(دعوت و عزیمت) دورِحاضر کے فرعونوں کا مقابلہ --- کیسے؟ - انجینئر محمد رشیدعمر

8 /

دورِ حاضر کے فرعونوں کا مقابلہ -----کیسے؟انجینئر محمد رشید عمر

اللہ تعالیٰ نے کرئہ ارضی پر جلوہ افروز ہو کر بلاواسطہ بذاتِ خود موسیٰ علیہ السلام سے بات کر کے قیامت تک کے فرعونوں کا مقابلہ کرنے کی راہ واضح فرما دی ۔ وسیع و عریض کائنات میں خالق ِ کائنات نے کرئہ ارضی کو یہ اعزاز بخشا کہ اس کی وادئ طویٰ میں جلوہ افروز ہو کر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے رو در رو اس طرح بات کی کہ سوائے حجابِ نور کے کوئی اور شے درمیان میں حائل نہ تھی۔ انہیں یہ پیغام دیا:
’’بے شک مَیں اللہ ہوں ‘کوئی معبود نہیں ہے سوائے میرے‘ پس میری ہی بندگی اختیار کرواور مجھے یاد رکھنے کے لیے نماز قائم کرو۔ اس کائنات کی بساط لپیٹنے کی گھڑی آ کر رہے گی‘ اس کے واقع ہونے کے وقت کو مَیں نے پردئہ راز میں رکھا ہے‘ تاکہ ہر شخص کو اُس کی سعی و جُہد کا بدلہ دیا جائے۔ اُس دن تمہیں کامیاب ہو کر حاضر ہونے کے راستے سے کوئی ایسا شخص ہرگز نہ روک سکے جو اس کے واقع ہونے پر یقین نہیں رکھتا اور اپنی خواہش ِنفس کے پیچھے چلتا ہے۔(اگر تم نے ایسے لوگوں کی سازشوں کا مقابلہ کر کے انہیں شکست نہ دی اور ان کی سازشوں کا شکار ہو گئے) تو سمجھو کہ تم نے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دیا۔‘‘ (ـطٰہٰ :آیات ۱۴ تا ۱۶ کی ترجمانی)
اللہ تعالیٰ نے جب سے بنی آدم کو زمین پر آباد کاری کا حکم دیا اسی گھڑی اسے دشمن سے خبردار کر دیا اور فرمایا کہ جو میری ہدایت کی پیروی کریں گے وہی کامیاب واپس لوٹ سکیں گے۔ یہ کامیابی دنیا کے اندر اللہ کی بندگی میں زندگی گزارنے اور وہ قوتیں جو آخرت کو نہیں مانتیں اور دنیا کی زندگی میں مَن مانی کرنا چاہتی ہیں‘ ان کی سازشوں کا مقابلہ کر کے ان کی چالوں کو ناکام بناکر اللہ کے قانون کے نفاذ کی جدّوجُہد کے ساتھ مشروط کی گئی ہے۔ اگر ان کی سازشوں کو کامیاب ہونے دیا گیا تو اس کا نتیجہ پوری انسانیت کی ہمیشہ کے لیےتباہی اور بربادی نکلے گا۔اس پیغام کو نوعِ انسانی تک پہنچانےکے لیے پے در پے انبیاء و رسل علیہم السلام سے کام لیا گیا ۔ لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ اتمامِ حُجّت کے لیے باری تعالیٰ نے صرف انبیاء و رسلؑ پر اکتفا نہیں کیا بلکہ خود کرئہ ارضی کے میدانِ طویٰ میںجلوہ افروز ہو کر یہ پیغام موسیٰ علیہ السلام کو بلاواسطہ عطا کیا۔ اللہ تعالیٰ جو کلاموں کا بادشاہ ہے‘ اس کے پیغام میں کس کمالیت کا پہلو ہے وہ کسی انسانی کلام کی مثال سے نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس پیغام کا ایک ایک لفظ اٹل‘ واضح اور واجب الاطاعت ہے۔ کارِ رسالت کی تفویض میں اتنی بڑی تبدیلی کہ اللہ تعالیٰ کی ذات نے بلاواسطہ خود یہ کام کیا! جس بگڑے ہوئے انسان کی اصلاح کے لیے موسیٰ علیہ السلام کی ذمہ داری لگائی گئی اس کے کردار کو جان کر اس کی ا ہمیت ہمارے سامنے آتی ہے۔ اس کردار کے دواوصاف کا ذکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(۱) جو آخر ت پر یقین نہیں رکھتا (۲) جو خواہش نفس کی پیروی کرتا ہے
ان دو اوصاف کے حامل انسان کو اگر نام دیا جائے تو فرعون بنتا ہے‘ جس کی طرف موسیٰ اور ان کے بھائی ہارون علیہما السلام کو بھیجا گیا۔ گویا ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ وقت کے فرعون کی سازشوں سے بنی اسرائیل کو نجات دلائیں ۔ فرعون کو وسیع و عریض ملک مصر جس کے بیچوں بیچ دریائے نیل بہتا ہے ‘ پر اقتدار حاصل تھا۔ ملکی وسائل صرف اُسی کی مرضی سے استعمال ہو سکتے تھے۔ وہ اپنے آپ کو’’ ربّ ِاعلیٰ‘‘ کہتا تھا۔ فوج کا بڑا لشکر جرار اس کے حکم پر حرکت کرتا تھا۔ جھوٹی جادوگری کی قوت اسے حاصل تھی۔ اُس دور کی ٹیکنالوجی جس سے اُس نے اہرام تعمیر کیے‘ جس کے تعمیری راز ابھی تک منکشف نہیں ہوئے وہ اسے حاصل تھی۔ وہ ان تمام وسائل کو خواہش ِنفس کا تابع ہو کر استعمال کر رہا تھا۔ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے رعایا کو گروہوں میں تقسیم کیا ہوا تھا اور بنی اسرائیل کی قوت کو کچلنے کے لیےان کے بیٹوں کو پیدائش کے وقت ہی مروا دیتا تھا اور بچیوں کو زندہ رہنے دیتا تھا ۔ اللہ کی ذات اور آخرت کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اُس کو راہِ راست پر لانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بھائی کو ذمہ داری سونپی۔ انہوں نے اللہ کا پیغام پہنچانے میں کوئی کمی کوتاہی نہیں کی‘ لیکن قوت کے ساتھ مقابلہ کرنا اُن کے لیے ممکن نہ تھا۔ اتمامِ حُجّت کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ اور ان کی قوم کو وہاں سے باحفاظت نکال لیا اور فرعون اور اُس کے پورے لائو لشکر کو اپنی خصوصی تدبیر سے دریابُرد کر دیا۔
فرعونیت انسانی سیرت و کردار کا ایسا بگاڑ ہے کہ بعد میں آنے والی انسانیت اس کا شکار ہونے جا رہی تھی۔ اس بگاڑ کی مثال ایسے ہی ہے کہ جیسے شراب کو اُمّ الخبائث کہا جاتا ہے اسی طرح فرعونیت اُمّ الکُفر وَالفُسوق وَالاثم وَالعُدوان ہے۔ فرعونیت کے تسلط کے لیے افکار و نظریات کی تاریخ آگے بڑھی تو (یوسف سلیم چشتی مرحوم کی تحقیق کے مطابق حضرت مسیح علیہ السلام سے چھ سو سال قبل اور چھ سوسال بعدکے دور میں) اللہ تعالیٰ نے اپنے مصلحین کو ایسی قوتوں اور صلاحیتوں سے نوازا جن کی بنیاد پر انہوں نے ہر دور کی فرعونی قوتوں کا مقابلہ کیا۔ ایک عرصہ تک معجزانہ طور پر ان کی نصرت کر کے اللہ تعالیٰ نے فرعونیت کو نیچا دکھایا۔
بالآخر دنیا میں آخری نبی حضرت محمد ﷺ کی بعثت ہوتی ہے۔ آپؐ کی اوّلین ذمہ داری اپنی قوم کی اصلاح تھی اور پھرپوری انسانیت کی۔ آپؐ کی قوم کے مخالفین کی قیادت ابوجہل کے ہاتھ میں تھی جس کے متعلق آپؐ نے فرمایا: ’’یہ اس قوم کا فرعون ہے‘‘ ۔ دوسری مخالف قوت مدینہ کے یہودی تھے۔ خدا فراموشی و نفس پرستی میں وہ بھی فرعون کے راستے پر چل رہے تھے۔ آپﷺ نے دعوت و تبلیغ اور صبر محض کی پالیسی پر عمل پیرا ہو کر تیرہ مکی سالوں میں  جاں نثارساتھیوں کی ایک جماعت تیار کی ۔ آپؐ کی دعوتی سرگرمیوں کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے مدینہ میں بھی ایک جماعت کھڑی کر دی۔ تیرہ سال بعد آپؐ نے مکّہ سے مدینہ ہجرت فرمائی۔ یہاں سے آپؐ نے انصار ِمدینہ کے ساتھ مل کر خالص انسانی سطح پر مخالف قوتوں کا سر کچلنے کے لیے اقدامات کا آغاز فرمایا۔ مدینہ میں مسجد نبوی کی شکل میں مرکز کی تعمیر فرمائی۔ انصار اور مہاجرین میں بھائی چارہ قائم کیا۔ مدینہ کے یہودی جو ایمان نہیں لا رہے تھے‘ان کے ساتھ پُرامن بقائے باہمی کا معاہدہ کیا۔مکّہ اور مدینہ کے درمیان اور اردگرد کے قبائل کے ساتھ ملاقاتیں کیں اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی پوزیشن واضح کر دیں کہ وہ مشرکینِ مکّہ کے ساتھ ہیں یا اللہ کے پیغمبر کے ساتھ ہیں‘تاکہ آنے والے وقت میں مشرکینِ مکّہ سے تصادم کی صورت میں واضح رہے کہ کون کس کے ساتھ ہے۔ پھر آپﷺ نے راست اقدام کرتے ہوئے مشرکینِ مکّہ کے تجارتی سفروں میں رکاوٹیں پیدا کرنا شروع کر دیں جس کے نتیجے میں مشرکین مکّہ کو واضح ہو گیا کہ محمد رسول اللہ (ﷺ)اور آپ ؐکے ساتھیوں کو ختم کیے بغیر انہیں معاشی سکون حاصل نہیں ہو سکتا۔دو ہجری سے جنگوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو آٹھ ہجری میں فتح مکّہ پر اختتام پذیر ہوا اورپورے جزیرہ نمائے عرب میں اسلام کا غلبہ ہو گیا۔ اس جدّوجُہد کاہر قدم آنے والے دور میں کسی بھی انقلابی تبدیلی کے لیے ایسا سنگ میل ثابت ہوا کہ اس سے گزرے بغیر تبدیلی کا عمل مکمل نہیں ہو سکتا۔
فرمان باری تعالیٰ ہے:{لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا} (الاعراف:۵۶) ’’اور زمین میں اصلاح کے بعد اس میں فساد مت پھیلائو!‘‘یہ حقیقت ہے کہ خالق کائنات نے بنا سنوار کر معاملات انسان کے حوالے کیے ہیں‘ لیکن انسان نے شیطانی چکروں میں پڑ کر بگاڑ ہی پیدا کیا ہے۔ آخری اصلاح پیغمبر آخر الزماں ﷺ کے ہاتھوں فرمائی اور یہ اصلاح اتنی ہمہ جہت‘ ہمہ پہلو اور مکمل تھی کہ صدیوں تک لوگوں نے اس کے تحت زندگی گزاری۔ لیکن وقت کے ساتھ خدا فراموشی اور نفس پرستی کے ہاتھوں پھر سے انسان فرعونیت کے راستے پر چل نکلاہے۔ غیر منصفانہ انسانی مساوات کے اصول پر مبنی جمہوری طرزِ حکمرانی جس کے بارے میں ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے فرمایا تھا کہ غلاظت کا جو ٹوکرا بادشاہت کی شکل میں ایک انسان کے سر پر رکھا تھا اسےتھوڑا تھوڑا کر کے سارے عوام میں تقسیم کر دیا گیا۔ اب یہ فرعون

G-20, G-7, G-5, G-5, G-4

وغیرہم کے ناموں سے جانے جاتے ہیں۔ یہ اس دور کے آقا ہیں۔مسلمان ممالک کا حکمران طبقہ ان کا غلام ہے۔ کوئی دوسرا آقا ان کی قیمت دے کر ان کو اپنا غلام بنا سکتا ہے یا خرید کر آزاد کر سکتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات ہیں کہ غلاموں کو آزاد کرایا جائےاور ان کو ساتھ ملا کر وقت کے فرعونوں کو راہِ راست پر لایا جائے۔ چنانچہ آزاد مسلمانوں کے سامنے درج ذیل چیلنجز ہیں:
(۱) اپنی قوم کو فرعونوں سے آزادی دلانا۔
(۲) اس دورکے فرعونوں کو شکست دے کر شریعت ِاسلامی کو نافذ کرنا ۔
آزاد مسلمانوں کی زبان سے جاری ہونے والی دعوت میں لوگوں کو جہاںاللہ ربّ  العزت کی بندگی کی طرف بلانا ہوتا ہے‘ وہاں لوگوں کے اندر غلامی سے آزادی کا جذبہ بیدار کرنا بھی شامل ہونا چاہیے۔ فراعین ِوقت کا مقابلہ بھی ایک آزاد قوم ہی کر سکتی ہے ۔ اللہ کے فضل سے ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کے نعرئہ تکبیر سے آج کے فرعون بھی لرزتے ہیں۔ ہر اعتبار سے ان کے دست و بازو بننے کی ضرورت ہے۔ جدید علوم و فنون کے ماہر مسلمانوں کو اپنی خدمات انہیں پیش کرنا چاہئیں‘تاکہ بے خدا ٹیکنالوجی کی جھوٹی جادوگری کا مقابلہ بھی کیا جا سکے۔ (اُمّت ِمسلمہ کی تاریخ کے پانچ اَدوار والی حدیث کی روشنی میں اس مضمون کو دیکھا جائے!)