مسلمانوں کے
قرآن مجید سے بعد اور بیگانگی
کے اسباب
از قلم : پروفیسر یوسف سلیم چشتی ؒ
یہ فکر انگیز مقالہ چشتی صاحب مرحوم نے ۱۹۷۶ء میں مرکزی انجمن خدّام القرآن کے زیراہتمام منعقد ہونے والی تیسری سالانہ قرآن کانفرنس کے موقع پر پیش فرمایا تھا‘ جسے ماہنامہ ’حکمت ِقرآن‘ ستمبر ۱۹۹۴ء میں شائع کیا گیا۔ اب اس گراں قدر مقالے کی ’میثاق‘ میں اشاعت کے موقع پر قارئین کی سہولت کے لیے فارسی اشعار کا ترجمہ بھی شامل کیا جا رہا ہے۔
آریائی ذہن تصوّراتی (speculative) اور سامی ذہن عملی (practical) ہے۔ یونان‘ ایران اور ہندوستان‘ تینوں ملک فلسفہ و حکمت کا منبع تھے۔ لیکن اللہ کی حکمت ِبالغہ نے اپنے آخری اور کامل پیغامِ ہدایت کے لیے عرب کی زمین کو منتخب کیا جو منطق‘ فلسفہ اور حکمت کے اثرات سے پاک تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن درسِ فلسفہ پر عمل ِصالح اور جہاد کو ترجیح دیتا ہے۔ واضح ہو کہ قرآن حکمت کا منکر یا اس کا دشمن نہیں ہے‘ بات صرف اتنی ہے کہ وہ بقولِ اقبال تصوّرا ت کے مقابلے میں عمل پر زیادہ زور دیتا ہے۔ (Emphasises deed rather than idea) قرآن صرف ایک اخلاقی نظام نہیں بلکہ کامل دستورِ حیات ہے اور اسے نافذ کرنے کے لیے متکلمین کے بجائے مجاہدین کی ضرورت ہے۔
میرا ذاتی تجربہ ہے کہ منطق ‘فلسفہ اور کلام میں انہماک سے انسان کی عملی قوت (جو شرطِ جہاد ہے) بالکل افسردہ بلکہ مردہ ہو جاتی ہے‘ جبکہ اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے :
(۱) {اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّھُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ(۴) } (الصَّف)
’’اللہ چاہتا ہے اُن لوگوں کو جو لڑتے ہیں اُس کی راہ میں صف باندھ کر گویا وہ دیوار ہیں سیسہ پلائی ہوئی۔‘‘
(۲) {اِنَّ اللہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ ۭ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ ۣ} (التوبۃ:۱۱۱)
’’اللہ نے خرید لی ہیں مسلمانوں سے اُن کی جانیں اور اُن کے مال اس قیمت پر کہ اُن کے لیے جنّت ہے۔ لڑتے ہیں اللہ کی راہ میں‘ پھر مارتے ہیں اور مرتے ہیں۔‘‘
مگر کسی منطقی یا فلسفی نے آج تک اپنی جان اللہ کے ہاتھ نہیں بیچی۔ اس لیے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے آخری پیغام کے لیے ایسی قوم کو منتخب کیا جو منطق‘ فلسفہ اور کلام تینوں علومِ ’’آلیہ‘‘ سے بیگانہ تھی۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے کلمہ ٔحق کو بلند کرنے کے لیے مجاہد درکار تھے نہ کہ منطقی۔وہ ایسے آدمی چاہتا تھا کہ جو ’’سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا‘‘ کا مصداق ہوں تاکہ وہ اللہ کے قانون کو بلاچون و چرا نافذ کر سکیں اور جب کوئی ان سے پوچھے کہ میاں تم ہمارے ملک میں کیوں آئے ہو؟کیا مقصد ہے؟ تو وہ یہ جواب دیں جو قیامت تک یادگار رہے گا : ہم خود نہیں آئے ہیں بلکہ ’’اِنَّ اللہَ اَرْسَلْنَا لِنُخْرِجَ النَّاسَ مِنْ ظُلُمَاتِ الْجھالۃِ وَجَوْرِ الملوکِ اِلٰی نُورِ الایمانِ وَعَدْلِ الاسلام‘‘ (ہمیں اللہ نے بھیجا ہے تاکہ ہم لوگوں کو جہالت کی تاریکیوں اور بادشاہوں کے ظلم سے نکال کر ایمان کی روشنی اور اسلام کے عدل و انصاف کی طرف لے آئیں۔)
قصہ مختصر‘ قرآن نے ان سے کہا:
(۱) تمہاری دنیا کی زندگی دراصل دھوکے کی پونجی ہے۔ یہ حقیقی (Real) نہیں ہے۔ حقیقی زندگی تو مرنے کے بعد شروع ہو گی‘ لہٰذا اس کے حصول کے لیے کوشش کرو۔ {وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَھِیَ الْحَیَوَانُ م لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ(۶۴)} (العنکبوت)
(۲) یہ زندگی اُن کو ملے گی جو دین الحق کی نشر و اشاعت میں اپنی جان کھپائیں گے اور اپنی دولت خرچ کریں گے اور اللہ کو اپنا محبوب بنائیں گے۔
الغرض صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے ۲۳ سال تک آنحضرتﷺ سے کوئی بحث نہیں کی‘ نہ منطقی‘ نہ کلامی‘ نہ سائنسی‘نہ فلسفیانہ۔ مثلاً :(۱) نہ بحث ِذات و صفات (۲) نہ بحث ِخیر و شر (۳) نہ بحث ِ جبر و اختیار (۴) نہ بحث ِحدوث و قدمِ عالم (۵) نہ بحث ِحشر اجساد (۶) نہ بحث ِوزنِ اعمال (۷) نہ کیفیت ِرئویتِ باری تعالیٰ (۸) نہ کیفیت ِجنّت و دوزخ (۹) نہ کیفیت ِوحی (۱۰) نہ ماہیت ِنفس ناطقہ (۱۱) نہ ماہیت ِروح (۱۲) اور نہ چگونگی اتصالِ نفس ناطقہ باجسم انسانی یا کیفیت ِ انفصالِ نفس ِناطقہ از جسم۔
یہی بارہ بنیادی سوال ہیں جو تین ہزار سال سے استخوانِ نزاع بنے ہوئے ہیں اور قیامت تک بنے رہیں گے ‘کیونکہ ؎
انکشافِ رازِ ہستی عقل سے ممکن نہیں
فلسفی یاں کیا کرے اور سارا عالم کیا کرے!اسی لیے حافظ شیرازی نے ہمیں مشورہ دیا تھا ؎
حدیث از مطرب ومے گو و رازِ دہر کمتر جو
کہ کس نکشود و نکشاید بحکمت ایں معما را![مغنّی اور شراب کی بات کر اور زمانے کا راز کم تلاش کر۔ اس لیے کہ دانائی سے کسی نے نہ تو یہ معمہ کھولا ہے اور نہ ہی کھولے گا۔]
قرآنِ حکیم نے اپنی تعلیمات کی بنا پر ساری دنیا سے جنگ مول لے لی:(۱)سب سے پہلے مشرکوں کو ختم کیا (۲) پھر یہود کو زیر کیا بلکہ ختم کر دیا (۳) پھر نصاریٰ کو محکوم بنایا اور دونوں کو خارج البلد کر دیا۔ (۴) پھر عراق اور ایران کو فتح کیا‘ اور مجوسیت‘ مزدکیت اور مانویت کو ختم کر دیا۔ (۵) پھر شام اور ارضِ روم اور ایشائے کوچک کو فتح کیا اور نصرانیت اور انسان پرستی کو ختم کیا۔
گویا حسب ذیل اقوام کو اپنا جانی دشمن بنا لیا:(۱) بُت پرست (۲) ستارہ پرست (۳) آفتاب پرست (۴) انسان پرست (۵) مجوسی (۶) مزدکی (۷) مانوی (۸) یہودی (۹)عیسائی ---- دوسرے لفظوں میں اسلام نے پہلی صدی ہجری ہی میں ساری دنیا کو اپنا دشمن بنا لیا۔
-------------------------------------------------
(۱) انتقامِ یہود
یہودی قوم نے انتقام میں سبقت کی۔ ۳۰ھ میں عبداللہ بن سبا یہودی منافقانہ طور پر اسلام لایا اور اس نے مسلمانوں کو خدا پرستی کے بجائے شخص (انسان) پرستی کی تعلیم دی۔ اس طرح اسلام میں ایک ایسا فرقہ پیدا ہو گیا جس نے قرآن کے بجائے ایک خاندان کو‘ اور اللہ کے بجائے ایک شخص کو اپنا محبوب اور مطلوب بنا لیا۔ اس طرح ایک فرقہ بندی بھی پیدا کر دی جس سے اللہ تعالیٰ نے اجتناب کا حکم دیا تھا‘ بفحوائے الفاظِ قرآنی:
{وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ(۳۱) مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَھُمْ وَکَانُوْا شِیَعًاط کُلُّ حِزْبٍۢ بِمَا لَدَیْہِمْ فَرِحُوْنَ(۳۲)} (الروم)
’’اور مت ہو شرک کرنے والوں میں۔ جنہوں نے کہ پھوٹ ڈالی اپنے دین میں اور ہوگئے ان میں بہت فرقے۔ ہر فرقہ جو اُس کے پاس ہے اس پر فریفتہ ہے۔‘‘
مزید برآں اس فرقے کی توجّہ قرآن سے ہٹ کر چند افراد پر مبذول ہو گئی اور اس نے جہاد کے بجائے رنج و غم کو اپنا شعارِ حیات اور امتیازی نشان بنا لیا۔ حالانکہ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ رنج و غم تین دن سے زیادہ مت کرو ‘مگر ہم (یعنی نہ صرف وہ فرقہ بلکہ اُمّت کے سوادِ اعظم کی بھی بڑی تعداد) اس کارِ خیر میں مصروف ہیں اور اللہ کے فضل سے ہر سال اس کی کمیت اور کیفیت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
(۲) انتقامِ ایران
یہود کی کامیابی کے بعد ایران نے انتقام کا سلسلہ شروع کیا۔ طرفہ قیامت یہ ہوگئی کہ جوں جوں ایرانی انتقام میں شدید ہوتے چلے گئے مسلمان اندرونی خلفشار کی وجہ سے‘ جو عبد اللہ بن سبانے پیدا کر دیا تھا‘ تمسک بالقرآن میں ضعیف ہوتے چلے گئے۔
یہود نے انتقام اس طرح لیا کہ مسلمانوں کی توجّہ قرآن کے بجائے چند اشخاص کی طرف مبذول کر دی اور ایرانیوں نے اس طرح کہ مسلمانوں کی توجّہ قرآن کے بجائے فلسفیانہ اور کلامی مسائل کی طرف منعطف کر دی۔ چونکہ فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایران فتح کیا اس لیے ایرانیوں نے فاروق اعظمؓ سے دشمنی اور دشنام کو اپنا قومی شعار بنا لیا اور ہنوز یہی جذبات کار فرماہیں۔ چنانچہ ایک ایرانی شاعر فردوسیؔ نے اپنے معاندانہ جذبات کا اظہار ایرانی قوم کی زبان سے یوں کیا ہے:؎
ز شیر شتر خوردن و سوسمار
عرب را بجائے رسیدست کار
کہ تختِ کیاں را کنند آرزو
تفو بر تو اے چرخِ گردوں تفو![اونٹنی کا دودھ پینے اور گوہ کا گوشت کھانے کی جگہ اب عربوں کو یہ کام ملا کہ وہ عظیم المرتبت شاہانِ ایران کے تخت و تاج کی آرزو کرنے لگے۔ تف ہے تم پر اے بدلتے ہوئے آسمان تف ہے تم پر!]
سچ کہا ہے کسی نے ع
با آلِ عمرؓ کینہ قدیم است عجم را![آلِ عمرؓ سے ایرانیوں کا بغض بہت پرانا ہے]
قصّہ مختصر‘ مسلمان عجم میں آکر فلسفیانہ مسائل میں ایسے منہمک ہوئےا ور پھر ایسے اُلجھے کہ ابھی تک نجات نہیں پاسکے اور میری بصیرت یہ کہتی ہے کہ صورِ اسرافیل تک الجھے رہیں گے۔ کیونکہ کہاں مباحثے اور مجادلے کی لذت و راحت اور کہاں میدانِ جنگ کی صعوبت و کلفت۔
یاد رکھو! منطق اور فلسفہ اور کلام میں انہماک کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ قوم جہاد اور قتال سے بیگانہ محض ہو جاتی ہے۔ اس کا ثبوت درکار ہو تو تاریخ ِہند کا مطالعہ کافی ہو گا۔صرف ایک مثال درج کیے دیتا ہوں۔ جب گیارہویں صدی عیسوی (پانچویں صدی ہجری) میں محمود غزنوی نے ہندوستان کو اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں سے روندنا شروع کیا تو یہ زمانہ ہندوستان میں منطق ‘ فلسفہ اور کلام کے عروج کا زمانہ تھا۔ اس موقع پر اگر مَیں اس عروج کی تفصیل بیان کرنے لگوں تو اپنے موضوع سے بالکل منقطع ہو جائوں گا‘ اس لیے اس وقت صرف یہ کہنے پر اکتفا کرتاہوں کہ اُس زمانے میں ہندوستان جنّت نشان میں صرف فلسفے کے چالیس مختلف النوع مدارسِ فکر(بیس سے زائد صرف ہندومت میںاور اٹھارہ بدھ مت‘ جین مت اورچارواک میں) موجود تھے جو رات دن مناظروں اورمباحثوں میں مشغول رہتے تھے۔ نتیجہ اس اشتغال بالفلسفہ والمنطق کا یہ نکلا کہ پوری قوم جنگی اسپرٹ سے بیگانہ ہوگئی تھی۔ منطق اور فلسفے نے ہندوئوں کے قوائے عملیہ کو ضعیف کر دیاتھا اور وہ کسی جنگ میں کامیاب نہ ہو سکے۔ چنانچہ جس طرح چوتھی صدی ہجری میں بغداد کے مسلمانوں نے اسماعیلیوں کو تین لاکھ اشرفیاں پیش کی تھیںکہ حجرا سود واپس کردو‘اسی طرح پانچویں صدی میں سومنات کے ہندوئوں نے محمود کو دس لاکھ اشرفیاں پیش کی تھیں کہ بُت کومت توڑو۔ محمود نے کہا’’مَیں بُت فروش بننے کے بجائے بت شکن بننا پسند کرتاہوں‘ مَیں نہیں چاہتا کہ تاریخ میں میرا نام محمود بُت فروش درج کیا جائے۔‘‘
گویا یہود کی طرح ایران نے بھی انتقام لے لیا ‘یعنی مسلمانوں کو رفتہ رفتہ قرآن سےبُعد ہوتاچلاگیا اور نتیجتاً جہاد کا تصوّر دماغ سے محو ہوتا چلا گیا ۔جہاد بالسیف سے بیگانگی کا نتیجہ ۱۲۵۸ءمیں ظہور پذیر ہوا جب ہلا کونے آخری عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کے مشہور سبائی مشیر ِخاص نصیر الدین طوسی کے مشورے اور رسوائے زمانہ سبائی وزیراعظم ابن علقمی کے ایماء سے بغداد کو فتح کر کے دریائے دجلہ کو پندرہ لاکھ منطقی ‘فلسفی‘ متکلم‘ شاعر‘ موسیقار‘ منجم و مہندس مسلمانانِ بغداد کے خونِ بے حمیت و بے غیرت سے سرخ کر دیا۔ اور سعدی شیرازی نے اپنی آنکھوں سے خونباری کے بعد آسمان کے لیے بھی جواز پیدا کر دیا ۔
آسماں را حق بود گر خوں ببارد بر زمیں
بر زوالِ مُلکِ مستعصم امیر المومنین![اگر آسمان امیر المومنین مستعصم باللہ کی بادشاہت کے زوال پر خون برسائے تو یہ اُس کے لیے روا ہے۔]
اگر مسلمان جہاد کی لذت سے بیگانہ نہ ہو گئے ہوتے تو ایک نہیں دس ہلاکو بھی بغداد کو فتح نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن جب سلاطین ِ عباسی کے محلوں میں جارجیہ اور سرکاشیہ کی حسین ترین لڑکیاں ہزاروں کی تعداد میں جمع تھیں تو ایسے عالم ِ ہوش ربا میں جہاد کا خیال کس کافر کے دماغ میں آسکتا تھا؟
فٹن نفیس‘ سڑک خوشنما‘ ڈنر ہر شب
یہ لطف چھوڑ کے حج کا سفر! یہ خوب کہی!
(اکبر)ایرانیوں نے کمال چابکدستی سے اسلام کے ظاہری ڈھانچے کو توقائم رکھا مگر اس میں سے روح نکال دی۔ یعنی مسلمانوں کو قرآن سے بیگانہ کر دیا اور قرآنی تعلیم کی جگہ اسلام کا ایک نیاایڈیشن مرتّب کر دیا‘ جس میں سب کچھ تھا مگر جہاد فی سبیل اللہ اور انفاق فی سبیل اللہ کا ذکر نہ تھا۔ سچ کہا اکبر نے؎
بہت ہی کم پائے اپنے عارف ‘ کلامِ باری نے ہم میں آکر
سرے سے بگڑا ہے سچ جو پوچھو عرب کا مذہب عجم میں آکر(۳) تصوّف میںغیر اسلامی عقائد کی آمیزش
قرآن سے بُعد و بیگانگی کی تیسری وجہ یہ ہوئی کہ ایران میں آکر جس طرح اسلام میں شرک اور شخصیت پرستی کے ناپاک عناصر داخل ہو گئے اسی طرح تصوّف میں غیر اسلامی عقائد داخل ہو گئے اور وہ تصوّف جو عبارت تھا جہاد ومجاہدہ سے وہ باکل’’ترکِ دنیا‘ ترکِ عقبیٰ‘ ترکِ مولیٰ‘ ترکِ تُرک‘‘ یعنی سراسرRenunciationاور رہبانیت بن گیا اور مساجد ویران اور خانقاہیں معمور ہوتی چلی گئیں۔ اور یہ ایرانیوں نے انتقام کی تیسری شکل اختیار کی کہ مجاہدوں کو گوشہ نشین بنا دیا؎
مست رکھو ذکر و فکر صبحگاہی میں اسے
پختہ تر کردو مزاجِ خانقاہی میں اسے!اورکس قدر صحیح نقشہ کھینچا ہے؎
فقیراں تا بمسجد صف کشیدند
گربیانِ شہنشاہاں دریدند!
چو آں آتش درونِ سینہ افسرد
مسلماناں بدرگاہاں خزیدند![فقیروں نے جب تک مسجدوں میں صف بندی کی انہوں نے بادشاہوں کے گریبان چاک کردیے۔ (لیکن) جب وہ آگ سینوں میں بجھ گئی تو مسلمان شاہی درباروں میں گھس گئے۔]
چنانچہ قرآن سے بے تعلقی کا ایک اہم سبب یہ خانقاہیں بن گئیں ۔ دراصل ان کا واضح اور معین مقصد تو یہ نہیں تھا کہ مسلمان قرآن سے بیگانہ ہو جائیں مگر شام‘ عراق‘ ایران‘ ترکستان اور ہندوستان ان سب ممالک میں حالات ایسے پیدا ہو گئے کہ ان خانقاہوں کی چاردیواری سے قرآن آہستہ آہستہ خارج ہوتا چلا گیا ؎
جو خدا کا نام لے سکتے تھے وہ رخصت ہوئے
خانقاہوں میں مجاور رہ گئے یا گورکن!
(بہ تبدیلی الفاظ)بے شک سلطان الہند نظام الدین اولیاء ؒ اور ان کے خلیفہ حضرت چراغِ دہلی ؒ کی خانقاہوں میں قال اللہ تعالیٰ اور قال الرسول ﷺ کی آوازیں بھی بلند ہوتی تھیں مگر پندرہویں صدی سے قرآن ان خانقاہوں سے یعنی صوفیوں کے نصابِ تعلیم سے خارج ہو گیا اور صوفیوں کا مقصد حیات صرف ذکر اور مراقبہ بن گیا۔
یہاں ایک اہم نکتے کی وضاحت کردوں‘ میرے اس قول سے کہ’’صوفیوں کا مقصد ِ حیات صرف ذکر ومراقبہ تھا‘‘ کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ مَیں ذکر و مراقبے کی افادیت اور اہمیت کا منکر ہوں۔ یہاں جو بات مَیں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ عموماً صوفیاء ساری عمر ذکر اور مراقبے میں بسر کر دیتے ہیں‘ حالانکہ ذکر و مراقبہ مقصود بالذات ہر گز نہیں ہے بلکہ مقصود بالعرض ہے۔ یہ اس لیے کرایا جاتا ہے کہ سالک کے نفس کا تزکیہ ہو جائے اور وہ سلطانِ جائر کے سامنے کلمہ ٔحق کہہ سکے۔ لیکن ایک عرصۂ دراز سے ذکر اور مراقبہ ہی مقصود بالذات بن چکا ہے۔ اب کوئی کلمہ ٔحق کہنے والا‘ ان خانقاہوں سے(جو پاکستان میں شاد اور آباد ہیں) میدان میں نہیں آتا۔ اسی لیے تو اقبال نے کہا ؎
تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند
اب مناسب ہے ترا فیض ہو عام اے ساقی!اس شعر میں تلمیح ہے حضرت مجددالف ثانی ؒ کی طرف کہ ساقی کا فیض غیر مشروط نہیں ہے‘ وہ راستہ ضرور دکھاتے ہیں مگر انہی کو جواُن کے لیے مجاہدہ کریں۔ افرنگی صوفوں پر بیٹھنے والے فیض یاب نہیں ہو سکتے۔ اس لیے کہ یہ قانونِ الٰہی ہے:
{وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَاط} (العنکبوت:۶۹)
’’اور جنہوں نے محنت کی ہمارے واسطے ہم سجھادیں گے ان کو اپنی راہیں۔‘‘
چنانچہ خود اقبال ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں؎
ایں چنیں دل خود نگر‘ اللہ مست
جز بدرویشی نہ مے آید بدست![اس طرح کا اپنی ذات میں جھانکنے والا اور اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول دل درویشی کے بغیر ہاتھ آنا ممکن نہیں!]
(۴) اشتغال بالحدیث
قرآن سے بے تعلقی کی چوتھی وجہ اشتغال بالحدیث ثابت ہوا اور اس میں غیر معمولی انہماک کی وجہ یہ ہوئی کہ سبائیوں‘ زندیقوں‘ منافقوں اور ایرانیوں نے محض انتقام لینے کے جذبے سے سرشار ہو کر لاکھوں جھوٹی حدیثیں وضع کر کے مسلمانوں میں شائع بھی کر دیں اور کتابوں میں درج بھی کر دیں اور منافقانہ طور پر مسلمان بن کر اسلامی مدارس میں ان احادیث کا درس بھی دیا اور انہیں سادہ لوح مسلمانوں کے ذہنوں میں اس طرح پیوست کر دیا کہ وہ ایک ہزار سال گزر جانے کے باوجود ہنوز جزوِ ایمان و عقائد بنی ہوئی ہیں۔ اگر ان کی مثالیں دوں تو پھر اپنے موضوع سے بہت دور چلا جائوں گا۔ سامعین بطور خود’’موضوعاتِ کبیر‘‘ مصنفہ مُلا علی قاریؒ کا مطالعہ کریں ۔ پانچ سو جھوٹی حدیثیں تو مجھے بھی معلوم ہیں۔ اسی لیے ایک ایک روایت کی تحقیق کے لیے مسلمانوں کو ہزاروں میل کا سفر طے کرنا پڑا اور جب امام اسمٰعیل بخاریؒ نے مشہورِ عالم مجموعہ ٔ احادیث مرتّب اور مدوّن کیا توچھ لاکھ حدیثوں میں سے صرف تین ہزار قبول کیں۔
مَیں کہنایہ چاہتا ہوں کہ حدیثوں کی چھان پھٹک میں مسلمان اس قدر منہمک ہو گئے کہ قرآن کی طرف وہ توجّہ مبذول نہ کر سکے جس کا وہ مستحق تھا اور وہ پس منظر میں چلا گیا۔
(۵) اشتغال بالفقہ
قرآن سے بُعد وبیگانگی کی پانچویں وجہ یہ ہوئی کہ حکومت میں عہدہ حاصل کرنے یا مجسٹریٹ اور جج بننے کے لیے صرف فقہ کی ضرورت تھی۔ اس لیے مسلمانوں کی توجّہ قدرتی طور پر تحصیل ِفقہ کی طرف مبذول ہو گئی اور قرآن بیک گرائونڈ میں چلا گیا۔ اس لیے کہ جب صرف فقہ پڑھ کر عزّت اور حکومت مل سکتی ہے تو کوئی قرآن کیوں پڑھے؟
(۶)ملوکیت کا اثر
قرآن سے بیگانگی کی چھٹی وجہ یہ ہوئی کہ جب مسلمانوں میں ملوکیت مستحکم ہو گئی تو ملوک اور سلاطین نے علماء کو مشورے کے رنگ میں حکم دیا یا حکم کے رنگ میں مشورہ دیا کہ مسلمانوں کی توجّہ حدیث اور فقہ پر مبذول کر دو۔ اپنے حلقہ درس میں قرآن کی تعلیم عام مت کرو کیونکہ اس کی زد بہرحال ملوکیت پر پڑے گی؎
زیر گردوں آمری از قاہری است
آمری از ماسوی اللہ کافری است![آسمان کے نیچے (زمین پر) آمریت ظلم و قہر سے ہے۔ جو آمریت اللہ کے سوا کسی کی حاکمیت پر مبنی ہو وہ کافری ہے۔]
اور؎
سروری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آزری!ظاہر ہے کہ ہارون اور مامون سے لے کر شاہجہان اور عالمگیر تک سب کی نفی ہو جائے گی اور یہ لوگ بقول اقبال بُت بن جائیں گے۔ مسلمان حکمرانوں کو نہ اس کی ضرورت تھی نہ وہ یہ چاہتے تھے کہ عوام قرآنی تعلیمات سے آگاہ ہو کر کوئی انقلاب برپاکریں اوراس طرح ان کے عیش میں خلل پڑے۔ رہے علماء اور صوفیاء تو وہ خود قرآن سے بے تعلق تھے یا غیر جانبدار کہہ لو۔ نہ اقرارمی کنم ونہ انکارمی کنم۔ علماء کا مبلغ ِعلم فقہ تھا اور صوفیاء کا منتہائے پرواز بلکہ مقصد ِحیات ذکر ومراقبہ‘ تو وہ قرآن کا ترجمہ کیوں کرتے ؟ تو جب سلاطین‘ نوابوں‘ جاگیرداروںاور سرمایہ داروں کا فائدہ اس میں تھا کہ عوام قرآن سے بیگانہ رہیں تو علماء اور صوفیاء پاگل تھےجو سلاطین سے ٹکرلیتے؟ اور اپنے وظیفے بند اور جاگیریں ضبط کراتے؟ نہ ہر عالم ِ دین امام ابن تیمیہ ؒ ہو سکتا ہے اور نہ ہر صوفی ٔ صافی امامِ ربّانی مجدد الف ثانی ؒ ہو سکتا ہے؎
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمیٔ احرار!(۷) درسِ نظامی میں قرآن سے اعراض
قرآن سے مسلمانوں کی بیگانگی کی ساتویں وجہ یہ ہوئی کہ جب اور نگزیب کے عہد میں مُلانظام الدین سہالوی نے مشہورِ عالم درسِ نظامیہ مدوّن کیا(جو گزشتہ تین سو سال سے بجنسہٖ و بعینہٖ ہمارے عربی مدارس پر حکمران ہے) تو اس میں منطق کی تو پندرہ کتابیں(صغریٰ ۔ کبریٰ۔ قال اقول ۔ میزان المنطق ۔ بدیع المیزان۔ تہذیب ۔ شرح تہذیب ۔ مرقاۃ قطبی۔ میر قطبی۔ سُلّم العلوم۔ مُلا حسن۔ مُلا مبین ۔ قاضی مبارک۔ حمد اللہ ۔اور میرے بچپن میں غلام یحییٰ بھی داخل ِدرس تھا۔) رکھیں لیکن قرآن کے صرف ڈھائی پارے اور وہ بھی بطورِ تبرک۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عربی مدارس کے طلبہ کے دماغوں میں‘ جو آگے چل کر علماء بنتے ہیں‘ قرآن کی کوئی اہمیت سرے سے جاگزیں نہیں ہوپاتی اور وہ قرآن سے متعلق کسی موضوع پر نہ تقریر کر سکتے ہیں اور نہ چار سطریں لکھ سکتے ہیں‘ اِلّا ماشاء اللہ!
نوٹ: تقلید کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے علماء جو آج ۱۹۷۶ء میں مصروفِ درس و تدریس ہیں‘ وہ اتنی جرأت نہیں رکھتے کہ اس نصاب میں جو ۱۶۸۶ء میں مدوّن ہوا تھا‘ کوئی تبدیلی کر سکیں۔ اسی لیے عام طور پر نئے فاضلین ِدرسِ نظامی کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ تبوک مدینہ سے کتنے میل دورہے؟ اور ہے کہاں؟ جنگ ِیرموک کب واقع ہوئی تھی؟ قسطنطنیہ پر پہلا حملہ کس سن میں ہوا تھا؟ وَقِس علٰی ھذا!
(۸) عربی زبان سے عدم توجّہی
قرآن سے بیگانگی کی آٹھویں وجہ یہ ہے کہ نہ صرف ایران بلکہ عالّمِ اسلام کے تمام مشرقی ممالک میں دفتری زبان فارسی ہو گئی اور عربی کی حیثیت صرف ثانوی رہ گئی۔ چنانچہ جب صرف ’’کنز‘‘ اور ’’قدوری‘‘ پڑھ کر ایک مسلمان کو سرکاری عہدہ مل سکتا تھا تو وہ قرآن پر عرق ریزی کیوں کرتا!
(۹)جاگیرداری کا اثر و رسوخ
قرآن سے دُوری کی نویں وجہ یہ ہے کہ سرمایہ داروں‘ نوابوں اور جاگیرداروں کو قرآن میں اپنی موت نظر آئی۔ چنانچہ علّامہ اقبال فرماتے ہیں:
چیست قرآں؟ خواجہ را پیغامِ مرگ
دستگیر بندۂ بے ساز و برگ!
ہیچ خیر از مردکِ زرکش مجو!
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا
رأیتِ حق از ملوک آمد نگوں
قریہ ہا از دخلِ شاں خوار و زبوں
نفسِ قرآں تا دریں عالم نشست
نفس ہائے کاہن و پاپا شکست
با مسلماں گفت جاں بر کف بنہ
آنچہ از حاجت فزوں داری بدہ![(جانتے ہو) قرآن کی حقیقت کیا ہے؟سرمایہ دار کے لیے موت کا پیغام اور بے سروسامان لوگوں کا سہارا و آسرا!
دولت سمیٹنے والے سے کسی بھلائی کی توقع نہ کرو۔ (اس لیے کہ قرآن نے صاف فرما دیا ہے کہ) ’’تم نیکی کا مقام ہرگز حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ (بجائے سمیٹنے اور جمع کرنے کے) خرچ کرنے کی عادت نہ ڈالو!‘‘
حق کا پرچم بادشاہوں کے باعث نیچا ہو جاتا ہے اور ان کی وجہ سے بستیاں کی بستیاں خوار و بدحال ہو جاتی ہیں۔
جب اس دنیا میں قرآنی تعلیمات کا سکہ چلا تو کہانت اور پاپائیت ایسے گمراہ کن سلسلوں کا زور ٹوٹ گیا۔
مسلمانوں سے کہو کہ جان ہتھیلی پر رکھ لیں (یعنی قتال فی سبیل اللہ کے لیے کمر کس لیں) اور جو کچھ بھی ضرورت سے زائد ہو وہ سب (اللہ کی راہ میں) دے ڈالیں!]
حق زمیں را جز متاعِ ما نگفت
ایں متاعِ بے بہا مفت است و مفت
دِہ خدایا! نکتۂ از من پذیر
رزق و گور از وے بگیر او را مگیر
باطنِ ’’الارضُ لِلہ‘‘ ظاہر است
ہر کہ ایں ظاہر نہ بیند کافر است![اللہ تعالیٰ نے زمین کو صرف ہماری متاع فرمایا ہے (ملکیت نہیں) اور یہ بے بہا متاع مفت ہے مفت!
اے جاگیردار! مجھ سے یہ نکتہ سمجھ ۔ زمین سے رزق اور قبر حاصل کر‘ اس پر قبضہ نہ کر!
’’زمین اللہ تعالیٰ کی ہے‘‘ اس کے معنی ظاہر ہیں۔ جو اس ظاہر کو نہیں دیکھتا وہ کافر ہے!]
تو ان لوگوں نے کوشش کی کہ قرآن کی تعلیم عام نہ ہونے پائے اور یہ لوگ اپنے اثر و رسوخ اور مال و زر کی بنا پر اپنے مقصد مشئوم میں کامیاب ہو گئے اور مسلمان قرآن سے بیگانہ ہوتا چلا گیا۔
(۱۰) حکومت اور دولت کا حصول
قرآن سے بیگانگی کی دسویں اور آخری وجہ یہ ہوئی کہ جب عوام اور خواص‘ حکومت اور اس کے نتیجے میں دولت سے مستفید ہوئے تو وہ تمام عیوب ان میں پیدا ہو گئے جو حکومت اور دولت کا منطقی نتیجہ ہوتے ہیں۔ یہ عیوب مثلاً عقیدے کی خرابی بلکہ خرابیاں‘ غیر اسلامی رسوم پر عمل اور انہیں داخل ِاسلام سمجھنا اور خلافِ قرآن زندگی بسر کرنا‘ یہ چیزیں اس قدر محبوب ہو گئیں کہ مسلمانوں کا مذہب بن گئیں (تفصیل میں مصلحتاً جانانہیں چاہتا‘ کیونکہ تفصیل میں بعض عناصر کی نشاندہی کرنی پڑے گی اور یہ بات خلافِ مصلحت ہے) ؎
مصلحت نیست کہ از پردہ بروں افتد راز
ورنہ در محفلِ رنداں خبرے نیست کہ نیست![مصلحت نہیں ہے کہ اس راز کوفاش کیا جائے‘ ورنہ ایسی کوئی خبر نہیں ہے جس کا ذکر مےکشوں کی محفل میں نہ ہو!]
اب قرآن تو ان سب باتوں کا دشمن ہے‘ مثلاً قرآن کہتا ہے:
{وَالَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مَا یَمْلِکُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍ(۱۳) اِنْ تَدْعُوْھُمْ لَا یَسْمَعُوْا دُعَاۗءَکُمْ ۚ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَکُمْ ۭ وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکْفُرُوْنَ بِشِرْکِکُمْ ۭ}(فاطر:۱۴)
’’اور جن کو تم پکارتے ہو اُس کے سوا‘ وہ مالک نہیں کھجور کی گٹھلی کے ایک چھلکے کے بھی۔ اگر تم ان کو پکارو سنیں نہیں تمہاری پکار‘ اور سنیں تو پہنچ نہ سکیں تمہارے کام پر‘ اور قیامت کے دن منکر ہوں گے تمہارے شریک ٹھہرانے سے۔‘‘
’’قِطمیر‘‘ وہ سفیدی ہے جو کھجور کی گٹھلی کے سرے پر پائی جاتی ہے اور اس سے کم تر اور بے قیمت چیزعربوں کے یہاں موجود نہیں تھی۔
یہ صرف ایک آیت ہے‘ قرآن میں اسی مضمون کی سینکڑوں آیات ہیں۔ تو ان طبقات نے جو سلاطین‘ اُمراء‘ علماءِ سُوء اور صوفیاءِ سُو ء پر مشتمل تھا ایسی کوشش کی کہ عوام اور خواص دونوں قرآن سے بیگانہ ہو جائیں‘ تاکہ ہماری غیر قرآنی زندگی اور عقائد و رسوم اور طرزِحیات پر گرفت نہ کر سکیں‘ بلکہ شرک اور اولیاء پرستی اور قبورپرستی اور آثار پرستی‘ سب کو عین اسلام سمجھیں۔ اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب عوام اور خواص قرآن سے بیگانہ ہو جائیں۔ چنانچہ چاروں طبقات کی ملی بھگت سے مسلمان قرآن سے بیگانہ ہو گئے ۔ (بقول عبد اللہ بن مبارکؒ) ؎
وَھَلْ اَفْسَدَ الدِّینَ اِلَّا الملُوکُ
وَاَحْبَارُ سُوءٍ وَ رُھْبَانُھا!
[دین میں بگاڑ پیدا کرنے والے کوئی اور نہیں‘ یہی تین طبقات تھے: بادشاہ ‘ علماءِ سُوء اور صوفیاء]
اور یہ بھی غالباً اسی ملی بھگت کا نتیجہ تھا کہ پورے ایک ہزار برس تک قرآن حکیم کا مسلمان اقوام کی مادری زبانوں میں ترجمہ کرنے کی مخالفت کی گئی۔ واللہ اعلم!
-------------------------------------------------
جب ۱۲۰۶ء میں مسلمانوں کی حکومت ہند میں قائم ہوئی تو مسلمان جو اسلام اپنے ساتھ لائے اس کا منبع و مبنیٰ قرآن نہیں تھا بلکہ صرف علم فقہ تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ سلاطین ِدہلی یا علماءِ ہند نے قرآن کا ہندوستان کی زبانوں میں ترجمہ کرنے کا کوئی انتظام نہیں کیا۔ یہ کام اللہ کے ایک برگزیدہ بندے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒنے ۱۷۴۰ء کے قریب انجام دیا۔ یعنی مسلمانوں کی حکومت کے قیام سے پانچ سو سال بعد شاہ صاحب کا فارسی ترجمہ شائع ہوا‘ کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ مسلمان قرآن سے بالکل بیگانہ ہو چکے تھے۔
یہ کہے بغیر آگے بڑھنے کو جی نہیں چاہتا کہ انگریزوں کی حکومت باضابطہ طور پر ۱۷۷۲ء میں قائم ہوئی اور حکومت نےاپنی نگرانی میں ۱۷۹۲ء میں پوری بائبل کا ترجمہ بنگلہ زبان میں شائع کردیا اور اس کے بعد ۱۸۰۶ء میں بائبل کا ترجمہ فارسی زبان میںشائع ہو گیا ۔ یہ تراجم حکومت کی سرپرستی میں شائع ہوئے ۔ ۱۸۴۰ء میں مرزا پور سے بائبل کاترجمہ اردو میں شائع ہوا اور اس کے بعد ہندی میں۔
ہندوستان میں اٹھارہ زبانیں ہیں اور دو سو بولیاں۔ آج بائبل کا ترجمہ ان ساری زبانوں میں موجود ہے اور سامعین کی معلومات کے لیے یہ بھی بیان کیے دیتا ہوںکہ بائبل کا ترجمہ دنیا کی سات سو پینسٹھ (۷۶۵) زبانوں میں ہو چکا ہے اور طالبین کو برائے نام قیمت پر مل سکتا ہے۔ دوسری طرف ہم ہیں کہ ہم نے چھ سو برس حکومت کی‘ اور ہندوستان کی چھ زبانوں میں بھی قرآن کا ترجمہ نہیں کیا۔ ہندوستان میں ہندی زبان میں قرآن کا پہلا ترجمہ ۱۹۲۶ء میں خواجہ حسن نظامی ؒنے شائع کیا تھا۔
علماء کی تنگ نظری ملاحظہ ہو! فارسی میں ترجمہ کرنے کے ’’جرم عظیم‘‘ میں مولویوں نے بعض لوگوں کو شاہ صاحب (ولی اللہؒ) کے قتل پر آمادہ کیا۔ لیکن دشمنانِ دین اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔
۱۸۰۵ء میں یعنی قیامِ حکومت کے چھ سو سال بعد شاہ ولی اللہؒ کے فرزند شاہ عبدالقادرؒ نے قرآن مجید کا اردو ترجمہ کیا۔ ۱۸۵۷ء میں مسلمانوں کی حکومت کا چراغ‘ جو ۱۸۰۳ء سے ٹمٹما رہا تھا‘ گل ہو گیا۔ ’’مسلماناں در گور و مسلمانی در کتاب‘‘۔انگریزی حکومت کے زیر اثر مسلمان عوام قرآن تو کجا اسلام ہی سے بیگانہ ہو گئے ؎
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی!بیسویں صدی میں سب سے پہلے اکبر نے مسلمانوں کو قرآن کی طرف بلایا ؎
مغوی تو ملیں گے تمہیں شیطان سے بہتر
ہادی نہ ملے گا کوئی قرآن سے بڑھ کر!ان کے بعد اقبال نے مسلمانوں سے کہا ؎
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بقرآں زیستن![اب اگر تو (دوبارہ) مسلمان ہو کر جینے کا خواہش مند ہے تو (اچھی طرح جان لے کہ) اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اپنی حیاتِ نو کی بنیاد قرآن پر قائم کرے!]
لیکن مسلمان من حیث القوم ہنوز قرآن سے بیگانہ ہیں۔ ان کی زندگی میں سب کچھ داخل ہے مگر قرآن داخل نہیں ہے۔جبھی تو اقبال نے کہا ؎
بہ بند صوفی و مُلا اسیری
حیات از حکمت قرآں نگیری
بآیاتش ترا کارے جز ایں نیست
کہ از یٰسین او آساں بمیری![تُو صوفی و مُلا کی زنجیروں میں قید ہے اور قرآن کی حکمت سے زندگی حاصل نہیں کر تا۔ (افسوس کہ اے مسلمان!) تجھے اس کی آیات سے اب اس کے سوا اور کوئی سروکار نہیں رہاکہ اس کی سورئہ یٰسین کے ذریعے موت کو آسان کر لے!]
حرفِ آخر
فی الجملہ یہ بات میرے لیے باعث ِصد مسرت ہے کہ میرے عزیز بھائی ڈاکٹر اسراراحمد سلّمہ نے مسلمانوں کو قرآن حکیم سے روشناس کرنے کے لیے ایک منظّم تحریک کا آغاز کر دیا ہے تاکہ مسلمانانِ پاکستان اپنے اندر وہ باطنی انقلاب پیدا کر سکیں جس کے نتیجے میں وہ خارج میں انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔ مَیں علیٰ وجہ البصیرت کہتا ہوں کہ اس سے بڑھ کر ملّت کی اور کوئی خدمت نہیں ہو سکتی کہ مسلمانوں کو قرآن کی طرف بلایا جائے اور ان کو اس حقیقت سے آگاہ کیا جائے کہ:
تو ہمی دانی کہ آئین تو چیست؟
زیرِ گردوں سر تمکین تو چیست؟
آں کتابِ زندہ ‘ قرآنِ حکیم
حکمتِ او لایزال است و قدیم!
نسخۂ اسرارِ تکوینِ حیات
بے ثبات از قوتش گیرد ثبات[کیا تُو جانتا ہے کہ تیرا آئین کیا ہے؟ اس آسمان کے نیچے تیرے وقار کا راز کیا ہے؟
وہ زندہ کتاب ‘ قرآن حکیم‘ جس کی حکمت لازوال بھی ہے اور قدیم بھی!
زندگی کے وجود میں آنے کے رازوں کا خزینہ۔ جس کی حیات افروز قوت بخش تاثیر سے بے ثبات بھی ثبات و دوام حاصل کر سکتے ہیں۔]
فاش گویم آنچہ در دل مضمر است
ایں کتابے نیست چیزے دیگر است!
چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود
جاں چو دیگر شد جہاں دیگر شود
مثلِ حق پنہاں و ہم پیداست ایں
زندہ و پائندہ و گویاست ایں![(اس کتاب کے بارے میں)جو بات میرے دل میں پوشیدہ ہے اسے اعلانیہ ہی کہہ گزروں؟حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب نہیں کچھ اور ہی شے ہے!
(یہ کتاب حکیم) جب کسی کے باطن میں سرایت کر جاتی ہے تو اس کے اندر ایک انقلاب برپا ہو جاتا ہے اور جب کسی کے اندر کی دنیا بدل جاتی ہے تو اس کے لیے پوری دنیا ہی انقلاب کی زد میں آجاتی ہے۔
یہ ذاتِ حق سبحانہ وتعالیٰ (کا کلام ہے لہٰذا اُسی) کے مانندپوشیدہ بھی ہے اور ظاہر بھی۔ اور جیتی جاگتی بولتی بھی ہے اور ہمیشہ قائم رہنے والی بھی!]
واضح ہو کہ تعمیر ِفکر کے لیے سب سے پہلے تطہیر ِفکر لازمی ہے اور تطہیر ِفکر قرآن حکیم میں تدبر کے بغیر محالِ عادی ہے۔ اللہ سے دعاہے کہ وہ برادر عزیز القدر کو اپنے مقاصد میں کامیابی عطا فرمائے۔ آخر میں سامعین کے لیے اقبال کا ایک شعر بطور ارمغاں پیش کرتا ہوں ؎
بر خور از قرآں اگر خواہی ثبات
در ضمیرش دیدہ اَم آبِ حیات[(اے مسلمان!) اگر دوام و ثبات اور قوت و استحکام کا طالب ہے تو قرآن کے سامنے دست ِسوال دراز کر۔ اس لیے کہ مجھے قرآن ہی کے مخفی چشموں میں آبِ حیات کا سراغ ملا ہے!]
tanzeemdigitallibrary.com © 2025