(بیان القرآن) دورۂ ترجمۂ قرآن سُوْرَۃُ الْمُنٰـفِقُوْن - ڈاکٹر اسرار احمد

7 /

دورۂ ترجمۂ  قرآن سُوْرَۃُ الْمُنٰـفِقُوْن
ڈاکٹر اسرار احمدتمہیدی کلمات

زیر مطالعہ مدنی سورتوں کے گروپ میں چوتھا جوڑا سورۃ المنافقون اور سورۃ التغابن پر مشتمل ہے۔ ان میں سورۃ المنافقون کے آغاز میں تسبیح کا ذکر نہیں ہے جبکہ سورۃ التغابن کا آغاز تسبیح سے ہو رہا ہے۔ جہاں تک ان سورتوں کے مضامین کا تعلق ہے ‘سورۃ المنافقون میں نفاق اور منافقین کا تذکرہ ہے‘ جبکہ سورۃ التغابن کا بنیادی موضوع ایمان ہے۔ جیسا کہ قبل ازیں بھی وضاحت کی جا چکی ہے ‘قرآن مجید کے وہ موضوعات جو طویل سورتوں میں تفصیل سے بیان ہوئے ہیں ان کا خلاصہ مختصر سورتوں میں دے دیا گیا ہے۔ نفاق اور ایمان کا تعلق بھی ایسے ہی موضوعات سے ہے۔ نفاق کا ذکر تمام مدنی سورتوں میں ملتا ہے‘کہیں ڈھکے چھپے انداز میں اور کہیں کھلم کھلا۔ سورۃ النساء اور سورۃ التوبہ میں یہ موضوع اس لحاظ سے خصوصی طور پرنمایاں ہے۔ اسی طرح ایمان کا موضوع پورے مکّی قرآن میں پھیلا ہواہے ‘بلکہ اس بحث کے خاص خاص نکات کہیں کہیں مدنی سورتوں کے اندر بھی آ گئے ہیں۔ جیسے سورۃ البقرۃ کی آیت الآیات (آیت۱۶۴) اور آیت الکرسی (آیت ۲۵۵) اس موضوع پر انتہائی جامع آیات ہیں۔ اس حوالے سے زیر مطالعہ دو سورتوں کی اہمیت یہ ہے کہ ان میں قرآن مجیدکے ان دو اہم موضوعات پر طویل بحثوں کا خلاصہ سمو دیا گیا ہے۔ چنانچہ یہ دونوں سورتیں اپنے اپنے موضوع پر قرآن کی جامع ترین سورتیں ہیں۔
اس سورت کے باقاعدہ مطالعہ سے پہلے نفاق کے بارے میں چند اہم نکات کا تذکرہ ضروری ہے۔یہ نکات اگرچہ قبل ازیں بھی کئی مرتبہ زیربحث آ چکے ہیں‘لیکن موضوع کے حوالے سے یہاں انہیں ایک مرتبہ پھر سے دُہرالینا مفید رہے گا۔ اس ضمن میں پہلی بات تو یہ ہے کہ بنیادی طور پر نفاق کی دو قسمیں ہیں: شعوری نفاق اور غیر شعوری نفاق۔ شعوری نفاق یہ ہے کہ کوئی شخص سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اہل ِایمان کو دھوکہ دینے کے لیے ایمان کا اقرار کرے۔ ایسا شخص توگویاشروع سے ہی منافق ہے اور اسے ایک لمحے کے لیے بھی ایمان نصیب نہیں ہوا۔ایسے منافقین کا ذکر سورئہ آل عمران کی آیت ۷۲ میں آیا ہے۔ وہ لوگ باقاعدہ ایک سازش کے تحت صبح کے وقت ایمان لانے کا ڈھونگ رچاتے تھے اور شام کو اسلام سے پھر جانے کا اعلان کر دیتے تھے ‘تاکہ اسلام کی ساکھ کونقصان پہنچا سکیں۔ظاہر ہے ان کے دلوں میں تو ایمان ایک لمحے کے لیے بھی داخل نہیں ہوتا تھا۔ ایسے لوگوں کی کیفیت سورۃ المائدۃ کی آیت ۶۱ میں یوں بیان کی گئی ہے : {وَقَدْ دَّخَلُوْا بِالْکُفْرِ وَھُمْ قَدْ خَرَجُوْا بِہٖ ط} کہ وہ کفر کے ساتھ اسلام میں داخل ہوئے اور کفر کے ساتھ ہی نکل گئے۔ بہرحال یہ شعوری نفاق کی مثال ہے۔ عملی طور پر اس قسم کے منافقین بہت کم پائے جاتے تھے۔
اس کے برعکس غیر شعوری نفاق کی مثال یوں سمجھیں کہ ایک شخص کے پاس اسلام کی دعوت پہنچی۔ اُس کے دل نے اس کی تصدیق کی اور وہ اس دعوت پر لبیک کہتے ہوئے ایمان لے آیا۔ لیکن بنیادی طور پر وہ چونکہ ایک کم ہمت شخص تھا‘ اس لیے ایمان کے عملی تقاضے پورے کرنے اور انقلاب کے راستے کی آزمائشوں کا سامنا کرنے سے گھبراتا رہا۔ خاص طور پر جب باقاعدہ تصادم کا مرحلہ آیا اور اہل ِ ایمان سے تقاضا ہوا کہ وہ اپنی نقد ِجان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں آجائیں تو ایسے کمزور لوگوں کی جان پر بن گئی۔ اب ان میں سے کچھ لوگ تو اپنی کم ہمتی کے باوجود بھی سچّے دل سے مسلمانوں کے ساتھ چمٹے رہے ۔اس طرح کہ کبھی کوئی اچھا کام کر لیا تو کبھی کوئی نافرمانی بھی ہو گئی۔ کبھی کسی تقاضے پر لبیک بھی کہہ لیا تو کہیں بہانہ بنا کر کھسک بھی گئے‘ لیکن جب جوابدہی ہوئی تو اپنی غلطی کو تسلیم کر کے خود کو سزا کے لیے پیش کر دیا ۔ سورۃ التوبہ میں ایسے لوگوں کے کردار کی کیفیت {خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّاٰخَرَ سَیِّئًاط} (آیت ۱۰۲)کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔ جن لوگوں کا معاملہ یہیں تک رہا کہ ان سے جب بھی کوئی کوتاہی ہوئی انہوں نے صاف گوئی سے اسے تسلیم کر لیا اور کوئی بہانہ نہ بنایاتو وہ نفاق سے بَری رہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ ضعف ِایمان کے درجے میں تھے۔
البتہ ایسے معاملے میں اکثر انسان کی نام نہاد عزّتِ نفس آڑے آ جاتی ہے : {وَاِذَا قِیْلَ لَہُ اتَّقِ اللہُ اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بِالْاِثْمِ} (البقرۃ:۲۰۶) یعنی جب انسان کو اللہ سے ڈرنے کا کہا جاتا ہے تو اس کی عزّت ِنفس کی عصبیت اسے نافرمانی کی طرف گھسیٹ لے جاتی ہے‘ کہ دیکھو تم ایک عزّت دار آدمی ہو ‘اپنی زبان سے خود ہی اپنی غلطیاں تسلیم کر کر کے کب تک لوگوں کی نظروں میں ذلیل ہوگے؟ بس بہت ہو گئی‘ اب اس کے بعد یہ نہیں چلے گا! چنانچہ جو شخص اپنے نفس کے اس بہکاوے میںآ کرخداخوفی کی حد پار کر گیا اور اپنی غلطیاں چھپانے کے لیے جھوٹے بہانوں پر اُتر آیا اُس نے گویا نفاق کی سرحدمیں پہلا قدم رکھ دیا۔ بس یہ پہلا قدم رکھنے کی ہی دیر تھی‘ اب یوں سمجھئے کہ وہ جھوٹ کی دلدل میں پھنس گیا۔ اس کے بعد وہ جو قدم بھی اٹھائے گا وہ اس کے لیے اس دلدل میں مزید نیچے دھنستے جانے کا ہی سبب بنے گا ۔ صبح جھوٹ‘ دوپہر جھوٹ‘ شام جھوٹ ‘بلکہ بات بات پر جھوٹ۔پھر ایسا شخص جب دیکھتا ہے کہ اس کے جھوٹ بولنے اور جھوٹے بہانے بنانے پر لوگ معنی خیز انداز میں مسکراتے ہیں تو وہ اپنے جھوٹے بہانوں کو سچا ثابت کرنے کے لیے جھوٹی قسموں کا سہارا لینا شروع کر دیتاہے۔ اگر نفاق کے مرض کو ٹی بی کے مہلک مرض سے تشبیہہ دیں تو قسموں کے اس مرحلے سے جان لینا چاہیے کہ اب متعلقہ شخص کا مرض دوسرے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔
جب قسموں کو تکیہ کلام بنا لینے سے اس کی اصل حقیقت سب پر عیاں ہونے لگتی ہے اور اسے خود بھی احساس ہونے لگتا ہے کہ لوگوں نے اس پر اعتماد کرنا چھوڑ دیا ہے تو ردّ ِعمل کے طور پر اس کے دل میں ایمان اور اہل ِایمان کے خلاف شدید نفرت اور دشمنی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس دشمنی کا اصل ہدف اہل ِایمان کے قائد کی شخصیت بنتی ہے‘جیسے منافقین ِمدینہ محمد رسول اللہﷺ کے بارے میں اکثر ہرزہ سرائی کرتے رہتے تھے کہ دیکھیں مدینہ میں سب لوگ آرام و سکون سے رہ رہے تھے۔ اس ایک شخص (ﷺ) کے آجانے سے ہمارے لیے طرح طرح کے مسائل کھڑے ہوگئے ہیں‘ اس(ﷺ) نے بھائی کو بھائی سے جدا کر دیا ہے‘ خاندانوں میں کبھی نہ ختم ہونے والی رنجشیں پیدا کر دی ہیں۔ اسی(ﷺ) کی وجہ سے یہودی قبائل کے ساتھ ہمارے حلیفانہ تعلقات ختم ہو کر رہ گئے ہیں اور پورے عرب سے ہمیں لڑائی اںمول لینا پڑی ہیں۔ بہرحال جب یہ مرحلہ آ جائے تو سمجھ لیں کہ اب یہ مرض تیسری اور آخری سٹیج میں داخل ہو گیا ہے۔ کسی زمانے میں ٹی بی کے بارے میں یہی سمجھا جاتا تھا کہ تیسری سٹیج پر پہنچ کر یہ مرض لاعلاج ہو جاتا ہے۔
اس بارے میں ایک اہم بات یہ بھی جان لیجیے کہ منافقین صرف انقلابی تحریک کی صفوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس لیے آج ہمارے معاشرے کے جو لوگ دین کے تحریکی اور انقلابی تصوّر سے آشنا ہی نہیں وہ ضعیف الایمان تو ہو سکتے ہیں منافق نہیں ۔ کیونکہ ان بے چاروں کو تو دین کا صحیح تصوّر دیا ہی نہیں گیا۔ انہیں تو مولویوں اور ان کے پیروں نے یہی بتایا ہے کہ دین بس نماز روزہ ہی کا نام ہے اور اگر رمضان میں لیلۃ القدر کی عبادت نصیب ہو گئی تو سمجھو زندگی بھر کے تمام گناہ دُھل گئے ۔اور جس نے حج یا عمرہ کر لیا وہ گناہوں سے بالکل ہی پاک ہو گیا ‘چاہے اس نے ساری عمر حرام خوریوں میں ہی کیوں نہ گزاری ہو۔اب جس مسلمان کے ذہن میں دین کا یہ تصوّر ہو اس بے چارے کو منافقت سے کیا لینا دینا۔ منافقت تو وہاں جنم لیتی ہے جہاں قدم قدم پر تکلیفوں اور آزمائشوں کے پہاڑ عبور کرنے پڑتے ہیں۔ جہاں دین اپنے نام لیوائوں سے ان کے عیش و آرام اور جان و مال کی قربانیاں مانگتا ہے۔چنانچہ اگر کوئی شخص دین کے تحریکی اور انقلابی فلسفے کو اچھی طرح سے سمجھ لے اور اقامت ِ دین کی جدّوجُہد کو فرضِ عین سمجھتے ہوئے کسی حقیقی انقلابی جماعت یا تحریک میں شمولیت اختیار کر لے اور پھر اس کے بعد امیر کے ڈانٹنے کی وجہ سے یا ایثار و قربانی کے تقاضوں سے گھبرا کر یا ایسی ہی کسی دوسری وجہ سے پیچھے ہٹ جائے تو وہ مرضِ نفاق کا شکار ہو جائے گا۔ البتہ اگر اس کے پیچھے ہٹنے کی وجہ کچھ اور ہو ‘مثلاً اس کو وہ تحریک اپنے مقصد سے ہٹتی ہوئی محسوس ہو یا تحریک کے طریق کار سے اسے اصولی اختلاف ہو جائے یا قائدین کے کردار میں اسے واضح خامیاں نظر آئیں تو یہ دوسری بات ہے۔ ایسی کسی صورت میں اگر وہ اس تحریک یا تنظیم کو چھوڑ دے گا تو وہ نفاق کا مرتکب نہیں ہو گا۔ لیکن ایسی صورت میں بھی وہ کسی مخصوص جماعت کو تو چھوڑ سکتا ہے‘ اقامت ِدین کی جدّوجُہد کو ترک کر کے نہیں بیٹھ سکتا۔ اقامت ِدین کی ضرورت‘ اہمیت اور فرضیت کو ایک دفعہ سمجھ لینے کے بعد اب اس جدّوجُہد کو جاری ر کھنا اُس پر فرض ہے ‘چاہے یہ فرض وہ کسی دوسری جماعت میں شامل ہو کر ادا کرے یا ا س مقصد کے لیے خود کوئی نئی جماعت تشکیل دے ۔ اس حوالے سے ہمیں حضورﷺ کے اس فرمان سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ فجر اور عشاء کی نماز باجماعت میں شریک نہ ہونے والوں کے بارے میں آپﷺ نے فرمایا:
((اِنَّ اَثْقَلَ صَلَاۃٍ عَلَی الْمُنَافِقِیْنَ صَلَاۃُ الْعِشَاءِ وَصَلَاۃُ الْفَجْرِ‘ وَلَـوْ یَعْلَمُوْنَ مَا فِیْھِمَا لَاَتَوْھُمَا وَلَــوْ حَبْوًا ‘ وَلَقَدْ ھَمَمْتُ اَنْ آمُرَ بِالصَّلَاۃِ فَتُقَامَ ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَیُصَلِّیَ بِالنَّاسِ ثُمَّ أَنْطَلِقَ مَعِی بِرِجَالٍ مَعَھُمْ حُزَمٌ مِنْ حَطَبٍ اِلٰی قَوْمٍ لَا یَشْھَدُوْنَ الصَّلَاۃَ فَاُحَرِّقَ عَلَیْھِمْ بُیُوْتَھُمْ بِالنَّارِ))
(صحیح مسلم‘ کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ‘ باب فضل صلاۃ الجماعۃ …‘ ح:۶۵۱ ۔ یہ حدیث صحیح بخاری اور دیگر کتب ِحدیث میں متعدد مقامات پر کم و بیش الفاظ کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔)
’’منافقوں پر سب سے بھاری نماز عشاء اور فجر کی نماز (باجماعت) ہے۔ اگر یہ ان دونوں نمازوں کی اہمیت کو جان جائیں تو ان میں شرکت کے لیے ضرور آئیں خواہ انہیں گھٹنوں کے بل آنا پڑے۔ اورمَیں نے‘تو پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ نماز کھڑی کرنے کا حکم دوں‘ پھر کسی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے‘ پھر ایسے لوگوں کی طرف جائوں جو نماز (باجماعت) میں شریک نہیں ہوتے اور میرے ہمراہ ایسے ساتھی ہوں جن کے پاس لکڑیوں کے گٹھے ہوں اور میں جماعت میں نہ پہنچنے والوں کے گھروں کو اُن کے سمیت آگ سے جلا دوں۔‘‘
اگر جماعت سے نماز نہ پڑھنے والوں پر حضورﷺ کی ناراضی کا یہ عالم ہے تو جماعتی نظم کو ترک کر کے زندگی گزارنے کے انجام کا ہمیں خود اندازہ کر لینا چاہیے۔

آیات ۱ تا ۸

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اِذَا جَاۗءَکَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْہَدُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللہِ ۘ وَاللہُ یَعْلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُہٗ ۭ وَاللہُ یَشْھَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَکٰذِبُوْنَ (۱) اِتَّخَذُوْٓا اَیْمَانَہُمْ جُنَّۃً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللہِ ۭ اِنَّہُمْ سَاۗءَ مَا کَانُوْایَعْمَلُوْنَ (۲)ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا فَطُبِعَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ فَہُمْ لَا یَفْقَہُوْنَ (۳)وَاِذَا رَاَیْتَہُمْ تُعْجِبُکَ اَجْسَامُہُمْ ۭ وَاِنْ یَّقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِھِمْ ۭ کَاَنَّھُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ ۭ یَحْسَبُوْنَ کُلَّ صَیْحَۃٍ عَلَیْھِمْ ۭ ھُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْھُمْ ۭ قٰتَلَھُمُ اللہُ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ (۴)وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا یَسْتَغْفِرْلَکُمْ رَسُوْلُ اللہِ لَوَّوْا رُءُوْسَھُمْ وَرَاَیْتَھُمْ یَصُدُّوْنَ وَھُمْ مُّسْتَکْبِرُوْنَ (۵)سَوَاۗءٌ عَلَیْھِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَہُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ ۭ لَنْ یَّغْفِرَ اللہُ لَہُمْ ۭ اِنَّ اللہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ (۶)ھُمُ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ لَا تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللہِ حَتّٰی یَنْفَضُّوْا ۭ وَلِلّٰہِ خَزَاۗئِنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلٰکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَفْقَھُوْنَ (۷)یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَّجَعْنَآ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْھَا الْاَذَلَّ ۭ وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ(۸)

آیت ۱{اِذَا جَآئَ کَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْہَدُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللہِ م}’’(اے نبیﷺ!) جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں : ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں ۔‘‘
{وَاللہُ یَعْلَمُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُہٗ ط} ’’ اور اللہ جانتا ہے کہ یقیناًآپ اُس کے رسول ہیں۔‘‘
{وَاللہُ یَشْہَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَــکٰذِ بُوْنَ(۱)}’’اوراللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافقین یقیناً جھوٹے ہیں۔‘‘
یعنی آپؐ کی رسالت کی گواہی یہ لوگ صرف اپنی زبانوں سے دیتے ہیں ‘ان کے دل اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے‘ اس لیے یہ لوگ جھوٹے (کٰذِبُوْنَ) ہیں۔ جیسا کہ تمہیدی کلمات میں ذکر ہوا ہے بات بات پر جھوٹ بولنا مرضِ منافقت کی پہلی سٹیج ہے۔
آیت۲ {اِتَّخَذُوْٓا اَیْمَانَہُمْ جُنَّۃً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللہِ ط}’’انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے اور یہ اللہ کے راستے سے رُک گئے ہیں۔‘‘
جہاد و قتال سے بچنے کے لیے یہ لوگ قسمیں کھا کھا کر جھوٹے بہانے بناتے تھے کہ اللہ کی قسم میری بیوی سخت بیمار ہے‘ گھر میں کوئی دوسرا اس کی دیکھ بھال کرنے والا بھی نہیں ‘وغیرہ وغیرہ۔ جب نوبت قسموں تک پہنچ گئی تو گویا مرض دوسری سٹیج میں داخل ہو گیا۔
{ اِنَّہُمْ سَآئَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۲)}’’بہت ہی بُرا کام ہے جو یہ لوگ کررہے ہیں۔‘‘
آیت ۳{ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا} ’’یہ اس وجہ سے ہے کہ یہ لوگ ایمان لائے پھر کافر ہو گئے‘‘
یعنی ان کی منافقت شعوری نہیں ہے کہ وہ بدنیتی سے دھوکہ دینے کے لیے ایمان لائے ہوں۔ دین ِاسلام کی دعوت جب ان لوگوں تک پہنچی تھی تو ان کی فطرت نے گواہی دی تھی کہ یہ سچ اور حق کی دعوت ہے اور اُس وقت وہ نیک نیتی سے ایمان لائے تھے۔ کچھ دیر کے لیے انہیں ایمان کی دولت نصیب ہوئی تھی ‘لیکن ایمان لاتے وقت انہیں معلوم نہیں تھا کہ ع ’’یہ شہادت گہ ِ اُلفت میں قدم رکھنا ہے‘‘۔اہل ِایمان کے لیے اللہ تعالیٰ کا واضح حکم ہے : {وَلَـنَـبْلُوَنَّــکُمْ بِشَیْ ئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط} (البقرۃ:۱۵۵) کہ ہم تمہیں کسی قدر خوف‘ بھوک اور مال و جان کے نقصانات جیسی سخت آزمائشوں سے ضرور آزمائیں گے۔ لیکن منافقین کو اس صورتِ حال کا اندازہ نہیں تھا۔
منافقین ِمدینہ میں بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جو اپنے قبیلے کے سردار کے پیچھے ایمان لے آئے تھے۔ جیسے اوس اور خزرج کے قائدین ایمان لے آئے تو پورا پورا قبیلہ مسلمان ہو گیا۔ انہیں کیا پتا تھا کہ عملی طور پر ایمان کے تقاضے کیا ہیں۔ وہ تو برف کے تودے کی اوپری سطح (tip of the iceberg) ہی کو دیکھ رہے تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ اس تودے کے نیچے کیا ہے۔ بہرحال ایسے لوگ ایمان تو سچّے دل سے لائے تھے‘ لیکن ان کا ایمان تھا کمزور۔ اسی لیے تکلیفیں اور آزمائشیں دیکھ کر ان کے پائوں لڑکھڑاگئے۔ البتہ ضعیف الایمان مسلمانوں میں بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جو اپنی تمامتر کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود ایمان کے دامن سے وابستہ رہے۔ ان سے جب کوئی کوتاہی ہوئی تو انہوں نے اس کا اقرار بھی کیا اور اس کے لیے وہ معافی کے طلب گار بھی ہوئے۔ سورۃ التوبہ میں ان لوگوں کا ذکر گزر چکا ہے اور وہاں ان کے ضعف ِایمان کا علاج بھی تجویز کر دیا گیا: {خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیْہِمْ بِہَا وَصَلِّ عَلَیْہِمْ ط}(التوبۃ:۱۰۳) ’’ان کے اموال میں سے صدقات قبول فرما لیجیے‘اس (صدقے) کے ذریعے سے آپؐ انہیں پاک کریں گے اور ان کا تزکیہ کریں گے ‘ اوران کے لیے دعا کیجیے‘‘۔ یعنی انفاق فی سبیل اللہ سے ان کے ایمان کی کمزوری دور ہو جائے گی۔ بہرحال جولوگ ایک دفعہ ایمان لانے کے بعد مشکلات سے گھبرا کر ایمان کے عملی تقاضوں سے جی چرانے لگے اور اپنی اس خیانت کو جھوٹے بہانوں سے چھپانے لگے وہ منافقت کی راہ پر چل نکلے۔
{فَطُبِعَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ فَہُمْ لَا یَفْقَہُوْنَ(۳)} ’’ تو ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی‘ پس یہ سمجھنے سے عاری ہو گئے۔‘‘
ان کی منافقانہ روش کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی۔ چنانچہ اب ان کی سمجھ بوجھ کی صلاحیت مفقود ہو چکی ہے اور یہ حقیقی تفقہ سے عاری ہو چکے ہیں۔
آیت۴ {وَاِذَا رَاَیْتَہُمْ تُعْجِبُکَ اَجْسَامُہُمْ ط} ’’(اے نبیﷺ!) جب آپ انہیں دیکھتے ہیں تو ان کے جسم آپ کو بڑے اچھے لگتے ہیں۔‘‘
جسمانی طور پر ان کی شخصیات بڑی دلکش اور متاثر کن ہیں۔
{وَاِنْ یَّـقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِہِمْ ط} ’’اور اگر وہ بات کرتے ہیں تو آپؐ ان کی بات سنتے ہیں۔‘‘
ظاہر ہے یہ لوگ سرمایہ دار بھی تھے اور معاشرتی لحاظ سے بھی صاحب ِحیثیت تھے۔ اس لحاظ سے ان کی گفتگو ہر فورم پر توجّہ سے سنی جاتی تھی۔
{کَاَنَّہُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌط}’’(لیکن اصل میں) یہ دیوار سے لگائی ہوئی خشک لکڑیوں کی مانند ہیں۔‘‘
حقیقت میں ان لوگوں کی حیثیت ان خشک لکڑیوں کی سی ہے جو کسی سہارے کے بغیر کھڑی بھی نہیں ہو سکتیں اور انہیں دیوار کی ٹیک لگا کر کھڑا کیا جاتا ہے۔
{یَحْسَبُوْنَ کُلَّ صَیْحَۃٍ عَلَیْہِمْ ط} ’’یہ ہر زور کی آواز کو اپنے ہی اوپر گمان کرتے ہیں۔‘‘
اندر سے یہ لوگ اس قدر بودے اور بزدل ہیں کہ کوئی بھی زور کی آواز یا کوئی آہٹ سنتے ہیں تو ان کی جان پر بن جاتی ہے ۔یہ ہر خطرے کو اپنے ہی اوپر سمجھتے ہیں اور ہر وقت کسی ناگہانی حملے کے خدشے یا جہاد و قتال کے تقاضے کے ڈر سے سہمے رہتے ہیں۔
{ہُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْہُمْ ط} ’’(آپؐ کے) اصل دشمن یہی ہیں‘ آپ ان سے بچ کر رہیں!‘‘
یہ ان کے مرضِ نفاق کی تیسری سٹیج کا ذکر ہے۔ ان کی دشمنی چونکہ دوستی کے پردے میں چھپی ہوتی ہے اس لیے یہاں خصوصی طور پر ان سے ہوشیار رہنے کی ہدایت کی جا رہی ہے کہ اے نبیﷺ! یہ لوگ آستین کے سانپ ہیں۔ مشرکینِ مکّہ کے لشکر آپ لوگوں کے لیے اتنے خطرناک نہیں جتنے یہ اندر کے دشمن خطرناک ہیں۔ لہٰذا آپؐ ان کو ہلکا نہ سمجھیں اور ان سے ہوشیار رہیں۔ ایسی صورت حال کے لیے حضرت مسیحؑ کا یہ قول بہت اہم ہے کہ ’’فاختہ کی مانند بے ضرر لیکن سانپ کی طرح ہوشیار رہو‘‘ ۔منافقین اگرچہ حضورﷺ سے دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے‘ لیکن حضورﷺ کی شان یہی تھی کہ آپؐ ان کی غلطیاں اور گستاخیاں مسلسل نظرانداز فرماتے رہتے تھے‘ بلکہ آپؐ اپنی طبعی شرافت اور مروّت کی وجہ سے ان کے جھوٹے بہانے بھی مان لیتے تھے۔ یہاں تک کہ غزوئہ تبوک کی تیّاری کے موقع پر جب آپﷺ نے بہت سے منافقین کو جھوٹے بہانوں کی وجہ سے پیچھے رہ جانے کی اجازت دے دی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہہ آگئی: {عَفَا اللہُ عَنْکَ ج لِمَ اَذِنْتَ لَہُمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَتَعْلَمَ الْکٰذِبِیْنَ(۴۳)} (التوبۃ) ’’(اے نبیﷺ!) اللہ آپ کومعاف فرمائے (یا اللہ نے آپ کو معاف فرمادیا) آپ نے انہیں کیوں اجازت دے دی؟ یہاں تک کہ آپ کے لیے واضح ہوجاتا کہ کون لوگ سچّے ہیں اور آپ (یہ بھی) جان لیتے کہ کون جھوٹے ہیں!‘‘
{قَاتَلَہُمُ اللہُ ز اَنّٰی یُؤْفَـکُوْنَ(۴)} ’’اللہ ان کو ہلاک کرے ‘ یہ کہاں سے پھرائے جارہے ہیں!‘‘
تصوّر کیجیے یہ لوگ کس قدرقابل ِرشک مقام سے ناکام و نامراد لوٹے ہیں! ان کو نبی آخر الزماںﷺ کا زمانہ نصیب ہوا‘ آپؐ کی دعوتِ ایمان پر لبیک کہنے کی توفیق ملی‘آپؐ کے قدموں میں بیٹھنے کے مواقع ہاتھ آئے۔ کیسی کیسی سعادتیں تھیں جو ان لوگوں کے حصّے میں آئی تھیں۔ بقول ابراہیم ذوق : ع ’’یہ نصیب اللہ اکبر! لوٹنے کی جائے ہے‘‘ ۔مگر دوسری طرف ان کی بدنصیبی کی انتہا یہ ہے کہ یہاں تک پہنچ کر بھی یہ لوگ نامراد کے نامراد ہی رہے۔ مقامِ عبرت ہے ! کس بلندی پر پہنچ کر یہ لوگ کس اتھاہ پستی میں گرے ہیں : ؎
قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند
دو چار ہاتھ جب کہ لب ِبام رہ گیا!
آیت ۵ {وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا یَسْتَغْفِرْ لَــکُمْ رَسُوْلُ اللہِ} ’’اورجب ان سے کہا جاتا ہے کہ آئو (اپنی غلطی مان لو) تاکہ اللہ کے رسولؐ تمہارے لیے استغفار کریں ‘‘
ظاہر ہے ان کے دلوں میں تو نبی اکرمﷺ کے خلاف بغض اور عناد پیدا ہو چکا تھا تو ان حالات میں وہ کیسے آتے اور کیونکر اپنی غلطی تسلیم کرتے؟
{لَوَّوْا رُئُ وْسَہُمْ} ’’تو وہ اپنے سروں کو مٹکاتے ہیں‘‘
کہ ہاں ہاں ! ٹھیک ہے ہم آئیں گے‘ ضرور آئیں گے۔
{وَرَاَیْتَہُمْ یَصُدُّوْنَ وَہُمْ مُّسْتَکْبِرُوْنَ(۵)} ’’اور آپ انہیں دیکھتے ہیں کہ وہ رک جاتے ہیں تکبّر کرتے ہوئے۔‘‘
ان کے دلوں میں چونکہ تکبّر ہے ‘اس لیے وہ آپؐ کے پاس آ کر معافی مانگنے کو اپنی ہتک سمجھتے ہیں کہ دیکھیں جی آخر ہماری بھی کوئی عزّت ہے‘ اب کون روز روز وہاں جا کر مجرموں کی طرح اقبالِ جرم کرے اور ڈانٹ سنے!
آیت ۶{سَوَآئٌ عَلَیْہِمْ اَسْتَغْفَرْتَ لَہُمْ اَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ ط} ’’(اے نبیﷺ!) ان کے لیے برابر ہے کہ آپ ان کے لیے استغفار کریں یا ان کے لیے استغفار نہ کریں۔‘‘
{ لَنْ یَّغْفِرَ اللہُ لَہُمْ ط} ’’اللہ ان کو ہرگز معاف نہیں کرے گا۔‘‘
یہی مضمون اس سے زیادہ سخت الفاظ میں سورۃ التوبہ میں بھی آ چکا ہے۔ وہاں ان لوگوں کے بارے میں فرمایا گیا: {اِسْتَغْفِرْ لَہُمْ اَوْلَا تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ ط اِنْ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللہُ لَہُمْ ط}(آیت ۸۰) ’’(اے نبیﷺ!) آپ خواہ ان کے لیے استغفار کریں یا ان کے لیے استغفار نہ کریں۔اگر آپ ستر مرتبہ بھی ان کے لیے استغفار کریں گے تب بھی اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں فرمائے گا‘‘۔ لیکن حضورﷺ کی نرم دلی اور مروّت کی اپنی شان ہے۔ آپؐ نے اس آیت کے نزول کے بعد ایک موقع پر مسکراتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا: ((لَـوْ اَعْلَمُ اَنِّی اِنْ زِدْتُ عَلَی السَّبْعِیْنَ غُفِرَ لَـہٗ لَزِدْتُ عَلَیْھَا))(احکام الجنائز للالبانی ‘ ح:۱۲۱‘ راوی : عمر بن الخطابؓ) ’’اگر مجھے معلوم ہوتاکہ ستر سے زیادہ مرتبہ استغفار کرنے سے اس کی معافی ہو سکتی ہے تو مَیں اس پر اضافہ کر لیتا‘‘۔ واضح رہے کہ یہاں ستر کا عدد محاورے کے طور پر آیا ہے ۔ مراد اس سے یہ ہے کہ اب ان کے لیے آپؐ کا استغفار کرنا انہیں کچھ بھی فائدہ نہیں دے سکتا ۔ ان کے دلوں میں آپؐ کی عداوت اب اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ ان کی بخشش ممکن ہی نہیں۔
اب آئندہ آیات میں ایک واقعہ کے حوالے سے اہل ِایمان کے ساتھ منافقین کی عداوت کا نقشہ دکھایا جارہا ہے ۔ یہ واقعہ غزوئہ بنی مصطلق سے واپسی کے سفر میں پیش آیاتھا۔مریسیع کے کنویں کے قریب جہاں لشکر کا پڑائو تھا‘ دو مسلمانوں کا پانی بھرنے پر آپس میں جھگڑا ہو گیا۔ ان میں سے ایک انصار کا حلیف تھا جبکہ دوسرا حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خادم تھا‘ جس نے جذبات میں آکر اس کو ایک لات رسید کر دی۔ اس پر منافقین نے اس کو بڑھا چڑھا کر مہاجرین اور انصار کے مابین جھگڑے کا رنگ دے دیا۔ عبداللہ بن اُبی نے‘ جو اس طرح کے مواقع کی ہمیشہ گھات میں رہتا ‘ موقع سے فائدہ اٹھا کر مہاجرین کے خلاف انصار کے جذبات بھڑکانے کے لیے نہایت زہر آلود فقرے کہے۔ اس نے انصار کو مخاطب کر کے کہا:اے مدینہ والو! یہ ہمارے گھر میں پناہ پاکر اب ہمیں پر غرانے لگے ہیں۔ سچ کہا ہے جس نے کہا ہے کہ سَمِّنْ کَلْبَکَ یَاْکُلْکَ کہ تم اپنے کتے کو کھلا پلا کر خوب موٹا کرو تاکہ وہ تم ہی کو کاٹے۔ تم نے ان بے گھر لوگوں کو سر چھپانے کی جگہ دی‘ ان کی مدد کی‘ انہیں کھلایا پلایا اور اپنے مال میں ان کو حصّہ دار بنایا۔ یہ تمہاری اپنی غلطی کاخمیازہ ہے جو تمہیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اگر تم ان کی امداد سے ہاتھ کھینچ لیتے تو یہ کب کے یہاں سے بھاگ کھڑے ہوتے --- خدا کی قسم! اب ہم پلٹے تو جو باعزّت ہیں وہ رذیلوں کو مدینہ سے نکال باہر کریں گے۔ عبداللہ بن اُبی کی یہ بکواس وہاں موقع پر موجود ایک نوجوان صحابی حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سن رہے تھے۔ انہوں نے حضورﷺ کی خدمت میں پیش ہو کر سارا واقعہ بیان کر دیا۔ حضورﷺ نے عبداللہ بن اُبی کو بلا کر دریافت فرمایا تو وہ صاف مکر گیا‘ بلکہ اس نے الٹا احتجاج کیا کہ کیا آپؐ میرے معاملے میں اس چھوکرے (حضرت زید بن ارقمؓ) کی بات پر یقین کریں گے؟اس طرح حضرت زیدؓ کی پوزیشن بڑی خراب ہو گئی۔ ان آیات کے نزول کے بعد جب واقعہ کی تصدیق ہو گئی تو حضورﷺ نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خصوصی طور پر دلجوئی فرمائی اور شفقت سے ان کا کان مروڑتے ہوئے فرمایا کہ لڑکے کے کان نے غلط نہیں سنا تھا۔
اس واقعہ کے حوالے سے یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ عبداللہ بن اُبی کا جرم ثابت ہو جانے کے بعد بھی حضورﷺ نے اس کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک عملاًاسلامی ریاست قائم نہیں ہوئی تھی۔ اس بارے میں عام طور پر تو یہی سمجھا جاتا ہے کہ حضورﷺ کے مدینہ تشریف لے جانے کے فوراً بعد ہی وہاں باقاعدہ اسلامی ریاست وجود میں آگئی تھی اور حضورﷺ کو باقاعدہ ایک سربراہِ ریاست اور سربراہِ حکومت کی حیثیت حاصل ہو گئی تھی‘لیکن اُس دور کے معروضی حقائق اور واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ خیال درست نہیں ہے۔ مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ غزوئہ اُحد کے موقع پر اسلامی لشکر کو چھوڑ کر جانے والے تین سو افراد سے کسی قسم کا کوئی تعرض نہیں کیا گیا۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ منافقین ِمدینہ اپنے فیصلے حضورﷺ کے بجائے یہودیوں سے کرواتے تھے۔ ظاہر ہے کسی ریاست میں تو ایسا نہیں ہوتا کہ اس کی ایک تہائی فوج دشمن کے مقابلے سے بھاگ جائے اور ان میں سے کسی ایک فرد سے بھی اس بارے میں کوئی باز پُرس نہ ہو‘ اور نہ ہی کسی ریاست کی عملداری میں یہ ممکن ہے کہ اس کا کوئی شہری ریاست کی عدالت کو چھوڑ کر اپنا مقدمہ کہیں اور لے جائے۔ بہرحال اس حوالے سے اصل صورت حال یہ تھی کہ علاقے کی واحد منظّم اور طاقتور جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے حضورﷺ کو مدینہ میں معاشرتی و سیاسی لحاظ سے ایک خصوصی اور ممتاز مقام تو ہجرت کے فوراً بعد ہی حاصل ہوگیاتھا۔ البتہ آپؐ کے تحت ایک باقاعدہ ریاست فتح مکّہ کے بعد قائم ہوئی ۔یہی وجہ ہے کہ ۹ہجری میں غزوئہ تبوک سے رہ جانے والے لوگوں کا سخت مؤاخذہ ہوا۔
بہرحال عبداللہ بن اُبی کے معاملے میں حضورﷺ نے بہت درگزر سے کام لیا ۔ واقعہ ٔ اِفک میں اس کے کردار سے حضورﷺ بہت آزردہ ہوئے تھے ۔ اس دوران تو ایک موقع پر آپﷺ نے یہاں تک فرما دیا تھا کہ کیا کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو اس شخص کی ایذا سے مجھے بچا سکے؟ لیکن آپؐ کا یہ فرمان بھی محض آپ ؐکے جذبات کا اظہار تھا ‘جبکہ آپؐ نے اس کے خلاف کسی عملی اقدام کا حکم اس وقت بھی نہیں دیا۔البتہ اس موقع پر اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا: حضور! آپؐ مجھے حکم دیں ‘میں اس شخص کا کام تمام کرتا ہوں۔ اس پر خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سعد ؓ بن معاذ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے عبداللہ بن اُبی کے قتل کی بات اس لیے کی ہے کہ اس کا تعلق قبیلہ خزرج سے ہے! اور پھر حضرت سعد بن عبادہؓ ہی نے حضورﷺ کو مشورہ دیا تھاکہ حضور! آپ اس شخص کے معاملے میں نرمی سے کام لیں ۔اس کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم اسے اپنا بادشاہ بنانے کا فیصلہ کر چکے تھے اور اس کے لیے ہم نے سونے کاتاج بھی تیار کر لیا تھا کہ اسی اثنا میں آپؐ مدینہ تشریف لے آئے۔ اس طرح اس کے سارے خواب بکھر گئے۔ ہمارے قبیلے پر ابھی تک اس کا اثر و رسوخ موجود ہے ‘اس لیے حکمت اور مصلحت کا تقاضا یہی ہے کہ اس کے خلاف سختی نہ کی جائے۔ بہرحال اس ساری تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ اُس وقت تک باقاعدہ اسلامی ریاست اور حکومت بھی وجود میں نہیں آئی تھی اور ابھی قبائلی عصبیتیں بھی کسی نہ کسی حد تک موجود تھیں۔ یعنی مجموعی طور پر حالات ایسے نہیں تھے کہ حضورﷺ ان پہلوئوں کو نظرانداز کر کے عبداللہ بن اُبی کے خلاف کوئی سخت اقدام کرنے کا حکم دیتے۔ اس لیے آپؐنے اس کا یہ جرم بھی نظر انداز کر دیا۔
{اِنَّ اللہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ(۶)} ’’یقیناً اللہ ایسے فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘
آیت ۷{ہُمُ الَّذِیْنَ یَـقُوْلُوْنَ لَا تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللہِ حَتّٰی یَنْفَضُّوْاط} ’’یہی ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ مت خرچ کرو ان پر جو اللہ کے رسول (ﷺ )کے گرد جمع ہوگئے ہیں ‘یہاں تک کہ یہ منتشر ہو جائیں۔‘‘
منافقین سمجھتے تھے کہ اگر اہل ِمدینہ مہاجر مسلمانوں پر خرچ کرنا بند کر دیں گے تو چند ہی دنوں میں یہ ساری بھیڑ چھٹ جائے گی۔ یہی بات عبداللہ بن اُبی نے متذکرہ بالا جھگڑے کے موقع پر انصارِ مدینہ سے کہی تھی۔
{وَلِلہِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلٰــکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَفْقَہُوْنَ(۷)}’’حالانکہ آسمانوں اور زمین کے خزانے تو اللہ ہی کے ہیں‘لیکن منافقین اس حقیقت کا فہم نہیں رکھتے۔‘‘
یہاں آسمانوں اور زمین سے مرا دپوری کائنات ہے۔
آیت ۸{یَـقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَّجَعْنَــآ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَـیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْہَا الْاَذَلَّ ط} ’’وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم مدینہ لوٹ گئے تو جو طاقتور ہیں وہ لازماً نکال باہر کریں گے وہاں سے ان کمزور لوگوں کو۔‘‘
عربی میں عزّت کا اصل مفہوم طاقت اور غلبہ ہے‘ جبکہ ذلیل کے معنی کمزور اور بے حیثیت کے ہیں۔ مذکورہ واقعہ چونکہ غزوئہ بنی مصطلق سے واپس آتے ہوئے راستے میں پیش آیا تھا اس لیے منافقین کے مکالمے میں یہاں مدینہ پلٹنے کا ذکر آیا ہے۔عبداللہ بن اُبی نے لوگوں کے جذبات بھڑکاتے ہوئے یہ بھی کہا تھاکہ جب ہم مدینہ واپس پہنچیں تو بالکل متفق الرائے ہو کر یہ طے کر لیں کہ جو صاحب ِعزّت ہیں‘ جو مدینہ کے قدیم باشندے (sons of the soil) ہیں وہ ان مہاجروں کو جو بڑے کمزو ر ہیں‘ جن کی کوئی حیثیت نہیں‘مدینہ سے نکال باہر کریں گے۔
{وَلِلہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰــکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ(۸)}’’حالانکہ اصل عزّت تو اللہ‘ اُس کے رسولؐ اور مؤمنین کے لیے ہے‘لیکن یہ منافق جانتے نہیں۔‘‘
عبداللہ بن اُبی کے بیٹے کا نام بھی عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھا‘ جوبہت مخلص‘ صادق القول اور صادق الایمان صحابی تھے۔ انہیں جب معلوم ہوا کہ میرے باپ نے یہ بکواس کی ہے تو انہوں نے اپنے باپ کو سبق سکھانے کی ٹھان لی۔ چنانچہ لشکرجب واپس مدینہ پہنچا تو حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلوار سونت کر اپنے باپ کے راستے میں کھڑے ہو گئے۔ انہوں ؓنے عبداللہ بن اُبی سے کہا اب جب تک تم یہ نہیں کہو گے کہ میں ذلیل ہوں اور تمام عزّت اللہ‘ اُس کے رسولؐ اور اہل ایمان کے لیے ہے ‘اُس وقت تک مَیںتمہیں شہر میں داخل نہیں ہونے دوں گا۔ عبداللہ بن اُبی نے اُس پر حضورﷺ سے بھی فریاد کی‘ لوگوں کے سامنے بھی دہائی دی کہ دیکھو میرا اپنا بیٹا میرے قتل کے درپے ہے۔ لیکن حضرت عبداللہ ؓاپنے موقف پر قائم رہے اور انہوں نے اپنی مذکورہ شرط منوا کر ہی اپنے باپ کو شہر میں داخل ہونے کی اجازت دی۔
یہ آٹھ آیات تو نفا ق کے مراحل اور اس کی تشخیص اور پیش بینی (prognosis)کے بارے میں تھیں۔ ان میں گویا مرضِ نفاق ‘ اس کی علامات‘ اس کا نقطہ ٔآغاز‘ اس کا سبب‘ اس کے مختلف مراتب و مدارج اور اس کی ہلاکت خیزی ‘ یہ تمام چیزیں زیر بحث آگئیں۔ ان آیات کا خلاصہ یہی ہے کہ نفاق کی وجہ سے بالآخر انسان کے دل میں اللہ کے رسولﷺ اور اہل ِایمان کے خلاف شدید دشمنی پیدا ہو جاتی ہے اور یہ بیماری انسان کو ہلاکت و بربادی کے راستے پر وہاں تک پہنچا دیتی ہے جہاں اللہ کے رسولؐ کا استغفار بھی اس کے کام نہیں آ سکتا۔

آیات ۹ تا ۱۱

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْھِکُمْ اَمْوَالُکُمْ وَلَآ اَوْلَادُکُمْ عَنْ ذِکْرِاللہِ ۚ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰۗئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ (۹)وَاَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْلَآ اَخَّرْتَنِیْٓ اِلٰٓی اَجَلٍ قَرِیْبٍ ۙ فَاَصَّدَّقَ وَاَکُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ (۱۰)وَلَنْ یُّؤَخِّرَ اللہُ نَفْسًا اِذَا جَاۗءَ اَجَلُھَا ۭ وَاللہُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ(۱۱)

اب دوسرے رکوع کی تین آیات میں اس بیماری کا علاج بتایا گیا ہے۔ جس طرح طب میں ایک مرض کا علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے‘ ایک حفاظتی(preventive)قسم کا علاج ہے اور دوسرا معالجاتی(curative) طرز کا‘ اسی طرح یہاں بھی مرضِ نفاق کے علاج کے ضمن میں یہ دونوں پہلو سامنے آ رہے ہیں۔ ظاہر ہے کسی بیماری کے حوالے سے انسان کی پہلی کوشش تو یہی ہونی چاہیے کہ وہ اس بیماری کی چھوت سے بچا رہے۔ اس کے لیے ظاہر ہے اسے پرہیزی اقدام (preventive measures) اپنانے کی ضرورت ہو گی۔ جیسے آج کل کسی بیماری سے بچنے کا مؤثر طریقہ یہی ہے کہ آپ متعلقہ ویکسی نیشن کا انجکشن لگوالیں۔چنانچہ اب اگلی آیت میں اس اقدام کا ذکر ہے جسے نفاق کی بیماری سے بچنے کے لیے حفظ ِماتقدم کے طور پر اپنانا ضروری ہے۔
آیت ۹{یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْہِکُمْ اَمْوَالُــکُمْ وَلَآ اَوْلَادُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللہِ ج}’’اے اہل ِایمان! تمہیں غافل نہ کر نے پائیں تمہارے اموال اور تمہاری اولاد اللہ کی یاد سے۔‘‘
یہاں دو چیزوں کو معیّن کیا گیا ہے جو انسان کو اللہ کی یاد سے غافل کرنے کا باعث بنتی ہیں‘ یعنی مال اور اولاد۔ یہی مضمون آگے چل کر سورۃ التغابن میں نہایت واضح شکل میں بایں الفاظ آیا ہے: {اِنَّمَـآ اَمْوَالُــکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌط} (آیت ۱۵)’’جان لو تمہارے مال اور تمہاری اولاد ہی ذریعہ ٔآزمائش ہیں‘‘۔ یہی تو وہ کسوٹی ہے جس پر تمہیں پرکھا جا رہا ہے۔ چنانچہ متنبہ کر دیا گیا کہ اہل ِ ایمان! دیکھنا تمہیں تمہارے اموال اور تمہاری اولاد اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں۔
{وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ(۹)} ’’اور جو کوئی ایسا کریں گے تو وہی خسارے میں رہیں گے۔‘‘
یہاں اللہ کے ذکر سے مراد صرف یہی نہیں کہ انسان ہر وقت تسبیحات وغیرہ پڑھتا رہے ‘بلکہ اس کا وسیع تر مفہوم یہ ہے کہ انسان کو ہر وقت اللہ یاد رہے اور اسی بنا پر وہ اپنے جملہ فرائض کی ادائیگی کے لیے ہروقت کمر بستہ رہے۔ تو اے اہل ِایمان ! کہیں ایسا نہ ہو کہ اموال واولاد کے معاملات میں منہمک ہوکر تم لوگ اللہ ہی کو بھلا دو۔ جیسا کہ آج کل ہماری اکثریت کا حال ہے۔ آج اگر آپ لوگوں کو اللہ اور دین کی طرف بلائیں تو آپ کو عام طورپر یہی جواب ملے گا کہ کیا کریں جی وقت ہی نہیں ملتا!اب ظاہر ہے جو شخص ایک خاص ’’معیارِ زندگی‘‘ کو اپنا معبود بنا کر دن رات اس کی پوجا میں لگا ہو تو اُس کے پاس معبودِ حقیقی کی طرف رجوع کرنے کے لیے وقت کیونکر بچے گا؟چنانچہ مرضِ نفاق کی چھوت سے بچنے کے لیے پرہیزی اقدام یہ بتایا گیا کہ اللہ کی یاد کسی وقت بھی تمہیں بھولنے نہ پائے۔ اور ساتھ ہی اللہ کی یاد کو بھلانے والے دو اہم ترین عوامل کی نشاندہی بھی کر دی گئی۔ ظاہر ہے کسی بھی بیماری کا علاج کرنے کے لیے اس کے اصل اور بنیادی سبب کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ جب بیماری کا سبب ڈھونڈ کر اس کی بیخ کنی کر دی جائے گی تو وہ بیماری دور ہو جائے گی۔ نفاق کی بیماری کا اصل سبب چونکہ دنیا کی محبّت ہے اور دنیا کی محبّت کا سب سے بڑا مظہر مال کی محبّت ہے‘ لہٰذا اس بیماری سے نجات حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دل سے مال کی محبّت ختم کر دی جائے اور اس محبّت کو ختم کرنے کا مؤثر طریقہ یہاں یہ بتایا جارہا ہے کہ زیادہ سے زیادہ مال اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے :
آیت ۱۰{وَاَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰــکُمْ مِّنْ قَـبْلِ اَنْ یَّــاْتِیَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ} ’’اور خرچ کر دو اس میں سے جو کچھ ہم نے تمہیں دیا ہے اس سے پہلے پہلے کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے‘‘
{فَـیَـقُوْلَ رَبِّ لَــوْلَآ اَخَّرْتَنِیْ اِلٰٓی اَجَلٍ قَرِیْبٍ لا فَاَصَّدَّقَ وَاَکُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۰)} ’’پھر وہ اُس وقت کہے کہ اے میرے رب!تُو نے مجھے ایک قریب وقت تک کیوں مہلت نہ دی کہ مَیں صدقہ کرتا اور نیک لوگوں میں سے ہو جاتا!‘‘
گویا نفاق کی بیماری کا بالمثل علاج انفاق ہے۔ سورۃ الحدید کی آیت ۱۸ کے تحت وضاحت کی جا چکی ہے کہ مال کی محبّت کو دل سے نکالنے کے لیے دل کی زمین میں ’’انفاق‘‘ کا ہل چلانا پڑتا ہے اور جو لوگ یہ ہل چلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اصل کامیابی انہی کے حصّے میں آتی ہے:
{اِنَّ الْمُصَّدِّقِیْنَ وَالْمُصَّدِّقٰتِ وَاَقْرَضُوا اللہَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَھُمْ وَلَھُمْ اَجْرٌ کَرِیْمٌ(۱۸) وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرُسُلِہٖٓ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ صلے وَالشُّھَدَآئُ عِنْدَ رَبِّھِمْ ……}
’’یقیناً صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور جو اللہ کو قرضِ حسنہ دیں‘ ان کو کئی گنا بڑھا کر دیاجائے گا اور ان کے لیے بڑا باعزّت اجر ہو گا۔ اور جو لوگ ایمان لائے اللہ پر اور اُس کے رسولوں پر انہی میں سے صدیق اور شہداء ہوں گے اپنے رب کے پاس…‘‘
زیر مطالعہ آیت میں نقشہ کھینچا گیا ہے کہ ایک بڑا حسرت کا وقت آئے گا جب انسان کف ِ افسوس ملے گا کہ اے کاش!مَیں اس مال کو اللہ کی راہ میں صدقہ کر سکتا۔ آج یہ لوگ دونوں ہاتھوں سے مال جمع کر رہے ہیں اور گھروں کی آرائش و زیبائش پر بے تحاشا خرچ کر رہے ہیں‘ لیکن ایک وقت آئے گا جب اہل و عیال‘ عزیز و اقارب‘ مال و دولت اور جائیداد‘ سب کو چھوڑ کر یہاں سے جانا ہو گا۔ اُس وقت انسان حسرت سے کہے گا کہ پروردگار! کیوں نہ تُو نے مجھے ذرا اور مہلت دے دی! تُو اگر ذرا اس وقت کو ٹال دے تو پھرمَیں یہ سب کچھ تیری راہ میں لٹا دوں‘ سارا مال صدقہ کر دوں اور میں بالکل سچائی اور نیکوکاری کی راہ اختیار کر لوں۔ لیکن اُس وقت اس حسرت کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو گا۔ اس لیے کہ اللہ کی یہ سُنّت ِثابتہ ہے کہ جب کسی کا وقت ِمعیّن آ جائے تو پھر اسے مؤخر نہیں کیا جاتا!
آیت۱ ۱ {وَلَنْ یُّؤَخِّرَ اللہُ نَفْسًا اِذَا جَآئَ اَجَلُہَاط}’’اور اللہ ہرگز مہلت نہیں دے گا کسی جان کو جب اُس کا وقت ِمعیّن آ پہنچے گا۔‘‘
قوموں کی ’’اجل‘‘ مؤخر ہونے کی ایک مثال تو موجود ہے ‘ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کے معاملے میں عین وقت پر عذاب ٹالنے کا فیصلہ ہوا تھا‘ لیکن انسانوں کی انفرادی اجل کبھی مؤخر نہیں کی گئی۔
{وَاللہُ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ(۱۱)}’’اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اُس سے باخبر ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ اس وقت کی یہ جزع فزع اور نالہ و شیون بھی فی الحقیقت منافقانہ ہوگی۔ اگر کہیں بالفرض کوئی مہلت مل بھی جائے تو پھر دوبارہ مال کی محبّت عود کر آئے گی اور پھر تم اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے کنّی کترا ئو گے۔