اللہ تعالیٰ کی خصوصی نعمت
’’ پاکستان‘‘ کی ناشکری
مرکزی ناظم تربیت خورشید انجم
کا ۶ مئی ۲۰۲۲ءکا خطابِ جمعہ
{وَضَرَبَ اللہُ مَثَلًا قَرْیَۃً کَانَتْ اٰمِنَۃً مُّطْمَئِنَّۃً یَّاْتِیْھَا رِزْقُھَا رَغَدًا مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللہِ فَاَذَاقَھَا اللہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ(۱۱۲) وَلَقَدْ جَاۗءَھُمْ رَسُوْلٌ مِّنْھُمْ فَکَذَّبُوْہُ فَاَخَذَھُمُ الْعَذَابُ وَھُمْ ظٰلِمُوْنَ(۱۱۳)} (النحل)
قرآن مجید میں مکی سورتوں کا اہم ترین موضوع ’’ایمان‘‘ہے‘ یعنی ایمان باللہ‘ ایمان بالرسالت اور ایمان بالآخرۃ۔حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ کے مطابق ایمان کی دعوت دینے کے لیے قرآن مجید میں دو طرح سے استدلال کیا گیا ہے: تذکیر بالآءاللہ اور تذکیر بایام اللہ۔ تذکیر بالآءاللہ سے مرادہے :اللہ تعالیٰ کی نعمتیں‘ اُس کی قدرتیں‘ اُس کا فضل ‘ اُس کے انعامات اور پھر اس کے ساتھ ساتھ اُس کی صناعی‘ اس کی خلاقی اور اُس کے احسانات کے ذریعے سے یاد دہانی‘ جبکہ تذکیر بایام اللہ سے مراد اللہ کے دنوں کے حوالے سے یاد دہانی ہے۔ اللہ کے دنوں سے وہ اہم اور عبرت ناک دن مراد ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے بڑی بڑی قوموں کو تہس نہس کر دیا۔
درج بالا آیات سورۃ النحل کی ہیں۔سورۃ النحل میں اللہ تعالیٰ نے اپنی بہت سی نعمتوں کا ذکر کیا ہے اور پھر لوگوں کو ان کی طرف توجّہ دلا کر کہا ہے کہ ان پر غور و فکر کرو‘ تمہیں اللہ کی معرفت حاصل ہوگی۔ نحل کے معنیٰ ہیں ’’شہد کی مکھی‘‘۔ یعنی شہد کی مکھی کو دیکھو کہ جس کاچھتا انجینئرنگ کا شاہکار ہے اور یہ جو شہد تیار کرتی ہے اس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔پھر دودھ کی پیدائش کو دیکھو کہ گائے بھینس کے پیٹ میں ایک طرف خون ہے اور ایک طرف گوبر‘ لیکن اس کے باوجود دودھ میں کوئی بساند نہیں‘ کوئی بُو نہیں۔ اگر فریج میں کوئی بُو والی چیز رکھ دی جائے جیسے مچھلی وغیرہ تو وہاں موجود ساری چیزوں کے اندر بُو رچ بس کر رہ جاتی ہے۔ یہاںخون اور گوبر کے ساتھ ساتھ دودھ بہہ رہا ہےلیکن کوئی ہلکی سی بھی بساند محسوس نہیں ہوتی ہے۔ سورۃ النحل میں ان کے علاوہ اور بھی بہت سی نعمتوں کا ذکر کیاگیا ہے۔
اسی سورہ مبارکہ میں آگے چل کر حضرت ابراہیمؑ کا تذکر ہ آیا ہے------ حضرت ابراہیمؑ کا تذکرہ قرآن مجید میں کئی مرتبہ آیا ہے اور بار بار فرمایا گیاکہ وہ ’’حنیف‘‘ یعنی اللہ کی عبادت میں یکسو تھےاور {وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ} ’’اور مشرکین میں سے ہرگز نہیں تھے۔‘‘البتہ یہاں ایک دوسرا انداز ہے ۔ فرمایا:
{شَاکِرًا لِّاَنْعُمِہٖ ۭ اِجْتَبٰىہُ وَھَدٰىہُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۱۲۱)}
’’ وہ اللہ کی نعمتوں کاشکر ادا کرنے والے تھے۔ اللہ نے انہیں چن لیا تھاا ور سیدھے راستے کی طرف ان کو ہدایت دی تھی۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی نعمتوں کا بیان اور اس پرشکر کی روش اس سورئہ مبارکہ کا خاص اور اصل مضمون ہے ۔
اسی حوالے سےاس سورئہ مبارکہ کی آیت ۱۱۲ میں ایک بستی کی مثال دے کر ہماری تذکیر کی گئی ہے۔ آج کی نشست میں ہم اس آیت کا تفصیلی مطالعہ کرتے ہیں۔ارشاد فرمایا:
{وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْیَةً}
’’اوراللہ تعالیٰ مثال بیان کرتے ہیں ایک بستی کی‘‘
{كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَىٕنَّةً}
’’ جوبہت امن و امان اور اطمینان سے رہ رہی تھی‘‘
یعنی اس بستی کے رہنے والوں کو امن کی کیفیت بھی حاصل تھی اور اطمینان و سکون کی بھی۔ دوسری نعمت جو انہیں حاصل تھی وہ یہ کہ :
{یَّاْتِیْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ}
’’ ہر طرف سےاُن کا رزق چلا آ رہا تھا‘‘
فراغت کے ساتھ کھلا رزق آ رہا تھا‘ یعنی وہ قوم معاشی لحاظ سے بہت خوشحال تھی۔ آج کی اصطلاح میں ان کی فی کس آمدنی بہت زیادہ تھی اور ہر قسم کا آرام و آسائش بھی ان کو حاصل تھا۔ یہ دو بہت بڑی نعمتیں ہیں۔ کسی ملک کے اندر اگر امن و امان ہو اور رزق کی فراوانی بھی ہوتو پھر اور کیا چاہیے! لیکن ہوا یہ کہ :
{فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ}
’’انہوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناقدری کی‘‘
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ اتنی بڑی نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے‘ لیکن انہوں نے کفرانِ نعمت یعنی ناشکری کی رَوِش اختیار کی۔
{فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْ عِ وَ الْخَوْفِ}
’’تو اللہ نے ان کو مزہ چکھایا بھوک اور خوف کےلباس کا‘‘
یعنی اللہ ربّ العزت نے ان پر بھوک اور خوف مسلط کر دیا ۔امن و امان کی جگہ خوف اور رزق کی فراوانی کی جگہ بھوک کا لباس انہیں پہنا دیا۔
{بِمَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ(۱۱۲)}
’’بسبب اس کے کہ جوکرتوت وہ کیا کرتے تھے۔‘‘
یَصْنَعُوْنَ سے صنعت کا لفظ ہےبمعنی کچھ کاری گری کرنا‘کچھ بنانا۔ اسی سے مصنوعات کا لفظ بھی آتا ہے۔ تو وہ جو کچھ کیا کرتے تھے اس کے عوض ان کے ساتھ یہ معاملہ ہوا۔یعنی انہیں ان کے کرتوتوں کا بدلہ دیا گیا۔اگلی آیت میں فرمایا:
{وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْهُمْ}
’’اور یقیناً اُن کے پاس ایک رسول ان ہی میں سے آیا تھا‘‘
{فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُمُ الْعَذَابُ وَ هُمْ ظٰلِمُوْنَ(۱۱۳)}
’’ تو انہوں نے اس کو جھٹلایا‘ پس آن پکڑا اللہ کے عذاب نے ان کو اس حال میں کہ وہ (اپنی جانوں پر) ظلم کرنے والےتھے۔ ‘‘
سورۃ سبا میں بھی اسی طرح کا ایک اورسابقہ قوم کی ناشکری کا قصہ بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح سے انہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلایا‘کس طرح سے انہوں نے ناشکری کی رَوِش اختیار کی اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ کیسا سلوک فرمایا!ارشاد ہوا:
{لَقَدْ كَانَ لِسَبَاٍ فِیْ مَسْكَنِهِمْ اٰیَةٌ ج}
’’یقیناً قومِ سباکی بستی میں بھی ایک نشانی ہے۔‘‘
یہ یمن کے علاقے کی قوم تھی۔ ملکہ سبا کا تعلق بھی اسی قوم سے تھا جو حضرت سلیمانؑ کے دربار میں آئی تھیں اور ان پر ایمان بھی لے آئی تھیں۔ یہ پورا قصہ قرآن کے اندر موجودہے۔
{جَنَّتٰنِ عَنْ یَّمِیْنٍ وَّ شِمَالٍ ط}
’’ان کے دوباغ تھے دائیں اور بائیں طرف‘‘
میلوں تک وہ باغ پھیلے ہوئے تھے۔ یعنی زراعت تھی ‘ کھیتی باڑی تھی۔گویاان کے پاس ہر قسم کے وسائل موجود تھے اور شمالاً جنوباً ہر طرف باغات ہی باغات تھے۔اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا:
{كُلُوْا مِنْ رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَ اشْكُرُوْا لَهٗ ط}
’’ کھاؤ اورپیو اپنے رب کا رزق اور اُس کا شکر ادا کرو۔‘‘
{بَلْدَةٌ طَیِّبَةٌ وَّ رَبٌّ غَفُوْرٌ(۱۵)}
’’یقیناً (یہ)ایک پاکیزہ شہر ہے اورتمہارا رب بھی بخشنے والا ہے۔‘‘
اس احسانِ الٰہی پر ان کا رویّہ یہ تھا کہ:
{فَاَعْرَضُوْا فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ سَیْلَ الْعَرِمِ وَ بَدَّلْنٰهُمْ بِجَنَّتَیْهِمْ جَنَّتَیْنِ ذَوَاتَیْ اُكُلٍ خَمْطٍ وَّ اَثْلٍ وَّ شَیْءٍ مِّنْ سِدْرٍ قَلِیْلٍ (۱۶)}
’’تو انہوں نے اعراض کیا‘ چنانچہ ہم نے بھیج دیا اُن پر سیلاب بہت زور کا اور ہم نے بدل دیے اُن کے دو باغوں کی جگہ دو اور باغ‘ جن میں کڑوے کسیلے پھل ‘ جھاؤ کے درخت اور کچھ تھوڑی سی بیریاں تھیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے ان پر اس زور کا سیلاب بھیجا کہ پانی ذخیرہ کرنے کے لیے بنایا ہوا بند ٹوٹ گیا‘ جس کے نتیجے میں ان کی بستیاں برباد ہو گئیں اور وہ دونوں سرسبزو شاداب باغ اجڑ گئے اور ان باغوں کو ایسے دو باغوں سے بدل دیا جن میں کچھ میلا کسیلا سا پھل آتا تھا۔ کچھ جھاؤ جھنکاڑ تھےاورکچھ تھوڑی سی مقدار کے اندر بیر ہوا کرتے تھے۔ایسا کیوں ہوا‘ اس کے بارے میں اللہ ربّ العزت نے فرمایا:
{ذٰلِكَ جَزَیْنٰهُمْ بِمَا كَفَرُوْاط}
’’ہم نے ان کو یہ بدلہ دیا بوجہ اس کےجوانہوں نے ناشکری کی روش اختیار کی تھی۔‘‘
{وَ هَلْ نُجٰزِیْٓ اِلَّا الْكَفُوْرَ(۱۷)}
’’اور جو ناشکری کی روش اختیارکرتے ہیں ان کو ہم یہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔‘‘
قومِ سبا پر جب سیلاب آیا تو وہ تتر بتر ہوگئی۔ انہی میں سے دو قبائل اوس اور خزرج بھی تھے جو یمن سے نکل کر مدینہ منورہ آکر آباد ہوگئے تھے۔ اس قوم کو جزیرہ نما ئےعرب پر تجارت کی اجارہ داری حاصل تھی۔ شام سے یمن تک کی تجارتی شاہراہ قومِ سبا کے پاس تھی۔ اس قوم کے بعد یہی چیز قریش کو حاصل ہوئی جس کا تذکرہ سورئہ قریش میں ہے۔فرمایا:
{لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍ (۱) اٖلٰفِھِمْ رِحْلَۃَ الشِّتَاۗءِ وَالصَّیْفِ (۲) فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ھٰذَا الْبَیْتِ (۳) الَّذِیْ اَطْعَمَھُمْ مِّنْ جُوْعٍ ڏ وَّاٰمَنَھُمْ مِّنْ خَوْفٍ(۴)}
’’قریش کے مانوس رکھنے کی وجہ سے (یعنی) سردیوں اور گرمیوں کے سفر سے ان کو مانوس رکھنے کی وجہ سے۔ پس انہیں بندگی کرنی چاہیے اس گھر کے رب کی جس نے انہیں بھوک میں کھانے کو دیا اور انہیں خوف سے امن عطا کیا۔‘‘
حضورِ اُقدس ﷺ کی تشریف آوری سے پہلے عرب میں قتل وغارت کا بازار گرم رہتا تھا۔ کوئی شخص آزادی اور امن کے ساتھ سفر نہیں کر سکتا تھا۔ قریش کا قبیلہ بیت اللہ کے پاس رہتا تھا اوراس کا انتظام و انصرام انہی کے پاس تھا۔ عرب کے ہر قبیلے کے خدا کا بُت خانہ کعبہ میں رکھا ہوا تھا‘ جن کی کل تعداد ۳۶۰تھی۔ قریش بیت اللہ کی خدمت بھی کرتے تھے‘ لہٰذا سارے عرب کے لوگ ان کی عزّت کرتے تھے اور جب وہ سفر کرتے تو انہیں کوئی نہیں لوٹتا تھا۔ اسی وجہ سے قریش کا یہ معمول تھا کہ وہ اپنی تجارت کی خاطر سردیوں میںیمن اور گرمیوں میں شام کا سفر کیا کرتے تھے۔ اسی تجارت سے ان کا روزگار وابستہ تھا‘ کیونکہ مکہ تو سنگلاخ زمین تھی اور وہاں کوئی پیدا وار نہیں ہوتی تھی۔ انہی اسفار کی وجہ سے وہ خوش حال زندگی گزار رہے تھے۔ بیت اللہ کی مجاوری کی وجہ سے انہیں امن ‘ چین اور سکون بھی حاصل تھا۔ لہٰذا اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ قریش کو یاد دلا رہے ہیں کہ انہیں عرب میں جو عزّت حاصل ہے اور جو امن‘ چین‘ سکون‘ خوشحالی میسّر ہے اس پر شکر گزاری کی رَوِش اختیار کریں اور اللہ ہی کی عبادت کریں۔ابھی جن اقوام کا تذکرہ ہوا‘ ان کے ذریعے دراصل ہمیں یاد دہانی کرائی جارہی ہے۔ جیساکہ سورۃ الانبیاء میں فرمایا گیا:
{لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ کِتٰبًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (۱۰)}
’’یقیناً یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف نازل کی ہے جس میں تمہارا ذکر بھی ہے۔ تو تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے!‘‘
قرآن مجید دراصل ہمیں بھی سمجھا رہا ہے کہ اس آئینے میں اپنی تصویر دیکھو کہ تم کہاں کھڑے ہو‘ تمہاری کیفیت کیا ہے؟امر واقعہ یہ ہے کہ اگر ہم غورو فکر کریں تو ہمارامعاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے‘ اِلا ماشاء اللہ۔
نبی اکرم ﷺ اپنی حیاتِ طیبہ میں اس دین کو جزیرہ نمائے عرب پرغالب اور نافذ کرکے اس دنیا سے تشریف لے گئے ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ(۹) } (الصف)
’’وہی ہے( اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسول کو الہدیٰ اور دین حق کے ساتھ‘ تاکہ غالب کردے اس کو تمام کے تمام ادیان پراور خواہ مشرکین کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔‘‘
پھر غلبہ دین کی تکمیلی شان ہمیں دورِ فاروقی اور دورِ عثمانی میں نظر آتی ہے۔ اس کے بعد بھی غلبۂ دین کی جدّوجُہد اور فتوحات جاری رہیں‘ یہاں تک کہ رفتہ رفتہ بنو عباس کے دور میں پھر وہی کفرانِ نعمت کی روش اختیار کرلی گئی۔ اب کیفیت یہ ہو گئی ہے کہ ؎
مَیں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر اُمم کیا ہے
شمشیر و سناں اوّل‘ طاؤس و رُباب آخر!وہ سب نام کے تو خلیفہ تھےلیکن ان کے رنگ ڈھنگ قیصر و کسریٰ والے تھے۔ اسی طرح سے حرم آباد ہوئے ‘ اسی طرح سے راگ ورنگ کی محفلیں جمنی شروع ہوگئیں ۔ وہی بادشاہوں کے رنگ ڈھنگ‘ وہی سونے چاندی کے پیالوں میں کھانا پینا شروع ہو گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایک انتہائی وحشی قوم یعنی تاتاریوں کو بھیج دیا۔ ان کی بربریت کا یہ عالَم تھا کہ مسلمانوں کے قتل سے بغداد کی گلیاں خون سے بھر گئیں اور انہوں نے کھوپڑیوں کے مینار بنا دیے ۔ مسلمانوں پر اس حد تک ان کی وحشت طاری تھی کہ اگر ایک نہتا تاتاری کچھ لوگوں سے کہتا کہ تم یہیں کھڑے رہو‘ ہلنا نہیں!مَیں ابھی تلوار لے کر آتا ہوں اور تمہارا سر قلم کرتا ہوں تو وہ خوف کے مارے واقعی وہاں سے ہلتے تک نہیں تھے۔ یہ کیفیت ہو گئی تھی مسلمانوں کی۔
ہمارے ہاں ہندوستان میں سلطنت ِمغلیہ کا بھی یہی حال رہا اور پھر ان کا بھی وہی معاملہ ہوا۔ محمد شاہ رنگیلا جیسی شخصیات آ گئیں۔ جب نادر شاہ دہلی کی طرف منزل پر منزل طے کرتا آرہا تھا تو اطلاع کا جو پرچہ بھی آتا تھا‘ محمد شاہ اسے شراب کے پیالے میں ڈبو کرکہتا تھا : ’’ہنوزدلی دور است!‘‘ پنڈی پہنچ گیا‘ ہنوز دلی دور است! لاہور پہنچ گیا ‘ ہنوز دلی دور است! امرتسر پہنچ گیا‘ ہنوز دلی دور است! بالآخر وہ دلی بھی پہنچ گیااور پھراس نے دہلی کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا‘ لیکن ہمیں پھر بھی کوئی عقل نہیں آئی۔ اس کے بعد تقریباً دو سو سال تک ہم پر انگریزوں کی غلامی کا دور مسلط رہا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ہم پر مہربانی کی اورپاکستان کے لیے تحریک چلائی گئی۔ تحریک ِپاکستان کی بنیاد ہندو کا خوف تھا کہ انگریز کے جانے کے بعد وہ ہم سے ہزار سالہ شکست کا انتقام لے گا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے وقت اندرا گاندھی کے منہ سے یہ الفاظ بھی نکل گئے تھے کہ ہم نے اپنی ہزار سالہ شکست کا انتقام لے لیا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے پاکستان جیسی نعمت ہمیں عطا کردی۔ کس لیے؟ چونکہ ہم نے کہا تھا کہ ہمارا دین خطرے میں ہے‘ ہماری تہذیب خطرے میں ہے‘ ہماری ثقافت خطرے میں ہے ۔ہندو اکثریت میں ہے‘انگریز کے جانے کے بعد تو ہندو چھا جائے گا۔ لہٰذا ہمیں ایک علیحدہ خطہ چاہیے جہاں ہم آزادی سے اپنے دین پر عمل کرسکیں۔ علّامہ اقبال نے۱۹۳۰ءکے خطبہ میں یہی بات کہی تھی ۔
اللہ تعالیٰ نے ہماری دعا نہ صرف قبول کی بلکہ ہمیں دو پاکستان عطا کردیے۔ ایک مشرقی پاکستان اور ایک یہ موجودہ مغربی پاکستان۔ لیکن پھر ہوا کیا؟ ہم نے بھی وہی کچھ کیا جو قومِ سبا نے کیا تھا: {فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ} ’’انہوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناقدری کی‘‘توہم نے بھی اللہ کی نعمتوں کی نا شکری کی ہے۔ جب وعدہ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ وہ چیز عطا فرما دیتے ہیں‘ جیسا کہ سورۃ التوبہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَمِنْهُمْ مَّنْ عٰهَدَ اللّٰهَ لَىٕنْ اٰتٰىنَا مِنْ فَضْلِهٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۷۵)}
’’اور ان میں کچھ وہ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر ہمیں اپنے فضل سے دے گا تو ہم ضرور خیرات کریں گے اور ہم ضرور بھلے آدمی ہوجائیں گے۔‘‘
کیا ہم نے بھی یہی وعدہ نہیں کیا تھا کہ اے اللہ! ایک بار ہمیں ایک علیحدہ خطہ عطا کر دے ‘ ہم نیکوکاروں میں ہوں گے‘ ہم تیرے دین کے عادلانہ نظام کو قائم کرکے دکھائیں گے‘ہم اسلام کا نظامِ حریت و اخوت و مساوات قائم کریں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے جب ہمیں ایک کے بجائے دو خطے عطا کردیے‘ ہر طرح کی سہولیات عطا کردیں‘ بافراغت رزق ہمارے پاس تھا ---- انڈیا سے جب کوئی پاکستان آتا تو اسے یوں محسوس ہوتا کہ ایک غریب ملک سےخوشحال ملک میں آ گئے ہیں ---- لیکن ہمارا طرزِعمل اورہمارا رویّہ مسلسل ناشکری کا رہا۔ اسی دین سے ہم نے اعراض کیا جس کو قائم کرنے کا وعدہ کر کے ہم نے یہ ملک حاصل کیا تھا۔ قرار دادِ مقاصد منظور ہوئی تو پارلیمنٹ کے اندر کہا گیا کہ آج ہمارے سر شرم سے جھک گئے ہیں کہ عوامی حاکمیت کے دور میں اللہ کی حاکمیت کا اقرار ع
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں!No legislation will be done repugnant to The Quran and The Sunnah!
ہماری باقی ساری تاریخ بھی اسی طرح کی ہے ۔اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ سزا کے طور پر۱۹۷۱ءمیں ہمارے اوپر عذاب کا کوڑا برسا اور مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوگیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ انہوں نے ’’مشرقی پاکستان‘‘ نام رکھنا بھی گوارا نہیں کیا جبکہ دنیا میں اُس وقت دو جرمنی تھے اور دو کوریا تواب بھی ہیں۔پاکستا ن بھی دو ہو سکتے تھے: مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان۔ لیکن ان بنگالیوں کے دلوں میں ہمارے خلاف ایسی نفرت تھی کہ انہوں نے نام میں پاکستان کا لفظ بھی گوارا نہیں کیا۔ہمارےترانوے ہزارکڑیل جوان ہندو کی قید میں گئے۔ پوری اسلامی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے اس کی مثال نہیں ملتی ۔ شہید تو ہوئے ہیں لیکن اتنی بڑی تعداد میں قیدی کبھی بھی نہیں ہوئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کا کوڑا تھا جو ہم پر برسا ہےاور اس کی وجہ فقط ’’اعراض عن الدین‘‘ ہے کہ اس دین سے ہم نے اعراض کی روش اختیار کی۔ اس کے بعد بھی ہماری روش نہیں بدلی اور اب بگاڑ بڑھتے بڑھتے جس حد تک پہنچ گیا ہے وہ ہمارے سامنے ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ گالی دینا تو ہمارا کلچر ہے۔ کرپشن کے الزام سے کوئی بھی بری نہیں۔ عوام ہوں یا حکام‘ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔
حال ہی میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ صاحب نے اپنے ایک بیان میں جب کہ جناب مفتی تقی عثمانی صاحب نے عید کے خطبہ میں اس جانب توجّہ دلائی ہے کہ ہماری سیاست کے اندر بگاڑ بہت بڑھ گیا ہے ۔خدا را! سیاسی اختلاف کو حق وباطل کا معرکہ نہ بنائیں! مروّجہ سیاست میں یہ بگاڑ ویسے تو کئی دہائیوں سے چلا آرہا ہے‘ لیکن اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی آخری حدوں کو پہنچ گیا ہے۔ گالیاں دینا اور غیبت کرنا تو ایک معمول سا بن گیا ہے۔ہلڑ بازی ‘ جلسوں میں میراثیوں اور گویوں کو کھڑا کر دینا‘ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا‘ الزام تراشی‘ بہتان طرازی‘ کردار کشی‘ یہ ہماری سیاست کے سنگ ہائے میل بن چکے ہیں۔ اس کو معیوب سمجھا ہی نہیں جاتا‘ حالانکہ یہ برائیاں تو کبیرہ گناہ کے درجے تک پہنچ جاتی ہیں۔ دوسروں کی عزّت سے کھیلنا گناہِ کبیرہ ہے جو سرعام ہو رہا ہے۔ پھر رمضان میں نمازوں کے اوقات میں جلسے منعقد کیے جاتے رہے۔ اب معاملہ بڑھتے بڑھتے کس درجہ کو پہنچ گیا ہے‘اسے واضح کرنے کے لیے درج ذیل واقعات کا حوالہ کافی ہے:
(۱) رمضان المبارک میں تیمر گرہ میں ایک مسجد پر حملہ کر دیا گیا۔ مقتدیوں کو مارا گیا اور امام کو زخمی کیا گیا۔ بعد میں وہاں جماعت اسلامی کے امیر نے جرگہ کیا اور سب کو بلا کر عہد لیا کہ آئندہ آپس میں امن سے رہیں گے۔
(۲) ہری پور میں دو مزدور وں کی کسی بات پر تکرار ہوئی‘ ایک نے دوسرے کو قتل کر دیا۔
(۳) چند دن پہلے کی بات ہے کہ ایک نوجوان لڑکے کے کزن اورکسی شخص کی آپس میں تُوتکار بڑھتے بڑھتے اس حد تک بڑھی کہ وہ لڑکا چھڑانے گیا تو اس کو قتل کر دیا گیا۔
کہا یہ جاتا ہے کہ مولویوں میں برداشت نہیں ‘ لیکن یہ عدم برداشت کس طرف سے ہو رہا ہے؟ مَیں کسی پارٹی کا نام نہیں لے رہا‘ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ سیاست دان لوگوں کو بھڑکا رہے ہیں اور عوام اس چکّی میں پس رہے ہیں‘ جبکہ لیڈر خود آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ جس دن سے قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی ہے‘ مخالفین آرام سے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ لگا رہے ہیں۔ایک بھائی حزبِ اقتدار میں ہے تو دوسرا حزبِ اختلاف میں۔والدہ ایک جماعت میں تو بیٹی دوسری میں۔ ان کی تو آپس میں رشتہ داریاں ہیں جن میں یہ گندھے ہوئے ہیں۔ ان کو تو کوئی مسئلہ ہی نہیں‘ان کے تو آپس میں ڈنر چل رہے ہیں۔ اسی صورت حال پر اکبر الٰہ آبادی نے بڑے ظریفانہ انداز میں کہاتھا کہ
قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ!یہ تو وہی کیفیت نظر آتی ہے جو سورۃ الانعام کی آیت۶۵ میں بیان کی گئی:
{قُلْ ھُوَ الْقَادِرُ عَلٰٓی اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِکُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِکُمْ اَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا وَّیُذِیْقَ بَعْضَکُمْ بَاْسَ بَعْضٍ ۭ اُنْظُرْ کَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّھُمْ یَفْقَھُوْنَ (۶۵)}
’’کہہ دیجیے کہ وہ قادر ہے اس پر کہ تم پر بھیج دے کوئی عذاب تمہارے اوپر سے یا تمہارے (قدموں کے) نیچے سے یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کردے اور ایک کی طاقت کا مزا دوسرے کو چکھائے۔ دیکھو کس کس طرح ہم اپنی آیات کی تصریف کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھیں!‘‘
یہ کیفیت ہے جو اس وقت ہماری ہو رہی ہے۔ہم ایک دوسرے کو مزہ چکھانے کے چکر میں ہیں اور گروہ بندی حد سے بڑھتی جارہی ہے۔ ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ مَیں حق پر ہوں اور باقی سب باطل پر ہیں۔ غداری کے فتوے عام ہو گئے ہیں۔ اسی طرح امن و امان کی کیفیت ابتر سے ابتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ کراچی یونیورسٹی میں بم دھماکا ہو یا بلوچستان اور وزیرستان کی صورتحال ‘اکثر اوقات تو اصل حالات ہمارے سامنے آتے ہی نہیں ہیں۔جو کچھ ہمارے پاس پہنچتا ہے یہ تو چھلنی سے نکل کر آتا ہے ۔ڈالر کی اڑان ہے کہ کہیں رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی اور پٹرول عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتا چلا جا رہا ہے۔آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے چنگل میں ہم اس طرح پھنسے ہوئے ہیں کہ اب پھڑپھڑانے اور ہلنے کی بھی سکت ہم میں نہیں رہی۔اخلاقی لحاظ سےصورت حال اتنی آگے نکل چکی ہے کہ لگتا ہے جیسے صحت‘ تعلیم ‘ خوراک‘ روزگاراور بنیادی ضروریات جیسے مسائل حل ہو چکےہیں‘ بس اب ویڈیوز ہیں جو اِدھر سے اُدھر ہونا باقی رہ گئی ہیں۔ یہ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ جہاں تک ہم پہنچے ہوئے ہیں۔
اس ساری صورتِ حال کی بنیادی وجہ اس وعدے کی خلاف ورزی ہے جوقیامِ پاکستان کے موقع پربحیثیت قوم ہم سب نے اللہ سے کیاتھا۔ یہ خلاف ورزی ہم مسلسل کرتے جا رہے ہیں۔ کہاں ہے وہ اسلام جس پر عمل کرنے کا کا وعدہ کر کے ہم نے یہ ملک حاصل کیا تھا؟ بقول شاعر:
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے!ہم نے اپنی ہی صورت بگاڑ لی ہے‘ اپنا چہرہ ہی مسخ کر بیٹھے ہیں۔ اسی جذباتیت‘ دوسروں کے لیے حقارت آمیز رویوں اور گالم گلوچ کی وجہ سے آدھا ملک ہم۱۹۷۱ءمیں گنوا بیٹھے ہیں۔ اب آدھا رہ گیا ہے‘ اس کی تو حفاظت کرلی جائے!
سوال یہ ہے کہ اس صورت حال سے نجات کیسے حاصل کریں؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ اس کا واحد راستہ ہے ’’توبہ ‘‘! جو کچھ ہو چکا‘ سو ہو چکا۔اب اس سے واپس پلٹا جائے۔ حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ ((اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَہٗ)) (سنن ابن ماجہ) کہ گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہی ہے جیسا کہ اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔ ہمیں اپنے اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ اپنے آپ کو ٹٹولیں کہ ہم کتنے مسلمان ہیں! کیا اپنےپانچ چھ فٹ کے وجود پر مَیں نے اسلام کو نافذ کیا کہ نہیں؟ اگر کیا ہے تو کتنے فیصد کیا ہے؟ اور جو نافذ کیا ہے‘ کیا وہ بھی صرف اپنی پسند کا دین تو نہیں ہے کہ جو آسان لگا کرلیا‘ ذرا سا مشکل اور ناپسند لگا تو چھوڑ دیا۔ اس حوالے سے قرآن حکیم کا تقاضا ہے کہ دین میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ:
{یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُـلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً ص} (البقرۃ:۲۰۸)
’’اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ!‘‘
کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ اپنی ذاتی زندگی میں بھی اور اس کے بعد جو میرا دائرئہ اختیار ہے‘ اس کے اندر بھی شریعت کا نفاذ ہو۔ اس انفرادی توبہ کے ساتھ اجتماعی توبہ بھی ہوتو مکمل توبہ ہو گی‘ جیسا کہ قومِ یونس نےگڑگڑا کر اللہ کے حضور توبہ کی تھی۔ ان کی اجتماعی توبہ قبول بھی ہو گئی تھی اور عذابِ الٰہی کے آثار نظر آنے کے بعد بھی وہ عذاب ان سے ہٹا لیا گیا تھا ۔ اگر ہمیں بھی اللہ کے عذاب سے بچنا ہے تو یہی روش اختیار کرنا ہو گی۔اجتماعی توبہ کرتے ہوئے اپنے اس وعدے کو پورا کرنا ہوگا جو قیامِ پاکستان کے وقت ہمارے بڑوں نے اللہ سے کیا تھا کہ اس ملک میں دین کا نفاذ ہو‘ اسلام کا بول بالا ہو جائے۔ لہٰذا اس دین کے نفاذ اور قیام کے لیے عملی جدّوجہد کی جائے۔ہم اپنے تن من دھن کو اس عظیم کام کے لیے وقف کریں اور یہ کہہ سکیں کہ؎
میری زندگی کا مقصد ترے دیں کی سرفرازی
مَیں اسی لیے مسلماں ‘ مَیں اسی لیے نمازی!اگر واقعتا ًہم نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو یہ ہے نجات کی واحد راہ ! ورنہ اللہ تعالیٰ تو بے نیاز ہے اور فرماتا ہے کہ :
{ وَاللہُ الْغَنِیُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ ۚ وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ۙ ثُمَّ لَا یَکُوْنُوْٓا اَمْثَالَکُمْ (۳۸)} (محمد)
’’ اللہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج۔ ا ور اگر تم منہ پھیرو تو وہ تمہارے سوا اور لوگ بدل لے گا‘ پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ کی سُنّت نہیں کہ وہ کسی خاص قوم کو بار بار موقع عطا کرتا رہے‘ بلکہ وہ تمہیں ہٹاکر کسی اور کو توبہ کی توفیق عطا فرما دے گا اور پھر وہ تمہاری طرح نہیں ہوں گے۔
آج ہمارے لیے سوچنے کا یہ مقام ہے کہ ہم اس رَوِش کو چھوڑ کر اللہ کی طرف پلٹ آئیں۔ کیا عجب کہ{كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِیْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِیْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ ط} (البقرۃ:۲۴۹) ’’کتنی ہی تھوڑی تعداد والی جماعتیں زیادہ تعداد والی پر اللہ کے حکم سے غالب آ گئیں۔‘‘ کے مصداق اللہ تعالیٰ ہم سے ہی اپنے دین کے غلبہ کا کام لے لے۔اللہ تعالیٰ ایسی چھوٹی چھوٹی جمعیتوں سے ہی اپنے دین کا کام لے لیتا ہے۔ لہٰذا اپنے رویوں پر نظر ثانی کرتے ہوئےاس عظیم کام کےلیے کمر ہمت کسیں۔اللہ تعالیٰ نے تو اس خاص کام کے لیے اس اُمّت کو چنا ہے ‘ اللہ کرے ہم اس چناؤ کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرنے والے بن جائیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا ربّ العالمین!!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025