(بیان القرآن) دورۂ ترجمۂ قرآن سُوْرَۃُ التَّغَابُنِ - ڈاکٹر اسرار احمد

8 /

دورۂ ترجمۂ قرآن سُوْرَۃُ التَّغَابُنِڈاکٹر اسرار احمدتمہیدی کلمات

سورۃ التغابن ایمانی مباحث کے حوالے سے قرآن مجید کی جامع ترین سورت ہے۔ اس سے پہلے سورۃ المنافقون میں نفاق کا بیان تھا۔ نفاق انسان کے ’’باطن‘‘ کا منفی پہلو ہے‘جبکہ اس کا مثبت پہلو ایمان ہے۔ مصحف میں سورۃ المنافقون کے بعد سورۃ التغابن کو لا کر گویا تصویر کے دونوں رخ یکجا کر دیے گئے ہیں۔ یہاں میں تحدیث ِنعمت کے طور پر یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ سورۃ الحدید کے بعد دوسرے نمبر پر اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ سورت عطا کی ہے۔ اس سورت کا نظم اور اس کے اَسرار و رموز اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میرے ذہن میں بہت واضح ہیں۔
اس سورت کے نظم کا مختصر تعارف یہ ہے کہ پہلے رکوع کی ابتدائی سات آیات میں ایمانیاتِ ثلاثہ کا ذکر ہے ‘ یعنی ایمان باللہ اور صفاتِ باری تعالیٰ‘ ایمان بالرسالت ‘اور ایمان بالآخرۃ یا ایمان بالمعاد۔ پھر اگلی تین آیات میں ایمان کی زوردار دعوت دی گئی ہے کہ یہ واقعی حقائق ہیں‘ ان کو قبول کرو‘ تسلیم کرو اور انہیں حرزِ جان بنائو اور ان پر یقین سے اپنے باطن کو منور کرو۔ دوسرے رکوع کی پہلی پانچ آیات میں ایمان کے ثمرات اور ایمان کے نتیجے میں انسان کے فکر و نظر اور اس کی شخصیت میں جو تبدیلیاں رونما ہونی چاہئیں‘ ان کا بیان ہے۔ جیسے آم کا درخت اگر صحت مند ہوگا تو اس پر آم ضرور لگیں گے‘ اسی طرح ایمانِ حقیقی کے ظاہری و باطنی ثمرات بھی ضرور ظاہر ہوتے ہیں۔ ایمان کے ثمرات کے بیان کے بعد آخری تین آیات میں ایمان حقیقی کے تقاضوں کو عملی طور پر پورا کرنے کی نہایت زوردار اور مؤثر ترغیب و تشویق ہے‘ اور ان میں تقویٰ‘ سمع و طاعت اور انفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔اس طرح یہ سورئہ مبارکہ چار حصوں میں منقسم ہے۔

آیات ۱ تا ۷
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ۚ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ ۡ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ (۱)ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ فَمِنْکُمْ کَافِرٌ وَّمِنْکُمْ مُّؤْمِنٌ ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ (۲)خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ وَصَوَّرَکُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْ ۚ وَاِلَیْہِ الْمَصِیْرُ (۳)یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَیَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ ۭ وَاللہُ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ (۴)اَلَمْ یَاْتِکُمْ نَبَؤُا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ ۡ فَذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِھِمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (۵)ذٰلِکَ بِاَنَّہٗ کَانَتْ تَاْتِیْہِمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالُوْٓا اَبَشَرٌ یَّھْدُوْنَنَا ۡ فَکَفَرُوْا وَتَوَلَّوْا وَّاسْتَغْنَی اللہُ ۭ وَاللہُ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ (۶)زَعَمَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنْ لَّنْ یُّبْعَثُوْا ۭ قُلْ بَلٰی وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ ۭ وَذٰلِکَ عَلَی اللہِ یَسِیْرٌ (۷)

آیت ۱{یُسَبِّحُ للہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ج} ’’تسبیح کرتی ہے اللہ کی ہر وہ شے جو آسمانوں میں ہے اور ہر وہ شے جو زمین میں ہے۔‘‘
سورۃ التغابن اَلْـمُسَبِّحات کے سلسلے کی آخری سورت ہے۔ اس سلسلے کی سورتوں میں سے یہ دوسری سورت ہے جس کے آغاز میں یُسَبِّحُ کا صیغہ آیا ہے۔ اس سے پہلے یہ صیغہ سورۃ الجمعہ کی پہلی آیت میں آیا ہے۔ باقی تینوں اَلْـمُسَبِّحات کی ابتدا میں سَبَّحَ کا صیغہ آیا ہے۔
{ لَـہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُز} ’’اُسی کی بادشاہی ہے اور اُسی کے لیے حمد ہے۔‘‘
کل کائنات کی بادشاہی بھی اللہ ہی کی ہے اور کل شکر و سپاس اور تعریف و ثنا کا مستحق حقیقی بھی صرف وہی ہے۔
{وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ(۱)} ’’اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
آیت۲ {ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ فَمِنْکُمْ کَافِرٌ وَّمِنْکُمْ مُّؤْمِنٌ ط}’’وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا ہے‘ پھر تم میں سے کوئی کافر ہے اور کوئی مؤمن۔‘‘
ظاہر ہے تمام انسانوں کا خالق اللہ ہے۔ اس لحاظ سے ہر انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے خالق کا شکر گزار بن کر رہے ‘ اسی کو اپنا معبود جانے اور اسی کے آگے جھکے ۔ لیکن بہت سے انسان اللہ تعالیٰ کے منکر اور نافرمان ہیں۔ بظاہر تو یہ بہت عجیب بات ہے کہ مخلوق کا کوئی فرد اپنے خالق کا منکر یا نافرمان ہو لیکن واقعہ بہرحال یہی ہے۔
{وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(۲)}’’اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔‘‘
آیت کے مضمون کے اعتبار سے اس جملے میں بہت بڑی وعید بھی پنہاں ہے اور ایک بشارت بھی مضمر ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ایک ایک انسان کے اعتقاد و نظریہ سے باخبر ہے۔ وہ ایک ایک انسان کی ایک ایک حرکت کو بھی دیکھ رہا ہے۔ وقت آنے پروہ اپنے سب نافرمانوں سے نپٹ لے گا۔ان الفاظ کا بشارت والا پہلو یہ ہے کہ جو اُس کے شکر گزار اور مطیع ِفرمان ہوں گے ان کو وہ انعام و اکرام سے نوازے گا۔ اس لیے کہ وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور سب کی روش سے آگاہ ہے!
آیت ۳{خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ} ’’اُس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا حق کے ساتھ‘‘
اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات عبث پیدا نہیں کی ‘بلکہ یہ ایک بہت ہی بامقصد اور نتیجہ خیز تخلیق ہے اور انسان اُس کی تخلیق کی معراج ہے۔چنانچہ کائنات کی تخلیق کے ذکر کے بعد خاص طور پر تخلیق انسانی کا ذکر فرمایا:
{وَصَوَّرَکُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْ ج}’’اور اُس نے تمہاری صورت گری کی تو بہت ہی عمدہ صورت گری کی۔‘‘
انسانی ڈھانچے کی ساخت‘ جسم کی بناوٹ‘ چہرے کے خدوخال ‘غرض ایک ایک عضو کی تخلیق ہر پہلو سے کامل ‘انتہائی متناسب اور دیدہ زیب ہے۔
{وَاِلَـیْہِ الْمَصِیْرُ(۳)} ’’اور اُسی کی طرف (سب کو)لوٹنا ہے۔‘‘
کیا تم لوگ سمجھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں تخلیق کے بہترین درجے پر (فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْم) بنا کر اور بہترین صلاحیتوں سے نواز کر جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں کی سی بے مقصد زندگی گزارنے کے لیے چھوڑ دیا ہے؟ یاکیا تمہاری حیثیت اللہ تعالیٰ کے سامنے ایک کھلونے کی سی ہے جسے اُس نے صرف دل بہلانے کے لیے بنایا ہے اور اس کے علاوہ تمہاری تخلیق کا کوئی سنجیدہ مقصد نہیں ہے؟ نہیں‘ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اپنی نسل کے اعتبار سے تم اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی معراج ہو۔ تمہاری تخلیق ایک بامقصد تخلیق ہے۔ ابھی تم محض ایک وقفہ امتحان سے گزر رہے ہو‘اس کے بعد تمہیں پلٹ کر اللہ تعالیٰ کے پاس جانا ہے اور اپنی دنیوی زندگی کے اعمال و افعال کا حساب دینا ہے۔
اگلی آیت ’’ایمان بالعلم‘‘ کے حوالے سے قرآن مجیدکی جامع ترین آیت ہے‘ بلکہ یوں سمجھئے کہ اس موضوع پر قرآن مجید کی بہت سی آیات میں جو تفصیلات آئی ہیں ان کا خلاصہ اس ایک آیت میں آ گیا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے علم کی تین جہتیں (dimensions)بیان ہوئی ہیں۔ پہلی جہت کیا ہے؟
آیت۴ {یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ}’’وہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے‘‘
اب دوسری جہت ملاحظہ کیجیے:
{وَیَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ ط}’’اور وہ جانتا ہے جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو۔‘‘
اور تیسری جہت کیا ہے؟
{وَاللہُ عَلِیْمٌ  بِذَاتِ الصُّدُوْرِ(۴)}’’اور اللہ اُس سے بھی باخبر ہے جو تمہارے سینوں کے اندرہے۔‘‘
اس آیت کے الفاظ اور مفہوم کے حوالے سے میں بہت عرصہ متردّد رہا کہ بظاہر تو یہاں الفاظ کی تکرار نظر آتی ہے کہ جو کچھ ہم چھپاتے ہیں وہی تو ہمارے سینوں میں ہوتا ہے‘ لیکن تکرارِ محض چونکہ کلام کا عیب سمجھا جاتا ہے اس لیے مجھے یقین تھا کہ آیت کے تیسرے حصّے میں ضرور کوئی نئی بات بتائی گئی ہے۔ پھر یکایک میرا ذہن اس طرف منتقل ہوگیا کہ مَا تُسِرُّوْنَ کے لفظ میں ہمارے اُن خیالات و تصوّرات کا ذکر ہے جنہیں ہم ارادی طورپر چھپاتے ہیں ‘جبکہ ’’سینوں کے رازوں‘‘ سے ہماری سوچوں کے وہ طوفان مراد ہیں جو ہمارے تحت الشعور (subconscious mind) میں اُٹھتے رہتے ہیں اور جن سے اکثر و بیشتر ہم خود بھی بے خبر ہوتے ہیں‘ بلکہ بسا اوقات ان خیالات کے بارے میں ہم دھوکہ بھی کھا جاتے ہیں۔ چنانچہ آیت کے اس حصّے کا مفہوم یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ تو تمہارے تحت الشعور کی تہوں میں اٹھنے والے ان خیالات کو بھی جانتا ہے جنہیں تم خود بھی نہیں جانتے‘ کیونکہ وہ تو تمہارے جینز(genes)سے بھی واقف ہے: {ہُوَ اَعْلَمُ بِکُمْ اِذْ اَنْشَاَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَاِذْ اَنْتُمْ اَجِنَّــۃٌ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّہٰتِکُمْ ج}(النجم: ۳۲) ’’ وہ تمہیں خوب جانتا ہے اُس وقت سے جب اس نے تمہیں زمین سے اٹھایا تھا اور جب تم اپنی مائوں کے پیٹوں میں جنین کی شکل میں تھے۔‘‘
آیت ۵{اَلَـمْ یَاْتِکُمْ نَـبَؤُا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ ز} ’’کیا تمہار ے پاس خبریں آ نہیں چکی ہیں اُن لوگوں کی جنہوں نے کفر کیا تھا اس سےپہلے‘‘
قومِ نوحؑ‘ قومِ ہودؑ‘ قومِ صالحؑ اور دوسری اقوام کے واقعات مکّی قرآن میں بار بار دہرائے گئے ہیں۔
{فَذَاقُوْا وَبَالَ اَمْرِہِمْ} ’’توانہوں نے اپنے کیے کی سزا چکھ لی‘‘
انہوں نے اللہ تعالیٰ کے رسولوں کو جھٹلایا اور اس کفر کی پاداش میں انہیں ہلاک کر دیاگیا۔
{وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۵)} ’’اور ان کے لیے دردناک عذاب بھی ہے۔‘‘
دنیا کی سزا بھگتنے کے بعد ان اقوام کے افراد ابھی تو عالم ِبرزخ میں ہیں ‘لیکن ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے وہ بھی ان کا منتظر ہے۔ اس بڑے عذاب کا سامنا انہیں آخرت میں کرنا پڑے گا۔ اب اگلی آیت میں ان کے کفر کے سبب کا تجزیہ کیاجا رہا ہے۔
آیت ۶{ذٰلِکَ بِاَنَّــہٗ کَانَتْ تَّــاْتِیْہِمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَـیِّنٰتِ} ’’یہ اس لیے ہوا کہ ان کے پاس ان کے رسول آتے رہے واضح نشانیاں لے کر‘‘
{فَقَالُوْٓا اَبَشَرٌ یَّہْدُوْنَـنَاز فَـکَفَرُوْا وَتَوَلَّـوْا} ’’تو انہوں نے کہا کہ کیا انسان ہمیں ہدایت دیں گے؟ پس انہوں نے کفر کیا اور رُخ پھیر لیا‘‘
{وَّاسْتَغْنَی اللہُ ط وَاللہُ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ(۶)} ’’اور اللہ نے بھی (ان سے) بےنیازی اختیار کی۔ اور اللہ تو ہے ہی بے نیاز‘ ستودہ صفات۔‘‘
یعنی ہر قوم کے لوگ صرف اس بنا پر اپنے رسول ؑکا انکار کر تے رہے کہ یہ تو ہماری طرح کا بشر ہے۔ یہ رسول کیسے ہو سکتا ہے؟ ان کے اس رویے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بھی ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا کہ تم جدھر جانا چاہتے ہوچلے جائو۔ یہاں پر یہ نکتہ بھی سمجھ لینا ضروری ہے کہ جیسے رسالت کا انکار بربنائے بشریت (کہ بشر رسول نہیں ہو سکتا) غلط ہے‘ ایسے ہی بشریت کا انکار بربنائے رسالت (کہ رسول بشر نہیں ہو سکتا) بھی غلط ہے۔یہ دراصل ایک ہی سوچ کے دو رُخ ہیں۔ جیسے انسانی جسم کے اندر ایک بیماری کسی ایک عضو پرکینسر کی شکل میں حملہ کرتی ہے تو کسی دوسرے عضوپر اثر انداز ہونے کے لیے کسی اور روپ میں ظاہر ہوتی ہے۔ چنانچہ اس نظریاتی بیماری کی ابتدائی صورت یہ سوچ تھی کہ ایک انسان یا بشر اللہ تعالیٰ کا رسول نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ ہر قوم نے اپنے رسول ؑپر بنیادی اعتراض یہی کیا کہ یہ تو بشر ہے‘یہ بالکل ہمارے جیسا ہے‘ ہماری طرح کھاتا پیتا ہے اور ہماری طرح ہی چلتا پھرتا ہے۔ فلاں کا بیٹا ہے‘ فلاں کا پوتا ہے‘ ہمارے سامنے پلا بڑھا ہے۔ یہ رسول کیسے ہوسکتاہے ؟یعنی انہوں نے بشریت کی بنیاد پر رسول ؑکی رسالت کا انکار کر دیا۔ بعد میں اس بیماری نے دوسری شکل اختیار کر لی۔ وہ یہ کہ جس کو رسول مان لیا پھر اسے بشر ماننا مشکل ہو گیا۔ کسی نے اپنے رسول کو خدا بنالیا توکسی نے خدا کا بیٹا ۔صرف اس لیے کہ اسے بشر ماننا انہیں گوارا نہیں تھا۔ اسی وجہ سے قرآن مجید میں حضورﷺ سے بار بار کہلوایا گیا: {قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ}(الکہف:۱۱۰) کہ اے نبیﷺ! آپ ڈنکے کی چوٹ پر کہیے اور بار بار کہیے کہ میں تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں۔ ہاں مجھے یہ امتیاز حاصل ہے کہ مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے۔ لیکن قرآن مجید کے واضح اور تاکیدی احکام کے باوجود مذکورہ نظریات کے اثرات ہماری صفوں میں بھی در آئے ‘بلکہ ہمارے ہاں تو یہ بھی ہوا کہ اس مسئلے کے تدارک کے نام پر کچھ لوگ دوسری انتہا پر چلے گئے۔ چنانچہ اس حوالے سے اگر کسی نے ’’بڑے بھائی‘‘ کی مثال بیان کی یا اسی نوعیت کی کوئی دوسری دلیل پیش کی تو اُس نے بھی حدّ ِ ادب سے تجاوز کیا۔ ظاہر ہے جب فریقین ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کے لیے بحث و تکرار کریں گے تو نامناسب الفاظ کا استعمال بھی ہو گا اور غلطیاں بھی ہوں گی۔
بہرحال اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے تمام پیغمبر انسان ہی تھے ‘لیکن پیغمبروں کے بعض خصائص ایسے بھی ہوتے ہیں جو عام انسانوں کے نہیں ہوسکتے۔ حضورﷺ کی سیرت میں ایسے کئی خصائص کا ذکر ملتا ہے۔ مثلًا جب صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے حضورﷺ سے عرض کی کہ آپؐ خود تو صومِ وصال (کئی کئی دنوں کا روزہ اور اس طرح کے یکے بعد دیگرے کئی روزے رکھنے) کا اہتمام فرماتے ہیں لیکن ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتے ‘تو آپﷺ نے فرمایا :((اَیُّکُمْ مِثْلِیْ؟ اِنِّیْ اَبِیْتُ یُطْعِمُنِیْ رَبِّیْ وَیَسْقِیْنِ))(۱) ’’تم میں سے کون ہے جو مجھ جیسا ہے؟مَیں تو اس حال میں رات گزارتا ہوں کہ میرا رب مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے‘‘۔ اسی طرح حضورﷺ کا فرمان ہے :((فَوَ اللہِ مَا یَخْفٰی عَلَیَّ رُکُوْعَکُمْ وَلَا سُجُوْدَکُمْ‘ اِنِّیْ لَاَرَاکُمْ وَرَاءَ ظَھْرِیْ))(۲) ’’اللہ کی قسم! (نماز باجماعت میں) تمہارے رکوع اور تمہارے سجدے مجھ پر مخفی نہیں ہوتے‘ مَیں تو اپنے پس ِپشت بھی تمہیں دیکھ رہا ہوتا ہوں ‘‘۔ صحیح بخاری کی روایات میں وَلَا خُشُوْعَکُمْ کے الفاظ بھی ہیں کہ نماز میں تمہارا خشوع بھی مجھ سے مخفی نہیں ہوتا۔پھر معراج کے موقع پر آپﷺ کاراتو ں رات مکّہ سے بیت المقدس تشریف لے جانا‘ اس کے بعد آسمانوں کی سیر کرنا اور سدرۃ المنتہیٰ کے مقام پر خصوصی کیفیات کا مشاہدہ کرنا‘ یہ سب آپؐ کے امتیازی خصائص ہیں۔
دوسری طرف اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بنیادی طور پر آپؐ انسان تھے اور انسانی داعیات و میلانات رکھتے تھے۔ آپؐ کو چوٹ لگتی تو درد محسوس کرتے‘ غزوۂ اُحد میں زخم آیا تو خون کا فوارہ چھوٹ پڑا ‘بیٹا فوت ہوا تو آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ کبھی جذبات کی ایسی کیفیت بھی ہوئی کہ زبان سے بددعا بھی نکل گئی:((کَیْفَ یُفْلِحُ قَوْمٌ خَضَبُوْا وَجْہَ نَبِیِّھِمْ بَالدَّمِ!)) (۳) ’’وہ قوم کیسے کامیاب ہوگی جس نے اپنے نبیؐ کا چہرہ خون سے رنگین کر دیا!‘‘
بہرحال آپﷺ بلاشبہ بشر تھے ‘جیسا کہ قرآن مجید ہمیں تکرار کے ساتھ بتاتا ہے ‘لیکن آپؐ کی بشریت کو اللہ تعالیٰ نے وہ مقام عطا فرمایا تھا جو آپؐ کے شایانِ شان تھا ----اب اگلی آیت میں ایمان بالآخرت کا ذکر ہے :
آیت ۷{زَعَمَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنْ لَّنْ یُّبْعَثُوْاط} ’’کافروں کو یہ زعم ہے کہ وہ (مرنے کے بعد) ہرگز اٹھائے نہیں جائیں گے۔‘‘
{قُلْ بَلٰی وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَـبَّـؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ ط} ’’(اے نبیﷺ!) آپ کہہ دیجیے: کیوں نہیں! مجھے میرے رب کی قسم ہے‘ تم لازماً اٹھائے جائو گے‘پھر تمہیں لازماً جتلایا جائے گا ان اعمال کے بارے میں جو تم نے کیے ہیں۔‘‘
اس اسلوب میں جو زور اور تاکید ہے انسانی زبان سے اس کا بیان ناممکن ہے !اللہ عزّوجل کا فرمان‘ رسول اللہﷺ کی قسم اور انتہائی تاکیدی صیغوں کا استعمال! اس سے بڑھ کر زوردار عبارت بھلا اور کون سی ہو گی۔ حضورﷺ نے بنوہاشم کو دعوت کے سلسلے میں جو خطبہ دیا تھا اس کا مضمون اور اسلوب بھی اس جملے سے ملتا جلتا ہے۔ میرے کتابچے ’’دعوت اِلی اللہ‘‘ میں اس خطبے کا پورا متن موجود ہے ۔ا س کتابچے کا انگریزی ترجمہ بھی Call to Allahکے عنوان سے ہوچکا ہے۔ا س خطبے کا اسلوب ملاحظہ ہو:
((وَاللہِ لَتَمُوْتُنَّ کَمَا تَنَامُوْنَ ، ثُمَّ لَتُبْعَثُنَّ کَمَا تَسْتَـیْقِظُوْنَ ، ثُمَّ لَتُحَاسَبُنَّ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ، ثُمَّ لَتُجْزَوُنَّ بِالْاِحْسَانِ اِحْسَانًا وَبالسُّوْءِ سُوْءًا ، وَاِنَّھَا لَجَنَّــۃٌ اَبَدًا اَوْ لَـنَارٌ اَبَدًا))(۴)
’’خدا کی قسم تم سب مر جائو گے جیسے (روزانہ) سو جاتے ہو! پھر یقیناً تم اٹھائے جائو گے جیسے (ہر صبح) بیدار ہوجاتے ہو۔ پھر لازماً تمہارے اعمال کا حساب کتاب ہو گا ‘اور پھر لازماً تمہیں بدلہ ملے گا اچھائی کا اچھائی اور بُرائی کا بُرائی‘ اور وہ جنّت ہے ہمیشہ کے لیے یا آگ ہے دائمی۔‘‘
{وَذٰلِکَ عَلَی اللہِ یَسِیْرٌ(۷)} ’’اور یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔‘‘
یہ ابتدائی سات آیات ایمان کے بیان سے متعلق تھیں۔ ان میں پہلی چار آیات ذات و صفاتِ باری تعالیٰ پر ایمان سے متعلق ہیں ۔پھر دو آیات ایمانِ رسالت کے بارے میں ہیں‘ جبکہ ساتویں آیت کا تعلق ایمان بالآخرت سے ہے۔ اب اگلی تین آیات میں ایمان کی زوردار دعوت دی جا رہی ہے :
آیات ۸ تا ۱۰

فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالنُّوْرِ الَّذِیْٓ اَنْزَلْنَا ۭ وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ (۸)یَوْمَ یَجْمَعُکُمْ لِیَوْمِ الْجَمْعِ ذٰلِکَ یَوْمُ التَّغَابُنِ ۭ وَمَنْ یُّؤْمِنْۢ بِاللّٰہِ وَیَعْمَلْ صَالِحًا یُّکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّاٰتِہٖ وَیُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا ۭ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (۹)وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْابِاٰیٰتِنَآ اُولٰۗئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا ۭ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ(۱۰)

آیت ۸ {فَاٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ}’’پس ایمان لائو اللہ پر اور اُس کے رسول (ﷺ) پر‘‘
یہاں آیت کے آغاز کی ’’ف‘‘ بہت اہم ہے۔ گویا گزشتہ چار آیات کے مضمون کا ربط اگلی تین آیات کے مضمون کے ساتھ اس ’’ف‘‘ سے قائم ہو رہا ہے۔
{وَالنُّوْرِ الَّذِیْٓ اَنْزَلْنَاط} ’’اور اُس نُور پر جو ہم نے نازل کیاہے۔‘‘
{وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ(۸)}’’اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔‘‘
اس آیت میں اللہ ‘رسول ؐاور آخرت سے متعلق تینوں’’ایمانیات‘‘ کاذکر آ گیا ہے۔ اللہ اوررسولؐ کا ذکر تو واضح ہے لیکن آخرت کا ذکر آیت کے آخری حصّے {وَاللہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ} میں اشارتاً ہوا ہے ۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ ہر انسان کے ایک ایک عمل کی نگرانی محض تحقیق و تدقیق کی غرض سے ہی تو نہیں کر رہا ہے ‘بلکہ آخرت میں انہیں سزا یا جزا دینے کے لیے کر رہا ہے ---- اب اگلی دو آیات خاص طور پر ایمان بالآخرت کی دعوت سے متعلق ہیں:
آیت ۹ {یَوْمَ یَجْمَعُکُمْ لِیَوْمِ الْجَمْعِ ذٰلِکَ یَوْمُ التَّـغَابُنِ ط} ’’جس دن کہ وہ تمہیں جمع کرے گاجمع ہونے کے دن کے لیے‘ وہی ہے ہار اورجیت کے فیصلے کا دن۔‘‘
اصل جیت بھی اُس دن کی جیت ہے اور اصل ہار بھی اُس دن کی ہار ہے۔ اس کے مقابلے میں دنیا کی ہار یا جیت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ دنیا کی ہار جیت تو کسی ڈرامے کے کرداروں کی ہار جیت کی طرح ہے‘ جس کا متعلقہ کردار کی حقیقی زندگی سے کچھ بھی تعلق نہیں ہوتا -- اب آگے وضاحت کی جارہی ہے کہ قیامت کے دن کی جیت کس کے حصّے میں آئے گی اور اُس دن کی ہار کس کے گلے کا ہار بنے گی۔
{وَمَنْ یُّـؤْمِنْ بِاللہِ وَیَعْمَلْ صَالِحًا} ’’اور جو کوئی ایمان لائے اللہ پراور نیک اعمال کرے‘‘
ان اعمال کی تفصیل آگے آئے گی۔
{ یُّــکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّاٰتِہِ وَیُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًاط} ’’وہ اس کی بُرائیوں کو اس سے دور کر دے گا اور اسے ان باغات میں داخل کرے گا جن کے دامن میں نہریں بہتی ہوںگی ‘وہ اس میں رہیں گے ہمیشہ ہمیش۔‘‘
{ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۹)} ’’یہ ہے بہت بڑی کامیابی۔‘‘
یہ جیت کی شرح ہو گئی‘ یعنی جنّت میں داخلہ اور ہمیشہ کا خلود! گویا یہ ہے مستقل‘ واقعی اور حقیقی جیت! اس کے برعکس ہار کیا ہے؟ اسے اگلی آیت میں واضح فرما دیا گیا:
آیت ۱۰{وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ خٰلِدِیْنَ فِیْہَاط} ’’اور جنہوں نے انکار کیا اور تکذیب کی ہماری آیات کی وہی ہوں گے جہنمی ‘ وہ ہمیشہ رہیں گے اس میں۔‘‘
{وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ(۱۰)} ’’اور وہ بہت بُرا ٹھکانہ ہے۔‘‘
گزشتہ دس آیات میں ایمانیاتِ ثلاثہ (ایمان باللہ‘ ایمان بالرسالت اور ایمان بالآخرت) کی بہترین اور جامع ترین تعبیر بیان ہوئی ہے اور پھر ایمان کے لیے زوردار دعوت دی گئی ہے۔ اس طرح کہ جس موضوع کا بیان مفصل ہے اس کے لیے دعوت مختصراً دی گئی ہے اور جو موضوع مختصر طور پر بیان ہوا ہے اس کی دعوت نسبتاً مفصل انداز میں آئی ہے۔ یعنی ایمان باللہ اور ایمان بالرسالت کا بیان چھ آیات میں ہوا ہے اور ان کے لیے دعوت صرف ایک آیت (آیت۸) میں دی گئی ہے۔ اس کے مقابل ایمان بالاخرت کا بیان صرف ایک آیت (آیت۷) میں ہوا ہے لیکن اس کی دعوت کا ذکر دو آیات (آیت ۹ اور ۱۰) میں نسبتاً تفصیل سے ہوا ہے۔
آیات ۱۱ تا ۱۵

مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللہِ ۭ وَمَنْ یُّؤْمِنْۢ بِاللّٰہِ یَھْدِ قَلْبَہٗ ۭ وَاللہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ (۱۱)وَاَطِیْعُوا اللہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ۚ فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاِنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ (۱۲)اَللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ۭ وَعَلَی اللہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ (۱۳)یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَاَوْلَادِکُمْ عَدُوًّا لَّکُمْ فَاحْذَرُوْھُمْ ۚ وَاِنْ تَعْفُوْا وَتَصْفَحُوْا وَتَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (۱۴)اِنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ ۭ وَاللہُ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ (۱۵)

دوسرے رکوع کی پہلی پانچ آیات میں ثمراتِ ایمانی کا ذکر ہے۔ ان میں سے پہلا ثمرہ یہ ہے :
آیت۱ ۱{مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللہِ ط}’’نہیں آتی کوئی مصیبت مگر اللہ کے اذن سے۔‘‘
{وَمَنْ یُّؤْمِنْ بِاللہِ یَہْدِ قَلْبَہٗ ط وَاللہُ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عَلِیْمٌ(۱۱)}’’اور جو کوئی اللہ پر ایمان رکھتا ہے‘ وہ اُس کے دل کو ہدایت دے دیتا ہے ۔ اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔‘‘
ایمانِ حقیقی کی بدولت انسان کے دل کی گہرائیوں میں یہ یقین پیدا ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر ایک پتّاتک جنبش نہیں کر سکتا۔ اس لیے اگر اس پر کوئی مصیبت بھی آ جاتی ہے تو اس کا دل مطمئن رہتا ہے کہ یہ اللہ کے حکم سے ہی آئی ہے اور یہ کہ میری بہتری اسی میں ہے : {وَعَسٰٓی اَنْ تَـکْرَہُوْا شَیْئًا وَّہُوَخَیْرٌ لَّــکُمْ ج وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّہُوَ شَرٌّ لَّــکُمْ ط وَاللہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۲۱۶)}(البقرۃ)’’اورہو سکتا ہے کہ تم کسی شے کو ناپسند کرواور وہ تمہارے لیے بہتر ہو۔ اور ہو سکتا ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو درآنحالیکہ وہی تمہارے لیے بُری ہو۔اور اللہ جانتا ہے‘ تم نہیں جانتے‘‘۔ چنانچہ اپنے اس ایمان اور یقین کی وجہ سے ایک بندئہ مؤمن بڑی سے بڑی تکلیف اور مشکل سے مشکل حالات میں بھی نہ تو دل میں شکوہ کرتا ہے اور نہ ہی حرفِ شکایت زبان پر لاتاہے ‘بلکہ وہ ہر حال میں پیکر ِتسلیم و رضا بنا رہتا ہے کہ اے اللہ! میری بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے: بِیَدِکَ الْخَیْر! تیری طرف سے میرے لیے خوشی آئے یا غم ‘مجھے قبول ہے‘ تیری جو بھی رضا ہو اس کے سامنے میرا سر تسلیم خم ہے! بقول غالب ؔ:
ہم بھی تسلیم کی خُو ڈالیں گے
بے نیازی تری عادت ہی سہی!
ظاہر ہے اس مقامِ خاص تک صرف سچّے اور مخلص اہل ِایمان ہی پہنچ پاتے ہیں۔ ایمانِ حقیقی سے محروم دلوں کے نصیب میں تسلیم و رضا کی حلاوت کہاں: ؎
نہ شود نصیب ِدشمن کہ شود ہلاکِ تیغت
سر ِدوستاں سلامت کہ تُو خنجر آزمائی!
علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں مقامِ تسلیم و رضا کی برکات کا ذکر بڑے پرشکوہ انداز میں کیا ہے :
بروں کشید زپیچاکِ ہست و بود مرا
چہ عقدہ ہا کہ مقامِ رضا کشود مرا!
(اس مقامِ رضا نے میرے کیسے کیسے عقدے حل کر دیے ہیں اورمجھے دنیا کی کیسی کیسی پریشانیوں سے نجات دلا دی ہے ۔)
خوئے تسلیم و رضا کی وجہ سے انسان اپنا بڑے سے بڑا مسئلہ بھی اللہ کے سپرد کر کے مطمئن ہو جاتا ہے اور جو انسان اس یقین سے محروم ہے وہ دن رات اسی پیچ و تاب میں پڑ ا رہتا ہے کہ یہ سب کیسے ہو گیا؟ آخر یہ میرے ساتھ ہی کیوں ہوا؟ اگرمَیں اس وقت ایسا کرلیتا تو اس نقصان سے بچ جاتا ! اگر میرا فلاں دوست عین وقت پر ایسا نہ کرتا تو ایسا نہ ہوتا! کاش میں یوں کر لیتا! کاش ‘اے کاش! …گویا انسان اگر مقامِ تسلیم و رضا سے ناآشنا ہو تو چھوٹے چھوٹے واقعات بھی اس کے دل کا روگ بن جاتے ہیں اور اس کے پچھتاوے کبھی ختم ہونے کا نام نہیں لیتے۔(سورۃ الصف‘ سورۃ الجمعہ‘ سورۃ المنافقون اور سورۃ التغابن‘ یہ چاروں سورتیں ہمارے ’’مطالعہ قرآن حکیم کا منتخب نصاب‘‘ میں شامل ہیں‘ جس کے مفصل دروس کی ریکارڈنگ موجود ہے۔ مزید تفصیل کے لیے اس سے استفادہ کیاجاسکتاہے۔)
اس حوالے سے یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اللہ کی رضا پر راضی رہنے اور ہر سختی یا تکلیف کو اُس کا فیصلہ سمجھ کر قبول کر لینے کا تعلق انسان کے ایمان اور دل سے ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ کسی جرم کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہ کریں یا اپنے ساتھ ہونے والی کسی زیادتی کا بدلہ نہ لیں۔ بہرحال ایمان کے ثمرات میں سے پہلاثمرہ یہ ہے کہ حقیقی ایمان انسان کو مقامِ تسلیم و رضا سے آشنا کرتا ہے۔ لیکن اس کا تعلق چونکہ انسان کے احساسات سے ہے اس لیے یوں کہہ لیجیے کہ یہ وہ پھول ہے جو ایک بندئہ مؤمن کے دل کے اندر کھلتا ہے ‘باہر سے نظر نہیں آتا۔باہر سے نظر آنے والے بڑے پھول کا ذکر اگلی آیت میں آ رہا ہے۔
آیت ۱۲{وَاَطِیْعُوا اللہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ج}’’اور اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول(ﷺ) کی۔‘‘
{فَاِنْ تَوَلَّــیْتُمْ فَاِنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ(۱۲)}’’پھر اگر تم نے پیٹھ موڑ لی تو جان لو کہ ہمارے رسول(ﷺ) کے ذِمّے تو صرف صاف صاف پہنچا دینے کی ذِمّہ داری ہے۔‘‘
اللہ کے رسولﷺ نے اللہ کے احکام لوگوں تک پہنچا کر اپنی ذِمّہ داری پوری کر دی ہے۔ان احکام کے بارے میں اب ہر کوئی خود جواب دہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے واضح احکام کے مقابلے میں اب کسی انسان کی دلیل بازی نہیں چلے گی۔ جیسے سود کی حرمت کا حکم سن کر بعض لوگوں نے کہا تھا: {اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا م} کہ کاروبار کا منافع بھی تو ربا (سود) ہی کی مانند ہے! ایسے لوگوں کو واضح طو رپر بتادیاگیا کہ : {وَاَحَلَّ اللہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰواط} (البقرۃ:۲۷۵) کہ اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام کیا ہے۔ اب بھلا تم کون ہو اللہ کے واضح حکم کے بعد اپنی منطق بگھارنے والے؟اگر تم اللہ کو مانتے ہو ‘ اُس کے رسولؐ کو مانتے ہو ‘ اُس کے قرآن کو مانتے ہو تو پھر اللہ ‘اُس کے رسولﷺ اور قرآن کے احکامات کے مقابلے میں تمہاری کوئی دلیل نہیں چلے گی۔ تمہیں سب احکام بے چون و چرا تسلیم کرنے ہوں گے ۔ بقولِ اکبر الٰہ آبادی: ؎
رضائے حق پر راضی رہ‘ یہ حرفِ آرزو کیسا!
خدا خالق ‘ خدا مالک ‘ خدا کا حکم ‘ تو کیسا؟
اور اگر نہیں مانتے ہو تو سیدھی طرح اقرار کرو کہ ہم نہیں مانتے۔بس تمہارے پاس یہی دو راستے ہیں‘یاتو اطاعت و فرمانبرداری کی روش اپنائو یا پھر اُس کے در سے اُٹھ کر چلے جائو ! (either obey or go away)۔ تیسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔
آیت ۱۳{اَللہُ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ہُوَط وَعَلَی اللہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ(۱۳)} ’’ اللہ وہ ہے کہ اُس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ پس اہل ِ ایمان کو اللہ ہی پر توکّل کرنا چاہیے۔‘‘
اے اہل ِایمان! اگر تم واقعی اللہ پر ایمان رکھتے ہو تو تمہیں یقین ہونا چاہیے کہ اللہ کی مرضی کے بغیر ایک ذرّہ بھی حرکت نہیں کر سکتا۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تمہارے کرنے سے کچھ نہیں ہوگا‘جو کچھ بھی ہو گا وہ اللہ کی مشیت اور مرضی سے ہو گا ۔ تمہارا کام صرف یہ ہے کہ محنت کرو اور اس کا نتیجہ اللہ پر چھوڑ دو۔ا گر تم کوئی کام کرنے کی استطاعت بھی رکھتے ہو‘ تمہارے پاس تمام وسائل بھی موجود ہیں اور تم حالات کو بھی کلی طور پر سازگار دیکھتے ہو تو بھی کبھی مت کہنا کہ مَیں یہ کام ضرور کرلوں گا۔ اگر تم ایسا دعویٰ کر بیٹھو گے تو ایمان سے دورہوجائو گے : {وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْ ئٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا(۲۳) اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللہُ ز} (الکھف)’’اور کسی چیز کے بارے میں کبھی یہ نہ کہا کریں کہ مَیں یہ کام کل ضرور کر وں گا۔مگر یہ کہ اللہ چاہے!‘‘کثرتِ وسائل کے زعم میں فتح کی امید رکھو گے تو وہی حال ہو گا جو لشکر ِ اسلام کا وادیٔ حنین میں ہوا تھا۔ وادیٔ حنین میں دشمن کی تیراندازی کی وجہ سے اہل ِایمان کی صفوں میں ایسی بھگدڑ مچی تھی کہ بارہ ہزار کے لشکر میں سے‘سیّد سلیمان ندوی ؒ کی تحقیق کے مطابق تین چار سو اوراُن کے استاد مولانا شبلی نعمانی ؒکے مطابق صرف تیس چالیس لوگ حضورﷺ کے ساتھ کھڑے رہ گئے تھے۔ سورۃ التوبہ کی آیت ۲۵ میں اس کاسبب بھی بتا دیا گیا: {اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ} (التوبۃ:۲۵) کہ اُس دن اہل ِ ایمان میں سے بعض لوگوں کے دلوں میں اپنی کثرتِ تعداد کا زعم پیدا ہو گیا تھا۔بہرحال مؤمنین کو ہر طرح کے حالات میں اللہ تعالیٰ پر ہی توکّل کرنا چاہیے اور صادق الایمان مؤمنین ہر حالت میں بلاشبہ اللہ پر ہی توکّل کرتے ہیں۔ یہ توکّل علی اللہ بھی شجر ایمان کا وہ پھول ہے جو اہل ِایمان کے دلوں اور ذہنوں کے اندر کھلتا ہے۔ گویا یہ ایمان کا تیسرا ثمرہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں تہذیب و تمدن کی گاڑی کو چلانے کے لیے ’’علائق ِدنیوی‘‘ کے ضمن میں بہت سی فطری محبتیں انسان کے دل میں ڈال دی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ان محبتوں میں سب سے زیادہ قوی محبّت بیویوں اور اولاد کی محبّت ہے۔ اس طبعی محبّت کی طرف اگلی آیت میں متنبہ فرمایا گیا کہ اگر اس میں حدّ ِ اعتدال سے تجاوز ہوجائے تو یہی محبّت انسان کے لیے دشمنی کا روپ دھار لے گی۔ لہٰذا اس کے ضمن میں احتیاط کی ضرورت ہے:
آیت ۱۴{یٰٓــاَیـُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَاَوْلَادِکُمْ عَدُوًّا لَّــکُمْ فَاحْذَرُوْہُمْ ج}’’اے ایمان کے دعوے دارو! تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں ‘سو ان سے بچ کر رہو۔‘‘
یہ بہت مشکل اور نازک معاملہ ہے۔ گزشتہ سورت میں رسول اللہﷺ کو منافقین کی عداوت سے بھی انہی الفاظ میں خبردار کیا گیا تھا : {ہُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْہُمْ ط} (المنٰفقُون:۴) کہ یہ لوگ تمہارے دشمن ہیں ‘ان سے بچ کر رہیے! جس طرح منافقین کی دشمنی تمہارے لیے نقصان دہ ہے ‘اسی طرح تمہارے بیوی بچوں کی محبّت بھی تمہیں نقصان پہنچا سکتی ہے۔ نقصان بےشک کسی کی دشمنی کی وجہ سے ہو یا محبّت کی وجہ سے ‘نقصان ہی ہے اور جو کوئی بھی آپ کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو وہ ظاہر ہے آپ کادشمن ہے۔ بیوی کی بے جا فرمائشیں اور بچوں کی حد سے بڑھی ہوئی ضروریات اگر حلال کی کمائی سے پوری نہیں ہوں گی تو انسان کیا کرے گا؟ ظاہر ہے حرام میں منہ مارے گا۔ اور اگر کوئی یہ نہیں کرے گا تو ڈالر اور پیٹروڈالرکمانے کے چکر میں ملک سے باہر چلا جائے گا۔ پیچھے سے بیوی بچے کیا کرتے ہیں؟ بوڑھے والدین کس حال میں ہیں؟ انہیں بیماری کی حالت میں ڈاکٹر کے پاس کون لے کر جائے گا؟ اُس کی بلا جانے! اس کی اپنی مجبوری ہے ‘مکان بنانا ہے‘ بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانی ہے ‘ ان کی شادیاں کرنی ہیں اور اس سب کچھ کے لیے سرمایہ چاہیے ۔ اور ظاہر ہے سرمایہ گھر بیٹھے تو نہیں ملتا‘ نہ ہی حلال کی کمائی سے ملتا ہے ۔
اگر کسی کو اللہ تعالیٰ نے دین کی سمجھ اور آخرت کی فکر عطا کی ہے اور وہ حرام سے بچتے ہوئے روکھی سوکھی کھا کر گزارا کرنا چاہتا ہے تو اسے صبح وشام بیوی کے طعنے چین نہیں لینے دیتے کہ تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے‘ تمہیں بچوں کے مستقبل کی فکر بھی نہیں۔ ذرا ہمسائے سے ہی سبق حاصل کرلیتے‘ کیا وہ مسلمان نہیں ہیں؟ وہ تم سے زیادہ نماز یں پڑھتے ہیں‘ ان کی داڑھی بھی تم سے لمبی ہے ‘مگر وہ دین کے ساتھ ساتھ دنیا کو بھی نبھا رہے ہیں۔ ذرا دیکھوان کے بیوی بچے کیسے عیش کررہے ہیں اور کون نہیں جانتا کہ یہ سب کچھ اوپر کی کمائی سے ہو رہا ہے۔ اب تم کیا ان سے بھی بڑے دین دار ہو کہ جو سب کچھ ان کے لیے حلال ہے تم اسے اپنے اوپر خواہ مخواہ حرام کرکے بیٹھ گئے ہو؟ وغیرہ وغیرہ۔
آج ہمارے ہاں کے روایتی مسلمانوں کو تو بیوی بچوں کی دشمنی والی یہ بات سمجھ میں نہیں آئے گی ‘لیکن اگر کوئی بندئہ مؤمن اللہ تعالیٰ کی توفیق سے کسی انقلابی تحریک کے کارکن کی حیثیت سے اقامت ِدین کی جدّوجُہد میں مصروف ہے تو اس پر یہ حقیقت بہت جلد واضح ہو جائے گی کہ اس راستے میں بیوی بچوں کی محبّت کس طرح پائوں کی زنجیر بنتی ہے۔ یہ معاملہ چونکہ بہت نازک اور حساس ہے اس لیے اس سخت حکم کے بعد اگلے جملے میں اس ضمن میں نرمی اختیار کرنے کی ہدایت بھی کی جا رہی ہے۔ قوانین اور احکام کا یہ توازن کلامِ الٰہی کا خاص معجزہ ہے اور اس اعتبار سے یہ آیت اعجازِ قرآن کی بہت بڑی مثال ہے۔ ایک طرف متنبہ بھی کر دیا کہ تمہیں اپنے اہل و عیال کے معاملے میں سانپ کی طرح ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ایسا نہ ہو کہ بیوی اور اولاد کی محبّت تمہیں کسی غلط راستے پر ڈال دے۔ لیکن اگلے جملے میں عفوودرگزر کا حکم بھی دے دیا کہ تم اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے اپنے اہل وعیال کے معاملات کو نرمی اور حکمت سے نبٹائو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارا گھر صبح و شام میدانِ جنگ کا نقشہ پیش کرنے لگے:
{وَاِنْ تَـعْفُوْا وَتَصْفَحُوْا وَتَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۴)} ’’اور اگر تم معاف کر دیا کرو اور چشم پوشی سے کام لو اور بخش دیا کرو تو اللہ بہت بخشنے والا ‘نہایت مہربان ہے۔‘‘
اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ بھی عفوودرگزر کا معاملہ فرمائے تو تم بھی اپنے اہل و عیال کے ساتھ ایسا ہی رویّہ اختیار کرو۔ سورۃ النور کی اس آیت میں بھی بالکل یہی اسلوب نظر آتا ہے:{وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْاط اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللہُ لَکُمْ ط وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲)} ’’اور چاہیے کہ وہ معاف کر دیں اور درگزر سے کام لیں۔کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے؟ اور اللہ بہت بخشنے والا‘ نہایت مہربان ہے‘‘۔یہ آیت واقعہ افک کے حوالے سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ آپؓ نے اپنے ایک نادار رشتہ دار (حضرت مسطح ؓ) کی کفالت کاذِمّہ لے رکھا تھا‘ لیکن جب آپؓ کو معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر کیچڑاُچھالنے میں اس کا بھی حصّہ تھا تو آپؓنے اس کی مدد سے ہاتھ روک لیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر تم خود اللہ سے معافی کے خواستگار ہو تو تم اسے معاف کر دو ۔ بہرحال ان دونوں آیات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ نہ صرف اللہ تعالیٰ خود بہت معاف اور درگزر کرنے والا ہے بلکہ اپنے بندوں سے بھی وہ ایسے ہی رویّے کو پسند کرتا ہے۔
زیر مطالعہ آیات میں اب تک ایمان کے چار ثمرات کا ذکر ہواہے۔ ان میں سے پہلے تین کا تعلق تو ایک فردکی انفرادی زندگی سے ہے ‘جبکہ چوتھا ثمرہ فردکے گرد بننے والی اجتماعیت کے پہلے حلقے یعنی اس کے افراد خانہ سے متعلق ہے۔ انفرادی سطح کے تین ثمرات کو مَیں نے بندئہ مؤمن کی شخصیت کے چمن میں کھلنے والے خوبصورت پھولوں سے تشبیہہ دی ہے۔ ان میں سے دو پھول تو وہ ہیں جو اس کے دل کے اندر کھلتے ہیں اور باہر سے ہر کسی کو نظر نہیں آتے‘ یعنی خوئے تسلیم و رضا اور توکّل علی اللہ۔جبکہ تیسرا پھول اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کا پھول ہے ‘جو شخصیت کے خارج میں کھلتا ہے ۔ظاہر ہے اَطِیْعُوا اللہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ کے حکم میں تو پورے کے پورے دین کا احاطہ ہو جاتا ہے۔اس لیے معاشرے میں رہتے ہوئے یہ پھول بجا طور پر بندئہ مؤمن کی شخصیت کا طرئہ امتیاز بنتا ہے۔
ایمان کے چوتھے ثمرے کا تعلق بندئہ مؤمن کی عائلی زندگی سے ہے۔ اس حوالے سے آیت زیر مطالعہ ہمیں انتہائی متوازن اور معتدل رویّے کا شعور عطا کرتی ہے ۔اس نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ہمیں اہل و عیال کی طبعی محبتوں کے منفی اثرات سے ہوشیار بھی رہنا ہے اور ساتھ ہی ساتھ عفوودرگزر کی حکمت ِعملی اپناتے ہوئے گھر کی فضا کو محاذ آرائی اور نفرت کے تکدر سے محفوظ رکھنے کی کوشش بھی کرتے رہنا ہے----- اب اسی حوالے سے دوسری اصولی اور انتہائی اہم بات :
آیت ۱۵{اِنَّمَآ اَمْوَالُــکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌط}’’تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے امتحان ہیں۔‘‘
تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ مال ودولت دنیا ‘یہ رشتہ و پیوند تمہاری آزمائش کا ذریعہ ہیں:{زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآئِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَـرَۃِ مِـنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ط} (آل عمران:۱۴) ’’مزین کر دی گئی ہے لوگوں کے لیے مرغوباتِ دنیا کی محبّت جیسے عورتیں اور بیٹے اور جمع کیے ہوئے خزانے سونے کے اور چاندی کے اور نشان زدہ گھوڑے اور مال مویشی اور کھیتی‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے دلوں میں یہ محبتیں پیدا ہی ان کو آزمانے کے لیے کی ہیں۔ اس کا تو اعلان ہے کہ میرے جس بندے کے دل میں مجھ تک پہنچنے کی تڑپ ہے ‘اسے ان تمام رکاوٹوں اور آزمائشوں کو عبور کر کے آنا ہو گا: ؎
انہی پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آئو
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے!
حضورﷺ کا فرمان ہے :
((حُجِبَتِ النَّارُ بِالشَّھَوَاتِ وَحُجِبَتِ الْجَنَّۃُ بِالْمَکَارِہِ)) (۵)
’’جہنّم کو نفس کی مرغوب چیزوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے اور جنّت کو ناپسندیدہ چیزوں سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔‘‘
ان ناپسندیدہ چیزوں میں مال و اولاد کی محبتوں کی قربانی سر ِفہرست ہے۔ آج اگر کسی شخص کے بارے میں آپ یہ معلوم کرناچاہیں کہ اس کے دل میں کتنا ایمان ہے تو یہ دیکھ لیجیے کہ وہ اپنی اولاد کو کیا بنانا چاہتا ہے۔ بظاہر ایک شخص اگر بہت بڑا عالم ِدین‘ صوفی ‘ مسند نشین اور پیر ِطریقت ہے لیکن اپنی اولاد کو وہ ایمان وآخرت کے راستے پر ڈالنے کے بجائے پیسے بنانے والی مشین بنانے کی کوشش میں ہے تو جان لیجیے کہ اس کے باطن میں دین اور دینی اقدار کی کوئی اہمیت نہیں ہے---- اب اس سلسلے کی تیسری بات سنیے:
{وَاللہُ عِنْدَہٗ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۱۵)} ’’اوراللہ ہی کے پاس اجر ِعظیم ہے۔‘‘
تمہارے اعمال کا اصل اجر اور بدلہ تمہیں اللہ تعالیٰ سے ملے گا‘ لہٰذا کسی اور سے کسی اجر کی توقع نہ رکھنا۔ اولاد کے بارے میں بھی مت امید رکھنا کہ وہ تمہارے بڑھاپے کا سہارا بنے گی۔ ہو سکتا ہے یہی اولاد جس کے لیے آج تم اپنا ایمان تک دائو پر لگانے کو تیّار ہو جاتے ہو ‘بڑھاپے میں تمہیں ٹھوکریں مارے اوربعض اوقات اولاد کی زبان کی ٹھوکریں والدین کے لیے ان کی پائوں کی ٹھوکروں سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہیں۔ اس تکلیف کی کیفیت اُس باپ سے پوچھیں جس کا بیٹا اس کے سامنے سینہ تان کر کہتا ہے : ابّا جان آپ ہمیشہ بے موقع بات کرتے ہیں‘ اس معاملے میں آپ خاموش رہیں‘ آپ کو کیا معلوم کہ زمانہ کہاں سے کہاں چلا گیا ہے!
آیات ۱۶ تا ۱۸

فَاتَّقُوا اللہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا وَاَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَنْفُسِکُمْ ۭ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰۗئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (۱۶)اِنْ تُقْرِضُوا اللہَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعِفْہُ لَکُمْ وَیَغْفِرْلَکُمْ ۭ وَاللہُ شَکُوْرٌ حَلِیْمٌ(۱۷) عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (۱۸)
اس سورئہ مبارکہ کی آخری تین آیات ایمان کے عملی تقاضوں کو بالفعل ادا کرنے کی دعوت پر مشتمل ہیں۔
آیت ۱۶{فَاتَّقُوا اللہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا} ’’پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اپنی حدّ ِامکان تک‘ اور سنو اور اطاعت کرو ‘‘
گویا ایمان باللہ کا عملی تقاضا یہ ہے کہ انسان میں اللہ کا تقویٰ پیدا ہو جائے‘اور تقویٰ بھی تھوڑا بہت نہیں‘ بلکہ امکانی حد تک‘ جتنا اس کے حدّ ِاستطاعت میں ہے ---- البتہ کسی انسان میں کتنی استطاعت و استعداد اور وسعت و طاقت ہے جس کے مطابق وہ مکلّف اور جواب دہ ہے‘ اس کا صحیح شعور و ادراک بسا اوقات اسے خود نہیں ہوتا اور وہ اپنے آپ کو دین کے عملی تقاضوں کے ضمن میں رعایتیں دیتا چلا جاتا ہے‘ حالانکہ انسان کا خالق خوب جانتا ہے کہ اس نے اس میں کتنی استطاعت‘ استعداد اور وسعت رکھی ہے۔ چنانچہ وہ اسی کے مطابق ہر انسان کا محاسبہ اور مؤاخذہ فرمائے گا۔
ایمان کے بیان میں دوسرے نمبر پر ذکر تھا ایمان بالرسالت کا‘ لہٰذا یہاں ایمان کا دوسرا عملی تقاضا ’’سمع و طاعت‘‘ کے حوالے سے بیان ہوا‘ جس کا نقطہ ٔآغاز عملی اعتبار سے رسول اللہﷺ کی ذات و شخصیت ہے----- سمع و طاعت کا تعلق اصلًا ایمان باللہ سے ہے‘ لیکن عملاً اس کا تعلق ایمان بالرسالت سے ہے‘ اس لیے کہ اگرچہ مطاعِ حقیقی تو اللہ ہی ہے‘ مگر اللہ کا نمائندہ اور اُس کے اِذن سے بالفعل ’’مطاع‘‘ بن کر رسول آتا ہے تو اُس کی اطاعت گویا اللہ کی اطاعت ہی ہے۔ جیسے سورۃ النساء میں فرمایاگیا:{مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ ج} (آیت ۸۰) ’’جس نے رسولؐ کی اطاعت کی درحقیقت اُس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘‘
دوسری بات یہ ہے کہ یہاں پر وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا کا حکم خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس حوالے سے قابل ِغور نکتہ یہ ہے کہ قبل ازیں آیت ۱۲ میں جب وَاَطِیْعُوا اللہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ کا واضح حکم آ چکا ہے تو اب یہاںکون سی اطاعت کے لیے بلایا جا رہا ہے؟ اس مسئلے کو یوں سمجھئے کہ حضورﷺ اپنی حیاتِ مبارکہ میں مختلف مواقع پر مختلف امور کے لیے امیر مقرر فرمایا کرتے تھے ۔ حضورﷺ کے مقرر کردہ امیر کی اطاعت بھی متعلقہ اہل ِایمان پر اسی طرح لازم تھی جیسے کہ خود حضورﷺ کی اطاعت۔ اس بارے میں حضورﷺ کا یہ فرمان بہت واضح ہے :
((مَنْ اَطَاعَنِیْ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ ، وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ عَصَی اللہَ ، وَمَنْ اَطَاعَ اَمِیْرِیْ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ ، وَمَنْ عَصٰی اَمِیْرِی فَقَدْ عَصَانِی))(۶)
’’جس نے میری اطاعت کی اُس نے اصل میںاللہ تعالیٰ کی اطاعت کی‘ اور جس نے میری نافرمانی کی اُس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی۔ اور جس نے میرے (مقرر کیے ہوئے) امیر کی اطاعت کی اُس نے گویا میری اطاعت کی اور جس نے میرے (مقرر کیے ہوئے) امیر کی نافرمانی کی اُس نے گویا میری نافرمانی کی۔‘‘
غزوئہ اُحد میں تیر اندازوں کی جس نافرمانی پر سورئہ آل عمران کی آیت ۱۵۲ میں بھی وعید آئی اور جس کی وجہ سے مسلمانوں کو اجتماعی سزا بھی دی گئی وہ دراصل حضورﷺ کی براہِ راست نافرمانی نہیں تھی بلکہ آپؐ کے مقرر کردہ کمانڈر کے حکم کی نافرمانی تھی ۔ اسی حوالے سے یہاں یہ نکتہ بھی ذہن نشین کرلیجیے کہ امیر کی اطاعت صرف حضورﷺ کی زندگی میں ہی لازم نہیں تھی بلکہ قیامت تک کے لیے لازم ہے اور آیت زیر مطالعہ میں دراصل اسی اطاعت کا ذکر ہے۔ مطلب یہ کہ دعوت و اقامت ِدین کی جدّوجُہد کے مشن کو تو قیامت تک زندہ رہنا ہے۔ ہرزمانے میں اللہ کی مشیت اور توفیق سے اللہ کے بندے اس فریضہ کی ادائیگی کے لیے اٹھتے رہیں گے اور اہل ِ ایمان کو دعوت دیتے رہیں گے۔ چنانچہ ہر دور کے اہل ِایمان پر لازم ہے کہ جب بھی اللہ کا کوئی بندہ رسول اللہﷺ کے مشن کا علمبردار بن کر اٹھے اور مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللہِ کی صدا بلند کرے تو وہ اس کی بات سنیں۔ پھراگر ان کا دل گواہی دے کہ اس کی دعوت خلوص و اخلاص پر مبنی ہے تو اُس کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اس کے اعوان و انصار بنیں اور اس کی اطاعت کریں۔ جیسے ماضی قریب میں سید احمد بریلوی‘حسن البناء شہید‘ مولانا الیاس اور مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہم اپنے اپنے زمانے میں پورے خلوص کے ساتھ دعوت و اقامت ِدین کے علمبردار بن کر کھڑے ہوئے تھے اور بہت سے اہل ِایمان نے اللہ کی توفیق سے ان کی آواز پر لبیک بھی کہا۔
یہ آیت آج ہم سے بھی تقاضا کر تی ہے کہ ہم ایسے ’’داعی الی اللہ‘‘ کی تلاش میں رہیں۔ پھر اگر ہمارا دل گواہی دے کہ اللہ کا فلاں بندہ واقعی خلوصِ نیت سے رسول اللہﷺ کے مشن کو لے کر کھڑا ہوا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کی پکار پر لبیک کہیں ‘تاکہ اقامت ِدین کی جدّوجُہد کے لیے سمع و طاعت کی بنیاد پر ایک مربوط و مضبوط و منظّم جماعت وجود میں آسکے۔ظاہر ہے اگر مسلمان خود کو ایک امیر کے تحت ایسی جماعت کی شکل میں منظّم نہیں کریں گے تو ان کی حیثیت ایک ہجوم کی سی رہے گی۔ ذرا تصوّر کریں! ہر سال حج کے لیے لاکھوں مسلمانوں کا جو ’’ہجوم‘‘ اکٹھا ہوتا ہے ‘ اگر یہ لوگ کسی ایک امیر کے تحت ایک جماعت کی شکل میں منظّم ہوتے تو ایک عظیم الشان انقلاب برپا کر دیتے۔ اس موضوع پر علامہ اقبال کا یہ شعر بہت بصیرت افروز ہے : ؎
عید آزاداں شکوہِ ملک و دیں
عید محکوماں ہجومِ مؤمنیں!
ایمانیات کے ضمن میں آخر میں ایمان بالآخرت کا ذکر تھا‘ جس کا اہم ترین عملی مظہر انفاق فی سبیل اللہ ہے:
{وَاَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَنْفُسِکُمْ ط} ’’اور خرچ کرو (اللہ کی راہ میں) یہی تمہارے لیے بہتر ہے۔‘‘
{وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۶)} ’’ اور جو کوئی اپنے جی کے لالچ سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ ہوں گے فلاح پانے والے۔‘‘
یعنی جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے تمہیں دے رکھا ہے وہ اُس کے راستے میں نچھاور کر دو۔ جیسا کہ سورۃ الحدید میں فرمایا گیا ہے: {اٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَـکُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْہِ ط فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَاَنْفَقُوْا لَـھُمْ اَجْرٌ کَبِیْرٌ(۷)} ’’ایمان لائو اللہ پر اور اُس کے رسول(ﷺ)پرا ور خرچ کردو اس سب میں سے جس پر اس نے تمہیں خلافت عطا کی ہے۔تو جولوگ تم میں سے ایمان لائے اور انہوں نے (اپنے مال و جان کو بھی) خرچ کیا‘ ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔‘‘
آیت ۱۷{اِنْ تُقْرِضُوا اللہَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعِفْہُ لَــکُمْ وَیَغْفِرْ لَـکُمْ ط} ’’اگر تم اللہ کو قرضِ حسنہ دو گے تو وہ اسے تمہارے لیے کئی گنا بڑھا دے گا اور تمہیں بخش دے گا ۔‘‘
{وَاللہُ شَکُوْرٌ حَلِیْمٌ(۱۷)} ’’اور اللہ شکور (یعنی قدر دان) بھی ہے اور حلیم (یعنی بردبار)بھی ۔‘‘
وہ ایسا شکور ہے کہ بندہ جو کچھ بھی اُس کی راہ میں خرچ کرتا ہے وہ اس کی قدر کرتا ہے اور حلیم ایسا ہے کہ اُس کے بار بار ترغیب دلانے کے باوجود بھی اگر کوئی شخص کچھ نہیں دیتا وہ فوری طور پر اس کی گردن نہیں ناپتا۔
آیت ۱۸{عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ(۱۸)} ’’جاننے والا ہے چھپے اور کھلے سب کا‘ وہ بہت زبردست ہے‘ کمال حکمت والا ہے۔‘‘
یعنی وہ غائب و حاضر‘ چھپے اور کھلے سب کا جاننے والا ہے۔ اس میں ایک جانب تقویٰ‘ اطاعت اور انفاق پر کاربند رہنے والے اہل ِایمان کے لیے بشارت اور یقین دہانی مضمر ہے کہ وہ مطمئن رہیں کہ ان کی کوئی نیکی ضائع جانے والی نہیں ہے اور دوسری طرف اعراض و انکار کی روش اختیار کرنے والوں کے لیے تہدید و تنبیہہ بھی ہے کہ تمہاری کوئی حرکت اللہ سے پوشیدہ نہیں اور وہ تمہیں کیفر ِکردار تک پہنچانے کے لیے کامل غلبہ و اقتدار کامالک ہے۔ اس لیے کہ وہ ’’العزیز‘‘ ہے۔ اور اگر وہ تمہاری گرفت فوری طور پر نہیں کر رہا بلکہ تمہیں مہلت اورڈھیل دیے جارہا ہے تو یہ اُس کی حکمت ِکاملہ کا مظہر ہے‘ اس لیے کہ جہاں وہ ’’العزیز‘‘ ہے وہاں وہ ’’الحکیم‘‘ بھی ہے۔
نوٹ کیجیے! اس سورت کا اختتام الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ پر ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے یہ دو اسماء گزشتہ چاروں المُسَبِّحات (سورۃ الحدید‘ سورۃ الحشر‘ سورۃ الصف‘ سورۃ الجمعہ)کے آغاز میں آئے ہیں۔گویا ان اسماء کو المُسَبِّحات کے ساتھ خصوصی نسبت ہے۔ چنانچہ زیر مطالعہ سورت (سورۃ التغابن بھی المُسَبِّحات میں سے ہے) کے آغاز میں یہ دونوں نام نہیں آئے تو اختتام پر آگئے ہیں۔
حواشی
۱۔ صحیح البخاری‘کتاب الصوم‘ باب التنکیل لمن اکثر الوصال ح۱۹۶۵۔ وصحیح مسلم‘ کتاب الصیام‘ باب النھی عن الوصال فی الصوم۔ ح:۱۱۰۳۔
۲۔ صحیح مسلم‘ کتاب الصلاۃ‘ باب الامر بتحسین الصلاۃ واتمامھا والخشوع فیھا۔
۳۔ صحیح ابن ماجہ للالبانی‘ ح:۳۲۶۹۔
۴۔ بحوالہ جمھرۃ الخطب‘ ص۵۔ وفقہ السیرۃ للالبانی‘ ص ۹۷۔
۵۔ صحیح الجامع للالبانی‘ ح:۳۱۲۶۔
۶۔ صحیح البخاری‘ کتاب الجھاد والسیر‘ باب تعامل من وراء الامیر ویتقی بہ۔ وصحیح مسلم‘ کتاب الامارۃ‘ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ…