(معرکۂ روح و بدن) فتنہ ٔ دجّال اور پیش آمدہ چیلنجز (۲) - آصف حمید

7 /

فتنۂ دجّال اور پیش آمدہ چیلنجز (۲)

آصف حمید

آدم وا بلیس کے درمیان اس معرکہ ٔخیر و شر کا سلسلہ از ل سے لے کر اب تک جاری ہے۔ ابلیس اور اس کے لشکر کےحملوں میں شدّت کا اندازہ ہر ایک صاحبِ شعور لگاسکتا ہے ۔ جیسا کہ پہلی قسط میں قرآن مجید کی آیات کے حوالے سے ابلیس کے دعووں اور اس کے طریقہ واردات کا ذکرکیا گیا تھا ۔ آج ہم اپنے ارد گرد نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ہر وقت ‘ ہر طر ف اور ہرطریقہ سے وہ بنی نوعِ آدم خصوصاً اُمّت ِ محمدیہؐ پر اپنے وار جاری رکھے ہوئے ہے۔وہ کامیابی کے ساتھ اپنے لشکر اور پیروکاروں میں اضافہ کرتا جارہا ہے اور اپنے وا ر کا دائرئہ کار اور دائرئہ اثر وسیع سے وسیع تر کرتا جارہا ہے ۔ اس کا سب سے بڑا مظہر یہ ہے کہ اب لوگوں میں برائی سے وہ نفرت نہیں رہی جو پہلے تھی ۔معاشرےمیں شرم وحیا اور عفت وعصمت کے جو پیمانے پہلے تھے وہ اب قصّہ ٔ پارینہ بن چکے ہیں۔ بے پردگی‘ عریانی اور فحاشی میں اضافہ روز افزوں ہے۔ اختلاطِ مَرد وزن اب معمول بن گیا ہے اور غیر مخلوط ماحول اجنبی اور نامانوس محسوس ہونے لگا ہے۔
معیشت میں سود اور سودی استحصالی نظام اس قد رقوت پکڑ چکا ہے کہ اب کون ہے جو اس سے اپنے دامن کو بچا سکے؟ حدیث ِرسولﷺ کے مطابق سود کے ’’دُخان‘‘ سے اب کون ہے جو بچا ہوا ہے؟ سیاست میں سیکولرازم اپنی جڑیں مضبوط سے مضبوط کرتا جارہا ہے۔ خدا اور شریعت کو سیاست سے دور ہی نہیں بلکہ متصادم کیا جا چکا ہے ۔ یہ نظریہ غیرمسلموں سے بڑھ کر مسلم دنیا میں زور پکڑ چکا ہے کہ سیاست الگ ہے اور مذہب الگ۔ المختصر ! ابلیس نے اپنی مسلسل اور مستقل جدّوجُہد سے آج معاشرت‘ معیشت اور سیاست سے دین و مذہب کو الگ کردیا ہے۔
قربِ قیامت سے قبل اس معرکہ ٔ خیر و شر کا جو سب سے بڑا میدان سجنے والا ہے‘ وہ ہے دجّال اور دجّالی فتنہ ۔ یہی ہمار ا اصل موضوع ہے ۔ دجّال اور اس کے فتنہ کے بارے میں احادیث میں آیاہے کہ آدم ؑکی تخلیق سے لے کر قیامت کے قائم ہونے تک دجّال سے بڑا کوئی فتنہ نہیں۔ دجّال کی شخصیت کے بارے میں بہت سی احادیث ہیں‘ اُس کی شخصیت کے بارے میں مختلف آراء ہیں۔ کون ہے؟ کدھر سے نکلے گا؟ کیا کرے گا؟یاد رہے کہ دجّال اولادِ آدم میں سے ایک شخص ہو گا جسے اللہ تعالیٰ لوگوں کی آزمائش اور امتحان کے لیے کچھ ایسی طاقت دے گا جو اُس کے سوا کسی اورکو حاصل نہیں ہوئی۔ نبی اکرمﷺ نے ہمیں متنبہ کیا ہے کہ ہم اس کی گمراہیوں کو اختیار نہ کریں ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم دجّال اور دجّالیت کے بارے میں آگاہ رہیں۔ حضر ت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرمﷺ سے فتنوں کے بارے میں سوال کیا کرتے تھے تاکہ کہیں ان میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ فتنوں میں دجّال سب سے بڑا فتنہ ہے۔ نبی اکرمﷺ کو اپنی اُمّت کے بارے میں اس کا بہت اندیشہ تھا اور یہی وجہ ہے کہ آپﷺ نے اس کے بارے میں اُمّت کو خبردار اور آگاہ فرمایا کہ دجّال کے ساتھ بہت سے عظیم فتنے رونما ہوں گے۔
اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ آج فتنہ دجّال کے اثرات کس کس طرح اور کہاں کہاں تک پہنچ چکے ہیں ‘ اور ان کے بارے میں ہماری آگاہی کس حد تک ہے؟ ہمیں تجزیہ کرنا ہے کہ آج کے دَور میں اِن احادیث کے پورا ہونے کی شکلیں کیا ہیں؟ سب سے پہلے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم یہ جانیں کہ دجّال کا ایجنڈا کیا ہے اور اسی حوالے سے ہم پرکھیں کہ اس ایجنڈے کی تکمیل میں کیا کیا کام پیشگی طور پر ہورہے ہیں اور کیسے کیسے دجّال کی حکومت کے لیے تیاریاں کی جارہی ہیں!
خدائی کا دعوی !
دجّال یہ دعویٰ کرے گا کہ وہ ’’ربّ العالمین‘‘ ہے۔ وہ لوگوں سے اپنی ذات پر ایمان لانے کا مطالبہ کرے گا۔ چنانچہ نبی اکرمﷺ نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا: ’’بے شک دجّال کانا ہے اور تمہارا ربّ کانا نہیں ہے‘‘۔ (صحیح البخاری‘ کتاب الفتن‘ح:۷۱۳۱) دجّال کے خدائی کے دعویٰ کے حوالے سے مَیں سمجھتا ہوں کہ اہل ِکتاب بالعموم اور اہل ِقرآن یعنی مسلمان بالخصوص جانتے ہیں اور ایمان رکھتے ہیں کہ خدا کبھی انسانی شکل میں سامنے نہیں آئے گا۔ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا بنا تو دیا‘ لیکن پھر بھی خدا کو وہ کسی بھی طرح کا کوئی جسم نہیں دیتے۔ تو کیا ایسا ممکن ہوگا کہ کوئی انسان دُنیا کے سامنے نمودار ہو اور دعویٰ کرے کہ مَیں خدا ہوں اور دنیا اسے مان جائے!
اس حوالے سے مَیں سمجھتا ہوں کہ دجّال کے اس دعوے کے ضمن میں انسانیت تین حصوں میں منقسم ہو جائے گی۔ ایک گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہو گا جو واقعی اُس کو خدا مان لیں گے۔ اس قسم کی ذہنیت اور عقیدہ کے لوگ آج بھی موجود ہیں۔چرچ آف سیٹن آج بھی موجود ہے‘ جس میں ایک گروہ تو باقاعدہ شیطان کی عبادت کرتا ہے۔ اس میں ایک پادری ہوتا ہے جو شیطان کی عبادت کراتا ہے ۔ ایک بہت بڑی سوسائٹی ہے جو صرف شیطان کو پوجتی ہے۔ اُن کی مذہبی رسومات ہوتی ہیں۔ یہ لوگ واقعتاً ’’حزبُ الشیطان‘‘ ہیں ۔
دوسری طرح کے لوگ وہ ہوں گے جو واضح طور پر دجّال کو پہچان لیں گے‘ اُس کے ہتھکنڈوں سے بچیں گے ‘ اُس کو خدا ماننے سے انکار کردیں گے اور اُس کے خلاف کھڑے ہوجائیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں قرآن مجید ’’حزب اللہ‘‘ کے نام سے تعبیر کرتا ہے۔ دجّال ان پر دنیا تنگ کردےگا۔ حضرت حذیفہ بن یمانؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’دجّال کے ساتھ جنّت بھی ہوگی اور آگ بھی ۔ اُس کی آگ دراصل جنّت ہے اور اُس کی جنّت حقیقت میں آگ ہوگی‘‘۔ (صحیح مسلم ‘کتاب الفتن و اشراط الساعۃ‘ح: ۲۹۳۴)۔ ایک اور حدیث میں آپﷺ نے فرمایا: ’’اُس کے ہمراہ پانی اور آگ ہوگی۔ اُس کی آگ اصل میں ٹھنڈا پانی ہوگی اور اس کا پانی درحقیقت آگ ہو گا۔ اُس کے ہاتھ میں دنیا بھر کے خزانے ہوں گے‘ جسے چاہے گا کھانے کو دے گا اور جس پرچاہے گا رزق کے دروازے تنگ کردے گا۔‘‘ دجّال کے اصل دشمن وہ لوگ ہوں گے جو دجّال کے احکامات کی عملی نفی کریں گے اور اس کے خلاف بر سرِ پیکار ہوں گے۔ یہی لوگ حضر ت مہدی اور پھر حضرت عیسیٰ ؑ کے ساتھ مل کر اُس کے خلاف جہاد کریں گے ۔
تیسری طرح کے لوگ جو مَیں بیان کر رہا ہوں‘ ڈراِس بات کا ہے کہ اکثریت اُن میں سے ہو گی۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو دجّال کے نظام کو قبول کرلیں گے ۔ اصل بات یہ ہے کہ دجّال کو خود کو خدا کہلوا کر کیا مل جائے گا! ہاں ‘وہ اس بات سے خوش ہوگا کہ لوگ اُس کے نظام کے تحت رہنا قبول کرلیں۔ اپنے اپنے گریبانوں میں جھانک کر سوچیں کہ دجّال کے نظام کو قبول کرنے والے کتنے ہوں گے؟ دجّال کے نظامِ معیشت ‘ نظامِ سیاست اور نظامِ معاشرت کے آگے سر تسلیم خم کر دینے والے کتنے ہوں گے؟ خدا ئی کا دعویٰ تو فرعون نے بھی کیا تھا اور اُس نے حضرت موسیٰؑ کے سامنے دلیل یہ پیش کی تھی کہ کیا یہ مُلک ِ مصر میر ا نہیں اور یہ نہریں میرے ماتحت نہیں بہتیں ! فرعون نے کوئی یہ دعویٰ تونہیں کیا تھاکہ مجھے سجدہ کرو یا میری پرستش کرو! بلکہ وہ اپنا نظامِ حکومت تسلیم کروا رہا تھا۔
دجّال کے نظام کا اندازہ کسی کو ہے؟ اور اس نظام سے بچنے کی کیا شکل ہو گی؟ کبھی کسی نے سوچا کہ آج بھی ہم کس نظام کے تحت زندگی گزار رہے ہیں؟ کیا یہ اللہ کا نظام ہے یا کسی اور کا؟ ابھی تو دجّال کا ظہور نہیں ہوا تو یہ حال ہے اور جب وہ سامنے آئے گا تو کیا ہوگا ؟اور اس سے بچنا اور اس کے خلاف کھڑے ہونا کس قدر مشکل ہوجائے گا!کیا آج ہم اللہ کےنظام کے مخالف نظام میں زندگی نہیں گزار رہے؟ باطل یا دجّال کا جو نظام اِس وقت دنیا میں رائج ہو چکا ہے ‘ اُس نظام کے تحت مطمئن اور آسودہ زندگی گزار لینا‘ کیا اُس کو خدا مان لینے کے برابر نہیں؟ بانی محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ کہا کرتے تھےکہ باطل نظام کے تحت پھلنا ‘ پھولنا اور پھیلنا حرام ہے۔ بہرحال وہ یہ بات فقہی لحاظ سے تو نہیں کہا کرتے تھے لیکن اخلاقی اور دینی لحاظ سے یہ بات بالکل صحیح ہے۔
قرآن مجید میں فرمایا گیاہے: {اَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰھَہٗ ھَوٰىہُ      ۭ } (الفرقان:۴۳) ’’کیا تم نے اُس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش ِنفس کو اپنا معبود بنا لیا!‘‘ قرآن کی رو سے خواہش ِنفس کی پیروی کرنا بھی اُس کو معبود بنانے کی ایک شکل ہے۔ خواہش ِنفس کا مطالبہ یہ تو نہیں کہ انسان اُسے سجدہ کرے‘ بلکہ وہ چاہتی ہے کہ اُس کی پیروی کرنے میں جائز‘ ناجائز‘ حلال اور حرام کی کوئی تمیز نہ رکھی جائے۔ اسی طرح جو لوگ دجّال کے نظام ٹھنڈے پیٹوں آرام سے سائنس اور ٹیکنالوجی کی جدید ترقی کو نعمت سمجھتے ہوئے‘بسہولت قبول کر لیں گے اور اُس کے خلاف کھڑے نہیں ہوں گے‘ دجّال کو اُن سے کوئی پرابلم نہیں ہو گا۔
ٹیکنالوجی کا استعمال!
نبی اکرمﷺ سے پوچھا گیا کہ دجّال کی رفتار کیا ہوگی؟ تو آپﷺ نے فرمایا: ’’وہ بارش کے بادلوں کی طرح ہوگا جس کے پیچھے ہوا ہو۔‘‘ (صحیح مسلم‘ کتاب الفتن واشراط الساعۃ‘ ح: ۲۹۳۷)۔ مطلب یہ کہ وہ بہت تیزی سے زمین کے ہر حصے میں پہنچ جائے گا ۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ دجّال ایک گدھے پر سوار ہو گا اور اس گدھے کے کانوں کے درمیان چالیس ہاتھ کا فاصلہ ہوگا۔‘‘ (مسند احمد‘ح: ۴۹۵۴) اسی طرح یہ بھی بیان کیا گیا کہ اس کے گدھے کے ایک قدم اور دوسرے قدم کے درمیان ایک دن رات کی مسافت ہو گی۔ آج سائنسی ترقی اور ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوئے ایسا ہونا صرف ممکن ہی نہیں‘ بلکہ ایسا ہو رہاہے اور تیز سے تیزتر ذرائع سفر بنائے جار ہے ہیں۔
دجّال کی بات کو سب لوگ سنیں گے۔ وہ آواز دے گا‘ ایسی آواز کہ اسے مشرق و مغرب کے درمیان سب لوگ سنیں گے۔ آج یہ بات سمجھنا اس قدر آسان ہوگیا ہے کہ ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر سوشل میڈیا کے ذریعہ عام انسان بھی اپنی بات پوری دنیا تک پہنچا سکتا ہے ۔ لائیو تقاریر وتقاریب کو پوری دنیا دیکھ رہی ہوتی ہے۔ اس حوالے سے ٹیکنالوجی مزید ترقی کررہی ہے اور ہو سکتا ہے کہ ایسی ٹیکنالوجی ایجاد کرلی جائے جس کے ذریعہ کسی کی آواز پوری دنیا کے لوگ کسی فون یا سمارٹ ڈیوائس کی مدد کے بغیر سن سکیں اور وہ آواز ہر جگہ پہنچ جائے ۔ آنے والے دس سالوں میں اس کا امکان نظر آ رہا ہے۔
دجّال کے لیے تمام دریا اور زمین مسخر کر دی جائے گی۔ اُس کا قبضہ تمام زندگی بخش وسائل مثلاً آگ ‘پانی اور ہوا پر ہوگا۔ دجّال اپنے نہ ماننے والوں سے ان کا مال ومتاع چھین لے گااور اپنے ماننے والوں کو دنیا کا ظاہری مال و متاع خوب دے گا ۔(ترمذی ‘ح:۲۲۴۰) ۔ دجّال کسی علاقے میں سے گزرے گا اور اس علاقے کے لوگ اس کی تکذیب کردیں گے۔ اس کے نتیجے میں ان کا کوئی جانور نہیں بچے گا‘ سب ہلاک ہو جائیں گے۔ دوسرے علاقے سے گزرے گا جہاں کے لوگ اس کی تصدیق کریں گے‘ اس کے نتیجے میں دجّال آسمان کو حکم دے گا اور وہ بارش برسانے لگے گا۔ زمین کو حکم دے گا تو وہ خوب غلّہ اگانے لگے گی۔ ان ماننے والوں کے مویشی شام کو اس حال میں آئیں گے کہ پہلے سے زیادہ بڑے اور فربہ ہوں گے‘ ان کی کوکھیں بھری ہوئی ہوں گی اور ان کے تھن دودھ سے بھرے ہوں گے۔ (کتاب الفتن از حنبل بن اسحاق)۔ دجّال کے پاس روٹیوں کا پہاڑ اور پانی کا دریا ہوگا۔ ان باتوں کے لیے وہ نہایت حقیر ہے‘ لیکن اللہ تعالیٰ اُسے اس کی اجازت دے گا۔ (صحیح البخاری ‘ کتاب الفتن‘ باب ذکر الدجّال‘ح:۶۷۰۵)مطلب یہ کہ اس کے پاس غذا اور پانی وافر مقدار میں ہوں گے اور اللہ تعالیٰ اُس کو یہ چیزیں دے گا تاکہ وہ آزمالے کہ کون اللہ کا ساتھ دیتا ہے اور کون دجّال کا!
آپ دیکھ لیں کہ آج ٹیکنالوجی کی مدد سے بارش بھی برسائی جاتی ہے۔ جہاں بارش نہیں ہوتی وہاں ہو جاتی ہے‘ اور جہاں ہونی چاہیے وہاں قحط کا سامان پیدا کیا جا سکتا ہے۔ آج بنجر زمینوں میں ہریالی اور کیا کچھ نہیں ہو رہا۔ اسی ٹیکنالوجی کی بدولت گرین کنٹری کا خواب سعودی عرب بھی دیکھ رہا ہے۔ اگرچہ ابھی دجّال کا ظہور نہیں ہواہے لیکن آپ نظر دوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ اس وقت بھی زمین کے خزانوں پر کن حکومتوں کا قبضہ ہے اور ان حکومتوں کی باگ ڈور کن کے ہاتھوں میں ہے‘ اور کس طرح تیزی سے وہ زمین کے ذخائر پر قابو پاتے چلے جا رہے ہیں ۔ یہی حکومتیں ہیں جو تیسری دنیا کے غریب ممالک خصوصاً پاکستان کو امداد کے نام پر قرضہ دیتی ہیں۔ اس قرضہ کے ساتھ ساتھ وہ حکومتیں ہمارے ملک میں اپنے ایجنڈے کوبھی لے کر چلتی ہیں اور اس ایجنڈے میں حقوقِ انسانی کے نام پر بے حیائی ‘ مادر پدر آزادی ‘ خاندانی نظام کی تباہی ‘ سودی نظام کو فروغ دینا ‘ اسلام اور اسلام پسند لوگوں اور جماعتوں کو متنازعہ بنانا اور پاکستان کو کمزور کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ جان لیجئے یہ امداد یا قرضے کسی کی بھلائی یا خیر خواہی نہیں بلکہ شیطانی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے دیے جاتے ہیں۔
جادو اور ٹیکنالوجی کی معراج
دجّال مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو تندرست کردے گا اور مردہ کو زندہ کردے گا ( مسند احمد‘ ح:۲۰۱۵۱) دجّال ایک نوجوان کو مار کر زندہ کر دے گا۔ (مسلم‘ ح: ۲۹۳۸) وہ ایک بدو سے کہے گا: اگر مَیں تمہارے باپ اور ماں کو تمہارے لیے دوبارہ زندہ کردوں تو تم کیا کروگے؟ کیا تم شہادت دو گے کہ مَیں تمہارا خدا ہوں؟ بدو کہے گا: ہاں! چنانچہ دو شیاطین اس بدو کے ماں اور باپ کے روپ میں اُس کے سامنے آجائیں گے اور کہیں گے: ہمارے بیٹے! اس کا حکم مانو‘ یہ تمہارا خدا ہے۔(ابن ماجہ‘ کتاب الفتن‘ باب فتنۃ الدّجّال‘ ح: ۴۰۷۷)۔ آج میڈیکل سائنس اس قدر ترقی کر چکی ہے کہ کلوننگ اورآرگن امپلانٹس اب پرانی باتیں شمار ہوتی ہیں۔ ٹیکنالوجی کا استعمال میڈیکل سائنس میں ایک لازمی عنصر کے طور پر موجود ہے۔ ڈی این اے سکیننگ اور ٹیسٹنگ کی سطح پر کسی انسان کی خامی اور خوبی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور مستقبل میںہونے والی بیماری کے بارے میں پیشین گوئی کی جاسکتی ہے۔ کڈنی امپلانٹ اور لیور امپلانٹ کے بعد ہارٹ امپلانٹ تک بات جا پہنچی ہے۔ کٹے ہوئے اعضاء کی پیوندکاری بھی کی جارہی ہے ۔ اس بات کی یقینی پیشین گوئی کی جاسکتی ہے کہ خروجِ دجّال سے قبل میڈیکل ٹیکنالوجی واقعی اس حد تک ترقی کر چکی ہوگی کہ بیماری اور شفاء کا کافی حدتک دارومدار ٹیکنالوجی پر ہوگا۔ اصل خوراک کی جگہ کیمیکلز لے لیں گے۔ ایسا آج کل ہوبھی رہا ہے‘ خصوصاً جنک فوڈ میں‘ جہاں ہم ایسے کیمیکل کھارہے ہوتے ہیں جن کا ذائقہ کھانے جیسا ہوتا ہے۔ اس کی سب سے سادہ اور آسان مثال جوسز کی ہے۔ ڈبوں پر تو پھلوں کی تصویر ہوتی ہے مگر اندر پانی‘ ذائقہ دینے والے کیمیکلز اور وٹامن کے کیمیکلز کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
جہاں تک معاملہ مُردہ کو زندہ کردینے کا ہے اس حوالے سے راقم کا ایمان ہے کہ مُردہ کو زندہ کرنا اللہ تعالیٰ کےامر اور اذن کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا۔ انبیاءِ کرام علیہم السلام میں یہ معجزہ حضرت عیسیٰؑ کو عطا ہوا۔ دجّال اور دجّالیت اس معاملے میں شیطانی طاقتوں کا استعمال کریں گے‘ جس میں شیاطین جِن اور جادو کا استعمال ہوگا۔ یہ جان لیں کہ اس وقت دنیا پر کنٹرول کرنے والی طاقتیں شیطانی اور ابلیسی قوتوں کا بھرپور استعمال کررہی ہیں۔ خصوصاً یہودی اس میں ماہر ہیں اور ان کی رسومات میں ’’قبالہ‘‘ ایک مستند حیثیت کا حامل ہے۔ مخصوص اَعدادو شمار ‘ اشارے اور علامتیں قبالہ کی رسومات اورجادومیں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ عرفِ عام میں قبالہ ایک جادو کے سوا کچھ نہیں‘ لیکن اس کی تباہ کاریوں نے دنیا بھر میں جو اثرات قائم کیے ہیں ان سے واقفیت ضروری ہے۔ جادو اور عملیات کے ذریعے اپنے اہداف اور کامیابی حاصل کرنے کے معاملے میں بنی اسرائیل کو ہمیشہ فوقیت حاصل رہی ہے اور یہ تاریخ میں سب سے زیادہ جادو کے ذریعے کام لینے اور اس کی طاقت پر یقین رکھنے والی قوم ہے۔
بنی اسرائیل جب تک فلسطین میں رہے اس وقت تک اس سے ناواقف تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام مصر کے حکمران بنے تو انہوں نے اپنی قوم کو فلسطین سے مصر بلوایا۔ مصر میں رہتے ہوئے فرعون نے اپنی بلند و بالا عمارات اور اہرام کی تعمیر میں ان سے بیگار کا کام لیا اور ان کو انتہائی تنگ دستی اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا۔ وہاں ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے ۔ اس دوران ان میں دو بڑی برائیاں بھی ہو گئیں۔ ان ایک تو ان میں خدائی کا دعویٰ کرنے والے فرعون کو دیکھ کر انتہائی رعونت‘ تکبّر اور غرور پیدا ہو گیا اور دوسرا اُن کو مصر کے اُس زمانے کے انتہائی ماہر جادوگروں سے کالا علم اور جادو سیکھنے کا موقع بھی میسّر آگیا۔ تاریخ کے اس دور میں مصر اس فن میں پوری دنیا میں یکتا تھا ۔اُس زمانے میں مصرسحر اور جادوگری کا مرکز تھا اور یہ جادوگر فرعونوں کے لیے ناقابل یقین قسم کے کارنامے سر انجام دیا کرتے تھے۔ یہ جادوگر قبالہ جادو کے ماہر تھے‘ جو جادو کی سب سے خوفناک قسم ہے۔ اس میں اس جادو کے ماہرین براہِ راست شیطان سے رابطے میں رہتے ہیں۔ شیطان کامیابی کے لیے نئے نئے گُر سکھاتا ہے اور ایسی ایسی چیزوں کے بارے میں بتاتا ہے جن کے بارے میں عام انسان نہیں جانتے۔ وہ ان سے کام لے کر انتہائی محیرالعقول قسم کی چیزیں ایجاد کرتے تھے اور ان سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ چنانچہ اُس زمانے کے مصری بادشاہوں کے فن تعمیر کو دیکھ کرآج بھی عقل حیران رہ جاتی ہے۔ طب کےلحاظ سے ایسے کیمیکلز اور دوائیوں کا استعمال کیا گیا کہ لاشوں کو ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی کوئی گزند نہیں پہنچتا۔
جب موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے ساتھ فلسطین کی جانب واپس آئے تو یہ قوم پہلے جیسی نہیں رہی تھی۔ ان میں فرعونوں جیسی فرعونیت اور شیطانی صفات و علوم سرایت کر چکے تھے ۔ اس قوم کے بہت سے لوگ جادو اور شیطانی عملیات کے ماہر ہوچکے تھے ۔ اب و ہ اس علم سے دشمنوں کو نقصان پہنچایا کرتے تھے۔ان لوگوں کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ جو طاقت حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس تھی جس کی وجہ سے انہوں نے جنات پر قابو پایا تھا‘ وہ بھی قبالہ جادو کی طاقت تھی۔نعوذ باللہ من ذٰلک! یہودیوں میں قبالہ جادو بہت عام ہے۔ ان میں کچھ لوگ ہیں جو اسی نظریے پر زندگی گزارتے ہیں۔ اس کا درجہ یہودیت میں ایسے ہی ہے جیسے کہ اسلام میں تصوّف کو حاصل ہے۔ یہودی جادو مستقل کرتے رہتے ہیں ۔حضرت سلیمانؑ کے بعد بنی اسرائیل نے قبالہ کو روحانیت کا درجہ دے دیا اور جادو کی کتابوں کو وہ مقدّس مقام حاصل ہوگیا کہ وہ ہیکل ِسلیمانی میں رکھی جانے لگیں۔ پھر اس قوم پر عذابِ الٰہی کے کوڑے پڑنا شروع ہوئے۔ حضرت سلیمان ؑ کا تعمیر کیا گیا ہیکل پہلے بخت نصر کے ہاتھوں اور بعد میں ٹائیٹس رومی کے ہاتھوں مکمل طور پر تباہ ہو گیا اور یہودی یروشلم سے نکل کرپوری دنیا میں منتشر ہوگئے ۔ ہیکل ِسلیمانی کی تبا ہی کے ساتھ قبالہ جادو کی کتابیں بھی ملبے تلے کہیں دب کر رہ گئیں۔
۱۱۱۸ عیسوی میں یورپ کے نوجوانوں نے یروشلم میں ایک عسکریت پسند تنظیم کی بنیاد رکھی جو تاریخ میں ’’نائٹ ٹیمپلرز‘‘ کے نام سے معروف ہوئی۔ یہ تنظیم جنگجوؤں پر مشتمل تھی جو یروشلم کی زیارت کو آنے والے عیسائیوں کے راستے کو تحفظ فراہم کرنا چاہتے تھے‘ لیکن ان کا اصل مقصد ہیکل سلیمانی کے کھنڈرات میں کھدائی کرنا اور ان جادو کی کتابوں کو نکالنا تھا۔ یہ نوجوان بھی قبالہ جادو کے طالب علم تھے اور چاہتے تھے کہ انہیں ہیکل سلیمانی کے کھنڈرات کے نیچے سے قبالہ کی کتب اور اوراق مل جائیں۔ وہ کالا جادو سیکھ کر غیر معمولی طاقتیں حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ان میں آج تک یہ تصوّر موجود ہے کہ اس جادو کا استعمال کر کے وہ دنیا پر حکمرانی کرنے کا خواب پورا کرسکتے ہیں۔
یہ تمام تفصیل بتا نے کا مقصد یہ ہے کہ یہ جان لیا جائے کہ کسی مُردہ انسان کوبظاہر زندہ کردینا دجّال اور اس کے کارندوں کے لیے ناممکن نہیں رہے گا۔ اس کے لیے میڈیکل سائنس ‘ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور سب سے بڑھ کر جادو کا استعمال کیا جائے گا۔ ایسی صورت حال پید ا کی جاسکتی ہے جس کے تحت مُردہ شخص زندہ نظر آئے مگر اس وقت اس شخص کے اندر شیطانی طاقتیں حلول کرکے اس کو متحرک کر دیں گی۔ویسے تو ٹیکنالوجی بھی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ کسی بھی شخص کا ہیولا فائیو ڈی اور ہولو گرام ٹیکنالوجی سے روشنی کی مدد سے بہت حد تک حقیقی شکل میں سامنے لایاجاسکتا ہے اور آرٹیفیشل ٹیکنالوجی کی مدد سے وہ انسان نما ہیولاآپ کے تمام سوالوں کے جوابات دے سکتا ہے۔ اس معاملہ میں ٹیکنالوجی مزید ترقی کر رہی ہے اور آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی ہے۔ (جاری ہے)