(علومِ قرآنی) تفسیر کا ارتقاء - پروفیسر حافظ قاسم رضوان

8 /

تفسیر کا ارتقاء
بسلسلہ علم تفسیر اورمفسرین کرام(۱۲)
پروفیسر حافظ قاسم رضوان

اس ضمن میں درج ذیل نکات پیش نظر رکھنا ضروری ہیں:
(ا) تفسیر عہد ِرسالت میں
قرآن پاک کا نزول عربی زبان میں ہوا۔ اُس وقت جو لوگ موجود تھے‘ عربی ان کی مادری زبان تھی‘اس لیے کلام اللہ کے معنی اور مطلوب سمجھنے اور معلوم کرنے زیادہ دِقّت پیش نہیں آتی تھی۔ سورۃ الزخرف میں ارشاد ہوتا ہے:
{ اِنَّا جَعَلْنٰہُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ(۳)}
’’ہم نے عربی زبان کا قرآن نازل فرمایا ہے تاکہ تم سمجھ لو۔ ‘‘
تاہم بعض مقامات جہاں زیادہ اجمال ہوتا تھا‘ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین خود تشریح و تفسیر کرنے کی جسارت نہیں کرتے تھے بلکہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کر لیا کرتے تھے۔ حضورِ اَقدس ﷺ کو اللہ تعالیٰ نےجہاں دیگر مناصب ِجلیلہ پرفائز کیا‘ وہیں ایک منصب قرآن کریم کی توضیح و تشریح کرنے کا بھی ہے‘ سورۃالنحل میں فرمانِ الٰہی ہے:
{وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ} (آیت۴۴)
’’اور ہم نے آپ پرالذکر(قرآن) نازل کیا تاکہ آپ اسے لوگوں کے لیے واضح کردیں۔‘‘
چنانچہ علم تفسیر کا سب سے پہلا بیش قیمت سرمایہ آنحضرتﷺ سے منقول تفسیری روایات ہیں جو مختلف کتب احادیث میں بکھری ہوئی ہیں۔ امام بخاریؒ نے ایسی ہی تفسیری احادیث کو یکجا کر کے ’کتاب تفسیر القرآن‘ کے نام سے صحیح بخاری میں ایک مستقل عنوان قائم کیا ہے۔
(ب)تفسیر عصر صحابہ ؓ میں
عہد ِنبوی ﷺ کے بعد جب اسلامی فتوحات کا دائرہ آگے بڑھنے لگا اور تمدن میں وسعت پیدا ہوتی گئی تو پھر دینی احکامات میں نئی نئی صورتیں اور مسائل پیدا ہونے لگے۔ اسی کے زیر اثر قرآن کریم کے مضامین اور آیاتِ اَحکام پر غور وفکر کے دروازے کھلنے لگے۔ صحابۂ کرامؓ قرآن کریم کی وہی تفسیر بیان کرتے جو انہوں نے بلا واسطہ یا بالواسطہ آنحضرتﷺ سے سنی ہوتی یا جس آیت کا سبب نزول انہوں نے خود ملاحظہ کیا ہوتا یا پھر جو بات ان پر بطریق اجتہاد منکشف ہوتی۔ بعض اصحاب ِرسولؐ کو اس ضمن میں امتیاز حاصل تھا‘ جیسے خلفائے راشدین میں سب سے زیادہ تفسیری روایات حضرت علی ؓ سے مروی ہیں‘ مگر بحیثیت مجموعی سب سے زیادہ تفسیری اقوال اور روایات صحابۂ کرام ؓ میں سے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے منسوب ہیں۔ حضرات صحابہ ؓ فہم قرآن اور اس کے معانی و مطالب کے اظہار و بیان میں مساوی الدرجہ نہ تھے‘ اسی طرح وہ ذہانت وفطانت ‘ خداداد استعداد اور زبان دانی میں بھی یکساں نہ تھے۔ بعض صحابہ اس حد تک ماہر اللسان تھے کہ غریب الفاظ بھی ان کی آنکھ سے اوجھل نہ تھے۔ بعض مرتبے میں اس سے کم تھے۔ کئی صحابہ کو صحبت نبوی ؐسے مستفید ہونے کا زیادہ موقعہ ملا‘ کچھ اس حد تک موقع حاصل نہ کر پائے۔ مشہور تابعی حضرت مسروقؒ بیان کرتے ہیں:’’مجھے اصحابِ رسولؐ کی ہم نشینی کا شرف حاصل ہے۔ صحابہ ایک تالاب کی مانند تھے‘ تالاب سے ایک آدمی بھی سیر ہو سکتا ہے‘ دو بھی‘ دس بھی اور سوبھی۔ بعض تالاب ایسے ہوتے ہیں کہ اگر روئے زمین کے تمام لوگ پانی پینے آئیں تو سیر ہوکر جائیں۔‘‘(تاریخ التشریح الاسلامی )
یوں تو ماہر تفسیر صحابہ کثیر تعداد میں تھے مگر ان میں سے درج ذیل دس صحابہ کو خاص شہرت حاصل ہوئی۔ حضرات ابوبکر صدیق‘ عمر فاروق ‘ عثمان غنی‘ علی مرتضیٰ ‘ عبد اللہ بن مسعود ‘ عبد اللہ بن عباس ‘ اُبی بن کعب‘ زید بن ثابت ‘ ابوموسیٰ اشعری اور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم (علوم القرآن از ڈاکٹر صبح صالح)۔ اس دور میں تفسیری اقوال کو بطریق روایت نقل کیا جاتا تھا‘ حضرات صحابہؓ حضور ِاَقدسﷺ سے بھی یہ اقوال نقل کرتے تھے اور باہم ایک دوسرے سے بھی۔
(ج) تفسیر عہد تابعین میں
عصر صحابہ کے بعد تفسیر کے ایک نئے دور کاآغاز ہوا۔ اس مرحلہ کی ابتدا عصر تابعین سے ہوئی جنہوں نے اصحابِ رسولؐ کے چشمہ ٔ فیض سے دل بھر کر اپنی پیاس بجھائی۔ تابعین کے عہد کے مفسرین میں مجاہد‘ عطاء بن ابی رباح‘ عکرمہ‘ سعید بن جبیر‘ حسن بصری‘ ابو العالیہ‘ مسروق اور قتادہ رحمہم اللہ وغیرہ ممتاز ہیں۔ غالباً سب سے پہلے فن تفسیر کی ابتدا جنہوں نے کی‘ وہ سعید بن جبیرؒ ہیں۔ عبد الملک بن مروان نے ان سے تفسیر لکھنے کی درخواست کی‘ چنانچہ انہوں نے تفسیر قرآن لکھ کر دربار خلافت بھیج دی۔ عطاء بن دینار کے نام سے جو تفسیر معروف ہے‘ وہ درحقیقت یہی تفسیر ہے(میزان الاعتدال‘ذہبی)۔ مکہ‘ مدینہ منورہ‘ بصرہ اورکوفہ اس دور میں علم تفسیر کے اہم مراکز تھے۔ مکہ میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے اصحاب و تلامذہ مثلاً سعید بن جبیر ‘عطاء بن ابی رباح‘ مجاہد‘ عکرمہ اور طائوس رحمہم اللہ کا فیض جاری تھا‘ ان میں مجاہدؒ کا پایہ سب سے بلند ہے۔ ابن تیمیہؒ کا قول ہے کہ مجاہدؒ کی تفسیر پر اکثر ائمہ مثلاً سفیان ثوری‘ شافعی‘ احمد بن حنبل اور امام بخاری رحمہم اللہ اعتماد کرتے ہیں۔ مدینہ میں علم تفسیر کی تاسیس کا سہرا حضرت اُبی بن کعب ؓ کے سر ہے‘ اکثر نامور تابعین نے آپؓ سےکسب فیض کیا۔ تابعین مدینہ میں زید بن اسلم‘ ابوالعالیہ اور محمد بن کعب قرظی رحمہم اللہ کے اسماء قابل ذکر ہیں۔ کوفہ میں علم تفسیر کی بنیاد حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کے ہاتھوں پڑی۔ آپ سے فیض یاب ہونے والوں میں سے علقمہ‘ مسروق‘ اسود اور عامر شعبی رحمہم اللہ نے شہرت حاصل کی۔ بصرہ میں حضرت علی اور حضرت انس بن مالک ؓسے فیض حاصل کرنے والے مشہور تابعی حسن بصری ؒ کی ذات تفسیر قرآن میں مرجّع خلائق تھی۔ اس دور میں بھی تفسیری اقوال کو بطریق روایت ہی نقل کیا جاتا تھا۔
(د) تفسیر عہد تبع تابعین میں
علم تفسیر کے اس عہد کا آغاز اس وقت ہواجب تدوین حدیث کی داغ بیل پڑی۔ حدیث نبوی مختلف ابواب میں منقسم ہوتی تھی اور ان میں ایک باب تفسیر پر بھی مشتمل ہوتا تھا۔ اس دور میں ایسی کوئی کتاب تالیف نہیں ہوئی جس میں ایک ایک قرآنی سورت اور ایک ایک آیت کی تفسیر علیحدہ علیحدہ تحریر کی گئی ہو۔
اس دور میں ایسے علمائے کرام موجود تھے جو مختلف اسفار کے ذریعے احادیث جمع کرتے اور تبعاً وضمناً وہ تفسیری اقوال بھی اکٹھے کرتے جوآنحضرتﷺ ‘ صحابہؓ یا تابعینؒ سے منسوب تھے۔ ان قابل ذکر اکابرین میں یزیدبن ہارون السلمی‘ شعبہ بن حجاج‘ وکیع بن الجراح‘ سفیان بن عیینہ‘ عبد الرزاق بن ہمام اور عبد بن حُمید رحمہم اللہ وغیرہ شامل ہیں۔
مذکورہ صدر علماء محدثین میں سے تھے اور تفسیری اقوال کو احادیث نبویہ ﷺ کی حیثیت سے جمع کرتے تھے‘مستقل اورجداگانہ تفسیر کے اعتبار سےنہیں۔ ان ہستیوں نے اپنے پیش رو ائمہ سے علم تفسیر کے ضمن میں جو کچھ بھی نقل کیا تھا‘ اس کو ان کی جانب منسوب کر دیا تھا۔ لیکن افسوس کہ گردش روزگار نے ہم سے یہ سب مجموعے اوجھل کر دیے‘ بعینہٖ کوئی ہم تک نہیں پہنچ پایا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد کی تفاسیر میں یہ کافی حد تک محفوظ ہو گئے۔
(ھ)تفسیر عصر تدوین میں
عصر ِتدوین عہد ِخلافت اُمویہ کے اواخرسے لے کر خلافت ِعباسیہ کے اوائل تک پھیلا ہوا ہے۔ اسی دور میں صحیح معنوں میں تفسیر نگاری کی بنیاد پڑی۔ ابن ِجریج دینی علوم کے پہلے باقاعدہ مصنف ہیں جنہوں نے علوم کی اوّلین تدوین کی۔ عصر تدوین سے پہلے تفسیری روایات احادیث نبویہ ﷺ کے ساتھ محفوظ تھیں۔ حضورِ اقدسﷺ کی احادیث مختلف ابواب میںمنقسم تھیں اور ان میں سے ایک باب تفسیری روایات پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ لیکن تدوین کے مرحلے پر پہنچ کر علم تفسیر باقاعدہ علم حدیث سے علیحدہ ہو گیا اور اس نے ایک جداگانہ فن کی حیثیت اختیار کر لی۔ اب قرآنی ترتیب کے مطابق ہر ہر آیت اور سورت کی جداگانہ تفسیر مرتب کی جانے لگی۔ اس کارِخیر میں ابن ماجہ‘ ابن جریر طبری‘ ابن ابی حاتم‘ ابوبکر بن منذر‘ ابوالشیخ بن حبان حاکم اور دیگر اکابر محدثین رحمہم اللہ نے حصّہ ڈالا۔ یہ تفاسیر سنداًحضور کریم ﷺ ‘ صحابہ ؓو تابعینؒ اور تبع تابعین ؒسے منقول ہیں‘ ان میں تفسیر بالماثور کے علاوہ کوئی دوسری بات مذکور نہیں۔ البتہ ابن جریر طبریؒ نے تفسیری اقوال ذکر کر کے ان کی توجیہہ کی‘ ان میں سے بعض کو راجح اور بعض کو مرجوح قرار دیا۔ جلال الدین سیوطیؒ نے تفسیر ابن جریر طبری کے بارے میں لکھا ہے: ’’اگر تم مجھ سے دریافت کرو کہ کس تفسیر پر اعتماد کیا جائے تو میں کہوں گا کہ ابن جریر پر‘ جس کے بارے میں علماء کا قول ہے کہ اس جیسی کوئی تفسیر نہیں لکھی گئی۔‘‘تاہم اس فرق و اختلاف کے باوجود اس دور کا علم تفسیر بھی تفسیر بالماثور کے دائرے میں ہی رہا‘ البتہ اسناد کی شرط باقی نہ رہ سکی۔ مفسرین سلف کے تفسیری اقوال کو بلا سند ذکر کرنے کا سب سے مہلک نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اسرائیلیات اور بہت سے من گھڑت‘ وضعی اقوال نے کتب تفاسیر میں راہ پالی اور مستند صحیح اقوال اور من گھڑت غیر مستند اقوال کے مابین امتیاز کرنا دشوار ہو گیا۔ یہی چیز بعد میں مختلف گمراہیوں کا سبب بنی۔
(و)تفسیر عصر تدوین کے بعد
یہاں سے تفسیر کا پانچواں عہد شروع ہوتا ہے۔ یہ تفسیر کا طویل ترین تاریخی دور ہے جو عباسی خلافت سے شروع ہوکر عصر حاضر تک پھیلا ہوا ہے۔ اس سے قبل تفسیر کا انحصار منقول روایات پر تھا لیکن اس دور میں عقل و نقل میں امتزاج واختلاط کا آغاز ہوا‘ صرف و نحواور عربیت سے متعلق علوم مدوّن ہوئے‘ فقہی مسالک منظر عام پر آئے اور کلامی مسائل نے سرنکالا۔ خلافت عباسیہ میں گروہی تعصب انتہا تک پہنچ گیا‘ مختلف اسلامی فرقے اپنے مخصوص افکارو عقائد کی دعوت دینے لگے‘ منطق و فلسفہ سے متعلق کتب کا یونانی سے عربی میں ترجمہ کیا گیا۔ اس سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ مختلف علوم علم تفسیر کے ساتھ ملتے چلے گئے۔ جو شخص جس علم وفن میں کمال رکھتا تھا‘ اس کی کتاب تفسیر تقریباً اسی علم دفن تک محدود ہو کر رہ گئی‘ جامعیت کا تصوّر ختم ہوتا چلا گیا۔ چنانچہ نحوی علماء نے جو تفاسیر لکھیں ان کو نحوی مسائل سے بھر دیا‘ جیسے زجاج نے اپنی تفسیر میں‘ واحدی نے اپنی ’البسیط‘ میں اور ابوحیان نے ’البحر المحیط‘میں نحوی مہارت کا ہی ثبوت دیا ہے۔ جو لوگ علومِ عقلیہ میں بصیرت رکھتے تھے۔انہوں نے اس فن کو حکماء اور فلاسفہ کے اقوال نیز علم کلام کا پلندہ بنا دیا۔ امام فخر الدین رازیؒ کی تفسیر ’مفاتیح الغیب المعروف تفسیر کبیر‘ اسی کا شاہکار ہے۔ صاحب تفسیر کبیر کا انداز یہ ہے کہ عقلی و نقلی قسم کے جس قدر تفسیری اقوال مختلف تفاسیر میں بکھرے ہوئے تھے‘ اس تفسیر میںان سب کو جمع کر دیا گیا ہے۔
مبتد عین نے جوتفاسیر لکھیں ان میں کلامِ الٰہی کی تاویلاتِ رکیکہ کر کے ان کتب کو اپنی پسندیدہ بدعات کی تائید و حمایت پر مشتمل اقوال سے بھر دیا۔ مثلاً معتزلہ میں سےز مخشری‘ رمانی‘ جبائی اور شیعہ اثناعشریہ میں سے طبری اور ملامحسن کاشی وغیرہ۔ فقہاء کی تفاسیر فقہی فروعات کے دلائل ذکر کرنے تک محدود ہیں‘ جیسے جصاص اور قرطبی وغیرہ۔ مؤرخین نے جو تفاسیر لکھیں ان کو صحیح و سقم واقعات اوراخبار سے بھر دیا‘ مثلاً ثعلبی اور خازن کی تفاسیر وغیرہ۔ صوفیاء نے قرآنی آیات سے اس طرح کے اشارات کا استخراج کیا جو ان کے مسلک و مشرب اور وجدان و ریاضت سے میل کھاتے تھے‘ جیسے ابن عربی اور ابوعبد الرحمٰن السلمی وغیرہ۔ خلاصہ یہ کہ جو شخص بھی کسی فن یا مسلک سے دلچسپی رکھتا تھا‘ اس نے قرآن کریم کو اپنے مسلک و مذہب اور فن کے قالب میں ڈھالنے کی سر توڑکوشش کی۔ یہ علمی‘ عقلی اور ذہنی رجحان و میلان جاری رہا اور بعض ادوار میں اس کوقبولیت بھی حاصل ہوئی۔ عصر حاضر میں بھی ایسے مفسر موجود ہیں جن کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ قرآن عزیز کو ظاہری و باطنی علومِ عصر یہ کا گنجینہ ثابت کریں‘ چاہے ان کو تاویلات کا کوئی بھی طریقہ اختیار کرنا پڑے۔ ان کے نزدیک قرآن مجید کے وجوہِ اعجاز میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ زمانۂ حال کے ساتھ چل سکے۔ حق یہ ہے کہ ایسی بات خود قرآن کریم کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے۔ یہ تو کتابِ ہدایت ہے اور ایسی کوششوں سے قرآن کریم اپنے اس ہدف اور نصب العین سے باہر نکل جاتا ہے جس کے لیے اسے اُتارا گیا تھا۔
تفسیر کے علاوہ قرآن کریم کے خاص خاص مباحث پر جداگانہ اورمستقل تصانیف کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ کسی نے صرف فقہی مسائل پر بحث کی‘ کسی نے اسبابِ نزول پرکتاب لکھی‘ کسی نے امثال قرآنی کو یکجا کیا‘ کسی نے آیاتِ مکررہ کے نکات بیان کیے‘ کسی نے مفردات القرآن پر کام کیا‘ کسی نے ناسخ و منسوخ کو اپنی تحریر کا عنوان بنایا‘ وغیرہ۔ اس قسم کے مختلف مضامین کی تعداد اسّی کے قریب پہنچی اور تقریباً ہرایک پر مستقل کتابیں لکھی گئیں۔ (مقدمہ الاتقان فی علوم القرآن)ان سب تصانیف کو درج ذیل چھ اقسام پر تقسیم کیا جاسکتا ہے:
(۱)فقہی: جن میں ان آیات کو یکجا کیا گیا ہے جن سے کوئی فقہی مسئلہ مستنبط ہوتا ہے‘ جیسے احکام القرآن از اسماعیل بن اسحاق‘ احکام القرآن از ابوبکر جصاص رازی‘ احکام القرآن از قاضی یحییٰ بن اکثم وغیرہ۔
(۲)ادبی :ان تصنیفات میں قرآن کریم کا فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بے نظیر ہو ناثابت کیا گیا ہے۔ وہ کتب بھی اس سلسلے میں شامل ہیں جو کلام اللہ میں ضرب الامثال‘ حقیقت و مجاز‘ تشبیہات و استعارات اور صنائع و بدائع کے حوالے سے تحریر ہوئیں۔ اس ضمن میں جاحظ‘ جرجانی‘ ابن ابی الاصبع‘ عزالدین بن عبد السلام اور ابوالحسن ماوردی وغیرہ کا نام آتا ہے۔
(۳)تاریخی: اسی طرح کی کتب میں قرآن عزیز میں مذکور انبیائے سابقین اور بزرگ ہستیوں کے قصوں کی تفصیل اور مزید حالات پر روشنی ڈالی گئی‘ مثلاً خازن اورثعلبی کی تفسیر وغیرہ۔
(۴) نحوی: جن میں قرآن مجید میں پیش آمدہ نحوی مسائل سے بحث کی گئی ہے‘ جیسے اعراب القرآن ازرازی‘ زجاج کی تفسیر وغیرہ۔
(۵) لغوی: ایسی تصانیف جو قرآن کریم کے مفرد الفاظ کے معانی اور ان کی تحقیق کے حوالے سے لکھی گئیں‘مثلاً مفردات القرآن ازامام راغب اصفہانی اور لغات القرآن از ابوعبیدہ وغیرہ۔
(۶)کلامی: ایسی تفسیری کتب جن میں خصوصاً ایسی آیات پر مفصل بحث کی گئی ہو جن سے عقائد کے مسائل مستنبط ہوتے ہیں‘ جیسے تفسیر کبیر‘ تفسیر بیضاوی وغیرہ۔
غرض یہ کہ آغازِ نزول سے لے کر عصر حاضر تک اُمّت ِمسلمہ نے قرآن پاک کے مطالب و معانی اور اَسرار ونکات معلوم کرنے کے لیے جو مساعی ٔ جمیلہ انجام دی ہیں‘ کوئی دوسری قوم اس کی نظیر نہیں پیش کر سکتی‘ لیکن بایں ہمہ جُہد وسعی قرآن مجید کی وسعت و جامعیت کا یہ عالم ہے کہ اس کے بحر معانی میں غواصی کرنے والے ہر فرد کو عجزوتقصیر کا اعتراف کیے بغیر چارہ نہیں۔ قرونِ اولیٰ سے لے کر عہد ِحاضر تک لا تعداد تفاسیر لکھی گئیں اور تحریر کی جا رہی ہیں‘ مگر ارشادِ نبوی ؐکے مطابق قرآن کریم کے نکات و اسرار اور حکمتیں نہ ختم ہو سکتی ہیں اور نہ ہی آئندہ کبھی ان کی تکمیل ہو گی۔ آنحضرتﷺ کا فرمان ہے:
’’قرآن میں پچھلی قوموں کے حالات مذکور ہیں‘ اس میں تمہارے فیصلہ جات بھی مرقوم ہیں۔ یہ فیصلہ کن کتاب ہے‘ ہنسی مذاق پرمشتمل نہیں۔ جو ازراہ بغاوت اس کو نظر انداز کرے گا‘ خدا اس کو توڑ پھوڑ دے گا۔ جو اس کو چھوڑ کر کسی اور کتاب سے ہدایت طلب کرے گا‘ اللہ تعالیٰ اُس کو گمراہ کر دے گا‘ یہ اللہ کی مضبوط رسی ہے‘ یہ ذکر حکیم اور صراطِ مستقیم ہے۔ اس کی وجہ سے خیالات میں بے راہ روی نہیں آتی اور نہ ہی زبان میں اُلجھن پیدا ہوتی ہے۔ علماء اس کو پڑھتے پڑھتے سیر نہیں ہوتے‘ بار بار پڑھنے کے باوجود اس سے اُکتاہٹ اور ملال پیدا نہیں ہوتا۔ یہ وہی کتاب ہے کہ جب جنوں نے اسے سنا تو پکار اٹھے:{اِنَّا سمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا(۱)} (الجن) ’’بے شک ہم نے عجیب قرآن سنا ہے‘‘۔جو شخص قرآن کے مطابق بات کرے گا وہ سچ بولے گا اور جو اس پر عمل کرے گا اسے اجر دیا جائے گا۔جو اس کے مطابق فیصلہ کرے گا وہ عدل و انصاف سے کام لے گا اور جو اس کی طرف دعوت دے گا وہ صراطِ مستقیم پر گامزن ہو گا۔‘‘(جامع ترمذی)
تفسیر میں اختلافِ سلف
صحابہ کرام ؓ قرآن کریم کی تفسیر عربی زبان اور ان اسباب و عوامل کے پیش نظر کرتے تھے جن میں ان کے سامنے قرآن مجید نازل ہوا۔ جب انہیں کسی آیت کی تفسیر میںکوئی دقت پیش آتی تو حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر دریافت کر لیتے۔ آنے والے وقت میں تابعی مفسرین صحابہ ؓ کے پاس پہنچ کر ان سے تفسیری اقوال اخذ کرتے اور سوالات کے جوابات پاتے۔ مخصوص حالات میں وہ اس حوالے سے رائے واجتہاد سے بھی کام لیتے۔ عربی ان کی مادری زبان تھی اور معاشرے میں ابھی اتنا فساد وبگاڑ پیدا نہیں ہوا تھا۔ اسی طرح عصر صحابہ ؓ و تابعینؒ تک فقہی و کلامی مذاہب اورمسالک وجود میں نہیں آئے تھے‘ اور نہ ہی ادبی و عقلی فنون کا کوئی نشان پایا جاتا تھا‘اگرچہ اس بیج کی تخم ریزی تو ہو چکی تھی جس سے آگے چل کر علم و ادب کا تناور درخت پروان چڑھا اور اس سے مزید علوم و فنون کی شاخیں پھوٹیں۔ یوں صحابہؓ اور تابعینؒ کے ادوار میں تفسیری اختلافات کا دائرہ نہایت محدود رہا اور اس میں وہ وسعت پیدا نہ ہوپائی جس کا اظہار آگے چل کر ہوا۔
عہد ِصحابہ میں تو اختلاف نہایت کم تھے‘ البتہ عہد ِتابعین کے اندر ان میں کچھ اضافہ ہو گیا‘ مگر تابعین کا اختلاف احکام میں زیادہ اور تفسیر میں کم تھا۔ متقدمین کی کتب تفسیر میں جو تفسیری اقوال بکھرے پڑے ہیں‘ ان میں غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بسا اوقات ایک ہی مسئلہ میں کئی کئی مختلف اور متضاد اقوال منقول ہیں۔ مثلاً ایک صحابی کا قول دوسرے صحابی کے قول کے خلاف ہوتا ہے اور ایک تابعی کا قول دوسرے تابعی کے قول سے ٹکراتا ہے۔ بلکہ اکثر یوں ہوتا ہے کہ ایک ہی مسئلہ دو مختلف اور متضاد قول ایک ہی قائل کی جانب منسوب ہوتے ہیں۔ تو کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ عہدِ صحابہ اور تابعین میں تفسیری اختلاف کی خلیج بہت وسیع ہو گئی تھی؟ اور کیا ایک ہی صحابی و تابعی سے ایک ہی مسئلہ میں دو متضاد و متناقض آراء اور فتاویٰ کا ظہور ہوتا ہے؟ لیکن معاملہ دراصل یوں نہیں۔ نہ تو باہمی اختلاف کے دائرے میں وسعت پیدا ہوئی اور نہ ہی صحابی و تابعی سے دو مخالف اور متناقض قول صادر ہوئے۔ اس لیے کہ تفسیر میں جو اختلاف منقول ہےوہ اکثر و بیشتر نزاعِ لفظی اور اختلافِ تنوع کی قبیل سے ہے‘ مگراسے پیش کرنے والوں نے ان کو متباین و متضاد اقوال خیال کیا‘ جن میں کسی طرح بھی کوئی موافقت و یگانگت نہیں پائی جاتی۔ ان بظاہر متخالف اقوال کا اگر باریک بینی اور دِقّت نظر سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں حقیقتاً کوئی فرق و اختلاف موجود ہی نہیں۔ تاہم نظر آنے والے ظاہری اختلاف کی کچھ وجوہ اور اسباب بھی ہیں‘ جن کی نشان دہی سے یہ بات کھل کر سامنے آجائے گی کہ ان میں باہم کچھ تنافی و تباین نہیں پایا جاتا۔ ظاہری اختلاف کی وجوہ درج ذیل ہیں:
(۱) باہمی اختلاف کی ایک صورت یہ ہے کہ دونوں مفسر اپنا اپنا مفہوم جداگانہ الفاظ و عبارت سے ادا کرتے ہیں۔ اس کی مثال یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام متعدد ومختلف ہیں مگر وہ سب ایک ہی مسمّٰی کو ظاہر کرتے ہیں۔ اب کوئی شخص اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ایک نام لے کر دعا کرتا ہے تو دوسرا فرد اس کو جداگانہ نام سے پکارتا ہے۔ اس کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ ایک شخص کی دُعا دوسرے کی دُعا کے خلاف ہے۔ سورئہ بنی اسرائیل (آیت۱۱۰) میں ارشادِ ربّانی ہے:ـ
{قُلِ ادْعُوا اللہَ اَوِادْعُوا الرَّحْمٰنَ ۭ اَ یًّامَّا تَدْعُوْا فَلَہٗ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰی ۚ}
’’آپ کہہ دیجئے کہ (اللہ کو) اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر۔ جس نام سے بھی پکارو تو تمام اچھے نام اُسی کے ہیں)۔‘‘
اسی طرح حضورِ اَقدس ﷺاور قرآن کریم کے بھی بہت سے صفاتی نام ہیں جو سب ایک ہی مسمّٰی کو ظاہر کرتے ہیں اور ان میں کوئی تخالف یا تضاد نہیں پایا جاتا ۔صرف یہ فرق ہوتا ہے کہ ایک صفاتی نام مسمّٰی کی ایک خاص صفت کو ظاہر کرتا ہے اور دوسرا نام کسی اور صفت کو۔ مسمّٰی واحد ہی رہتا ہے اور اس میں بذاتِ خود کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ مثلاً علیم کا وصفی نام ایک ذات اور اس کے علم کو ظاہر کرتا ہےا ور لفظ قدیر اُس ذات اور اس کی قدرت کی نشان دہی کرتا ہے۔ یونہی حضور کریم ﷺ کے مختلف اسماء آپؐ کی مختلف صفات کا مظہر ہیں‘ جیسے ماحی‘ حاشر‘عاقب وغیرہ۔ اور قرآن مجید کے مختلف نام الکتاب‘ الفرقان‘ الھدیٰ‘ المجید‘ التنزیل‘ الذکروغیرہ ‘ اس کی مختلف صفات کے متعلق آگہی دیتے ہیں۔
اب غور کریں کہ قرآن پاک میں ’’الصِّراطَ الْمُستقِیمَ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں اور اس کی تفسیر میں مفسرین کےمتعدد اقوال ہیں:(ا)اس سے قرآن کریم کی پیروی مراد ہے۔(ب) اس سے سُنّت ِنبوی اور جماعت ِمُسلمین کا اتباع مقصود ہے۔(ج) اس سے طریق عبودیت مراد ہے۔(د) اللہ تعالیٰ اور حضورِ اَقدس ﷺ کی اطاعت کا نام صراطِ مستقیم ہے‘ وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ ان اقوال میں کوئی منافات نہیں بلکہ یہ سب متحد الحقیقت ہیں‘ اس لیے کہ دین اسلام‘ اتباعِ قرآن‘ اللہ و رسول کی اطاعت اور طریق عبودیت سے عبارت ہے۔ گویا سب بظاہر مختلف اقوال کا منشا ومقصود ایک ہی ہے‘ مگر ہر شخص نے اس کی ایک جداگانہ صفت بیان کی۔
(۲) ظاہری اختلاف کی ایک قسم یہ ہےکہ بطور تمثیل ایک عام اسم کی بعض انواع کا ذکر کر دیا جاتا ہے۔ اس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ سامع کو اس نوع کا پتہ چل جائے‘ اس عام اسم کو عموم و خصوص کے اعتبار سے تعریف کرنا مقصود نہیں ہوتا۔ مثلاً قرآن کریم کی سورۃ فاطر (آیت۳۲) میں ارشادِ ربّانی ہے:
{ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۚ فَمِنْھُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ ۚ وَمِنْھُمْ مُّقْتَصِدٌ ۚ وَمِنْھُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَیْرٰتِ بِاِذْنِ اللہِ    ط}
’’پھر ہم نے یہ کتاب ان لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچائی جن کو ہم نے اپنے بندوں میںسے پسند فرمایا۔ پھر بعض تو ان میں سے اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں‘ اور بعض متوسط درجے کے ہیں‘ اور بعض ان میں اللہ کی توفیق سے نیکیوں میں ترقی کیے چلے جاتے ہیں۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں بعض مفسرین نے کہاہے کہ ’سَابِق‘ اوّل وقت نماز پڑھنے والے کو کہتے ہیں اور’ مُقْتَصِد‘ وہ ہے جو متوسط درمیانے وقت میں نماز اداکرے اور ’ظَالِم‘ وہ ہے جو نماز قضا کر کے پڑھے۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ’’سَابِق‘ وہ ہے جو فرض زکوٰۃ نفلی صدقات سمیت ادا کرے اور ’مُقْتَصِد‘ وہ ہےجو صرف فرض زکوٰۃ ادا کرے اور’ظالم‘ اس کو کہتے ہیں جو زکوٰۃ ادانہ کرتا ہو۔ بعض کے نزدیک ’سابق‘ وہ ہے جس کی نیکیاں بدیوں پر غالب ہوں‘ اور ’مُقْتَصِد‘ وہ ہے جس کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں اور ’ظالم‘ وہ ہے جو کہ محرمات کا ارتکاب کرتا ہو وغیرہ۔ مذکورہ بالا مفسرین میں سے ہر ایک نے عام افراد میں سےایک ایک فرد کومثال کے طور پر ذکر کیا ہے‘ بطریق حصر نہیں کیا۔ جیسےسَابق ایک عام لفظ ہے اور اس کا اطلاق اوّل وقت نماز پڑھنے والے پر بھی ہوتا ہے اور اسی طرح فرض زکوٰۃ مع نفلی صدقات ادا کرنے والے پر بھی۔ چنانچہ ایک مفسر نے ایک نوع کا ذکر کر دیا اور دوسرے نے دوسری قسم کا ۔دونوں میں سےکسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ جو مفہوم مَیں بیان کر رہا ہوں وہی صحیح ہے اور دوسرا غلط۔ اسی طرح ظالم اُس شخص کو بھی کہتے ہیں جو فرائض و واجبات کو ضائع کرنے والا ہو اور اُس کو بھی جو محرمات کی حرمت کو توڑتا ہو۔ اس سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہےکہ مندرجہ صدر اقوال میں کسی قسم کا بھی تباین وتناقض نہیں پایا جاتا۔
اسی سے ملتا جلتا ایک اختلاف یہ بھی ہے کہ ایک مفسر کہتا ہےکہ یہ آیت فلاں واقعہ پر نازل ہوئی اور دوسرا کہتا ہے کہ فلاں واقعہ میں‘ گویا دونوں مفسر الگ الگ واقعہ کو ایک آیت کا سبب نزول ٹھہراتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس میں بھی منافات کا کوئی احتمال نہیں‘ اس لیے کہ آیت کے الفاظ میں دونوں واقعات کی گنجائش ہوتی ہے اور دونوں کو ہی آیت کا سبب نزول قرار دیا جا سکتا ہے ۔
(۳) ظاہری اختلاف یوں بھی ہوتا ہے کہ بعض الفاظ میں دویا دو سے زیادہ معانی کا احتمال ہوتا ہے‘جیسے کہ وہ لفظ مشترک ہو اور متعدد معانی کے لیے استعمال ہوتاہو۔ مثلاً ’قَسْوَرَۃ‘ کا لفظ کلام اللہ میں استعمال ہوا ہے‘ اس کے معنی تیر انداز کے بھی ہیں اور شیر کے بھی۔ اسی طرح لفظ ’عَسْعَسَ‘ استعمال ہوا ہے‘ جس کے معنی رات کا آنا بھی ہے اورجانا بھی ۔ اسی طرح ایک لفظ اصالۃً دو معانی کا متحمل ہوتا ہے مگر اس سے ایک نوع یا ایک شخصیت مراد لی جاتی ہے‘ مثلاً سورۃ النجم کی درج ذیل آیات کی ضمیریں:
{ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی(۸) فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی(۹)}
’’پھر وہ قریب ہوا اور جھکا ۔پس دو کمانوں کے بقدر فاصلہ رہ گیا بلکہ اس سے بھی کم۔‘‘
اب بعض مفسرین نے ان ضمائر کا مرجع اللہ تعالیٰ کو ٹھہرایا ہے اوربعض کے مطابق حضرت جبرائیل ؑ اس کا مصداق ہیں۔ اس قسم کی آیات میں علمائے سلف کے بیان کردہ تمام معانی مراد لیے جا سکتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ یا توآیت قرآنی دو مرتبہ نازل ہوئی ہو‘ ایک معنی کا تعلق ایک واقعہ سے ہو گا اور دوسرے کا دوسرا واقعہ کے ساتھ۔ یا اس طرح کہ وہ لفظ مشترک ہونے کے اعتبار سے دو یا دو سے زیادہ معانی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اس سے دو معانی بھی مراد لیے جاسکتے ہیں اور اس سے زیادہ بھی۔ اکثر فقہائے مالکیہ‘ شافعہ‘ حنابلہ اور بہت سے متکلمین کا نقطہ نظر یہی ہے۔
(۴) ظاہری اختلاف کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ مختلف مفسرین کسی آیت یا لفظ کامفہوم ایسے الفاظ میں بیان کریں جو باہم قریب المعنیٰ ہوں‘ لیکن بالکل مترادف(ہم معنیٰ) نہ ہوں‘ اس لیے کہ مترادفات لغت میں بہت کم اورقرآن کریم میں نادر یا معدوم ہیں۔ایسا شاذونادر ہی ہوتا ہے کہ کسی لفظ کا مفہوم ظاہر کرنے کے لیے ایسا لفظ استعمال کیا جائے جو اس کے جملہ معانی کا احاطہ کرتا ہو‘ بلکہ ہوتا یوں ہے کہ کسی لفظ کے مفہوم کی ترجمانی ایسے لفظ سے کی جاتی ہے جو اس سے قریب المعنیٰ ہوتا ہے۔ جیسے سورۃ الطور کی آیت ہے:{یَوْمَ تَمُوْرُ السَّمَاۗءُ مَوْرًا(۹)} ’’جس روز آسمان حرکت کرنے لگے گا۔‘‘ اب کوئی اس کا ترجمہ کرتے ہوئے یوں کہے کہ ’مور‘کے معنی حرکت کے ہیں‘ تو اس کا مطلب یہ ہواکہ اس نے ’مور‘ کے لفظ کی ترجمانی اس کے قریب المعنیٰ لفظ کے ذریعے کر دی ہے‘ اس لیے کہ ‘مور‘ کے معنی صرف حرکت کے نہیں بلکہ حرکت خفیفہ سریعہ کے ہیں۔ اسی طرح سورۃ الانعام میں ارشاد ہوتا ہے:{اَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌم بِمَا کَسَبَتْ ق}(آیت ۶۹)’’کہ کسی جان کو اس کے کرتوتوں کی وجہ سے قید کیاجائے۔‘‘ اب اس کی توضیح میں بعض مفسرین نے تُبْسَلَ کے معنی تُحْبَسَ(قید کیا جائے) بیان کیے ہیں اور بعض نے تُرْتَھَنَ(رہن رکھا جائے) بتائے ہیں۔ یہ تضاد نہیں بلکہ ایک لفظ کے مفہوم کو قریب المعنیٰ لفظ کے ذریعے ادا کیا گیا ہے۔
(۵) ظاہری اختلاف کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ایک ہی آیت میں ایک لفظ دو یا دو سے زیادہ قراءتوں کے مطابق پڑھا جاتا ہو ۔اب ایک مفسر ایک قراءت کے مطابق تفسیر کرتا ہو اور دوسرا مفسر دوسری قراءت کو پیش نظررکھتا ہو‘اورقاری اس کو اختلاف پرمحمول کر لے‘ حالانکہ دراصل یہ اختلاف ہے ہی نہیں۔ جیسے ابن جریر طبریؒ حضرت ابن عباس ؓسے روایت کرتے ہیں کہ سورۃ الحجر کی آیت ۱۵ میں’’سُکِّرَتْ اَبْصَارُنَا‘‘ میں ’سُکِّرَتْ‘ کے معنی ہیں ’’بند کی گئیں‘‘ اور حضرت ابن عباسؓ کا ہی دوسرا قول ہے کہ اس کا معنیٰ ’’جادو کیا گیا‘‘ ہے ۔ قتادہؒ نے اس کی توجیہہ یہ کی ہے کہ جو’’سُکِّرَتْ‘‘ مشدد پڑھتا ہے وہ اس کے معنی ’’بند کی گئیں‘‘ کرتا ہے اور جو اس لفظ کو بلاتشدید ’’سُکِرَتْ‘‘ پڑھتا ہے وہ اس کا مفہوم مسحور مراد لیتا ہے۔ اسی اختلاف کی ایک اور مثال حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سےیوں منقول ہے کہ سورۃ النساء کی آیت {اَوْلٰمَسْتُمُ النِّسَاۗءَ} (آیت۴۳)کے معنیٰ کیا عورتوں سے مباشرت کے ہیں یا صرف انہیں چھونے کے ؟ اب اگر ’’لَامَسْتُم‘‘پڑھا جائے تو اس کامفہوم مباشرت کا ہے اور اگر ’لَمَسْتُمْ‘ قراءت کی جائے تو پھر اس سے چھونے کا مفہوم مراد ہو گا۔ گویا اس مقام پرکوئی معنوی اختلاف نہیں۔
یہ ہیں وہ طرق اور وجوہ جن کے ذریعے ہم سلف سے منقول بظاہر متعارض اقوال میں اتحاد و یگانگت پیدا کرسکتے ہیں۔ اور اگربظاہر مخالف تفسیری اقوال میں مندرجہ بالا طرق کے مطابق جمع و تطبیق کا کوئی امکان نہ ہو‘ اور بقول ابن تیمیہؒ ایسا بہت کم ہوتا ہے‘ تو پھر ہمیں دیکھنا ہو گا کہ یہ باہمی اختلاف کس سے منقول ہے۔ اگر یہ دونوں متضاد اقوال ایک ہی مفسر کے ہوں اور وہ مختلف اسناد سے نقل کیے گئے ہوں جن میں سے ایک سند صحیح ہو اور دوسری ضعیف ‘ تو ایسی صورت میں صحیح سند کو ترجیح حاصل ہو گی اور دوسری متروک قرار دے دی جائے گی۔ اور اگر صحت سند میں دونوں کا درجہ مساوی ہو تو ایسی صورت میں ہمیں یہ معلوم ہو جائے کہ ایک قول دوسرے سے متاخر ہے تو پھر متاخر قول قابل ترجیح ہو گا اور دوسرا غیر مقبول ۔ اور اگرمتقدم و متاخر قول کا علم نہ ہو پائے تو پھر دیکھا جائے گا کہ راوی سے کسی قول کا سماع ثابت ہے تو وہی مقبول ہے۔ اب اگر سماع بھی ثابت نہ ہوتا ہو تو پھر ایک قول کو اگر بطریق استدلال قوی قرار دیا جا سکتا ہو تو وہ راجح ہو گا اوردوسرا مرجوح۔ اور اگر ان دونوں اقوال کے حق میں مساوی دلائل ہوں تو پھر مرادِ الٰہی پرایمان لانا چاہیے اور دونوں میں سے کسی ایک قول کے تعین اورصحیح ہونے پر زور نہیں دینا چاہیے اور نہ ہی اس بارے زیادہ بحث و مباحثہ ہو۔ اس حوالے سے امام زرکشی کا کہنا ہے کہ اگر اختلاف اقوالِ صحابہؓ کے مابین ہو اور جمع و تطبیق کا کوئی امکان بھی نہ پایا جا رہا ہو‘ تو پھر حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی رائے کو ترجیح حاصل ہو گی‘ اس لیے کہ نبی اکرم ﷺنے ان کے حق میں یہ دعا فرمائی ہے کہ اے اللہ! ان(حضرت ابن عباسؓ) کو تفسیر قرآن سکھلا دے۔(الاتقان)

(جاری ہے)