(تعمیرِ سیرت ) رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ - ڈاکٹر محمدالیاس

8 /

رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ
ڈاکٹر محمد الیاس
امیر تنظیم اسلامی حلقہ کراچی جنوبی ‘ مدیر تعلیم انجمن خدام القرآن سندھ

زیر نظر مقالہ تنظیم اسلامی کے سالانہ اجتماع منعقدہ ۱۹ تا۲۱ نومبر ۲۰۲۱ء‘ بمقام مرکزی اجتماع گاہ بہاول پور میں پیش کیا گیا۔ بعد ازاں فاضل مقرر نے خود ہی اسے ایک مضمون کی صورت میں مرتّب کیا‘ جسے قدرے ایڈیٹنگ کے بعد ہدیۂ قارئین کیا جا رہا ہے۔

نَحۡمَدُہُ وَ نُصَلِّیۡ عَلٰی رَسُوۡلِہِ الۡکَرِیۡمِ وَ عَلٰی آلِہٖ وَ اَصۡحَابِہٖ اَجۡمَعِیۡنَ ۔ اَمَّا بَعۡدُ:
فَاَعُوۡذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیۡطٰنِ الرَّجِیۡمِ ۔ بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

{مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ ۭ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَیْنَھُمْ تَرٰىھُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًا ۡ سِیْمَاھُمْ فِیْ وُجُوْھِھِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ۭ ذٰلِکَ مَثَلُھُمْ فِی التَّوْرٰىۃِ ٻ وَمَثَلُھُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ ۾ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْاَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِھِمُ الْکُفَّارَ ۭ وَعَدَ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْھُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا(۲۹)} (الفتح)
رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ وَيَسِّرْلِيْۤ اَمْرِيْ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِيْ يَفْقَھُوْا قَوْلِيْ

ایک بڑا دھوکا یہ ہے کہ آج انسان سے زیادہ اہم کام اورچیزیںہوگئی ہیں اور دوسرا بڑا دھوکایہ ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں دوسروں کی ضرورت نہیں‘ ہم خود ہی کافی ہیں۔ پوری دنیا میں individualismبہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ہر انسان independent زندگی گزارنا چاہتا ہے اور اتنے وسائل ‘اسباب اور ذرائع اکٹھےکرلیناچاہتا ہے کہ اسے کبھی کسی دوسرے کی ضرورت نہ پڑے ۔ آج مہنگائی سے بڑا بحران یہ ہے کہ انسان سینکڑوںٹیلی فونک اور ہزاروں سوشل میڈیا روابط ہونے کے باوجود حقیقی تعلق سے محروم ہے۔ آج کا انسان واقف کاروں کے ہجوم میں تنہا زندگی گزار رہا ہے۔وہ تعلقات کو بوجھ سمجھتا ہے اور آزاد اور من پسند زندگی گزارنے کے لیے ان تعلقات سے جان چھڑانا چاہتا ہے‘جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اچھے اور مضبوط تعلقات انسان کی ایک اہم ضرورت ہیں۔
دنیا میں دو ہی جماعتیں ہیں: حزبُ اللہ اور حزبُ الشیطان ۔تنظیم اسلامی حزبُ اللہ کا حصّہ ہے اور حزبُ اللہ میں شامل افراد کے باہمی تعلق کو قرآن حکیم میں رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ سے تعبیر کیا گیا ہے--------اللہ تعالیٰ ہم رفقاء کے درمیان رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ والا تعلق پیدا فرمادے--------اس موضوع پر آٹھ نکات کی روشنی میں بات کرتے ہیں۔
۱) رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ کا معنی و مفہوم
’’رُحَمَاء‘‘کا مادہ ’’رح م‘‘ ہے اورفَعِیْلٌ کے وزن پر اس مادہ سےرَحِیْمٌ بنتا ہے‘ جس کی جمع رُحَمَاءُ ہے‘ جیسےشَھِیْدٌ کی جمع شُھَدَاءُ ہے۔ چنانچہ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ کا معنی ہوا مسلسل ایک دوسرے کے ساتھ رحم کا معاملہ کرنے والے۔
بانی محترم ؒ کی ایک مثال : بانیٔ محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ اللہ ربّ العزت کی ان دو صفات الرحمٰن اور الرحیم کے بارے میں فرماتے ہیں کہ دونوں کا مادّہ ایک ہی ہےیعنی’’رح م‘‘ لیکن دونوں کے وزن میں فرق ہے۔’’رحمان‘‘ فَعلان کے وزن پر ہے جس میں سمندر کا سا جوش و خروش اور ولولہ ہے‘ لیکن’’ رحیم‘‘ فعیل کے وزن پر ہے جس میں میدانی علاقہ کے پُرسکون دریا کا ساتسلسل اور دوا م ہے۔ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں ۔ اللہ تعالی نے انسانوں کو ایسا بنایا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو appreciate کر سکیں ۔
بانی محترمؒ ان دونوں صفات کے فرق کو واضح کرنے کے لیے ایک مثال بیان کرتےتھے کہ اگر ہماری آنکھوں کے سامنے سڑک پر ایک ایکسیڈنٹ ہو جائے جس میں میاں بیوی موقع پر ہلاک ہوجائیں جبکہ ان کا چھوٹا بچہ سڑک پر گرا تڑپ رہا ہو تو اُسے دیکھ کر ہمارے دل میں جو رأفت اور رحمت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں یا رحم کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دل میں اُٹھتا ہےاور ہم دوڑ کربچے کو گود میں اٹھا لیتے ہیں کہ اس کے درد کا درماں بن جائیں‘یہ گویارحمان کی صفت کی ایک ذرا سی جھلک ہے جو ہم محسوس کرسکتے ہیں۔لیکن چند دن اس بچے کو پالنے کے بعد ہمارا رحمت کا جذبہ آہستہ آہستہ کم ہو جاتا ہے۔ تاہم اگر وہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا رحمت کا جذبہ مسلسل رہے تو یہ رحیم کی صفت ہے۔
مفسرین کی تفسیر: اللہ تعالی الرحمٰن بھی ہےاورالرحیم بھی‘اور اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ یہ جذبہ اُس کو ماننے والوں میں بھی ایک دوسرے کے لیے پیدا ہو جائے۔مفسرین رحمان اور رحیم کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ رحمان الدنیا اور رحیم الآخرۃ ہے۔ یعنی دنیا میں اللہ کی رحمت عام ہے‘ کوئی مسلمان ہو یا کافر‘ اللہ کو مانتا ہو یانہ مانتا ہو‘ لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اس کے لیے ہر وقت جاری رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نافرمان بندوں سےعموماً روٹی نہیں چھینتا ‘ اُن کا رزق نہیں بند کر تا ‘ ا لبتہ یہ ضرور ہے کہ انہیں سجدہ کرنے اور عبادت کرنے کی توفیق نہیں دیتا۔ دنیا میں اللہ کی رحمت عام ہے اورہر کوئی اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جبکہ اس کا تسلسل اور دوام اہل ایمان کے لیے ہے اور وہ آخرت میں بھی اللہ کی رحمت کے امید وار اور حق دار ہوں گے۔
اللہ تعالی کےننانوے اسمائے مبارک بیان ہوتے ہیں اور ان میں سےایک ’’الرحیم‘‘ ہے۔ اسی طرح حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے اسماء ِگرامی میں سے بھی ایک اسم مبارک ’’رحیم‘‘ ہے ۔اللہ اور رسول دونوں کے لیے رحیم کی صفت بیان ہوئی ہے۔گویا اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی جو صفات ہیں ان کا ایک عکس اللہ چاہتا ہے کہ اُس کے بندوں میں بھی ہو ۔مَیں اور آپ اس صفت کو اختیار کریں کہ ہم رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ یعنی ایک دوسرے کے لیے انتہائی رحمت کا جذبہ رکھنے والے اور مسلسل رحم کرنے والے بن جائیں ۔آمین!
۲) قرآن کی روشنی میں رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ کی اہمیت
صحابہ کرامؓ کی شان:آغاز میں تلاوت کردہ سورۃ الفتح کی آخری آیت میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کےتقریباً پانچ اوصاف بیان ہوئے ہیں ۔آیت کا رواں ترجمہ ملاحظہ ہو:
’’محمد(ﷺ) اللہ کے رسول ہیں۔ اور جو لوگ اُنؐ کے ساتھ ہیں وہ کُفّار پر بہت سخت اور آپس میں رحیم ہیں۔ تم جب دیکھو گے اُنہیں رکوع و سجود اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پاؤ گے۔ان کی شناخت یہ ہے کہ ان کے چہروں میں سجدوں کے اثرات ہیں۔یہ ہیں ان کی صفات تورات میں‘ اور انجیل میں اُن کی مثال یوں دی گئی ہے کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی‘ پھر اس کو تقویت دی‘ پھر وہ موٹی ہوئی‘ پھر اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی‘ کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے‘ تاکہ غصہ دلائے ان کی وجہ سے کُفّار کو۔وعدہ کیا ہے اللہ نے اُن لوگوں سے جوان میں سے ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے‘ مغفرت اور اجر ِعظیم کا ۔‘‘
حزبُ اللہ کے افراد کیسے ہونے چاہئیں‘ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اس حوالے سے ہمارے لیے مشعل راہ اور رول ماڈل ہیں اوران کی یہ صفات ہم میں بھی مطلوب ہیں ۔اللہ کرے کہ یہ صفات ہم سب کےاندرپیداہوجائیں۔ آمین!
متذکرہ بالا آیت میں اللہ تعا لیٰ نے فر مايا: {مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ ۭ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ} ’’محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں۔اور جولوگ اُن کے ساتھ ہیں۔‘‘ یہ اتنا بڑا شرف جو صحابہؓ کو حاصل ہوا یہ آپﷺ کی صحبت و مصاحبت کاہی ثمر ہ ہے ۔اسی سبب صحابہ کرام ؓ نے انبیاء ورسل علیہم السلام کے بعد سب سے عظیم مرتبہ پایا ۔
صحابہ کرام ؓکے پانچ اوصاف: اس آیت میں صحابہ کرام ؓکے پانچ اوصاف بیان کیے گئے ہیں:
پہلی صفت: {اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ} ’’کُفّار پر سخت‘‘ ۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ ڈانٹ ڈپٹ کرتےتھےیا غصے سے بات کرتے تھے بلکہ صحابہ کرامؓکُفّار کے لیے نرم چارہ نہیں تھے۔نہ تو بڑی سے بڑی قیمت یا لالچ انہیں خرید سکتی تھی اور نہ بڑی سے بڑی دھمکی اور خوف انہیں سیدھے راستے سے ہٹا سکتی تھی۔ گویا وہ فولاد کے چنے تھے جن کو چبانے کی کوشش کرکے اپنے دانت تو توڑے جا سکتے تھے‘لیکن ان کو چبایا نہیں جاسکتاتھا۔
دوسری صفت:{ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ} ’’آپس میں ایک دوسرے پر بڑا رحم کرنے والے!‘‘ صحابہ کرامؓ کی ان دونوں صفات کو علّامہ اقبال نے کس شان سے بیان فرمایا ہے ؎
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مؤمن
تیسری صفت:{تَرٰىھُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا} ’’تم جب دیکھو گے اُنہیں رکوع و سجود میں مشغول پاؤ گے!‘‘اللہ تعالیٰ کے ساتھ صحابہ کرامؓ کا اتنا گہرا تعلق ہے کہ اُس کےسامنے عاجزی و انکساری اختیار کرتے ہیں اوراس تعلق برقرار رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے لو لگائے رکھتے ہیں؎
چوتھی صفت:{يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًاز}’’وہ اللہ کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں رہتے ہیں!‘‘ گویا صحابہ کرام ؓکا مشن اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول تھا۔
پانچویں صفت : صحابہ کرام ؓکی علامت اور نشانی تورات ‘ انجیل اور قرآن میں یوںبیان فرمائی گئی :{سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِط}’’ان کی شناخت ان کے چہروں پر سجدوں کے اثرات ہیں!‘‘جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں۔ سجدہ کرنے سے جو ماتھے پر عموماً نشان پڑ جاتا ہے‘یہاں وہ مراد نہیں ہے بلکہ سجدوں سے جو روحانیت حاصل ہوتی ہےاور چہرے پر نورانی اثرات آتے ہیں یہ ان کی علامت بن جاتے ہیں۔
آیت کے آخر میں صحابہ کرامؓ کی ترقی کی حکمت بیان ہوئی کہ انہیں پھلتے پھولتے اور ترقی کرتے دیکھ کر رسول اللہ ﷺ خوش ہوں اور کُفّار کو غصہ اور صدمہ پہنچے ۔ ؎
پھلا پھولا رہے یا ربّ چمن میری امیدوں کا
جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے مَیں نے پالے ہیں!
اللہ کے محبوب بندوں کے چھ اوصاف:سورۃ الفتح کی آخری آیت میں تو صحابہ کرامؓ کے پانچ اوصاف بیان کیے گئے ہیں‘ جبکہ سورۃ المائدہ میں اللہ کے محبوب بندوں کےچھ اوصاف بیان فرمائے گئے ہیں:
{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللہُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّھُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗٓ ۙ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ ۡ یُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَلَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَاۗئِمٍ ۭ ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَاۗءُ ۭ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۵۴) }(المائدۃ)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے (تو پھر جائے) اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گا کہ اللہ اُن سے محبّت کرے گا اور وہ اللہ سے محبّت کریں گے ‘ جو مؤمنوں پر نرم اور کُفّار پر سخت ہوں گے‘ جو اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے‘ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔اور اللہ وسیع ذرائع کا مالک ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔ ‘‘
پہلی صفت: اس آیت میں اللہ کو مطلوب اہل ایمان کی پہلی صفت بیان ہوئی {يُحِبُّهُمْ}’’اللہ ان سے محبّت کرے گا!‘‘یہ صفت شاید ہمارے اختیار میں نہیں‘لیکن باقی صفات پر ہم عمل کریں تو پہلی صفت بھی ہمیں حاصل ہو سکتی ہے۔اور غور کیجئے گا کہ یہ ساری صفات ایک دوسرے کی تکمیل (complement) کرتی ہیں۔
دوسری صفت:{وَیُحِبُّوْنَہٗٓ}’’اور وہ اللہ سے محبّت کریں گے!‘‘پہلی چیز کہ اللہ ہم سے محبّت کرنے لگے‘یہ تو ہمارے اختیار میں براہِ راست نہیں ہے‘لیکن اگر ہم اللہ سے محبّت کرنے لگیں تو پھر امید ہے اللہ بھی ہم سے محبّت کرنے لگے گا۔
تیسری صفت:{اَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ} ’’ وہ نرم ہوں گے مؤمنین پر‘‘
چوتھی صفت:{اَعِزَّةٍ عَلَى الْكٰفِرِينَ}’’ سخت ہوں گے کافروں پر!‘‘ جتنی اللہ سے زیادہ محبّت ہوگی اتنی ہی اللہ کو ماننے والوں سے محبّت ہوگی اور ان کے لیے نرمی اوررحمت ہوگی۔اور اتنی ہی زیادہ اللہ کے دشمنوں سے نفرت ہوگی اور ان کےلیے شدّت ہو گی ۔
پانچویں صفت:{ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيْلِ اللهِ}’’وہ جہاد کریں گے اللہ تعالیٰ کی راہ میں۔‘‘
چھٹی صفت:{وَلَا يَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَآئِمٍ}’’اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہوںگے۔‘‘
یہ مطلوبہ صفات ہیں‘ دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کے اندر یہ صفات پیدا فرما دے۔ آمین!
رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ کی روح:سورۃ الحجرات میں اللہ تعالی نے فرمایا:{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ}(آیت۱۰)’’بے شک مؤمن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘ اگر کہیں دو سگے بھائی آپس میں لڑ پڑیں‘ باہم دست و گریباں ہوں‘ تو ہر آدمی کو بُرا لگتا ہے کہ سگے بھائی ہو کر لڑرہے ہیں۔ حزبُ اللہ کے افراد کے درمیان کلمہ کا رشتہ تو خون کے رشتوں سے بڑھ کرہے اور اس میں تو محبّت اورا خوت اور بھی زیادہ مطلوب ہے۔چنانچہ فرمایاکہ مؤمن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں‘اس لیے بھائیوں کو لڑتے نہیں چھوڑ دینا چاہیے‘بلکہ ان کے درمیان صلح کروا دینی چاہیے ۔
قرابت داروں کا حق:سورۂ بنی اسرائیل کی آیت۲۶ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:{ وَاٰتِ ذَا ٱلْقُرْبَىٰ حَقَّہٗ} ’’قرابت داروں کو ان کا حق دو۔‘‘گویا جو جتنا قریبی ہے اُس کا ہم پر اتنا زیادہ حق ہے ۔ اسی طرح جو اللہ کے ساتھ‘ اُس کے رسول ﷺکے ساتھ‘ اہل ایمان کےساتھ قریب ہے‘ تنظیم کا رفیق ہے تو ان سے ہمارابھی تعلق اتنا ہی زیادہ گہرا اور شدید ہونا چاہیے ۔
سیسہ پلائی ہوئی دیوار:سورۃ الصف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:{اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّھُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ(۴)}’’بے شک اللہ محبّت کرتا ہے اُن لوگوں سے جو اُس کی راہ میں صفیں بنا کر لڑتے ہیں گویاسیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوں۔‘‘ آج سیسہ پلائی ہوئی دیوار کو metal reinforced concrete wallکہتے ہیں ۔یہ مضبوط ترین دیوار ہے جس کا انسان تصوّر کر سکتا ہے۔ عموماً ایسی دیوار کسی طاقتور دریاکے آگے بند باندھنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ کر ش کو کنکریٹ کے ساتھ ملا کر انتہائی مضبوط دیوار بنائی جاتی ہے‘پھر اس دیوار میں موجود رخنوں اور شگافوں کوپُرکرنے کے لیے دھات کو پگھلا کر اوپر سے ڈالا جاتا ہے۔لیکن اہل ایمان کو آپس میں جوڑنے کا ذریعہ قرآن ہے جسے تھام کر اہل ایمان ایک دیوار بن جاتے ہیں۔پھر اس دیوار کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنانے اور دھات جیسی مضبوطی لانے کے لیے رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ کا جذبہ درکار ہوتا ہے۔ یہ جذبہ جتنازیادہ ہوگا‘ جتنی زیادہ ہمیں آپس میں محبّت ہوگی‘ ایک دوسرے کے لیے مسلسل رحمت کا معاملہ ہوگا‘ اتنا ہی ہم سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں گے۔
ذراتصوّر کریں کہ ہم اللہ کی راہ میں صفیں بنائے کھڑے ہوں اور ہمارے دونوں طرف وہ لوگ موجود ہوں جو ہم سے محبّت کرتے ہوں اور ہم ان سے محبّت کرتے ہوں تو اندازہ کریں کہ ہمیں کتنی تقویت حاصل ہوگی۔ بنسبت اس کے کہ ہمارے دائیں بائیں ایسے لوگ ہوں جن سے صرف واجبی سا تعلق ہو ۔اس لیے یہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار والا تصوّرذہن میں آتا ہی اس وقت ہے جب ہمارےدرمیان رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ کی بھر پور کیفیت ہو۔
۳)احادیث ِنبوی ﷺ کی روشنی میں رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ کی اہمیت
(۱)باہمی محبّت اللہ کی محبّت کے حصول کا ذریعہ ہے:
((قَالَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالٰى : وَجَبَتْ مَحَبَّتِىْ لِلْمُتَحَابِّيْنَ فِىَّ وَالْمُتَجَالِسِيْنَ فِىَّ وَالْمُتَزَاوِرِيْنَ فِىَّ وَالْمُتَبَاذِلِيْنَ فِىَّ)) (موطا امام مالک)
’’ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا کہ میری محبّت واجب ہوگئی ان لوگوں کے لیے جو میری وجہ سے باہم محبّت کرتے ہیں‘ میری وجہ سے باہم مل بیٹھتے ہیں ‘ میری وجہ سے ایک دوسرے سے ملاقات کو جاتے ہیں‘اور میری وجہ سے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں ۔‘‘
(۲) باہمی محبّت سایہ عرشِ الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے:
((اِنَّ اللهَ يَقُوْلُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: أيْنَ الْمُتَحَابُّوْنَ بِجَلَالِي‘ اَلْيَوْمَ أُظِلُّهُمْ في ظِلِّيْ يَوْمَ لَا ظِلَّ إلَّا ظِلِّي)) (صحیح مسلم)
’’اللہ تعالیٰ قیامت کے روز فرمائے گا: کہاں ہیں میری عزّت و جلال کی خاطر باہم محبّت کرنے والے؟ آج کے دن مَیں ان کو اپنے سائے میں جگہ دوں گا جبکہ کوئی اور سایہ نہیں ہے سوائے میرے سائے کے۔‘‘
(۳) باہمی محبّت جنّت کے حصول کا ذریعہ ہے:
((وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهٖ لَا تَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ حَتّٰى تُؤْمِنُوْا وَلَا تُؤْمِنُوْا حَتّٰى تَحَابُّوْا)) ’’مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ‘تم جنّت میں نہیں داخل ہوسکتے جب تک ایمان والے نہ بن جاؤ اور تم اُس وقت تک ایمان والے نہیں بن سکتے جب تک آپس میں محبّت نہ کرنے لگو۔‘‘(صحیح مسلم)
(۴)تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں:
((مَثَلُ الْمُؤْمِنِيْنَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِھِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ))(صحیح مسلم)
’’اہل ِایمان کی مثال باہمی محبّت اور لطف و کرم میں ایک جسم کی سی ہے۔‘‘
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے!
(۵)اللہ تعالیٰ کے لیے محبّت کرنا ایمان کی سب سے زیادہ مضبو ط گرہ ہے:
((يَا أَبَا ذَرٍّ أَيُّ عُرَى الإِيمَانِ أَوْثَقُ؟ اَلْمُوَالَاةُ فِی اللهِ ‘ وَ الْمُعَادَاةُ فِی اللهِ ‘ وَالْحُبُّ فِی اللهِ ‘ وَالْبُغْضُ فِی اللہِ)) (الجامع الصغیر)
’’اے ابو ذر!کیاتم جانتے ہو کہ اِیمان کی سب سے زیادہ مضبوط گرہ کون سی ہے؟اللہ کے لیے دوستی رکھنا ‘ اللہ کے لیے دُشمنی رکھنا ‘اللہ کے لیےمحبّت کرنا ‘اور اللہ کے لیے نفرت کرنا۔‘‘
۴) اچھے اور مضبوط باہمی تعلقات کیوں ضروری ہیں؟
آج کسی سے پوچھا جائے کہ آپ کی بڑی ضرورتیں کیا ہیں ؟تو پیسہ‘ کاروبار‘ مکان‘ گاڑی وغیرہ تو سب کہیں گے۔لیکن اکثر لوگ یہ نہیں جانتے کہ اچھے تعلقات بھی ہماری ضرورت ہیں۔
(۱)انسان کا فطری جوہر اچھے تعلقات ہیں: جس طرح ممکن نہیں ہے کہ برف موجودہو لیکن ٹھنڈک نہ ہواور آگ موجودہو مگر تپش نہ ہو‘ اسی طرح انسان کے لیے اچھے تعلقات لازمی ولابدی ہیں۔
(۲)تعلقات نبھانا ہماری ضرورت ہے: انسان کی شخصیت کی تکمیل تعلقات نبھانے سے ہوتی ہے‘جیسا کہ نبی اکرم ﷺ ہمارے لیے رول ماڈل ہیں اور آپﷺ ہر کردار میں بہترین مثال ہیں‘مثلاً بہترین پوتے‘ بہترین بھتیجے‘ بہترین شوہر‘ بہترین باپ‘ بہترین پڑوسی‘ بہترین سپہ سالار‘ بہترین راہنما‘ بہترین استاذ اور بہترین میزبان ہیں ۔ ہمیں بھی اپنے سب کرداروں میں بہترین بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔تمام تعلقات کو اچھے طریقہ سے نبھانے کی خوبی ہی انسان کی شخصیت کو مکمل کرتی ہے۔
(۳)اچھے تعلقات نہ ہونا بڑی محرومی ہے: ہمارا کوئی ایسا ہونا چاہیے جس سے محبّت کی جائے‘ جس کی خدمت کی جائے‘ جس سے ملاقات کی جائے‘ جس کو خوش کیا جائے‘ جس کے لیے کام کو چھوڑا جائے‘ وقت نکالا جا ئے‘ بھاگ دوڑ کی جائے ‘ قربانی اور ایثار کیا جائے۔ایسے تعلقات ہماری ضرورت ہیں اوراگر ہم ان جذبات کو استعمال نہیں کریں گے تو ان کے سوتے خشک ہوجائیں گے اور یہ چشمے سوکھ جائیں گے ۔آج بغیر سبب اور مقصد کے ملاقات عجیب سمجھی جاتی ہے اورکسی خوشی یا غمی کے موقع پر ہی ملاقات کی جاتی ہے‘حالانکہ گاہے بگاہے بے سبب ملاقات اچھے تعلقات کا ذریعہ ہے۔
(۴)اچھے تعلقات ہماری نفسیاتی صحت کے ضامن ہیں: اچھے اور مضبوط تعلقات ہماری نفسیاتی صحت کے لیے بھی ضروری ہیں ۔ نفسیاتی لحاظ سے وہ آدمی صحت مند ہے جو خوش و خرم ہو ‘ نہ جلد ناراض ہوتا ہو اور نہ دوسروں کو ناراض کرتا ہو۔نفسیاتی پیچیدگیوں کی علامات عموماً جسمانی اعضا ء اور ان کی کارکردگی کو متأثر کرنے کے بجائے زیادہ تر مریض کی سوچ‘ احساسات اور رویوں میں ظاہر ہوتی ہیں۔لا تعلقی یاکمزور تعلقات رکھنے والاانسان بے چینی‘ اداسی یا گھبراہٹ محسوس کرنے لگتا ہے اور انہی کیفیات کو طبی زبان میں اینگزائٹی(ذہنی دباؤ) اور ڈپریشن (بلاوجہ افسردگی)کہا جاتاہے۔
(۵)تعلقات نبھانابندگی ٔربّ کا تقاضا ہے: اچھے اور مضبوط تعلقات کے بغیراللہ کی بندگی کے تقاضے نہیں نبھائےجاسکتے ۔ صلہ رحمی اور حقوق العباد کی ادائیگی بھی اللہ کا حکم اور ہمارے دین کا مطالبہ ہے۔رفقاء کے ساتھ اچھے تعلقات بنا کر رکھنا بھی بندگی ٔربّ کا تقاضا ہے۔
(۶)تعلقات نبھانا دینداری کا عملی مظاہرہ ہے: رشتہ داروں ‘ پڑوسیوں اورساتھیوں سے اچھے تعلقات بنا کر رکھنا دین داری کے تقاضوں کا عملی مظاہرہ (practical demonstration) ہے۔ اسی سے پتا چلتا ہے کہ آدمی میں کتنا تقویٰ اور کتنا ایثار و قربانی کا جذبہ ہے اور وہ اپنی اور اپنے پیاروں کی اُخروی کامیابی کے لیے کتنا فکر مند ہے۔
(۷)اچھے تعلقات مربی کی اوّلین ضرورت ہیں : اولاد اور متربیین کی تربیت کے لیےلازمی شرط (non-negotiable prerequisite)یہ ہے کہ ہمارا ان سے اچھا تعلق ہو۔امام مالكؒ کا قول ہے:
يَنْبَغِيْ لِلرَّجُلِ أَنْ يُحْسِنَ إِلٰى أَهْلِ دَارِهٖ حَتّٰى يَكُوْنَ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْھِمْ
’’کسی آدمی کے لیےمناسب ہےکہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے یہاں تک کہ وہ اپنے گھر والوں کے نزدیک سب انسانوں سےزیادہ پسندیدہ بن جائے۔‘‘
کیونکہ جو انسان پسند ہوتا ہے آدمی اُس کی عزّت کرتا ہے ‘ اُس کی بات سنتاہے‘ اُس کی خواہش کو اہمیت دیتا ہے اور اُس کی توقع پر پورا اُترنے کی کوشش کرتا ہے۔
۵) اچھے اور مضبوط تعلقات کیسے بنائے جاتے ہیں؟
اچھے تعلقات رفقاء کو اہمیت دینے ‘ رفقاء کو وقت دینے‘ رفقاء کا ساتھ دینے ‘ رفقاء کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنے سے بنتے ہیں‘ لیکن کا م کا آغاز اپنے آپ سےکرنا ہوتا ہے ۔
(۱)اپنے مزاج پر کام کرنا یعنی خوش مزاج بننا: لوگوں سے اچھے تعلقات کے لیے خوش مزاج ہونا بہت ضروری ہے ۔خوش مزاجی ہمارا وہ اچھا رویّہ ہے جو لوگ پسند کرتے ہیں جبکہ بدمزاجی ہمارا وہ برا رویّہ ہے جو لوگ ناپسند کرتے ہیں۔اکثر لوگ پبلک لائف میں خوش مزاج اور پرائیویٹ لائف میں بدمزاج ہوتے ہیں ۔ بعض مرتبہ بد مزاج لوگ بھی کسی مطلب کی خاطر تھوڑی دیر کے لیے خوش مزاج بن جاتے ہیں ۔ ہمیں اپنا احتساب کرتے رہنا چاہیے اور اپنے مزاج پر نظر رکھنی چاہیے۔ اس حوالے سے ہم اپنے ساتھیوں سے پوچھ سکتے ہیں کہ ہمارا اکثر اور عمومی مزاج کیسا رہتا ہے۔وہ ہمیں بتائیں گے کہ عمومی طور پر ہم مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ہوتے ہیں یا ہمارے چہرے پر ناگواری کے تاثرات ہوتے ہیں۔ کامیابی یہ ہے کہ ہم اکثر و بیشتر لوگوں سے خوش مزاجی سے پیش آئیں۔ ہمیں اس کے لیے اللہ سے دعا کرنی چاہیےاور اپنے مزاج کو عموماً خوش گوار رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اس ضمن میں یاد رکھیں کہ نرم مزاج ہونا اللہ کی رحمت میں سے ہے‘اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَھُمْ ۚ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ ۠ فَاعْفُ عَنْھُمْ وَاسْتَغْفِرْلَہُمْ وَشَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ ۭ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ (۱۵۹)}(آل عمران)
’’(اے نبی ﷺ!) پس اللہ کی رحمت کے سبب آپ ان کے ساتھ نرم برتاؤ کرنے والے ہیں‘اور اگرآپ تند خو اور سخت دل ہوتے تو وہ آپ کے گرد سے بھاگ جاتے۔ پس انہیں معاف کردیجئے اور ان کے لیے بخشش مانگیں اوران سے مشورہ لے لیا کریں ہر امر میں۔ پھر جب آپؐ پختہ ارادہ کر لیں تو الله پر بھروسہ کر یں۔ بے شک الله توکّل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
اگر امیر میںنرم مزاجی کی صفت نہیں ہوگی تو رفقاء اس سے کنارہ کش ہوجائیں گے‘جس کا نقشہ علّامہ اقبال نے یوں کھینچا ہے ؎
کوئی کارواں سے ٹوٹا‘ کوئی بدگماں حرم سے
کہ امیر کارواں میں نہیں خوئے دل نوازی!
اس حوالے سے یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ مسکرانا سُنّت ِنبوی ﷺہے۔حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْثَرَ تَبَسُّمًا مِنْ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (الترمذی)
’’مَیں نے رسول اللہﷺ سے زیادہ کسی کو مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا۔‘‘
مسکرانا انسان کے اپنے مزاج کو بہتر کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور مسکرانے سے دوسروں پر بھی مثبت اثرات پڑتے ہیں ۔ مسکرانا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کا اظہار بھی ہے اور لوگوں کے اعصابی تناؤ (stress) اورفکر و پریشانی دور کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔
ہنسی تھمی ہے ان آنکھوں میں یوں نمی کی طرح
چمک اٹھے ہیں اندھیرے بھی روشنی کی طرح
(۲)ساتھیوں کو غیر مشروط عزّت دینا: عام طور پرہم دوسروں کوعزّ ت تب دیتے ہیں جب وہ ہم سےسٹیٹس میں یا عہدے میں بڑے ہوں یا مال و دولت ہم سےزیادہ رکھتے ہوں۔ ہم دوسروں کادینی مقام و مرتبہ بھی دیکھتے ہیں کہ وہ مدرّس ہو ‘ حافظ ہو ‘ عالم یا مفتی ہو‘ یا وہ مجھ سے زیادہ علم والاہو۔ہم ایسی شرائط لگانےکے بعد ہی کسی کو عزّت دیتےہیں حالانکہ ہمارے تو سارے تعلقات اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں۔ عام ر فقاء بھی ہمارے لیے معزز اور محترم ہونے چاہئیں‘ان کی بھی ہمیں عزّت کرنی چاہیے‘اس لیے بھی کہ یہ ہمارےاپنےتزکیۂ نفس کے لیے فائدہ مند ہے۔ یہ ہمارے لیے ایک اچھا موقع ہےاور اسی طرح ہم رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ کی کیفیت حاصل کرسکتے ہیں کہ ہم سب رفقاء کو غیرمشروط عزّت دیں۔ جو اللہ کا پیارا ہے وہ ہمارا پیارا ہے ‘ اس سے ہمیں محبّت ہے کیونکہ ہماری محبّت اللہ کے لیےہے ۔
(۳)ساتھیوں پراعتماد کرنا:کسی کو اچھی طرح سمجھنے اور جاننے کے بعد اس سےجائز اور مثبت توقعات قائم کرنے کو اعتمادکرنا کہتے ہیں۔ اعتماد کرنا بھی تعلق (relationship) کی تعمیر کرتا ہے۔ لیکن اگر منفی توقعات ہو ں تو یہ تعلقات کو کم کرتی ہیں یا ختم کردیتی ہیں۔ عموماً لوگ پہلے کسی سے ناامید ہو جاتے ہیں اور پھر اس سے توقعات رکھنا چھوڑ دیتےہیں ۔ بہتر طرزِ عمل یہ ہے کہ لوگوں سے مایوس ہوئے بغیر ان سے توقعات نہ رکھی جائیں یا کم سے کم توقعات رکھی جائیں۔
(۴)ساتھیوں کو تعلق کی گرمجوشی کا احساس دلانا: ہم لوگ اپنے جذبات کا اظہارکرنے میں بڑے کمزور ہیں ‘ہم محبّت کا اظہار نہیں کرپا تے ۔صحابہ کرام ؓمیں یہ بات تھی کہ وہ ایک دوسرے کو کہتے تھے کہ مَیں اللہ کے لیےتم سے محبّت کرتا ہوں تو دوسرا جواب دیتا تھا کہ جس کے لیے تم مجھ سے محبّت کرتے ہووہ ذاتِ عالی تم سے محبّت کرے۔ہمیں ساتھیوں سے اپنے تعلق کا گرم جوشی سے اظہار کرنا چاہیے ۔ اس کا اظہار زیادہ تر غیر لسانی (nonverbal)طرزِ عمل سے ہوتا ہے۔اس حوالے سے ہمیں سیرتِ طیبہ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔نبی کریم ﷺ سلام میں پہل کرتے تھے‘ آپؐ گرم جوشی سے مصافحہ کرتے تھے‘بعض دفعہ اپنے صحابہ ؓکا کھڑے ہو کر استقبال کرتے ‘ بعض دفعہ گلے لگا تے‘ معانقہ کرتے تھے ‘ صحابہ ؓکے ماتھے پر بوسہ دیتے تھے۔ بعض مرتبہ آپ ﷺ اپنی جگہ سے اٹھ کر اپنے ساتھی کو اس جگہ بٹھا دیتے تھے جہاں خود بیٹھے ہوتے تھے۔ یہ سب تعلق کی گرم جوشی کے اظہار کے انداز ہیں‘اس سے ساتھیوں کے لیے محبّت کا اظہار ہوتا ہے۔
سیرتِ نبویﷺ سے ایک واقعہ: ایک مرتبہ حضرت زاہررضی اللہ تعالیٰ عنہ بازار میں اپنا کوئی سامان بیچ رہے تھے‘ اتنے میں نبی اکرمﷺ وہاں سے گزرے۔آپﷺ نے پیچھے سے آکر ان کو اس طرح پکڑ لیا کہ وہ آپﷺ کو نہ دیکھ سکے۔ حضرت زاہرؓ گھبرا کر کہنے لگے: ’’ارے چھوڑو مجھے! کون ہے؟ ‘‘تھوڑی دیر بعد حضرت زاہرؓ نے پہچان لیا کہ یہ نبی اکرمﷺ ہیں‘ تو وہ اور زیادہ اپنے آپ کو نبی ﷺ کےسینہ مبارکہ سے چمٹانے لگے۔ نبی ﷺ نے (مزاحاً) فرمایا: ’’کون اس غلام کو خریدے گا؟‘‘ حضرت زاہر ؓ کہنے لگے: ’’اے اللہ کے رسولﷺ! اگر آپ مجھے بیچ دیں گے تو کھوٹا پائیں گے۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مگر اللہ کے نزدیک تم کھوٹے نہیں ہو!‘‘ (صحیح ابن حبان)
ذرا سوچئے‘کہ حضرت زاہرؓ کو آپ ﷺ کے اس محبّت بھرے انداز سے کتنی خوشی ملی ہوگی‘ ان کا کتنا خون بڑھا ہوگا‘ کتنا ان کا دل بڑا ہوا ہوگا‘کیونکہ آپ ﷺ کے اس طریقے سے آپ ﷺ کی محبّت اور گرم جوشی کا اظہار ہوتا ہے۔ اس کے لیے کچھ زیادہ نہیں کرنا پڑتا‘ بس ساتھیوں کو دیکھ کر مسکرانا ‘ تھوڑا سا سرک جانا کہ آپ ان کے لیے جگہ بنا رہے ہیں‘ ساتھیوں سے گرم جوشی سے ہاتھ ملانا ‘ کبھی کبھی معانقہ کرنا۔ یہ غیر لسانی (nonverbal)اظہار ہوتا ہے جو زبان سے کیے جانے والے اظہار سے زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔یہ body languageہوتی ہے جو آپ کی محبّت اور اپنائیت کا اظہار بن جاتی ہے۔
(۵) ساتھیوں کوسمجھانےسے زیادہ سمجھنے کی کوشش کرنا: ہمیں اپنےساتھیوں کو سمجھانے میں بیس فیصد اور سمجھنے میں اسّی فیصد کوشش اور وقت لگانا چاہیے۔ اچھے تعلق کے لیے ساتھیوں کے حالات سے واقف ہونا‘ ان کے مسائل کو جاننااور ان کی صلاحیتوں کے صحیح ادراک کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر ساتھیوں سے مضبوط تعلق قائم نہیں کیا جاسکتا ۔
(۶) ساتھیوں سے مکالمہ کرنا: ساتھیوں سے مکالمہ کرنایاdiscussion کرنا تعلق پیدا کرتا ہے اور تعلق مکالمہ کو گہرائی میں لے جانا آسان بنا دیتا ہے۔جتنی اچھی علمی استعداد ہوگی ‘ اتنا فکری مکالمہ کرنا ممکن ہوگا۔مکالمہ کا مقصد یہ ہے کہ نظریات کو ساتھیوں کے ذہن میں اُگایا جائے‘ تصوّرات کی آبیاری (cultivation of concepts)کی جائے‘مگر نظریات کو ان کے ذہن میں ٹھونسا نہ جائے۔
۶) اچھے اور مضبوط باہمی تعلقات کےدرجات و علامات
پہلا درجہ: ایک دوسرے کی موجودگی کو خندہ پیشانی سے گوارا کرنا: ہمیں کیسے اندازہ ہو کہ ہمارا ساتھیوں سےتعلق کیسا ہے؟کم سے کم تعلق یہ ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کی موجودگی کو خندہ پیشانی سے گوارا کیا جائے ۔اگر تعلق بگڑ جائے تو ایک دوسرے کی موجودگی گوارا نہیں ہوتی‘ایک آتا ہےتودوسرا اُٹھ کر چلا جاتا ہے ۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں کرتے۔ اگربیٹھ بھی جائیں تو لڑائی جھگڑا شروع کر دیتے ہیں‘ایک دوسرے پر تنقید یاطنزواستہزاء کرتےہیں۔ اس سے تعلق خراب ہوجاتا ہے‘غیبت سننا آسان ہوجاتی ہے‘اور اگر تعلق مزید کمزور پڑے تو پھر اس کی غیبت کرنا آسان ہوجاتی ہے۔ کم سے کم تعلق ہونے کی علامت یہ ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا گوارا کرلیں۔
دوسرا درجہ: ایک دوسرےسے اپنی بات سہولت سے کرنے کے قابل ہوجانا: اچھے تعلق کے دوسرے درجہ کی علامت یہ ہے کہ آدمی اپنی بات سہولت سے کرنے اور دوسرے کی بات سہولت سے سننے کے قابل ہوجائے۔ ورنہ اگر تعلق اچھا نہیں ہوتا تو بات دل کے اندر ہی رہتی ہےاورآدمی سوچتا ہی رہ جاتا ہےکہ کہوں یانہ کہوں؟
تیسرا درجہ: ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کے قابل ہو جانا:یعنی ایک دوسرے کو اچھی طرح سننے کے بعد ایک دوسرے سے مثبت اور جائز توقعات قائم کرنا۔ اس طرح بہت سارےمددگار دوست مل جاتے ہیں‘ انسان کی تنہائی دور ہوجاتی ہے۔بہت سارے ساتھی ہمارے دست و بازو بن جاتے ہیں ۔یہ ایک بہت بڑی دولت ہے جو ہمیں حاصل ہوجاتی ہے۔
چوتھا درجہ:ایک دوسرے سے مشورہ کرنا: اچھے تعلق کا چوتھا درجہ ایک دوسرے سے مشورہ کرنا ہے۔ آدمی اپنی ذاتی زندگی سے متعلق معاملات میں مشورہ اسی سے کرتا ہے جس سے اس کا اچھا اور مضبوط تعلق ہوتا ہے ‘ جس پر اعتماد ہوتاہے‘ جسے وہ سمجھتا ہے کہ وہ میرا خیر خواہ ہے۔
پانچواں درجہ:جس شخص سے تعلق ہو اس کا قرب حاصل کرنے کی خواہش پیدا ہو جانا: اچھے تعلق کے پانچویں درجہ کی علامت یہ ہے کہ جس شخص سے تعلق ہو اُس کا قرب حاصل کرنے کی خواہش بھی پیدا ہوجائے۔ پھر مارےباندھے نہیں جانا ہوتا بلکہ دل چاہتا ہے کہ اُس کے پاس جایا جائے ‘ اُس سے ملا جائے‘ اُس کے ساتھ بیٹھا جائے ‘ اُس سے بات چیت کی جائے ۔ آدمی محسوس کرتا ہے کہ بہت دن ہوئے ملاقات نہیں ہوئی۔یہ جو کیفیت ہوتی ہے یہ تعلقات کی گہرائی کے ساتھ پیدا ہوتی ہے۔
۷) اچھے اور مضبوط تعلقات سے حاصل ہونے والے چند فوائد
(۱) اللہ کی رضاحاصل ہونا: مَیں آپ سے محبّت کیوں کرتا ہوں‘آپ مجھ سے محبّت کیوں رکھتے ہیں؟تاکہ اللہ ہم سے راضی ہو جائے!اس سے قیمتی بات کیا ہوگی۔اور یہی جذبہ ہمارے تمام تعلقات کی بنیاد ہونا چاہیے‘ چاہے وہ خونی تعلقات ہوں یا کلمہ کی وجہ سے تعلقات ہوں۔
(۲)زندگی میں خوشی اور اطمینان حاصل ہونا:خوشی نہ توپیسے سےحاصل ہوتی ہے نہ کیریئرسے‘ نہ ہی بڑے مکان یا بڑی گاڑی سے‘بلکہ خوشی اچھے تعلقات سے حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ایک مضبوط تعلق‘تعلق داروں سے ایک اچھا اور مضبوط تعلق انسان کو خوشی اور اطمینان دیتاہے۔
(۳)قابل اعتماد ساتھی میسّر آ جانا: یہ بھی ایک بڑا فائدہ ہےکہ ہمیں قابل اعتماد ‘ ہم خیال اور ہم مقصد ساتھی میسّر آجاتے ہیں ۔ ساتھیوں کے تعاون سے کام آسان ہوجاتے ہیں‘ دعوت مؤثر ہوجاتی ہے ‘ مشکلات کو ساتھ مل کر جھیلنا آسان محسوس ہونے لگتا ہے۔ہم اپنے خاندان میں دعوت کا کام کر رہے ہیں تو اگر اکیلے کریں گے تو مشکل ہو گی‘ لیکن اگرچند ساتھی میسّر آجائیں تو بہت اچھا کام ہوجا تا ہے۔ خاندان‘ محلہ ‘ آفس وغیرہ میں ساتھیوں کے ساتھ مل کر دعوت و اقامت ِدین کی جدّوجُہد کرنا آسان ہوجاتا ہے۔
(۴)ایک دوسرے کے ساتھ سے فرحت محسوس کرنا:ہم مقصد‘اعلیٰ سیرت و کردار کے حامل اور دینی تقاضوں کی ادائیگی کی فکر رکھنے والے ساتھی ہمارے لیے فرحت ‘ ذہنی سکون اور قلبی اطمینان کا باعث بن جاتے ہیں۔دین کو غالب کرنے کے لیے بھی اچھے اور مضبوط تعلق رکھنے والے ساتھیوں کی ضرورت پڑتی ہے ۔سورۂ ہودکی آیت ۸۰ میں حضرت لوط علیہ السلام کا ایک قول ملتا ہے کہ جب انہوں نے اپنے مہمانوں کو ظالم قوم کے ظلم سے بچانے کی کوشش کی تو فرمایا :{ لَوْ اَنَّ لِیْ بِکُمْ قُوَّۃً اَوْ اٰوِیْٓ اِلٰی رُکْنٍ شَدِیْدٍ(۸۰)} ’’کاش کہ مجھے تمہارے مقابلے کی طاقت ہو تی یا مَیں کسی زبردست سہارے کی پناہ جا لیتا۔‘‘ اس سے پتا چلتا ہے کہ اچھے لوگ بھی سہارا ہوتے ہیں۔ سب سےبڑاسہارا تواللہ ہی ہے‘لیکن دوسرا سہارا اچھے ساتھی اور اچھے رفقاء ہوتےہیں جو مسائل میں ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور ایسے ساتھیوں کی تمنّا انبیاء کرام علیہم السلام نے بھی کی ہے۔
(۵) ایک دوسرے کی اَن کہی باتیں سمجھ لینا:دیکھیں ابھی جو مَیں کہہ رہا ہوں آپ سمجھ رہے ہیں اور جو آپ کہیں گے تو مَیں سمجھوں گا‘ لیکن جب تعلقات گہرے ہوتےہیں تو آپ میری وہ باتیں بھی سمجھنے لگیں گے جو مَیں نے نہیں کہی ہیں اور مَیں آپ کی وہ باتیں جان لو ں گاجو آپ نہیں کہہ پارہے ہیں۔ بعض قریبی تعلقات اس کی ڈیمانڈ کرتے ہیں کہ کہے بغیر ایک دوسرے کی بات کو سمجھ لیا جائے۔ یہ تعلق ہمیں اپنے رفقاء ‘ اپنے نقباءاوراپنے اُمراءمیں چاہیے کہ اَن کہی باتیں بھی ہم ایک دوسرے کی سمجھ جائیں‘ اس کے لیے آپس میں ایک گہرا اور مضبوط تعلق درکار ہوتا ہے۔
(۶)دوسروں کو خوشی دینا ہماری اپنی خوشی کا سبب بن جانا: عموماًہم خود خوش ہونا چاہتے ہیں‘خود راحت پانا چاہتے ہیں‘لیکن جب ایک مضبوط تعلق پیدا ہوجاتاہے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ دوسرے کو خوش کرنے سے بھی خوشی ملتی ہے‘ دوسرے کو راحت دینے سے بھی راحت حاصل ہوتی ہے ۔
(۷)ہمارے تزکیہ اور تربیت کا ذریعہ بن جانا: خصوصاًجب ہماراکسی اہل علم اور با کردار ساتھی سے تعلق جڑتا ہے تو اس کی شخصیت ہمارے لیے تزکیہ کا باعث بن جاتی ہے۔ یہ ہمارے بڑے قیمتی ساتھی ہیں جو ہم سے دنیاوی طور پر مال و دولت‘ مکان و سامان اور کاروبار کے اعتبار سے چار گنا کم ہوتے ہیں‘ لیکن تقویٰ ‘ دینداری اوردین کے لیے ایثار اور قربانی کے اعتبار سے ہم سے کئی گنا آگے ہوتے ہیں۔ایسے ساتھی ہمارے اپنے تزکیہ کے لیے قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان سے ملاقات کریں‘ اپنی فیملی کے ساتھ ان کے گھر جائیں‘ ان کے پاس بیٹھیں۔ اس طرح ہمیں اندازہ ہوگا کہ دنیامیں کم چیزوں کے ساتھ بھی گزارا ہوسکتا ہے اوربڑی گاڑیاں‘ بڑی عمارتیں اورمال و دولت اہم ںہیں‘ بلکہ اصل قدر و قیمت تو آخرت کی ہے ‘ اصل مقابلہ تو اللہ کو راضی کرنے والے کاموں کو کرنے میں ہے۔چنانچہ ہمیں بھی دنیا حقیر محسوس ہونے لگتی ہے اور ہمارے اندر بھی آخرت کی فکر پیدا ہوجاتی ہے اور یہی تزکیہ کی بنیاد ہے۔ہمارے درمیان ایسے بڑے قیمتی ساتھی موجود ہیں‘ان سے ہم ایک مضبوط تعلق جوڑیں‘ اپنے تزکیہ و تربیت کا ذریعہ انہیں بنائیں‘ ان سے اُخروی کامیابی کے لیے نیکیوں میں مقابلہ کریں ۔ آخر وہ بھی تو اسی دنیا میں ہمارے ساتھ رہ رہے ہیں۔ اگر وہ کم پر راضی رہ کر آخرت کی فکر کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کرسکتے!
(۸)حوصلہ و عزیمت کی زندہ مثالیں حاصل ہونا: اقامت ِدین کی جدّوجُہد میں شریک بعض رفقاء ہمارے لیے عزم‘ حوصلہ اورعزیمت کی زندہ مثالیں ہیں ۔ ان کا ساتھ‘ ان کا مشورہ اور ان کی دعائیں ہمیں میسّر آسکتی ہیں۔ جس طرح عموماً ہمارا معاملہ ہے کہ اللہ تعالی کی بڑی بڑی نعمتیں ہیں جن کا ہم نےشکرادا نہیں کیا‘ان کی قدر نہیں کی‘اسی طرح ایک بہت بڑی نعمت یہ حوصلہ و عزیمت کی زندہ مثالیں ہمارے یہ رفقاء ہیں‘ان کی بھی ہم نے قدر نہیں کی ‘ ان سے ہم وہ فائدہ نہیں اُٹھا رہے جوہم اُٹھا سکتے ہیں۔
۸) اچھے اور مضبوط تعلقات بنانے کے لیے دعا
جامع ترمذی میں نبی اکرمﷺ کی دعا ہے ---اللہ تعالیٰ اس دعا کو ہم سب کے حق میں بھی قبول فرمائے‘آمین----آپﷺ دعامانگتے تھے:
((اللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ وَالْعَمَلَ الَّذِي يُبَلِّغُنِي حُبَّكَ))
’’اے اللہ!مَیں تجھ سے تیری محبّت کا سوال کرتا ہوں اور ہر اُس شخص کی محبّت کا سوال کرتا ہوں جو تجھ سے محبّت کرتا ہے اور ہر اُس عمل کا سوال کرتا ہوں جو مجھے تیری محبّت تک پہنچادے۔‘‘ آمین یا رب العالمین!!
آخر میں موضوع کی مناسبت سے اعجاز رضا آرائیں کی ایک خوبصورت نظم ’’اکیلے ہوتے جاؤ گے‘‘ ملاحظہ ہو:
کسی سے اونچا بولو گے‘ کسی کو نیچا سمجھو گے
کسی کے حق کو مارو گے‘بھرم ناحق دکھاؤ گے
تو لوگوں کو گنواؤ گے‘ اکیلے ہوتے جاؤ گے!
ذرا سی دیر کو سوچو‘ زباں کو روک کر دیکھو
تسلی سے سنو سب کی‘ تسلی سے کہو اپنی
جو یونہی طیش کھاؤ گے‘ اکیلے ہوتے جاؤ گے!
خرد مندوں کا کہنا ہے‘ یہ دنیا اِک کھلونا ہے
بساطِ بے ثباتی ہے‘ تمناؤں کی گھاٹی ہے
جو خواہش کو بڑھاؤ گے‘ اکیلے ہوتے جاؤ گے!
یہ جتنے رشتے ناتے ہیں‘ اثاثہ ہی بناتے ہیں
محبّت آزماتے ہیں‘ محبّت بانٹ جاتے ہیں
جو اِن سے دور جاؤ گے‘ اکیلے ہوتے جاؤ گے!