(دیدن دگر آموز) فضائی سفر کی باطنی کیفیات - عبدالرئوف

8 /

فضائی سفر کی باطنی کیفیاتعبدالرئوف
معاون مرکزی شعبہ تربیت ‘تنظیم اسلامی
کافی عرصہ بعد گزشتہ سال لاہور سے کراچی فضائی سفر کا موقع ملا۔ اِس سے پہلے۱۹۹۰ء میں حج کا سفر کیا تھا جس کے بعد فضا میں سفر کا یہ دوسرا موقع تھا۔ سفر کے بارے میں ایک مقولہ ہے کہ یہ وسیلہ ظفر(کامیابی) ہوتا ہے‘ لیکن میرا یہ سفر اِ س سے بھی بڑھ کر آخرت کی یاد دہانی کا باعث بنا۔
جب میں لاہور کے ہوائی اڈے کی عمارت میں داخل ہوا تو ایک جاننے والے کے توسط سے وہاں پر ملازم لڑکا بطور مدد گار مل گیا جس کی راہنمائی میں اپنے سامان کی بکنگ کروائی اور بورڈنگ کارڈ حاصل کیا۔ اس کے بعد جہاز کی طرف اکیلے جاتے ہوئے میری نگاہوں میں وہ منظر آگیا کہ جب ہم اپنے کسی عزیز کو جنازہ پڑھانے کے بعد قبر کے حوالے کرتے ہیں تو دفن کرنے کے بعد سب لوگ واپس لوٹ آتے ہیں اور وہ اکیلا ہی منکر نکیر کے سوالات کا سامنا کرتا ہے‘ اُس کے لواحقین توزیادہ سے زیادہ قبر پر کھڑے ہو کر اس کی ثابت قدمی کے لیے دعاہی کر سکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح طیارے کے مسافروں کے لواحقین بھی ایئر پورٹ کی عمارت کے باہر کھڑے ہو کر اُن کےمحفوظ سفر کی دعا ہی کر سکتے ہیں۔ جب طیارہ محو ِ پرواز ہوا تو آغاز میں لاہور شہر کی سڑکیں اور عمارتیں صاف نظر آرہی تھیں لیکن جوں جوں طیارہ اوپر اٹھتا چلا گیا تمام چیزیں چھوٹے چھوٹے تنکوں کی شکل اختیار کرتی چلی گئیں ‘ یہاں تک کہ اب ہر طرف بادل ہی بادل نظر آنے لگے۔مجھے یوں احساس ہوا کہ جو زمین ہمیں بہت بڑی نظر آتی ہے ‘ اللہ کی پوری کائنات کے مقابلے میں تویہ بہت ہی چھوٹی ہے۔ تب میرے ذہن میں نظامِ شمسی کا وہ سارا نقشہ گھومنے لگا جو کافی عرصہ پہلےایک ڈاکیومنٹری میں دیکھا تھا۔
اُس میں بتایا گیا تھا کہ اِ س کائنات کی وسعت کا اندازہ اِس بات سے لگا یا جا سکتا ہےکہ نظامِ شمسی اس میں ایک نقطے (dot) کی طرح نظر آرہا ہے ۔ اِس کہکشاں کے ایک سرے سے دوسرےسرے تک پہنچنے کے لیے ایک لاکھ نوری سال چاہئیں۔ روشنی ایک سیکنڈ میں تقریباً تین لاکھ کلومیٹر یا ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کی رفتار طے کرتی ہے۔ جب اِس کو ساٹھ سے ضرب دیں تو پتہ چلے گا کہ روشنی نے ایک منٹ میں کتنا سفر طے کیا ۔ اس حاصل ضرب کو ساٹھ سے ضرب دینے سے پتہ چلے گا کہ روشنی نے ایک گھنٹہ میں کتنا سفر طے کیا ۔ اِس حاصل ضرب کو چوبیس سے ضرب دینے سے معلوم ہوگا کہ روشنی نے ایک دن میں کتنا سفر طے کیا ۔ اس حاصل ضرب کو تیس سے ضرب دینے سے معلوم ہوگا کہ روشنی نے ایک ماہ میں کتنا سفر طے کیا جبکہ اس کے حاصل ضرب کو بارہ سے ضرب دینے سے پتہ چلے گا کہ ایک سال میں روشنی نے کتنا سفر طے کیا ۔ ایک سال میں روشنی جتنا سفر طے کرتی ہے اُس کو ایک نوری سال (Light Year) کہا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ اگر ہم ایک ایسا راکٹ بنالیں جو روشنی کی رفتار سے چلے تو اِس کہکشاں کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچنے کے لیے ہمیں ایک لاکھ سال لگیں گے۔ اِس کہکشاں میںمرکز سے تیس ہزار نوری سال کے فاصلے پر واقع ہمارا نظامِ شمسی ہے۔ اس میں سب سے بڑا سورج‘ پھر اس کے تمام سیارے جن میں ایک زمین ہے۔ زمین کے لگ بھگ دوتہائی حصے پر پانی جبکہ ایک تہائی حصے میں حضرت انساں۔پوری کائنات میں انسان کی حیثیت کا اندازہ لگائیں تو یہ تعداد نہ ہونے کے برابر (negligible quantity)ہے۔ گویا ہمارا کوئی وجود ہی نہیں۔ اس کے باوجود میرا تکبر‘ میری اَنا‘یعنی میں‘ میرا یہ‘ میرا وہ ‘ میری بات کیوں نہیں مانی گئی‘ میری بات کیوں نہیں سنی گئی ‘ میری بات کو کیوں اہمیت نہیں دی گئی!
اِس سوچ میں گم تھا کہ طیارے میں کچھ نزولی حرکت محسوس ہوئی اور پھر اعلان ہوا کہ کچھ ہی دیر میں ہم کراچی کے انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر اترنے والے ہیں۔ جب طیارہ ٹرمینل پر آکر رکا تو ایسے محسوس ہوا جیسے قبر سے نکل کر میدان ِحشر میں جمع ہونے کا وقت آگیا ہے۔ آخرت کے سفر کی پہلی منزل یعنی قبر کے متعلق حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا طرز عمل یہ تھا کہ جب بھی کسی قبر کے پاس سے گزر تے تو آنکھوں میں ساون کی جھڑی لگ جاتی۔ صحابہؓ کے دریافت کرنے پر بتاتے کہ قبر کو دیکھ کر مَیں اس لیے روتا ہوں کہ یہ آخرت کے سفر کی پہلے منزل ہے۔ ہم بھی اِس پہلی منزل سے نکل کر اگلی منزل کی طرف رواں دواں ہوگئے۔ کچھ ہی دیر بعد مسافر سامان والی بیلٹ کے گرد بالکل ایسے کھڑے تھے جس طرح احادیث میں اُن مالدار لوگوں کا ذکر آتا ہے جو چاہے مومن ہوں یا کافر انہیں اپنی ایک ایک چیز کا حساب دینا ہوگا‘ تب کہیں اِس مشکل مرحلے سے گزر سکیں گے ۔البتہ وہ مسافر جس کے پاس صرف کوئی دستی بیگ ‘ پرس یا شاپر تھا انہیں اپنا سامان لینے کے لیے رکنا ہی نہ پڑا‘ ان مومنین صادقین کی طرح جو ہلکے پھلکے ہونے کی وجہ سے بغیر کسی حساب کتاب ہی کے جنّت میں چلے جائیں گے۔ میرے پاس اپنا ذاتی سامان تو بہت مختصر تھا جو میرے ہاتھ ہی میں تھا لیکن دینی کتابوں کا بیس کلوگرام پر مشتمل ایک کارٹن بُک کرایا ہوا تھا جو میں نے اُسی قطار میں لگ کر لینا تھا۔
اِس موقع پر مجھے خیال آیا کہ اگر حشر کے میدان میں بھی میری پیشی اِسی طرح دینی کتابوں کے بنڈل کے ساتھ ہوگئی تو میرے پاس کوئی عذرتو ہوگا جس کی وجہ سے مجھے اللہ تعالیٰ معاف فرماکر جنّت میں بھیج دے‘ لیکن پھر ایک دم حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ یکے از عشرہ مبشرہ کا نقشہ ذہن میں گھوم گیا۔مسند احمد کی ایک روایت میں سیّدنا ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی یہ الفاظ آئے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ میں جنّت میں داخل ہوا تو میری ساری اُمّت ایک ایک کر کے میرے سامنے پیش کی گئی اور لوگ گزرتے گئے ۔ مجھے عبد الرحمٰنؓ بن عوف دکھائی نہ دیے۔ میں اُن کی طرف سے مایوس ہو چکا تھا کہ وہ آگئے۔ میں نے کہا : عبد الرحمٰن تم کہاں رہے؟ انہوں نے کہا : اللہ کے رسولﷺ! میرے والدین آپ پر فدا ہوں ۔ اُس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے‘ میں آپ تک بمشکل پہنچا ہوں ۔ میں تو سمجھ رہا تھا کہ اب میں بہت زیادہ مشکلات کے بعد ہی آپﷺ کی زیارت کر سکوں گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ کیوں؟ انہوں نے کہا: مال و دولت کی کثرت کی وجہ سے میرا بہت سخت حساب لیا گیا اور کوتاہیوں سے پاک کیا گیا۔‘‘ اس کا تویقیناً کوئی امکان نہیں کہ عبد الرحمٰن بن عوفؓ جیسے جلیل القدر صحابی کے مال میں کسی حرام کی آمیزش ہو یا انہوں نے اپنامال ادائے حقوق اور انفاق فی سبیل اللہ کے علاوہ کسی بھی قسم کے اسراف ‘ تبذیریا فضول خرچی میں لگایا ہو‘ لیکن اس کے باوجود یہ حدیث ِرسول ﷺ بتا رہی ہے کہ مالدار آدمی چاہے صحابی رسول اور یکے از عشرہ مبشرہ ہی کیوں نہ ہو‘ مال کے کمانے اور خرچ کرنے کا حساب اُس سے بھی لیا جائے گا۔ ایسے میں ہمارے جیسے حقیر ‘پُر تقصیر انسانوں کی کیا وقعت ہےکہ دنیا میں مال اور جائیدادیں بھی بنائیں ‘ حرام پر مبنی نظام معیشت کے اندر پھلنے پھولنے کی بھی کوشش کریں اور پھر اللہ سے یہ اُمید بھی لگائے رکھیں کہ ہمیں یوں ہی چھوڑدیا جائےگا۔
اپنا سامان لےکر ایئر پورٹ کی حدود سے باہر نکلتے ہوئے ایک اور منظرمیرے سامنے آیا اور وہ یہ کہ لاؤنج میں ایک مذہبی سیاسی جماعت کے ایک دھڑےکے سربراہ اکیلے ہی بیٹھے ہوئے تھے جس سےمیرے سامنے سورۃ مریم کی یہ آیت آگئی:
{وَ كُلُّهُمْ اٰتِیْهِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ فَرْدًا(۹۵)}
’’اور(قیامت کے دن) سب کے سب آنے والے ہیں اُس کے پاس اکیلے اکیلے۔‘‘
سفر آخرت کے ساتھ فضائی سفر کی ایک اور مشابہت یوں سامنے آگئی کہ ایئر پورٹ کے اندر ایک وی وی آئی پی (VVIP) لاؤنج بھی ہوتا ہے جہاں سے کچھ بڑی شخصیات کو بغیر کسی چیکنگ کے گزاراجاتا ہے اور وہ بڑے سکون و اطمینان کے ساتھ خصوصی سہولیات کا مزا لیتے ہوئے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوجاتے ہیں۔پھر جب کسی دوسرے ملک میں جا کر اُترتے ہیں تو وہاں نہ صرف انہیں توپوں کی سلامی دی جاتی ہے بلکہ اس کے ساتھ گارڈ آف آنر بھی پیش کیا جاتا ہے۔ اُس ملک کا صدر‘ وزیر اعظم یا ان کا کوئی خصوصی نمائندہ پُر تپاک استقبال کرتے ہوئے سرخ قالین سے گزار کر گاڑی میں بٹھاتا ہے اور سپیشل سکیورٹی کے ساتھ ہٹو بچو کی صداؤں میں ایوانِ صدر کی عمارت میں لے جایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی میرے ذہن میں سورۃ الزمر کی آیات ۷۳ اور ۷۴ کے الفاظ گونجنا شروع ہوگئے :
{وَسِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّھُمْ اِلَی الْجَنَّۃِ زُمَرًا      ۭ حَتّٰی اِذَا جَاۗءُوْھَا وَفُتِحَتْ اَبْوَابُھَا وَقَالَ لَھُمْ خَزَنَتُھَا سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْھَا خٰلِدِیْنَ(۷۳) وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہٗ وَاَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَاۗءُ ۚ فَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ(۷۴)}
’’اور لے جایا جائے گا اُن لوگوں کو جنّت کی طرف جو اپنے رب کا تقویٰ اختیار کیے رہے تھے گروہ در گروہ۔ یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے اور اُس کے دروازے ( پہلے ہی) کھولے جا چکے ہوں گے اور اُس کے داروغہ اُن سے کہیں گے کہ آپ پر سلام ہو‘ آپ لوگ کتنے پاکباز ہیں ‘ اب داخل ہوجائیے اس میں ہمیشہ ہمشہ رہنے کے لیے ۔ اور وہ کہیں گے کہ کل حمد اور کُل شکر اُس اللہ کے لیے ہے جس نے ہم سے اپنا وعدہ پورا کردیا اور ہمیں اُس زمین کا وارث بنا دیا کہ اب ہم گھر بنا لیں جنت میں جہاں چاہیں ۔ تو بہت ہی اچھا ہوگا اجر عمل کرنے والوں کا۔‘‘
غالباً ایسے ہی لوگوں کا ذکر سورۃا لانبیاء کی ان آیات میں آیا ہے:
{اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَہُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰٓیلا اُولٰٓئِکَ عَنْہَا مُبْعَدُوْنَ (۱۰۱) لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَھَا ۚ وَھُمْ فِیْ مَا اشْتَھَتْ اَنْفُسُھُمْ خٰلِدُوْنَ(۱۰۲) لَا یَحْزُنُھُمُ الْفَزَعُ الْاَکْبَرُ وَتَتَلَقّٰىھُمُ الْمَلٰئِۗکَۃُ ۭ ھٰذَا یَوْمُکُمُ الَّذِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ(۱۰۳)}
’’ ’’یقینا وہ لوگ جن کے لیے ہماری طرف سے پہلے ہی بھلائی کا فیصلہ ہو چکا ہے وہ اس (جہنم)سے دُور رکھے جائیں گے۔ وہ بڑی گھبراہٹ انہیں پریشان نہیں کرے گی اور فرشتے اُن سے ملاقاتیں کریں گے (یہ کہتے ہوئے کہ) یہ ہےآپ لوگوں کا و ہ د ن جس کا آپ سے وعدہ کیا گیا تھا۔‘‘
دنیا کا چند روزہ پروٹو کول تو اچھے برے سب لوگوں کو ہی مل جاتا ہے ‘بلکہ اچھے لوگوں کی نسبت شیطانی و طاغوتی غلبے کی وجہ سے بُرے لوگوں کو ہی زیادہ ملتا ہے‘لیکن آخرت کا پروٹوکول ہر شخص کے لیے نہیں ہوگا۔ اُس کے لیے جن خصوصیات کی ضرورت ہے اُس کی مماثلت دنیاکی سات بڑی طاقتوں کے ساتھ بڑی واضح ہے جنہیں G-7 کا نام دیا جاتا ہے۔ طاغوتی نظام کے سب سے بڑے سہولت کار ہونے کے ناطے دنیا کی تیز ترین دھوپ میں بھی جس طرح یہ ہر وقت سائے میں رہتے ہیں بالکل اِسی انداز میں اللہ تعالیٰ حشرکے میدان کی تیز ترین دھوپ میں بھی سات قسم کے لوگوں کو ہی اپنا سایہ نصیب فرمائے گا جن کا ذکر بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث میں اس انداز سے کیا گیا ہے کہ :
’’سات خوش نصیب ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ اُس روزاپنا سایہ نصیب فرمائے گا جس روز اُس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا :
(۱) عادل حکمران۔
(۲) وہ نوجوان جو اللہ کی عبادت میں پروان چڑھا ۔
(۳) وہ آدمی جس کا دل مسجد کے ساتھ معلّق ہے۔
(۴) دو ایسے آدمی جو اللہ کی رضا کی خاطر باہم محبّت رکھتے ہیں ۔اسی بنیاد پر وہ آپس میںملتے ہیں اور اسی پر جُدا ہوتے ہیں۔
(۵) وہ آدمی جسے کسی باحیثیت اور حسین دوشیزہ نے برائی کی دعوت دی تو اُس نے کہا: میں اللہ سے ڈرتا ہوں ۔
(۶) وہ آدمی جس نے صدقہ کیا تو اُسے اس قدرمخفی رکھا کہ اُس کا بایاں ہاتھ نہیں جانتا کہ اُس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔
(۷) وہ آدمی جس نے تنہائی میں اللہ کو یا دکیا تو اُس کی آنکھیں اشک بار ہوگئیں۔‘‘
اس فیصلے کا اختیارہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم دنیا کا چند روزہ سایہ حاصل کرنا چاہتے ہیں جس کے بعد ہمیشہ کے لیے صرف دھوپ ہی نہیں بلکہ دہکتی ہوئی آگ ہماری منتظر ہے یا پھر دنیا کی چند روزہ دھوپ برداشت کر کے حشر کے میدان میں عرشِ الٰہی کا سایہ اور اس کے بعد ہمیشہ کے لیے جنت کے باغات میں رہنا چاہتے ہیں! فرق صرف یہ ہے کہ فرمان رسول ﷺ کے مطابق ’’جہنم کو خوش نما چیزوں اور خواہشات سے گھیردیا گیا ہے جبکہ جنت کو ناپسندیدہ اور تکلیف دہ چیزوں سے گھیر دیا گیا ہے۔‘‘ لہٰذا دنیا کے اِس سفر میں اگر خواہشات کے پیچھے لگے رہے تو پھر جنت کا حصول مشکل ہوتا چلا جائے گا۔اِس لیےجہاں آغاز میں اردو محاورے ’’سفر وسیلۂ ظفر‘‘ کا ذکر کیا گیا تھا‘ اختتام پر عربی محاورے’’ اَلسَّفَرُ قِطۡعَةٌ مِنَ النّار‘‘ کو سامنے رکھتے ہوئے دنیا کی زندگی دجّال کی تیار کردہ دوزخ میں گزارنے کا فیصلہ کر لیں تو آخرت میں امید ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فضل شامل حال ہوجائے گا اور ان الفاظ سے استقبال کیا جائے گا:{اُدْخُلُوْہَا بِسَلٰمٍ اٰمِنِیْنَ(۴۶)}