(بیان القرآن) دورۂ ترجمۂ قرآن سُوْرَۃُ الْجُمُعَۃِ - ڈاکٹر اسرار احمد

8 /

دورۂ ترجمۂ قرآن سُوْرَۃُ الْجُمُعَۃِڈاکٹر اسرار احمدتمہیدی کلمات
سورۃ الصف اور سورۃ الجمعہ کا آپس میں جوڑے اور زوجیت کا تعلق بہت نمایاں ہے‘اس لیے کہ یہ دونوں سورتیں نبی اکرمﷺ کی بعثت کے دو پہلوئوں سے بحث کرتی ہیں۔ ان دونوں سورتوں کے مضامین کی تقسیم اس طرح ہے کہ سورۃ الصف میں انقلاب کے تکمیلی منہاج (مرحلہ تصادم)‘ جبکہ سورۃ الجمعہ میں اساسی منہاج (مرحلہ تیّاری) کا ذکر ہے۔ سورۃ الصف کا مرکزی مضمون نبی اکرمﷺ کا مقصد ِبعثت ہے‘ جبکہ سورۃ الجمعہ کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس مقصد ِ بعثت کے حصول اور اس عظیم مشن کی تکمیل کے لیے آپﷺ کا بنیادی طریق کار کون سا تھا۔ اپنے مضمون کے اعتبارسے سورۃ الجمعہ تین حصوں پر مشتمل ہے۔پہلی چار آیات میں قرآن کے ذریعے دعوت و تبلیغ اور مردانِ کار کی تیّاری کا ذکر ہے۔ اس کے بعد چار آیات میں بنی اسرائیل کے تذکرے کے پردے میں ہمارے لیے عبرت کا سامان فراہم کیا گیا ہے‘ جبکہ آخری تین آیات میں نمازِ جمعہ کا فلسفہ زیربحث آیا ہے۔

آیات ۱ تا ۴
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ (۱) ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ ۤ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ (۲) وَّاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْابِھِمْ ۭ وَھُوَالْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (۳)ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَاۗءُ ۭ وَاللہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ (۴)
آیت ۱{یُسَبِّحُ لِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ(۱) } ’’تسبیح کرتی ہے اللہ کی ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے‘ جو بادشاہ ہے ‘(ہر عیب سے) پاک ہے‘ بہت زبردست ہے‘ بہت حکمت والا ہے۔‘‘
یہ آیت گویا اس سورئہ مبارکہ کے لیے ایک نہایت پُرشکوہ اور پُرجلال تمہید اور آغازِ کلام ہے۔ سورۃ الصف کے آغاز میں تسبیح باری تعالیٰ کا ذکر صیغہ ماضی میں تھا‘ جبکہ یہاں فعل مضارع آیا ہے۔ اس طرح تسبیح باری تعالیٰ کے ضمن میں گویا زمان و مکان کا احاطہ کر لیا گیا ہے ۔ اس آیۂ مبارکہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ کے اسماء ِحسنیٰ میں سے چار اسماء وارد ہوئے ہیں اور یہ ایک غیر معمولی بات ہے‘ اس لیے کہ عام طور پر آیات کے اختتام پر اسماء ِ باری تعالیٰ دو‘دو کے جوڑوں کی صورت میں آتے ہیں۔
آیت۲{ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَق}’’وہی تو ہے جس نے اٹھایا اُمّیّین میں ایک رسول ان ہی میں سے‘جو ان کو پڑھ کر سناتا ہے اُس کی آیات اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں تعلیم دیتا ہے کتاب و حکمت کی۔‘‘
{وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَـبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ (۲)}’’اور یقیناً اس سے پہلے تو وہ کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘
اس سورت کی یہ آیت انقلابِ نبویؐ کے اساسی منہاج کے حوالے سے اسی طرح اہم ہے جس طرح سورۃ الصف کی آیت ۹ تکمیلی منہاج کے اعتبار سے اہم ہے۔ سورۃ الصف کی مذکورہ آیت میں حضورﷺ کامقصد ِبعثت بیان ہوا ہے تو آیت زیر مطالعہ میں آپؐ کے فرائض ِمنصبی کا ذکر ہے۔ سورۃ الصف کی وہ آیت اپنی اہمیت کی وجہ سے قرآن مجید میں تین مرتبہ (سورۃ الصف کے علاوہ سورۃ التوبہ ‘آیت ۳۳ اور سورۃ الفتح ‘آیت ۲۸ کے طور پر) آئی ہے‘ تو اس آیت میں مذکور ’’انقلابِ نبویؐ کا اساسی منہاج‘‘ قرآن حکیم میں چار مرتبہ (سورۃ الجمعہ کی اس آیت کے علاوہ سورۃ البقرۃ کی آیات ۱۲۹‘ ۱۵۱ اور سورئہ آل عمران کی آیت ۱۶۴ میں) بیان کیا گیا ہے۔ اس آیت مبارکہ میں نبی اکرمﷺ کے اساسی منہج کے عناصر ِاربعہ بیان کیے گئے ہیں: (۱)تلاوتِ آیات (۲)تزکیہ (۳) تعلیم ِکتاب (۴) تعلیم ِحکمت۔
اس آیت کی بنیادی اہمیت یہ ہے کہ اس میں مطلوبہ انقلاب کی تیّاری اور اس کے لیے مردانِ کار کی فراہمی کا مکمل طریقہ اور نصاب بیان کر دیا گیا ہے کہ ان کی تعلیم‘ تربیت‘ تذکیر‘ ان کا تزکیہ ‘ ان کا انذار سب کچھ قرآن کریم کے ذریعے سے ہوگا۔ حضورﷺ نے لوگوں کو قرآن مجید سنانا شروع کیا توسلیم الفطرت لوگ قرآن کی مقناطیسی تاثیر کی وجہ سے اپنی اپنی استعداد کے مطابق اس کی طرف کھنچے چلے آئے۔ کسی نے فوراً ہی لبیک کہہ دیا‘کوئی قدرے تأمل کے بعد راغب ہوا اور کسی نے نسبتاً زیادہ دیر بعد فیصلہ کیا۔ چنانچہ جس طرح دودھ کو بلو کر مکھن نکالا جاتا ہے بالکل اسی طرح مکّہ کی آبادی کو بارہ سال کے عرصے میں آیات ِقرآن کی تلاوت کے ذریعے سے بار بار جھنجھوڑکر تمام سلیم الفطرت (زندہ ارواح کے حامل) افراد کو چھانٹ کر الگ کر لیا گیا۔ پھر ان منتخب افراد کا تزکیہ بھی قرآن مجید کی تلاوت سے ہی ہوا۔ قرآن مجید بلاشبہ {شِفَآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ} (یونس:۵۷) ہے۔جیسے جیسے یہ کلام ان لوگوں کے سینوں میں اترتا گیا دلوں کی بیماریاں دور ہوتی چلی گئیں۔یہاں پریہ اہم نکتہ بھی سمجھ لیجیے کہ دل کی بیماریاں تو بے شمار ہیں لیکن ان تمام بیماریوں کو اگر کوئی ایک نام یاکوئی ایک عنوان دیا جائے تو وہ ’’حب ِدُنیا‘‘ ہے۔ حب ِدُنیا کی گندگی جب کسی دل کے اندر ڈیرہ جما لیتی ہے تو اس کے تعفن سے نت نئی بیماریاں جنم لیتی چلی جاتی ہیں‘جبکہ خود حب ِدنیا کے جراثیم کو غذا انسان کی سوچ اور اُس کے نظریے سے ملتی ہے۔ ظاہر ہے انسان کی زندگی کا انداز اور اس کی دوڑ دھوپ کا رخ اس کا نظریہ متعین کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید کی تعلیم کے ذریعے ان لوگوں کے نظریات درست ہو گئے تو حب دنیا سمیت تمام باطنی بیماریوں کی گویا جڑ کٹ گئی اور بُرے اعمال و خصائل ان کی شخصیات سے ایسے غائب ہو گئے جیسے موسم خزاں میں درختوں سے پتّے جھڑ جاتے ہیں۔
یہاں ضمنی طور پر یہ نکتہ بھی سمجھ لیجیے کہ اس آیت میں حضورﷺ کے جن فرائض ِمنصبی کا ذکر ہوا ہے ان میں ’’تعلیم ِحکمت‘‘ کا تعلق عام لوگوں سے نہیں ہے ‘بلکہ یہ حضورﷺ کی تعلیم و تربیت کا شعبہ تخصص (area of specialization) ہے۔ہر کوئی اس میدان کا شہسوار نہیں بن سکتا۔ ارشادِ خداوندی ہے: {یُؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآئُ ج وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًاط} (البقرۃ:۲۶۹) ’’وہ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے‘ اور جسے حکمت دے دی گئی اُسے تو خیر ِکثیر عطا ہو گیا‘‘ ---- بہرحال یہ آیت ہم پر یہ حقیقت واضح کرتی ہے کہ حضورﷺ کے منہج ِ انقلاب میں آلۂ دعوت اور آلۂ انقلاب قرآن مجید ہے۔ آپﷺ نے لوگوں کو دعوت بھی قرآن کے ذریعے دی‘ ان کی تذکیر و تبشیر کے لیے بھی قرآن پر ہی انحصار کیا۔ پھر اس دعوت پر لبیک کہنے والوں کا تزکیہ بھی قرآن سے ہی ہوا اور ان کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بھی قرآن ہی بنا۔ آپﷺ نے قرآن کی بنیاد پر ۲۳ سال کے مختصر عرصے میں انسانی تاریخ کا عظیم ترین انقلاب برپا کر کے جزیرہ نمائے عرب میں اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ نظامِ عدل و قسط کو بالفعل نافذ کر دیا۔ اس کے بعد پوری دنیا میں دین کو غالب کرنے کا مشن اُمّت کے سپرد کر کے آپؐ اس دنیا سے تشریف لے گئے۔ یہ مشن منتقل کرتے ہوئے بھی حضورﷺ نے اُمّت کو جووصیت کی تھی وہ بھی قرآن کے بارے میں تھی۔ آپؐ نے فرمایا: ((قَدْ تَرَکْتُ فِیْکُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہٗ اِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِہٖ : کِتَابَ اللہِ))(۱) ’’میں تمہارے درمیان وہ شے چھوڑے جا رہا ہوں کہ جسے تم مضبوطی سے تھام لو گے تو ہرگز گمراہ نہیں ہوگے۔ وہ ہے اللہ کی کتاب!‘‘
چنانچہ آج ہمارے لیے بلکہ تاقیامِ قیامت ہر زمانے کے مسلمانوں کے لیے قرآن مجید گویا محمدرسول اللہﷺ کے قائم مقام ہے۔ اس حیثیت میں یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا سے کئی گنا بڑا معجزہ ہے ۔ عصائے موسیٰ ؑ تو صرف حضرت موسیٰ ؑ کے ہاتھ میں معجزہ تھا‘ آپؑ کے بعد تو وہ معجزہ نہیں رہا۔ اگر آج بھی وہ کہیں موجود ہے‘ جیسا کہ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس محفوظ ہے‘ تو اس کی حیثیت بس ایک لاٹھی کی سی ہے۔ اس کے برعکس حضورﷺ کا معجزئہ رسالت یعنی قرآن مجید قیامت تک کے لیے معجزہ ہے اور ہر اُس شخص کے لیے معجزہ ہے جو اس کا حق پہچانے اور ادا کرے۔ اس حوالے سے میرا ایمان تو حق الیقین کی حد تک ہے کہ اگر کوئی شخص خلوص و اخلاص کے ساتھ قرآن مجید میں ایسی ’’محنت‘‘ کرے کہ قرآن اس کو possessکرلے تو پھر اُسے دنیا کی ہر چیز بے وقعت نظر آئے گی اور قرآن کے علاوہ کسی اور چیز میں اس کا دل نہیں لگے گا۔ لیکن مقامِ افسوس ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی اتنی بڑی نعمت کو بالکل ہی پس ِپشت ڈال دیا ہے۔ ہم دنیا بھر کے علوم سیکھتے ہیں مگر اس قدر عربی نہیں سیکھ سکتے جس سے قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھا جا سکے۔ اس لیے کہ یہ نہ تو ہماری ترجیح ہے اور نہ ہی اس کے لیے ہمارے پاس وقت ہے۔اللہ تعالیٰ کے کلام کو نظر انداز کرنے کا ہمارا یہ انداز حیرت انگیز حد تک جسارت آمیز ہے۔اس حوالے سے ذرا قرآن کی یہ وعید بھی سنیے : {اَفَبِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَنْتُمْ مُّدْھِنُوْنَ(۸۱)وَتَجْعَلُوْنَ رِزْقَکُمْ اَنَّــکُمْ تُـکَذِّبُوْنَ(۸۲)}(الواقعۃ) کہ اے اللہ کے بندو!ذرا سوچو تو!کیا تم اس عظیم الشان کلام کے بارے میں مداہنت کرتے ہو؟ اور کیااس کی تکذیب کو تم نے اپنا وطیرہ بنا لیا ہے؟
قرآن مجید تو ظاہر ہے ہر زمانے کے لوگوں کے لیے ہے۔ یہ آیات اپنے نزول کے وقت تو مشرکینِ مکّہ سے مخاطب تھیں ‘جبکہ آج ان کے مخاطب ہم ہیں۔ وہ لوگ تونظریاتی طور پر قرآن مجید کو اللہ کا کلام نہیں مانتے تھے اور اپنی زبانوں سے اس کی تکذیب کرتے تھے‘جبکہ آج ہم اپنی زبانوں سے اس کے کلام اللہ ہونے کی تصدیق کرنے کے بعد اپنے عمل سے اس کی تکذیب کررہے ہیں۔ مقامِ عبرت ہے! قرآن مجید کی طرف تو پلٹ کر دیکھنے کے لیے بھی ہمارے پاس وقت نہیں جبکہ دنیا کے حقیر مفادات کے لیے ہم دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔کیا ہمیں اسی لیے پیدا کیا گیا تھا ؟ یہی سوال تھاجس نے ابراہیم بن ادھم ؒکی زندگی بدل دی تھی۔ ابراہیم بن ادھمؒ بادشاہ کی حیثیت سے غفلت اور عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ ایک دن شکار کھیلنے میں مصروف تھے کہ انہوں نے ایک آواز سنی: یَااِبْرَاھِیْمُ اَلِھٰذَا خُلِقْتَ اَمْ لِھٰذَا اُمِرْتَ؟ کہ اے ابراہیم ذرا سوچو! کیا تمہیں اسی کام کے لیے پیدا کیا گیا تھا؟ اور کیا تمہیں اسی کام کا حکم ہوا تھا؟ اللہ جانے یہ کسی فرشتے کی آواز تھی یا اُن کے اپنے دل کی صدا۔ بہرحال جو بھی صورتِ حال تھی‘ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ بات ان کے دل میں گھر کر گئی اور ان کی زندگی کی کایا پلٹ گئی۔
آیت ۳{وَّاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِہِمْ ط}’’اور ان ہی میں سے ان دوسرے لوگوں میں بھی جو ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے۔‘‘
{وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (۳)} ’’اور وہ بہت زبردست ہے‘ کمال حکمت والا ہے۔‘‘
وَّاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ کا عطف اُمِّیّٖنَ پر ہے۔ یعنی دوسرے کچھ اور بھی ہیں جن کی طرف آپؐ کو مبعوث فرمایا گیا ۔ حضورﷺ کی بعثت تو قیامت تک لیے ہے۔ ظاہر ہے آپؐ کی اُمّت میں ہر نسل‘ ہر ملک اور ہر قوم کے لوگ شامل ہوں گے۔ متفق علیہ احادیث کے مطابق حضورﷺ سے جب اٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپؐ نے اپنا دست مبارک حضرت سلمان فارسی ؓ کے کندھے پر رکھ کر فرمایا کہ’’یہ اور اس کی قوم کے لوگ‘‘۔ مزید فرمایا کہ دین اگر ثریّا پر بھی ہو گا تو اس کی قوم کا ایک شخص اس تک پہنچ جائے گا۔حضورﷺ کے اس فرمان کے بارے میں تمام حنفی علماء متفق ہیں کہ اس کے مصداق حضرت امام ابوحنیفہ ؒ ہیں‘ جو ایرانی ٔالنسل ہیں۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ ایرانی قوم بحیثیت مجموعی بہت ذہین ہے۔ اس قوم نے ایک سے بڑھ کر ایک فلاسفر پیدا کیا ہے‘ بلکہ ہمارے علمائے کلام تو سب کے سب ایرانی ہیں۔ اس حوالے سے ایرانی قوم کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یوں لگتا ہے جیسے فلسفہ اور منطق ان کی گھٹی میں شامل ہے۔ ماضی میں یونان اور ہندوستان کے ساتھ ساتھ ایران بھی فلسفہ و منطق کے ایک اہم مرکز کے طور پر جانا جاتا تھا۔بعد میں جرمن قوم نے بھی اس میدان میں نام پیدا کیا۔ یہ سب اقوام حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے حضرت حام کی نسل سے ہیں۔ اس ضمن میں میری تحقیق یہ ہے کہ حضرت سام کی نسل کو اللہ تعالیٰ نے نبوت کے لیے چُن لیا تھا‘ جبکہ حضرت حام کی نسل کو حکمت میں برگزیدہ کیا تھا۔
میں نے آیت زیر مطالعہ کو ایٹم(atom) اور اس کے مرکزہ (nucleus)کے گرد مختلف دائروں میں گھومنے والے الیکٹرانز کی مثال سے سمجھا ہے۔اس مثال کے مطابق اُمّت ِ مسلمہ کا مرکزہ (nucleus) ’’اُمّیّین‘‘ پر مشتمل ہے۔ یعنی بنواسماعیل اور حضورﷺ کے زمانے کے تمام اہل ِعرب جو اُس وقت آپؐ کے براہِ راست مخاطب تھے۔ اس کے بعد نیوکلیس کے گرد پہلا دائرہ ایرانیوں کے الیکٹرانز سے بنا۔ پھر رومی‘ قبطی‘ سندھی‘ ہندی وغیرہ اقوام کے الیکٹرانز کے دائرے بنے اور پھیلتے گئے۔ یہ دائرے ظاہر ہے قیامت تک مزید بھی پھیلیں گے لیکن اُمّیّین (نیوکلیس) کے علاوہ باقی تمام اقوام کا شمار ’’آخرین‘‘ میں ہو گا۔ حضورﷺ کی دعوت کے حوالے سے ’’اُمّیّین ‘‘اور ’’آخرین ‘‘میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اُمّیّین پر وہی قانون لاگو ہوا جو سابقہ رسولوںؑ کی اقوام پر ہوا تھا ۔یعنی اِتمامِ حُجّت کے بعد بھی جو لوگ ایمان نہ لائیں انہیں نیست و نابود کر دیا جائے ۔ چنانچہ حضورﷺ کی طرف سے اِتمامِ حُجّت ہو جانے کے بعد ’’اُمّیّین‘‘ کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی گئی ۔ ۹ہجری میں ان کو ایک اعلانِ عام (سورۃ التوبہ‘ رکوع اوّل) کے ذریعے متنبہ کر دیا گیا کہ چار ماہ کے اندر اندر ایمان لے آئو ورنہ قتل کر دیے جائو گے۔ اس کے برعکس ’’آخرین‘‘ پر مذکورہ قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ان میں سے کوئی اسلام کی دعوت کو مانے یا نہ مانے ‘ایمان لائے یا نہ لائے‘اُسے اختیار ہے۔ حتیٰ کہ اسلام کے مکمل غلبے کی صورت میں بھی کسی سے اس کے مذہب کے بارے میں تعرض نہیں ہو گا۔البتہ ملک کا نظام اللہ کے قانون کے مطابق چلایا جائے گا ‘اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔
آیت۴ {ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُـؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ ط} ’’یہ اللہ کا فضل ہے وہ دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔‘‘
{وَاللہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ(۴)} ’’اور اللہ بڑے فضل والاہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے فضل کے بہت سے درجات ہیں اور ان میں سب سے اونچا اور اعلیٰ درجہ پوری کائنات میں محمد رسول اللہﷺ کے لیے مختص ہے: {اِنَّ فَضْلَہٗ کَانَ عَلَیْکَ کَبِیْرًا(۸۷)} (بنی اسرائیل)’’اس میں کوئی شک نہیں کہ اُس کا فضل آپؐ پر بہت بڑا ہے‘‘۔حضورﷺ کے بعد ہر اُس شخص پر بھی اللہ کا بہت بڑا فضل ہے جو حضورﷺ کے دامن سے وابستہ ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہمیں اس نے اپنا یہ فضل پیدائشی طور پر عطا فرما دیا اور ہمیں ایسے گھروں میں پیدا کیا جہاں پیداہوتے ہی ہم نے اپنے کانوں میں اذان اور اقامت کی آوازیں سنیں۔ سورۃ الحجرات میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : {بَلِ اللہُ یَمُنُّ عَلَیْکُمْ اَنْ ھَدٰىکُمْ لِلْاِیْمَانِ} (آیت ۱۷)کہ تم پر یہ اللہ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اُس نے تمہیں ایمان کے راستے پر ڈال دیا ہے۔ اب اگر ہم اپنے رویے سے اللہ کے اس فضل اور احسان کی ناقدری کریں اور اللہ کی نافرمانی کے راستے پر چل کر راندئہ درگاہ ہو جائیں تو ہم سے بڑا بدنصیب کون ہو گا!
اس حوالے سے ایک اہم نکتہ یہ بھی سمجھنے کا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کا تعلق دنیوی آسائش و آرام اور مال و دولت سے نہیں ہے۔ اس ضمن میں خود حضورﷺ کی مثال ہی لے لیجیے۔ دُنیوی لحاظ سے تو آپ ؐ کو بہت سی محرومیوں کا سامنا تھا۔ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے یتیم پیدا کیا۔ آپؐ کی پیدائش کے وقت گھر کی مالی حالت ایسی تھی کہ کوئی دایہ آپؐ کی پرورش کی ذِمّہ داری قبول کرنے کو تیّار نہ تھی۔ حلیمہ سعدیہ ؓ نے بھی آپؐ کو صرف اس لیے قبول کیا کہ انہیں کوئی اور بچہ ملا نہیں تھا۔ اس کے بعد آپؐ کے لڑکپن اور جوانی کا دور بھی سخت مشقت اور مزدوری میں گزرا۔ آپؐ خود فرماتے ہیں کہ میں چند ٹکوں کے عوض قریش کی بکریاںچرایا کرتا تھا ۔ متعلقہ حدیث میں درہم یا دینار کا ذکر نہیں بلکہ ’’قراریط‘‘ کا لفظ آیا ہے جو ریزگاری کے لیے استعمال ہوتا تھا ‘یعنی چند ٹکے یا پیسے۔ آپؐ کی اس دور کی زندگی کی جھلک سورۃ الضحیٰ کی ان آیات میں بھی نظر آتی ہے:
{اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی (۶) وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی (۷) وَوَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغْنٰی(۸)}
’’کیا اُس نے آپ کو یتیم نہیں پایاپھر آپ کو ٹھکانہ دیا! اور آپ کو تلاشِ حقیقت میں سرگرداں پایا تو راہ دکھلائی! اور آپ کو نادار پایا تو مال دار کر دیا!‘‘
اس کے بعد دورِ نبوت میں بھی آپؐ کی زندگی مسلسل فقر و فاقہ اور مصائب و مشکلات میں گزری۔ آپؐ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے۔ آپؐ کو شاعر اور مجنون کہا گیا‘ اوباش اور آوارہ لڑکوں نے پتھرائو کر کے آپؐ کو لہولہان کر دیا۔ غرض آپؐ کی دنیوی زندگی مجموعی طور پر سخت مشکلات اور مشقت میں گزری ۔جبکہ دوسری طرف آپؐ کی شان یہ ہے کہ پوری کائنات میں اللہ کا سب سے بڑا فضل آپؐ پر ہے۔ چنانچہ اللہ کے فضل کے اپنے انداز اور اپنے پیمانے ہیں ۔دنیوی ناز و نعم ‘ عیش و عشرت‘ عزّت و شہرت وغیرہ کو اس کا معیار نہیں سمجھنا چاہیے۔
یہاں پر سورۃ کی پہلی چار آیات کا مطالعہ مکمل ہو گیا ہے۔ ان آیات میں حضورﷺ کی بعثت کے حوالے سے آپؐ کے فرائض ِ منصبی کا ذکر ہے اور اس اُمّت کی ’’آفاقی‘‘ حیثیت کی نشاندہی کی گئی ہے۔ یعنی سابقہ اُمّت ِمسلمہ (بنی اسرائیل) یک نسلی (uni racial)اُمّت تھی ‘جبکہ موجودہ اُمّت ِمسلمہ ملٹی نیشنل اُمّت ہے ‘جس میں عربی‘ فارسی‘ ہندی‘ چینی وغیرہ ہر قوم اور ہر نسل کے لو گ شامل ہیں‘ بلکہ اس وقت دنیا میں شاید ہی ایسی کوئی قوم یا نسل موجود ہو جس کے افراد اس اُمّت میں شامل نہ ہوں۔ ان آیات میں دوسری بات یہ واضح کی گئی ہے کہ حضورﷺ کا آلۂ دعوت اور آلۂ تربیت صرف اور صرف قرآن تھا۔ اسی سے آپؐ نے لوگوں کو اکٹھا کیا اور اسی سے انہیں انقلابی جدّوجُہد اور جہاد و قتال کے لیے تیّار کیا۔
اب اگلی چار آیات میں بنی اسرائیل کی مثال کا آئینہ دکھا کر ہمیں ہمارے مجموعی طرزِعمل سے آگاہ کیا جارہاہے :

آیات ۵ تا۸

مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰىۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْھَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا ۭ بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللہِ ۭ وَاللہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ (۵)قُلْ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ھَادُوْٓا اِنْ زَعَمْتُمْ اَنَّکُمْ اَوْلِیَاۗءُ لِلّٰہِ مِنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ (۶)وَلَا یَتَمَنَّوْنَہٗٓ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْھِمْ ۭ وَاللہُ عَلِیْمٌۢ بِالظّٰلِمِیْنَ (۷)قُلْ اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِیْ تَفِرُّوْنَ مِنْہُ فَاِنَّہٗ مُلٰقِیْکُمْ ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلٰی عٰلِمِ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ (۸)

آیت ۵{مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوا التَّـوْرٰىۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْہَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًاط} ’’مثال اُن لوگوں کی جو حامل تورات بنائے گئے ‘ پھر وہ اس کے حامل ثابت نہ ہوئے ‘اُس گدھے کی سی (مثال) ہے جو اٹھائے ہوئے ہو کتابوں کا بوجھ۔‘‘
جب وہ لوگ حامل ِتورات ہو کر بھی تورات سے بے گانہ رہے تو ان میں اور اس گدھے میں کیا فرق رہ گیا جو اپنی پیٹھ پر کتابوں کا بوجھ اٹھائے پھر رہا ہے۔ ظاہر ہے ایک گدھے پرآپ مکالماتِ افلاطون لاد دیں یا انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا کی تمام جلدیں رکھ دیں ‘ اس سے اس کے اندر نہ تو کوئی فلسفیانہ بصیرت پیدا ہو گی اور نہ ہی اس کے دماغ میں کوئی معلومات منتقل ہو سکیں گی ---- آیت کے اس حصے میں لفظ حمل مختلف صیغوں میں تین مرتبہ آیا ہے۔ حمل ایسے بوجھ کو کہا جاتا ہے جسے آدمی اٹھا کر چل سکے۔ اسی معنی میں حمّال (قلی) اس شخص کو کہا جاتا ہے جو بوجھ وغیرہ ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ لے جائے اور یہی مفہوم عورت کے حمل کا بھی ہے: {حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَہْنًا عَلٰی وَہْنٍ}(لقمٰن:۱۴)’’اس کو اٹھائے رکھا اُس کی ماں نے (اپنے پیٹ میں) کمزوری پر کمزوری جھیل کر‘‘۔عورت کو یہ حمل اٹھانے میں مشقت اور تکلیف کا سامنا تو کرنا پڑتا ہے‘ لیکن اس کے لیے اس بوجھ کو اٹھائے پھرنا ممکن ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اِصْر (البقرۃ:۲۸۶‘ الاعراف:۱۵۷)ایسا بوجھ ہے جس کا اٹھانا انسان کے لیے ممکن نہ ہو اور وہ اس کے نیچے دب کر رہ جائے۔
بہرحال اللہ تعالیٰ جس قوم کو اپنی کتاب عطا کرتا ہے اس قو م پر اُس کتاب کے حقوق کا بوجھ بھی ڈالتا ہے۔ ان حقوق میں کتاب پر ایمان لانے ‘ اس کے احکام پر عمل کرنے اور اس کی تعلیمات کی تبلیغ واشاعت کی ذِمّہ داری کا بوجھ بھی شامل ہے: {وَاِذْ اَخَذَ اللہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْـکِتٰبَ لَتُبَـیِّنُـنَّـہٗ لِلنَّاسِ وَلَا تَـکْتُمُوْنَـہٗ ز} (آل عمران:۱۸۷) ’’اور یاد کرو جبکہ اللہ نے ان لوگوں سے ایک قول و قرار لیا تھا جن کو کتاب دی گئی تھی کہ تم لازماً اُسے لوگوں کے سامنے واضح کرو گے اور اسے چھپائو گے نہیں‘‘ ۔یہ میثاق اہل تورات سے لیا گیا تھاجبکہ قرآن مجید میںاہل ِکتاب سے متعلق ایسے واقعات اور ایسی مثالوں کا ذکر ہمیں خبردار کرنے کے لیے آیا ہے‘ کہ اے اہل ِقرآن تمہیں بھی اپنی کتاب کے حقوق کماحقہ ادا کرنے ہیں اور اس کی تعلیمات کو لوگوں کے لیے عام کرنا ہے۔ ورنہ کتابوں کا بوجھ اٹھا نے والے گدھے کی مثال کا اطلاق تم پر بھی ہو گا۔ اس حوالے سے حضرت عبیدہ المُلَیکی ؓ کا روایت کردہ حضورﷺ کا یہ فرمان بہت اہم ہے:
((یَا اَھْلَ الْقُرْآنِ لَا تَتَوَسَّدُوا الْقُرْآنَ ‘ وَاتْلُوْہُ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ مِنْ آنَاءِ اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ ‘ وَافْشُوْہُ وَتَغَنَّوْہُ وَتَدَبَّرُوْا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ)) (۲)
’’اے قرآن والو! تم قرآن کو تکیہ (ذہنی سہارا) نہ بنا لینا‘ بلکہ تمہیں چاہیے کہ رات اور دن کے اوقات میں اس کی تلاوت کیا کروجیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے ‘اور اس کو پھیلائو‘ اور اس کو خوش الحانی سے پڑھو‘ اور اس میں تدبر کرو‘ تاکہ تم فلاح پاجائو۔‘‘
مقامِ عبرت ہے!آج ہم قرآن مجید کے حقوق ادا کرنے کے لیے تو غور کرنے کو بھی تیّار نہیں‘ لیکن اس کو تکیہ بنانے کے نت نئے طریقے ایجاد کرنے میں ہم بڑی مہارت رکھتے ہیں۔ اس کی زندہ مثال ایوبی دور کی یادگار‘ سونے کی تاروں سے لکھا ہوا چالیس مَن وزنی قرآن مجید کا وہ نسخہ ہے جسے ہم نے پچھلے پچاس سال سے لاہور میں نمائش کے لیے رکھا ہوا ہے۔
{بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللہِ ط} ’’بہت بُری مثال ہے اُس قوم کی جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا۔‘‘
یہ یہودیوں کی طرف سے کلام اللہ کی عملی یا حالی تکذیب کا ذکر ہے۔ قبل ازیں سورۃ الواقعہ کی آیت ۸۲ کے حوالے سے وضاحت کی جا چکی ہے کہ بالکل اسی طور سے ہم بھی قرآن مجید کو جھٹلا رہے ہیں۔ ظاہر ہے اپنی زبان سے نہ تو یہودی تورات کی تکذیب کرتے تھے اور نہ ہی ہم قرآن کے بارے میں ایسا سوچ سکتے ہیں۔ لیکن کیا ہم واقعی قرآن مجید کی عملی یا حالی تکذیب کے مرتکب ہو رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ایک ایسے تعلیم یافتہ نوجوان کا تصوّر کریں جو مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے پاکستان سے امریکہ گیا ہے۔ اُس نوجوان سے اگر پوچھا جائے کہ کیا قرآن مجید اللہ کا کلام ہے تو وہ کہے گا کیوں نہیں! مَیں مانتا ہوں کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ لیکن اگر اس سے دوسرا سوال یہ کیا جائے کہ آپ نے اس کو کتنا پڑھا ہے اور اس کی تعلیمات کو جاننے اور سمجھنے کے لیے آپ نے کس قدر محنت کی ہے تو وہ (اِلا ماشاء اللہ) یہی جواب دے گا کہ مجھے اس کا موقع نہیں ملا۔ تو کیا اس نوجوان کا یہ عمل قرآن مجید کی تکذیب نہیں کررہا ہے؟ کیا اس کا حال چیخ چیخ کر گواہی نہیں دے رہا کہ اس کے نزدیک اس کی وہ ڈگری قرآن مجید سے زیادہ اہم ہے‘جس کے لیے وہ سات سمندر پارجا کر دیارِ غیر کی خاک چھان رہا ہے‘ لیکن قرآن مجید کو سمجھنے کی کبھی اس نے ہلکی سی کوشش بھی نہیں کی۔
{وَاللہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ(۵)} ’’اور اللہ ایسے ظالموں کو (زبردستی) ہدایت نہیں دیتا۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی ہدایت‘معاذ اللہ‘ کوئی ایسی حقیر شے نہیں جسے ہر شخص کی جھولی میں زبردستی ڈال دیا جائے۔ یہ تو صرف اسی شخص کو ملے گی جس کے دل میں اس کے حصول کی تمنّا ہو گی اور جو اس کے حصول کے لیے تگ و دو کرے گا۔
آیت ۶{قُلْ یٰٓــاَ یُّہَا الَّذِیْنَ ہَادُوْٓا اِنْ زَعَمْتُمْ اَنَّــکُمْ اَوْلِیَــآئُ لِلہِ مِنْ دُوْنِ النَّاسِ}’’(اے نبیﷺ!) آپ کہہ دیجیے کہ اے وہ لوگو جو یہودی ہو گئے ہو ‘اگر تمہیں واقعی یہ گمان ہے کہ بس تم ہی اللہ کے دوست ہو باقی سب لوگوں کو چھوڑ کر‘‘
زعم کا لفظ ’’خیالِ خام‘‘ کے معنی میں ہم اردو میں بھی استعمال کرتے ہیں کہ فلاں شخص کو فلاں چیز کا بڑا زعم ہے۔ تو اگر تم لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے چہیتے اور محبوب ہونے کا ایسا ہی زعم ہے:
{فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۶)} ’’تو تم موت کی تمنّا کرو‘ اگرتم واقعی سچّے ہو۔‘‘
اگر تم واقعی اللہ کے محبوب اور دوست ہو تو تمہیں اپنے دوست سے وصل کی تمنّا ہونی چاہیے‘اور یہ تمنّا چونکہ موت کے ذریعے پوری ہو سکتی ہے اس لیے تمہارے دلوں میں ہر وقت موت کی خواہش موجزن رہنی چاہیے۔ یہ مضمون اس سے پہلے سورۃ البقرۃ (آیات ۹۴‘۹۵‘۹۶) میں بھی آچکا ہے۔
آیت ۷{وَلَا یَتَمَنَّوْنَہٗ اَبَدًا  بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْہِمْ ط}’’اور(حقیقت یہ ہے کہ) یہ لوگ ہرگز کبھی موت کی تمنّا نہیں کریں گے اپنے ان اعمال کے سبب جو ان کے ہاتھ آگے بھیج چکے ہیں۔‘‘
{وَاللہُ عَلِیْمٌم بِالظّٰلِمِیْنَ(۷)} ’’اور اللہ ان ظالموں سے خوب واقف ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے فرمان: {بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ(۱۴)}(القیامۃ) کے مصداق یہ لوگ اپنے کرتوتوں کو خوب جانتے ہیں۔اس لیے یہ نہیں چاہتے کہ انہیں موت آئے اور وہ اپنی بداعمالیوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہ ہوں۔
ہم مسلمانوں کے لیے بنی اسرائیل سے متعلق ان آیات کی حیثیت ایک آئینے کی سی ہے ۔ اس آئینے میں اگر ہم اپنی تصویر دیکھیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ یہ زعم صرف بنی اسرائیل میں ہی نہیں پایاجاتاتھا بلکہ آج ہم مسلمانوں کی اکثریت بھی اسی سوچ کی حامل ہے‘ اور اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ جب اللہ کی کتاب سے ہمارا ذہنی و قلبی رشتہ نہ رہا تو اپنی تسلی کے لیے ہمیں خود ساختہ خوش فہمیوں (wishful thinkings) کا سہارالینا پڑا۔ ان میں سب سے بڑی اور سب سے مؤثر خوش فہمی تویہی ہے کہ ہمارے پاس اللہ کی کتاب ہے‘ ہم اللہ کے محبوب ترین نبی حضرت محمدﷺ کی اُمّت ہیں اور اس رشتے سے اللہ کے بہت ہی لاڈلے اور چہیتے ہیں۔ چنانچہ ہم جیسے بھی گناہگار سہی ‘آخرت میں ہمارے نبیؐ یقیناً ہماری شفاعت کریں گے اور دوزخ سے ہماری خلاصی کو یقینی بنائیں گے۔ اگر خدانخواستہ ہم میں سے کوئی فرد کسی بڑے جرم میں پکڑا بھی گیا تو اسے بھی بہت جلد دوزخ سے نکال کر جنت میں پہنچا دیا جائے گا۔ ہمارے ہاں یہ خوش فہمیاں پختہ ہو کر باقاعدہ عقائد کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔اب ایسی ضمانتوں کے ہوتے ہوئے بھلا کون احمق ہو گا جو نیک اعمال کے لیے مشقتیں اٹھائے اور رشوت ‘چور بازاری اور دوسری حرام کاریوں سے اجتناب کرتا پھرے: ؎
خبر نہیں کیا ہے نام اس کا ‘ خدا فریبی کہ خود فریبی؟
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ!
اقبال کا یہ شعر اس حوالے سے آج ہم پر ہوبہو صادق آتا ہے۔ پہلے تو ’’مسلمان‘‘ کے پاس عمل سے بچنے کے لیے صرف تقدیر کا بہانہ تھا‘ اب ہم نے مذکورہ بالا عقائد کی صورت میں بہت مضبوط سہارا بھی تلاش کر لیا ہے۔
آیت ۸{قُلْ اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِیْ تَفِرُّوْنَ مِنْہُ فَاِنَّہٗ مُلٰقِیْکُمْ}’’(اے نبیﷺ!) آپ کہہ دیجیے کہ وہ موت جس سے تم بھاگتے ہو وہ تم سے ملاقات کر کے رہے گی‘‘
{ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلٰی عٰلِمِ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ} ’’پھر تمہیں لوٹا دیا جائے گا اُس ہستی کی طرف جو پوشیدہ اور ظاہر سب کا جاننے والا ہے‘‘
اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا علم ہے ‘جو کچھ تمہارے سامنے ہے اس کا بھی اور جو کچھ تمہارے پیچھے ہے اس کا بھی۔جوکچھ بحیثیت نوعِ انسانی تمہارے لیے واضح کر دیا گیا ہے اس کا بھی اور جو کچھ تم سے غیب میں رکھ دیا گیا ہے اس کابھی ۔
{فَیُنَــبِّئُـکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۸)} ’’پھر وہ تمہیں جتلا دے گا جو کچھ تم کرتے رہے تھے۔‘‘
یہاں پر چار آیات پر مشتمل سورت کے دوسرے حصے کا مطالعہ بھی مکمل ہو گیا ۔ جیسا کہ قبل ازیں بھی وضاحت ہو چکی ہے کہ ان آیات میں تذکرہ تو یہود کا ہے لیکن یاد دہانی ہماری مقصود ہے۔ چنانچہ ان آیات کی تلاوت کرتے ہوئے ہمیں ضرور سوچنا چاہیے کہ قیامت کے دن اگر تورات کے حقوق کے حوالے سے یہودیوں کا احتساب ہو گا تو ہم سے بھی پوچھا جائے گا کہ اللہ کے رسولﷺ جو کتاب تم لوگوں کے حوالے کر کے گئے تھے اس کے حقو ق کی ذِمّہ داری کو تم نے کس حد تک نبھایا؟ حضورﷺ نے تو حجۃ الوداع کے موقع پر موجود لوگوں کو گواہ بنا کر قرآن مجید کے پیغام کو تمام نوعِ انسانی تک پہنچانے کی ذِمّہ داری اُمّت کے کندھوں پرڈال دی تھی۔اس حوالے سے آپؐ نے حاضرین کو مخاطب کر کے پوچھا تھا: ((اَلَا ھَلْ بَلَّغْتُ)) کہ کیا مَیں نے تم لوگوں کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا؟تمام حاضرین ِمجمع نے جواب میں یک زبان ہو کر کہاتھا: اِنَّا نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ وَاَدَّیْتَ وَنَصَحْتَ (۳) ’’ہم گواہ ہیں کہ آپ ؐنے حق ِتبلیغ ادا کر دیا‘ حق امانت ادا کر دیا‘ حق ِنصیحت ادا کر دیا‘‘۔ بعض روایات میں حاضرین کے یہ الفاظ بھی نقل ہوئے ہیں: نَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَـلَّغْتَ رِسَالَاتِ رَبِّکَ ‘ وَنَصَحْتَ لِاُمَّتِکَ ‘ وَقَضَیْتَ الَّذِیْ عَلَیْکَ (۴) ’’ہم گواہ ہیں کہ آپ نے اپنے رب کے پیغامات کماحقہ پہنچا دیے‘ اور اپنی اُمّت کے لیے حق نعمت ادا کر دیا‘ اور اپنی ذِمّہ داری کماحقہ ادا کر دی!‘‘لوگوں کے اس جواب پر آپﷺ نے تین مرتبہ اللہ کو بھی گواہ بنایا : ((اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ ‘ اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ ‘ اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ)) کہ اے اللہ تو بھی گواہ رہ! یہ لوگ اعتراف کر رہے ہیں کہ مَیں نے تیرا پیغام ان تک پہنچا دیا۔ اس کے بعد آپﷺ نے حاضرین سے مخاطب ہو کر فرمایا:((فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ))(۵) کہ اب جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ یہ پیغام ان لوگوں تک پہنچائیں جو یہاں موجود نہیں ہیں۔اس طرح آپؐ نے قرآن مجید کی دعوت و تبلیغ پوری نوعِ انسانی تک پہنچانے کی بھاری ذِمّہ داری اپنی اُمّت کی طرف منتقل فرما دی۔ظاہرہے اس ذِمّہ داری کے بارے میں کل ہم سے پوچھا تو جائے گا۔

آیات ۹ تا ۱۱

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ۭ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (۹)فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللہِ وَاذْکُرُوا اللہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ (۱۰)وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَھْوَۨا انْفَضُّوْٓا اِلَیْھَا وَتَرَکُوْکَ قَاۗئِمًا ۭ قُلْ مَا عِنْدَ اللہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِ ۭ وَاللہ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ(۱۲)

سورت کے تیسرے اور آخری حصّے میں نمازِ جمعہ کا ذکر ہے ۔ نمازِ جمعہ دراصل ’’حزبُ اللہ‘‘ کا ہفتہ وار تعلیمی و تربیتی اجتماع ہے۔ ایسے اجتماعات کا انعقاد ہر انقلابی تحریک کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی زمانے میں کمیونسٹوں کے ہاں بھی اپنے کارکنوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ہفتہ وار ’’سٹڈی سرکلز‘‘ کا انعقاد بڑے اہتمام سے کیاجاتا تھا۔ دراصل حزبُ اللہ کا نصب العین بہت عظیم اور راستہ بہت کٹھن ہے۔ اس راستے پر سفر جاری رکھنے کے لیے غیر معمولی صبر اور استقامت درکار ہے ۔ اس صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ انقلابی کارکنوں کے ذہنوں میں ان کے بنیادی نظریے اور نصب العین کاشعور ہر لحظہ مستحضر رہے۔ چنانچہ جمعہ کے اجتماع کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ ہر سات دن کے بعد باقاعدگی کے ساتھ دور و نزدیک سے سب اہل ِایمان اکٹھے ہوں اور اللہ کا کوئی بندہ نائب رسولؐ کی حیثیت سے ان کے لیے ’’یَتْـلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ‘ کافریضہ سرانجام دے ‘تاکہ تعلیم و تربیت اور تزکیۂ نفس کا عمل حضورﷺ کے بعد بھی قیامت تک جاری و ساری رہے۔
اجتماعِ جمعہ کے اس پہلو کی اہمیت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ اس کے لیے ظہر کی نماز مختصر کر دی گئی۔ یعنی ظہر کے چار فرائض کے بجائے صرف دو رکعتیں رہ گئیں اور باقی دو رکعتوں کی جگہ خطبہ یعنی ’’تعلیم و تعلّم‘‘ کو لازم کر دیا گیا۔ اس لحاظ سے اجتماعِ جمعہ کو تعلیم ِ بالغاں کا ہفتہ وار پروگرام بھی کہا جا سکتا ہے ۔ اس پروگرام کی اہمیت پچھلے زمانے میں اور بھی زیادہ تھی ‘جب نہ سکول کالج تھے‘ نہ یونیورسٹیاں تھیں‘ نہ کتابیں دستیاب تھیں‘ نہ اخبار چھپتے تھے اور نہ ہی آڈیو ویڈیو کی سہولیات میسّر تھیں۔برعظیم پاک و ہند میں اجتماعِ جمعہ کی تعلیمی اہمیت کا شعور ماضی قریب کے زمانہ تک بھی موجود تھا۔ مَیں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ جمعہ کے دن شہر کی جامع مسجد میں دور دراز دیہات سے لوگ صبح سات آٹھ بجے ہی پہنچنا شروع ہوجاتے تھے۔ اس دور میں جمعہ صرف شہروں میں ادا کیا جاتا تھا‘ دیہات میں جمعہ نہیں ہوتا تھا ۔جمعہ کے لیے فقہاء نے ’’مصر جامع‘‘ کی شرط عائد کی ہے۔ یعنی جمعہ ہر بستی میں نہیں بلکہ صرف اُس شہر میں ہو سکتا ہے جس میں بازار ہوں‘ قیامِ امن کا انتظام ہو‘ جامع مسجد ہو۔ لیکن جب ہر چھوٹی بڑی بستی میں جمعہ پڑھنا شروع کر دیاگیا تومجموعی طور پر اجتماعِ جمعہ کی اہمیت کم ہونا شروع ہو گئی۔ظاہر ہے جب ہر بستی میں جمعہ ہو رہا ہو تو لوگ اس کے لیے سفر کر کے شہر کی جامع مسجد میں بھلا کیوں جائیں گے؟
جمعہ کے اجتماعات تو آج بھی منعقد ہوتے ہیں‘ لوگ جوق در جوق ان میں شرکت بھی کرتے ہیں‘ خطبے بھی پڑھے اور سنے جاتے ہیں ‘لیکن یہ سب کچھ ایک ’’رسم ِعبادت‘‘ کے طور پر ہو رہا ہے‘جبکہ اس اجتماع کا بنیادی فلسفہ اور اصل مقصد مجموعی طور پر ہماری نظروں سے اوجھل ہوچکا ہے۔ بقول اقبال : ؎
رہ گئی رسم اذاں‘ روحِ بلالیؓ نہ رہی
فلسفہ رہ گیا‘ تلقین غزالی نہ رہی!
بہرحال آج کل اجتماعِ جمعہ کے حوالے سے جو ظاہری اہتمام دیکھنے میں آتا ہے اس کی حیثیت اس عمارت کے کھنڈرات کی سی ہے جو عرصہ دراز سے زمین بوس ہو چکی ہے‘ لیکن ان کھنڈرات کو دیکھ کر اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ یہ عمارت بہت عظیم الشان تھی۔
آیت ۹{یٰٓــاَیـُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ط}’’اے ایمان والو! جب تمہیں پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو دوڑو اللہ کے ذکر کی طرف اور کاروبار چھوڑ دو۔‘‘
نماز تو بہرحال اللہ کا ذکر ہے ہی ‘لیکن یہاں اللہ کے ذکر سے خصوصی طور پر خطبہ ٔ جمعہ مراد ہے ----’’اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو‘‘ کا مطلب یہ نہیں کہ بھاگتے ہوئے آئو‘ بلکہ اس سے مراد مستعدی سے چل کھڑے ہونا ہے‘ یعنی جلدی سے جلدی وہاں پہنچنے کی کوشش کرو۔ نماز کے لیے بھاگ کر آنے سے نبی اکرمﷺ نے منع فرمایا ہے۔
{ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّــکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۹)} ’’یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔‘‘
آیت ۱۰{فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللہِ} ’’پھر جب نماز پوری ہو چکے تو زمین میں منتشر ہو جائو اوراللہ کا فضل تلاش کرو‘‘
یعنی جمعہ کے حوالے سے اسلام میں یہودیوں کے یومِ سبت جیسی سختی نہیں ہے کہ پورا دن اللہ کی عبادت کے لیے مخصوص کر دو۔ بلکہ مسلمانوں سے اس دن صرف یہ تقاضا ہے کہ وہ نمازِ جمعہ سے قبل اپنے تمام کام کاج چھوڑ دیں۔ نہائیں دھوئیں‘ اچھے کپڑے پہنیں‘ خوشبو لگائیں اور بروقت مسجد میں پہنچ جائیں‘ تاکہ تعلیمی و تربیتی نشست سے بھرپور استفادہ کر سکیں۔ اسی لیے نمازِ جمعہ کے لیے اوّل وقت مسجد میں آنے والے کو حدیث میں اونٹ کی قربانی کے برابر ثواب کی بشارت دی گئی ہے ۔دوسری طرف نمازِ جمعہ ترک کرنے والے کے لیے حضورﷺ نے سخت وعید سنائی ہے۔ آپﷺ کا فرمان ہے :
((مَنْ تَرَکَ ثَلَاثَ جُمُعَاتٍ مِنْ غَیْرِ عُذْرٍ طُبِعَ عَلٰی قَلْبِہٖ ))(۶)
’’ جو شخص بغیر کسی عذر کے مسلسل تین جمعے ترک کر دے اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔‘‘
اس وعیدی حکم میں بھی یہی فلسفہ کارفرما ہے کہ مسلمانوں کے درمیان کوئی ایک فرد بھی ایسا نہ ہو جو تعلیم و تربیت کے اس اجتماعی پروگرام سے مستقل طور پر کٹ کر رہ جائے۔بہرحال جمعہ کے دن ’’شرعی مصروفیت‘‘ صرف نمازِ جمعہ کی ادائیگی تک ہی ہے‘اس کے بعد ہر کوئی اپنی دنیوی مصروفیات کے لیے آزاد ہے ۔ اس لیے حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ جمعہ کے دن ’’آدھی چھٹی‘‘ قرآن مجید کے مذکورہ حکم کے مطابق کر ے ۔یعنی اگر جمعہ کے دن لوگوں کو آدھی چھٹی دینا ضروری ہے تو یہ چھٹی صبح کے وقت ہونی چاہیے تاکہ لوگ آسانی سے نماز جمعہ کی تیّاری کریں ‘نماز ادا کریں اور نماز کے بعد معمول کے مطابق اپنے کام نپٹائیں۔
{وَاذْکُرُوا اللہَ کَثِیْرًا لَّــعَلَّــکُمْ تُفْلِحُوْنَ(۱۰)} ’’اور اللہ کو یاد کرو کثرت سے تاکہ تم فلاح پائو۔‘‘
آیت۱ ۱{وَاِذَا رَاَوْ تِجَارَۃً اَوْ لَہْوَا نِ انْفَضُّوْٓا اِلَـیْہَا}’’اور جب انہوں نے دیکھا تجارت کا معاملہ یا کوئی کھیل تماشا تو اس کی طرف چل دیے‘‘
{وَتَرَکُوْکَ قَآئِمًاط}’’اور آپؐ کو کھڑا چھوڑ دیا۔‘‘
یہ خاص طور پر منافقین کے طرزِ عمل کا ذکر ہے کہ وہ تجارت اور کھیل تماشے کو اللہ کے ذکر پر ترجیح دیتے ہیں۔
اس آیت کا شانِ نزول یہ بیان کیا جاتا ہے کہ مدینہ طیبہ میں شام سے ایک تجارتی قافلہ عین نمازِ جمعہ کے وقت آیا اور اہل ِشہر کو اطلاع دینے کے لیے ڈھول بجانے شروع کر دیے۔ چونکہ قحط کا زمانہ تھا ‘ لہٰذا حاضرین ِمسجد قافلے کی آمد کی اطلاع پا کر فوراً اس کی طرف لپکے ۔ رسول اللہﷺ اُس وقت خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ اکثر لوگ اس دوران اٹھ کر چلے گئے اور تھوڑے لوگ باقی رہ گئے جن میں عشرئہ مبشرہ بھی شامل تھے۔ واضح رہے کہ یہ واقعہ ہجرت کے بعد بالکل قریبی دور کا ہے جبکہ لوگوں کو صحبت ِنبویؐ سے فیض یاب ہونے کا موقع بہت کم ملا تھا۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ ابتدا میں عیدین کے خطبہ کی طرح جمعہ کا خطبہ بھی نماز کے بعد ہوتا تھا‘ اس لیے خطبہ کے دوران اٹھ کر جانے والے لوگوں نے یہی سمجھا ہو گا کہ نماز تو پڑھی جا چکی ہے اس لیے اب اُٹھ جانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ بہرحال اس آیت میں بھی ڈانٹ کا انداز ہے اور اس میں جس واقعہ کی طرف اشارہ ہے اس سے بھی مسلمانوں کی صفوں میں اسی کمزوری کی نشاندہی ہوتی ہے جس کا ذکر قبل ازیں سور ۃ الحدید کے مطالعہ کے دوران تفصیل سے کیا جا چکا ہے۔
{قُلْ مَا عِنْدَ اللہِ خَیْـرٌ مِّنَ اللَّہْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِط وَاللہُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ(۱۱)}
’’(اے نبیﷺ!) آپ کہہ دیجیے کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کہیں بہتر ہے کھیل کود اور تجارت سے ۔اور اللہ بہترین رزق عطا کرنے والا ہے۔‘‘
حواشی
۱۔ صحیح مسلم‘ کتاب الحج‘ باب حجۃ النبیﷺ۔ وسنن ابی داوٗد‘ کتاب المناسک‘ باب صفۃ حجۃ النبیﷺ۔
۲۔ رواہ البیھقی فی شعب الایمان‘ بحوالہ مشکاۃ المصابیح‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب آداب التلاوۃ ودروس القرآن۔
۳۔ صحیح مسلم‘ کتاب الحج‘ باب حجۃ النبیﷺ۔وسنن ابی داوٗد‘ کتاب المناسک‘ باب صفۃ حجۃ النبیﷺ۔
۴۔ مستدرک حاکم: ۱/۶۴۵ ‘ صحیح ابن خزیمہ : ۱۳۹۷‘ صحیح ابن حبان : ۲۸۵۶۔
۵۔ صحیح البخاری‘ کتاب الحج‘ باب خطبۃ ایام منٰی۔وصحیح مسلم‘ کتاب القسامۃ والمحاربین والقصاص والدیات‘ باب تغلیظ تحریم الدماء والاعراض والاموال۔
۶۔ معجم الاوسط للطبرانی : ۳/۱۶۹ ۔