(وَلَیَالٍ عَشْرٍ) عشرئہ ذُوالحجہ : فضائل و اعمال - عاطف محمود

8 /

عشرئہ ذُوالحجہ : فضائل و اعمالعاطف محمود
ناظم تعلیمات ‘قرآن اکیڈمی‘ یٰسین آباد
عشرئہ ذوالحجہ کے فضائل
اللہ ربّ العزت نے بہت سے اوقات اور جگہوں میں بقیہ کی نسبت زیادہ برکت رکھی ہے‘ لہٰذا علماء فرماتے ہیں کہ ان اوقات اور جگہوں میں بقیہ کی نسبت نیک اعمال کا ثواب بھی زیادہ ملتا ہے اور بُرے اعمال کا وبال بھی عام دنوں کی نسبت زیادہ بڑھ جا تا ہے۔انہی اوقات میں ذو الحجہ کے ابتدائی دس دن بھی ہیں جن کی فضیلت قرآن حکیم میں اور خاص طور پر احادیث ِنبویہﷺ میں اتنی وارد ہوئی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے مابین یہ گفتگو ملتی ہے کہ آیا ذو الحجہ کا پہلا عشرہ زیادہ افضلیت کا حامل ہے یا رمضان المبارک کا آخری عشرہ زیادہ فضیلت رکھتا ہے! گو حاصل کلام یہی ہے کہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ بقیہ تمام ایام سے افضل ہے اور اس کی اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ اس عشرہ میں شب قدر جیسی عظیم رات وارد ہوئی ہے جس میں کی گئی عبادت ہزار راتوں کی عبادت سے افضل ہے ۔البتہ اس کے بعد تقریباً سب کا اتفاق ہے کہ ذو الحجہ کا پہلا عشرہ بقیہ ایام سے افضل ہے۔ تاہم بعض اہل علم کے نزدیک رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی راتیں افضل ہیں اور ذو الحجہ کے پہلے عشرہ کے دن افضل ہیں ۔ قرآ ن حکیم میں عشرئہ ذو الحجہ کی فضیلت یوں وارد ہوئی ہے:
{وَالْفَجْرِ(۱) وَلَیَالٍ عَشْرٍ (۲)} (الفجر)
’’قسم ہے فجر کے وقت کی۔اور دس راتوں کی۔‘‘
حضرات عبد اللہ بن عباس ‘ عبداللہ بن زبیر اور جابر بن عبداللہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور متعدد تابعینؒ کے مطابق اس سے ذو الحجہ کی پہلی دس راتیں مراد ہیں۔ (ابن جریر‘ مظہری‘ درمنثور وبغوی)
احادیث مبارکہ میں ان دس راتوں کی بہت سی فضیلتیں آئی ہیں۔ یہ دس دن حجاجِ کرام کے لیے خاص طور پر بڑے ہی انقلابی اور جذباتی ہوتے ہیں۔ ذو الحجہ کی پہلی تاریخ ہی سے ہر حاجی پر ایک خاص کیفیت طاری ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ اس کے ہر عمل میں ایک خاص جوش و جذبہ پیدا ہوجاتا ہے اور ہر طرف ایک عجیب سی چہل پہل شروع ہوجاتی ہے۔ یہ کیفیات دن بدن بڑھتی چلی جاتی ہیں یہاں تک کہ منیٰ کی پُر نور راتوں کے بعد جب۹ ذو الحجہ یعنی عرفہ کا دن شروع ہوتا ہے تو ہر ایک آنکھ آنسوؤں سے تر ہوجاتی ہے۔
ہر شخص ساری دنیا سے بے پروا و بے نیاز اللہ عزّوجل سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا نظر آتا ہے۔ لاکھوں حاجیوں پر جب نظر پڑتی ہے تو بادشاہ ہو یا ایک عام آدمی‘ سرمایہ دار ہو یا غریب سب ایک ہی لباس میں ہر طرف موتیوں کی طرح بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سب کا لباس ایک‘ جذبہ ایک اور نعرہ ایک: لَبَّیْکَ! اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ!!
میدانِ عرفات سے جب تمام حاجی مزدلفہ میں کھلے آسمان کے نیچے اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول نظر آتے ہیں تو ایک قیامت کا سامنظر ہوتا ہے۔
دس ذو الحج کو جب یوم النحر شروع ہوتا ہے تو ہر حاجی ایک نئے جذبے سے سرشار ہوتا ہے۔ اس دن کوئی شیطان سے نفرت کے اظہار کے لیے کنکریاں مارتا نظر آتا ہے‘ کوئی جانوروں کو ذبح کر رہا ہے‘ کوئی سر کے بال منڈوا رہا ہے ‘ کوئی طوافِ زیارت کی طرف بےتابانہ بڑھاچلا جا رہا ہے۔ (تفسیر بصیرت ِقرآن‘ مولانا محمد آصف قاسمی)
سورۃ الکوثر کی دوسری آیت میں ارشاد ہے:
{فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ(۲)}
’’پس آپ (ﷺ) اپنے رب کے لیے نماز پڑھا کیجیے اور قربانی کیا کیجیے۔‘‘
اس آیت میں اکثر مفسرین کے نزدیک نماز سے مراد نمازِ عید ہے‘کیونکہ عیدالاضحی کے دن پہلے نماز ادا کی جاتی ہے اور پھر قربانی پیش کی جاتی ہے۔ چنانچہ عشرہ ذو الحجہ کی ایک بڑی فضیلت اس اعتبار سے بھی ہے کہ اس عشرہ میں عیدالاضحی اور قربانی جیسی عظیم عبادات ہیں اور حج کے اکثر ارکان بھی اسی عشرہ میں ادا کیے جاتے ہیں۔
اللہ ربّ العزت نے دین اسلام کی تکمیل کا اعلان بھی اسی عشرہ میں کیا ۔چنانچہ قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ۭ } (المائدۃ:۳)
’’آج مَیں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لیے) پسند کرلیا۔‘‘
یہ عظیم آیت کہ جس میں اس بات کا اعلان ہے کہ اللہ ربّ العزت نے دین ِاسلام کی تکمیل فرمادی جو کہ اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت بھی ہے ‘ ۹ ذو الحجہ ‘جمعہ کے دن نازل ہوئی ۔چنانچہ حضرت عمر فاروق ؓ کے خلافت کے زمانہ میں ایک یہودی نے آپؓسے کہا کہ یہ آیت جس میں دین کے مکمل ہونے کی خبر دی گئی ہے اتنی بڑی آیت ہے کہ اگر یہ ہم پر اُترتی توہم اس کے اترنے کے دن کو عید کی طرح مناتے اور اس پر خوشی کا اظہار کرتے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا:
’’تمہیں کیا پتہ ہے جس دن یہ آیت اتری‘ اُس دن ہماری دو عیدیں تھیں۔ ایک یہ کہ یہ دن جمعہ کا تھا اور دوسرے عرفہ کا دن۔یہ دونوں دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی قبولیت کے دن ہیں۔‘‘ (تفسیر ربانی‘ مفتی اصغر علی ربانی)
ذو الحجہ کا مہینہ ان چار مہینوں میں بھی شامل ہے جن کو حرمت والے مہینے کہا جاتا ہے ۔اللہ ربّ العزت کا رشاد ہے:
{اِنَّ عِدَّۃَ الشُّھُوْرِ عِنْدَ اللہِ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا فِیْ کِتٰبِ اللہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْھَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ۭ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ ڏ فَلَا تَظْلِمُوْا فِیْھِنَّ اَنْفُسَکُمْ} (التوبۃ:۳۶)
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ مہینے ہے جو اللہ کی کتاب (یعنی لوحِ محفوظ) کے مطابق اُس دن سے نافذ چلی آتی ہے جس دن اللہ نے آسمانوں اورزمین کو پیدا کیا تھا‘ ان (بارہ مہینوں) میں سے چار حرمت والے (مہینے) ہیں۔ یہی دین (کا) سیدھا سادہ (تقاضا) ہے‘ لہٰذا ان مہینوں کے معاملے میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔‘‘
حرمت والے مہینوں میں ایک تو جنگ و جدال اور لڑائی جھگڑا کرنا جائز نہیں ہے۔دوسرا اس کا مفہوم مفسرین یہ بیان فرماتے ہیں کہ ان مہینوں میں خصوصی طور پر بُرے اعمال سے اجتناب بھی ضروری ہے ‘کیونکہ ان کے گناہ کا وبال عام دنوں کے مقابلے میں بڑھ جاتا ہے ۔ لہٰذا شعوری طور پر کوشش کرنی چاہیے کہ ان مہینوں میں اللہ ربّ العزت کی نافرمانی والے اعمال سے بچا جائے اور نیک اعمال زیادہ سے زیادہ کیے جائیں۔
ان آیات کی روشنی میں عشرہ ذو الحجہ کی فضیلت نہایت نمایا ں ہو کر سامنے آئی۔ آئیے اب چند احادیث مبارکہ کی روشنی میں اس عشرہ کی اہمیت کو دیکھتے ہیں۔رسول اللہ ﷺ نے ایک طرف ان دنوں کی فضیلت اپنے کئی ارشادات سے واضح فرمائی ہے اور دوسری طرف ان دنوں میں نیک اعمال کو کثرت کے ساتھ کرنے کی ترغیب وتشویق بھی دلائی ہے۔ چنانچہ آپﷺ کا ارشاد مبارک ہے:
((اِنَّ اَفْضَلَ اَیَّامِ الدُّنْیَا اَیَّامُ الْعَشْر)) (الترغیب والترھیب)
’’دنیا کے تمام دنوں میں دس دن(عشرہ ذو الحجہ) سب سے افضل ہیں۔‘‘
ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ ﷺ: ((مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهَا أَحَبُّ إِلَى اللہِ مِنْ هٰذِهِ الْأَيَّامِ)) يَعْنِي أَيَّامَ الْعَشْرِ‘ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللہِ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللہِ؟ قَالَ: ((وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللہِ‘ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهٖ وَمَالِهٖ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذٰلِكَ بِشَيْءٍ)) (سنن ابی داوٗد)
’’حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : کوئی دن ایسا نہیں جس میں نیک عمل اللہ کے یہاں ذو الحجہ کے دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہوں۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی ان کے برابر نہیں ؟آپ ﷺ نے فرمایا :ہاں‘ جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں! مگر وہ شخص جو جان و مال لے کر جہاد کے لیے نکلے اور پھر ان میں سے کچھ بھی واپس نہ آئے(یعنی جان و مال قربان کر دے)۔‘‘
ان دو احادیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہو کر سامنے آئی کہ ذو الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں کیے گئے اعمال اللہ ربّ العزت کو پورے سال کیے گئے اعمال کے مقابلے میں زیادہ پسندیدہ ہیں اور ان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان دنوں میں کیے گئے نیک اعمال سے جہاد فی سبیل اللہ جیسا عظیم اور چوٹی کا عمل بھی افضل نہیں ۔
پھر ان دس دنوں میں بھی دس ذو الحجہ کا دن (یوم النحر) افضل ترین دن ہے‘ چنانچہ نبی اکرمﷺ کا ارشادِ مبارک ہے:
((إِنَّ أَعْظَمَ الْأَيَّامِ عِنْدَ اللہِ تَبَارَكَ وَتَعَالٰی يَوْمُ النَّحْرِ ثُمَّ يَوْمُ الْقَرِّ)) (سنن ابی داوٗد)
’’اللہ ربّ العزت کے نزدیک سب سے زیادہ عظمت و احترام والا دن یوم النحر(دس ذوالحجہ‘ قربانی کا دن) ہے ‘پھر اس کے بعد گیارہ ذو الحجہ کا دن ہے۔‘‘
عرفہ کا دن بھی انتہائی فضیلت کا حامل ہے جو کہ نو ذو الحجہ کے دن ہوتا ہے ۔اس کی فضیلت میں حضور نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ فرماتے ہیں:
((مَا مِنْ يَوْمٍ أَكْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللہُ فِيهِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ)) (صحیح مسلم)
’’عرفہ کے دن سے بڑھ کر کوئی دن ایسا نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ لوگوں کو جہنّم سے آزادکرتا ہو۔‘‘
قرآن حکیم اور احادیث نبویہؐ کی روشنی میں عشرہ ذو الحجہ کی اتنی اہمیت و فضیلت ہمارے سامنے آئی کہ جتنی فضیلت اور کسی دن اور وقت کو حاصل نہیں ہے‘ اس کی ایک وجہ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ یوں تحریر فرماتے ہیں:
’’عشرہ ذو الحجہ کی امتیازی شان کا بظاہر یہی سبب معلوم ہوتا ہے کہ ان مبارک ایام میں نماز‘ روزہ‘ صدقہ‘حج اور قربانی جیسی عظیم عبادات اکھٹی ہوجاتی ہیں اور ایسا سال کے دیگر دنوں میں نہیں ہوتا۔‘‘ (فتح الباری‘ جلد دوم)
اسی طرح اس عشرہ کی اہمیت کو نمایاں کرتے ہوئے حافظ ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں:
’’رمضان المبارک کی آخری دس راتیں ذو الحجہ کی پہلی دس راتوں سے افضل ہیں‘اس لیے کہ اس میں لیلۃ القدر ہے جو تمام راتوں کی سردار ہے۔ اور ذو الحجہ کے پہلے دس دن رمضان المبارک کے آخری دس دنوں سے افضل ہیں ‘کیونکہ ان دنوں میں یومِ عرفہ واقع ہوا ہے جو کہ تمام دنوں میں اشرف و افضل ہے۔‘‘ (مجموع الفتاویٰ)
عشرئہ ذوالحجہ کے اعمال
اس عشرہ کی بے شمار فضیلت اور اہمیت کے بعد اگلی بات ہم نے یہ سمجھنی ہے کہ اس عشرہ میں کون کون سے نیکی کے اعمال کیے جائیں ۔تو نوٹ فرمالیں کہ ان دنوں میں معمول کے اعمال کو زیادہ خصوصیت اور اہمیت کے ساتھ سر انجام دینا چاہیے ۔مثلاً نماز وں میں خصوصیت کے ساتھ فرائض کے علاوہ نوافل کا اہتمام بقیہ دنوں کے مقابلہ میں زیادہ ہونا چاہیے‘ خاص طور پر تحیۃ الوضوء‘ تحیۃ المسجد‘ اشراق‘ چاشت اور نمازِ تہجد وغیرہ ۔اسی طرح صدقہ و خیرات اور توبہ واستغفار کا بھی خصوصی اہتمام کیا جانا چاہیے۔ گناہوں سے شعوری اور خصوصی طور پر اجتناب ہونا چاہیے۔ ان کے علاوہ روزوں کا اہتمام بھی ہونا چاہیے اور اگر استطاعت ہو تو حج و عمرہ اور قربانی کا اہتمام بھی ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ خصوصیت کے ساتھ قرآن حکیم کی تلاوت کا اہتمام بھی ہو‘ اگر ساتھ ساتھ ترجمہ وتفسیر کا مطالعہ بھی ہو جائے تو نورٌ علیٰ نور ہو جائے گا۔ نیز کثرت کے ساتھ درود شریف بھی وردِ زباں ہو توان شاء اللہ العزیز مفید رہے گا۔البتہ کچھ اعمال اس عشرہ کے ساتھ خاص ہیں جن کا خصوصیت کے ساتھ احادیث میں ذکر آیا ہے‘ وہ اعمال یہ ہیں:
(۱)تسبیحات و تکبیرات کا اہتمام:عشرہ ذو الحجہ میں کثرت کے ساتھ تسبیحات و تکبیرات نیز ذکر اللہ کی تلقین کی گئی ہےاور اس عمل میں مرد و عورت‘ امام و مقتدی‘ شہری و دیہاتی سب شامل ہیں۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا رشاد ہے:
((مَا مِنْ أَيَّامٍ أَعْظَمُ عِنْدَ اللہِ وَلَا أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنَ الْعَمَلِ فِیْھِنَّ مِنْ هٰذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ فَأَكْثِرُوْا فِيْھِنَّ مِنَ التَّھْلِيْلِ وَالتَّكْبِيْرِ وَالتَّحْمِيْدِ)) (مسند أحمد)
’’کوئی اور دن ایسا نہیں جس میں نیک عمل اللہ کے یہاں ذو الحجہ کے دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہوں ‘پس ان ایام میں کثرت سے الحمد للہ‘ لا الٰہ اِلا اللہ‘ اللہ اکبر اور الحمد للہ کا ورد کیا کرو۔‘‘
ان تکبیرات کا اہتمام کب سے کب تک کیا جائے ‘اس کے بارے میں علماءِ احناف کہتے ہیں کہ عرفہ کے دن یعنی ۹ ذو الحجہ کی فجر سے ۱۳ ذو الحجہ کی عصرتک ہر فرض نماز کے بعد قدرے بلند آواز سے ایک مرتبہ پڑھنا واجب ہے۔ خواتین آہستہ آواز کے ساتھ پڑھیں گی کہ ان کے لیے بھی یہ واجب ہے۔ اور اکیلے نماز پڑھنے والے حضرات کے لیے بھی یہ واجب ہے۔ خواتین گھر میں نمایاں جگہ پر کارڈ وغیرہ لکھ کر آویزاں کر لیں تاکہ یاد رہے۔اہل حدیث حضرات کے نزدیک اس کانہ ہی کوئی متعین وقت ہے اور نہ ہی کوئی متعین تعداد ہے۔اس عشرہ کے دوران کسی بھی وقت ان کو پڑھا جا سکتا ہے۔حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں:
’’حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے اقوال کی رو سے راجح ترین موقف یہ ہے کہ تکبیرات کا آغاز نو ذو الحجہ کی صبح سے لے کر تیرہ ذو الحجہ کی عصر تک ہے۔‘‘(فتح الباری‘ جلد دوم)
امام بخاریؒ کے نزدیک تمام اوقات میں ہر ایک مردو عورت‘ صحت مند و بیمار‘ مسافر و مقیم کے لیے تکبیرات کہنا مستحب ہے۔امام بخاری لکھتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم ذو الحجہ کے پہلے عشرہ میں بازار کی طرف نکل جاتے اور قدرے اونچی آواز کے ساتھ تکبیرات پڑھتے ‘پھر لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیرات پڑھتے۔
احناف کے نزدیک تکبیراتِ تشریق کے یہ الفاظ افضل ہیں:
اَللهُ اَكْبَرُ اللهُ اَكْبَر لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ وَاللهُ اَكْبَر اللهُ اَكْبَر وَلِلهِ الْحَمْدُ
(فتح الباری لابن حجر‘ كتاب العيدين‘ باب فضل العمل في أيام التشريق)
جبکہ اہل حدیث حضرات کے نزدیک تکبیراتِ تشریق کے یہ الفاظ افضل ہیں:
اَللهُ اَكْبَرُ كَبِيْرًا وَسُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهٖ بُكْرَةً وَاَصِيْلًا
(فتح الباری لابن حجر‘ كتاب الاذان‘باب الكلام إذا أقيمت الصلاة)
(۲)بال اور ناخن وغیرہ نہ کاٹنا:جو شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہو اس کے لیے مستحب ہے کہ ذوالحجہ کا چاند دیکھنے سے لے کر قربانی کرنے تک جسم کے کسی حصّہ کے نہ بال کاٹے اور نہ ہی ناخن تراشے۔ رسول اللہ ﷺ کاا رشاد مبارک ہے:
((إِذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ وَ أَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعْرِهٖ وَأَظْفَارِهٖ)) (صحیح مسلم)
’’جب تم میں سے کوئی ذو الحجہ کا چاند دیکھ لے اور اس کا قربانی کا ارادہ بھی ہو تو اسے چاہیے کہ قربانی کرنے تک اپنے بالوں اور ناخنوں سے رکا رہے۔‘‘
احناف کے نزدیک یہ عمل مستحب ہے ‘جبکہ حنابلہ اور اہلحدیث حضرات کے نزدیک بال وغیرہ کاٹنا حرام ہے۔ امام شافعیؒ اسے مکروہ تنزیہی کہتے ہیں ۔جو قربانی کی استطاعت نہ رکھتاہو وہ بھی یہی کرے تو عنداللہ ماجورہوگا ۔کیونکہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہا: یا رسول اللہ ﷺ!مَیں قربانی کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم نہ ناخن کاٹو اور نہ بال کاٹو۔ جب لوگ قربانی پیش کر دیں تو تم اپنے ناخن اور بال کاٹ لینا‘ تمہارے لیے یہی قربانی ہو جائے گی(یعنی تمہیں بھی اس عمل کا اجر مل جائے گا)۔(سنن ابی داؤد)
(۳) حج و عمرہ کی ادائیگی:عشرہ ذی الحجہ میں حج و عمرہ کی عبادت انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔ جس شخص پر حج فرض ہو گیا ہے اسے چاہیے کہ جلد از جلد اس فریضہ سے سبکدوش ہو جائے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((العُمْرَةُ إِلَى العُمْرَةِ كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَھُمَا وَالحَجُّ المَبْرُوْرُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا الْجَنَّةُ)) (صحیح البخاری)
’’ایک عمرہ دوسرے عمر ہ تک درمیان کے(گناہوں )کے لیے کفّارہ ہے اور حج مبرور (مقبول حج)کا بدلہ جنّت کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
(۴)عشرہ ذی الحجہ کے روزے:اس عشرہ میں نبی اکرم ﷺ کی خاص تاکید ہے کہ ان ایام کو روزوں کے ساتھ گزارا جائے۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((مَا مِنْ أَيَّامٍ أَحَبُّ إِلَى اللہِ أَنْ يُتَعَبَّدَ لَهُ فِيھَا مِنْ عَشْرِ ذِي الحِجَّةِ يَعْدِلُ صِيَامُ كُلِّ يَوْمٍ مِنْھَا بِصِيَامِ سَنَةٍ وَقِيَامُ كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْھَا قِيَامِ لَيْلَةِ القَدْرِ)) (سنن الترمذی)
’’اللہ ربّ العزت کو عشرہ ذی الحجہ میں جتنے نیک اعمال محبوب ہیں اتنے اور کسی دن میں نیک اعمال پسندیدہ نہیں۔ ذو الحجہ کے دنوں کے روزہ کا ثواب سال بھر کے روزوں کے برابر اور ان دنوں کی ایک رات کی عبادت کا ثواب شب ِ قدر کی عبادت کے برابر ہے۔‘‘
فقہاء کے نزدیک ذو الحجہ کے ابتدائی آٹھ دن کے روزے رکھنا مستحب عمل ہے اور حدیث میں اس کا بڑا ثواب آیا ہے ۔ اُمّ المؤمنین حضرت حفصہ ؓنے نبی اکرم ﷺ کے چار کام گِنوائے ہیں جو آپ ﷺ کثرت کے ساتھ کیا کرتے تھے اور ان کو ترک نہیں فرماتے تھے۔ وہ یہ ہیں:
(۱) عاشوراء کا روزہ (۲) ایامِ بیض کے روزے
(۳) عشرہ ذی الحجہ کے روزے (۴) فجر کی سنتیں (سنن نسائی)
الغرض پورے عشرہ ذی الحجہ کے روزے رکھنا علاوہ دس ذو الحجہ کے انتہائی پسندیدہ عمل ہے اور نبی اکرم ﷺ نے اس کی خصوصی ترغیب دی ہے ۔ البتہ یہ روزے نفل ہیں اور ایک نفلی روزہ کا ثواب حدیث میں بہت آیا ہے ‘چنانچہ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:
((مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيْلِ اللہِ بَعَّدَ اللہُ وَجْھَهُ عَنِ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا))(صحیح البخاری)
’’جو شخص اللہ ربّ العزت کے لیے ایک نفلی روزہ رکھتا ہے تو اللہ ربّ العزت اُس کے اور جہنّم کے درمیان ستر سال کا فاصلہ ڈال دیتے ہیں۔‘‘
(۵)نو ذُو الحجہ کا روزہ:عرفہ کا دن بڑی فضیلت کا حامل ہے ‘کیونکہ اس دن تمام حجاج میدانِ عرفات میں جمع ہوتے ہیں اور وقوفِ عرفات حج کا رکنِ اعظم ہے۔ پہلے تذکرہ آچکا کہ اس دن اللہ ربّ العزت جتنے لوگوں کو جہنّم سے آزادی کا پروانہ جاری فرماتے ہیں اتنے اور کسی دن میں لوگ جہنّم سے چھٹکارا نہیں پاتے ۔ اس دن رسول اللہ ﷺ روزہ رکھنے کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے ۔فقہاء فرماتے ہیں کہ نو ذو الحجہ کا روزہ رکھنا مسنون ہے اور احادیث میں اس دن روزہ رکھنے کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ رسول اللہ ﷺنو ذُو الحجہ کا روزہ مستقل رکھا کرتے تھے‘ چنانچہ حدیث میں آتا ہے:
((كَانَ رَسُولُ اللہِ ﷺ يَصُومُ تِسْعَ ذِى الْحِجَّةِ وَيَوْمَ عَاشُورَاءَ وَثَلاَثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَھْرٍ أَوَّلَ اثْنَيْنِ مِنَ الشَّھْرِ وَالْخَمِيسَ)) (سنن ابی داؤد)
’’رسول اللہ ﷺ نو ذی الحجہ‘ عاشوراء اور ہر مہینے ایام بیض کے روزے رکھا کرتے تھے۔‘‘
اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے نو ذُو الحجہ کے روزہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
((صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ اِنِّیْ أحْتَسِبُ عَلَى اللهِ اَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِيْ قَبْلَهُ وَالسَّنَةَ الَّتِيْ بَعْدَهُ)) (صحیح مسلم)
’’یوم ِعرفہ کے دن روزہ کے بارے میں مجھے اللہ ربّ العزت کی ذات سے اُمید ہے کہ یہ گزشتہ اور آئندہ سال کے گناہوں کا کفّارہ بن جائے گا۔‘‘
خیال رہے کہ یہاں گناہوں سے مراد صغیرہ گناہ ہیں۔ کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے۔ ایک سوال اور کیا جاتا ہے کہ ۹ذو الحجہ کون سا والا ؟پاکستان والا یا سعودی عرب والا؟ تو جاننا چاہیے کہ آپ جس مقام پر ہیں اس کا اعتبار ہوگا۔اللہ کے لیے کیا مشکل ہے کہ وہ بیک وقت ہر جگہ اور ہر وقت اپنی برکات کا نزول فرمائے‘ وہ زمان و مکان سے پاک ہے۔جس طرح نماز آپ یہاں کے اوقات کے اعتبار سے پڑھتے ہیں‘ روزے یہاں کے اعتبار سے رکھتے ہیں‘ عید یہاں کے اعتبار سے مناتے ہیں‘اسی طرح عرفہ کا روزہ بھی اپنے علاقہ کے حساب سے رکھیں گے۔
(۶)نمازِ عید کی ادائیگی:ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ نمازِ عید ادا کرے‘ کیونکہ یہ واجب ہے اور بچوں کو بھی ساتھ لے کر جائے۔ اس کے بعد خطبہ سننا بھی واجب ہے۔
(۷)قربانی کرنا:دس ذو الحجہ کے دن اللہ ربّ العزت کو قربانی سے زیادہ اور کوئی عمل پسند نہیں ہے۔ جاننا چاہیے کہ بعض دانشور قربانی کے حوالے سے غلط فہمی پھیلاتے ہیں اور اس کی جگہ لوگوں کو فلاح و بہبود کے کاموں کی ترغیب دلاتے ہیں۔ نوٹ کر لیں کہ اس دن قربانی کی جگہ اگر لاکھوں روپے بھی صدقہ و خیرات کردیے تب بھی وہ عمل قربانی سے افضل نہیں ہو گا۔ اس دن قربانی کا عمل ہی اللہ ربّ العزت کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔ باقی رہا صدقہ و خیرات اور لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کرنا تو وہ ضرور کریں‘ لیکن قربانی کے بجائے صدقہ و خیرات کے عمل پر پیسہ لگا دینا درست عمل نہیں ہے۔قربانی کا عمل اپنی جگہ واجب رہے گا ‘لہٰذا اس کی فکر بھی ہونی چاہیے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((مَا عَمِلَ آدَمِيٌّ مِنْ عَمَلٍ يَوْمَ النَّحْرِ أَحَبَّ إِلَى اللهِ مِنْ إِهْرَاقِ الدَّمِ‘ إِنَّهُ لَيَأْتِي يَوْمَ القِيَامَةِ بِقُرُونِھَا وَأَشْعَارِهَا وَأَظْلَافِھَا‘ وَأَنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللهِ بِمَكَانٍ قَبْلَ أَنْ يَقَعَ مِنَ الأَرْضِ‘ فَطِيبُوا بِھَا نَفْسًا))(سنن الترمذی)
’’قربانی والے دن اللہ ربّ العزت کو جانور کا خون بہانے سے زیادہ کوئی عمل پسند نہیں۔ قیامت کے دن قربانی کے جانور اپنے سینگوں‘ کھروں اور ناخنوں کے ساتھ لائے جائیں گے ۔ قربانی کے جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ ربّ العزت کے ہاں قبولیت کا درجہ پالیتا ہے ‘لہٰذا خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں عشرئہ ذوالحجہ کی فضیلت کو سمجھنے اور ان بابرکت ایام میں مذکورہ بالا تمام اعمال پورے اہتمام کے ساتھ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!!