عمر رسیدہ مسلمانپروفیسر محمد یونس جنجوعہ
زندگی یعنی مہلت ِعمر انمول نعمت ہے‘ اس کا کوئی متبادل نہیں۔ یہ مہلت ہرشخص کے لیے مختلف ہے اور کسی کو نہیں پتا کہ یہ کب ختم ہو جائے گی ۔البتہ ہر ایک کو اس بات کا یقین ہے کہ یہ دُنیوی زندگی ایک دن ختم ہو جائے گی۔قرآن حکیم میں تین مرتبہ یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں: {کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ}’’ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے۔‘‘
اگرچہ ہرشخص روز بروز اپنی مہلت ِعمر ختم کر رہا ہے ‘لیکن پھر بھی بچہ ہو یا جوان اپنی سالگرہ پر خوش ہو رہا ہوتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ خوشی نہیں بلکہ فکر مندی کا لمحہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی مہلت ِعمر کے جتنے سال متعین کررکھے ہیں ان میں سے ایک سال کم ہو گیا ہے۔ دانا تو کہتے ہیں کہ وقت کا یہ نقصان دہرا ہوتا ہے۔ایک طرف انسان اپنی عمر بڑھا کر آخری لمحے کی طرف رواں دواں ہے تو دوسری جانب اس کی زندگی کا آخری لمحہ تیزی کے ساتھ قریب تر ہوتا جا رہا ہوتا ہے۔بقول شاعر ؎
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اِک اور گھٹا دی!جوانی میں انسان کے اعضاء و جوارح مضبوط اور صلاحیتیں زوروں پر ہوتی ہیں۔ اس کی خواہشات اور مستقبل کے منصوبے اسے موت کی گھڑی سے بے اعتنا رکھتے ہیں ۔ وہ دیکھتا ہے کہ لوگ یکے بعد دیگرے عدم کو روانہ ہو رہے ہیں ۔وہ مرنے والوں کا جنازہ پڑھتا‘ کفن دفن کرتا اور انہیں بے یارومددگار قبر کے تاریک گڑھے میں اُتار کر سینکڑوںمن مٹّی کے نیچے دبا دیتاہے۔ اس کے باوجود یہ منظر اُسے متاثر نہیں کرتا کہ اس کے رویے میں کسی قسم کی تبدیلی آئے ‘اور وہ یہ یاد کرے کہ وہ وقت بھی دن بدن قریب آرہا ہے جب اسے بھی اس انجام سے دوچار ہونا اور اپنے عزیز رشتہ دار اور دوست احباب کو چھوڑ کر انتہائی بے بسی کے عالم میں اس دنیا سے کوچ کرنا ہے۔ کسی کی تدفین کے وقت یا جنازہ پڑھتے وقت اپنی موت کا خیال آتا بھی ہے تو صرف ایک لمحے کے لیے ۔ حالانکہ کسی صاحب دانش و حکمت نے کیا خوب کہا ہے : کَفٰی بِالْمَوْتِ وَاعِظًا (وعظ و نصیحت کے لیے توموت ہی کافی ہے!)
اللہ تعالیٰ نے بڑی حکمت کے تحت ہر شخص کی موت کا وقت اس سے خفیہ رکھا ہے‘ اگرچہ مقرر کر رکھا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ دنیا کا نظام چل رہا ہے ۔ انسان زندگی کے ماہ و سال کے منصوبے بناتا اور ان کو انجام دینے کے لیے محنت کرتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کی عمریں بتادیتا تو زندگی کا کاروبار ایک لمحہ بھی نہ چل سکتا‘ کیونکہ انسان ہر وقت اسی سوچ میں گم رہتا کہ اس کاآخری و قت قریب آ رہا ہے۔ وہ موت کے لیے قبل از وقت ہی فارغ ہو کر بیٹھ جاتا اور کوئی منصوبہ نہ بناتا کہ اسے تو فلاں وقت دنیا چھوڑ جانا ہے ‘لہٰذا اس لمبے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا کوئی فائدہ نہیں۔
جوانی گزر جاتی ہے اور بڑھاپے کے آثار شروع ہو جاتے ہیں ۔ انسان پر عیاں ہو جاتا ہے کہ مہلت ِعمر اب زیادہ باقی نہیں رہی۔ جو وقت گزر گیا ‘سو گزر گیا۔ اس پر پچھتانا تو کوئی فائدہ نہ دے گا ‘البتہ اپنی گزشتہ زندگی کی کوتاہیوں کو یاد کر کے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنا ‘بُری عادات اور بُرے کاموں سے توبہ کرنا اُس کا معمول ہوجاناچاہیے۔ گزری ہوئی زندگی کی نالائقیوں کو یاد کر کے افسردہ ہونا گناہوں کو مٹا دیتا ہے ‘اگر یہ پچھتاوا خلوص کے ساتھ ہو۔ کسینے نوجوانی کے عالم میں اپنے والدین کی خدمت کر کے انہیں خوش نہیں کیا بلکہ نافرمانیوں کے باعث انہیں رنجیدہ رکھا‘حتیٰ کہ اس کے ماں باپ فوت ہو گئے۔ یہ شخص اب ہوش میںآیا اور پچھتایا کہ مَیں نے ماں باپ کو کیوں رنجیدہ کیا۔ اب وہ شخص اپنی زندگی کے باقی ایام میں اپنے ماں باپ کی مغفرت کے لیے دعا گو رہتا ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ اس کے اس پُرخلوص جذبے اور والدین کے حق میں مغفرت کی دعااس کو نافرمان کی بجائے فرماںبردار لکھوا دے گی۔
عمر رسیدہ لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ پچھلی زندگی کے گناہوں اور کوتاہیوں کو یاد کرکے افسوس کریں‘ پچھتائیں اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کریں۔جن جن کاموں کی تلافی ہوسکتی ہو ‘اُس کے لیے جدّوجُہد کریں۔ جن لوگوں کے ساتھ انہوں نے زیادتی کی ہو وہ اگر زندہ ہوں تو اُن سے معافی چاہیں ‘اور جس طرح کا بھی نقصان کیا ہو اس کو پورا کریں۔ اگر وہ شخص فوت ہو چکا ہو تو بھی اس کے نقصان کا ممکن طریقے سے ازالہ کریں اور اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر معافی چاہیں۔اللہ تعالیٰ کو وہ بوڑھا سخت ناپسند ہے جو بڑھاپے میں بھی بدکار اور بدعمل ہو۔ ہمیں ایسے لوگوں پر ترس آناچاہیے جو اپنے انجام کو پہنچنے والے ہیں مگر نتائج سے بے خبر ہیں۔
رسول اللہﷺ سے ایک صاحب نے دریافت کیا : یارسول اللہ! سب سے اچھا انسان کون ہے؟آپﷺ نے فرمایا: ((مَنْ طَالَ عُمُرُہُ وَحَسُنَ عَمَلُہُ)) ’’جس کو لمبی عمر ملی اور اس نے عمل بھی اچھے کیے‘‘۔ اُن صاحب نے پھر دریافت کیا:تو سب سے بُرا انسان کون ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:((مَنْ طَالَ عُمُرُہُ وَسَاءَ عَمَلُہُ)) ’’جس کو عمر تو لمبی ملی مگر اُس نے برائیوں میں گزار دی۔‘‘ (سنن الترمذی)
قرآن مجیدمیں ارشادہے : {فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ ط}(البقرۃ:۱۴۸)’’ نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جائو!‘‘ یہ حکم سب کے لیے ہے‘ مگر عمر رسیدہ لوگ تو زندگی کے بقیہ وقت کو غنیمت جانیں اور ہرطرح کی برائیاں چھوڑ کر نیکیوں کی طرف لپکیں۔ ناراض رشتہ داروں کو راضی کریں‘ معافی کا رویّہ اپنائیں‘ انتقام لینے کا ارادہ بالکل ترک کر دیں ۔جواللہ کے بندوں کو معاف کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اُسے معاف کرتا ہے اور جو لوگوں کے ساتھ سختی سے پیش آتا ہے اللہ بھی اس کے ساتھ سختی کا سلوک کرتا ہے۔
عمر کی زیادتی کے ساتھ انسان میں مال و دولت کی چاہت بھی روز افزوں ہوتی ہے‘ اس سے بچنا نہایت ضروری ہے ۔ بوڑھاآدمی جو مال چھوڑ جائے گا وہ تو اُس کے وارثوں کا ہوجائے گا ۔ اگر وہ اس کو نیکی کے کام میں لگائیں گے تو ثواب وارثوں ہی کو ہو گا ۔جس بوڑھے نے محنت کے ساتھ وہ مال جمع کیا تھا ‘اس کے ہاتھ تو کچھ نہ آیا‘اس لیے کہ وفات کے ساتھ ہی اُس کا جمع کیا ہوا مال اُس کی ملکیت سے نکل گیا۔ وہ اگر اپنے ہاتھوں اسے نیک کاموں میں خرچ کرتا تو ثواب کماتا۔
عمر رسیدہ لوگ اپنی استطاعت کے مطابق کثرت سے نوافل پڑھیں تاکہ ان کی فرض نمازوں میں جو کمی کوتاہی رہ گئی ہو‘ اللہ تعالیٰ مہربانی سے اُسے دور کر دے۔ وہ عمررسیدہ بوڑھا جو ابھی تک بے نماز رہا ‘اُس جیسا بدنصیب کوئی نہ ہو گا۔ اسی طرح وہ بھی جو مال کی محبّت میں غرق ہوکر زکوٰۃ ادا نہ کرتا ہو۔نماز اور زکوٰۃ دین اسلام کے رکن ہیں۔ ان کی ادائیگی کے بغیر کوئی مسلمانی کا دعویٰ کیسے کر سکتا ہے؟
عمر رسیدہ لوگوں کو احساس ہونا چاہیے کہ لمبی عمر دے کراللہ تعالیٰ نے انہیں گزشتہ گناہوں کی بخشش مانگنے اور بیش از بیش نیکی کے کام کرنے کا موقع دیا ہے۔ اس موقع سے کماحقہ ٗفائدہ اٹھانا چاہیے۔ مہلت ِعمر ختم ہو گئی تو اُس وقت کا پچھتاوا کسی کام نہ آئے گا ۔ یہ جہان دار العمل ہے۔ جب انسان اپنی مہلت ِعمر ختم کر کے دار الجزاء میں داخل ہو گیا تو اُس کے عمل کا موقع ختم ہو گیا۔ ایک بندہ پنج گانہ نماز ادا کرتا ہے۔ اگر وہ ظہر کی نماز ادا کر چکا اور فوت ہوگیا تواب وہ عصر کی نماز نہ پڑھ سکے گا اور نہ ہی اس کا اجر پائے گا۔ اسی طرح فوت ہونے والا کوئی ورد وظائف اور نیکی کے دوسرے کام بھی نہیں کر سکے گا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ دارالعمل میں اس کی مہلت ختم ہو چکی ہے۔ جس طرح کمرئہ امتحان میں بیٹھا ہوا طالب علم وقت ختم ہونے پر پرچہ نگران کے حوالے کر دیتا ہے‘ اور بس۔ اب وہ ایک لفظ بھی لکھنا چاہے گا تو اس کو لکھنے نہ دیا جائے گا۔
ایک بزرگ فوت ہوگئے ۔ ایک شخص کو ان کی نیکی اور تقویٰ کی وجہ سےان سے محبّت تھی۔ اسے خواب میں وہ بزرگ ملے۔اُس شخص نے انہیں سلام کیا مگر انہوں نے جواب نہ دیا۔ اُس نے پھر سلام کیا مگر جواب نہ پایا۔ اس پر اُس نے پوچھا : ’’حضرت! مَیں سلام کرتا ہوں‘ آپ جواب نہیں دیتے؟‘‘ وہ بزرگ کہنے لگے: ’’فوت شدہ آدمی دارالعمل سے چلا آتا ہے‘ اب وہ کوئی نیکی نہیں کر سکتا۔ سلام کا جواب دینا نیکی ہے‘ لہٰذا میں اب سلام کا جواب نہیں دے سکتا۔ تم لوگ زندہ ہو‘ چھوٹی بڑی نیکیاں کر کے ثواب حاصل کر سکتے ہو ۔ تمہاری عمر تمہیں مبارک ہو ‘اس لیے کہ جب مہلت ِعمرختم کر کے دارالعمل چھوڑ دو گے تو نیکی نہ کر سکو گے۔‘‘
حضرت عبداللہ بن شدّادؓ فرماتے ہیں کہ بنی عذرا قبیلہ کے تین لوگ نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے‘ اسلام قبول کیا اور حضورﷺ کے پاس ٹھہر گئے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’کون ہے جو ان کی خبر گیری کے سلسلہ میں مجھے بے فکر کر دے؟‘‘ حضرت طلحہؓ نے عرض کیا: ’’مَیں اس ذمہ داری کو قبول کرتا ہوں ‘‘۔چنانچہ تینوں حضرت طلحہؓ کے پاس رہنے لگے۔ (کچھ دنوں کے بعد) جب نبی اکرمﷺ نے کسی طرف ایک لشکر بھیجا تو اس میں ان تینوں میں سے ایک شخص گیا اور میدانِ جنگ میں شہید ہو گیا۔ اس کے بعد حضورﷺ نے ایک اور لشکر بھیجاتو اس کے ساتھ دوسرا شخص گیا اور وہ بھی شہید ہو گیا۔ پھر تیسرے شخص نے بستر پر ہی وفات پائی۔ حضرت طلحہؓ نے خواب میں دیکھا کہ وہ تینوں جنّت میں ہیں ۔جو شخص اپنے بستر پر فوت ہوا تھا وہ تو سب سے آگے ہے ‘جو شخص دوسرے لشکر کے ساتھ جا کر شہید ہوا تھا وہ اس کے پیچھے بالکل اس کے قریب ہے اور جو پہلے لشکر کے ساتھ جا کر شہید ہوا تھا وہ سب سے آخر میں ہے۔ چنانچہ ان کے دل میں خلجان پیدا ہو گیا ۔ انہوں نے نبی اکرمﷺ سے اپنے خواب کا ذکر کیا۔ حضورﷺ نے فرمایا:’’اس میں شک و شبہ اور خلجان کا باعث کون سی چیز ہے؟ (تم نے اپنے خواب میں تینوں کو جس ترتیب کے ساتھ دیکھا ہے وہ بالکل ٹھیک ہے) اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُس مسلمان سے زیادہ افضل کوئی نہیں جس نے اسلام کی حالت میں زیادہ عمر پائی اور اُس کی وجہ سے اُس کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی تسبیح و تکبیر اور تہلیل کا زیادہ موقع ملا۔‘‘ (مسند احمد) واضح رہے کہ وہ تینوں شہادت کی نیت کے سبب تو ایک ہی مرتبے کے حامل تھے‘ مگر جو اُن کے بعد جیتا رہا اور عبادت کرتا رہا وہ ان دونوں سے افضل ٹھہرا ‘خواہ چند دن ہی زندہ رہا۔
ذرااُ س بوڑھے مسلمان کو دیکھیں جس کے بال سفید ہو چکے‘ جسم کمزور ہو گیا ‘مگر وہ اب بھی موت کی گھڑی سے غافل ہے۔نماز کی اہمیت سے بے خبر ہے ‘اور زندگی کے دن بے فکری میں گزار رہا ہے۔ اس طویل عمری پر تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اُس نے موقع دیا کہ غفلت میں گزرنے والے ماہ و سال کو یاد کر کے اللہ کے حضور استغفار کیا جائے۔ بوڑھے کو اللہ تعالیٰ کئی سال پہلے بھی وفات دے سکتا تھا ۔اگر ایسا ہوتا تو اُسے نہ مزید نمازوں ‘روزوں اور دوسری نیکیوں کا موقع ملتا اور نہ ہی اُسے مغفرت طلب کرنے کی مہلت ملتی۔ یوں بڑی عمر وہ نعمت ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ ہاں ارذل العمر سے پناہ مانگنی چاہیے جس میں انسان حواس کھو بیٹھے اور استغفار بھی نہ کر سکے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں مہلت ِعمر سے صحیح معنوں میں فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025