(حسن معاشرت) معذور اَفراد کے حقوق - احمد علی محمودی

7 /

معذور اَفراد کے حقوقاحمد علی محمودیمذاہب عالم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی تعلیمات میں سائلین‘ محرومین‘ مستضعفین اور کسی بھی انداز کی معذوری اور محتاجی کے سد ِباب کے اشارے اور واضح اسلوب موجودہیں۔ قبل مسیح ؑکے دیگر مختلف افکار اور مذاہب کے راہنما اپنے اپنے صحائف اور فرمودات کے ذریعے معاشرے کے محروم اور ضرورت مند لوگوں کی بھلائی کے بارے میں مقتدر حضرات کو آگاہ کرتے رہے۔ بعدازاں ان کی سرداری اپنے ہاتھ میں لے کر ظلم و جبر کا کاروبار عام کرنے والے کامیاب ہوگئے۔
حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ ؑ پر نازل ہونے والی آسمانی کتب یعنی تورات اور انجیل میں اِن طبقات کی فلاح اور بھلائی کے ابواب موجود ہیں۔ حضرت عیسیٰ ؑ کا اللہ کے اذن سے اندھوں کو بینائی بخشنا اور کوڑھ کے مریضوں کو شفایاب کرنا‘ اُن کی تعلیمات کا عملی نمونہ ہے۔ حتیٰ کہ یہ سلسلہ نبی آخر الزماں حضرت محمدرسول اللہ ﷺ کی شریعت ِمطہرہ تک آن پہنچا اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں معذور افراد کے بارے میں واضح اور کھلے احکامات کا ذکر کرتے ہوئے‘ آنحضورﷺ کی زندگی میں ہی عملی اقدامات کا بندوبست فرمایا۔
تکریمِ انسانیت
ربّ ِکائنات نے جتنی مخلوقات کو وجود بخشا‘ ان میں سب سے افضل اور مکرّم انسان کو بنایا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
{ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ(۴)} (التین)
’’تحقیق ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔‘‘
{وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ ......}(بنی اسرائیل :۷۰)
’’اور (یہ تو ہماری عنایت ہے کہ )ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی ......‘‘
متذکرہ بالا آیاتِ مقدّسہ کے اسباق میں یہ امر واضح ہو رہا ہے کہ خالق ِ کائنات نے نفس انسانی کو بہت عزّت و تکریم اور احترام و احتشام سے نوازا ہے۔
رنگ و نسل اور مذہب سے بالاتر
دین ِ اسلام ہمیں انسانیت کی تکریم کا جو درس دیتا ہے وہ رنگ و نسل اور فرقہ و مذہب سے بہت بلند و بالا ہے۔ انسان کا احترام اُس کے رنگ‘ نسل‘ خاندان یا مذہب کے باعث نہیں بلکہ نوعِ انسان کے ایک فرد ہونے کے باعث ہے۔
نبی مکرم ﷺ کے خطبہ حجۃ الوداع میں انسانیت کو جو عزّت اور وقار عطا کیا گیا ہے وہ دنیا کا کوئی بھی دستور نہیں دے سکتا۔ رسول اللہﷺ نے ارشادفرمایا:
’’اے بنی نوعِ انسان! تمہارے خون‘ تمہارے اموال اور تمہاری عزّتیں تم پر اِسی طرح حرام ہیں‘ جس طرح اِس ماہ (ذوالحجہ) اِس شہر (مکہ) میں تمہارے لیے اِس دن (یومِ عرفہ) کی عزّت ہے۔‘‘ (السیرۃ النبویہ‘ ابن ہشام)
رسول اللہﷺ نے انسانوں کی عزّت و آبرو‘ جان اور مال کو ایک دوسرے پر حرام قراردیا ہے۔ گویا عزّت اور جان و مال کے سلسلے میں ساری انسانیت برابر ہے۔ آپﷺ کا ذاتی کردار تکریمِ انسانیت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ ایک مرتبہ آں حضورﷺ کے سامنے سے ایک جنازہ گزراتو آپﷺ کھڑے ہوگئے۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! یہ ایک یہودی کا جنازہ تھا۔ ارشاد فرمایا: ’’مَیں انسانی جان کے احترام میں کھڑا ہوا ہوں۔‘‘
تکریمِ انسانیت کی بلند ترین سطح یہ ہے کہ انسان دوسرے انسان کی دِل آزاری نہ کرے‘ اُس کا مذاق نہ اُڑائے‘ اُسے اس کے عیبوں کا طعنہ نہ دے‘ اُسے بُرے ناموں یا القاب سے نہ پکارے‘ اُسے اپنے سے کم تر یا گھٹیا محسوس نہ کرے۔ قرآن مجید میں اللہ ربّ العزت نے تکریم انسانیت کا درس دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
{یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی اَنْ یَّـکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْہُمْ وَلَا نِسَآئٌ مِّنْ نِّسَآئٍ عَسٰٓی اَنْ یَّـکُنَّ خَیْرًا مِّنْہُنَّ ج وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ط} (الحجرات:۱۱)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! نہ مرد‘دوسرے مَردوں کا مذاق اُڑائیں ‘ ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں‘ اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اُڑائیں‘ ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہترہوں۔ اور آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اورنہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد کرو۔‘‘
دین ِ اسلام نے زندگی کے معاملات میں ہر انسان کو بلا تمیز ِرنگ و نسل یا سماجی مرتبہ مساوی حیثیت عطا کی ہے۔ یہ عام سماجی رویّہ ہے کہ معذور افراد کو زندگی کے عام معاملات اور میل جول میں نظرانداز کرنے کی روش اختیار کی جاتی ہے۔ قرآنی تعلیمات نے اِس روش اور عادت کی سختی سے مذمّت کرتے ہوئے ہر انسان کو لائق ِعزّت و وقار قرار دیا ہے۔
معاشرتی رتبہ اور توجّہ کے مستحق
ایک موقع پر آںحضورﷺ رئوساء ِ مشرکین کو تبلیغ فرما رہے تھے کہ اتنے میں نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن اُمّ مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپؐکی خدمت میں حاضر ہوئے۔ دوسروں سے مصروفِ گفتگو ہونے کی وجہ سے آپﷺ حضرت عبداللہ بن اُمّ مکتوم ؓکی طرف متوجّہ نہ ہوسکے تو اِس عدم توجہی پر یہ آیات نازل ہوئیں:
{عَبَسَ وَتَوَلّٰیٓ (۱) اَنْ جَآئَ ہُ الْاَعْمٰی (۲) وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰیٓ(۳) اَوْ یَذَّکَّرُ فَتَنْفَعَہُ الذِّکْرٰی(۴)} (عبس)
’’تیوری چڑھائی اور منہ پھیر لیا ۔ اس بات پر کہ وہ نابینا اُنؐ کے پاس آ گیا۔ آپ کو کیا خبر‘ شاید وہ سُدھر جائے۔ یا نصیحت پر دھیان دے اور نصیحت کرنا اس کے لیے نافع ہو!‘‘
اِن آیاتِ مبارکہ کے توسط سے اُمّت کو یہ تعلیم دی گئی ہے:
(۱) دیگر افرادِ معاشرہ کی نسبت معذور افرادزیادہ توجّہ کے مستحق ہیں۔ دوسرے افراد کو اِن پر ترجیح دیتے ہوئے انہیں نظر انداز نہ کیا جائے۔
(۲) عزّت و وقار کے مرتبے کا تعین سماجی یا معاشرتی حیثیت کو دیکھ کر نہ کیا جائے ‘بلکہ اس کے لیے ذاتی کردار‘ تقویٰ‘ اصلاح طلبی اور نیکی کے جذبے کو معیار بنایا جائے۔
(۳) معذور اَفراد کو تعلیم سے بہرہ مند کیا جائے ‘کیونکہ وہ دیگر انسانوں کی طرح مفید اور کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں۔
دین اسلام نے کسی شخص کے جسمانی نقص یا کمزوری کی بنا پر اُس کی عزّت و توقیر اور معاشرتی رُتبہ کو کم کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی ‘ بلکہ جا بجا ایسے واقعات اور احکامات موجود ہیں جن کی بنیاد پر اللہ اور اُس کے رسولﷺ نے ایسے لوگوں کو دوسرے انسانوں کی نسبت زیادہ عزّت بخشی ہے۔
حضرت عبداللہ بن اُمّ مکتومؓ نابینا تھے۔وہ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا کچھ مدّعا بیان کرنا چاہتے ہیں اور تعلیماتِ رسولؐ سے بہرہ مند ہونے کی خواہش رکھتے ہیں۔ بینائی نہ ہونے کی وجہ سے اُنھوں نے حاضر خدمت ہو تے ہی اپنا مدّعا بیان کرنا شروع کر دیا۔ عین اُسی وقت کچھ اشرافِ قریش بھی آپﷺ کے پاس بیٹھے تھے‘ جنھیں آپؐ دین حق کی تبلیغ فرما رہے تھے۔ دعوتِ حق کی حکمت ِعملی اور محویت کے باعث آپﷺ عبداللہ بن اُمّ مکتوم ؓ کی طرف توجّہ نہ دے سکے اور اُن کے سوالات کا جواب بھی نہ دیا‘ بلکہ ابن مکتوم ؓ کی بار بار ندا اور مداخلت سے سرکارِ دوعالم ﷺ کو قدرے ناگواری ہوئی۔اس موقع پر باری تعالیٰ نے اپنے حبیب ِمکرّم ﷺ کو متوجّہ فرماتے ہوئے سائل کی مخلصانہ طلب اور راہِ حق کی سچی جستجو کو زیادہ اہمیت دینے کی نشان دہی فرمائی۔
ایک اور واقعہ جو بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ لوگوں کو کھانا کھلا رہے تھے۔ آپؓنے دیکھا کہ ایک شخص بائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہا ہے۔ آپؓنے فرمایا کہ اے بندۂ خدا! دائیں ہاتھ سے کھا۔ اُس نے جواب دیا کہ ’’وہ مشغول ہے‘‘۔ آپؓآگے بڑھ گئے۔ جب دوبارہ گزرے تو پھر وہی فرمایا اور اُس شخص نے پھر وہی جواب دیا۔ جب تیسری بار آپؓنے اُس کو ٹوکا تو اُس نے جواب دیا کہ ’’موتہ کی لڑائی میں میرا دایاں ہاتھ کٹ گیا تھا۔‘‘ یہ سن کر آپؓ رونے لگے اور پاس بیٹھ کر اُس سے پوچھنے لگے کہ تمہارے کپڑے کون دھوتا ہے اور تمہاری دیگر ضروریات کیسے پوری ہوتی ہیں؟ تفصیلات معلوم ہونے پر آپؓ نے اُس کے لیے ایک ملازم کا انتظام کیا ‘ اسے ایک سواری دلوائی اور دیگر ضروریاتِ زندگی بھی مہیّا کیں۔ (کتاب الآثار ازابو یوسف ۱:۲۰۸ رقم ۹۲۷ھ)
اِس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت ِاسلامیہ کا فرض ہے کہ وہ معذور افراد کی ضروریات کا خیال رکھنے میں کوتاہی اور سستی کی مرتکب نہ ہو۔
ایک پگلی عورت کا واقعہ بھی حدیث میں نقل ہوا ہے جسے متعدد محدثین مثلاً امام مسلم‘ ابودائود‘ قاضی عیاض‘ قسطلانی‘ ابولیلیٰ اور ذہبی(رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین) نے حضرت اَنس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبانی تحریر کیا ہے کہ مسجد ِنبویؐ میں آںحضورﷺ صحابہ کرامؓ کے پاس بیٹھے کچھ اہم موضوعات پر گفتگو فرما رہے تھے کہ پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ایک بڑھیا مجمع کے آخر میں کھڑے ہو کر کچھ کہنا چاہ رہی تھی۔ آپﷺ اُس کی طرف متوجّہ ہوئے۔ اُس نے عرض کیا کہ حضورؐ! مَیں کچھ عرض کرنا چاہتی ہوں مگر سب کے سامنے نہیں۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ! ’’یہ عورت پاگل ہے اور ایسے ہی آپؐکا وقت ضائع کرے گی‘‘۔ آپؐ کا چہرۂ اَقدس متغیر ہوا‘ فرمایا : ’’پاگل ہے تو کیا انسان نہیں ؟ کیا اِس کی خواہشات اور تمنّائیں نہیں ہیں؟ یہ کچھ کہنے آئی ہے‘‘۔ لہٰذا آپﷺ مسجد ِنبوی سے نکل کر اُس کے ساتھ چل پڑے۔ آپﷺ نے اُس سے اُس کی ضرورت پوچھی اور ساتھ ہی فرمایا کہ تیری ہر بات تسلیم کی جائے گی۔ بڑھیا آگے آگے چلتی رہی اور سرکارِ دو عالمﷺ اُس کے پیچھے پیچھے چلتے رہے۔ مدینہ کی ایک گلی کی نکڑ پر بڑھیا نے آپﷺ سے کہا کہ آپؐ زمین پر تشریف رکھیں۔ آپؐ بیٹھ گئے۔ بڑھیا نے اپنی پوری داستان سنائی اور رحمۃللعالمین ﷺ نے اُس کی ساری ضروریات پوری کر دیں۔
درج بالا واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ بے سہاروں کو سہارا دینا ‘ ان کی باتوں کو توجّہ سے سننا اور ان کی مدد کرنا بھی ایک بڑی عبادت ہے۔
اہلِ قرابت نان و نفقہ کے حق دار
اسلام نے جہاں خصوصی افراد کو معاشرے میں عدم توجہی سے محفوظ رکھنے کے احکامات جاری کیے‘ وہاں اُن کے سماجی تحفظ کا بھی اہتمام کیا ہے۔ قدرت نے جہاں انہیں کسی ایک صفت سے محروم کیا وہیں اُن کی معاونت اور مدد کے لیے ان کے حقو ق کا حکم بھی صادر کیا ہے۔مثلاً سورۃ النور میں فرمایا:
{لَیْسَ عَلَی الْاَعْمٰی حَرَجٌ وَّلَا عَلَی الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَی الْمَرِیْضِ حَرَجٌ وَّلَا عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَنْ تَاْکُلُوْا مِنْۢ بُیُوْتِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اٰبَاۗئِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اُمَّھٰتِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اِخْوَانِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَخَوٰتِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَعْمَامِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ عَمّٰتِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ اَخْوَالِکُمْ اَوْ بُیُوْتِ خٰلٰتِکُمْ اَوْ مَا مَلَکْتُمْ مَّفَاتِحَہٗٓ اَوْ صَدِیْقِکُمْ ۭ لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْکُلُوْا جَمِیْعًا اَوْ اَشْتَاتًا ۭ} (النور:۶۱)
’’کوئی حرج نہیں اگر کوئی اندھا‘ یا لنگڑا‘ یا مریض (کسی کے گھر سے کھالے) اور نہ تمہارے اُوپر اس میں کوئی مضائقہ ہے کہ اپنے گھروں سے کھائو یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے‘ یا اپنی مائوں کے گھروں سے‘ یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے‘ یا اپنی بہنوں کے گھروں سے‘ یا اپنے چچائوں کے گھروں سے‘ یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے‘ یا اپنے ماموئوں کے گھروں سے‘ یا اپنی خالائوں کے گھروں سے‘ یا اُن گھروں سے جن کی کنجیاں تمہاری سپردگی میں ہوں‘ یا اپنے دوستوں کے گھروں سے۔ اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ تم لوگ مل کر کھائو یا الگ الگ۔‘‘
یہاں بے بصر اور جسمانی طور پر معذور افراد کے لیے ایک نعمت اور عطیۂ خداوندی کا اعلان کرتے ہوئے اُنھیں فاقہ کشی اور بھوک و ننگ سے محفوظ کر دیا گیا کہ اہل قرابت اُن کی ضروریات اور حقوق سے جان چھڑاتے نہ پھریں اور نہ خصوصی افراد اپنی بے بسی اور اپنوں کی بے مروّتی کے باعث خودکشیاں کرتے پھریں۔ دیکھیے کتنے عظیم اور بنیادی چارٹر کا اعلان ہے:
۱) نابینا‘ بیمار اور جسمانی طور پر معذور (اپاہج ) افراد چونکہ جنگ میں شریک نہیں ہو سکتے تھے‘ لہٰذا اُنھیں قریبی رشتہ داروں کے گھروں سے کھانا کھانے کی اجازت دی گئی۔
۲) قریش اور سردارانِ مکہ معذور افراد کو منحوس اور قابل نفرت خیال کرتے تھے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اُن کی تکریم کرتے ہوئے ‘ اُن کے حقوق اور عزّتِ نفس کا اعلان کیا اور جاہلانہ رسوم کا قلع قمع کر دیا۔
۳) ماں باپ اور بہن بھائی معذور افراد کو کراہتاً رشتہ داروں کے گھر چھوڑ آتے تھے تاکہ وہ خود تو خوب سیر ہو کر کھالیں اور یہ کہیں سے روکھی سوکھی کھا لیں۔ ربّ العزت کو یہ بات پسند نہ تھی‘ لہٰذا ترغیباً والدین اور بہن بھائیوں یا قریبی رشتہ داروں کے گھر سے کھانے کی اجازت دی۔
۴) بہن بھائیوں‘ چچائوں‘ پھوپھیوں‘ ماموئوں اور خالائوں کے گھروں سے ‘بلکہ اُن کی عدم موجودگی میں بھی اُن کے ہاں کھانا کھانے کی اجازت اور رخصت دی گئی۔
۵) رشتہ داروں کے بعد جن گھروں کی کنجیاں اُن کے حوالے کی گئیں ‘وہاں سے بھی کھانے کی اجازت دی گئی۔ دوست احباب کے گھر کو بھی رشتہ داروں کے گھروں سے تشبیہہ دی گئی تاکہ یہ قربت بھی عظمت کی علامت رہے اور خصوصی افراد کے حقوق یہاں بھی محفوظ رہیں۔
۶) بعض لوگ معذور لوگوں کو حقیر سمجھ کر الگ تھلگ بٹھاکر کھانا دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے تنہا خوری کی کراہت کو ختم کرتے ہوئے اپنے رسول ﷺکے ذریعے اکٹھے کھانے کی ترغیب دی۔
حضرت عمر فاروقؓ کا گزر کسی کے دروازے پر سے ہوا جہاں ایک سائل بھیک مانگ رہا تھا۔ وہ ایک بوڑھا آدمی تھا جس کی بصارت زائل ہو چکی تھی۔ آپؓ نے پوچھا: تم اہل کتاب کے کس گروہ سے ہو؟ اُس نے کہا : یہودی۔ آپؓ نے اس سے پوچھا: تمہیں کس چیز نے بھیک مانگنے پر مجبور کیا ہے؟ اُس نے جواب دیا: مَیں بڑھاپے‘ ضرورت مندی اور جزیہ کی وجہ سے بھیک مانگ رہا ہوں۔ حضرت عمر ؓاُس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے اور گھر میں سے اُسے کچھ لا کر دیا اور پھر آپؓ نے بیت المال کے نگران کو بلایا اور فرمایا: اِس کا اور اِس جیسے دوسرے لوگوں کا خیال رکھو۔ (کتاب الخراج‘ اَز ابو یوسف‘ ص ۱۳۶ )
مدینہ کے اطراف میں ایک نابینا بڑھیا رہتی تھی۔ حضرت عمر فاروقؓ روزانہ علی الصبح اُس کے جھونپڑے میں جا کر اس کے لیے پانی اور دیگر ضروری خدمات انجام دیتے تھے۔ کچھ عرصے بعد آپؓکو محسوس ہوا کہ کوئی شخص ان سے پہلے آکر یہ کام کر جاتا ہے۔ ایک روز تحقیق کی غرض سے آپ ؓکچھ رات گزرنے کے بعد وہاں تشریف لے گئےتو دیکھا کہ خلیفہ ٔرسولؐ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اِس ضعیفہ کی خدمت گزاری سے فارغ ہو کر اُس کے جھونپڑے سے نکل رہے تھے۔
حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دورِ خلافت میں اِس بات کا خاص اہتمام کر رکھا تھا کہ ممالک محروسہ (وہ ممالک جو کسی دوسرے ملک کے حکمران کے ماتحت ہوں۔)میں کوئی شخص فقر و فاقہ میں مبتلا نہ ہو۔ آپؓ نے حکم جاری کر رکھا تھا کہ ہر مفلوج اور اپاہج فرد کو بیت المال سے ماہانہ وظیفہ دیا جائے۔ ( اسلام اور کفالت عامہ‘ ص۷۷)
جہاد اور دفاعی ذمہ داریوںسے استثناء
قرآن حکیم نے اسلامی ریاست کے فروغ اور غلبۂ دین حق کی جدّوجُہد کے لیے جہاد میں حصّہ لینے کو ایمان و استقامت کی جانچ کے معیار کے طور پر بیان کیا اور اس بنیادی ذمہ داری سے راہِ فرار اختیار کرنے کو عذابِ الیم کا سبب قرار دیا۔ تاہم معذور افراد کو اِس کلیدی اور بنیادی ذِمہ داری سے مستثنیٰ قرار دیا گیا:
{لَیْسَ عَلَی الْاَعْمٰی حَرَجٌ وَّلَا عَلَی الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَی الْمَرِیْضِ حَرَجٌ ط وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُج وَمَنْ یَّـتَوَلَّ یُعَذِّبْہُ عَذَابًا اَلِیْمًا(۱۷)} (الفتح)
’’ہاں اگر اندھا ‘لنگڑا اور مریض جہاد کے لیے نہ آئیں تو کوئی حرج نہیں۔ جو کوئی اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرے گا ‘اللہ اُسے اُن جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ اور جو منہ پھیرے گا اُسے وہ دردناک عذاب دے گا۔ ‘‘
گویا قانونِ اسلام نے معذور افراد کو ناقابل برداشت ذمہ داریوں سے مستثنیٰ قرار دیے جانے کو اُن کا بنیادی حق قرار دیا ہے۔ مزید برآں اِس استثناء سے یہ وضاحت کی گئی ہے کہ اِن افراد کو کم تر نہ سمجھا جائے کہ وہ جہاد میں شریک نہیں ہوئے۔ اسلام کی تعلیمات سے یہ امر واضح ہے کہ:
۱) اسلام معذور افراد کو معاشرے کا قابلِ احترام اور باوقار حصّہ بنانے کی تلقین کرتا ہے۔
۲) اسلام اِس امر کی تعلیم دیتا ہے کہ معذور افراد کو خصوصی توجّہ دی جائے اور اُنھیں یہ احساس قطعاً نہ ہونے دیا جائے کہ اُنھیں زندگی کے کسی شعبے میں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
۳) معاشرتی اور قومی زندگی میں ان پر کسی بھی ایسی ذمہ داری کا بوجھ نہ ڈالا جائے جو اِن کے لیے ناقابلِ برداشت ہو۔
۴) اسلام کے عطا کردہ جملہ حقوق کی ادائیگی میں معذوروں کو ترجیحی مقام دیا جائے‘ تاکہ معاشرے میں اِن کے اِستحصال یا محرومی کی ہر راہ مسدود ہو جائے۔
حضرت عمرو بن جموح رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو سب انصارکے بعد اسلام لائے‘ وہ ایک پائوں سے لنگڑے تھے۔ جب رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو غزوۂ بدر میں شریک ہونے اور اللہ کی راہ میں جہاد کی تبلیغ فرمائی تو وہ بھی جنگ میں شامل ہونے کے لیے تیار ہو گئے‘لیکن اُنھیں اُن کے بیٹوں نے جانے سے منع کر دیا۔ پھر جنگ ِاُحد کا موقع آیاتو اُنھوں نے اس بار جہاد میں شرکت کا قوی ارادہ کیا‘ مگر اُن کے بیٹوں نے اس بار بھی انہیں بوجہ عذر جنگ میں شمولیت سے منع کر دیا اور ارادہ ترک کرنے کی ترغیب دی۔ اُنھوں نے اپنے بیٹوں کی بات نہ مانی اور رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: یا رسول اللہﷺ!’’ اگر میرے بیٹے جنگ میں شریک ہوسکتے ہیں تو مَیں بھی ضرور جائوں گا۔ اللہ کی قسم! مَیں اُمید رکھتا ہوں کہ میں شہید ہو کر اپنے لنگڑے پن کے ساتھ جنّت میں جائوں گا‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تمہاری معذوری کی وجہ سے تم پر جہاد فرض نہیں ہے ۔یہ اللہ کی طرف سے تمہارے لیےچھوٹ ہے۔ مگر حضرت عمرو بن جموحؓ نے اصرار کیا کہ میں جہاد میں ضرور جائوں گا۔ آپ ﷺ نے انہیں جہاد میں شریک ہونے کی اجازت مرحمت فرما دی اور وہ اُسی جنگ میں شہید ہو گئے۔ (اُسُد الغابہ‘ حصّہ ہفتم‘ ص ۶۷۸)
سائل اور محروم کی مدد‘ ہمارا فرض!
اللہ تعالیٰ نے جہاں خصوصی افراد کو کئی ایک معاملات میں استثناء سے نوازا ہے‘ وہاں اسلامی سوسائٹی کو اُن کے کئی ایک حقوق سے بھی خبردار کیا ہے تاکہ معاشرے کے افراد محرومین کا حق ‘اپنا فرض سمجھ کر ادا کریں۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ (۱۵) اٰخِذِیْنَ مَآ اٰتٰىھُمْ رَبُّہُمْ ۭ اِنَّھُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُحْسِنِیْنَ(۱۶) کَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَا یَھْجَعُوْنَ(۱۷) وَبِالْاَسْحَارِھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ (۱۸) وَفِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ(۱۹)} (الذّٰریٰت)
’’یقیناً متقی لوگ (اُس روز) باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔ جو کچھ اُن کا رب اُنہیں دے گا اسے (خوشی خوشی) لے رہے ہوں گے۔ وہ اُس دِن کے آنے سے پہلے نیکو کار تھے‘ راتوںکو کم ہی سوتے تھے‘ پھر وہی رات کے پچھلے پہروںمیں معافی مانگتے تھے‘ اور اُن کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے۔‘‘
یہاں متقی مسلمانوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے حسب ذیل خوبیاں بیان فرمائی ہیں:
۱) متقی لوگ اللہ کی نعمتوں پر خوش ہوں گے ‘ اس لیے کہ وہ مخلوق میں سے محتاج اور معذور لوگوں کے خیر خواہ اور مددگار ہیں‘ خواہ وہ اُن سے طلب نہ کریں۔
۲) مالِ صدقات‘ خیرات اور زکوٰۃ کے علاوہ بھی محروم لوگوں پر اپنے رزق اور مال سے خرچ کرتے رہتے ہیں۔
۳) محروم لوگوں پر رحم کرنے کے خیال سے نہیں‘ بلکہ اپنے فرائض کی بجاآوری خیال کرتے ہوئے ضرورت مند لوگوں کو تلاش کر کے اُن کی معاونت کرتے ہیں۔
۴) ضرورت مند افراد کو تلاش کر کے اُن کی ضروریات کو پورا کرنا ہی کافی نہیں سمجھتے بلکہ یہ عمل کرنے کے بعد اللہ کا شکر بھی ادا کرتے ہیں۔
یہ بات جان لینی چاہیے کہ اہل ایمان کے مال و دولت میں سائل اور محروم کے جس حق کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے اُس سے مراد زکوٰۃ نہیں ہے جو شرعاً اُن پر فرض کی گئی ہے‘ بلکہ یہ وہ حق ہے جو زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد بھی ایک صاحب ِاستطاعت مؤمن اپنے مال میں خود محسوس کرتا ہے۔
معذور افراد کی زندگی کو باسہولت بنانے کے لیے مناسب سہارے کو مہیا کرنا اسلامی معاشرے اور حکومت کا فرض ہے۔
موجودہ دور میں معذور اور خصوصی افراد کو وہیل چیئرز‘ ٹرائی سائیکل‘ بیساکھیاں‘ آلۂ سماعت‘ خصوصی موٹر بائیک‘ گاڑی اور مصنوعی اعضاء وغیرہ کی فراہمی کے علاوہ اُن کے لیے خصوصی تعلیمی سکولز‘ ٹیکنیکل ٹریننگ سنٹرز اور دیگر ضروری ادارہ جات کا قیام اسلامی روایات کی روشنی میں صاحبِ استطاعت لوگوں اور حکومت پر فرض ہے۔ کتنے خسارے کی بات ہوگی کہ ہم مسلمان اور مؤمن بھی کہلوائیں اور اللہ کے بندوں سے تحقیر کا رویّہ بھی اختیار کریں۔ زبانیں حمد و نعت سے مزین ہوں اور ان پر طعنے اور بدزبانی بھی رہے۔ رب کو راضی کرنے کا دعویٰ بھی ہو اور اُس کے بندوں کو ستائیں بھی۔ لوگ ہماری عزّت ہمارے شر کے خوف سے کریں۔ ایسے کردار کے حامل لوگوں کے بارے میں نبی رحمتﷺ کا فرمان ہماری راہ نمائی اور آخرت کی بہتری کے لیے کافی و شافی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
((بِحسْبِ امْرِءٍ مِنَ الشَّرِّ أنْ يَحقِرَ أخاهُ المسلِمَ ۔ كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ ‘ دَمُهُ ومالُهُ وعِرضُهُ)) (متفق علیہ)
’’ کسی مسلمان کے لیے اتنی برائی ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔ ایک مسلمان کی دوسرے مسلمان پر ہر شے حرام ہے‘ اُس کا خون بھی‘ اُس کا مال بھی اور اُس کی عزّت و آبرو بھی۔‘‘
اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیں انسانیت کے احترام کا شرف عطا فرمائے۔اور اپنے ارد گرد موجود معذور اور سائل و محروم افراد کا خیال رکھنے ‘ ان پر خصوصی توجّہ دینے اور ان کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔( آمین یا ربّ العالمین!)