علم تفسیر کی ضرورت و اہمیت
بسلسلہ علم تفسیر اورمفسرین کرام(۱۳)پروفیسر حافظ قاسم رضوان
تفسیر کی ضرورت اور اہمیت ثابت کرنے کے لیے جو دلائل سامنے آتے ہیں‘ انہیں ہم دوحصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں: (۱)نقلی دلائل ‘ اور(۲) عقلی دلائل
(۱)نقلی دلائل
نقلی دلائل کو ہم درج ذیل حصوں میں تقسیم کر لیتے ہیں:
(ا) تفسیر کی ضرورت اور تاکید: قرآن حکیم کی روشنی میں
(ب) تفسیر کی اہمیت وفضیلت: حدیث مبارکہ کے حوالے سے
(ج) تفسیر اور تعامل صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین
(د) تفسیر اور تعامل علمائے اُمّت
(ا) تفسیر :قرآن مجید کی روشنی میں
کلام اللہ کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قرآن کی تشریح و توضیح حضورِ اقدسﷺ کے فرائض رسالت میں شامل ہے۔ سورئہ آلِ عمران میں ارشاد ہوتا ہے:
{لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ ۚ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۶۴)}
’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مؤمنین پربہت بڑا احسان کیا کہ انہی میں سے ایک رسول ان میں بھیجا جو ان کو اللہ تعالیٰ کی آیات سناتا ہے اور ان کا تزکیۂ نفس کرتا ہےا ور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ اور یقیناً یہ سب اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘
الفاظِ قرآنی: ’’وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃ ۚ‘‘ میں مذکور تعلیم صرف الفاظ کے پڑھنےپڑھانے کا نام نہیں‘ بلکہ اس میں تشریح و تفسیر بھی شامل ہے۔ اسی طرح فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
{وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ} (النحل:۴۴)
’’اور ہم نے(اے رسولﷺ!) آپ پرالذکر (قرآن ) نازل کیاتاکہ آپ لوگوں کے سامنے اس کلام کی وضاحت کر دیں جو ان کی طرف نازل کیا گیا۔‘‘
یہ’تبیین کلام‘ توضیح و تفسیر کا ہی دوسرا نام ہے۔ سورئہ ص میں یہ مضمون یوں آیا ہے:
{کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ(۲۹)}
’’یہ بابرکت کتاب ہے جس کو ہم نے آپؐ پرنازل کیا‘ تاکہ لوگ اس کی آیات میںغور و فکر کریں اور عقل مند نصیحت حاصل کریں۔‘‘
تدبر و تفکر کا نتیجہ تشریح و تفسیر قرآن کی صورت میں ہی سامنے آتا ہے۔اسی طرح سورۃالقمر میں فرمایا گیا:
{وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ}
’’اور ہم نے قرآن کو یاددہانی کے لیے آسان بنا کر بھیجا ہے‘ پس کوئی ہے اس سے نصیحت حاصل کرنے والا؟‘‘
ظاہر ہے یہ نصیحت حاصل کرنا قرآن مجید کی تشریح اور تفسیر سمجھنے سے ہی ہو سکتا ہے۔گویا ارشاد اتِ قرآنی سے ہی یہ بات واضح ہوتی کہ قرآن کریم کے لیے علم تفسیر ضروری ہے۔
(ب) تفسیر کی اہمیت : احادیث کی روشنی میں
حضورِ اَقدسﷺ کے قول وفعل سے قرآن حکیم کی تفسیر ثابت ہےا ور مسلمانوں کو بھی آپؐ نے اس کا حکم دیا۔ جیسے حضرت مجاہدؒ سے مروی ارشادِ نبوی ہے:
((عَلِّمُوْا رِجَالَکُمْ سُوْرَۃَ الْمَائِدَۃِ وَعَلِّمُوْا نِسَاءَکُمْ سُوْرَۃَ النُّوْرِ))
’’اپنے مَردوں کو سورۃ المائدہ اور اپنی عورتوں کو سورۃ النور سکھائو۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے حضرت ضحاکؒ مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ کے ارشاد یُؤْتِی الْحِکْمَۃَ سے قرآن کا عطا کرنا مراد ہے‘‘۔ حضرت ابن عباس ؓ نے وضاحت کی کہ’’قرآن کا عطاکرنا‘‘ سے مراد قرآن کی تفسیر کرنا ہے‘ کیونکہ پڑھنے کو تو نیک و بد سب ہی پڑھتے ہیں۔ امام بیہقی وغیرہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ قرآن مجید کی تعریب(تفسیر) کرو‘ اور اس کے غریب اور نامانوس الفاظ کی تلاش میں سرگرم رہو(تاکہ اس کا مفہوم سمجھ سکو)۔ اسی طرح آنحضرتﷺ نے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے حق میں دعا فرمائی: ((اَللّٰھُمَّ فَقِّھْہُ فِی الدِّیْنِ وَعَلِّمْہُ التَّأْوِیْل)) (صحیح ابن حبان‘ ح:۷۰۵۵) ’’اے اللہ! اس کو دین کا فہم بخش اور اسے قرآن کی تفسیر (تاویل) سکھا دے۔‘‘
(ج)تفسیر اور تعامل صحابۂ کرام ؓ
حیاتِ نبویؐ کے بعد صحابۂ کرامؓ کے دور میں بھی تفسیر قرآن کا سلسلہ برابر جاری رہا۔ اصحابِ رسول کے مختلف مقامات پر باقاعدہ حلقہ ہائے درسِ قرآن قائم تھے۔ جیسے مکہ مکرمہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس اور ان کے تلامذہ ‘ مدینہ منورہ میں حضرت اُبی ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے تلامذہ اور کوفہ میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے شاگرد قرآن مجیدکی تشریح و توضیح اور تفسیر (تاویل) کا فریضہ سرانجام دیتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے حضرت سعید بن جبیرؒ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا :’’ جو شخص قرآن کریم پڑھتا ہے اور اس کی تفسیر اچھی طرح نہیں کر سکتا‘ اس کی مثال اس اعرابی کی سی ہے جو شعر کو بغیر سوچے سمجھے اور غیر موزوں انداز میں پڑھتا ہے‘‘ ۔ ایسے ہی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد ہے: ’’بے شک مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ مَیں قرآن کی کسی ایک آیت کی تعریب(تفسیر و توضیح) کروں‘ بہ نسبت اس بات کے کہ میں اس کی ایک آیت حفظ کر لوں‘‘۔ مشہور تابعی مسروق ؒکا کہنا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیں ایک سورت پڑھ کر سناتے اور دن کا اکثر حصّہ اس کی تفسیر بیان کرنے میں صَرف کر دیتے۔
(د)تفسیر اورتعامل علمائے اُمّت
صحابۂ کرامؓ کے بعد تابعین وتبع تابعین اور اس کے بعد پھر ہر آنے والے دور میں تفسیر قرآن کا عمل برابر جاری رہا اور بحمدہٖ آج تک جاری ہے۔ اہل علم نے اپنے قول و فعل سے یہ بات ثابت کی کہ تفسیر کا بنیادی علم حاصل کرنا نہایت ضروری ہے‘ کیونکہ اس کے بغیر قرآن کریم کا فہم حاصل کرنا اور پھر اس پر عمل کرنا ممکن ہی نہیں۔علمائے کرام اورمفسرین عظام نے بڑی بڑی کتب تفاسیر تصنیف کی ہیں ‘جیسے امام رازیؒ کی تفسیر مفاتیح الغیب ‘ امام ابن جریر طبریؒ کی تفسیر طبری‘ امام بیضاویؒ کی تفسیر بیضاوی‘ علامہ محمود آلوسیؒ کی تفسیر روح المعانی‘ علامہ زمخشریؒ کی تفسیر الکشاف‘ علاوہ ابوبکر جصاصؒ کی تفسیر احکام القرآن وغیرہ ۔
(۲)عقلی دلائل
امام ابن تیمیہؒ بیان کرتے ہیں کہ یہ بات تشریح طلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو ایسی زبان سے مخاطب فرماتے ہیں جس کو وہ لوگ اچھی طرح سمجھتے ہیں‘ اسی لیے پروردگار نے ہر ایک رسول اور نبی کو اُس کی قوم میں انہی کی زبان کے ساتھ بھیجا اور اپنی الہامی کتب کو متعلقہ قوموں کی ہی زبان میں نازل فرمایا ۔ اب رہی یہ بات کہ پھر تفسیر کی حاجت کیوں؟ تو اس کا جواب ایک قاعدے اور ضابطے کے فہم کے بعد سمجھ آئے گا۔ وہ قاعدہ یہ ہے کہ انسانوں میں سے جو شخص کوئی کتاب تصنیف کرتا ہے تو وہ بنیادی طور پر اپنا سبق یاد کرنے کے لیے تصنیف کرتا ہے اور اس وقت اس کی کوئی مزید تشریح نہیں کرتا۔ لیکن پھر اس کتاب کی وضاحت کی حاجت تین وجوہ سے پیدا ہوتی ہے:
(اول) تصنیف کتاب میں مصنف کی فضیلت کا کمال ہے کہ وہ اپنی علمی قوت سے بلیغ لفظوں میں دقیق معانی کو جمع کر دیتا ہے‘ اس لیے بسا اوقات مصنف کی صحیح مراد کو سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں تشریح و توضیح سے ان مخفی معنوں کا اظہار مقصود ہوتا ہے جو کہ بظاہر آنکھ سے اوجھل ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بعض علماء نے ضرورت کے وقت اپنی تصانیف کی شرح خود ہی تحریر کی ہے اور یہ دوسرے لوگوں کی لکھی ہوئی متعلقہ شروح کی نسبت صاحب ِکتاب کی مراد پر بہت زیادہ دلالت کرنے والی ہیں۔
(دوم) مصنف اپنی کتاب میں چند اصول وضوابط اورمسائل کی وضاحت کے لیے کچھ مزید تشریحات اس خیال سے نظر انداز کر دیتا ہے کہ وہ امور اور شروط تو بالکل واضح ہیں‘ یا ان کو اس لیے درج نہیں کرتاکہ ان باتوں کا تعلق چند دوسرے علوم سے ہوتا ہے جن کی بظاہر قاری کو اتنی سوجھ بوجھ نہیں ہوتی۔ لہٰذا ایسی حالت میں تشریح و توضیح کرنے والے کو متعلقہ محذوف اموراور اس کے مراتب کے بیان کی حاجت پیش آتی ہے۔
(سوم) ایک لفظ میں کئی معنوں کا احتمال ہوتا ہے‘ جیسا کہ مجاز‘ اشتراک اور دلالت التزام کی صورتوں میں پایا جاتا ہے۔ اب ان صورتوں میں شارح پر لازم ہے کہ وہ مصنف کی غرض کو پہچان کر واضح کرے اور اسے دیگر معنوں پر ترجیح دے وغیرہ۔
اس وضاحت کے بعد علم تفسیر کی اہمیت کے حوالے سے امام جلال الدین سیوطیؒ کا درج ذیل بیان ملاحظہ کریں:
’’قرآن افصح العرب حضورِ اقدسﷺ کے عہد میں بزبانِ عربی نازل ہوا۔ حضرات صحابۂ کرامؓ اس میں بیان کردہ مسائل و احکام سے آگاہ تھے‘ البتہ اس کے باطنی دقائق وحقائق بحث و نظر اور حضور کریم ﷺ سے دریافت کرنے پر ہی معلوم ہو سکتے تھے۔ جب سورۃ الانعام کی یہ آیت نازل ہوئی:{اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ}(آیت۸۲) ’’جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا‘‘ تو صحابہ کرامؓ نے حضور اکرمﷺ سے عرض کیا کہ ہم میں سے کون ہے جس نے کبھی ظلم نہیں کیا؟ اس پر آپﷺ نے جواب دیا کہ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے۔ اس کی تائید میں رسول اکرم ﷺ نے(سورئہ لقمان کی) یہ آیت تلاوت فرمائی: {اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ (۱۳)} ’’بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘اسی طرح ایک مرتبہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:((مَنْ نُوْقِشَ الْحِسَابَ عُذِّبَ))’’جس پر محاسبۂ اعمال کے وقت جرح کی گئی‘ اسے عذاب دیا جائے گا۔‘‘ یہ سن کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:{فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا(۸)} ’’پس محاسبۂ اعمال آسانی سے کیا جائے گا‘‘ پھر یہ سختی کیسے ہو گی؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ سہولت اعمال پیش کرتے وقت دی جائے گی اور جیسے کہ سورۃ البقرہ میں فرمانِ الٰہی ہے:{وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِص} (آیت۱۸۷) ’’اور تم کھاتے پیتے رہو‘ یہاں تک کہ صبح کا سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ظاہر ہو جائے(پہچانا جائے)۔‘‘ اب حضرت عدی بن حاتم کے واقعے میں حضور ﷺ نے اس کی وضاحت فرمائی کہ سیاہ دھاگے سے رات اورسفید دھاگے سے دن مراد ہے۔ اس کے علاوہ اور بہت سی دوسری باتیں ہیں جنہیں صحابۂ کرام ؓ نے ایک ایک کر کے نبی کریمﷺ سے دریافت کیا تھا‘ اور ہم لوگ بھی ان باتوں کے محتاج ہیں جن کے محتاج صحابۂ کرام ؓ تھے۔ علاوہ ازیں ظاہری احکام میں سے بھی ایسے امور کے علم کی حاجت ان حضرات ؓ کو ہر گز نہ تھی‘ لیکن ہماری اس احتیاج کا سبب ہمارا لغت کے فہم سے قاصر ہونا ہے‘ لہٰذا ہم کو ان تمام لوگوں سے بڑھ کر تفسیر کی ضرورت اور حاجت ہے۔‘‘
یہ بھی ایک مسلّمہ امر ہے کہ تمام اشخاص یکساں فہم و فراست‘ تفکر و تدبر اور صلاحیت و قابلیت کے نہیں ہوتے ‘ کوئی کج فہم ہے تو کوئی زود فہم‘ کوئی ذکی ہے تو کوئی بالکل غبی وغیرہ۔ اسی وجہ سے کوئی بات سمجھنے میں ہر کوئی ایک جیسا نہیں ہوتا۔ پھر عام لوگوں کی تحریر و تقریر توالگ رہی‘ جب معاملہ اللہ تعالیٰ کے کلام اور کتاب کا ہو جس کی جامعیت ‘ ہمہ گیری اور وسعت کا کچھ ٹھکانہ نہیں‘ جس میں بے شمار مطالب وتراجم‘ فصاحت وبلاغت‘ اوصافِ کلام اورمعانی و بدائع کا ایک چمن کھلا ہوا ہے‘ تو پھر ظاہر ہے کہ ایسے عظیم کلام کی تشریح و تفسیر ایک لازمی امر ہے تاکہ زیادہ سےزیادہ لوگ اس سے استفادہ کر سکیں۔
اس بات کو بھی ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے کہ قرآن عزیزایک طرح سے اصول وکلیات کی کتاب ہے ‘ جس میں جزئیات نگاری سے کام نہیں لیا گیا اور نہ ہی اس میں تفصیلات اور فروعی نکات کا باب کھولا گیا ہے۔ ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ ان اصول وکلیات کی تشریح اور جزئیات و تفصیلات کی تبیین و تفسیر لازم ہو جاتی ہے۔نیز قوانین و احکام کی تفصیلی صورت‘ حدود وقیود اوران کا مختلف صورتوں میں اطلاق واضح طور پرمتعین ہونا چاہیے۔ اس اہم ضرورت کو صرف علم تفسیر ہی پورا کرتا ہے۔ اور یہ ایسا علم تفسیر ہوجو سلف صالحین کے منہج سے جڑا ہوا ہو۔
افراد واُمم کی ترقی اوراتحاد کا راز قرآنی تعلیمات کی ہی پیروی اور اس کی حکیمانہ نظم و ترتیب میں منحصر ہے۔ قرآن مجید بنی نوع انسان کی فلاح وصلاح کے جملہ اجزاء و عناصر پر مشتمل ہے۔ اب یہ ایک بدیہی امر ہے کہ قرآنی احکام و تعلیمات کی تعمیل قرآن کریم کے فہم و تدبر کے بعد ہی ممکن ہے۔ کلام اللہ جس رشد وہدایت کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے اور اس کا معجزانہ اسلوبِ بیاں جن حکمتوں کا جامع ہے‘ جب تک ان سے صحیح آگاہی حاصل نہ کی جائے‘ تب تک قرآن عزیز کی مکمل پیروی کا کوئی امکان نہیں۔ یہ اسی صورت ممکن ہے کہ ہم قرآنی الفاظ کے معانی و مطالب کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس کے او امر ونواہی کا صحیح ادراک کریں۔ علم تفسیر اس ضمن میں معاون ثابت ہوتا ہے‘ جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
عصر حاضر میں عربی زبان وادب سے شغف نہیں رہا اور نہ براہِ راست قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کی کوئی لگن ہے‘ اس لیے موجودہ دور میں علم تفسیر کی ضرورت پہلے سے بھی بہت زیادہ ہے۔ کتابِ الٰہی بنی نوعِ انسان کی فوزوفلاح اورہدایت کے لیے نازل ہوئی ہے جو عظیم علمی ذخائر کی جامع‘ اعلیٰ ترین الہامی تعلیمات کی حامل اور کامل حکمتوں کا گنجینہ ہے۔ علم تفسیر ہی ان تمام خزانوں کی کنجی ہے جس کے بغیر قرآنی علوم و معارف کا باب نہیں کھل سکتا۔ قرآنی الفاظ اور آیات کو جتنا بھی دہرایا جائے‘ ثواب تو حاصل ہو جائے گا لیکن ان کا مفہوم و معنی اور مراد علم تفسیر کے بغیر معلوم نہیں ہو سکتا۔ نسخہ ہائے قرآن اور حفاظ کی کثرت کے باوجود اُمّت ِمسلمہ جس تنزل و انحطاط میں مبتلا ہے‘ اس کی وجہ تعلیماتِ قرآنی سے لاعلمی اور احکامِ قرآنی کی عدم پیروی کے سوا کچھ اور نہیں‘ باوجود اس کے کہ مسلمانوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں اور ان کے بلاد وامصار بھی دور دراز تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ہمارے اسلاف نے اسی قرآن کی برکت سے ترقی کی جو منازل طے کی تھیں‘ تاریخ اس پر حیران رہے گی۔ حالانکہ ان کی تعداد کم تھی‘ قرآن کے نسخے بھی انہیں بسہولت میسر نہ تھے اور حفاظ کرام کی تعداد بھی محدود تھی۔ لیکن ہمارے اسلاف کی ترقی کا راز اسی حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ انہوں نے اپنی تمام تر توجہ قرآن کریم کے درس و مطالعہ ‘ اس کے بحرمعانی میں غواصی کرنے اور پھر اس کی پیروی کرنے کی طرف مبذول کی۔ اس ضمن میں انہوں نے اپنی فطری صلاحیتوں ‘ عربی زبان و ادب کے شوق اور اپنے ماحول سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اس کے ساتھ ساتھ حضور اقدسﷺ نے اپنے اقوال و اعمال اور اخلاق و احوال سے قرآن مجید کی جو تشریح و توضیح کی تھی‘ اس سے اور پھر صحابہ کرامؓ کے اقوال سے بھی خوب کسبِ فیض کیا۔ ؎
گر تو می خواہی مسلمان زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآن زیستنقرآن پاک سلف صالحین کا اوڑھنا بچھونا تھا‘ وہ اسے پڑھتے‘ سمجھتے اور حفظ بھی کرتے۔ اس حوالے سے صحابۂ کرامؓ اور تابعینؒ کے طرزِ عمل کا درج ذیل واقعات سے اندازہ ہو گا۔ مشہور تابعی عبد الرحمٰن سلمی کے بیان کے مطابق حضرت عثمان بن عفان اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے انہیں بتایا کہ جب وہ نبی اکرم ﷺ سے دس آیتیں سیکھتے تو اس وقت تک آگے نہیں بڑھتے تھے جب تک کہ ان آیات کی تمام علمی و عملی باتوں کا علم نہ حاصل کر لیتے۔نیز حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے یہ قول بھی منسوب ہے کہ مَیں نے سورۃ البقرہ آٹھ سال میں مکمل کی۔ یعنی جتنا حصہ سورت کا پڑھا‘ اسےسمجھا اور اس پر عمل کیا‘ پھر آگے چلے‘ یوں آٹھ سال میں تکمیل ہوئی۔ اسی طرح مشہور تابعی مجاہدؒسے یہ قول مروی ہے کہ مَیں نے تین مرتبہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو بایں طور قرآن پاک سنایاکہ ہر آیت پر ٹھہر کردریافت کرتا کہ یہ کیسے اور کہاں نازل ہوئی! اسی طرح ابن ابی ملکیہ کا قول ہے کہ مَیں نے دیکھا کہ مجاہد‘ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے قرآن کی تفسیر پوچھ رہے ہیں اور ان کے پاس تختیاں بھی ہیں۔ حضرت ابن عباسؓ نے کہا کہ لکھتے جائو! یہاں تک کہ مجاہد نے مطلوبہ تفسیر لکھ لی۔
قرآن کریم کے ساتھ ایسے ہی تعلق اور اس پر عمل کی برکت سے اُمّت ِمسلمہ کے ہاتھوں عجائبات کا ظہور ہوا تھا۔ دعوت و تبلیغ اور جہاد کے حوالے سے انہوں نے جدھر کا بھی رخ کیا‘ کامیابی و کامرانی نے ان کے قدم چومے۔ اس دور میں اسلامی دعوت و تبلیغ کی سب سے بڑی رکاوٹ مشرق میں ایرانی بادشاہت اور مغرب میں رومی سلطنت تھی۔ مسلمانوں کے قدموں نے ان دونوں بادشاہتوں کا نام ونشان مٹا دیا۔ ان کے زیر تسلط جو علاقے بھی آئے‘ وہاں کی اکثریت دائرئہ اسلام میں داخل ہو گئی۔ اسلام کے باعمل شیدائیوں نے جس طرف بھی قدم بڑھائے‘ نوید فتح ان کے آگے آگے چلتی رہی۔ ایک طرف سرزمین اندلس ان کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے گونج رہی تھی تو دوسری طرف ہند کا خطہ ان کی فاتحانہ آمد سے مہک رہا تھا۔ لیکن پھر ایک وقت ایسا آیا کہ مرد مسلمان کی تلوار کندہو کے جواب دے گئی اور قرآن پاک سے ان کا عملی تعلق نہ ہونے کے برابر رہ گیا۔ ان کی غالب اکثریت کلام اللہ کو صرف گھروں ‘مسجدوں اورمحفلوں میں پڑھنے پر قانع ہو گئی‘ اس کے پڑھنے اور عمل کرنے کو طاقِ نسیاں پر رکھ دیا گیا اور اس کا کہیں بھی رکھا اور پڑھا جانا صرف حصولِ برکت وثواب کے لیے رہ گیا۔ اُمّت ِمسلمہ نے یہ سبق بالکل بھلا دیا کہ قرآن کریم کی برکت عظمیٰ تو اس کی تلاوت کرنے‘ اس پر غور وثواب فکر کرنے اور اس کی بیان کردہ تعلیمات سے کسب ِفیض کرنے میں پوشیدہ ہے۔ اور یہ حقیقت بھی ان کے ذہن سے بالکل اتر گئی کہ قرآن مجید سے حصولِ خیر اس بات میںمضمر ہے کہ اس کے بتائے ہوئے احکام و اوامر پرصدقِ دل سے عمل کیا جائے اور اس کے محرمات و نواہی سے کلی اجتناب برتا جائے۔ دورِ حاضر کے مسلمانوں کی حالت اُس پیاسے کی سی ہے جو پیاس سے مررہا ہو‘ درآنحالیکہ پانی اس کے سامنے پڑا ہو‘ یا پھر اُس راہ گم کردہ حیوان کی سی ہے جو اندھیر ے میں تھکان سے ہلاک ہو رہا ہو اور وہ آنکھ ہی نہ کھولے‘ درآنحالیکہ چاروں طرف روشنی پھیل چکی ہو‘ ذٰلِکَ ھُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ۔
امام مالکؒ کا قول ہے : لا یصلح آخر ھذہ الامۃ الا بما صلح بہ اولھا ’’ اُمّت ِ مسلمہ کے آخری دور کی اصلاح بھی اسی طرح ہو سکتی ہے جیسے کہ پہلے دور کی ہوئی تھی‘‘۔ اس کا واحد طریقہ یہی ہے کہ قرآن کریم کو پڑھ کر اس سے رشد وہدایت کا پیام اخذ کیا جائے‘ پھر زندگی کے تمام طور طریقوں کو اسی سانچے میںڈھالا جائے۔ ہمارے اسلاف کا اوڑھنا بچھونا قرآن مجید ہی تھا۔ وہ اپنے گھروں اور مجالس میں اس کی تلاوت کرتے اور اسی پر غور وفکر کرتے تھے۔ اس کے خوش آئند اثرات ظاہر ہوئے اور وہ پست سطح سے اٹھ کر علم وعمل اور اخلاقِ حسنہ کی بلندیوں پر فائز ہو گئے۔ساتھ ساتھ وہ مروّجہ علوم وفنون کے بھی ماہربن گئے اور اس حوالے سے بھی انہوں نے اقوام عالم پر سبقت حاصل کر لی۔ یہ سب کچھ قرآن عزیز کو پڑھنے اور اس کی تفسیر کو سمجھے بغیر ممکن نہیں تھا۔
ان تمام باتوں سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ تفسیر کی اہمیت و ضرورت میں یاد دہانی‘ عبرت آموزی اور عقائد و عبادات نیز معاملات اور اخلاق میں ہدایاتِ خداوندی کا تفصیلی علم ہے‘ تاکہ ان پر عمل پیرا ہو کر فرد‘ خاندان اور اُمّت ِمسلمہ دین ودنیا اور آخر ت میں کامیابی وکامرانی سے ہمکنار ہو ۔ورنہ اب تو حال یہ ہے کہ ؎
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025