(حکمت و اَحکامِ دین ) عشرئہ ذوالحجہ کی اہمیت و فضیلت اور فلسفہ قربانی - حافظ عاطف وحید

7 /

عشرئہ ذوالحجہ کی اہمیت و فضیلت
اور فلسفہ ٔقربانی
حافظ عاطف وحید
(۶ جولائی ۲۰۲۱ء کو قرآن اکیڈمی لاہور میں تنظیم اسلامی کے ایک اجتماع سے خطاب)

خطبہ مسنونہ اورتلاوتِ آیا ت کے بعد!
آج مجھے جو عنوان دیا گیا ہے ‘ وہ ہے :’’عشرئہ ذوالحجہ کی اہمیت و فضیلت اور فلسفہ قربانی‘‘۔ یہ اصلاً دوالگ الگ عنوانات ہیں لیکن ان میں ایک باہمی تعلق ہے‘ اس لیے انہیں ایک ہی نشست کاعنوان بنادیاگیا۔قرآن حکیم کی متعدد آیات اس موضوع سے متعلق ہیں۔حضر ت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کے بہت سے واقعات قرآن مجید میں مذکور ہیں جن کا تعلق اسی عنوان کے ساتھ ہے۔ کوشش کروں گاکہ چند باتیں جومَیں آسانی سے اس محدود وقت میں کہہ سکوں وہ آپ کے گوش گزار کردوں۔ اس دعا کے ساتھ کہ جوبات مَیں کہوں‘جوالفاظ میری زبان سے ادا ہوں‘ایک تو وہ درست وصحیح ہوں اور پھر جومَیں کہوں اس پر خود مجھے اور آپ سب کو عمل کرنے کی توفیق ہو۔
گلہائے رنگارنگ سے ہے زینت ِچمن!
اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کا جونظام بنایا ہے اس میں بہت تنوع ہے۔ یہاں یکسانیت (monotony) نہیں ہے۔انسانوں کی طبیعتیں مختلف ہیں‘ان کے رنگ مختلف ہیں‘زبانیں مختلف ہیں‘افتادِ طبع مختلف ہے۔کرئہ ارض پر آپ گھومیں پھریں تو اللہ تعالیٰ کی اس بوقلمونی کے شاہکار ہرطرف نظر آئیں گے۔ بقول مرزا ابراہیم ذوق ؔ:
گلہائے رنگارنگ سے ہے زینت چمن
اے ذوق اس جہاں کوہے زیب اختلاف سے!
یہ اختلاف ہی درحقیقت اس کائنات کی زیب وزینت ہے۔ ہمیں یہ نظرآتاہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مختلف موسم بنائے تو ان موسموں کے اثرات بھی مختلف ہیں۔جولوگ کھیتی باڑی کے کام سے وابستہ ہیں وہ اس بات کو خوب اچھے طور سے سمجھ سکتے ہیں کہ مختلف موسم مختلف قسم کے پھل پیداوار کے لیے مختص ہیں۔اگر آپ نے کسی غلط موسم میں بیج بودیے ہیں تویہ ایک لاحاصل قسم کی محنت ہے۔صحیح موسم میں صحیح وقت پراگر کاشتکاری کی جاتی ہے تواس سے صحیح نتیجہ برآمد ہوتا ہے‘ پھل کی پیداواربڑھ کرآتی ہے۔جس وقت پانی لگانا تھااگراس وقت نہیں لگایا تو پھر پیداوار نہیں ہوگی۔جب نہیں لگاناتھااگراُس وقت لگادیا‘یاکثرت سے لگادیاتوہوسکتاہے کہ پھل جل جائے‘ خراب ہوجائے۔چنانچہ جہاں چیزوں کے اندر فرق ہے‘تنوع ہے ۔وہیں ہرکام کے لیے ایک خاص اورموزوں وقت بھی ہے۔
بعینہٖ عبادات اور اعمالِ صالحہ کامعاملہ ہے۔اگر آپ ایک مخصوص عبادت کو اس وقت سرانجام نہیں دیتے جو وقت اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے مقرر کیا ہے تووہ عبادت کوئی خاص نتیجہ برآمد نہیں کرے گی۔یہ لاحاصل قسم کی ایک سرگرمی ہوکررہ جائے گی۔مثلاً حج ایک بڑی عظیم عبادت ہے ۔آپ اسے ذوالحجہ کی بجائے اگر کسی اور مہینے‘ مثلاً رجب میں سرانجام دیں گے تونہ کوئی اجرہے نہ ثواب ‘ بلکہ ہوسکتاہے کہ یہ وقت اورپیسے کا ضیاع ہواور الٹا کسی معاملے میں گناہ بھی لازم آ جائے۔رمضان المبارک ایک خاص مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نےاجروثواب بڑھا دینے کے بہت سے وعدے کررکھے ہیں۔اس ماہ مبارک میں نیکی اور خیر کا ایک چھوٹا ساعمل بھی اللہ کی نگاہ میں کس قدر وقعت کا حامل ہے‘ احادیث مبارکہ اس پر شاہد ہیں۔ایسا معاملہ کسی دوسرے مہینے میں نہیں ہے۔رمضان کاآخری عشرہ نہایت فضیلت والا ہے اور لیلۃ القدر کی اپنی اہمیت و فضیلت ہے۔ باقی دن ایسے نہیں ہیں۔
تقویم کی اہمیت اور مختلف کیلنڈرز
یہ ہے وہ حقیقت جواس کائنا ت کے اندرقائم تکوینی نظام سے ظاہر ہوتی ہے۔ اسی میں ایک ترتیب اور حکمت نظر آتی ہے۔ چنانچہ قرآن حکیم سے معلوم ہوتاہے کہ جب سے یہ کائنات اللہ تعالیٰ نے تخلیق فرمائی تب سے ماہ و سال کی تقویم بارہ مہینوں کی ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
{اِنَّ عِدَّۃَ الشُّھُوْرِ عِنْدَ اللہِ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا فِیْ کِتٰبِ اللہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْھَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ط} (التوبۃ:۳۵)
’’بے شک اللہ کے ہاں مہینوں کی تعداد بارہ ہے‘ اللہ کے قانون میں‘ جس دن سے اُس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو ‘ ان میں سے چار مہینے محترم ہیں ۔‘‘
سال کے لیے عربی زبان میں اور قرآن حکیم کی اصطلاحات میں مختلف الفاظ استعمال ہوئے ہیں ‘ جیسےسَنَۃٌ بھی ہے‘ عامٌ بھی ہے اورحَوْلٌ بھی ہے ‘لیکن مہینے کے لیے ایک ہی لفظ شَہْرٌ(جمع اشھر) استعمال ہوا۔اس کے بارے میں بڑی وضاحت کے ساتھ بتادیاگیاکہ جب سے آسمان اور زمین کی تخلیق ہوئی ہے‘ اللہ کی تقویم میں بارہ مہینے ہیں۔
یہ بارہ مہینے کون سے ہیں؟اس بارے میں بھی انسانی تاریخ میں یہ نظر آتا ہے کہ بہت ابتدائی دورہی سے دومختلف تقویمات چلتی رہی ہیں۔زمانہ قبل از تاریخ میں ماہ وسال کاکوئی حساب نہیں رکھا جاتا تھا‘ اس کے بعد یہ سلسلہ شروع کیا گیا۔ چنانچہ ۴۶ قبل مسیح میں جولین سیزر کے دور میں ’’جولین کیلنڈر‘‘ اختراع کیاگیا۔ اس کیلنڈر کی حقیقت یہ ہے کہ اس کا تعلق موسموں اور نظامِ شمسی کے ساتھ ہے۔ اس کے بعد پندرہویں یاسولہویں صدی میںاسی جولین کیلنڈر میں کچھ معمولی تبدیلی کرکے ایک دوسرا کیلنڈر وجود میں لایاگیاجسے ’’گریگورین کیلنڈر‘‘ کہتے ہیں۔یہ اورجولین کیلنڈر ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ایک اور کیلنڈر بھی بہت ابتدا سے جاری ہے‘ جسے قمری تقویم کے مطابق’’ لیونر(Lunar)کیلنڈر‘‘ کہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے جوعبادات فرض کی ہیں ان میں ماہ وسال کے حساب کے لیے لیونر کیلنڈر ہی اختیار فرمایا‘سولر کیلنڈر نہیں۔اس کی بھی حکمتیں ہیں۔ البتہ ۲۴ گھنٹے کے دوران عبادات کے لیے سولرکیلنڈر کی اہمیت ہے۔اس لیے کہ زمین کے ہرخطے کے اوپرایک خاص وقت میں سورج نے نکلناہے ‘پھر نصف النہار تک پہنچنا ہے‘پھررفتہ رفتہ غرو ب ہونا ہے۔چنانچہ جن عبادات کاتعلق اوقات (timing) کے ساتھ ہے‘ انہیں سولر سسٹم(شمسی نظام) سے جوڑ دیا گیااور جن عبادات کاتعلق ماہ وسال کے ساتھ ہے انہیں لیونر کیلنڈر (قمری نظام) سے جوڑ دیا گیا ۔
چاند ایک ایسی شے ہے جس نے ہر آنگن میں طلوع ہونا ہے ۔ صحرا ہوں‘ پہاڑ ہوں‘ دریا ہوں‘ سمندر ہوں‘ وہاں کے رہنے والوں کومعلوم ہے کہ ایک دن آتاہے جب چاند پیدا ہوتا ہے‘ پھر وہ بڑھتاہے‘ اس کے بعد وہ ماہِ کامل بن جاتاہے۔پھر اس کے اندر کمی واقع ہوتی ہے اور پھر غائب ہوجاتاہے۔ایک عام آدمی بھی چاند کودیکھ کرماہ وسال کاحساب رکھ سکتاہے‘اس کے لیے سائنسی آلات کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ زمین کے ہرگوشے کے اوپر چاند کوسہولت کے ساتھ دیکھ کریہ اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ مہینہ شروع ہوا کہ نہیں۔چنانچہ جوعبادات سالانہ بنیاد پرہیں جیسے رمضان المبارک کے روزے اور حج و قربانی وغیرہ‘اللہ کی حکمت اسی بات کی متقاضی ہوئی کہ اسے چاند کے حساب کے ساتھ جوڑ دیاجائے تاکہ زمین کے کسی گوشے پر کوئی شخص موجود ہووہ روزوں کاحساب رکھ سکے۔اسی طریقے سے سال میں ایک دفعہ زکوٰۃ دینی ہے۔ایک وقت وہ تھا جب کوئی کیلنڈر نہیں تھاتوسال کاحساب کیسے رکھاجاتا!سورج تواپنے حساب سے نکلتاہے ‘ چلاجاتاہے‘ لیکن تاریخ کا تو پتہ عام آدمی کو نہیں چلتا۔چنانچہ زکوٰۃ کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے اسی قمری تقویم کو مقرر فرمایا۔پھر عبادات میں جوسب سے افضل عبادت‘سب سے جامع عبادت اور سب سے کامل بلکہ اکمل عبادت ہے یعنی حج کی عبادت‘یہ بھی ایک خاص وقت اور ایک خاص مقام پرہوتی ہے۔چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس عبادت کوبھی چاند کی تقویم کے ساتھ جوڑ دیاتاکہ لوگوں کوپتا ہوکہ کس دن نکلناہے‘ کب پہنچنا ہے‘کب یومِ ترویہ ہے‘ کب یومِ عرفہ ہے‘کب یومِ نحرہے‘پھر ایام تشریق ہیں۔
اہل عرب کی نظامِ تقویم میں ردّو بدل
یہ تواس کاایک تاریخی پس منظر ہے‘ لیکن اسی کے اندر ایک اورچیز شامل کرلیجیے۔ اہل عرب کی معاش حج کے اجتماع کے ساتھ اورجو میلے ٹھیلے مختلف اوقات میں وہاں منعقد ہوتے تھے‘ان سے وابستہ تھی۔مکہ کی چھوٹی سی بستی تھی‘ وہاں پر کوئی بہت بڑی اکانومی نہیں تھی‘ لیکن لوگوں کے آنے سے معاشی سرگرمیوں میں ایک دم تیزی آ جاتی تھی۔ جب لوگوں کے آنے کا سلسلہ رک جاتا تو اکانومی ڈپریشن میں چلی جاتی۔چنانچہ دور جاہلیت میں اہل عرب کو جب معلوم ہوا کہ ہماری اکانومی کاسارا دارومدار حج کے اجتماع کے ساتھ وابستہ ہے توانہوں نے ایک طریقہ وضع کیااور ایک نیاکیلنڈر وجود میں لائے جسے آج کی اصطلاح ’’لیونی سولر کیلنڈر‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ یہ مجموعہ ہے لیونر اور سولر کا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب حج شدید گرمی یا شدید سردی میں آتا تولوگوں کی آمد کم ہوجاتی کہ کون اتنی صعوبت برداشت کرے‘ چنانچہ خیال ہوتا کہ اس سال نہیں اگلے سال چلے جائیں گے۔ اس کا اثر ا س چھوٹی سی اکانومی پر یہ ہوا کہ وہاں پر لوگوں کے لیے surviveکرنا مشکل ہو گیا۔ مال نہیں آیا‘ تجارت نہیں ہوئی تولوگ بدحال ہوجاتے۔ انہوں نے جب یہ اندازہ لگالیاکہ لیونر اور سولر میں فرق کتنا ہے تو انہیں یہ بات سمجھ آئی کہ ایک سال میں تقریباً گیارہ دنوں کا فرق پڑتا ہے۔ اگر اس فرق کو کسی طرح پاٹ دیا جائے اور حج کو ہم اچھے موسم میں قائم رکھیں تو قافلہ حج کے شرکاء کوئی تکلیف اور تنگی محسو س نہیں کریں گے اور لوگ ذوق و شوق سے آئیں گے ۔چنانچہ قبائل کے عمائدین نے بیٹھ کر ایک ’’کبیسہ‘‘کا مہینہ اختراع کیا۔ دوسرے سال یاتیسرے سال سولرکیلنڈر کے اندر وہ ایک مہینے کااضافہ کردیتے تھے۔جب آٹھ سال کے بعد تین مہینوں کااضافہ ہوگیاتواس کا فائدہ یہ ہوا کہ اسی خاص موسم میں حج بھی آئے گا‘اسی خاص موسم میں جورمضان المبارک کے لیے انہوں نے طے کیاہے رمضان بھی آئے گااور اس طریقے سے موسموں کی شدّت سے بچت ہو جائے گی۔اس کو قرآن مجید نے نَسِیْء کہا ہے۔ ارشا دِباری تعالیٰ ہے :
{اِنَّمَا النَّسِیْۗءُ زِیَادَۃٌ فِی الْکُفْرِ } (التوبۃ:۳۷)
’’یہ مہینوں کو ہٹا کر آگے پیچھے کر لینا توکفر میں ایک اضافہ ہے۔‘‘
قرآن کے مطابق نَسِیْءکفر میں ایک اضافہ ہے‘یہ ان کی اپنی اختراع ہے ۔اور اس کووہ بڑے فخر سے اس لیے پیش کرتے تھے کہ گویاانہوں نے ایسا کرکے لوگوں کے لیے آسانی پیدا کردی ہے کہ لوگ سخت موسم کی پریشانی سے بچ جائیں اور اچھے موسم میں آئیں۔دوسری طرف ان کا دعویٰ تھا کہ ہم نے ’’ اَشْھُرِحُرُم‘‘ کی تعداد بھی پوری قائم رکھ لی۔
ایک اور فائدہ وہ اسی سے یہ اٹھالیتے تھے کہ اگرکسی سال کسی قبیلے پرچڑھائی کرنے کایاکوئی قتل وغارت کاارادہ ہے توبھی سردار بیٹھ کرطے کرلیتے کہ اس سال ہم یہ اشھرحرم فلاں فلاں مہینے میںآگے بڑھادیتے ہیں تاکہ اپنی اس جنگی کارروائی کے لیے ’’حلال‘‘ مہینے میسر آ جائیں۔اس لیے کہ حضرت ابراہیمؑ کے دور سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم تھاکہ اشھرحرم میں اپنی تمام جنگی سرگرمیاں اورمہم جوئیاں بندکردی جائیں۔اس کی یہ حکمت تھی کہ حج کے لیے آنے جانے والے لوگوں کے لیے امن وسکون فراہم ہوجائے۔ چنانچہ اسی طریقے سے کبھی وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے اورکبھی تجارتی وکاروباری ضرورتوں کے پیش نظر ’’کبیسہ‘‘ کامہینہ بڑھاکرلیونی سولرکیلنڈرکواختیار کرلیتے۔اور اس کووہ اپنے تئیں بڑی دینداری کاکام سمجھتے کہ ہم نے لوگوں کے لیے آسانی کردی ہے اور اللہ کاحکم بھی پورا رکھا۔لیکن قرآن کریم میں فرمادیاگیا:
{اِنَّمَا النَّسِیْۗءُ زِیَادَۃٌ فِی الْکُفْرِ یُضَلُّ بِہِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُحِلُّوْنَہٗ عَامًا وَّیُحَرِّمُوْنَہٗ عَامًا لِّیُوَاطِئُوْا عِدَّۃَ مَا حَرَّمَ اللہُ فَیُحِلُّوْا مَا حَرَّمَ اللہُ ط} (التوبۃ:۳۷)
’’یہ مہینوں کو ہٹا کر آگے پیچھے کر لینا تو کفر میں ایک اضافہ ہے‘ جس کے ذریعے سے گمراہی میں مبتلا کیے جاتے ہیں وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا‘ ایک سال یہ لوگ حلا ل کر لیتے ہیں اس (مہینے) کو اور ایک سال اسے حرام قرار دے دیتے ہیں‘تا کہ تعداد پوری کر لیں اس کی جو اللہ نے حرام ٹھہرائے ہیں‘ اور (اس طرح) حلال کر لیتے ہیں وہ (مہینہ) جو اللہ نے حرام کیا ہے۔‘‘
یہاں انداز بڑاجلالی ہے۔یعنی تم نے سمجھاکیاہواہے!اللہ کی تقویم کوبگاڑ کے رکھ دیا‘ہرچیز ہلا کررکھ دی اورسمجھتے ہو کہ تم نے بڑا خیر کاکام کیا!
یہی وہ پس منظر ہے جوحجۃ الوداع کے موقع پرملتاہے جب رسول اللہ ﷺ نے یومِ عرفہ کا خطبہ ارشا دفرمایا ۔اس وقت آپ ﷺ نے جوالفاظ اختیار فرمائے وہ بڑے خوبصورت تھے:
((اِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ کَھَیْئَتِہٖ یَوْمَ خَلَقَ اللہُ السَّمَاواتِ وَالْاَرْضَ…)) (متفق علیہ)
یعنی زمانہ چکر لگاکراپنی اس اصل ہیئت کی طرف لوٹ گیاہے جس ہیئت پراللہ ربّ العزت نے آسمان وزمین کوپیدا کیاتھا۔ا س لیے کہ یہ دن وہ تھاکہ جب کبیسہ کے مہینوں او ر نسیء کاہیرپھیر سب کاسب مشیت الٰہی سے ختم ہوکر حج اکبر کا دن اپنی اصل جگہ پرموجود تھا۔گویا اس میں جو mismatchتھا وہ اس دن ختم ہوا تھا۔اسی لیے آپ ﷺ نے ابتداء ً بڑے غیرمعمولی انداز میں پوچھا:’’اے لوگو!آج کادن کونسادن ہے؟یہ جگہ کون کونسی جگہ ہے ؟‘‘ تاکہ لوگوں کویہ بات مستحضر ہوجائے کہ یہ دن اور یہ جگہ ایسی اہم ہے ۔ گویا تقویمات کے پہلو سے اللہ نے ایک resetبٹن دبا دیا۔تمام گڑبڑیں اور ہیراپھیریاں سب کی سب آج کے دن ختم ہوگئیں۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کے ہاںیہ جوماہ وسال کی تقویم ہے اس میں بعض عبادات کا تعلق لیونر کیلنڈر کے ساتھ ہے جبکہ فضیلت کاپہلوبھی اسی سے وابستہ ہے۔اگر اسے ہٹا کرکسی اور جگہ لے جائیں گے توفضیلت ختم ہوجائے گی ‘اوروہ ایسے ہی ہے جیسے آپ نے بے موسمی کاشت کردی ہے۔اس سے نہ کوئی حاصل ‘نہ کوئی فائدہ اور نہ کوئی نتیجہ۔
اَشھُرِ حج اور اَشھُرِ حُرُم
اس ضمن میں یہ جو{مِنْہَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ط} کامَیں نے حوالہ دیایہ بھی سمجھ لیجیے۔ قرآن حکیم میں شَھْراور اَشْھُرکے حوالے سے ایک تویہ بات بیان ہوئی ہے کہ بارہ مہینے ہیں جن میں سے چار محترم ہیں‘ جبکہ دوسری جگہ سورۃا لبقرۃ میں فرمایاگیا :
{اَلْحَجُّ اَشْھُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ ۚ } (آیت ۱۹۷) ’’حج کے معلوم مہینے ہیں۔‘‘
یعنی سال بھر میں او ر کسی مہینے میں حج نہیں ہوتا۔اس کا اپناایک وقت ہے۔ یہاں اَشْھرکا جو لفظ لایاگیاوہ جمع کاصیغہ ہے۔ اب اس کی بھی وضاحت درکارہے کہ جمع کااطلاق تین یاتین سے زیادہ پر ہوتاہے توکیاان تینوں مہینوں میں جن کاذکر اس آیۂ مبارکہ میں ہو رہا ہے‘ کسی بھی وقت حج کیاجاسکتا ہے یااس سے مراد کچھ اور ہے؟اہل تفسیر کے ہاں اس پراجماع ہے کہ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ ان تین مہینوں میں آپ کسی بھی وقت حج کرلیں۔حج کے ایام تو یہی ہیں‘ یعنی ۸ذوالحجہ کویہ سرگرمی شروع ہوتی ہے اور زیادہ سے زیادہ ۱۳ ذوالحجہ تک چلتی ہے۔ یہ پانچ چھ دن ہیں‘البتہ اَشْھُرٌمَّعْلُوْمٰتٌ وہ مہینے ہیں جن میں کوئی شخص حج کااحرام باندھتاہے‘ حج کاقصد کرتا ہے اور سفر حج اختیار کرتاہے اور بالآخر خیریت وعافیت سے گھر واپس پہنچ جاتا ہے۔ان تین مہینوں میں سے پہلامہینہ ذوالقعدہ کاہےجس میں کوئی شخص حج کااحرام باندھتا ہے۔ اس سے پہلے حج کااحرام باندھنا درست نہیں ہے۔ یہ توآج کل سہولیات کادور ہے کہ آپ شام کواحرام باندھتے ہیں اور اگلے دن عمرہ کرکے فارغ بھی ہوچکے ہوتے ہیں۔اُس دور کو ذہن میں لائیے جب لوگ دور دراز سے {مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ(۲۷)} (الحج) پہنچتے تھے۔ احرام تو میقات سے باندھنے کا حکم ہے اور ا س کے بعد بھی ہفتے بلکہ مہینے لگ جاتے تھے او ر پھرکہیں جاکروہ پہنچتے تھے۔ اس دوران پیدل سفر کر رہے ہیں یا بیل گاڑی پر۔توگویا قرآن نے واضح فرمادیاکہ اشھرحج کاتعلق احرام باندھنے ‘حج کاسفر اختیار کرنے اور واپس گھرتک پہنچنے سے ہے۔ ذوالقعدہ میں آپ نے احرام باندھا‘ذوالحجہ میں آپ نے حج کیا‘اس کے بعد کچھ وہاں قیام کیا۔اپنے دل کی آرزوئیں اور تمنائیں پوری کرتے رہے‘ جونذر اورمنّت مانی ہوئی ہے وہ پوری کرتے رہے۔پھر حسب توفیق عمرے کابھی اہتمام کرلیااور اس کے بعد واپس گھروں تک لوٹنا۔یہ گویا تین مہینے بنتے ہیں کہ جن میںیہ activity پوری ہورہی ہوتی ہے۔
گویا یوں سمجھئے کہ یہ مختلف دائرے ہیں۔ سال کا دائرہ‘ اشہر حرم کا دائرہ‘ اشہر حج کا دائرہ اور پھر ایامِ حج کا دائرہ ۔ایک تو یہ کہ پورا سال کتنے مہینوں کا ہے‘سال کی تقویم کیاہے اور کس عبادت کے لیے کون سی تقویم اختیا ر کی گئی۔اللہ چاہتاہے کہ لوگ ہرموسم میں سفرحج کریں۔یہ نہیں ہے کہ اس کے لیے ایک خاص موسم ہی مقرر ہے ۔دیکھاجائے توجزیرہ نمائے عرب کے لیے بھی اسی میں فائدہ ہے۔اگر ایک خاص موسم میں تو activity بہت ہوگئی لیکن باقی سارا سیزن مندے کارہاتواس میں ان کانقصان ہے ۔’’نسیء‘‘ کا چکر چلا کر وہ اپنے تئیں سمجھ رہے تھے کہ شاید ہمار ا فائدہ ہے لیکن یہ بڑی عاقبت نااندیشی ہے۔فائدہ تواسی صورت میں ہے جب حج سال کے مختلف موسموں میں rotateکرتارہے۔اس اعتبار سے ایک موسمی دائرہ یہ ہے۔
پھر یہ سوال کہ اشھُرِحرم کون سے ہیں ! تین تووہی ہیں جواشھُرحج ہیں یعنی ذوالقعدہ‘ ذوالحجہ او ر محرم جبکہ چوتھامہینہ رجب کا ہے۔ رجب کے مہینے کی حکمت بظاہر یہی نظر آتی ہے کہ عربوںکی روایات میں وہ اس مہینے میں عمرہ کو فضیلت کا باعث سمجھتے تھے۔محسوس یہ ہوتاہے کہ جب لوگوں نے اس کواختیار کیاتواللہ نے بھی ان پریہی چیزمقرر فرمادی۔جیسے یہود کے ساتھ ہوتارہا کہ انہوںنے سبت کادن اپنے لیے پسند کیاتواللہ تعالیٰ نے اسے ہی ان کے لیے عبادت کے لیے مختص دن بنادیا۔ یہ چار مہینے کیوں محترم ہیں؟ذوالقعدہ کے لفظ ہی سے نظر آرہاہے کہ اس کے اندر بیٹھ جانے کاکہاگیاہے۔وہ مہینہ جس میں اپنی تمام مہم جوئیاں ترک کردوتاکہ عازمین کے لیے سفر حج آسان رہے۔ کوئی لوٹ مار‘ ماردھاڑ‘پکڑدھکڑ نہ ہو۔ذوالحجہ کالفظ ہی بتارہاہے کہ یہ وہ مہینہ ہے جس کے اندر حج کے مناسک ادا ہونے ہیں۔اس اعتبار سے یہ اللہ کی تقویم ہے۔ حج کی عبادت اتنی عظیم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کوسہولت کے ساتھ عمل درآمد کروانے کے لیے تین اور مہینوں کومقدس ٹھہرا دیا‘اور ہرقسم کی مہم جوئی کواس میں ختم کرنے کاحکم دے دیا۔
حج اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم شخصیت
اگلانکتہ یہ ہے کہ حج کی عبادت تو حضرت آدم علیہ السلام کے دور سے مقرر ہے۔بعض روایات سے معلوم ہوتاہے کہ انہوں نے پیدل حج کیا۔ ان کی بڑی طویل عمر تھی اور بعض روایات کے مطابق انہوں نے کثیر تعداد میں حج ادا کیے ہیں۔ البتہ اس عبادت کوایک خاص رنگ ‘ شکل اورہیئت نصیب ہوئی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت سے۔
حج کی عبادت کوحضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت سے ایک خاص نسبت ہے جبکہ عمرے کی عبادت کوان کی اہلیہ حضرت ہاجرہ سلامٌ علیہا کے ساتھ ایک خاص نسبت ہے‘خاص طورپر سعی بین الصفا والمروہ توہے ہی ان کی ایک یادگار۔باقی طواف بیت اللہ شریف تو بالکل ابتدا ہی سے تھا۔ حضرت ابراہیم کی شخصیت محبّت‘سپردگی اور وارفتگی سے عبارت ہے ؟ان کا زمانہ ماقبل تاریخ ہے۔ ہمیں واضح طورپرمعلوم نہیں کہ وہ کتنے قبل مسیح میں تھے۔ ایک تخمینہ یہ ہے کہ دوہزار قبل مسیح سے پانچ ہزار قبل مسیح تک۔ یہ بہت بڑا دورانیہ ہے جس کے بارے میں کہاجا تا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ اس میں سے کسی دور میں تھے۔ایک ایسی شخصیت جس کاقرآن حکیم نے اُن کے نام کے ساتھ تذکرہ کم وبیش ستر مرتبہ کیاہے۔اُس وقت کی تہذیب کیاہوگی؟تمدن کیسا ہوگا؟آبادی کتنی ہوگی؟لوگوں کارہن سہن کیسا ہوگا؟اوسطاً چارہزار برس پرانی شخصیت لیکن شخصیت کے اندرکوئی ایسا کرشمہ ہے‘ایسی کوئی جاذبیت ہے کہ قرآن میں ان کاتذکرہ کیاجاتاہے توایسا لگتا ہے کہ گویایہ کوئی قابل رشک ہستی ہے۔ چندآیات حوالے کے طور پرپیش ہیں۔سورۃا لبقرۃ میں فرمایا:
{وَاِذِ ابْتَلٰٓی اِبْرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّط } (آیت ۱۲۴)
’’اور ذرا یاد کرو جب ابراہیم ؑکو آزمایا اُس کے رب نے بہت سی باتوں میں تواُس نے ان سب کو پورا کردکھایا۔‘‘
یہاں اللہ تعالیٰ ایک سرٹیفیکیشن عطا فرمارہے ہیں کہ جب اللہ نے انہیں بڑی بڑی آزمائشوں میں جانچااور وہ تمام آزمائشوںمیں پورے اترے تواللہ نے فرمایا:{اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًاط} ’’میں تمہیں تمام انسانوں کاامام بناتاہوں‘‘۔اگلی آیت میں فرمایا:
{وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًاط وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّی ط} (آیت ۱۲۵)
’’اور یاد کرو جب ہم نے اس گھر (بیت اللہ) کو قرار دے دیا لوگوں کے لیے اجتماع (اور زیارت) کی جگہ اور اُسے امن کا گھر قرار دے دیا۔اور (ہم نے حکم دیا کہ) مقامِ ابراہیم ؑ کو اپنی نماز پڑھنے کی جگہ بنا لو۔‘‘
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے تمام نام لیوائوں کوحکم ہورہا ہے کہ مقامِ ابراہیم کواپنی نماز کی جگہ بنالو۔نسبت حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ قائم ہورہی ہے۔ سورۃ آلِ عمران میں بھی اسی مقامِ ابراہیم کا تذکرہ ہے۔فرمایا:
{فِیْہِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰھِیْمَ ڬ } (آیت ۹۷)
’’اس میں بڑی واضح نشانیاں ہیں‘ جیسے مقامِ ابراہیم ؑ۔‘‘
یعنی اس ارضِ حرام کے اندر بڑی واضح نشانیاں ہیں۔اللہ کی توحید‘اُس کی خلاقیت‘اُس کی ربوبیت کی بڑی بڑی نشانیاں۔انہی میں سے ایک ہے مقامِ ابراہیم جس کی نسبت حضرت ابراہیم ؑ کی طرف ہے۔ سورۃ البقرۃ میں فرمایا:
{وَمَنْ یَّـرْغَبُ عَنْ مِّلَّۃِ اِبْرٰہٖمَ اِلَّا مَنْ سَفِہَ نَفْسَہٗ ط}(آیت ۱۳۰)
’’اور کون ہو گا جو ابراہیم ؑ کے طریقے سے منہ موڑے؟سوائے اُس کے جس نے اپنے آپ کو حماقت ہی میں مبتلا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہو!‘‘
ابراہیم ؑ کے طریقہ سے انحراف وہی کرسکتاہے کہ جس کی مت ماری گئی ہو۔جس نے ابراہیم ؑ کے راستے یااُن ؑکے طور طریقے سے انحراف کیا اُس نے اپنے آپ کوحماقت میں مبتلا کر دیا۔ پھر سورۃ آلِ عمران میں فرمایا:
{مَا کَانَ اِبْرٰھِیْمُ یَھُوْدِیًّا وَّلَا نَصْرَانِیًّا وَّلٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا     ۭ} (آیت ۶۷)
’’ابراہیم ؑنہ تویہودی تھے نہ نصرانی تھے بلکہ وہ تو بالکل یکسو ہو کر اللہ کے فرماں بردار تھے۔‘‘
یہ کوئی مائیکروسافٹ کی سرٹیفیکیشن نہیں ہے‘ بلکہ ربّ العالمین کی طرف سے گواہی دی جارہی ہے کہ وہ حنیف مسلمان تھے‘ یعنی ایسابندہ جس کے اندر شرک کاذرا بھی شائبہ نہ ہو‘ اُس کے عقیدے اور عمل میں کوئی ذرا سی بھی آمیزش نہ ہو۔
{قُلْ صَدَقَ اللہُ        ۣ فَاتَّبِعُوْا مِلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًا     ۭ وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ(۹۵)} (آل عمران)
’’کہہ دیجیے اللہ نے جو کچھ فرمایا ہے سچ فرمایا ہے‘پس پیروی کروملّت ِابراہیم کی جو یکسو تھے۔اور وہ مشرکین میں سے نہیں تھے۔‘‘
سورۃ النساء میں فرمایا:
{وَمَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ وَّاتَّبَعَ مِلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًا     ۭ} (آیت۱۲۵)
’’اور اُس سے بہتر دین کس کا ہو گاجس نے اپنا چہرہ(سر) اللہ کے سامنے جھکا دیا‘ اور(اس کے بعد) احسان(کے درجے) تک پہنچ گیا اور اُس نے پیروی کی دین ابراہیم ؑکی یکسو ہو کر (یاپیروی کی اُس ابراہیم ؑ کے دین کی‘ جو یکسو تھا)۔‘‘
اور پھر وہیں فرمایا:
{وَاتَّخَذَ اللّٰہُ اِبْرٰہِیْمَ خَلِیْلًا(۱۲۵)}
’’ اور اللہ نے تو ابراہیم ؑ کو اپنا دوست بنا لیا تھا۔‘‘
چارہزار برس قبل کی ایک شخصیت کوخود اللہ نے اپنادوست قرار دے دیا۔ سورۃ الانعام میں فرمایا:
{قُلْ اِنَّنِیْ ھَدٰىنِیْ رَبِّیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ڬ دِیْنًا قِــيَمًا مِّلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًا ۚ} (آیت ۱۶۱)
’’(اے نبیﷺ!) کہیے کہ میرے ربّ نے تو مجھے ہدایت دے دی ہے سیدھے راستے کی طرف۔ وہ دین ہے سیدھا جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں اورملت ہے ابراہیم کی‘ جو یکسو تھا (اللہ کی طرف) ۔‘‘
سورۃ ھو د میں فرمایا:
{اِنَّ اِبْرٰھِیْمَ لَحَلِیْمٌ اَوَّاہٌ مُّنِیْبٌ (۷۵)}
’’یقیناً ابراہیم ؑبہت ہی بردبار‘نرم دل اور اللہ کی جناب میں رجوع کرنے والے تھے۔‘‘
یعنی جواعلیٰ ترین صفات ممکن ہوسکتی ہیں وہ ان کی ذات میں جمع کردی گئیں۔یہاں فرمایا کہ وہ حلیم تھے‘ بہت بردبار‘بڑے صاحب تحمل۔بہت نرم دل اورانابت کرنے والے‘اللہ کی طرف رجوع کرنے والے۔سورۃ النحل میں فرمایا:
{اِنَّ اِبْرٰھِیْمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِّلہِ حَنِیْفًا ۭ } (آیت۱۲۰)
ََ’’یقیناً ابراہیم ؑایک اُمّت تھے ‘اللہ کے لیے فرمانبرداراور یکسو۔‘‘
سورئہ مریم میں فرمایا:
{وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِبْرٰھِیْمَ ڛ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا(۴۱)}
’’اور تذکرہ کیجیے اس کتاب میں ابراہیم ؑکا۔ یقینا ًوہ صدیق نبی تھے۔‘‘
حضرت ابراہیمؑ کا آگ میں ڈالا جانا!
پوری انسانی تاریخ میں ایک منفرد واقعہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں ڈالا گیا۔ یہ واقعہ ابراہیم ؑ کی زندگی کاایک ایساواقعہ ہے جوہرصاحب ایمان کے دل پرلکھاہونا چاہیے۔ قبیلے کی سب سے ہونہار شخصیت ہیں۔نوجوان ہیں‘جن سے بڑی امیدیں ہوتی ہیں۔ خاندان بھی بہت اعلیٰ ہے۔باپ صرف معبد کاپروہت ہی نہیں ہےبلکہ معبد کے اندر بُت تراشنے کی ذمہ داری بھی اسی کی ‘یعنی ایک بہت بڑاماہرفن۔وہاں انہیں اندازہ ہوا کہ یہ ستارہ پرستی اور بُت پرستی تو اللہ عزّوجل کے حق پر ڈاکہ ہے۔ جب اللہ کی توحید کی معرفت حاصل ہو گئی تو کیابیتی ہوگی اس نوجوان کے دل پر!
پھر کئی دفعہ قوم کو سمجھا سمجھاکرفیصلہ کرلیاکہ اب انہیں ایک زوردار جھٹکادینا ہے‘ اس کے بغیریہ لوگ ٹس سے مَس ہونے والے نہیں ہیں۔اب یہ بُت پرستی کے ایسے خوگر ہو گئے ہیں کہ کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔ چنانچہ موقع ملنے پر گھس گئے معبدمیں اور بتوں کوتوڑ کربرابر کردیا۔ایک بڑے بُت کو چھوڑ دیا اوراسی کے کندھے پرکلہاڑا بھی رکھ دیاتاکہ واقعاتی شہادت (circumstantail evidence) بھی اسی کی طرف راہنمائی کرے‘ قاتل یہی سمجھا جائے۔ چنانچہ جب لوگوں نے پوچھا توکہاکہ اس بڑے سے پوچھ لو‘یہ کھڑا ہواہے ‘دیکھ رہاہے چاروں طرف۔ اور آلۂ واردات بھی اسی کے پاس سے برآمد ہورہا ہے۔یہ ہے وہ لمحہ کہ جس میں ان کے اندر ایسی سوچ پید ا ہوئی کہ ایک دفعہ توسب ہل کے رہ گئے اور ان کے سر جھک گئے۔ پھر کہنے لگے : ’’اے ابراہیم! تم تو جانتے ہو کہ یہ بات نہیں کر سکتے۔‘‘ کیسے پوچھ لیں اس سے؟‘‘ اس پر فرمایا: ’’تف ہے تم پراور تمہارے ان معبودانِ باطل پر۔ کیا تم عقل نہیں رکھتے؟‘‘ان کوپوجتے ہو‘ان سے اُمیدیں لگائی ہوئی ہیں‘ ان کے آسرے ہیں جواتنے بے بس ہیں!
ایک دفعہ چونکنے اور جھٹکاکھانے کے بعداپنے ہی قبیلے کے لوگوںکو غلطی کااحساس تو ہوالیکن ان کے دار الندوہ میں بجائے ندامت کے اپنی غلطی پرمصررہنے کافیصلہ ہوگیا کہ اب اپنے معبودوں کی عزت کو بچائو‘ ان کی مدد کرو!{قَالُوْا حَرِّقُوْہُ وَانْصُرُوْٓا اٰلِھَتَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ(۶۸)}(الانبیاء)’’کہنے لگے : اس کو جلاڈالو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو اگر تم نے کچھ کرنا ہے!‘‘آج اگر اس دعوت کوہم نے پھلنے پھولنے دیاتوکل ہماری تہذیب تباہ ہوجائے گی۔اسے ایسی سزا دوکہ آئندہ کسی نوجوان کوکبھی بھی دوبارہ یہ سوچنے کی جرأت نہ ہو کہ یہ درسِ توحید بھی کوئی حقیقت تھا‘ ابراہیمؑ نے بھی کوئی پیغام دیاتھا!وہ سزا یہ ہے کہ انہیں کے سامنے آگ میں ڈال دو!اپنے ہی گھر والے آگ میں ڈالنے کی تیاریاں کررہے ہیں۔وہ باپ جس سے انہیں بہت محبّت ہے ‘ لکڑیاں جمع کرتا پھر رہا ہے۔ دوسرے لوگ بھی بڑھ چڑھ کرحصّہ لے رہے ہیں۔ جرم کیاہے؟ ایک کلمہ توحیدادا کیاہے جوایسا کلمہ ٔحق ہےجس سے بڑا کوئی حق نہیں۔ ہم میں سے کسی کوذرادین کی خدمت کی توفیق نصیب ہوتی ہے تواس کادماغ ہی چڑھ جاتا ہے‘ پیرزمین پرنہیں رہتے ۔ ابراہیم ؑ پوری آبادی میں اکیلے ہیں۔ایسی تنہائی کہ کوئی ایک شخص بھی نہیں جوآکرکہے کہ اے ابراہیم تمہارے ساتھ بڑا ظلم ہورہا ہے‘ بڑی زیادتی ہورہی ہے۔میرا خیال ہے کہ انسانی تاریخ میں ایسی تنہائی (loneliness) کبھی کسی کو لاحق نہیں ہوئی ہوگی ۔ بالآخرا پنے بس پڑتے انہوں نے وہ کام کر ڈالا۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتا ہے‘ یہ ایک آزمائش تھی ‘لیکن اس کے بعد پھراللہ تعالیٰ اپنے نبیوں اور رسولوں کوبچاتا بھی ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہوا :
{قُلْنَا یٰنَارُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلٰٓی اِبْرٰہِیْمَ (۶۹)} (الانبیاء)
’’ہم نے حکم دیا : اے آگ !تو ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیم ؑپر۔‘‘
رسولوں کے باب میں اللہ تعالیٰ کا اصول یہ ہے:
{کَتَبَ اللہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ ۭ} (المجادلۃ:۲۱)
’’اللہ نے لکھ دیا ہے کہ یقیناً مَیں غالب رہوں گا اور میرے رسول۔‘‘
پھرسو رۃا لصافات میں فرمایا:
{سَلٰمٌ عَلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ(۱۰۹)}
’’سلام ہو ابراہیمؑ پر۔‘‘
سورۃ النجم میں فرمایا:
{وَاِبْرٰھِیْمَ الَّذِیْ وَفّیٰٓ(۳۷)}
ََ’’وہ ابراہیمؑ جس نے وفاداری کاحق ادا کردیا۔‘‘
ایسی عظیم ہستی جس کی وفاداری کی شہادت ربّ العالمین دے رہے ہیں۔اور پھرفرمایا :
{قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْٓ اِبْرٰھِیْمَ} (الممتحنۃ:۵)
’’(ا ے مسلمانو!) تمہارے لیے بھی ابراہیمؑ کی شخصیت میں اُسوئہ حسنہ ہے۔‘‘
اور واحد کے صیغے سے رسول اللہ ﷺ کو بھی خطاب کرکے فرمایاگیا:
{ثُمَّ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًاط} (النحل:۱۲۳)
’’پھر (اے محمدﷺ!) ہم نے وحی کی آپ کی طرف کہ پیروی کیجئے ملت ِابراہیم ؑکی یکسو ہوکر۔‘‘
حضرت ابراہیم ؑ کی دو بڑی آزمائشیں
یہ ہے ابراہیم ؑ کامختصر ساتعارف ۔ان کی زندگی میں جوابتلائیں اور آزمائشیں ہیں وہ ابتدا سے ہی ہیں لیکن دو آزمائشیں اتنی سخت تھیں جن کو بیان کرنے سے زبان قاصر ہے۔
(۱)بیوی اور شیر خوار بچے کو دورافتادہ غیر آباد علاقے میں چھوڑنے کا حکم: ایک وہ جب حکم ہواکہ اپنی بیوی اور شیرخوار بچے کو لے کر فلسطین (شام) کے علاقے سے نکل کھڑے ہو!اس کاپس منظر کیاہے‘قرآن نے اس بارے میں تفصیلات بیان نہیں کیں۔روایات سے معلوم ہوتاہے کہ ان کی پہلی بیوی حضرت سارہ تھیں‘ جو اُن کے آبائی علاقے سے تھیں۔دوسری بیوی حضرت ہاجرہ کا تعلق ایک شاہی خاندان سے تھا۔ وہ ایک قبیلے کے سردار کی بیٹی تھیں۔ یہود ونصاریٰ نے مشہور یہ کیا ہے کہ شاید وہ کوئی باندی تھیں‘ جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت ہاجرہ کے درمیان عمر کافرق بھی بہت زیادہ تھا۔ حضرت سارہ سے اولاد نہیں ہوئی تھی‘ جبکہ حضرت ہاجرہ سے بھی اولاد بہت تاخیر سے ہوئی ہے۔آپؑ نے بڑھاپے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی :
{رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۰۰)} (الصافات)
’’پروردگار! مجھے ایک صالح بیٹا عطا فرما‘‘۔
{فَـبَشَّرْنٰــہُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ(۱۰۱)} (الصافات)
’’تو ہم نے اُسے بشارت دی ایک حلیم الطبع لڑکے کی۔‘‘
غلام حلیم سے حضرت اسماعیل ؑ مراد ہیں‘جو اللہ تعالیٰ نے تقریباً ۸۵ برس کی عمر میں عطا فرمائے۔ یہ اولاد جہاں ان کی اور ان کی اہلیہ کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھی وہیں بوجوہ پہلی اہلیہ سارہ کے لیے آزمائش کاسبب بن گئی کہ جنابِ ابراہیم ؑکی بھی زیادہ توجّہ اسی طرف ہے‘ ہر طرف اسماعیلؑ کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ یہ انسانی طبیعت کی کمزوریاں ہوتی ہیں۔
دس پندرہ برس جوحضرت ہاجرہ اور حضرت ابراہیم کی زوجیت کا دورگزرااس دوران حضرت ہاجرہ کی حیرت انگیز صفات کا نمایاں اظہار اس موقع پرہواہےجب حضرت ابراہیمؑ انہیں بیابان میں چھوڑ کر چلے جانے کے لیے نکلے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہواکہ ا نہیں لے کرچل پڑو۔ کہاں جانا ہے ‘ یہ نہیں بتایاگیا ۔ حضرت جبریلؑ کوبھیجاگیا کہ وہ راہنمائی کریں ۔ وہ انہیںاپنے ہمراہ شام سے لے کرروانہ ہوئے ۔ چار افراد ہیں اور دوسواریاں ہیں۔سینکڑوں میل چل چل کر ایسے ایسے علاقوں میں سے بھی گزرے ہیںکہ جہاں پر ایک دفعہ خوف ہوتا تھا کہ یہیں رکنے کاحکم نہ ہوجائے‘یہاں توکچھ بھی نہیں ہے۔ سیاہ پتھر ہیں‘کوئی دانہ نہیں‘کوئی پانی نہیں۔ چلتے چلتے اس جگہ پہنچے جہاں کسی دور میں بیت اللہ کے آثار تھے۔ یہ علاقہ بھی بالکل غیرآباد(بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ ذَرْعٍ)تھا۔کچھ بھی نہیںتھا یہاں پر۔حضرت جبریل ؑنے بیت اللہ شریف کی نشاندہی کردی اور کہا کہ یہاں چھوڑ کرجانا ہے۔ایک دفعہ توشاید اُن کے اوسان خطا ہوگئے ہوں گے کہ مَیں انہیں یہاں چھوڑ کر جائوں! یہاں توپانی بھی نہیں ہے۔ جوپانی ساتھ لائے ہیں وہ کتنی دیر چلے گا!حضرت ہاجرہ بھی پریشان ہیں کہ کہاں اترنے کاحکم آیا ہے۔ اس کے بعد وہ کچھ کہہ بھی نہیں پارہے‘بتابھی نہیں سکتے۔
جوچنددن یہاں ٹھہرے تھے‘ اس میں آپؑ یہی کرسکتے تھے کہ ایک چھپڑ سابنانے کوشش کی تاکہ ایک سایہ میسّر آجائے۔اس کے بعد نکل کھڑے ہوئے ۔بعض روایات میں آتاہے کہ جب حضرت ابراہیم ؑ انہیں چھوڑ کرجارہے تھے وہ تین سے چار میل پیچھے پیچھے بھاگتی آرہی تھیں کہ آپ کہاں جارہے ہیں‘ہمیں یہاں چھوڑ کرکیوں جارہے ہیں؟ بالآخر اس اللہ کی بندی کواحساس ہوگیاکہ یہ اللہ کاحکم ہے۔جب انہوں نے دریافت کیاتو حضرت ابراہیمؑ نے صرف اثبات میں سرہلادیاکہ ہاں یہ اللہ کاحکم ہے! اور پھرچلے گئے۔ اللہ کےحکم کوپورا کرنا ہی گویا ان کا مقصد ِحیات تھا۔ اس پرحضرت ہاجرہ نے بھی کوئی شکوہ نہیں کیا۔ یہی فرمایاکہ اگر یہ اللہ کاحکم ہے تواللہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔
سور ج نکلا تو ہرطرف آگ برس رہی تھی۔پانی بھی تھوڑا تھوڑا کرکے ختم ہوگیا۔شیرخوار بچہ ساتھ ہے۔ محسوس ہوتاہے کہ یہ بھی انسانی تاریخ کا ایک ایسا دلربا واقعہ ہے جودلوں کوکھینچ کررکھ دے۔حضرت ہاجرہ پانی کی تلا ش میں صفا ومروہ کے درمیان دوڑ رہی ہیں۔ ہموار سطح پردور تک چلی گئیں توبھی بچہ دور سے نظر آرہا ہےلیکن جب ذرا گھاٹی کے اندر گئیں توبچہ نظر نہیں آ رہا۔ چنانچہ پھر دوڑ کر واپس جاتی تھیں کہ دیکھیں بچہ موجود ہے یانہیں۔معلوم یہ ہوتاہے کہ وہ چکر لگا لگا کر تھک کرگر گئیں۔اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے حضرت جبریل امینؑ کوبھیجا اور وہاں پانی کاچشمہ برآمد ہوگیا۔یہ ایک معجزہ تھا جو آج بھی چشم عالم کے لیے معجزہ ہے۔آج تک کوئی نہیں بتاسکا کہ یہ پانی کہاں سے آرہاہے‘اس کے سوتے کون سے کاریزوں اور ریزروائرسے ملے ہوئے ہیں!
حضرت ہاجر ہ کے ساتھ یہ معاملہ کیوں ہوا؟دراصل یہ بنیاد ڈالی جارہی تھی‘ ایک بڑی شخصیت کی آمد کی تیاری کی ۔نبی آخرالزماں حضرت اسماعیل ؑ کی اولاد میں سےہوں گے۔ جتنی بڑی عمارت ہو اُس کی اتنی ہی گہری بنیادیں بنائی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ قادر ہے‘ وہ چاہتا توان کویہ چکر نہ لگانے پڑتے‘یہ وقت نہ دکھایاجاتا‘ان پریہ آزمائش نہ آتی۔اللہ تعالیٰ انہیں وہاں ایک بہترین سامحل دے دیتا‘ جس میں سارے انتظامات بھی ہوجاتے۔اللہ چاہتا توسب کچھ ہوسکتا تھا‘لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہی حضرت ابراہیمؑ بالکل بے آسرا چھوڑ کر گئے۔ یہ ہے اصل میں حضرت ابراہیمؑ کا امتحان اور یہ ہے حضرت ہاجرہ کاکردار اور ان کی شخصیت۔ شاید اس سے بڑی کوئی ابتلا ممکن نہ ہو۔پھر یہ کہ حضرت ابراہیم ؑ کو یہ اجازت بھی نہیں تھی کہ جاکرمل ہی آئیں۔سال کے بعد پہلی مرتبہ اجازت ہوئی ہے تووہ بھی اس طرح کہ بس جائو‘ دیکھ لواور واپس آجائو۔بیوی اور بچے کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کی اجازت نہیں۔ یہاں حضرت ہاجرہ ہی اس بچے کوپال رہی ہیں‘ اس کی تربیت ہورہی ہے‘ وہ بڑا ہورہا ہے۔
(۲)نوجوان بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی:ایک موقع پرحضرت ابراہیم ؑ نے خواب دیکھا کہ اپنی کوئی قیمتی چیز اللہ کی راہ میں قربان کردو۔ ایک سیلانی مزاج ہستی کے پاس کیا ہو سکتا ہے! اونٹ ہیں‘بکریاں ہیں۔ تو حضرت ابراہیمؑ نے ان میں سب سے خوبصورت چیز نکالی اور اللہ کی راہ میں د ے دی۔پھر خواب آیا کہ نہیں‘خوبصورت ترین اور محبوب ترین چیزاللہ کی راہ میں قربان کرو! پہلے کافی مال اللہ کی راہ میں قربان کیا‘لیکن پھر ذہن اس طرف منتقل ہوا کہ ایک اور محبوب شے بھی ہے۔یعنی اپنا بچہ جواب بھاگ دوڑ کی عمر کو پہنچ گیا تھا۔ چنانچہ وہیں سے ارادہ کرکے چل پڑے کہ اللہ کے حکم کے آگے ہرچیز ہیچ ہے۔ لہٰذا اب وہ بچے کوقربان کرنے کے لیے سفر کررہے ہیں ۔ظاہرہے یہاں آکرماں کوبتا تونہیں سکتے تھے کہ مَیں کس لیے آیاہوں‘ صرف ایک بہانے سے بچے کولے کرنکلے ہیں۔یہ کوئی آزمائش سی آزمائش ہے‘ اس کوتوبیان کرنا بھی ممکن نہیں۔قربانی کافلسفہ تو درحقیقت حضرت ابراہیم ؑ کی شخصیت ہے جومجسم قربانی ہے۔کوئی اور بات اس میں کہنے کی ہے ہی نہیں۔انہوں نے وہ کردیا جوکوئی انسان شاید کبھی سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس قربانی کو اللہ تعالیٰ نے رہتی دنیا تک اپنا نام لینے والوں کے لیے ایک علامت بنا دیا ۔ جو بھی اللہ کا نام لیوا ہے اور حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ نسبت قائم کرتاہے اسے یہ یاد رکھناچاہیے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے کیاکیاقربانیاں دی ہیں۔اللہ کی رضا کے لیے اُس کے حکم کے آگے سرجھکاتے ہوئے اپنی سب سے اعلیٰ اور سب سے قیمتی متاع اس کی راہ میں قربان کرنے کا جذبہ دل کے اندر ہونا چاہیے۔اللہ تعالیٰ بہت رحیم ہے‘ اس نے بہت آسانیاں کی ہیں۔وہ تم سے کوئی بڑی قربانی نہیں مانگتا‘صرف ایک بات کاتقاضا ہے کہ اس کی بندگی میں ہرشے کوتج دینے کے لیے تیار رہو!
عبادات میں اللہ تعالیٰ کی جمالی صفات کا عکس
یہاں پرنفسیات سے متعلق ایک دلچسپ بات بھی ہے۔اللہ تعالیٰ کی بہت سی شانیں ہیں اور اُس کی شانوں کا علم ہمیں اُس کے صفاتی ناموں سے ہوتا ہے۔وہ احکم الحاکمین ہے‘وہ العزیز ہے‘وہ ذوانتقام ہے‘وہ العدل ہے‘مقتدر اعلیٰ ہے۔ یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی جلالی صفات ہیں۔ ایک بندئہ مؤمن کے دل میں اللہ تعالیٰ کی ان جلالی شانوں کابھی ایک عکس قائم رہنا چاہیے اوراس کا اظہار اس کی حرکات و سکنات (gestures) سے ہونا چاہیے۔اسی لیے حکم ہے :{ وَقُوْمُوْا لِلہِ قٰنِتِیْنَ (۲۳۸)} (البقرۃ) کہ اللہ کے حضورنماز میں کھڑے ہوتوانتہائی ادب کے ساتھ ‘ نیاز مندی اور عاجزی کے ساتھ۔کیوں ؟یہ اللہ کی جلالی صفات کاایک تقاضا ہے۔تمہارے اندر عاجزی ہو‘فروتنی ہو۔
اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی کچھ صفات وہ بھی ہیں کہ جو جلالی نہیں بلکہ جمالی ہیں۔اللہ محبّت کرنے والا ہے‘وہ وَدُود ہے‘وہ رحیم ہے‘وہ رحمان ہے۔جمالی صفات اصل میں محبوب اورمحب کے درمیان محبّت پید اکرتی ہیں۔ محبّت میں شدّت اور عاشقی کاساجذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اللہ کی ان جمالی شانوں کاتقاضا یہ ہے کہ بندے کی عبادت میں وارفتگی اوردیوانہ پن پیدا ہو۔ دیوانے اور فرزانے بظاہر انسانوں کی طرح چلتے پھرتے نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ اور ہی دنیا میں گم ہوتے ہیں۔محبوب کا تصوّر ہر وقت ‘ہرآن اُن کے اوپرایسا قائم اورمسلط ہوتا ہے کہ انہیں اپنی بھی ہوش نہیں ہوتی۔
اللہ تعالیٰ کی جمالی صفات کاتقاضا یہ ہے کہ عبادات میں یہی وارفتگی پیدا ہو۔یہ کیفیت روزے میں پیدا ہوتی ہے‘اس لیے کہ یہ ایک ایسی عبادت ہے کہ جس کاخارج میں کسی کونہیں پتا کہ اس شخص کاروزہ ہےکہ نہیں!ا نسان کے اندر جتنی زیادہ درماندگی کی کیفیت پید اہوگی اور ایک دیوانہ پن پیدا ہوگااتناہی اس روزے کااجروثواب زیادہ ہے۔ حدیث قدسی کے الفاظ یاد کر لیں:((اَلصَّوْمُ لِیْ وَاَنَا اَجْزِی بِہٖ)) (متفق علیہ) ’’روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کی جزا دوں گا‘‘۔ یعنی یہ کوئی حساب کتاب میں آنے والامعاملہ نہیں ہے۔
حج کی عبادت بھی اصلاً اللہ کی صفاتِ جمال ہی کاایک مظہرہے۔یہ امر پسندیدہ نہیں ہے کہ بندہ حج کے دوران بھی رکھ رکھائو کے ساتھ رہے۔احرام بڑی اعلیٰ قسم کا ہو‘ رہائش بھی فائیو سٹار ہو۔ ٹیپ ٹاپ‘رکھ رکھائو‘صفائی ستھرائی یہ سب مطلوب نہیں ہے۔ انسان وہاں پرجتنادرماندہ اور عاجز ہوجائے اتنا ہی وہ اللہ کو پسند ہے‘ اس لیے کہ یہ صفاتِ جمال ہی کا ایک عکس ہے۔ جو پہناوا پہنا ہوا ہے وہ بھی کوئی باقاعدہ کپڑے تو نہیں ہیں‘ محض دو اَن سلی چادریں ہیں جو کچھ ہی دیر میں میلی کچیلی ہوجاتی ہیں۔جب تک ناپا ک نہ ہوجائیں‘کوئی حرج نہیں ہے‘ بلکہ یہی تمہارا حسن ہے۔ سفرکرکے لٹے پٹے انداز میں وہاں پہنچیں تو یہ نہیں ہے کہ اب کچھ ریلیکس کرنا ہے ‘بلکہ جاتے ہی بیت اللہ شریف کا طواف کیا جائے‘ وہ بھی ایسے جیسے پروانے شمع کا طواف کر رہے ہیں۔ پھر عمرے کے بعد بھی آرام نہیں‘ بلکہ اب حج کے لیے نکلنا ہے۔ آبادی سے نکل کر صحرا میں پہنچ جائو۔ نیچے کوئی نرم گدیلے نہیں بلکہ نوکیلے پتھر ہیں۔ یوم ِعرفہ میں اللہ ربّ العزت کوچیخ چیخ کرپکاررہے ہیں۔یہ کیفیات ہیں کہ جوحج کی عبادت میں ہیں۔
قربانی اور فلسفہ ٔ قربانی
پھر قربانی کے حوالے سے یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ اگر اللہ کے لیے اپنی خواہشات کو تج دینے کوتیار نہیں ہوتوکس منہ سے جانور ذبح کر رہے ہو!اگرا للہ کے احکام پرچلنے کے لیے تم ذرا بھی اپنے اندر عزم وارادہ یا آمادگی پیدا نہیں کر رہے تو پھر کس بات کادعویٰ کررہے ہو!کہتے ہوکہ ہم ابراہیم ؑ کے ماننے والے ہیں‘ لیکن ابراہیم ؑ کااُسوہ توکچھ او ر ہے۔صرف غلط خواہشات کوہی چھوڑنا نہیں ہے بلکہ اپنی محبوب ترین متاع کواللہ کی راہ میں قربان بھی کرنا ہے۔ اس اعتبار سے قربانی کے معاملے کو کوئی ہلکی شے نہ سمجھا جائے۔ اس کی اصل سپرٹ کے مطابق قربانی کریں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ محض ایک رسم بن گئی‘ بقول اقبال:
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں‘ تُو باقی نہیں ہے!
اگر یہ سپرٹ نہیں ہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ ہم نے اس حقیقت کوسمجھا ہی نہیں۔اللہ کے لیے تھوڑاساوقت نکالنا‘عبادات کے لیے وقت نکالنا‘دین کی دعوت کے لیے وقت نکالنا‘کم سے کم تقاضا ہے ۔ اگر ہم اس تقاضے کوبھی پورا نہیں کررہے توپھرکس منہ سے اللہ کانام لے رہے ہیں! آج کل جانوروں کے حوالے سے خودنمائی ‘ستائش‘ریاکاری کے مظاہر عام نظر آتے ہیںاوریہ وبا پھیل رہی ہے ۔دیکھ کردل بیٹھتا ہے کہ کیااس مقصد کے لیے اللہ نے قربانی کا کہاہے؟اتنے کروڑ کا جانور آگیا‘اتنے لاکھ کا‘ اتنی قیمت کاجانور آگیا۔(معاذ اللہ!) غور کرنا چاہیے کہ اس حوالے سے رسول اللہ ﷺ کااُسوہ کیاہے؟آپ ﷺ کاحکم کیاہے؟
قربانی کے بارے میں ایک بات عرض کر دوں کہ اس کے دو پہلو اورمظاہر ہیں۔ ایک وہ ہے جسے ہم سُنّت ِابراہیمی کہتے ہیں۔حضرت ابراہیم ؑ نے جس طریقے سے قربانی کے لیے اپنے آپ کواللہ کے حوالے کردیا‘اس سپرٹ کوقائم رکھنا۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے انہی دنوں میں اس کو عمومی طور پر جاری کر دیا ۔ قربانی کا دوسرا پہلو اور مظہر وہ ہے جو حجاج کرام ادا کررہے ہیں۔یہ قربانی اپنی نوعیت کے اعتبار سے قدرے مختلف ہے۔ یہ دمِ تمتع ہے۔ سُنّت ِابراہیمی والی قربانی وہ ہے جوایک غیرمسافر اپنے گھر میں رہتے ہوئے اپنے پیسے سے ایک جانور خرید کر اللہ کی راہ میں قربان کرتاہے۔البتہ یہ قربانی مسافر پرواجب نہیں ہے۔ویسے اس میں بھی اختلاف ہے کہ یہ واجب ہے یاسُنّت ِمؤکدہ ہے۔احناف کے نزدیک صاحب استطاعت پر واجب ہے۔ جبکہ حجاج کرام کی قربانی دمِ تمتع ہے‘ وہ اس بات کا شکرانہ ہے کہ اللہ نے ہمیں ایک ہی سفرمیں عمرہ اور حج جمع کرنے کی اجازت دی اورہمیں اس کی توفیق بخشی۔ اسی لیے جو آدمی سُنّت ِابراہیمی یعنی عیدالاضحی والی قربانی کرنا چاہتاہے وہ پیچھے اپنے گھروالوں کو کہہ سکتا ہے کہ میری طرف سے قربانی کر دینا‘ اس لیے کہ وہاں جومیں کررہا ہوں وہ دمِ تمتع ہے۔چاہے تووہیں پربھی کرسکتاہے ‘لیکن چونکہ وہ مسافر ہے اس لیے اس پر وہ وجوب اس درجے کانہیں ہے۔ تویہ فرق ذہن میں رکھیے۔
حج اور قربانی کی فضیلت : احادیث کی روشنی میں
اب حج اور قربانی کے حوالے سے چنداحادیث سنا کراپنی بات ختم کرتاہوں۔
(۱) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَقُوْلُ: ((مَنْ حَجَّ لِلہِ فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ رَجَعَ کَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ)) (رَوَاهُ الْبُخَارِي)
حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’جو کوئی رضائے الٰہی کے لیے حج کرے کہ جس میں نہ کوئی بیہودہ بات ہو اور نہ کسی گناہ کا ارتکاب‘ تو وہ ایسے لوٹے گا جیسے اُس کی ماں نے اُسے ابھی جنا ہو۔‘‘
(۲) عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ : ((مَنْ مَلَكَ زَادًا وَرَاحِلَةً تُبَلِّغُهُ إِلٰى بَيْتِ اللہِ وَلَمْ يَحُجَّ فَلَا عَلَيْهِ أَنْ يَمُوتَ يَهُودِيًّا أَوْ نَصْرَانِيًّا، وَذٰلِكَ أَنَّ اللہَ يَقُولُ فِي كِتَابِهٖ ‏:{‏وَلِلہِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا}‏ (رواہ الترمذی)‏
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جس شخص کی ملکیت میں زادِ راہ بھی ہواور سواری بھی ہوجواُسے بیت اللہ شریف تک پہنچا سکتی ہو ‘ اور وہ حج نہیں کرتا‘توپھر اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ یہودی ہو کر مرے یانصرانی ہوکرمرے۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اور اللہ کا حق ہے لوگوں پر کہ وہ حج کریں اُس کے گھر کا‘ جو بھی استطاعت رکھتا ہو اس کے سفر کی۔‘‘
آیت کااگلا حصہ اس طرح ہے : {وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ(۹۷)} ’’اور جس نے کفر کیا تو (وہ جان لے کہ ) اللہ بے نیاز ہے تمام جہان والوں سے‘‘-----گویا جس نے حج نہ کیاوہ مرتکب ِکفر ہے۔ٹیکنیکلی ایسے شخص کے اوپر کفر کااطلاق ہویانہ ہو‘حقیقتاً یہ کفر ہی ہے۔ اُس لیے کہ اس نے اس کے بغیر ساری زندگی بسر کردی اورپھر مرگیا۔
(۳) عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : ((مَنْ لَمْ يَمْنَعْهُ مِنَ الْحَجِّ حَاجَةٌ ظَاهِرَةٌ أَوْ سُلْطَانٌ جَائِرٌ أَوْ مَرَضٌ حَابِسٌ، فَمَاتَ وَلَمْ يَحُجَّ، فَلْيَمُتْ إِنْ شَآءَ يَھُوْدِهًّا وَإِنْ شَآءَ نَصْرَانِیًّا)) (رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ)
حضرت ابو اُمامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص کو فریضہ حج کی ادائیگی سے کوئی ظاہری ضرورت یا کوئی ظالم بادشاہ یا مہلک مرض نہ روکے اور وہ پھر (بھی) حج نہ کرے اور (فریضہ حج کی ادائیگی کے بغیر) مرجائے تو چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر (اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے)۔‘‘
وَفِيْ رِوَايَةٍ عَنِ الْحَسَنِ قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ رضی الله عنه : لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَبْعَثَ رِجالًا إِلٰی هٰذِهِ الأَمْصَارِ فَيَنْظُرُوا کُلَّ مَنْ کانَ لَهُ جِدَّةٌ ولَمْ يَحُجَّ فَيَضْرِبُوا عَلَيْهِمُ الْجِزْيَةَ۔ ما هُمْ بِمُسْلِمِينَ! مَا هُمْ بِمُسْلِمِينَ! (رَوَاهُ السُّيُوْطِيُّ وَابْنُ کَثِيْرٍ)
ایک اور روایت میں حضرت حسن بصریؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطابؓ نے فرمایا : ’’بے شک میں نے ارادہ کیا کہ ان شہروں کی طرف کارندے بھیجوں اور وہ دیکھیں کہ ہر وہ شخص جو صاحبِ جائیداد ہے اور اُس نے حج نہیں کیا تو وہ اس پر جزیہ لگائیں (کیونکہ جولوگ استطاعت کے باوجود حج نہ کریں) وہ مسلمان نہیں ہیں! وہ مسلمان نہیں ہیں!‘‘
(۴) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : ((اَلْعُمْرَةُ إِلَی الْعُمْرَةِ کَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَھُمَا، وَالْحَجُّ الْمَبْرُوْرُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا الْجَنَّةُ))(مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک عمرہ سے دوسرا عمرہ اپنے درمیان گناہوں کا کفّارہ ہیں اور حج مبرور کا بدلہ جنّت کے سوا اور کچھ نہیں ہے (یعنی ایسے حج والا شخص جنّت میں جائے گا)۔‘‘
(۵) عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ : ((تَابِعُوا بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ، فَإِنَّهُمَا يَنْفِيَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوبَ، کَمَا يَنْفِي الْکِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ وَالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، وَلَيْسَ لِلْحَجَّةِ الْمَبْرُورَةِ ثَوَابٌ إِلَّا الْجَنَّةُ)) (رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ)
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’حج اور عمرہ یکے بعد دیگرے کرتے رہو ‘کیونکہ یہ دونوں محتاجی اور گناہ کو اس طرح دور کرتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے‘ سونے اور چاندی کے میل کچیل دور کرتی ہے۔ اور حج مقبول کا ثواب صرف جنّت ہی ہے۔‘‘
(۶) عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَؓ قَالَتْ: اسْتَأْذَنْتُ النَّبِيَّ ﷺ فِي الْجِهَادِ، فَقَالَ: ((جِهَادُکُنَّ الْحَجُّ))وَقَالَ عَبْدُ اللہِ الْوَلِيدِ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مُعَاوِيَةَ بِهٰذَا. (رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ)
اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے جہاد کی اجازت طلب کی تو آپ ﷺنے فرمایا: ’’تمہارا (عورتوں کا) جہاد حج ہے۔‘‘ عبداللہ بن الولید نے کہا: ہمیں سفیان نے حضرت معاویہؓ سے اس طرح روایت کیا ہے۔
(۷) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؓ عَنِ الْفَضْلِ أَوْ أَحَدِهِمَا عَنِ الْآخَرِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : ((مَنْ أَرَادَ الْحَجَّ فَلْيَتَعَجَّلْ، فَإِنَّهُ قَدْ يَمْرَضُ الْمَرِيْضُ، وَتَضِلُّ الضَّالَّةُ وَتَعْرِضُ الْحَاجَةُ)) (رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَه)
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ اپنے بھائی حضرت فضل بن عباس ؓ سے یا وہ حضرت ابن عباس ؓسے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس کا حج کا ارادہ ہو تو وہ جلدی کرے کہ کبھی کوئی بیمار پڑ جاتا ہے یا کوئی چیز گم ہوجاتی ہے یا کوئی اور ضرورت پیش آ جاتی ہے۔‘‘
(۸) عَنْ أُمِّ مَعْقِلٍؓ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: ((عُمْرَةٌ فِي رَمَضَانَ تَعْدِلُ حَجَّةً)) (رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ)
حضرت اُمّ معقل ؓسے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: ’’رمضان میں عمرہ کرنے کا ثواب حج کے برابر ہے۔‘‘
(۹) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍؓ: أَنَّ امْرَأَةً مِنْ جُهَيْنَةَ، جَاءَتْ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَتْ: إِنَّ أُمِّي نَذَرَتْ أَنْ تَحُجَّ، فَلَمْ تَحُجَّ حَتّٰی مَاتَتْ. أَفَأَحُجُّ عَنْهَا؟ قَالَ: ((نَعَمْ، حُجِّي عَنْهَا، أَرَأَيْتِ لَوْ کَانَ عَلَی أُمِّکِ دَيْنٌ أَکُنْتِ قَاضِيَتَهُ؟ اقْضُوا اللہَ ، فَاللہُ أَحَقُّ بِالْوَفَاءِ)) (رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ)
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ جُہَینہ کی ایک عورت نبی اکرم ﷺ کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئی: میری والدہ نے حج کرنے کی منّت مانی تھی لیکن وہ حج نہ کر سکیں یہاں تک کہ فوت ہو گئیں۔ کیا میں ان کی طرف سے حج کروں؟ آپ ﷺ نےفرمایا:’’ ہاں تم ان کی طرف سے حج کرو۔ اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو کیا تم اُسے ادا کرتیں؟ لہٰذا اللہ تعالیٰ زیادہ حقدار ہے کہ اُس کا قرض ادا کیا جائے۔ ‘‘
(۱۰) عن أبي هُرَيْرة رضی الله عنه قال: قال رَسولُ اللهِ ﷺ : ((مَنْ وَجَدَ سَعَةً فلَم يُضَحِّ، فَلَا يَقْرَبنَّ مُصَلَّانا)) (أخرجه الإمام أحمد وابن ماجه)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص صاحب حیثیت ہو پھر بھی وہ قربانی نہ کرے‘ تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے۔‘‘
(۱۱) وعنْ عائِشةَؓ أنَّ النَّبيَّ ﷺ قال: ((مَا عَمِلَ ابْنُ آدَمَ يَوْمَ النَّحْرِ عمَلًا أحَبَّ إلى اللهِ - عزَّ وجلَّ - مِنْ هراقةِ دَمٍ، وإنَّهُ ليَأْتِي يَوْمَ القِيامَةِ بِقُرُونِها وأظْلافِها وأشْعارِها، وإنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِن اللهِ - عزَّ وجلَّ - بِمَكانٍ قَبْلَ أنْ يَقَعَ على الأرْضِ، فَطِيبُوا بِها نَفْسًا)) (رواہ الترمذي وابن ماجه)
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اِبن آدم (اِنسان) نے قربانی کے دِن کوئی ایسا عمل نہیں کیا جو اللہ کے نزدیک خون بہانے (یعنی قربانی کرنے) سے زیادہ پسندیدہ ہو۔ اور قیامت کے دن وہ (ذبح کیا ہوا جانور) اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا۔ اورقربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول ہوجاتا ہے‘ لہٰذا تم اس کی وجہ سے (قربانی کرکے) اپنے دِلوں کو خوش کرو۔‘‘
بار بار حج و عمرہ کرنا
ان روایات سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صاحب استطاعت حضرات کو حکم دیا کہ وہ حج اورعمرہ بار بار کیاکریں۔رسول اللہﷺ نے جیسی سعی پیہم والی زندگی بسرکی ہے اس میں آپ ﷺ کے لیے بار بار حج کرنے کے مواقع نہیں تھے‘ البتہ متعدد عمرے کیے ہیں۔روایات میں چار عمروں کا تذکرہ آتاہے لیکن حج صرف ایک ہی کرسکے‘حجۃ الوداع‘ جو سیرتِ طیبہ کا سب سے معروف واقعہ ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم اس حج کی تمام روداد بار بار پڑھیں‘ ان دنوںکے اندر خاص طور سے پڑھیں۔یہ بڑی تفصیلی روایات ہیں۔اس حج کے دوران آپﷺ کے جوخطبات ہیں‘ ان کامطالعہ کریں‘اس لیے کہ وہ دین کی تعلیمات کا خلاصہ اورنچوڑ ہیں۔اس کے بعد کوئی نیاحکم نہیں آیا۔ اس کے اندر تمام احکام کے concluding ریمارکس ہیں ۔
رسول اللہ ﷺ نے عمرہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ عمرے سے عمرے تک جودورانیہ ہے‘ یعنی ایک آدمی نے عمرہ کیااس کے بعد دوسرا عمرہ کیاتویہ اس دوران اس کے اعمال کے کفارے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ یہ بھی کہاگیاکہ بار بار کرو‘ جتنا زیادہ کرسکتے ہووہ کرو۔بعض دفعہ یہ خیال آتاہے کہ اس میں کافی خرچ ہوتاہے۔ایک دفعہ کر لیا‘ دوبارہ جائیں گے توپھر بہت خرچ ہوگاتو یہ رقم کسی ضرورت مند کودے دی جائے ۔عام طور پر اس قسم کی تاویلات وہی لوگ اختیار کرتے ہیں جونہ وہ کرنا چاہتے ہیں اور نہ یہ کرنا چاہتے ہیں۔ صرف باتیں بناتے رہے۔ حج بھی نہیں کیا‘عمرہ بھی نہیں کیااور مال کے اوپر سانپ بھی بن کر بیٹھے رہے۔جولوگ عمرہ اور حج باربار کرتے ہیں وہ دوسرے معاملات میں بھی خرچ کرنے سے پیچھے نہیں رہتے۔ پھر اسے رزق کی کشادگی کاذریعہ بھی بتایاگیا۔بظاہر مال کم ہورہا ہے لیکن وہ مال کی کمی اس کے اوپر کبھی اثرانداز نہیں ہوتی۔
عشرئہ ذوالحجہ کے لیے تیاری
اس ضمن میں اب جو عشرئہ ذوالحجہ آنے والا ہے‘ اس کی تیاری کرنا ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔رمضان المبارک میں تویہ ہوتا ہے کہ آخری عشرے کے لیے ایک ماحول بن جاتا ہے ۔ سحری اور افطاری کی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔پھر رات کوتراویح کامعاملہ ہوتاہے ۔بدقسمتی سے عشرئہ ذوالحجہ جوانتہائی فضیلت کاحامل ہے ‘اس کے لیے ماحول ہی نہیں بنتاسوائے ان لوگوں کے جوحج کاسفر کرنے والے ہیں۔باقی لوگوں کوتوپتا ہی نہیں چلتا کہ کب شروع ہوا اورکب ختم ہوگیا۔ جبکہ اس کی بہت اہمیت ہے۔ ان ایام میں روزہ رکھنے کی بہت ہی فضیلت بیان ہوئی ہے۔
آغاز میں مَیں نے جوآیات پڑھی ہیں :
{وَالْفَجْرِ(۱) وَلَیَالٍ عَشْرٍ (۲)}
’’قسم ہے فجر کے وقت کی۔اور دس راتوں کی۔‘‘
جمہور مفسرین کی رائے یہ ہے کہ لَیَالٍ عَشْرٍ سے مراد ذوالحجہ کی دس راتیں ہیں۔اہل تفسیر کے ہاں اس پراختلاف ہے کہ رمضان المبارک کاآخری عشرہ زیادہ فضیلت کاحامل ہے یا عشرہ ذوالحجہ !راجح قول یہ ہے کہ راتیں رمضان المبارک کی زیادہ فضیلت کی حامل ہیں کہ ان میں لیلۃ القدر ہے جبکہ دن عشرہ ذوالحجہ کے زیادہ فضیلت والے ہیں۔ چنانچہ اس میں کیے ہوئے نیک اعمال اجروثواب کے اعتبار سے نہایت عظیم اور وقیع ہیں۔
یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اگر ان ایام میں کوئی عبادت یا عمل صالح اجرو ثواب کے حوالے سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے تو انہی ایام میں معصیت کرنے پرپکڑ بھی زیادہ ہے۔ چنانچہ ان اوقات کو قیمتی بنانا اور ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرناچاہیے۔تلبیہ ہے‘ ذکر اللہ ہے‘نماز ہے‘روزہ ہے۔ سوائے یومِ نحر کے باقی نودن کاروزہ بہت فضیلت کاحامل ہے۔ غیرحاجیوں کے لیے یوم عرفہ کاروزہ انتہائی فضیلت کاحامل ہے۔ حدیث میں آتاہے کہ پچھلاسا ل پورا اور اگلاسال پوراان کی معافی کااعلان ہوجاتاہے۔حجاج کے لیے یوم ِعرفہ کاروزہ نہ رکھنازیادہ افضل ہے ‘جبکہ جو لوگ اپنے اپنے گھروں میں ہیں ان کے لیے یومِ عرفہ کاروزہ رکھناانتہائی فضیلت کاحامل ہے۔ان فضائل سے محروم رہنااور ان کی طرف توجہ اور التفات نہ کرنا بڑی محرومی کی بات ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان حقائق کوسمجھنے‘ان سے صحیح نتائج اخذ کرنے اور پھر ان کے مطابق اپنی زندگی کواستوار کرنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے!
اقول قولی ھذا واستغفر اللہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات