحاظ سے وہ آپ کی ہار ہے ۔مثلاً:
دہشت گرد تنظیمیں سی آئی اے نے خود بنائیں ،’’ را‘‘ اور ’’موساد‘‘ نے انہیں تربیت دی‘ لیکن ان کی آڑ میں بنیاد پرست مسلمانوں کا گھیرا تنگ کیا گیا ‘ انہیں ڈرون حملوں اور فضائی حملوں میں شہید کیا گیا ‘ اُٹھایااور غائب کیا گیا ‘ ٹارچر کیا گیا ‘ بم حملوں میں شہید کیا گیا ۔ یہاں تک کہ مشرف نے خود اپنی کتاب میں فخر سے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس نے پانچ پانچ ہزار ڈالر میں مسلمان بیچے اور وہ وہی مسلمان تھے جو بنیاد پرست تھے ۔مذہبی تنظیموں پر پابندیاں لگائی گئیں ‘ مدرسوں کا گھیرا تنگ کیا گیا اور بہت سے مدارس بند کیے گئے ۔مساجد کو شہید کیا گیا ‘ یہاں تک کہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ جیسے سانحات وجود میں آئے جو شاید افغانستان اور فلسطین میں بھی یہود و نصاریٰ کے ہاتھوں بھی نہ ہوئے ہوں ۔
کیا یہ عجیب بات نہیں کہ یہ جنگ دہشت گردی کے خلاف تھی لیکن توحیدی اور انقلابی لٹریچر پر پابندیاں عائد کی گئیں ۔ جس طرح مصر اور عرب میں حسن البناء ‘ یوسف القرضاوی اور مولانا مودودی کے لٹریچر پر پابندی لگائی گئی ۔ حالانکہ اس کا دہشت گردی کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہ تھا ۔ اسی طرح پاکستان میں توحیدی اشاعت پر بھی پابندی عائد کی گئی ۔ ’’ایقاظ‘‘ جیسے رسالے بند کیے گئے ‘خلافت کا نام لینا بھی جرم بن گیا ۔گویا کہ اسلام کی بنیاد پر قائم مسلمانوں کو مکمل طور پر دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا‘جبکہ سیکولر ازم اور لبرل ازم کو فروغ دیا گیا ۔ مغربی تہذیب ‘ فحاشی اور عریانی کا دور دورہ ہو گیا۔نائن الیون سے پہلے عورتوں کا لباس پھر بھی مناسب تھا لیکن نائن الیون کے بعد بتدریج گھٹتا ہوا تنگ پاجامے تک اور پھر مغرب کی طرح عریانی کی حدوں کو پار کرتا چلا گیا ۔گویا اسلامی تہذیب وکلچر کا بوریا بستر لپیٹ دیا گیا ۔گمراہ فرقوں کو پروموٹ کیا گیا ۔ قادیانیت پروان چڑھی ۔ اسلامی لٹریچر اور تحریر و تقریر پر تو ہر طرح سے پابندی رہی لیکن گمراہی اور جہالت کو خوب پروموٹ کیا گیا۔یہاں تک کہ ہر اخبار ‘ ٹی وی چینل ‘ ایف ایم ریڈیواور سوشل میڈیاان رینڈ کارپوریشنی ادیان کا مبلغ بن گیا اور اس کی تبلیغ و اشاعت کے لیے نئے ٹی وی چینلز‘ ایف ایم ریڈیوز اور نئے اخبارات و رسائل بھی وجود میں آگئے ۔
اس ڈیموگرافک چینج کے ذریعے جس طبقہ کو غالب کرنا مقصودو مطلوب تھا نائن الیون کے بعد چند سال میں پاکستان کی سیاست اور معیشت پر اس کا قبضہ پہلے سے کئی گنا زیادہ مستحکم ہو گیا۔ یہی منظورِ نظر طبقہ دوسری طرف قبضہ مافیا کی صورت میں بھی اس قدر تیزی سے پھیلا کہ نائن الیون کے بعد چند سالوں میں پورے پورے شہر ‘ دیہات اور جنگلات اس کی لپیٹ میں آگئے ۔ بیوروکریسی اور میڈیا پورے کا پورا اسی مافیا کے کنٹرول میں چلا گیا ۔قبضہ مافیا کے اپنے اخبارات اور ٹی وی چینلز وجود میں آگئے ۔ صحافیوں کو قبضہ مافیا کی طرف سے تنخواہیں ملنے لگیں اور چند سالوں میں وہ صحافی بھی پلاٹوں ‘ فارم ہاؤسز ‘ مہنگی گاڑیوں اور بینک بیلنس کے مالک بن گئے جو نائن الیون سے پہلے سائیکلوں اور موٹر سائیکلوں پر دفتر جایا کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ میڈیا قبضہ مافیا کا ایک ونگ بن گیا جس کا مقصد قبضہ مافیا اور اس کے عالمی سرپرستوں کے مفادات کا تحفظ کرنا ٹھہر گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے اور اسلام کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلانے میں میڈیا نے سب سے اہم کردار ادا کیا ۔
عراق اور شام میں باقاعدہ جنگ کے ذریعے جو ڈیموگرافک چینج لایا گیا وہ یہاں بغیر جنگ کے آگیا اور جس مافیا کو غالب کرنا مقصود تھا وہ ملک کے ہر ادارے اور تمام تر وسائل و ذرائع پر مکمل کنٹرول حاصل کر چکا ہے‘جبکہ دوسری طرف وہ طبقہ جسے دبانا اور مٹانا مقصود تھا وہ اپنی بقا کی جنگ لڑنے سے بھی قاصر ہو چکا ہے ۔گویا شام اور عراق کی طرح ہم بھی یہ جنگ ہار چکے ہیں لیکن ممکن ہے پھر بھی ’’ ایک اللہ کو ماننے والوں‘‘ کی اکثریت یہ سوچ اور سمجھ رہی ہو کہ ہمارا ملک ہے ‘ ہمارے ادارے ہیں ‘ نظام ہے ‘ جمہوریت ہے ‘ آئین ہے ‘ ہم آزاد ہیں ‘ ہمارا کچھ نہیں بگڑا ‘وغیرہ تو ان کی یہ غلط فہمی بھی آئندہ چند سالوں میں اسی طرح دو ر ہو جائے گی جس طرح ڈرون حملوں ‘ جامعہ حفصہ میں شہید ہونے والوں ‘ اُٹھائے اور غائب کیے جانے والوں ‘ قبضہ مافیا کے ہاتھوں قتل ‘ ٹارچر اور لاپتہ ہونے والوں کے لواحقین کی ساری غلط فہمیاں دور ہو چکی ہیں اور جن کو اب اس بات میں کوئی شک نہیں رہا کہ وہ ملک جو اسلام کے نام پر بنا تھا اب اس میں ایک بڑا آئیڈیالوجیکل اور ڈیموگرافک چینج آ چکا ہے جس کے ذریعے وہ طبقہ یہاں غالب آچکا ہے جو عالمی قوتوں کا منظورِ نظر اور دجّال کی عالمی حکومت کے قیام میں ان کا سہولت کار ہے ۔
اب ہم کہتے ہیں کہ امریکہ نے پاکستان میں مداخلت کی ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ مغرب جس کا امریکہ اس وقت امام ہے اور جس کی شہ رگ پنجہ ٔ یہود میں ہے اُس نے صدیوں محنت کرکے کلونیل اور دجّالی مقاصد کے تحت مسلم معاشروں میں جس طبقے کو پالا پوسا ہے اور نائن الیون کے بعد بیس سالہ جنگ میں جس طبقہ نے مغربی مفادات کا کھل کر تحفظ کیا ہے وہ اب امریکی مفادات سے الگ کیونکر ہو سکتا ہے جبکہ اس کو پالا پوسا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کے ذریعے دجّال کی عالمی حکومت کا راستہ ہموار کیا جائے! لیکن افسوس اُن دینی سیاسی جماعتوں پر ہوتاہے جنہوں نے ان طبقات کا حلیف بن کر مغربی مفادات کو مزید مستحکم کیا اوردانستہ و غیر دانستہ پاکستان میں دجّالی گرفت کو مضبوط سے مضبوط تر کر دیا ۔ اب اس دجّالی گرفت سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے جو اللہ تعالیٰ کا راستہ ہے اور وہ قرآن میں واضح کر دیا گیاہے کہ :
{اَللہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۙ یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ڛ وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَوْلِیٰۗئُھُمُ الطَّاغُوْتُ ۙ یُخْرِجُوْنَھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ ۭ اُولٰۗئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ(۲۵۷)} (البقرہ)
’’ اللہ ولی ہے اہل ِایمان کا‘وہ انہیں نکالتا رہتا ہے تاریکیوں سے نور کی طرف۔اور (ان کے برعکس) جنہوں نے کفر کیا‘ اُن کے اولیاء (پشت پناہ‘ ساتھی اور مددگار) طاغوت ہیں‘وہ ان کو روشنی سے نکال کر تاریکیوں کی طرف لے جاتے ہیں۔یہی لوگ ہیں آگ والے‘ یہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔‘‘
اللہ کے راستے پر چلنے کا بنیادی تقاضا ہماری نظر میں یہی ہے کہ اول تمام مذہبی اور دینی جماعتیں مغربی مفادات پورے کرنے والے طبقات سے الگ ہو جائیں اور پھر عوام کو استعماری فکری اندھیروںاور دجل و فریب سے نکال کر وحی الٰہی کی روشنی میں لانے کی کوشش کریں اور پھر اپنے معاشروں میں اسلام کے نفاذ کی جدّوجُہد منہج ِ نبویﷺ روشنی میں کریں‘کیونکہ صرف مذہبی اور دینی طبقہ ہی عوام کو مغرب اور امریکہ کی غلامی سے نکال کر حقیقی آزادی پر مبنی مستقبل سے ہمکنار کر سکتا ہے‘بشرطیکہ وہ خود پہلے فیصلہ کرلے کہ اُسے طاغوت کا ساتھ دینا ہے یا پھر اللہ کے راستے پر چلتے ہوئے عوام ‘ اسلام اور پاکستان کا ساتھ دینا ہے ۔