(عرض احوال) سیاسی بحران میں دینی جماعتوں کے لیے راستہ - ادارہ

7 /

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


سیاسی بحران میں دینی جماعتوں کے لیے راستہایک مسلمان کا بنیادی فریضہ ہے کہ وہ حق کے ساتھ کھڑا ہوجائے اور باطل کا نہ صرف انکار کرے بلکہ ہر برائی کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہو جائے ‘کیونکہ یہی کلمہ ٔ طیبہ کا بنیادی عملی تقاضاہے جس کے ذریعے پہلے بندہ ہر باطل کی نفی کرتاہے اور اس کے بعد اللہ پر ایمان لاتا ہے ۔ اسی کلمہ طیبہ کے دوسرے حصے میں جس رسول معظم ﷺ پر ایمان لا کر ہم مسلمان ہو جاتے ہیں اُنہی کا فرمان ہے کہ :((مَنْ رَاٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَـیِّرْہُ بِیَدِہٖ‘ فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ‘ فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ‘ وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ))(صحیح مسلم)’’تم میںسے جو کوئی کسی منکر کو دیکھے اس کا فرض ہے کہ اسے زورِ بازو سے روک‘دے۔ پس اگر اس کی طاقت نہیں ہے تو زبان سے روکے۔ پھر اگر اس کی بھی ہمت نہیں ہے تو دل میں برائی سے نفرت ضرور رکھے۔ اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ‘ہے‘‘۔صحیح مسلم ہی کی دوسری روایت میں ہے کہ:’’ اگر دل میں بھی منکر (برائی)کے خلاف نفرت نہ ہو تو ((وَلَیْسَ وَرَاءَ ذٰلِکَ مِنَ الْاِیْمَانِ حَبَّۃُ خَرْدَلٍ))’’اس کےبعد تو رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہے۔‘‘
امر بالمعروف و نہی عن المنکر ایمان کاایسا بنیادی اور لازمی تقاضا ہے جس کے بغیر باایمان اور اُمتی ہونے کا دعویٰ سچا ثابت ہو ہی نہیں سکتا ۔ظاہر ہے جب معاشرے میں کسی برائی کو برا بھی نہ محسوس کیا جانے لگے تو سمجھ لیجئے کہ ایمان ختم ہو گیا ہے ۔ اس کے بعدوہ معاشرہ اور اس کے لوگ ابلیس اور ابلیسی قوتوں کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ اب وہ جو چاہیں ان کے ساتھ کھلواڑ کریں اور جس طرح چاہیں ان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کریں ۔
ہمارا یہ ملک جو اسلام کے نام پر بنا تھاآج ابلیسی قوتوں کے رحم و کرم پرہے۔ شدید معاشی اور سیاسی بحران ہے۔ سودی قرضوں میں جکڑے ہونے کی وجہ سے ہمارے ایٹمی اثاثے ‘ قومی سلامتی اور خودمختاری سمیت ہر چیز خطرے میں ہے ۔ ملک اس حالت کو کیونکر پہنچا ؟ اس کی ہزارہا وجوہات گنوائی جاسکتی ہیں‘ لیکن اس تباہی کااصل ذمہ دار صرف ایک طبقہ کو ہی قرار دیا جا سکتاہے جو کہ حکومت میں رہا ۔ حکمرانوں میں سے بھی فوجی حکمرانوں سے جمہوری اور سول حکمران اس تباہی کےزیادہ ذمہ دار ہیں جو حکومتوں میں آنے کے لیے IMF کی شرائط پر معاہدے کرتے رہے ‘ عالمی مالیاتی اداروں کی ڈکٹیشن پر ملک دشمن پالیسیاں بناتے رہے ‘ اپنی پارٹیوں کے لیے بیرونی فنڈنگ حاصل کرتے رہے اور اقتدار حاصل کرنے اور کرسی بچانے کے لیے بیرونی آقاؤں کا ہر حکم مانتے رہے اور اس طرح ملک کو تباہی کے کنارے تک پہنچا دیا ۔
بیرونی آقاؤں کی غلامی اور باطل سے گٹھ جوڑ کا دوسرا پہلوبھی ملاحظہ فرمائیے جوکہ نہ صرف ہماری دنیوی تباہی کا باعث بنا بلکہ ہمارے ایمان ‘ نظریۂ پاکستان اوراسلام کے لیے بھی مہلک ثابت ہوا۔ وہ یہ کہ بظاہر عوام کو دھوکہ ہے کہ قانون سازی عوام کے نمائندے کرتے ہیں ‘لیکن اگر عوام کے نمائندے بھی کوئی ایسی قانون سازی کریں جو اللہ کے حکم کے منافی ہو اور اللہ کے حکم کو چھوڑ کر اس قانون کو فالو کیا جائے تو یہ بھی باطل کی پرستش کے مترادف ہے ۔ مگریہاں حقیقت کچھ اوربھی ہے جس کا اعتراف ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ میں‘‘ خود لشکر ابلیس کر رہا ہے ؎
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
تُو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن‘ اندروں چنگیز سے تاریک تر!
حقیقت میں قانون سازیاں بھی کسی اور کی ڈکٹیشن پر ہوتی رہیں ۔۱۹۶۱ء میں پاکستان میں عائلی قوانین پاس ہوئے ۔اس کا پس منظر یہ تھا کہ پاکستان کے تیسرے وزیر اعظم محمد علی بوگرہ نے۱۹۵۵ءمیںاپنی سیکرٹری عالیہ سیدی سے شادی کر لی۔ اس شادی کو بنیاد بنا کر حقوقِ نسواں کی تنظیم APWAنے محمد علی بوگرہ کے گھر کے سامنے احتجاج شروع کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے خواتین کا یہ احتجاج ملک گیر حیثیت اختیار کر گیا ۔ حالانکہ ان کا جو مطالبہ تھا وہ شریعت سے متصادم ہی نہیں بلکہ صریحاً خلاف تھا ۔ مطالبہ یہ تھا کہ ایک سے زیادہ شادیوں پر پابندی عائد کی جائے ‘حالانکہ اسلام مَردوں کو چار شادیوں کی اجازت دیتاہے ‘لیکن اللہ کے حکم کی بجائے APWAکی بات مانی گئی ‘کیونکہ اپوا کے پیچھے باطل کا خفیہ ہاتھ تھا۔ اس تحریک کے دبائومیں آ کر حکومت نے ۴ /اگست ۱۹۵۵ء کو سات رکنی کمیشن بنایا جس میں اپوا کی نمائندہ خواتین بھی شامل تھیں۔ اندازہ کیجئے کہ کمیشن کے زیادہ تر ممبران نے اسلام کی بجائے ترکی اور تنزانیہ کو مثال کے طور پر پیش کیا کہ وہاں پہلی بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی پر مکمل پابندی کا قانون موجود ہے۔ اس کمیشن نے جو سفارشات پیش کیں ان پر علماء اور دینی جماعتوںنے بھی اعتراضات اٹھائے مگر سب مخالفتوں کے باوجود مارچ ۱۹۶۱ء میں عائلی قوانین مجریہ ۱۹۶۱ء منظور اور لاگو ہو گئے۔ اس قانون کے مطابق دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کا اجازت نامہ مصالحتی کونسل میں جمع کرانا لازم ہے ۔ مصالحتی کونسل دونوں پارٹیوں کو طلب کرکے سنے گی‘ اس کے بعد اگر وہ مناسب سمجھے گی تو مرد کو دوسری شادی کی اجازت دے گی ‘ورنہ آدمی دوسری شادی نہیں کر سکتا۔ اگر کرے گا توپہلے بیوی کو فوری بقایا مہر‘ مہر غیر معجل ادا کرے گا۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ اگر آپ پہلی بیوی سے اجازت نہیں لیتے تو قانون کے مطابق آپ کو ایک سال تک قید کی سزا اور ۵ لاکھ تک جرمانہ ہو سکتا ہے‘ جیسا کہ کچھ عرصہ قبل لاہور کے ایک رہائشی کو۱۱ ماہ قید اور ۲ لاکھ ۲۵ ہزار روپے جرمانے کی سزا سنا ئی گئی۔
۲۴ /نومبر ۲۰۱۶ء کو سندھ اسمبلی میںCriminal Law (Protection of Minorities Act) کا بل پیش کیا گیا۔ اس بل کے مطابق ۱۸ سال سے کم عمر کوئی شخص بھی اسلام قبول نہیں کر سکتا۔ اگر کرے گابھی تو ۱۸سال کی عمر کو پہنچنے تک وہ سرکار کے ریکارڈ میں غیر مسلم ہی رہے گا۔۱۸ برس سے زائد عمر کا شخص اگر اسلام قبول کرے گاتو وہ ۲۱دن تک اسلام قبول کرنے کا اعلان نہیں کرسکتا۔ اس دوران اسے ’’ سیف ہاؤس ‘‘ میں مقید رکھا جائے گا ۔ اس کا مقدّمہ عدالت میں چلے گا اور عدالت اس شخص کو سمجھانے بجھانے کے لیے اس کے غیرمسلم والدین‘ دوستوں‘ رشتے داروں اور مذہبی پنڈتوں کو بھی بلائے گی جو اُسے اسلام قبول کرنے سے روکنے کے لیے سمجھائیں بجھائیں گے‘ معاشرتی دبائو ڈالیں گے۔ اگر کوئی میاں بیوی اسلام قبول کرلیں گے تو ان کے بچے اٹھارہ سال کی عمر تک غیر مسلم ہی تصوّر کیے جائیں گے۔ انہیں اس عمر سے پہلے اسلام لانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اگر والدین بچوں کو اسلام قبول کرنے پر زور دیں گے تو یہ جرم ہوگا۔اس بل کے پیچھے بھی این جی اوز کی تحریک تھی اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے بھرپور سرگرمی دکھاتے ہوئے صوبائی معاون کے ذریعے بل اسمبلی میں پیش کیا جسے سرکاری ارکان نے سات منٹ کے اندر منظور کرلیا۔ تحریک انصاف‘ مسلم لیگ (ن) ‘ایم کیو ایم سمیت کسی جماعت نے بل کی مخالفت نہیں کی اور نہ ہی اس میں کوئی ترمیم پیش کی۔ اس موقع پر صوبائی وزیر نثار کھوڑو نے ایکٹ کی منظوری کے بعد ایوان میں موجود تمام ارکان کو مبارک باد پیش کی۔ اگر چہ اس وقت کے گورنر سندھ نے اس بل پر دستخط نہیں کیے‘ یوں یہ بل عملی شکل اختیار نہیں کر سکا۔
سندھ اسمبلی میں اس بل کی منظوری میں ناکامی کے تقریباً پانچ برس بعد ایک بار پھر اس مسترد بل کو قانون بنانے کی کوشش وفاقی سطح پر کی گئی۔اگست ۲۰۲۱ء میں تحریک انصاف کی حکومت Prohibtion of Forced Religious Conversion Bill2021 کے نام سے اسی بل کا چربہ لے کر آئی۔۲۴ /اگست ۲۰۲۱ء کو حکومت نے کچھ علماء اور اسلامی نظریاتی کونسل کا ایک ان کیمرا اجلاس منعقدکیا اور اس میں اس بل کو پیش کیا۔اسلامی نظریاتی کونسل اور علماء نے اس بل کی شدید مخالفت کی جس کے نتیجہ میں بالآخر ۱۳ /اکتوبر ۲۰۲۱ء کو پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی نے اس بل کو مسترد کر دیا ۔ لیکن آپ اندازہ کیجئے کہ سندھ اسمبلی نے اسی بل کو متفقہ طور پر پاس کر دیا تھا ۔ بحیثیت مسلمان ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم اللہ کے حکم کی پیروی کر رہے ہیں یا پھرباطل کی پیروی کر رہے ہیں !
جنرل پرویز مشرف کے دور میں توہین رسالت قانون کو معطل رکھا گیا۔ جون۲۰۰۴ء میں اسلام آباد میں ایک سیمینار میں اُس نے کہا تھا کہ وہ حدود آرڈیننس اور توہین رسالت پر موت کی سزا کے قانون پر نظر ثانی کے حق میں ہے اور اس مقصد کے لیے ایک کمیشن قائم کیا جائے گا۔ اُس کے دور میں قومی اسمبلی میں ’’تحفظ ِحقوقِ نسواں بل‘‘ کے عنوان سے حدود آرڈیننس میں ترامیم کا جو مسودہ پیش ہوا‘ اس میں سب سے زیادہ زنا سے متعلق قوانین کو نشانہ بنایا گیا اور ایسی قانونی موشگافیاں پیدا کی گئیں کہ اب زنا کے کیس میں مجرم آسانی سے بَری ہو جائیں گے ۔ اس کے علاوہ حدودِ شرعیہ کے قوانین کے دیگر قوانین پر بالاتر ہونے کی دفعہ ہی حذف کر دی گئی اور بہت سی دیگر ایسی ترامیم بھی نئے مسودہ میں شامل کی گئیں جو حدود آرڈیننس کو کلیتاً غیر مؤثر بنانے کے علاوہ اور کوئی افادیت نہیں رکھتیں‘ جس کا واضح مطلب ہے کہ شرعی قوانین اب ملکی آئین میں کوئی معنی نہیں رکھتے۔ اسی طرح صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی جانب سے شریعت کے نفاذ کےلیے ۲۰۰۳ء میں ’’حسبہ بل‘‘ پیش کیا گیا تو وفاقی حکومت کی طرف سے اسے چیلنج کیا گیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اسے غیر آئینی قرار دے کر منسوخ کردیا۔
سابق وزیراعظم نواز شریف نے انتخابی اصلاحات بل ۲۰۱۷ءمیں ترمیم کے ذریعے‘ کاغذاتِ نامزدگی میں ختم نبوت پر یقین کے حلف نامے کو اقرار نامے میں تبدیل کردیا ‘ جس کا واضح مطلب تھا کہ اگر کوئی جھوٹے نبیوں کا پیروکار اقرار نامے میں خود کو مسلمان ظاہر کر کے الیکشن لڑے یا کسی اعلیٰ عہدے پر پہنچ جائے اور بعدازاں اس کا جھوٹ پکڑا بھی جائے تو اُسے کوئی سزا نہیں ہوگی‘ کیونکہ پاکستان کے آئین میں سزا حلف نامہ کی خلاف ورزی پر ہوتی ہے‘ اقرار نامہ کی خلاف ورزری پر کوئی سزا نہیں ہوتی ۔ یہ سازش سامنے آنے پر قوم کے زبردست احتجاج اور سخت عوامی ردّ ِعمل کی وجہ سے نواز حکومت کو ختم نبوت کے قانون کو سابقہ حالت میں بحال کرنا پڑا۔
وقف املاک بل ۲۰۲۰ء میں منظور کیا گیا۔ اس بل میں قرار دیا گیا ہے کہ وفاق کے زیر ِ انتظام علاقوں میں مساجد‘ مدارس‘ امام بارگاہوں کے لیے وقف زمین کے جملہ تصرفات کا انتظام حکومتی نگرانی میں چلے گا ۔اس قانون کے ذریعے دین اور دینی شعائر سے ناآشنا انتظامیہ کو دینی مراکز پر تسلط دینا درحقیقت دینی مراکز کی تباہی اور بربادی کی کوشش ہے۔
۲۱ جون ۲۰۲۱ء کو پاکستان کے ایوان بالا میں تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے باہمی اختلافات یکسر بھلا کرکے گھریلو تشددکی روک تھام کا بل منظور کیا۔ اس قانون کے تحت گھر کے کسی بھی ناراض شخص کو عدالت میں درخواست دینے کا حق حاصل ہے۔ فرض کریں اگر بیوی اور شوہر کا جھگڑ ا ہوجائے تو بیوی کی درخواست پر عدالت اسے دارالامان میں بھیج دے گی۔عدالت یہ حکم بھی جاری کر سکے گی کہ ملزم درخواست گزار سے براہِ راست یا موبائل پر بات چیت بھی نہیں کر سکتا۔ ایسے ملزم کو درخواست گزار سے دور رکھنے کے لیے اُس کے ہاتھ میں ایک کڑا پہنا دیا جائے گا جس میں ایک جی پی ایس ٹریکر لگا ہوگا تاکہ علم ہوسکے کہ ملزم کہیں عدالت کے حکم کی خلاف ورزی تو نہیں کر رہا۔ عدالت اپنے احکامات کی نگرانی کے لیے علاقے کے تھانے کے ایس ایچ او کی ذمے داری لگا سکتی ہے۔
سود کےخلاف عدالت نے ۱۹۹۱ء میں فیصلہ دے دیا ‘لیکن اس کے خلاف خود نواز حکومت نے اپیل کر دی ۔ اپیل کا فیصلہ ۱۹۹۹ءمیں آیا جو کہ پہلے فیصلے کے حق میں تھا ۔ لیکن اس کے بعد پھر حکومتی سطح پر کیس کو الجھا دیا گیا اور آخر تنظیم اسلامی ‘ جماعت اسلامی اور علماء کی کوششوں سے ۲۰۲۲ء میں وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خلاف فیصلہ دے دیا ۔
ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں کہ ہمارے حکمرانوں خصوصاً سیاسی جماعتوں نے باطل کی دکٹیشن اور پیروی کی وجہ سے نہ صرف ہمارے ملک بلکہ ہمارے ایمان ‘ نظریۂ پاکستان اور دین ِاسلام سے بھی کھلواڑ کیا۔چنانچہ اس پوری صورتِ حال میں مذہبی طبقے اور دینی جماعتوں کے لیے لائحۂ عمل واضح تھا کہ وہ باطل کی پیروی کرنے والی اور بیرونی آقاؤں کی ڈکٹیشن پر چلنے والی نام نہاد جمہوری پارٹیوں اور سیاستدانوں سے الگ ہو جاتے ‘ کلمہ اور دین کی بنیاد پرخود بھی اپنا الگ راستہ اختیار کرتےاور عوام کے اندر بھی اس حوالے سے شعور وآگاہی کی مہم چلاتے ۔نیز تمام تر سیاسی اور معاشی بحرانوں کا ذمہ دار ان سیکولر اور باطل کی پیروی کرنے والوں کو ٹھہرا کر عوام کی توجّہ اسلام کے نظامِ عدلِ اجتماعی کی طرف دلاتے اور ان کے اندر نفاذِ اسلام کی ضرورت اور اہمیت کا احساس جگاتے۔ لیکن بدقسمتی سے مذہبی اور دینی طبقے کا بھی ایک بہت بڑا حصّہ ان نام نہاد جمہوری پارٹیوں اور کٹھ پتلی سیاستدانوں کے سحر میں گرفتار رہا جس کے نتیجہ میں باطل اور برائی کو مزید طاقت ملی اور ہمارا ملک اور معاشرہ تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ۔
اب اس تباہی سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ مذہبی اور دینی طبقہ اپنے اس طرزِعمل پر توبہ و استغفار کرے اور باطل کی پیروی کرنے والی سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں سے الگ ہو کر خالص دینی بنیادوں پر تحریک چلائیں توانہیں کامیابی ملے گی‘ جیسا کہ جب جب دینی جماعتوں نے خلافِ اسلام قانون سازیوں کے خلاف تحریک چلائی ہے تو وہ کامیاب ہوئی۔ قادیانیوں کے خلاف تحریک چلائی تو وہ کامیاب ہوئی۔ اسی طرح سود کے خلاف مہم میں انہیں عدالتی سطح پر اللہ نے کامیابی دی ہے ۔ اس لحاظ سے دینی جماعتوں کے بارے میں ایک بات برملا کہی جا سکتی ہے کہ اگرچہ وہ پاکستان میں اسلامی نظام کے حوالے سے کوئی مثبت پیش رفت نہیں کر سکیں‘ البتہ بیرونی دشمنوں اور اُن کے اشاروں پر چلنے والی این جی اوز نے جب بھی پاکستان میں خلافِ اسلام قوانین رائج کرانے کی کوشش کی تو ایسی ہر کوشش دینی جماعتوں کی مزاحمت سے اکثر و بیشتر ناکام ہوئی ۔منکر کے خلاف تحریک ہی وہ واحد راستہ ہے جس پر اگر دینی طبقہ اور دینی جماعتیں چل پڑیں تو کلمہ طیبہ اور ایمان کا تقاضا بھی پورا ہوگا ‘ اللہ کی مدد بھی آئے گی ‘ نفاذ ِاسلام کی جدّوجُہد میں بھی کامیابی حاصل ہوگی‘ ملک میں استحکام اور بہتری بھی آئے گی اور نظریۂ پاکستان کی بھی تکمیل ہوگی ۔