ربوبیت ِربّپروفیسر محمد یونس جنجوعہ
اللہ تعالیٰ وحدہٗ لاشریک خالق کائنات ہے۔ وہ ہر قسم کی مخلوق کا جہاں خالق ہے وہاں ربّ بھی ہے۔ خالق مخلوق کی ہر نوع کو اُس کے مناسب روزی دے رہا ہے ۔ وہ چرند پرند اور ہر قسم کے جانوروں کو خوراک مہیّا کرنے والا ہے۔ کچھ جانور سبزہ کھانے والے ہیں‘ ان کے لیے سبزہ موجود ہے۔ کچھ گوشت خور ہیں تو ان کے لیے گوشت کا انتظام ہے۔ غرض مخلوقات کی ہر نوع کو ضرورت کے مطابق رزق مل رہا ہے ۔ انسان کے علاوہ دوسری جاندار مخلوق کی روزی کا انتظام اس طرح ہے کہ وہ زمین پر گھومتےپھرتے ہیں اور ان کو روزی مل جاتی ہے ‘ انہیں روزی کمانی نہیں پڑتی۔ پرندوں کو دانہ دنکا مل جاتا ہے۔ گوشت خور جنگلی جانوروں کے لیے جنگل میں وہ جانور موجود ہیں جن کا گوشت ان کے لیے مہیّا ہے۔پالتو جانوروں کا رازق بھی اللہ ہے۔گھوڑے‘ گدھے کو انسان پالتا ہے تواُن سے باربرداری کا کام لیتا ہے۔ گائے ‘ بھینس‘ بھیڑ‘ بکری سے وہ دودھ حاصل کرتا ہے اور ان کا گوشت کھاتا ہے ۔چونکہ وہ پالتو جانوروں کو اپنے مفاد کے لیے رکھتا ہے اس لیے ان کی خوراک کا انتظام بھی اسے کرنا پڑتا ہے۔انسان اللہ تعالیٰ کی انوکھی مخلوق ہے۔ اسے عقل و شعور حاصل ہے‘ اس لیے اسے جانوروں کی طرح روزی نہیں ملتی بلکہ اسے محنت مشقت کرکے روزی کمانا پڑتی ہے۔ انسان جو جانورپالتا ہے ان کی خوراک کابھی ذمہ دار ہوتا ہے۔
ہر انسان کی تگ و دو مختلف ہے‘ا س طرح اس کی کمائی کی مقدار بھی مختلف ہوجاتی ہے۔ انسان مختلف پیشوں کے ساتھ وابستہ ہیں اور اپنی روزی کمانے کی دھن میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے عقل و شعور دے کر انسان کو اس بات کا مکلّف بنایا ہے کہ روزی کمانےمیں جائز ذرائع استعمال کرے۔ اگر وہ ناجائز ذرائع سے روزی کماتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا نافرمان ٹھہرتا ہے اور سزا کا مستحق بنتا ہے۔ دوانسان برابر کا کام یا برابر کی محنت کرتے ہیں مگر دونوں کی کمائی برابر نہیں ہوتی‘ کیونکہ روزی کو گھٹانا بڑھانا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ قرآن مجید میں ارشادہے : {اَللہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاءُ وَیَقْدِرُط}(الرعد:۲۶) ’’اللہ تعالیٰ روزی کشادہ کرتا ہے جس کے لیے چاہتا ہے‘ اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے‘‘۔یہی انسان کا امتحان ہے کہ وہ اپنی روزی کمانے میں جائز طریقے اختیار کرتا ہے یا ناجائز۔ اگر وہ جائز طریقوں سے روزی کماتا ہے تو اُس کا یہ عمل ایک نیکی بن جاتا ہے اگرچہ وہ اسے اپنی اور اپنے اہل و عیال کی مادی ضروریات پر ہی خرچ کرے۔ ناجائز ذرائع سے کمانا اور ناجائز جگہ پر خرچ کرنا دونو ں ہی ناپسندیدہ فعل ہیں۔ ایسا کرنے والا گناہ کماتا ہے اور وہ سزا پائے گا۔
ہرانسان کی روزی مقدّر ہے‘ اب یہ اُس کی مرضی ہے کہ وہ اپنا نصیب جائز طریقے سے حاصل کرے یا ناجائزذریعے سے۔ روزی کمانے کے لیے جدّوجُہد کرنا انسان پر لازم ہے ‘لیکن روزی کا کشادہ ہونا اُس کے اختیار میں نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی بھی کام حکمت سے خالی نہیں۔ روزی کے معاملے میں بھی اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ کہ کچھ کو کثرت کے ساتھ دولت دیتا ہے اور کسی کو فقیر اور مسکین رکھتا ہے ‘عین عدل اور حکمت پر مبنی ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ کشادہ روزی دیتا ہے وہ درحقیقت امتحان میں ہے کہ روزی کو ناجائز خرچ کرتاہےیا جائز۔ اگروہ اسے جائز ضروریات پر خرچ کرتا ہے تو ثواب پاتا ہے‘ نیز نعمتوں کی سہولت پر اُسے شکر کا بھی موقع ملتا ہے جس کی بڑی فضیلت ہے۔ اگر وہ دولت کو عیش و عشرت میں لٹاتا ہے یا دوسروں پر ظلم کرتا ہے تو یہی دولت اُس کے لیے خسارے کا باعث بنتی ہے۔اسی طرح اگر نادار شخص مال دار لوگوں کو حسرت کی نگاہ سے دیکھتا رہا اور اپنی غربت پر کڑھتا رہا تو اُخروی اعتبار سے وہ ناکام رہا۔اگر وہ دولت کی کمی پر صبر کرتا تو اجر پاتا۔ روزی کی تنگی پر اگر شکوہ نہ کیا جائے تو بے حساب اجر کا وعدہ ہے۔ غریبوں کا حساب آسان ہوگا جبکہ امیروں کی دولت ان کے حساب کو مشکل بنا دے گی۔ اسی لیے بتایاگیا ہے کہ غریب اور مسکین لوگ امیروں اور دولت مندوں سے پہلے جنّت میں جائیں گے۔
امیروں پر لازم ہے کہ اپنے وافر مال کو ضرورت مندوں پر خرچ کریں۔ اس طرح ناداروں کی ضروریات کا بندوبست ہو جائے گا۔ زکوٰۃ ہر مال دار پر فرض ہے ۔ یہ اسلام کا بنیادی رکن ہے۔ جس مسلمان معاشرے میں زکوٰۃ ادا کرنے میں کوتاہی کی جاتی ہو وہاں پھر بھکاری پائے جائیں گے جو سب کے لیے شرمندگی کا باعث ہوں گے۔ ایک وہ دور تھا کہ ہر مسلمان صاحب ِنصاب زکوٰۃ دینے کے لیے نکلتا تھا تو کوئی لینے والا نہ ملتا تھا۔ یہ ہے وہ نظام جو اللہ تعالیٰ نے خوش حال مسلمانوں پر حکماً نافذ کر رکھا ہے تاکہ کوئی ایسا تنگ دست نہ رہے جس کو بھیک مانگنا پڑے۔ زکوٰۃ کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہے : {وَفِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ(۱۹)} (الذّٰرِیٰت) ’’اور ان (امیروں) کے مالوں میں سوالیوں اور ناداروں کا حق ہے۔‘‘گویا کہا جاسکتا ہے کہ اگر امیر لوگ اپنے مال میں سے ناداروں کا حق ادا نہیں کرتے تو ایک طرح سے وہ حرام کھاتے ہیں ‘چاہے انہوں نے یہ مال جائز طریقے سے کمایا ہو۔ جوزکوٰۃ کا انکار کرے وہ دائرہ اسلام سے نکل جاتا ہے۔ مسلمانوں پرتو لازم ہے کہ وہ زکوٰۃ کے علاوہ صدقاتِ نافلہ کا بھی انتظام کریں اور یوںاللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کریں۔
غریبوں اور ناداروں کی روزی کا اگر زکوٰۃ اور صدقات سے انتظام ہوجائے تو اس سے اللہ تعالیٰ کا منشا پورا ہو جائے اور اس کی حکمتیں بھی عیاں ہو جائیں۔ کشادہ روزی والوں کو شکر کاموقع میسّر آ جائےاور نادار صبر کا اجر پائیں۔ شکر اور صبر وہ نعمتیں ہیں کہ جن کو مل جائیں وہ قیامت کے دن عزّت پائیں گے۔ اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے غریب اور فقیر لوگوں کی کفالت کا انتظام کر رکھا ہے۔ یہ وہی انداز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے متن کی حفاظت کا ذمہ تو خود لیا ہے مگر رسول اللہﷺ کی احادیث کی حفاظت انسانوں کے ذریعے کی ہے۔ احادیث کی حفاظت بھی ضروری تھی‘ کیونکہ آپﷺ کی زندگی کو انسانوں کے لیے نمونہ بنایا گیا۔
دنیا کی زندگی میں لو گ مل جل کر رہتے ہیں۔ ان میں کچھ امیر کبیر ہوتے ہیں جنہیں دولت کے بل بوتے پر زندگی کو آسودہ بنانے کے لیے ہر چیز میسّر ہوتی ہے۔ کچھ مفلس اور نادار ہوتے ہیں جو مشکل سے گزارہ کرتے ہیں اور بعض کو تو پیٹ بھر کر روزی بھی نہیں ملتی ۔ ایسے لوگ اگر رسول اللہﷺ کی زندگی کو دیکھیں تو ان کو صبر کی توفیق ملتی ہے‘ وہ شکوہ و شکایت کا لفظ زبان پر نہیں لاتے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے گھر میں تو ہفتوں چولہا نہیں جلتا تھا۔ دراصل دُنیا کی زندگی ہر شخص کے لیے امتحان ہے۔ ثروت مند دنیاوی مال و دولت کی بہتات میں اکثر و بیشتر عیش و آرام میں مگن رہتے ہیں۔ وہ لوگ خوش قسمت ہیں جو حلال طریق سے مال کماتے ہیں اور جائز کاموں میںخرچ کرتے ہیں۔ فضول خرچی سے بچ کر زندگی گزارتے ہیں اور ضرورت مندوں پر اپنا مال خرچ کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔جو غریب اور نادار ہیں ‘وہ حسد سے بچ کر میسّر روزی پر قناعت کرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ یہاں ہر شخص ایک آزمائش میں ہے ۔مال دارشکر کریں تو کامیاب اور مفلس و نادار صبرسے زندگی گزاریں تو کامیاب!ہر شخص اپناجائزہ لیتا رہے کہ وہ نجات پانے والے راستے پر چل رہا ہے یا اس کی زندگی خسارے میں جا رہی ہے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025