فتنۂ دجّال اور پیش آمدہ چیلنجز (۳)آصف حمیددجّال‘ دجّالیت اور فِتنۃ النِّساء
جیسا کہ گزشتہ قسط میں بیان کیا گیا تھا کہ دجّال اور دجّالیت کا خصوصی تعلق ٹیکنالوجی سے ہے جس کے بل بوتے پر آج واقعی دجّالیت نے پوری دنیا کو اپنے نظام میں جکڑ لیا ہے اور مستقبل میں اسے مزید جکڑنے جارہی ہے۔دجّال اور دجّالیت کاکچھ ایسا ہی معاملہ فتنۃ النساء سے متعلق ہے۔ اس فتنہ کے حوالے سے بھی دجّالیت نے اپنی گرفت پوری دنیا پر مزیدمضبوط کرلی ہے۔ دجّالیت کے اس عفریت نے عورت کو استعمال کرکےاتنی ہی عظیم کامیابیاں حاصل کی ہیں جتنی وہ ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر حاصل کررہا ہے اور ابھی وہ مزید کامیابیاں حاصل کرے گا۔حدیث مبارکہ ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:((مَا تَرَکْتُ بَعْدِیْ فِتْنَۃً اَضَرُّ عَلَی الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ))(صحیح البخاری‘ح:۵۰۹۶وصحیح مسلم‘ ح:۲۷۴۰) ’’مَیں اپنے بعد مَردوں کے لیے عورتوں سے بڑھ کرکوئی فتنہ چھوڑکرنہیں جا رہا۔ ‘‘ غور طلب بات یہ ہے کہ شیطان کا اصل مشن کیا ہے‘ہم گزشتہ شمارے میں پڑھ آئے ہیں :{لَاُغْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ(۸۲)} (صٓ) ’’مَیں ان سب کو گمراہ کر کے رہوں گا۔ ‘‘ ابلیس نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے عورت کو بھی استعمال کیاہے اور اس کو انسانی حقوق ‘ حقوقِ نسواں اور آزادیٔ نسواں (Woman Lib)کے دلفریب نعروں کا جھانسہ دے کر گھر کی چار دیواری اور اپنے محرم کی حفاظت سے نکال کر بازاروں اور دفاتر کی زینت بناکر بے رحم معاشرے کے حوالے کردیا ہے جس کی درندگی کا شکار بہت سے خواتین ہوتی ہیں‘ اور بچتی صرف وہ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل و کرم ہوتا ہے اور جو اپنی حدود میں رہتی ہیں۔
نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ((فأوّل مَن يتَّبِعُه النِساءُ)) ’’(جب دجّال نکلے گا) تو سب سے پہلے عورتیں اس کی پیروی کریں گی۔‘‘ایک اور حدیث میں نبی کریم ﷺنے فرمایا : ’’دجّال کی طرف سب سے زیادہ عورتیں جائیں گی ‘یہاں تک کہ آدمی اپنے گھر میں اپنی ماں‘ بہن‘ بیٹی اور بیوی کو اس ڈر سے باندھ کر رکھے گا کہ کہیں یہ دجّال کی طرف نہ چلی جائیں۔‘‘ (رواھما الطبرانى فى الأوسط ورجالھما رجال الصحيح )۔ اگر ہم حقیقت کی نظر سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ شیطان اور دجّالی قوتوں نے اس بات کا بڑی گہرائی کےساتھ ادراک کیا ہے اور آج معاشرے میں عریانی اور فحاشی کا جو بازار گرم ہے ‘ اس میں جس صنف کو استعمال کی گیا ہے وہ عورت ہے۔ انہوں نے عورت کو با اختیار بنانے کا پُرفریب نعرہ لگا کر اسلام کے بارے میں یہ غلط فہمی عام کردی ہے کہ اسلام عورت کو چادر اور چاردیواری میں مقید کرناچاہتا ہے‘ اسلام نے عورتوں کو عضو ِمعطل اور آدھی آبادی کو مفلوج بنا دیا ہے‘ جبکہ عورت کو مَرد کے شانہ بہ شانہ کام کرنا چاہیے۔ تمام دنیا میں عورتوں کو مَردوں کے برابر حصّہ اور حقوق ملنے چاہئیں۔ عصر حاضر میں یہی نعرہ دجّالی و شیطانی مشن میں سب سے بڑا اور مؤثر ہتھیار بن کر سامنے آیا ہے۔
دجّالی و شیطانی لابی نے معاشرے کو اپنے رنگ میں ڈھالنے کے لیے بڑی شاطرانہ چالیں چلی ہیں۔ پہلے آزادی و مساوات کے نام پر عورتوں کو گھر سے باہر نکالا اور پھر فیشن کے نام پر جسمانی خدوخال اور زیب و زینت کو نمایاں کرنے والے لباسوں سے تمام بازاروں کو بھر دیا۔ پھر اس میں رنگ آمیزی کے لیے کاسمیٹکس کا سیلاب لایا گیا اور آخر کار عورت کو نیم برہنہ کر کے بیچ بازار میں کھڑا کر دیا گیا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے آوارگی ثقافت بن گئی اور عریانیت کو تہذیب کی آغوش میں پناہ مل گئی۔ مزید برآں اس دجّالی تہذیب کو فروغ دینے اور اس کی تشہیر کرنے کے لیے میڈیا اور دوسرے ذرائع کو استعمال کیا گیا ہے۔ پہلے خبرناموں اور انفارمیشن کے خوشنما راستوں کے ذریعے ہر گھر میں ٹی وی اور فلم بینی کو فروغ دیا گیا اور پھر اس کے ذریعے ہر گھر کو دجّالی و شیطانی تہذیب کا گڑھبنا دیا گیا۔ مغرب کی امداد پر چلنے والی این جی اوز ‘ مغرب سے مرعوب اور مراعات یافتہ ٹی وی چینلز کے مالکوں اور دجّالی ایجنٹوں کے فریب خوردہ دانشوروں اور نام نہاد ترقی پسندوں نے عورتوں کو ان کی مظلومیت کے جھوٹے غم کی آڑ میں آزادی کی فریب زدہ زندگی کےخواب دکھانے شروع کردیے۔ اور ایسا فلسفہ تخلیق کیا کہ جس کے تحت عورت ہمیشہ سے مظلوم اور مَرد ظالم رہا ہے ‘ لہٰذا مَرد کے ظلم سے نجات دلانے کے لیے عورت کو مَرد سے آزاد کردیا جائے‘ تاکہ وہ اپنی مرضی کے فیصلےکرسکے اور اپنی مرضی کی زندگی گزار سکے ۔ اس فلسفے نے آگے بڑھ کر ’’ میر ا جسم میری مرضی‘‘ کا پُر فریب نعرہ اختیار کیا اور یوں ہر میدان میں عورتیں مَردوں کے شانہ بشانہ نظر آنے لگیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اس سادہ لوح عورت کو معلوم ہی نہیں ہے کہ اس دجّالی تہذیب نے سب سے زیادہ اگر کسی کو نقصان پہنچایا ہے تو وہ خود عورت ہی ہے۔
سابقہ ادوار میں عورتوں پر ظلم کا معاملہ انفرادی ہوتا تھا یا زیادہ سے زیادہ کسی مخصوص معاشرے کا حصّہ ہوتا تھا‘ لیکن آج شیطانی و دجّالی معاشرہ عالمی سطح پر پوری دنیا کی عورتوں پر ظلم کر رہا ہے اور اس ضمن میں سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ عورتیں خود اپنے اس استحصال کو ترقی سمجھ رہی ہیں کیونکہ دجّالی و شیطانی سحر نے ان سب کو اپنے جال میں پھانس رکھا ہے۔ مخلوط تعلیم اور مخلوط ماحول میں نوکریاں اور کاروبار کرنا معیارِ فضیلت بن چکا ہے اور اس کے اوّلین نتیجہ کے طور پر خاندانی نظام بد اعتمادی کا شکار ہو چکا ہے۔ غیر شرعی تعلقات کی وجہ سے شرح طلاق بڑھتی جارہی ہے۔ عورت تنہا ہوتی جارہی ہے اور بے رحم معاشرہ اس کو اس کے گھر سے نکال کر بازار کی زینت بنانا چاہتا ہے۔ مغرب کی طرح ’’Single Parent‘‘کا رجحان بڑھنے لگا ہے۔ عورت ماں بھی ہے اورباپ بھی‘ یعنی علیحدگی کے بعد عورت گھر میں ماں بن کر بچوں کو پال بھی رہی ہے اور بحیثیت باپ باہر جاکر نوکریاں یا کاروبار بھی کررہی ہے تاکہ گھر کا نظام چلا سکے۔ ایسے ماحول میں پلنے والے بچوں کا بھی اللہ ہی حافظ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ درج بالا حدیث کا مصداق یہ زمانہ ہے اور دجّال کی طرف جانے سے مراد اللہ اور اُس کے حبیب ﷺکے احکامات کو پس پشت ڈال کر معاشرے کے چا ل چلن کو اختیا ر کرنا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺکے احکامات کی سراسر نافرمانی کر کے جدید تہذیب کے زیر ِاثر ستر و حجاب کے احکامات اور مخلوط ماحول میں نامحرم مَردوں کے ساتھ بے تکلف ماحول میں پڑھنا یا نوکری کرنا دجّالیت کی پیروی کرنا نہیں تو اور کیا ہے؟
اب تو ایک ٹرینڈ بن چکا ہے کہ بچیوں کو ایسی تعلیم دلائی جائے کہ وہ کمائی کر سکیں۔ گویا شروع ہی سے گھر سے باہر نکلنے کی پلاننگ دماغ میں ڈال دی جاتی ہے۔ میڈیکل خصوصا ًگائنی کی تعلیم کی حد تک تو ٹھیک ہے‘بلکہ بہت بہتر ہے کہ بچیاں یہ تعلیم حاصل کریں تاکہ زچگی کے معاملات آسانی سے ڈیل کر سکیں۔ مزید برآں تدریس کے لیے بھی مناسب ہے کہ پرائمری جماعت تک خواتین ہی اساتذہ ہوں۔ لیکن اس کے علاوہ ٹیکنیکل خصوصاً آئی ٹی اورمینجمنٹ وغیرہ میں ایسے مواقع بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں کہ خواتین کو کام کرنےکے لیے سازگار ماحول مل سکے۔ معاشی حوالے سے بات کی جائے تو عورت پر اگرچہ شریعت نے معاش کی ذمہ داری نہیں ڈالی ‘تاہم ضرورت پڑنے پر بحالت مجبوری وہ کام کر سکتی ہے۔ اس کے لیے شرط یہی ہے کہ وہ اللہ کی بندی شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا کام کرے۔
الغرض دجّال اور اس کے نظام نے مَردوں کو تو مکمل لباس پہنا دیا اور عورتوں کے لیے لباس کو کم سے کم تر کردیا۔ مغر بی معاشرے میں دیکھیں تو مَرد کا آفیشل لباس پینٹ کوٹ ہے۔ شرٹ کے کالر بھی بند اور اوپر سے ٹائی‘ پیروں میں جرابیں اور بند بوٹ‘ گویا مکمل طور پر ’’مستور‘‘ ! ا س کے برعکس عورت کا لباس اسکرٹ یا منی ا سکرٹ‘ جس میں گریبان کھلا‘ ٹانگیں ٹائٹس کے ساتھ یا نصف اور اس سے زیادہ ننگی ‘ کپڑے جالی دار کہ جسم نظرآئے۔ یہ کس قدر بے تکی ترتیب ہے۔ مغربی معاشرے نے عورت کو اس طرح بے لباس کردیا ہےکہ وہ خوشی خوشی اس کواختیار کرتی ہے۔ اب تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کپڑے مزید تنگ اور کم ہورہے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ دین سے دوری کی بنیاد پر مسلمان خواتین بھی رفتہ رفتہ اسی شیطانی فیشن کا شکار ہونے لگی ہیں۔ آج تنگ لباسی تو اس قدر عام ہو گئی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ کھلے لباس سلنےہی بند ہوگئے ہیں۔ کیا وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیان کردہ اس حدیث کو بھول گئی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ دو ایسے جہنمی گروہ جنہیں مَیں نے ابھی تک نہیں دیکھا: ایک تو وہ (ظالم) لوگ جن کے ہاتھوں میں گائے کی دم جیسے کوڑے ہوں گے اور ان سے وہ لوگوں کو ماریں گے۔ دوسری وہ عورتیں جو کپڑے پہن کر بھی ننگی نظر آئیں گی۔ لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے والی اور خود بھی لوگوں کی طرف مائل ہونے والی۔ ان کے سر (کے بال) بختی اونٹوں کے کوہانوں کی مانند ایک جانب کو ڈھلکے ہوئے ہوں گے۔ یہ نہ جنت میں داخل ہوں گی اور نہ اس کی خوشبو پا سکیں گی‘ حالانکہجنت کی خوشبو اتنی (دور کی) مسافت سے آرہی ہوگی۔‘‘ (صحیح مسلم‘ کتاب اللباس والزینۃ‘ح:۲۱۲۸)۔
عورتوں کا اصل میدانِ عمل اور ذمہ داری کامرکز ان کا اپنا گھر تھا۔ ان کا فرضِ منصبی یہ تھا کہ وہ اپنے بچوں کی نیک اور اعلیٰ اقدار پر تربیت کریں ‘ ان کو اچھے اخلاق و آداب سے آراستہ کریں اور ان کو دینی فرائض کا حامل اور پاسبان بنائیں۔ یہ کوئی معمولی ذمہ داری نہیں تھی‘ بلکہ کردار سازی اور اخلاقیات کے لحاظ سے اس سے بڑا اور کوئی کام ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ عورتوں کی سب سے بڑی ذمہ داری ہی یہ تھی کہ وہ اپنے آپ کو اپنے گھر کے لیے وقف کر دیں اور اپنے بچوں کی اعلیٰ اخلاقی اصولوں پر تربیت کریں اور انہیں اقدار عالیہ اور کردار لامعہ سے سرفراز کر کے معاشرے کا ایک مثالی انسان بنائیں۔ عورتوں کو گھر کی چاردیواری تک محدود رکھنے کا مطلب ان کو مفلوج بنانا نہیں تھا‘ بلکہ ان کو سب سے زیادہ متحرک رکھنا تھا‘ تاکہ وہ فکر ِمعاش سے آزاد ہو کر معاشرے کے لیے بہترین افراد تیار کر سکیں۔ افسوس کہ وہ اپنے یہ تمام فرائض بھول کر جس میدان میں کود پڑیں اس نے ملک و قوم کا جنازہ نکال کر رکھ دیا۔ ان کی کوتاہیوں اور بدترین غفلت کے نتیجے میں بچے آوارگی کا نمونہ بن گئے۔ پوری دنیا میں فحاشی پھیل گئی۔ اس کے ساتھ جیسے ہی دولت کی ریل پیل ہوئی تو اخلاقیات کا دیوالیہ ہو گیا۔ دنیا کی زیب و زینت بڑھی تو انسانیت ختم ہو گئی اور آج پوری دنیا مکر و فریب اور دکھاوے کی آماج گاہ بن چکی ہے۔ ہر طرف ظلم و جبر کا سماں ہے۔ زنا بالجبر کی بجائے زنا بالرضا عام ہو چکا ہے۔ تہذیب و اخلاق ماتم کناں ہیں۔
ان سب جرائم کی ذمہ داری خواتین اور ان کو گھروں سے نکالنے اور انہیں اپنے فرائض منصبی سے ہٹانے والوں پر عائد ہوتی ہے۔ ذرا سوچیں کہ اس کا ذمہ دار کیا یہ مغرب کے طرز بود و باش کی مارکیٹنگ کرنے والا میڈیانہیں ہے جوپہلے صرف پرنٹ میڈیا ہوا کرتا تھا ‘پھر الیکٹرانک اور اب سوشل میڈیا تک پھیل چکا ہے؟ اور مَرد و خواتین آنکھیں بند کرکے اس کو اختیار کرنے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کررہے ہیں۔ کون کتنا ماڈرن ہوگیا ہے ؟ کون اپنے طرزِ کلام اور طرزِ زندگی میں مغرب کو کتنا کاپی کررہاہے؟ اب تو بات ماڈرن سے آگے بڑھ کر الٹرا ماڈرن کی طرف جارہی ہے۔ اسلام پر تنقید اس ماڈرن طبقے کی گفتگو کا اولین موضوع بن چکا ہے۔ دین کے فرائض پر عمل کرنا تو دور کی بات ہے! ٹیکنالوجی نے آج ایسے غیر مرئی نیٹ ورکس بنا دیے ہیں کہ اب گھروں کی پرائیویسی‘ گھروں کی شرم و حیا باہر جانے لگی ہے اور باہر کا گند‘ بے حیائی‘ عریانی اور فحاشی گھروں میں آنے لگی ہے۔
اب آتے ہیں اس طرف کہ وہ عورتیں جن کا ذکر درج بالا حدیث مبارکہ میں کیا گیا کہ وہ دجّال کے ساتھ ہوں گی‘ ان کے اثرات مَردوں پر کیا ہوسکتے ہیں۔ بے حیائی اور بے پردگی کا اصل ٹارگٹ کون ہے؟ مَرد اور اس کا اخلاق! مسلم معاشرے میں ہم کہیں گے کہ مسلمان مَرد اور اُس کا ایمان!بس یہی وہ مشن ہے جس پر شیطان اور اُس کی ذریتِ جن و انس شب و روز کی محنتیں کررہی ہے۔ انسانوں کو اللہ سے دور کرنا اور شیطان کے راستے پر چلانا‘ یہی دجّالی ایجنڈا ہے۔
دورِ جدید میں دجّالیت کااہم ترین ہتھیار:سمارٹ فون
دورِ جدید میں دجّالیت نے پوری دنیا کو سود پر مبنی معاشی نظام‘ مغربی جمہوریت کے نام پر سیاسی نظام‘ بے حیائی‘ عریانی اور فحاشی کی بنیاد پر معاشرتی نظام دینے کے بعد پچھلے تقریباً دس پندرہ سال سے ہر شخص کو فرداً فرداً اپنے کنٹرول میں کرنے کا منصوبہ بنایا ہے اور اس کے لیے جو آلہ دیا گیا ہے اُس کا نام سمارٹ فون ہے۔ جو صرف سمارٹ نہیں ہےبلکہ ’’ویری سمارٹ‘‘ فون ہے۔ اور آئے دن اُس کے اندر اُس کی استعدادات میں ہوشربا اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ایسا آلہ ہے جو آپ کی تمام معلومات تک ’’کسی‘‘ کو رسائی دے سکتا ہے۔ جس انسان کے بارے میں جتنی زیادہ معلومات حاصل ہوں گی‘ اس کو سمجھنا اور کنٹرول کرنا اور اس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا اتنا ہی آسان ہوجائے گا۔ یہ ایسی حقیقت ہے کہ جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔
آپ نے دیکھا ہو گا کہ دو تین دوست بیٹھ کر کسی موضوع پر بات کر رہے ہوتے ہیں تواُسی چیز کا اشتہار یا اسی چیز کے بارے میں معلومات آپ کےسمارٹ موبائل فون یا سوشل میڈیا پر فوراً نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ آپ کسی جگہ پر جاتے ہوئے کہیں زیادہ دیر رکیں گے تو فوراً ایک میسج آتا ہے کہ فلاں جگہ پر آپ رُکے تھے تو اس جگہ کے بارے میں معلومات دیں کہ آپ نے اس کو کیسا پایا؟ گویا آپ کے سفر کی معلومات کہیں پہنچ رہی ہیں۔ اسی طرح آپ آج کتنے قدم چلے ہیں۔ ہم بڑے خوش ہوتے ہیں دیکھو میں آج چار ہزار یا پانچ ہزار قدم چلا۔ دیکھو کس قدر زبردست آلہ ہے کہ جو میری صحت کے بارے میں معلومات دے رہا ہے۔ اسی طرح کچھ ایپلیکیشنز ایسی بھی ہیں جو آپ کا بلڈ پریشر ‘آکسیجن سیچوریشن اور دیگر معلومات بھی دے سکتی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ معلومات پہلے لےرہا ہوتا ہے‘ پھر ان معلومات کو پراسیس کرکے آپ کو بھی کچھ معلومات دے دیتا ہے۔ یہ سب کی سب معلومات بڑے ہی خوبصورت انداز میں اُس ویری سمارٹ فون کے ذریعے کہیں اور جمع ہو رہی ہیں۔ میرے خیال میں اس بارے میں مزید بات کرنے کے لیے ضرورت اس لیے نہیں کہ جو بھی سمارٹ فون استعمال کر رہا ہے‘ وہ اُس سے بخوبی واقف ہے۔
کچھ دن پہلے واٹس ایپ نے اعلا ن کیا تھا کہ ہم کچھ اور چیزیں بھی اب آپ سے حاصل کریں گے۔ جیسے مارکیٹنگ کے حوالے سے ‘کچھ بزنس پوائنٹ آف ویو سے ہم آپ سے معلومات لیں گے۔ کچھ ’’اہلِ ایمان‘‘ نے اپنے موبائل فونز سے فوری طور پر واٹس ایپ کو ختم کردیا ‘لیکن پھر کچھ عرصہ کے بعد رجوع کر لیا۔ ان کو خوف یہ ہوا کہ پتہ نہیں واٹس ایپ ہم سے کیا کیا معلومات لے گا۔ ارے بھائی! وہ بہت کچھ معلومات لے چکا‘ ہمیں تو پتہ ہی نہیں۔ فیس بک کیا کچھ لے چکا ہمیں اس کا اندازہ نہیں۔ ہماری شخصیت کا مکمل خاکہ اِس دنیا میں کہیں پر اعمال نامے کی صورت میں بن رہا ہے۔ مَیں کس پوسٹ پر کتنی دیر رُکا ہوں وہ مَیں جانتا ہوں یا میرا ربّ جانتا ہے۔ اُس کے بعد کون جانتا ہے؟ یہ سب چیزیں محفوظ ہو رہی ہیں۔یہ بات ذہن میں رکھیے گا کہ ہم جو ڈیجیٹل کام کر رہے ہیں اس میں سے کوئی چیز رائیگاں نہیں جا رہی۔ یہ تو سنا کرتے تھے نا کہ نیکیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اور ظاہر بات ہے ہمارا ایمان ہے کہ کراماً کاتبین لکھ رہے ہیں۔ آج ہم اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں کہ ایک سمارٹ فون ہے جو بہت ساری معلومات اپنے اندر سمو چکا ہےاور مسلسل سموتا چلا جارہا ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ سمارٹ فون جو معلومات دوسروں کو بھیج سکتا ہے اس میں فون میں محفوظ آواز ‘ وڈیوز‘ تصاویراور دیگر ڈیٹا ہی نہیں بلکہ بند یا سٹینڈ بائی موڈ میں لائیو آواز اور وڈیو بھی شامل ہیں۔ اسی طرح سمارٹ فون استعمال کرنے والے کی لائیو لوکیشن تو ہر وقت کہیں شیئر ہو ہی رہی ہوتی ہے۔
ان معلومات تک رسائی موبائل کے سافٹ ویئر بنانے والوں سے لے کر ہیکرز ‘ ٹیلی کام کمپنیز‘ فون بنانے والی کمپنیز ‘ آپریٹنگ سسٹم بنانے والی کمپنیز ‘ مختلف ممالک کی سیکیورٹی اور سپائنگ ایجنسیز سب کو حاصل ہے۔ ایک عام سا ہیکر بھی کچھ معلومات بڑی آسانی سے حاصل کرسکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تالے چوروں کے لیے نہیں ہوتے‘ اسی طرح موبائل فون کی پرائیویسی /سیکیورٹی مندرجہ بالا اداروں اور کمپنیز کے آگے کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ موبائل فون کے کیمرے موبائل فون کے دونوں طرف ہوتے ہیں۔ آپ پچھلے کیمرے کو تو کور لگا کر بند کرسکتے ہیں لیکن فرنٹ کیمرے کو کس طرح بند کریں گے۔ اس کو اتنا چھوٹا اور ایسی جگہ پر بنایا گیاہے کہ آپ اس کو آسانی سے بند بھی نہیں کرسکتے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ’’ان کو‘‘ اصل معلومات تو اس فون کے مالک کی درکار ہیں نہ کہ دوسروں کی۔ مزید برآں فون کا مائیک آپ بند کرہی نہیں سکتے !گویا یہ بات اب ہر سمارٹ فون رکھنے والے کو ذہن میں رکھ لینی چاہیےکہ اس فون کے ہوتے ہوئے ان کی کوئی پرائیویسی محفوظ نہیں۔
ابھی تو بزنس اور مارکیٹنگ کے نام پر سمارٹ فون کی ایپلیکیشنز ہم سے ہمارا ڈیٹا لے رہی ہیں اور ہم بھی ان ایپلیکشنز کو حاصل کرنے کی لگن میں بڑے ذوق و شوق سے یہ ڈیٹا فراہم کررہے ہیں۔ لیکن آپ یہ سوچیں جب وہ ان تمام معلومات کی بنیاد پر یہ سب جان گئے کہ میری شخصیت کیا ہے‘ میری پسند اور نا پسند کیا ہے‘ میرے دوست کون ہیں‘ میرے خیالات کیا ہیں‘ میرے جانے کے مقامات واوقات کیا ہیں تو مجھے ہینڈل کرنا ان کے لیے کس قدر آسان ہوگا؟ اور اللہ کی توفیق سے اگر مَیں دجّال اور اس کے نظام کےمقابلے پر کھڑا ہوں گا تو اُن کو پتہ ہو گا کہ اس کو کنٹرول کیسے کرنا ہے‘ اِس کو اپنی موت کیسے مارنا ہے۔ وہ میرے خفیہ کو بھی جانتے ہیں اور میرے اعلانیہ کو بھی ۔ میری براؤزنگ کی وجہ سے مَیں جو سوچتا ہوں اُس کو بھی جاننے لگ گئے ہیں۔ سب کا سب ڈیٹا اکٹھا ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک بچے کے بارے میں آپ کو پتہ ہو کہ یہ بچہ فلاں چیز سے خوش ہو جائے گا اور آپ کی بات مان لے گا‘تو آپ اسے وہ چیز لا کر دے دیں گے جس سے وہ مان جائے ۔ بہت سادہ سی بات ہے‘ اُن کو پتہ ہے کہ فلاں بندے کا یہ پروفائل ہے اور اس کو ہم کیسے ہینڈل کریں گے کہ یہ ہمارا مخالف نہ بنے۔
سمارٹ فون کے حوالے سے مَیں تو کہتا ہوں کہ ہم اپنے ہاتھوں میں ایک جاسوس لیے پھر رہے ہیں۔ مَیں نے دو سال قبل تنظیم اسلامی کے سالانہ اجتماع میں کہا تھا کہ خوش نصیب لوگ وہ ہیں جو سمارٹ فون استعمال نہیں کرتے۔ یہ بات مَیں نے دو لحاظ سے کہی تھی۔ اوّلاً یہ کہ ان کی شخصیت کا ورچوول ہیولا موجودنہیں‘ جس کی بنیاد پر ٹیکنالوجی اس شخص کی معلومات پر ایک حد سے زیادہ دسترس نہیں رکھتی۔ اور ثانیاً یہ کہ سمارٹ فون کی بدولت بے حیائی ‘عریانی اور فحاشی کے سیلاب سے وہ شخص محفوظ ہے۔ اس لحاظ سے قیامت کے دن معلوم ہو گا کہ ایسے لوگ کتنے خوش نصیب ہیں۔ (جاری ہے )
tanzeemdigitallibrary.com © 2025