(عرض احوال) اللہ اور اُس کے رسولﷺ سے جنگ کانتیجہ - ادارہ

8 /

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللہ اور اُس کے رسول ﷺ سے جنگ کا نتیجہوطن عزیر اس وقت بدترین سیاسی اور معاشی بحران‘بلکہ تباہ کن صورتِ حال کا شکار ہے۔ سیاسی سطح پر بیرونی اور اندرونی غیر ضروری مداخلت نے ملک کو سیاسی دیوالیہ پن کا شکار کر دیا ہے اور معاشی سطح پر ہم آئی ایم ایف کے رحم و کرم پرہیں۔اگر وہ کچھ روک لے تو ہم معاشی طور پر دیوالیہ ہو جائیں گے اور اگر کچھ دے دے تو تھوڑی دیر سانس لے سکیں گے‘لیکن پھندا مزید کس جائے گا جو آنے والے وقت میں ہماری آزادی ‘ قومی خود مختاری اور سلامتی کا گلہ گھونٹ دے گا ۔
آج وطن عزیز اس حالت کو کیونکر پہنچا اور کس نے پہنچایا ؟ اس کی مختلف وجوہات اور پہلو مختلف لوگ گنوا رہے رہیں‘لیکن حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے ساتھ جنگ کا نتیجہ ہے جو دانستہ ہمارے حکمرانوں نے شروع کررکھی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے حکمرانوں کو بار بار موقع دیا کہ وہ اس جنگ کو ختم کر دیں‘لیکن حکمرانوں نے ہر بار اس جنگ کو پہلے سے زیادہ ہٹ دھرمی کے ساتھ جاری رکھا ۔ جیسے جیسے یہ اس جنگ میں آگے بڑھتے گئے‘ملک اسی قدر معاشی شکنجے اور سیاسی بحرانوں میں گھرتا چلا گیا ۔ ذیل میں حقائق اور اعداد و شمار کی روشنی میں اس جنگ کے نقصانات کا جائزہ لیتے ہیں ۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں کہ پاکستان اسلام کے نام اور کلمہ طیبہ کے اعلان و اقرار پر وجود میں آیاتھا۔ لاکھوں جانوں کی قربانی اور ہزاروں عصمتیں لٹوانے کے بعد قائم ہونے والے ملک میں اسلامی شریعت کے علاوہ کسی دوسرے قانون کی بالادستی نہ عقلاً قابل فہم تھی اور نہ شرعاً قابل قبول تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم کا پاکستان کے لیے ایک اسلامی فلاحی مملکت کا ویژن اُن کے سینکڑوں خطابات سے واضح ہو جاتاہے ۔۱۹۴۸ء میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قائد کا یہ بیان تاریخی ریکارڈ کا حصّہ ہے جس میں انہوں نے فرمایا تھا :
’’مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے تقریباً ناقابل حل مسائل پیدا کر دیے ہیں اور ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لیے ایسا لگتا ہے کہ صرف ایک معجزہ ہی اسے اس تباہی سے بچا سکتا ہے جس کا دنیا کو سامنا ہے۔ ہمیں دنیا کے سامنے ایک ایسا معاشی نظام پیش کرنا چاہیے جس کی بنیاد اسلامی مساوات اور سماجی انصاف کے حقیقی اسلامی تصوّر پر ہو۔ ‘‘
پاکستان کے مرکزی مالیاتی ادارے کا سنگ ِبنیاد رکھتے ہوئے اس اصولی موقف کا اظہار اس امر کا غماز ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی آئینی تاریخ اور سود کی حرمت کا مسئلہ بالکل آغاز ہی سے پہلو بہ پہلو رہا ہے۔۱۹۵۶ء کے آئین اور۱۹۶۲ءمیں تشکیل پائے جانے والے آئین دونوں میں صاف اور غیر مبہم طور پر یہ بات درج تھی کہ حکومت ِ پاکستان نظامِ معیشت سے سود کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے بھر پور کوشش کرے گی۔ اس کے بعد۱۹۷۳ءکےآئین جسے ہماری تاریخ کا متفقہ آئین اور دستور مانا جاتا ہے‘ کی شق ۲۲۷میں یہ طے کیا گیا کہ پاکستان میں کوئی بھی قانون قرآن وسُنّت کے مخالف نہیں بنایا جائے گا اور عملاً اس کا باقاعدہ نظام وضع کرنے کی غرض سے اسیآئین کی دفعات۲۲۸تا۲۳۰ کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل کے نام سے ایک آئینی ادارہ بھی تشکیل دیا گیا۔۳دسمبر۱۹۶۹ء کو اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی آئینی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے اپنی ایک رپورٹ میں اتفاقِ رائے سے اس امر کا اظہار کیا کہ ’’ربا‘‘ اپنی ہر صورت میں حرام ہے اور شرح سود کی کمی بیشی سود کی حرمت پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ مزید یہ کہ موجودہ بینکاری نظام کے تحت افراد ‘ اداروں اور حکومتوں کے درمیان قرضوں اور کاروباری لین دین میں اصل رقم پر جو اضافہ یا بڑھوتری لی یا دی جاتی ہے ‘ سیونگ سرٹیفکیٹ میں جو اضافہ دیا جاتا ہے‘ پراویڈنٹ فنڈ اور پوسٹل بیمہ زندگی وغیرہ میں جو سود دیا جاتا ہے‘اور اس کے ساتھ ساتھ صوبوں‘مقامی اداروں اور سرکاری ملازمین کو دیے گئے قرضوں پر اضافہ بھی سود ہی کی ایک قسم ہے‘ لہٰذا یہ تمام صورتیں حرام اور ممنوع ہیں۔
کونسل کی مذکورہ بالا رپورٹ کےآٹھ سال بعد۲۹ستمبر۱۹۷۷ء کو صدرِ پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے کونسل کو ہدایت کی کہ کونسل ضروری تحقیق اور تفتیش کے بعد ایسے طریقے بھی تجویز کرے جن کو اپنا کر سود جیسی لعنت کا خاتمہ کیا جاسکے۔ چنانچہ کونسل نے بینک ماہرین‘ماہرین اقتصادیات اور علماء سے طویل مشاورت اور عالمی سطح پر اس مسئلے کی پیچیدگیوں کے گہرے مطالعے کے بعد۲۵جون۱۹۸۰ء کو اپنی رپورٹ صدرِ پاکستان کے سامنے پیش کردی۔ اس رپورٹ میں سود کو ختم کر کے اس کے متبادل نظام کی جملہ تفصیلات درج تھیں اور کہا گیا تھا کہ ان تجاویز پر عمل درآمد سے دو سال کے اند ر اندر پاکستان کی معیشت سود سے مکمل طور پر پاک ہوسکتی ہے۔
گویا۱۹۸۰ء تک اللہ تعالیٰ نے پاکستانی حکمرانوں کو بھرپور موقع فراہم کر دیا تھا کہ وہ سود کی لعنت سے پاک معاشی نظام کو پاکستان میں رائج کر دیں۔اُس وقت تک ملک معاشی طور پر بالکل آزاد تھا اور کوئی بیرونی قوت معاشی ہتھکنڈوں کے ذریعے پاکستان کی پالیسی اور آزادی پر اثر انداز نہیں ہو سکتی تھی ۔ لیکن اس کے بعد دانستہ ہماری افسر شاہی اور اشرافیہ نے اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے ساتھ جنگ کا باقاعدہ اعلان کر دیا ۔ چنانچہ اسلامی نظریاتی کونسل نے ایک اور revised reportتیار کی جس میں ان الفاظ میں تنبیہہ اور اظہارِ افسوس کیا گیا کہ’’ کونسل نے۸۱۔۱۹۸۰ء میں کیے جانے والے ان اقدامات کا جائزہ لیا جو حکومت نے اسلامی نظامِ معیشت کے نفاذ کے سلسلے میں انجام دیے ہیں‘ان میں خاتمہ سودکے لیے کیے جانے والے حکومتی اقدامات‘ان سفارشات کے بالکل برعکس ہیں جو کونسل نے تجویز کیے اور حکومت نے وہ طریقہ اختیار کیا جو مقصد کو فوت کرنے کا سبب بن گیا۔‘‘ گویا حکمرانوں کواللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ ختم کرنے کا جو موقع ملا تھا اس سے فائدہ اٹھانے کےبجائے حکمرانوں نے اس جنگ کو دانستہ جاری رکھنے کا اعلان کر دیا اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عمل درآمد کی بجائے آئی ایم ایف سے گٹھ جوڑ کو ترجیح دی ۔اس کےنتیجہ میں پاکستان پر معاشی شکنجہ بھی کسا جانے لگا ۔
۱۹۸۸ء سے پہلے پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین ہونے والے معاہدے قلیل مدتی بنیادوں پر ہوتے تھے جن میں عمومی طور پر قرض معاشی اصلاحات سے مشروط نہیں ہوتے تھے‘ تاہم۱۹۸۸ء کے بعد اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرامز شروع ہو گئے جس کے تحت بے نظیر بھٹو نے۹۱کروڑ ڈالر کا قرضہ لیا ۔ اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرامز (SAP)وہ ہوتے ہیں جن میں قرض دینے والا ادارہ شدید معاشی مشکلات کے شکار قرض حاصل کرنے والے ممالک کو مخصوص شرائط کے تحت نیا قرض دیتا ہے۔
حکمرانوں کی ان سرکشیوں کے باوجود اللہ تعالیٰ نے مملکت ِخدادادپاکستان کو ایک موقع اور دیا ۔۱۹۹۰ء میں ایک پاکستانی محمود الرحمٰن فیصل نے وفاقی شرعی عدالت میں پٹیشن داخل کی اور عدالت سے استدعا کی کہ رائج الوقت سودی نظامِ معیشت کو غیر اسلامی قرار دے کر اس پر پابندی عائد کی جائے اور حکومت ِ وقت کو ہدایت کی جائے کہ پاکستان کے معاشی نظام سے سود جیسی لعنت کا خاتمہ کیا جائے۔ وفاقی شرعی عدالت نے اس کیس اور اسی سے ملتے جلتے ۱۱۴دیگر کیسز کی مشترک سماعت کی اور اکتوبر۱۹۹۱ء میں اپنا تاریخی فیصلہ سنایاجس میں بینکنگ سمیت تمام سودی لین دین کو حرام قرار دیا گیا اور وفاقی حکومت اور تمام صوبوں سے بھی کہا گیاکہ وہ ۳۰ جون۱۹۹۲ء تک متعلقہ قوانین میں تبدیلی کرلیں اور یہ بھی کہ یکم جولائی ۱۹۹۲ء سے تمام سودی قوانین غیر آئینی ہوجائیں گے اور تمام سودی کاروبار غیر اسلامی ہونے کی بنا پر ممنوع قرار پائیں گے۔
وفاقی شرعی عدالت کے مذکورہ بالا فیصلے کو عوامی سطح پر زبر دست پذیرائی ملی اور یہ امید پیدا ہوگئی کہ شاید پاکستان کے قیام کے۴۵سال بعد اب ہمارا معاشی قبلہ درست ہوجائے گااور عوام کو سود جیسے استحصالی اور ظالمانہ ہتھکنڈے سے نجات مل جائے گی۔لیکن ۳۰جون کے آنے سے پہلے ہی نواز شریف حکومت کی پشت پناہی میں نہ صرف مالیاتی اداروں‘ بینکوں اور بعض افراد نے سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بینچ میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کردیںبلکہ نواز شریف نےIMFسے ۱ء۵۹ ارب ڈالر کا مزید معاہدہ بھی کر لیا ۔نواز شریف کو تو اس کی فوری سزا مل گئی کہ جولائی۱۹۹۳ء میں استعفاءدے کر اقتدار چھوڑنا پڑا ۔ لیکن اس کے بعد آنے والی بے نظیر حکومت نے بھی اس سے کوئی عبرت حاصل نہ کی اورIMFسے اسی پروگرام کے تحت دوارب ڈالر کا مزیدقرضہ لے لیا ۔ دوسری طرف سود کے فیصلے کے خلاف اپیلیں بھی اللہ اور اُس کے رسول ﷺ سے جنگ کے خاتمے میں رکاوٹ بن گئیں ۔
اللہ تعالیٰ نے مملکت ِخداداد پاکستان کو تیسرا موقع فراہم کیا اور بالآخر۱۹۹۹ء کے اوائل میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک شریعت اپیلیٹ بینچ تشکیل دیا گیا جس نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو عمومی طور پر درست قرار دیتے ہوئے جدید بینکاری سمیت تمام دیگر سودی قوانین کو اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں ممنوع اور حرام قرار دے دیا اور حکومت ِ وقت کو مزید مہلت دیتے ہوئے ہدایت جاری کی کہ وہ جون۲۰۰۱ءتک تمام غیراسلامی قوانین کو نئے قوانین سے بدل کر بینکنگ سمیت دیگر معاشی معالات کو سود سے پاک کردیں۔لیکن حکمرانوں نے تیسری بار بھی مہلت سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے ساتھ جنگ جاری رکھنے کا اعلان کر دیا۔ چنانچہ جون۲۰۰۱ء آنے سے پہلے پرویز مشرف حکومت نے ایک درخواست شریعت بینچ کے سامنے دائر کی جس میں سودی نظام کو ختم کرنے کے لیے مزید دو سال کی مہلت مانگی گئی۔حقیقت میں مقصود مہلت مانگنا نہیں تھا‘بلکہ جنگ کو جاری رکھنے کا جواز حاصل کرنا تھا ۔ تاہم بینچ نے اس عرضی کی بنیاد پردو سال کی بجائے ایک سال کی مہلت دی اور ہدایت کی کہ جون۲۰۰۲ء تک مطلوبہ آئینی و انتظامی اقدامات مکمل کرلیے جائیں۔ جب عدالت کی دی ہوئی مہلت ختم ہونے کو آئی توپرائیویٹ بینک UBLکی جانب سے نظر ثانی کی ایک اور درخواست عدالت میں داخل کی گئی‘لیکن پھر PCOپر حلف نہ اُٹھانے کی سزا کے طور پر اپیلیٹ بینچ کے ممبران کو ہی فارغ کر دیا گیا اور نئے تشکیل دیے گئے بینچ نے ۲۴جون۲۰۰۲ء کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے شریعت اپیلیٹ بینچ کا۲۳دسمبر ۱۹۹۹ءکا فیصلہ اور وفاقی شرعی عدالت کا ۱۴نومبر۱۹۹۱ءکا فیصلہ بیک جنبش قلم منسوخ کردیا اور مقدّمے کو ازسرِ نوسماعت کے لیے دوبارہ وفاقی شرعی عدالت میں بھیجنے کے احکامات صادر کردیے۔ اس طرح گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیے گئے تین مواقع کو ٹھوکر مار کر اللہ اوراُس کے رسول ﷺ سے جنگ جاری رکھنے کا اعلانِ بغاوت سرعام کیا گیااور اس کے ساتھ ساتھ پرویز مشرف نے۲۰۰۱ء تک آئی ایم ایف سے دوارب ڈالرکے قرضے مزید لیے ۔ پھر مشرف کے ہی جانشین آصف علی زرداری نے ۲۰۰۸ء میںسات ارب ڈالرکے قرضے مزید لیے ۔ گویا اب کھل کر اور بڑے پیمانے پر اللہ اور اُس کے رسول ﷺسے جنگ شروع ہو چکی تھی۔
اللہ تعالیٰ اسلام کے نام پر بننے والے ملک کو باقی رکھنا چاہتا تھا‘اس لیے ایک چوتھا موقع پھردے دیا کہ۴/اگست۲۰۱۲ء کو تنظیم اسلامی کی طرف سے ایک درخواست بعنوان Application to fix for hearing فیڈرل شریعت کورٹ میں داخل کی گئی جس میں انسدادِ سود کی سابقہ کوششوں اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے۱۹۹۹ء اور ۲۰۰۲ء کے فیصلوںکو بنیاد بناتے ہوئے یہ استدعاکی گئی کہ انسدادِ سود کے کیس کو سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔لیکن وفاقی شرعی عدالت کی جانب سے۱۷ اگست ۲۰۱۲ء کو یہ جواب موصول ہوا کہ چونکہ درخواست گزار متذکرہ بالا کیس میں پارٹی نہیں ہے اور یہ درخواست فیڈرل شریعت کورٹ کے Procedure 1981 کے مطابق نہیں اس لیے یہ درخواست رد کی جاتی ہے۔اس جواب کے موصول ہونے پر۲۸جولائی۲۰۱۳ء کوتنظیم اسلامی کی جانب سے ایک دوسری درخواست بعنوان Petition under article 203-D of the Constitution of Pakistan 1973 دائر کی گئی‘جس میں پاکستان کے آئینی تشخص اور ریاست ِپاکستان کی آئینی ذمہ داریوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ استدعاکی گئی تھی کہ معزز عدالت اسلامی جمہوریہ پاکستان سے سود کے خاتمے کے لیے حکومت کو ہدایت جاری کرے۔۲۶ستمبر۲۰۱۳ء کو یہ پٹیشن برائے سماعت قبول کرلی گئی اور اس جیسی دوسری متعدد درخواستوں کو یکجا کرتے ہوئے مشترکہ طورپر تمام کیسز سننے کا عندیہ ظاہر کیاگیا۔اس دوران۱۴سوالات کے جوابات بھی داخل کیے گئے۔مزید برآں‘ امیر تنظیم اسلامی کی قیادت میں ۳۰مارچ۲۰۱۵ء کو سپریم کورٹ میں ایک اورکیس داخل کیا گیا جس میں درخواست کی گئی کہ معزز عدالت آئین کے آرٹیکل 38-Fکے تحت ملک سے ربا کو ختم کرنے کی ہدایت جاری کرے تاکہ ملک کو اللہ کے غضب سے بچایا جا سکے ۔ اس دوران۹مئی ۲۰۱۵ء کورجسٹرار آفس سے یہ جواب موصول ہوا کہ متعدد وجوہات کی بنا پر یہ درخواست مسترد کر دی گئی ہے‘لہٰذا یہ قابل سماعت نہیں ۔ یعنی افسرشاہی کسی صورت اللہ سے جنگ ختم کرنے کو تیار نہیں تھی۔ چنانچہ ۲۳مئی۲۰۱۵ء کو ایک Civil Miscellaneous اپیل داخل کی گئی جس میں یہ تقاضا کیا گیا تھا کہ رجسٹرار آفس اس بات کا مجاز نہیں ہے کہ کسی ایسی آئینی پٹیشن کو رد کر سکے جس میں بنیادی حقوق کا معاملہ پیش نظر ہو۔ لہٰذا یہ درخواست کی گئی کہ رجسٹرار آفس کی طرف سے عائد کردہ اعتراضات مسترد کرتے ہوئے ہماری پٹیشن کو کورٹ کے سامنے پیش کیا جائے۔اس درخواست کو قبول کرتے ہوئے۵اکتوبر۲۰۱۵ء کو ایک مختصر سی کارروائی کے بعد اس بنیاد پر کہ معاملہ پہلے سے فیڈرل شریعت کورٹ میں subjudiceہے‘ اس درخواست کو مسترد کردیا گیا۔
دوسری طرف۲۰۰۸ء سے ۲۰۱۳ء تک کے پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دورِ اقتدار کے خاتمے پر بیرونی قرضہ ۵۹ارب ڈالر تھا۔۲۰۱۳ءمیں نون لیگ کا روشن دور شروع ہوا‘ جس کے اختتام پر بیرونی قرضہ۹۳ارب ڈالر تھا۔۲۰۱۹ء میںعمران خان نے چھ ارب ڈالر کا معاہدہ کیا ۔۲۰۱۹ء کی پہلی سہ ماہی تک پاکستان پر قرضے ۱۰۶ارب ڈالر ہو چکے تھے جو خام ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کےساڑھے بہتّرفیصد سے زیادہ ہو گئے‘یعنی ملک بدترین معاشی بحران کا شکار ہو چکا تھا ۔
اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر موقع فراہم کیا اور وفاقی شرعی عدالت نے ۲۸/اپریل۲۰۲۲ء کو سود کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے انٹرسٹ ایکٹ ۱۸۳۹ء اور سود سے متعلق تمام شقوں کو یکم جون ۲۰۲۲ء سے غیر مؤثر قرار دے دیا اورحکومت کو۳۱دسمبر۲۰۲۲ء تک متبادل قوانین لانے اور۲۰۲۷ء تک پاکستان کے معاشی نظام کو مکمل طور پر سود سے پاک کرنے کا حکم نامہ جاری کیا۔ لیکن یہ پانچواں موقع بھی ضائع کرتے ہوئے حکمرانوں اور اشرافیہ نے اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے ساتھ جنگ جاری رکھنے کا اعلان کیا اورسٹیٹ بینک کی قیادت میں چند دیگر پرائیویٹ بینکوں نے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ۔ حکومت ِوقت کو تو فوری طور پر اس کی سزا مل چکی ہے‘لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ قوم پر مہنگائی کی صورت میں جو عذاب نازل ہورہا تھا اس میں بھی ایک دم شدّت آچکی ہے۔ اور صرف چند روز میں ڈالر کی قیمت بڑھ کر۲۲۸روپے تک پہنچ چکی ہے جو مہنگائی کے ایک اور عذاب کا اعلان ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بیرونی قوتوں کی مداخلت بھی حد درجہ سے بڑھ کر قومی سلامتی اور خود مختاری کو خطرے میں ڈالتی ہوئی نظر آرہی ہے ۔
اسلام کے نام پر بننے والا ملک جس کا مقصد قیامِ اسلام کے نظام کا حقیقی اور روشن چہرہ دنیا کو دکھانا تھا‘آج خود باطل قوتوں کے رحم و کرم پر ہے ۔ یہاں تک کہ اب پاکستانی قوم نہ چاہتے ہوئے بھی امریکہ اور آئی ایم ایف کی معاشی اور سیاسی غلام بن چکی ہے ۔ یہ سب اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے ساتھ جاری اعلانیہ جنگ ہی کانتیجہ ہے۔ہمارے حکمرانوں اور اشرافیہ کواب بھی سمجھ جانا چاہیے کہ وہ اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے ساتھ اس جنگ کو جاری رکھ کر قطعاًفائدے میں نہیں رہیں گے اور نہ ہی ملک و قوم کو اس جنگ میں کوئی فائدہ پہنچاہے۔لہٰذا حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کےخلاف اپیلیں واپس لے کر اس جنگ کو ختم کرنے کا اعلان ابھی سے کردیں‘جب کہ عوام کو چاہیے کہ وہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے حق میں اُٹھ کھڑے ہوںاور ایسی زوردار تحریک چلائیں کہ حکمران اس جنگ کو ختم کرنے پر مجبور ہوجائیں۔اس طرح ممکن ہے اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کو معاف کردے اور ہمار ے سروں پر سے عذاب کوٹال دے۔ لیکن اگرحکمران ابھی بھی سرکشی سے باز نہ آئے اور نہ ہی عوام جاگے تو پھر اللہ کے شدید عذاب سے بچنا اب ناممکن ہے ۔