(الدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ) وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا - ملاہبت اللہ اخوندزادہ

8 /

وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا
امیر المؤمنین امارتِ اسلامیہ افغانستان ملا ہبت اللہ اخوندزادہ
کالویہ جرگہ ہال کابل  میں علماء کنونشن (۲۹ جون تا یکم جولائی ۲۰۲۲ء)سے خطاب

الحمد للہ وکفٰی وسلام علٰی عبادہ الذین اصطفیٰ
اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

{وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا ۭ وَاِنَّ اللہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ(۶۹)}(العنکبوت)
وقال رسول اللہ ﷺ ((اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ)) قیل لمن یا رسول اللہ؟ قال: ((لِلہِ وَ لِکِتَابِہٖ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِأَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ وَعَامَّتِھِمْ)) اَوکمَا قالَ رسُولُ اللہ ﷺ
صدق اللہُ ورسولہُ النبی الکریم‘ ونحن علٰی ذلک من الشَّاھِدین وَالشّاکِرین‘ والحمد للہ ربّ العالمین

معزز عمائدین ‘حضرت شیخ صاحب اور ان کے معاونین اور اس قابل ِقدر مجلس کے شیوخ کرام ‘علمائے کرام ‘مجاہدین عظام‘ قوم کے مخلص رہنما‘اسلامی امارت کے محترم و مکرم مسئولین اور افغانستان کے قابل قدر مسلمان عوام‘ جو آج کے اس جلسے میں شریک ہیں‘ سب کو میری طرف سے السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
قابل قدر سامعین! سب سے پہلے یہ فتح جو اللہ تعالیٰ کا افغانیوں پر بالخصوص اور پوری دنیا کے مسلمانوں پر بالعموم ایک عظیم انعام ہے‘مَیںاس فتح وکامرانی کی مبارکباد اس جلسے کے تمام شیوخ کرام ‘ مجاہدین عظام اور تمام مخلص مسلمانوں کو پیش کرتا ہوں ‘آپ سب کو بہت بہت مبارک ہو۔اس فتح کے لیے جنہوں نے جہاد کے دوران قربانیاں دی ہیں ‘ ان مجاہدین اور عوام کے شہداء کے لیے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو جنّت الفردوس عطا فرمائے اور ان کی شہادتوں کو قبول فرمائے اور تمام مجاہدین اور افغان عوام کی تکالیف اور زخموں کو اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے ۔میں اس بیس سالہ جہاد میں مخلص افغان عوام کیبے پناہ قربانیوں پر ان کا شکر یہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے مجاہدین کے شانہ بشانہ جہاد کو جاری رکھا اورکامیابی تک پہنچا دیا ۔ اللہ جل جلا لہ ان کی قربانیاں قبول فرمائے ۔ جن شہداء کےپیچھے یتیم بچے رہ گئے ہیں‘اللہ تعالیٰ ان کی بہترین کفالت فرمائے۔اللہ جل جلا لہ امارتِ اسلامیہ کے مجاہدین اور مخلص عوام کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ ا ن یتیم بچوں کی اچھی پرورش کر سکیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اُن بے کسوں اور بیوائوں کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے جنہوں نے اس بیس سالہ جہاد میں ہر قسم کی تکالیف اُٹھائیں۔اللہ تعالیٰ اُن پر بھی عظیم رحم فرمائے جنہوں نے ہر نماز کے بعد مجاہدین کی کامیابی کے لیے دعائیں مانگی ہیں۔پوری دنیا میں جس جس نے بھی ہمارے جہاد کی حمایت کی ہے‘چاہے قول سے کی ہے‘ دعا سے کی ہے یا اخلاقی لحاظ سے کی ہے‘اللہ تعالیٰ ان کو بھی غزوۂ بدر کے جہاد جیسی جزاعطا فرمائے۔ہم سب کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔
ان آخری ایام میں اللہ جل جلا لہ نے ہمیں بہترین امن عطا فرمایا ہے جس کے سب قائل ہیں ۔پچھلے دنوں ہمارے عوام کو چند بڑے مصائب کا سامنا کرنا پڑا‘جیسے خوست اورپکتیامیں زلزلہ آیا ۔ اللہ جل جلا لہ ان تمام لوگوں کو دنیا و آخرت کا اجر عطا فرمائے جو ان مصائب کا شکار ہوئے اور اللہ جل جلا لہ ہم سب کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ جو لوگ ان مصائب کا شکار ہوئے‘اُن کی خدمت اور اُن کے ساتھ ہمدردی کریں۔ ان کو نہ اپنی دعائوں میں بھولیں اور نہ اپنی مدد میں بھولیں۔ اگر آپ کے پاس دو روٹیاں بھی ہو ں تو ایک خود کھائیں اور ایک ان کو کھلائیں۔
محترم بھائیو!تمام علمائے کرام نے بڑی قیمتی باتیں اور تجزیے فرمائے ۔افغان جہاد کی کامیابی صرف افغان عوام کے لیے افتخارواعزاز نہیںبلکہ پوری دنیاکے مسلمانوں کے لیے اعزاز ہے ۔رمضان کے اوائل میں دنیا کے مسلمان اور شیوخ مجھے رمضان کی مبارکباد دے رہے تھے‘ یہ ان کی خوشی کی علامت ہےکہ دنیااس بات پر خوش ہے کہ افغانستان میں مجاہدین کو کامیابی ملی ہے ۔اس پر پوری دنیا کے مسلمان بہت خوش ہیں۔اس لیے کہ مسلمان اسلام کو جانتےہیں‘ انہوں نے اسلام کا مطالعہ کیا ہے ‘اسلام کے اخلاق اور احکام سے واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ اسلام میں ہر کسی کو اس کا جائز حق مل جاتا ہے ۔ اسلام میں لوگوں کی زندگی امن و سلامتی میں آجاتی ہے ۔مسلمان تو جب بھی ایک دوسرے سے ملتے ہیںتو ایک دوسرے کو پہلاپیغام ہی یہ دیتے ہیں کہ السلام علیکم۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام سلامتی کا دین ہے کہ ایک مسلمان دوسرے کو یہ ضمانت دیتا ہے کہ میری طرف سے آپ محفوظ ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ ایمان اپنے کمال کو تب ہی پہنچتا ہے جب ایک مسلمان کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے محفوظ ہو جائیں۔ اسلام مسلمانوں کی ایسی تربیت کرتا ہے کہ وہ نہ زبان سے کسی کو تکلیف دیں‘نہ ہاتھ سے ‘اُن کا مال بھی محفوظ ہو اور ان کی عزّت و آبرو بھی محفوظ ہو ۔ لہٰذا جو اسلامی شعار کے تحت کامیاب ہوتا ہے تو لوگ خوش ہو جاتے ہیںکہ یہ تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس لیے جہاد کیا کہ اسلام کا بول بالا ہو ‘ اللہ کا کلمہ سر بلند ہو۔ وہ اس لیے خوش ہوتے ہیں کہ اب ان کا دیا ہوا پیغام عملی جامہ پہنے گا ۔قتل العباد اور تخریب البلاد جہاد کا فی نفسہٖ مقصود نہیں۔یہ جوبیس سال ہم نے گھروں کو مسمار ہوتے‘ انسانوں کو قتل ہوتے دیکھا اور دوسری خرابیاںدیکھیں‘یہ سب کچھ ہم نے اس لیے برداشت کیا کہ اس کے نتیجے میں ایک نظام آئے گا جو اسلام کا نظام ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے بالآخر ہمارے جہاد کوکامیابی سے ہمکنار کیا۔اب لوگ بہت خوش ہیںاوریہ امید رکھتے ہیں کہ جوپیغام مجاہدین جہادکے دوران اپنے قول اور فعل سے دے رہے تھے اب اس پیغام کو عملی شکل میں دیکھنے کا موقع آچکا ہے ۔اب سب اس انتظارمیں بیٹھے ہیں کہ اسلامی نظام کا نفاذ کب ہوگا ۔دنیا میں حکومتوں کی سیاست تو اس طریقے سے چلتی ہے کہ ایک پارٹی دوسری پارٹی کے خلاف لوگوں کو بھڑکاتی ہے اور جب اس کو اقتدار مل جاتا ہے تو پھر وہ اپنے اپنے مفاد کو لے کر آگے چلتی ہے اور ان کو مسلمانوں کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔اب ہمارے عوام اس انتظار میں ہیں کہ جہاد کے نعرے کی عملی شکل کب نظر آئے گی‘ جنہوں نے اس عظیم جہاد میں اپنے بچے قربان کیے اور اپنے گھر ویران کیے ہیں ۔ میرے معصوم بیٹے کا خون اور روح بھی اس راستے میں قربان ہوگئی ہے۔شہید کا خون اللہ کو اتنا عزیز ہے کہ وہ اپنے کلام میں فرماتا ہے کہ میں تم میں سے عزّت والوں کو شہید بناؤں گا ۔یہ سب کچھ اس نعرے کے تحت ہوا کہ اسلام کا نظام آئے گا‘ شریعت آئے گی ۔اب ان سب کے آنے کا وقت ہے ۔امن فی نفسہٖ اس لیےمقصود ہے کہ اسلام کے مقاصد پورے ہوں اور ان کے نفاذ کی رکاوٹیں دور ہو ں۔بیس سال قبل افغانستان میں دین و شریعت کی بات کرنا ممکن نہ تھا ‘ایسی بات کی سزا یاتوقید تھی یا جسمانی تشدد ۔اس جہاد کے نتیجے میں دعوت الی اللہ کو آزادی ملی‘شریعت کی بالادستی کی راہ ہموار ہوئی اوررکاوٹیں دور ہوگئیں۔
اب مزید انتظار نہیں ہونا چاہیے ‘اب فور اًاس سرزمین پر اللہ کا نظام نافذ ہونا چاہیے۔اپنے وعدے کے مطابق شریعت کا نفاذ ہونا چاہیے۔دنیا کے کافر ہم سے زمین کی خاطر لڑنے نہیں آئے تھے ‘یہ پیسے کی جنگ نہیں تھی‘کسی بھی چیز کی لڑائی نہیں تھی‘ صرف ایک چیز کی جنگ تھی اور وہ ہے نظریہ اور عقیدہ ۔وہ چاہتے تھے کہ ہمارا نظریہ اور عقیدہ دبا دیا جائے ‘جہاد اور شریعت کی آواز کو خاموش کر دیا جائے ۔یہ جنگ اب بھی پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچی‘یہ اب بھی جاری ہے اوریہ قیامت تک جاری رہے گی ۔ ھٰذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوْا فِیْ رَبِّھِمْ ‘یہ دو پارٹیوں کی جنگ ہے۔نہ میں اُن کو اپنے اوپر اُن کا قانون نافذ کرنے دیتا ہوں اور نہ وہ مجھے اپنا شرعی قانون نافذ کرنے دیتے ہیں ۔میرا اور ان کا یہ مبارزہ مرتے دم تک جاری رہے گا۔میرے بعد کوئی اور یہ منصب سنبھال لے گا ‘اس مقابلے میں شریک ہوگا اور یہ مقابلہ جاری رہے گا ۔جب سے ہم نے ان سے یہ جنگ شروع کی ہے ہم نے ان کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ۔ہمارے اور ان کے مابین جس چیزپر جھگڑا ہے اس میں کسی قسم کاسمجھوتہ نہیں ہو سکتااور نہ آئندہ اس کا کوئی امکان ہے۔ منہ سے شریعت کا نعرہ لگانا بڑا خوبصورت ہے‘بڑا مزہ آتا ہے‘لیکن اب اس نعرے کو عملی شکل دینے کے لیے ہمیں مقابلہ کرنا ہے اورتکالیف جھیلنی ہیں ‘ سروں پرکفن باندھنے ہیں ۔آج کی دنیا آسانی سے یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ تم اسلام کو نافذ کرنا چاہتے ہواور وہ یہ کہے کہ ٹھیک ہے نافذ کرو!ابھی تو عملی چیزیں جیسے قصاص اور دیگر حدود اللہ نافذ ہی نہیں ہوئیں۔جب ہم ان کو نافذ کریں گے تو پھر ان کا ردّ ِعمل سامنے آئے گا ۔
بھائیو !بات یہ ہے کہ ہماری نصرت کرنے والی ذات صرف ایک اللہ کی ہے اور اسی کی رضا ہی ہمارا مقصود ہے ۔ باقی پوری دنیا اس قابل نہیں کہ ہم اُن معاملات میں ان کی بات مان لیں جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو۔ہمیں اللہ کو راضی کرنا ہے‘اسی کی مدد حاصل کریں گے‘جس نے آج افغانستان میں دنیا کی متکبر قوت کو توڑا اور وہ بھاگنے پر مجبور ہوئے۔ قطرکے مذاکرات کے دوران خبریں آ رہی تھیں کہ امریکہ ان شرائط کے ساتھ افغانستان سے نکلے گا۔مَیں اس بارے میں بڑا ہی فکر مند تھا کہ امریکہ تو چلا جائے گالیکن اگر وہ اپنے افغانی غلاموں کو ہم سے حالت ِ جنگ میں چھوڑ گیا تو پتا نہیں ہم کب تک اپنے افغانی بھائیوں سے لڑتے رہیں گے۔مجھے بہت پریشانی تھی لیکن ربّ ذوالجلال نے ایسی نصرت فرمائی کہ ابھی امریکہ نکلا بھی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارا اندرونی معاملہ حل کردیا اور خانہ جنگی ختم ہوگئی ۔افغان مسلمانوں کو مارنا کبھی بھی ہمارا مقصود نہیں رہا۔اگر ہم مسلمان کے قتل کو اپنا مقصود بنا لیں تو ہم تو تباہ ہو گئے ۔اگر ہماری کارروائیوں میں افغان مسلمانوں کو کوئی تکلیف پہنچی ہو تو یہ معاملہ اُس جہاد کی خاطر تھا جو کُفّار کے انخلاء کے لیے جاری تھا‘تاکہ ایسی فضا قائم ہو جو آج قائم ہے کہ عام مسلمانوں کو امن میسّر ہو۔ اگرچہ ہمارے افغان بھائی دشمن کی صف میں کھڑے تھے‘مَیں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ ان کو مارنا ہرگز ہمارا مقصد نہیں تھا‘لیکن یہ دشمن کی حفاظت کے لیے ڈھال بن رہے تھے‘ لہٰذا جب دشمن بھاگ گیا تو یہی ہمارا پیغام اور نعرہ ہے کہ افغانیوں کو مارنا ہمارا مقصود نہیں ۔چھوٹے ہوں یا بڑے‘ مرد ہو ںیا خواتین سب ہمارے قابل قدر افغان بہن بھائی ہیں ۔جیسے ہی دشمن نے اپنی بساط لپیٹی ہم نے افغان بھائیوں سے درخواست کی کہ آؤ اسلحہ رکھو ‘جنگ ختم کرو!جو کچھ تم نے کیا ہے وہ سب تمہیں معاف ۔تم نے بہت مظالم ڈھائے ہیں ‘ٹینکوں سے مجاہدین کو اڑایا ہے۔تم نے ایسے مظالم ڈھائے ہیں جن کی مثال شاید تاریخ میں بھی نہ ملے‘ اور ایسے لوگوں پر ڈھائے ہیں جو مدرسے کے حفاظ تھے ‘ طالب علم تھے اوراولیاءاللہ تھے ‘لیکن کوئی بات نہیں!
اگرچہ مجھے شریعت یہ حق دیتی ہے کہ ان معاملات میں ان سے بدلہ لوں‘ لیکن ہم عام معافی کااعلان کرتے ہیں ۔مَیں نے علماء سے بھی بات کی ہے اور انہوں نے فتویٰ بھی دیا ہے کہ جو شخصی حقوق شریعت نے دیےہیں ان کا قصاص لیا جائے‘لیکن مَیں پھر بھی معافی کا اعلان کرتا ہوں‘کیوں کہ ہمارا جہاد للہ فی اللہ تھا۔اگر مجھے مجاہدین میں دورانِ جہادیہ اخلاص نظر نہ آتایاآج بھی نظر نہ آئے تو خدا کی قسم! مَیں ایک دن بھی اس منصب پر نہیں بیٹھوں گا‘کیوں کہ مَیں مسلمان ہوں اور مجھے آخرت کی فکر ہے۔مَیں ایسی جماعت میں رہنا چاہتا ہوں جومیری اخروی نجات کا باعث بنے۔
اگر مجھے طالبان کی جماعت سے زیادہ صالح اور مخلص جماعت زمین پر نظر آتی تو مَیں طالبان کے ساتھ نہ ہوتا بلکہ اس جماعت میں ہوتا۔ یہ ان کی حقانیت اور صالحیت کی علامت ہے کہ انہوں نے عام معافی کے اعلان کو صحیح معنوں میں عملی جامہ پہنایااوریہ اعلان اس بات کی دلیل ہے کہ افغان بھائیوں کا قتل نہ تب ہمارا مقصود تھا اور نہ اب۔ اگر کسی کو مارا بھی ہو تو یہ ایک عظیم مقصد اور امن کے قیام کی خاطر مارا ہوگا‘کیونکہ حدود اللہ کے نفاذ کا مقصد امن کا قیام ہے۔ امن آچکا ہے جو جہاد کا مقصد تھا۔ ہماری وزارتوں اور ولایتوں میں موجود مجاہدین اور علمائے کرام بڑے مخلص اور متقی لوگ ہیں۔ امن جتنا عوام کے لیے ضروری ہے اتنا ہی حکومت کے ڈھانچے کے لیے بھی ضروری ہے کہ اس ڈھانچے میں ایسے لوگ موجود ہوں جو فساد کو رفع کریں‘ رشوت خوری ختم کریں ‘ زور زبردستی کو ختم کریں ‘ عدل کی ضمانت ہو‘ اقربا پروری اور قوم پرستی کا خاتمہ ہو ۔لہٰذا حکومتی ڈھانچے کے لیے امن بہت ضروری ہے۔ اگر حکومت کے اندر امن نہ ہو ‘ رشوت خوری ہو‘ اقرباپروری ہو ‘ قوم پرستی ہو تو یہ حکومت نہیں‘ یہ امن نہیں۔ یہ مسلمانوں کی حکومت نہیں بلکہ کچھ لوگوں کی ذاتی حکومت ہے جو چند دن یہ ریاست چلا کر غائب ہو جائیں گے ۔
امام کاتصرف اُمّت کی مصلحت کی خاطر ہوتا ہے ۔ وہ مصالح عامہ کو دیکھتا ہے‘ ذاتی مصالح کو نہیں دیکھتا۔ اگر اپنوں کو نوازنا ہے تو یہ کام تو پچھلی حکومت میں ہو رہا تھا۔ ثباتِ امن کے دوام کے لیے شرط یہ ہے کہ خواہشات کو ترک کیا جائے‘تمام خواہشات شریعت کے تابع ہوں۔اپنی ذات میں بھی شریعت کا نفاذ ہو‘ اپنے گھر اور ادارے میں شریعت کو نافذ کرنا ہے ۔اگر آپ اپنے گھر میں شریعت نافذ نہیں کرتے تو پھر آپ کو یہ حق حاصل نہیں کہ آپ اس ملک میں شریعت نافذ کریں۔ اگر آپ کی اپنی ذات اور اپنے شعبے میں شریعت نافذ نہیں تو کیسے لوگ آپ کے اس دعوے کو سچامان لیں گے کہ مَیں اس سرزمین پر شریعت نافذ کرنا چاہتاہوں۔پھر تو میرا یہ دعویٰ جھوٹا ہوگا۔
شریعت کے نفاذ کا آغاز اپنی ذات سے ہوتا ہے ۔ہم نے اپنے آ پ کو شریعت کے تابع کرنا ہے نہ کہ شریعت کو اپنے تابع کرنا ہے ۔ شریعت کے والی اور مسئول کو تعزیرات کے معاملے میں معلوم ہونا چاہیے کہ کون مارے جانے کے قابل ہے ‘ کون قید کرنے کے قابل ہے ‘ کس کے ساتھ سختی سے بات کرنی ہے ۔ لوگوں کے ان منازل اور مراتب کا علم ایک مسئول کو ہونا چاہیے ۔ آج ہمیں ملت کی سرپرستی کی ذمہ داری دی گئی ہے ۔ ہر ایک اپنا حق مانگتا ہے ۔ چاہے کوئی بوڑھا ہے یا جوان‘ مرد ہے یا عورت ‘ یتیم ہے یا بیوہ ان تمام کی حوائج پوری کرنی ہیں ۔ اگر ہم نے اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دی تو پھر یہ امن ختم ہو جائے گا۔ جب خواہشات ترجیح بن جائیں تو امن رخصت ہوجاتا ہے ۔ پچھلی حکومت میں خواہشات کی حکومت تھی‘اس لیے امن نہیں تھا۔ مجاہدین کے منہج میں شریعت حاکم ہے‘ خواہشات نہیں‘لہٰذا امن قائم ہے ۔ یہ امن و امان اگر باقی رہے گا تو شریعت کے ساتھ باقی رہے گا۔جب خواہشات اور ذاتی مفاد پیچھے رہ جائیں گے تب شریعت کا نفاذ ہوگا۔
شیوخِ کرام!مَیں آپ کوتاکید کرتا ہوں کہ اپنے مناصب پر رہتے ہوئے اپنے اُمراء کی اطاعت کیا کریں۔مقامی امیر اپنے والی کی اطاعت کرے ‘ والی اپنے وزیر کی اور وزیر اپنے امیر کی اطاعت کرے ۔ اگر یہ اطاعت رہے گی تو خواہشات کا خاتمہ ہوگا اور اگر اس اطاعت میں کوئی بے نظمی شروع ہو گئی تو ہر کوئی کہے گا کہ مَیں ہی حاکم ہوں‘کسی کی اطاعت کی ضرورت نہیں۔ ایک دوسرے کی شکایتوں کا سلسلہ شروع ہوجائے ‘ایک دوسرے سے حسد ہونے لگے ‘ اختلافات شروع ہوجائیں تو پھر خواہشات کی حکومت ہوگی ۔شریعت کی حاکمیت دو طبقات سے وجود میں آتی ہے ایک حاکم اور دوسرے علماء ۔اگر یہ دونوں ایک دوسرے سے جڑے رہیں یعنی علماء شریعت کے اخلاق کی ترغیب و تشویق دیتے رہیں اور مسئولین کو انحراف سے اور تجاوزات سے روکتے رہیں ۔اگر علماء اپنا یہ فرض ادا کرتے رہیں اور مسئولین علماء سے استغناء اختیار نہ کریںتو شریعت قائم رہے گی ۔ اگر حکام نے علماء کے لیے اپنے دروازے بند کیے تو پھر شریعت باقی نہیں رہے گی ۔ مجاہدین کی جو جہاد کی ذمہ داری تھی وہ انہوں نے پوری ہمت و حوصلے کے ساتھ سر انجام دی ہے۔ قربانیاں دیں ‘ اپنے گوشت اور خون سے کُفّار سے بڑا سخت مقابلہ کیا۔اللہ جل جلا لہ ان کی قربانیاں قبول فرمائے ۔ انہی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح سے نوازا ہے۔ اب جب شریعت کی تنفیذ کی باری آئی تو یہ مجاہدین کا کام نہیں‘ یہ علماء کا کام ہے ۔علماء اب اس نظام کی خاطراطاعت کو لازم پکڑیں گے اور اپنی عملی اطاعت سے دوسروں کو بھی اطاعت کا درس دیں گے ۔دنیا کے مسلمان اب تم سے رہنمائی چاہتے ہیں ‘ علمی اور اخلاقی رہنمائی کے منتظر ہیں۔
علماء کی ذمہ داری صرف یہ نہیں کہ وہ افغانستان میں اسلامی نظام کو کامیاب بنائیں‘بلکہ پوری دنیا میں شریعت کی راہبری اور راہنمائی افغان علماء کی ذمہ داری ہے ۔ حکومتی عہدوں میں بھی علماء آئیں گے ۔مَیں علماء کی ایسی ٹیمیں تشکیل دوں گا جو حکومتی عہدے سنبھال لیں ۔ کیا تم میری بات مانو گے ؟’’جی مانیں گے!‘‘( سامعین کا بلند آواز میں جواب )۔دیکھو عہدکے بدلے عہد۔ اگر تم میری بات مانو گے تو مَیں بھی تمہاری بات مانوں گا۔ اگر تم نہیں مانو گے تو مَیں نام کی قیادت نہیں چاہتا۔مَیں ویسے بھی آپ کا سیاسی قائد نہیں‘مَیں وزیر اعظم نہیں۔ مَیں انتخابات والا لیڈر نہیں‘مَیں جھوٹا قائد نہیں کہ دنیا میں اپنا نام چمکانے کے لیے بڑے بڑے وعدے کروں۔ اگر مجھے اپنا قائد مانتے ہو تو پھر میری بات مانو گے ۔اگر مَیں کسی کو کہیں ذمہ داری کے لیے بھیجنا چاہوں اور وہ عذر پیش کرے تو مَیں علماء کرام سے پوچھتا ہوں کہ یہ عذر قبول کیا جائے یا نہیں ؟ اگر وہ کہیں کہ یہ عذر قابل قبول نہیں تو پھر مَیں ان کو بھیج دیتا ہوں ۔اگر حکام اور علماء کے مابین یہ وحدت نہیں رہی تو شریعت قائم نہیں رہے گی۔ ہمارا کام ہے اُن کے فیصلوں کو ماننا اور اجراء کرنا۔ اگر علماء فیصلے کریں اور ہم تنفیذ نہ کریں یا ہم ان کوفیصلے کا اختیار نہ دیں تو پھر شریعت کا نفاذ ممکن نہیں۔مَیں تو اللہ سے پناہ چاہتاہوں کہ مَیں اس امتحان میں مبتلا ہوجائوں‘لیکن مَیں قاضیوں سے کہتا ہوں کہ ایسا عدل قائم کریں جیسے خلیفہ وقت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ قاضی شریح کی عدالت میں ایک زرہ کے کیس میں ایک یہودی مدّعی کے ساتھ پیش ہوں اور فیصلہ بھی خلیفہ وقت کے خلاف آجائے اور یہودی بھی کہے کہ قاضی خلیفہ کا ہے اور فیصلہ میرے حق میں ہوا!مَیں اللہ سے نہیں مانگتا کہ مَیں ایسی آزمائش میں آجائوں۔لیکن اگر ایسا موقع مجھے یا میرے مسئولین کو پیش آئے تو ہم بھی مدّعی کے ساتھ قاضی کے سامنے پیش ہو ںاور پھر ایسا ہی مبنی بر عدل فیصلہ ہو۔ یہی میرا ہدف ہے اور یہی اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہوں ‘اللہ کرے کہ ایسا نظام آجائے۔
عدل حکومت کی بقا کا ذریعہ ہوتا ہے‘ ظلم کے ساتھ حکومت باقی نہیں رہ سکتی۔ اگر ایک بے گناہ پر بھی ظلم ہوا تو مظلوم اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا‘ایک ہی لمحے میں تمہاری پوری کی پوری امارت دھڑام سے گر جائے گی ۔اگر عدل نہیں رہا ‘ ظلم شروع ہوا ‘ ماورائے عدالت قتل شروع ہوگئے‘تو یہ ملک تباہ ہوجائے گا۔اس ظلم کی روک تھام علماءکے مبنی برحق فیصلوں اور حکومت کی صحیح تنفیذکے ساتھ مشروط ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ پانچ روپے کے جرم میں تو کسی کوسزا دی جائے اوردوسری طرف سینکڑوں مربع زمین کے مقدّمے میں کسی کو چھوڑ دیا جائے‘اس لیے کہ اس کے پاس قوت اورسفارش ہے‘ جیسے گزشتہ حکومت میں ہوتا تھا۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ اب بھی ایک بدمعاش کابل میں اپنی سکیورٹی کےساتھ گھومتا پھرتا ہے ۔مَیں کہتا ہوں کہ اگر تم اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے تو مَیں خود اس کو گریبان سے پکڑوں گا۔ یہ تو اس ملّت کے ساتھ مذاق ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ کل جو بدمعاش ہمیں پائوں تلے روندتا تھا وہ آج بھی سر ِعام اس امارت میں اپنے غرورو تکبّر کے ساتھ گھومتا پھرتا ہے (سامعین کی جانب سے نعرہ تکبیر کی گونج)۔ایک قوت اورایک وحدت بن جائو! ظلم کا ہاتھ روکو‘ ظالم دوبارہ اس مقدّس زمین پرقدم نہ رکھے۔ اب اللہ کے فضل سے امن آچکاہے اور فتنہ وفسا د رفع ہو چکا ہے ۔ اللہ کی لعنت ہو اُن پر جو دوبارہ فتنہ و فساد برپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اپنی صفوں سے مفسدین کو نکال دو ‘یہ آپ کے درمیان فساد کے علاوہ اور کچھ بھی پیدا نہیں کرتے ۔
ہم نے مفسدین کو معاف ضرور کیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ان کواپنی صفوں میں بٹھا لیں ۔ یہ مجاہدین اور شہداءکے یتیم بچوں کی دل آزاری ہوگی۔ یہ آزمودہ لوگ ہیں‘ ان کو دوبارہ آزمانے کی ضرورت نہیں۔ علماء کو چاہیے کہ ان کو نصیحت کریں:((اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ))۔ ایک درخواست علماء سے یہ ہے کہ وہ ہمیں اس طریقے سےنصیحت فرمائیں جس کا اثر ہو۔نصیحت کا یہ طریقہ نہیں کہ علانیہ تنقید کی جائے اور خامیاں ظاہر کی جائیں۔ نصیحت تو وہ ہے جو خلوت میں کسی کو سمجھا یا جائے۔علانیہ تنقید سے اُلٹا اثر ہو تا ہے ‘نظام ڈھیلا پڑ جاتاہے‘بے اعتمادی کی فضا پھیل جاتی ہے اور علماء اور امارت کے درمیان ایک خلیج پیدا ہوجاتی ہے ۔’’ مجمع الزوائد‘‘کی حدیث ہے کہ سلطان کو نصیحت خلوت میں کیا کرو۔ حجاج بن یوسف مدینہ کا بڑا ہی ظالم اور جابر حاکم تھا‘ لیکن اُس وقت فتنے اور فساد کے خدشے کے پیش نظر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اس کی حکومت برداشت کی ۔ یہاں تک کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عبدالملک بن مروان کو صرف اتنی شکایت کی کہ حجاج لوگوں پر سختی کرتا ہے ۔ ان کو معلو م تھاکہ حاکم کے خلاف بغاوت سے مزید فساد اور فتنہ پھیلے گا۔ یہ نصیحت تو علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ حاکموں کو نصیحت کریں‘ لیکن اُمراء کو بھی چاہیے کہ آپس میں تواصی بالحق کا عمل جا ری رکھیں ۔ آپس میں دینی مذاکرہ کریں ‘اپنے آپ کو جسد ِ واحد کی طرح پیش کریں ۔ ایک دوسرے کی شکایتیں نہ لگائیں۔
دشمن اب اس بات کی کوشش کر رہا ہے کہ تمہاری صفوں میں دراڑ ڈالے۔جیسے غزوۂ احزاب کے موقع پر کُفّار کی شکست کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا:((الآنَ نَغْزُوْھُمْ وَلَا یَغْزُوْنَنَا)) (اب قریش ہم پر حملہ آور نہیں ہوں گے بلکہ ہم ان پر حملہ آور ہوں گے!)اسی طرح افغانستان میں بھی اَحزاب شکست کھا چکے ہیں۔اب ان شاء اللہ آئندہ ان میں ہمت ہی نہیں ہوگی کہ یہ افغانستان پر دوبارہ حملہ آور ہوں ۔ لیکن وہ فتنہ اور پراپیگنڈا ضرور جاری رکھیں گے ۔ وہ اب حکومت اور رعایا کے درمیان فاصلہ پیداکرنے کی کوشش میں لگے رہیں گے‘اختلافی موضوعات کو اٹھانے کی کوشش کریں گے ‘ خود حکومتی ڈھانچے میں لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکائیں گے تاکہ حکومتی نظم ڈھیلا پڑجائے۔ ان تمام حربوں سے وہ امارت کا خاتمہ چاہیں گے ۔اگر ہماری وحدت برقراررہی ‘علماء اور حکومت کے درمیان فاصلہ ختم ہوگیا اور فاصلہ پیدا کرنے والوں کو روکا گیا تو ‘ان شاء اللہ‘ امارت مستحکم رہے گی۔آج دشمن کے پروپیگنڈے کا مقصد ہی امارت کو حقیر دکھانا ہے۔ یہ ہمارا ملک ہے‘ ہمارا اختیار ہے‘ ان کو ہمارے نظام اور مسائل سے کیا سروکارہے !
مَیں ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں‘اگرچہ مَیں ایک سادہ سا بندہ ہوں‘حکومت و سیاست سے زیادہ واقف نہیں‘لیکن مجھے یہ بتاؤ کہ تم یہ چاہتے ہو کہ مَیں اپنے معاملات اپنے اختیار سے چلاؤںیا دوسروں کے اشاروں پر چلائوں؟’’اپنی رائے اور اپنے اختیار سے!‘‘(سامعین کی طرف سے بلند آواز)۔آج اللہ تعالیٰ کے عظیم فضل و احسان سے افغانستان ایک خود مختار ملک ہے‘ دوسروں کے اشاروں پر نہیں چل رہا ۔ ایک ملک اُس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک وہ خود مختار نہ بن جائے۔ آج دنیا نہیں چاہتی کہ افغانستان اپنے فیصلے خود کرے‘بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ ہم اُن کے اشاروں پر چلیں (غصے سے آواز اونچی ہوئی )۔ وہ ہمیں مشورے دے رہے ہیں کہ یہ کام ایسے کرو اور فلاں کام ایسے کرو ۔انہیں میرے معاملات اور مسائل سے کیا لینا دینا ہے؟ اپنے کام سے کام رکھو ‘ہمارے معاملات میں مداخلت نہ کرو!مَیں تمہاری فرمائشیں نہیں مانتا اور نہ تمہارے ساتھ ایک قدم چلنے کو تیار ہوںاور نہ شریعت کے معاملے میں تمہاری ایک بھی بات سننے کو تیار ہوں۔ تم نے پہلے ہم پر بموں کی ماں (mother of all bomb)کا استعمال کیا‘اب اگر تم ہم پر ایٹم بم بھی گرا دوتو بھی ہم اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے والے نہیں۔ ہمارے اور اللہ عزّوجل کے درمیان ایک تعلق ہے ۔ہم نے کلمہ پڑھا ہے‘ہم اپنی موت و حیات کا مالک اللہ کے سوا کسی کو نہیں مانتے ۔ کوئی بھی غلط فہمی میں نہ رہے۔میرا تو دو ٹوک موقف ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی اور قوت کے سامنے نہیں جھکیں گے!
یہ تو آج صرف میڈیا میں ہمارے خلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں‘ہمیں اپنی باتوں سے سرنڈر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ اگر ہم پر ایٹم بم بھی گرادیں اور ہمیں پگھلا دیں‘ہم پھر بھی سرنڈر نہیں ہوں گے۔حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تو اللہ کے دین کی وجہ سے بے دردی سے شہید ہوئے اور ان کا مثلہ کیا گیا ۔ رسول اللہ ﷺنے کہا تھا کہ اگرمجھے ان کی بہن کا خیال نہ ہوتا تومَیں حمزہ کو نہ دفناتا‘تاکہ وہ اسی مظلومیت کی حالت میں اُٹھائے جائیں۔ ہم بھی آج یہی چاہتے ہیں کہ اللہ کے دین کی خاطر مظلومیت کے شکار ہو ںاور اللہ تعالیٰ ہماری مظلومیت خود دیکھ لے۔ شہادت ہماری ناکامی نہیں‘بلکہ کامیابی ہے ۔ تم ہم پر دوبارہ بھی ایٹم بم برسا دو‘لیکن ہم اس راستے میں ایک قدم بھی تمہارے ساتھ نہیں اُٹھائیں گے جس سے اللہ ناراض ہوتا ہو۔آج الحمدللہ! اللہ ربّ العزت نے ہمیں عظیم فتح و کامرانی سے نوازا ہے ۔ابھی ہمیں صرف دس ماہ ہوئے ہیں‘لیکن تاریخ میں پہلی بار ایسا موقع آیا ہے کہ ان دس ماہ میں پورا افغانستان ایک امارت کے جھنڈے تلے ہے۔ اس امارت کی بقا ہماری وحدت میں ہے ۔
میرے مسلمان بھائیو !قیادت علماء کے پاس ہونی چاہیے اورعلماء کو بھی یہ کوشش کرنی چاہیے کہ علم کی ترویج کریں۔جہاں تک بات ہے معیشت کی تو معیشت کا تعلق ملک کے امن و امان کے ساتھ ہے۔ان شاء اللہ‘امن آنے کے بعد اللہ جل جلالہ ہماری معیشت کو بھی بہتر بنا دے گا۔اقتصادکی بہتری اپنوں کے تعاون سے ہوتی ہے‘لہٰذا تم بیرونی امداد پر بھروسہ نہ رکھو اور نہ بیرونی امداد ہماری معیشت کو مضبوط بنا سکتی ہے۔اقتصاد کی بہتری اور احتیاج و غربت سے نجات کے لیے اپنی ہمت ضروری ہے ۔مَیں افغان تاجروں سے کہنا چاہوں گا کہ وہ آئیں اور اپنے ملک میں سرمایہ کاری کریں ۔ اب ان کو کیا خطرہ ہے؟امن و امان قائم ہے۔ آئو اوراپنے ملک کو آباد کرو! کیا تم اب ان کُفّار سے توقع رکھو گے کہ وہ آکر آپ کے ملک کو ترقی دیں گے؟اور یہ جو ہمارے بھائی ملک سے باہر رہتے ہیں ان کو چاہیے کہ وہ ہمارے خلاف پروپیگنڈا نہ کریں۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو تمام افغان ان کے خلاف ہوں گے۔ہم نے تمہیں معاف کیا ہے‘ہم تم سے انتقام نہیں لیں گے ‘آئو اپنے ملک میں رہو! جو عزّت آپ کو اپنے ملک میں مل سکتی ہے وہ آپ کو کسی کافر ملک میں کبھی بھی نہیں مل سکتی۔آئو اپنے ملک میں رہو!ہم آپ سے کسی قسم کا حساب بھی نہیں لیں گے۔ لیکن ہاں ‘شرارت اور فتنہ انگیزی میں ہرگز ہاتھ نہ ڈالنا‘امن کو نقصان نہ پہنچانا!اس لیے کہ اگر امن کو نقصان پہنچایا تو پھر تمہیں پکڑیں گے ۔ہم نے تو اُن کو بھی معاف کیا جن کے ہاتھ ہمارے خون سے رنگے ہوئے ہیں‘اگرچہ ہم یہ حق رکھتے ہیں کہ ان سے بدلہ لیں‘ لیکن ہم ان سے بھی انتقام نہیں لیں گے‘تو ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے بارے میں کیسے بُرا سوچ سکتے ہیں۔
ہم اپنے پڑوسیوں کو بھی یقین دہانی کرانا چاہتے ہیں کہ وہ یہ نہ سوچیں کہ ہم ان کو نقصان پہنچائیں گے۔ہم اسلام کے نام لیوا ہیں اوراسلام سلامتی کا دین ہے۔ہم امن و سلامتی چاہتے ہیں اور خالص اسلامی نظام چاہتے ہیں۔یہ ساری چیزیں بڑی واضح ہیں۔ہم دوسروں کے اشاروں پر نہیں چلتے‘اپنی آزاد رائے اور اختیار سے اپنے معاملات طے کرتے ہیں ۔اگر کوئی ہم سے دشمنی مول لیناچاہتا ہے تو وہ کھل کر کرے ۔ ہم جو بات کریں گے‘ ان شاءاللہ‘ اس پر قائم رہیں گے‘ کیونکہ ہم اپنے فیصلے خود کرتے ہیں‘ہم خود مختار ہیں!اللہ جل شانہ ہماری اس خود داری اور خود مختاری کو قائم رکھے۔مَیں تمام علماء سے درخواست کرتا ہوں کہ تفرقہ کی بات نہ کریں‘افہام و تفہیم سے چلیں۔اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم موقع عطا فرمایا ہے‘اس عظیم موقع کو چھوٹی چھوٹی اختلافی باتوں کی وجہ سے ضائع مت کرنا۔ایک بات غور سے سنو کہ ہم حاکم ہرگز نہیں‘ ہم تو خادم ہیں! حکم تو اللہ کا ہےاور ہمارا کام تو بس کتاب اللہ ‘ سُنّت ِرسول اللہﷺ اورفقہ حنفی کی تنفیذ ہے۔ ہم شریعت کے خادم ہیں ۔اللہ تعالیٰ صحیح معنوں میں افغانستان میں شریعت کو ہماری مخدوم بنا دے!
بھائیو!مَیں تمہیں نصیحت نہیں کرنا چاہتا۔یہ علماء کا اجلاس تھا‘ بس ایک یاد دہانی اور مذاکرہ تھا۔اللہ تعالیٰ ان علماء کی برکت سے سر زمین افغانستان میں شریعت کا نظام نافذ فرمائے ۔علماء نے جب مجھ سے اس اجلاس کے بارے میں بات کی تومَیں نے کہا تھا کہ علماء جہاں بھی اجلاس کریں گے‘چاہے قندھار میں ہو‘کابل میں ہو‘ بدخشاں میں ہو یا نورستان میں ہو‘مَیں ضرور پہنچوں گا ۔اللہ تعالیٰ نے مجھے بڑی سعادت بخشی ہے کہ مَیں نے اس مبارک اجلاس میں شرکت کی۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کا آنا‘بیٹھنا اور علماء کی باتیں سننا قبول فرمائے ۔بس مَیں اسی پر اکتفا کرتا ہوں‘ اللہ تعالیٰ آپ کو خیر و عافیت میں رکھے ۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ ربّ العالمین!!
(ترجمہ: نور الوریٰ ‘امیرتنظیم اسلامی‘ حلقہ لاہور شرقی)