(دعوت و تحریک) احیائی مساعی اور تنظیم اسلامی کا محل و مقام - خورشید انجم

8 /

احیائی مساعی اور تنظیم اسلامی کا محل و مقامخورشید انجماَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَحْدَہٗ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنْ لَّا نَبِیَّ بَعْدَہٗ
اعوذ باللّٰہ من الشَّیطٰن الرَّجیم ۔ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

{مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَط وَکَانَ اللہُ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عَلِیْمًا(۴۰)} (الاحزاب)
{هُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ}

وقال رَسُولُ اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم:
((إِنَّ اللہَ یَبْعَثُ لِھٰذِہِ الْأُمَّۃِ عَلٰی رَأْسِ کُلِّ مِائَۃ عَامٍ مَنْ یُجَدِّدُ لَھَا دِیْنَھَا))(رواہ ابو داؤد)
سورۃ الاحزاب کی مذکورہ بالاآیت کے مطابق ختم ِنبوت اور تکمیل ِرسالت کا تاج محمد رسول اللہ ﷺ کے سر مبارک پر رکھا گیا ۔
{اِنَّ فَضْلَہٗ کَانَ عَلَیْکَ کَبِیْرًا(۸۷)} ( بنی اسرائیل)
’’یقیناً یہ اللہ کا بہت بڑا فضل ہے جو آپؐ پر ہوا ہے۔ ‘‘
لیکن اس ختم ِنبوت و رسالت سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کی تلافی کا بھی اللہ تعالیٰ نے درج ذیل اہتمام فرما دیا ہے :
۱ ۔ اپنے نورِ ہدایت کا اِتمام فرما دیا :
{اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَـکُمْ دِیْـنَـکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَـکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْـنًاط} ( المائدۃ:۳)
’’آج کے دن مَیں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیاہےاور تم پر اپنی نعمت کا اِتمام فرمادیا ہے اور تمہارے لیے مَیں نے پسند کر لیا ہے اسلام کو بحیثیت دین کے۔ ‘‘
اور سورۃ الصف میں فرمایا :
{وَاللہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ(۸)}
’’اور اللہ اپنے نُور کا اِتمام فرما کر رہے گا ‘خواہ یہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔‘‘
۲۔ اس وحی کامل (قرآن مجید) کی حفاظت کا خود ہی ذمہ لے لیا:
{اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ(۹)}
’’یقیناً ہم نے ہی یہ ذکر نازل کیا ہے اور بلاشبہ ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔‘‘
گویا اب کسی نئی وحی یا نئے نبی کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں رہی۔
اب آگے یہ کام کیسے چلے گا؟یہ ذمہ داری نبی کریم ﷺ نے اس اُمّت کے حوالے کردی۔ یہ قرآن تو مکمل ہو گیا ہےاور اس کی حفاظت کا ذمہ بھی اللہ تعالیٰ نے لے لیا ہے‘ اب اس کو آگے پہنچانے کی ذمہ داری اس اُمّت کے سر ہے۔اس ضمن میں نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان انتہائی ترغیب و تشویق کا مظہر ہے :
((خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ القُرْآنَ وَعَلَّمَهُ))(متفق علیہ)
’’تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو قرآن سیکھیں اور (دوسروں کو) سکھائیں۔‘‘
یعنی قرآن کا علم پہلے خود حاصل کریں اورپھر دوسروں کوبھی پہنچائیں۔ ساتھ ہی اللہ کے نبیﷺ نے اس کا کم ازکم نصاب بھی بتا دیا: ((بَلِّغُوْا عَنِّي وَلَوْ آيَةً))(رواہ البخاری) ’’ پہنچاؤ میری جانب سے چاہےایک ہی آیت ہو!‘‘یعنی اگر صرف ایک آیت بھی یاد ہے تو اس کو بھی آگے پہنچاؤ۔
اس کے ساتھ ساتھ پھر اللہ تعالیٰ کی ایک اضافی تدبیر ہے جو اُس نے اپنی حکمت ِ بالغہ کے تحت بیان فرمائی ہےاور وہ یہ ہے کہ مجددین کا ایک عظیم سلسلہ شروع فرمادیا ۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ جو بھی مَن گھڑت عقائد و خیالات ‘ باطل نظریات ‘ بدعات و رسومات اور توہمات دین میں دَرآئیں‘ان کی بیخ کنی کردی جائے۔ جس طرح پہلے انبیاء ِکرام علیہم السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی سُنّت رہی ہے‘مثلاً حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے جب دین میں خرابی پیدا کی اور مشرکانہ رسوم دین میں داخل کردیں تو اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کو بھیجا‘قوم نے انکار کردیا تواس پر عذاب آگیااور جو بچ گئے انہوں نے نئے سرے سے دین کو قائم کیا۔کچھ عرصہ دین اپنی اصل حالت میں قائم رہا۔ پھر جب دوبارہ اخلاقی بیماریاں آگئیں تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ہود علیہ السلام کو اس قوم کی طرف بھیجا۔ اجتماعی طور پر قوم نے ان کو نہ مانا تو پھر اللہ کا عذاب آگیا۔نہ ماننے والے تباہ و برباد ہوگئے اور جو بچ گئے توانہوں نے دوبارہ دین قائم کردیا۔یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا‘یہاں تک کہ ایک بار پھر شرک ‘ بدعات اور خرافات دَر آئیں تو ایک ہزار سال کے فصل سے حضرت صالح علیہ السلام تشریف لائے۔اس طرح تجدید ِدین کا ایک سلسلہ ہمیشہ سے جاری رہا کہ جب بھی کبھی قوموں کے اندر خرابی پیدا ہوتی تو اللہ تعا لیٰ انبیاء و رُسل علیہم السلام کو مبعوث فرماتا اور وہ ان کی اصلاح کا فریضہ سرانجام دیتے ۔
نبی آخر الزماں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر ختم ِنبوت و تکمیل ِرسالت کے بعد تجدید ِدین کا یہ سلسلہ مجددین ِاُمّت کی صورت میں چلتا رہا ہے۔اس کے ساتھ ہی اللہ کے نبی ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ میری اُمّت میں ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔سلسلہ مجددین کے ضمن میں نبی اکرمﷺ کا ارشاد مبارک ہے:
((إِنَّ اللہَ یَبْعَثُ لِھٰذِہِ الْأُمَّۃِ عَلٰی رَأْسِ کُلِّ مائَۃ عَامٍ مَنْ یُجَدِّدُ لَھَا دِیْنَھَا)) (سنن ابی داوٗد)
’’ اللہ تعالیٰ اس اُمّت میں ہر صدی کے سرے پر ایسے لوگوں کو اُٹھاتا رہے گا جو اس (اُمّت) کے لیے اس کے دین کو ازسرِ نو تازہ کرتے رہیں گے۔‘‘
یہاں سو سال سے یہ مراد نہیں ہے کہ بارہ سو سال پورےہوئے تو تیرہ سو میں ایک نئی ہستی آگئی‘ تیرہ سو پورے ہوئے تو چودہ سو میں ایک نیا مجدد آگیا‘ بلکہ علمائے اُمّت کا تقریباً اجماع ہے کہ یہ مجدد وقتاً فوقتاً کبھی صدی کے شروع میں‘کبھی درمیان میں‘اور کبھی بعد میں آئیں گے۔
دوسری بات‘ یہ بھی ضروری نہیں کہ ایک صدی میں کوئی ایک ہی شخص مجدد ہوگا‘بلکہ متعدد اصحابِ ہمت و عزیمت آتے رہیں گے اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ پہلے ہزار سال کے دوران میں سارے مجددین عالم ِعرب میں آئے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒاور حضرت حسن بصری ؒسے امام غزالیؒ اور امام ابن تیمیہؒ تک جتنے بھی مجددین ِاُمّت ہیں‘علماء و فقہاء‘ محدثین کرام ومفسرین کرام ہیں‘ وہ تمام کے تمام عالم عرب میں آئے۔ البتہ جب بنو عباس کی عیاشیاں اپنی انتہا کو پہنچ چکیں اور وہ کیفیت ہوگئی:
مَیں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر اُمم کیا ہے
شمشیر و سناں اوّل‘ طاؤس و رباب آخر!
یعنی طاؤس و رباب مقدّم ہوگیا اور راگ ورنگ کی محفلیں جمنی شروع ہوگئیں۔ وہی مشاعرے ہیں‘وہی سونے چاندی کےبرتنوں میں کھایا جا رہا ہے‘وہی قیصر و کسریٰ کےرنگ ڈھنگ شروع ہوگئے اور شمشیر و سناں سے تعلق بالکل ختم ہوگیاتو اللہ تعالیٰ کے عذاب کا کوڑا فتنۂ تاتار کی صورت میں ان پر برسا۔ اس کے ساتھ ہی اسلام کی علمی و روحانی وراثت سرزمین ہند کی طرف منتقل ہونا شروع ہوگئی۔
گیارہویں صدی ہجری
دوسرا ہزار واں سال یعنی الف ثانی جب شروع ہوا تو برصغیر میں مغل بادشاہ جلال الدین اکبر حکمران تھا۔ ایک طرف تو اس کی سیاسی اور حکومتی مصلحتیں تھیں‘ دوسری طرف اس کے ساتھ مُلامبارک اور اس کے دو بیٹوں ابو الفضل اور فیضی جیسے انتہائی ذہین و فطین‘ مطلب پرست دانشور بھی تھے۔ فیضی نے ’’سواطع الالہام‘‘ کے نام سے بغیر نقطوں کے دو جلدوں میں قرآن کریم کی تفسیر لکھی ہے ۔کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جس میں نقطہ ہو۔ ان دونوں بھائیوں نے اکبر کو پٹی پڑھائی کہ محمد رسول اللہ ﷺکا دین تو ایک ہزار سال کے لیے تھا اور اس کی مدّت ختم ہوگئی ہے۔ اب چونکہ دوسرا ہزار واں سال شروع ہورہا ہے‘لہٰذا ایک نئے دین کی ضرورت ہے اور ظاہر ہے کہ اس نئے دین کے لیے پھر ایک نئی ہستی کی ضرورت ہے اور وہ ہستی آپ جیسے پُر شکوہ بادشاہ ہی کی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے اس کو ایک نیا دین بنا کر دے دیا اور اس طرح اللہ کے دین کی جگہ’’ دین اکبری‘‘ نے لے لی۔ کواکب پرستی اور عقیدئہ تناسخ کے علاوہ مختلف مذاہب کا ایک ملغوبہ تیار کیا گیا۔ شراب‘ سود اور سؤر کو حلال ٹھہرا لیا گیا۔ بادشاہ کے لیےسجدۂ تعظیمی جائز قرار دے دیا گیا۔ ہندوانہ اثرات کے تحت گوشت خوری ناپسندیدہ ٹھہری۔ ’’السلام علیکم‘‘ کی جگہ ’’اللہ اکبر‘‘ کہا جانے لگا یعنی اکبر اللہ ہے اور ’’وعلیکم السلام‘‘ کی جگہ’’ جل جلالہٗ ‘‘کہا جانے لگا۔جب نوبت یہاں تک پہنچی تو پھر اللہ تعالیٰ نے جلالِ فاروقی کو شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ کی صورت میں ظاہر کیا اور انہوں نے اس مزعومہ دین اکبری کا قلع قمع کیا ۔ تین محاذوں پر شیخ مجدد نے خاص طور پر کام کیا:
۱) مقامِ نبوت کی وضاحت اور نبی اکرم ﷺ کےخاتم النّبیّین ہونے اور تا قیامِ قیامت آپ ﷺ کی نبوت و رسالت پر زور اور سُنّت کی ترویج اور بدعات کا ردّ
۲) اہل ِتصوّف کی اصلاح
۳) سب سے بنیادی کام بادشاہ ‘ حکومتی عمائدین اور ارکانِ سلطنت کو راہِ راست پر لانے کی کوشش۔ اقبال کے الفاظ میں ؂
حاضر ہوا مَیں شیخ مجدد کی لحد پر
وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلعِ انوار!
گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمیٔ احرار!
وہ ہند میں سرمایۂ ملّت کا نگہباں
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار!
گیارہویں صدی ہجری میں ان کے ساتھ دوسری اہم شخصیت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ کی ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ علم ِحدیث کا پودا ہندوستان میں انہوں نے لگایا ہے ۔ اس صدی میں پورے عالم ِ اسلام میں ان دونوں کی ٹکر کی کوئی شخصیت نظر نہیں آتی۔
بارہویں صدی ہجری
بارہویں صدی ہجری میں تدریسی ‘ تصنیفی اور سیاسی خدمات انجام دینے والی نہایت اہم و جامع شخصیت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کی ہے۔ تفسیر‘ حدیث اور فقہ کے ساتھ تاریخ‘ منطق ‘ ادب ‘فلسفہ ‘ تصوّف و سلوک اور تقریباً ہر میدان اور ہر فن کے اندر ان کی تصنیفات موجود ہیں اور یہ تصانیف ہی ان کی جامعیت کا مظہر ہیں۔ انہیں جدید عمرانیات کا ’’موجد ِاوّل‘‘بھی کہا جاتا ہےاور انہوں نے فکر ِ اسلامی کی تدوین ِ نو کا کارنامہ بھی سرانجام دیا ہے ۔ البتہ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کا سب سے بڑاکارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اس اُمّت کا رشتہ قرآن مجیدکے ساتھ جوڑدیا اور رجوع الی القرآن کی تحریک کے ایک طویل المیعاد عمل کا آغاز شاہ ولی اللہ ؒ کی ذات سے شروع ہوا۔ انہوں نے اصولِ تفسیر کے موضوع پر ایک مختصر رسالہ ’’الفوز الکبیر‘‘ کے نام سے تحریر کیا اور قرآن مجید کا پہلی مرتبہ مستند فارسی ترجمہ بھی انہوں نے ہی کیا ۔
کہا گیا کہ قرآن کا ترجمہ‘ یہ کیسے ممکن ہے! وقت کے مذہبی پیشوائوں کے نزدیک یہ بہرحال بہت بڑی’’ گستاخی‘‘ تھی جو اس زمانے میں ہو گئی کہ ع ’’ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اِس زمانے میں!‘‘اس کی پاداش میں انہیں دہلی بدر کیا گیا اورلوگ ان کو قتل کرنے کے ارادے سے ان کے گھر پہنچ گئے‘لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں محفوظ رکھا۔ رجوع الی القرآن کے ساتھ دوسری جانب فکری محاذ پر فَکّ کُلّ نظام ( ہر باطل نظام کومٹا دو! ) کے نعرے کے تحت انہوں نے ایک فکری تحریک کی بنیاد بھی رکھی۔
اُمّت ِمحمدیہ ﷺ کو قرآن مجید کے ساتھ جوڑنے کا سلسلہ پھر آگے ان کے بیٹوں میں بھی چلا۔ ان کے ایک بیٹے شاہ رفیع الدین رحمہ اللہ نے قرآن کا لفظی ترجمہ کیا‘جبکہ دوسرے بیٹے شاہ عبدالقادر رحمہ اللہ نے قرآن کا بامحاورہ ترجمہ کیا جو آج بھی ایک ریفرنس ترجمہ سمجھاجاتا ہے۔ اردو میں جتنے بھی تراجم ہوئے ہیں ان کی بنیاد اسی ترجمے کو بنایا گیا ہے۔ شیخ الہندمولانا محمود حسن رحمہ اللہ نے شاہ عبدالقادرؒ کے تقریباً سو سال بعد ترجمہ کیا اوراس کے بارے میں کہا کہ اب زبان کا محاورہ تبدیل ہوگیا ہے لیکن ترجمہ وہی ہے جو شاہ عبد القادرؒ نے کیا ہے۔
تیرہویں صدی ہجری
پھر تیرہویں صدی ہجری کے اندر ایک اور عظیم شخصیت اٹھی اور وہ ہے مجاہد ِکبیر سید احمد شہید رحمہ اللہ کی۔ یوں کہہ لیجیےکہ شاہ ولی اللہ ؒ کی تحریک کے تسلسل کے طور پر ان کی تحریک اُٹھی اور ہندوستان میں پہلی بار خالص نبویؐ نہج پر جہاد کیا گیا۔ بقول بانی جماعت ِاسلامی مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ :
’’ برصغیر ہندو پاک کی پوری تاریخ میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان جنگیں تو بہت ہوئی ہیںلیکن حقیقی جہاد صرف ایک ہی بار ہوا ہے‘ اور یہ جہاد وہی تھا جوسیّد احمد شہید ؒ اور ان کے ساتھیوں نے کیا اور جس کا مقصد ِ واحد اعلائے کلمہ حق کے سوا کچھ نہ تھا۔‘‘
اور بانی تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر اسرار احمد ؒ فرماتے ہیں کہ:
’’دورِ صحابہ ؓکے بعد خالص نبوی نہج پر جہاد و قتال کا نقشہ میرے مطالعے میں ا گر آیا ہے تو وہ تحریک ِشہیدینؒ ہے۔ اسلامی لشکر کو دیکھ کر ایرانی لشکر کے سپہ سالار رستم کو اس کے جاسوسوں نے جو رپورٹ دی تھی کہ: ھُمْ رُھْبَانٌ بِاللَّیْلِ وَ فُرْسَانٌ بِالنَّھَارِ (وہ رات کے راہب ہیں اور دن کے شہسوار!) بالکل وہی نقشہ ہمیں یہاں پر بھی نظر آتا ہے کہ دن کو جنگی مشقیں ہیں یا میدانِ جنگ میں دادِشجاعت دے رہے ہیں تو رات کو ربّ کے حضور کھڑے ہیں۔ اور اس میں ایک تجدیدی تسلسل یہ بھی ہے کہ اس معاملے میں خانوادۂ شاہ ولی اللہ کا تعاون انہیں حاصل رہا ۔چنانچہ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے دو صاحبزادوں شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ اور شاہ عبد القادر رحمہ اللہ نے سید احمد شہید رحمہ اللہ کی تربیت کی ہے اور شاہ ولی اللہ کے پوتے اور شاہ عبدالغنی رحمہ اللہ کے بیٹے شاہ اسماعیل شہیدرحمہ اللہ ان کے ساتھ بالکل ایک ما ٔمور کی حیثیت سے رہے ہیں۔ حالانکہ وہ بہت جید عالم دین تھے‘ لیکن انہوں نے سیّداحمد شہید رحمہ اللہ پر اپنی تمام تر خاندانی وجاہت اور مسلّمہ علمی برتری کے باوجود ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ ‘‘
چودہویں صدی ہجری
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ چودہویں صدی ہجری میں مختلف شخصیات ہیں۔جیسے گلدستے میں مختلف اقسام کے پھول ہوتے ہیںاور ع ’’ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است!‘‘اسی طرح کی کیفیت ہمیں چودہویں صدی ہجری میں نظر آتی ہے۔ اس صدی میں انگریزی استعمار کے آجانے کی وجہ سے تعلیم و تربیت کے دو مستقل دھارے برصغیر میں بہہ رہے تھے۔ایک قدیم مدارس سے فیض یاب ہونے والوں کا اور دوسرا کالجز اور یونیورسٹیز سے استفادہ کرنے والوں کا۔ مدارس میں جو عظیم اور جامع شخصیت نظر آتی ہے وہ مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ کی ہے۔ اگر شاہ ولی اللہ ؒکی جامعیت کا مظہر ان کی تصانیف ہیں توشیخ الہند ؒ کی جامعیت کا ظہور ان کے تلامذہ کی صورت میں نظر آتا ہے۔ ان کا ہر شاگرد اپنی جگہ ایک اہم مسلّمہ شخصیت کا مالک تھا۔ مولانا حسین احمد مدنی‘ مولاناشبیراحمدعثمانی ‘مفتی کفایت اللہ ‘ مولانا انور شاہ کشمیری ‘ مولانا اعزاز علی ‘ مولانا احمد سعید (رحمہم اللہ)اور دوسرے بہت سے شاگرد اُن کی جامعیت کا مظہر ہیں۔ سیاسی طور پر انہوں نے بڑا اہم رول ادا کیا ۔’’ ریشمی رومال تحریک ‘‘کا راز افشا ہونے پر ان کو گرفتار کرکے مالٹا بھیج دیا گیا۔وہاںسے جب وہ واپس آئےتو ٹی بی آخری اسٹیج پر پہنچ چکی تھی۔ اپنی زندگی کے آخری دور یعنی ۱۹۲۰ء میں جمعیت علماء ِہند کے پہلے اجلاس میں انہوں نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’مَیں نےجہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے۔ ایک ان کا قرآن کو چھوڑ دینا‘ دوسرے ان کے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی ۔اس لیے مَیں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صَرف کردوں کہ قرآن کریم کو لفظاً و معناً عام کیا جائے…بڑوں کو عوامی درسِ قرآن کی صورت میں اس کے معانی سے روشناس کرایا جائے‘اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کیا جائے‘ اور مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے۔‘‘
مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب ؒ نے’’ وحدتِ اُمّت ‘‘نامی کتاب میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ: ’’… غورکیا جائے تو یہ آپس کی لڑائی بھی قرآن کو چھوڑنے ہی کا لازمی نتیجہ ہے۔‘‘ظاہر ہے قرآن تو کہتا ہے :
{وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْاص} (آل عمران :۱۰۳)
’’ اور اللہ کی رسّی کو سب مل کر مضبوطی سے تھامو اور آپس میں تفرقہ میں مت پڑو!‘‘
لہٰذا ایک طرف عملی طور پر تو انہوں نے رجوع الی القرآن کی تحریک شروع کی اور دوسری طرف فکری سطح پر یہ تجویز پیش کی کہ ابو الکلام آزاد ؒ کو’’امام الہند‘‘ مان کر ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی جائے۔
کالجز اور یونیورسٹیز کے دھارے سے نکلنے والی اہم شخصیت رومیٔ ثانی ‘ ترجمان القرآن‘ نابغہ عصر علّامہ اقبال ؒ کی ہے۔ ان کی شاعری کے مضامین میں مکمل قرآن موجزن نظر آتا ہے۔ ان کے اشعار محبّت ِ الٰہی اور عشق ِرسولﷺ سے بھرے ہوئے ہیں اور انہوں نے تو پورے اعتماد کے ساتھ یہاں تک کہہ دیا کہ: ؂
گر دلم آئینۂ بے جوہر است
ور بحرفم غیرِ قرآں مضمر است
پردۂ ناموسِ فکرم چاک کن
این خیاباں را زِ خارم پاک کن
روزِ محشر خوار و رسوا کن مرا
بے نصیب از بوسۂ پا کن مرا!
مفہوم: ’’اے اللہ! اگر میرے دل کا آئینہ کسی خوبی سے خالی ہے اور اگر میرے کلام میں قرآن کےسوا بھی کچھ موجود ہے توپروردگار! قیامت کے دن مجھے رسوا اور ذلیل کردینا اور مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاؤں کے بوسے سے بھی محروم کردینا۔‘‘
کتنی بڑی بات ہے جو اپنے اشعار کے بارے میں علّامہ اقبال کر رہے ہیں۔ اور پھر نثر میں یعنی اپنےخطبات میں انہوں نے اعلیٰ علمی سطح پر مطالعہ ٔقرآن کو پیش کرنے کی ایک کوشش کی ہے۔ چنانچہ علامہ نے شعر و نثر کے ذریعے قافلۂ ملّی کو بیدار کیا ہے اور نشا ٔۃ ِثانیہ اور تجدید واحیائے دین کا کام کیا ہے ۔
یہ تھا دعوت رجو ع الی القرآن کا کام۔ دوسری جانب فکری سطح پر بھی علّامہ اقبال نےبہت کام کیا ہے۔یہ بات زیادہ تر عام نہیں ہے‘لیکن برہان احمد فاروقی صاحب نے اپنی کتاب میں اس کا ذکر کیا ہے اور سابقہ امیر تنظیم اسلامی محترم حافظ عاکف سعید صاحب نےباقاعدہ ایک کتابچہ ’’علّامہ اقبال کی آخری خواہش‘‘ کے نام سےلکھا ہے کہ علّامہ نے علی گڑھ کالج کے بعض پروفیسروں کے ساتھ مل کر بیعت کی بنیاد پر’’ جمعیت شبان المسلمین‘‘ کے نام سے ایک جماعت قائم کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔
چودہویں صدی ہجری کی تیسری اہم شخصیت مولانا الیاس رحمہ اللہ کی ہے۔ دلی کی جنگلے والی چھوٹی سی مسجد سے تبلیغ کے عنوان سے انہوں نے اپنے کام کا آغاز کیا۔زبان میں بھی لکنت تھی‘ انتہائی منحنی اور نحیف شخص تھے‘لیکن آج پوری دنیا کے اندر تبلیغی جماعت کی چلت پھرت انہی کی برکت سے ہے۔اس کے بعد ۱۹۱۲ ءمیں مولانا ابوالکلام آزادؒ کی شخصیت نے دعوت رجوع الی القرآن کا آغاز’’ الہلال ‘‘اور ’’البلاغ‘‘ کے ذریعے کیا۔ ’’ترجمان القرآن‘‘ کے نام سے انہوں نے قرآن کی تفسیر لکھی اور دوسری طرف فکری سطح پر حکومت ِالٰہیہ کا تصوّر پیش کیا۔ واضح طور پر ہماری تاریخ کے اندر حکومت ِالٰہیہ کا تصوّر ابوالکلام مرحوم نے دیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بیعت کی بنیاد پر حزبُ اللہ کی تاسیس بھی کی۔ ۱۹۱۲ ء سے ۱۹۲۰ء تک انہوں نے بڑے بھر پور طریقے سے کام کیا‘لیکن اس کے بعد اس کام کو چھوڑ کر انڈین نیشنل کانگریس میں شامل ہو کر اپنی پوری زندگی سیاست کی نذر کردی۔
اس کے کم و بیش دس گیارہ سال بعد پھر ایک اور شخصیت سامنے آئی ‘سیّد ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ کی۔ فکری رہنمائی بہت حد تک اقبال سے حاصل کی‘جبکہ جذبۂ تحرک ابوالکلام مرحوم سے۔ علّامہ اقبال کی دعوت پر ہی حیدر آباد دکن کی سنگلاخ زمین کو چھوڑ کرگورداسپور پنجاب کی زرخیز زمین کی طرف ہجرت کی۔دونوں حضرات نے باہمی مشورے سے ایک مشن کے تحت ایک مثالی بستی اوردینی تحقیق و تربیت کا ادارہ قائم کرنے کاارادہ کیا‘جس کا نام باہمی اتفاق سے ’’دارالاسلام‘‘ تجویز کیا گیا۔ وہی دعوت رجوع الی القرآن اب ’’تفہیم القرآن‘‘ کے نام سے سامنے آئی۔ آج پوری دنیا اس سے استفادہ کر رہی ہے۔ الاخوان المسلمون اور دوسری اسلامی تحریکوں کے لیے مولانا کے لٹریچر نے غذا کا کام کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت ِالٰہیہ کے نصب العین کے پیش نظر ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی قائم کر کے عملی جدّوجُہدکا آغاز کیا۔
جماعت اسلامی کے انتخابی سیاست میں کود جانے کے بعد۱۹۵۷ء میں تقریباً اسّی ارکان اس سے جدا ہوئے جن میں بانی تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ بھی شامل تھے۔ ۱۹۶۵ء میں ڈاکٹر صاحب ؒ لاہور منتقل ہوئے اور درسِ قرآن کا ایک سلسلہ شروع کیا ۔ یہاں ذرا توقف کر کے اس تسلسل کو ذہن میں لائیے کہ دعوت رجوع الی القرآن اور حکومت ِالٰہیہ کا نعرہ جو شاہ ولی اللہ ‘ شیخ الہند ‘ ابوالکلام آزاد اور سیّد مودودی رحمہم اللہ نے لگایا تھا‘اسی کو ڈاکٹر اسرار احمد ؒ لے کر اُٹھےاور خدمت ِقرآنی کے سلسلے کو قائم رکھتے ہوئے ۱۹۷۲ء میں مرکزی انجمن خدّام القرآن لاہور قائم کی‘ جس کے مقاصد درج ذیل ہیں :
۱) عربی زبان کی تعلیم و ترویج
۲) قرآن مجید کے مطالعے کی عام ترغیب و تشویق
۳) علومِ قرآنی کی عمومی نشرواشاعت
۴) ایسے نوجوانوں کی مناب تعلیم و تربیت جو تعلیم و تعلّم ِقرآن کو اپنا مقصد ِ زندگی بنالیں۔
۵) ایک ایسی ’’قرآن اکیڈمی‘‘ کا قیام جو قرآنِ حکیم کے فلسفہ و حکمت کو وقت کی اعلیٰ ترین علمی سطح پر پیش کر سکے۔
اسی کے زیر ِاہتمام مطالعہ قرآن حکیم کے ایک منتخب نصاب کو بڑی تفصیل سے بیان کیا‘ جس کے ذریعے دین کے ہمہ گیر تصوّر کو واضح کیا کہ دین ِاسلام صرف عقائد ‘ عبادات اور رسومات کا مجموعہ نہیں‘بلکہ اس کی اصل حیثیت ایک کامل نظریۂ حیات اور مکمل نظامِ زندگی کی ہے ‘ جبکہ دوسری طرف فرائض دینی کے جامع تصوّر کو واضح کیا کہ اللہ تعالیٰ ایک بندۂ مؤمن سے آخرت میں کامیابی کے لیے کیا تقاضا کرتا ہے۔
اسی تحریک رجوع الی القرآن کے ضمن میں۱۹۸۴ء (۱۴۰۴ھ)کے رمضان المبارک میں تراویح کے ہمراہ دورۂ ترجمہ قرآن کا آغاز کیا ۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک منفرد کام تھا‘بقول حفیظ جالندھری؎
کیا پابند نے نالے کو مَیں نے
یہ طرزِ خاص ہے ایجاد میری!
الحمد للہ ‘ اللہ تعالیٰ نے اس کام کو شرفِ قبولیت عطا فرمایا اور آج دورۂ ترجمہ قرآن تنظیم اسلامی کی ایک شناخت بن چکا ہے۔
۱۹۸۴ء میں رجوع الی القرآن کورس کا آغاز کیا گیا‘ جو پورے پاکستان کی سطح پر تقریباً تمام انجمن ہائے خدّام القرآن اور دارُالاسلام مرکز تنظیم اسلامی کی سطح پر چل رہا ہے۔
دوسری جانب فکری تسلسل کے طور پر غلبہ و اقامت ِدین کے نصب العین کے پیشِ نظر ۱۹۷۵ء میں ایک اصولی ‘ اسلامی ‘ انقلابی جماعت’’ تنظیم اسلامی‘‘ کا قیام عمل میں آیا جس کے تحت :
۱) تصوّرِ دین و مذہب کو واضح کیا ۔
۲) تصوّرِ فرائض ِ دینی کو واضح کیا ۔
۳) اقامت ِ دین کے تصوّر کو خوب اچھی طرح سے اُجاگر کیا۔
۴) انقلاب آئے گا کیسے ؟ اس حوالے سے منہج ِانقلابِ نبوی ﷺ ‘خصوصاً موجودہ دور میں آخری مرحلہ میں اجتہاد کو واضح کیا اور حق و باطل کی کشمکش کی بڑے اچھے طریقے سے وضاحت کی۔
۵) بیعت کا سلسلہ جو ابوالکلام آزاد پر ختم ہو چکا تھا‘اس کو دوبارہ سلسلۃ الذہب یعنی اسلاف سے جوڑا ۔
غلبہ ٔ اسلام اور برصغیر پاک وہند
اب تھوڑا سا توقف کر کے غور کر لیجیے کہ کیا شیخ احمدسرہندی مجدد الف ثانی رحمہ اللہ کا تعلق برصغیر پاک و ہند سے ہونا ویسے ہی اتفاقی امر ہے؟کیا دورِ جدید کے فاتح مجددِ اعظم شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کا ہندی نژاد ہونا بالکل اتفاقی امر ہے؟ اسی طرح تحریک ِشہیدین کے سینکڑوں مجاہدین کا خون اس ارضِ پاک بالاکوٹ میں جذب ہونا کیا بیکار و عبث ہے ؟ پھر جماعت شیخ الہند ؒ کی سو سالہ خدمات‘ ترجمان القرآن علّامہ اقبال کا لاہور میں طویل قیام ‘ مولانا مودودیؒ کا جنوبی ہند سے شمالی ہند میں آ کر آباد ہونا اور پھر ایک عظیم تحریک کو برپا کرنا‘ پھر داعی ٔ قرآن ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا اس عظیم علمی ورثہ کو لے کر آگے بڑھانا‘ اس فکر کے مختلف گوشوں کو قرآن وسُنّت کی روشنی میں واضح اور مبر ہن کرنا‘ اسلامی انقلاب کے مختلف مراحل کو سیرتُ النبی ﷺ کی روشنی میں واضح کرنا اور نبی اکرم ﷺ کے دور کے حالات اور آج کے حالات میں مختلف پہلوؤں سے جو فرق واقع ہوچکا ہے‘ اس کی روشنی میں مسلح تصادم کے گوشہ میں اجتہاد کر کے قابلِ عمل راستہ متعین کرنا اور جماعت سازی کے منصوص ‘ مسنون اور ماثور طریقے کو اختیار کرنا‘ کیا اس کی کوئی حیثیت نہیں؟ کیا یہ سب کچھ عبث اور بیکار ہے اور ویسے ہی یہ سب کچھ ہوگیا؟ ہر گز نہیں ! یہ اس چیز کا مظہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے آخری غلبے کے لیے نقطۂ آغاز کے طور پر اس خطہ یعنی پاکستان اور افغانستان کو منتخب کر لیا ہے۔ چار سو سالہ احیائی مساعی کی امانت اس خطے کے پاس محفوظ ہے۔ قرآن مجیداور احادیث نبویﷺ کے صغریٰ و کبریٰ سے واضح ہوتا ہے کہ یہ غلبہ ہوکر رہے گا‘ لیکن اس مرتبہ یہ ’’عالمی غلبہ‘‘ ہوگا۔ قرآن حکیم میں تین مرتبہ آیا ہے کہ :
{هُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ} (الصف:۹)
’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کوہدایت ِکاملہ اور سچے دین کے ساتھ بھیجا کہ اسے سب دینوں پر غالب کرے۔‘‘
اور پانچ مرتبہ اللہ تعالیٰ نے (مختلف الفاظ میں) فرمایا ہے کہ:
{وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا} (سبا:۲۸)
’’اور (اے نبیﷺ!) ہم نے نہیں بھیجا ہے آپ کو مگر تمام بنی نوعِ انسانی کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر۔‘‘
جس کا لازمی اور منطقی نتیجہ ہے کہ اسلام کا غلبہ پورے عالم ِانسانی اورکل کرئہ ارضی پر ہوگا۔قرآن حکیم میں صرف اشارات ہیں‘ لیکن احادیث کے الفاظ بہت واضح ہیں۔
(۱) مسند احمد بن حنبلؒ کی روایت ہے‘جسے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((تَکُوْنُ النُّـبُوَّۃُ فِیْکُمْ مَاشَاءَ اللہُ اَنْ تَکُوْنَ ‘ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاءَ اَنْ یَّرْفَعَھَا ‘ ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃً عَلٰی مِنْھَاجِ النُّبُوَّۃِ ‘ فَتَکُوْنُ مَا شَاءَ اللہُ اَنْ تَکُوْنَ ‘ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاءَ اللہُ اَنْ یَّرْفَعَھَا ‘ ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا عَاضًّا ‘ فَـیَکُوْنُ مَا شَاءَ اللہُ اَنْ تَکُوْنَ ‘ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاءَ اَنْ یَّرْفَعَھَا ‘ ثُمَّ تَـکُوْنُ مُلْکًا جَبْرِیَّۃً ‘ فَتَکُوْنُ مَا شَاءَ اللہُ اَنْ تَـکُوْنَ ‘ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اِذَا شَاءَ اَنْ یَّرْفَعَھَا‘ ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃً عَلٰی مِنْھَاجِ النُّبُوَّۃِ)) ثُمَّ سَکَتَ
’’دَورِنبوت تم میں اُس وقت تک رہے گا جب تک اللہ چاہے گا‘پھر جب وہ اس کو ختم کرنا چاہے گا اس کو ختم کردے گا۔ پھر نبوت کی طرز پر خلافت کا دور ہوگا‘پھر وہ دور رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ پھر وہ اس کو ختم کردے گا جب وہ اس کو ختم کرنا چاہے گا۔ پھر کاٹ کھانے والی بادشاہت ہوگی‘وہ دور بھی اُس وقت تک رہے گا جب تک اللہ چاہے گا۔پھر جب وہ اس کو ختم کرنا چاہے گا تو ختم کردے گا۔پھر جبر کی فرماں روائی (غلامی کی بادشاہت) ہوگی‘ وہ رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر وہ اس کو ختم کردے گا جب وہ اسے ختم کرنا چاہے گا۔پھر نبوت کے طرز پر دوبارہ خلافت قائم ہوگی۔‘‘پھر آپﷺ خاموش ہوگئے۔
(۲) صحیح مسلم کی روایت ہے جس کے راوی حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں:
((اِنَّ اللہَ زَوٰی لِیَ الْاَرْضَ فَرَأَیْتُ مَشَارِقَھَا وَمَغَارِبَھَا ‘ وَاِنَّ اُمَّتِیْ سَیَبْلُغُ مُلْکُھَا مَا زُوِیَ لِیْ مِنْھَا))
’’اللہ تعالیٰ نے زمین کو میرے لیے سمیٹ دیا تو مَیں نے اس کے مشرق اور مغرب کو دیکھا ‘اور جہاں تک کی زمین میرے لیے سمیٹ دی گئی تھی وہاں تک عنقریب میری اُمّت کی سلطنت وحکومت پہنچ کر رہے گی۔‘‘
(۳) مسند احمد بن حنبلؒ کی روایت ہے اور اس کے راوی مقداد بن الاسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا :
((لَا یَبْقٰی عَلٰی ظَھْرِ الْاَرْضِ بَیْتُ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ اِلَّا اَدْخَلَہُ اللہُ کَلِمَۃَ الاِسْلَامِ بِعِزِّ عَزِیزٍ اَوْذُلِّ ذَلِیلٍ‘ اِمَّا یُعِزُّھُمُ اللہُ فَیَجْعَلُھُمْ مِنْ اَھْلِھَا اَوْیُذِلُّھُمْ فَـیَدِیْنُوْنَ لَھَا))
’’روئے زمین پر کوئی اینٹوں والا گھر بچے گانہ خیمے والا‘ مگر اللہ تعالیٰ اس میں کلمہ ٔ اسلام کو داخل کر دیں گے۔ یہ عزّت والے کی عزّت کے ساتھ ہو گا یا مغلوبیت پسند کی مغلوبیت کے ساتھ۔ (اس کی تفصیل یہ ہے کہ) یا تو اللہ ان کو اس کلمہ کے ذریعے عزّت دے گا تو وہ خود اس کلمہ کے حامل بن جائیں گے یا وہ ان کو مغلوب کر دے گا تو وہ اس کے مطیع اور تابع بن جائیں گے۔‘‘
رسول اللہﷺ کے درج بالا اقوال کے مطابق پورے کرہ ٔارضی پر یہ غلبہ ہو کر رہے گا۔ یہ امر لازمی ہے ‘ شدنی ہے ‘ حتمی ہے اور لابدی ہے۔ جو شک کرے اس کے ایمان میں شک ہے۔
اس عالمی غلبہ کا آغاز کہاں سے ہوگا‘اس کے حوالے سے بھی احادیث کے اندر اشارات موجود ہیں کہ یہ اسی خطہ ارضی یعنی پاکستان اور افغانستان کے اس حصے سے ہوگا جسے ماضی میں ’’خراسان‘‘ کہا جاتا تھا۔ایک حدیث بایں الفاظ منقول ہے:
((يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ ‘ فَيُوَطِّئُونَ لِلْمَهْدِيِّ سُلْطَانَهُ)) ( ابن ماجہ)
’’ کچھ لوگ مشرق ( پورب ) کی جانب سے نکلیں گے جو مہدی کی حکومت کے لیے راستہ ہموار کریں گے۔ ‘‘
دوسری حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((يَخْرُجُ مِنْ خُرَاسَانَ رَايَاتُ سُودٌ لَا يَرُدُّهَا شَيءٌ حَتّٰى تُنْصَبَ بِإِيلِيَاءَ))(رواہ الترمذی)
’’ خراسان سے سیاہ جھنڈے نکلیں گے‘ انہیں کوئی نہیں روک سکے گا یہاں تک کہ انہیں ایلیا (یعنی بیت المقدس) میں نصب کیاجائے گا۔‘‘
خراسان سے کون سا خطہ مراد ہے؟ نبی اکرم ﷺ کے دور کا خراسان ایران کا صوبہ خراسان ‘ پاکستان کی پشتون بیلٹ اور افغانستان کی پشتون بیلٹ پر مشتمل تھا۔پامیر ( سطح مرتفع) جسے ’’دنیا کی چھت‘‘(roof of the world )بھی کہا جاتا ہے‘ اس سے پہاڑوں کے کئی سلسلے نکلتے ہیں‘ کوئی چین کی طرف تو کوئی تبت کی طرف ہے۔ ہندوستان کی طرف ہمالیہ اور افغانستان کی طرف کوہِ ہندو کش ہے۔ اس مثلث کا base مالاکنڈ بنتا ہے۔ اس علاقے کے حوالے سے شامی ادیب اور مؤرخ امیر شکیب ارسلان کا قول ہے کہ:
’’اگر ساری دنیا میں اسلام کی نبض ڈوب جائے‘کہیں بھی اس میں زندگی کے آثار اور رمق باقی نہ رہے تب بھی کوہ ہمالیہ اور کوہ ہندو کش کے درمیان کے علاقے ( جن کا base مالاکنڈ کا علاقہ بنتا ہے) میں رہنے والوں کا اسلام زندہ رہے گا اور ان کا عزم جوان رہے گا۔‘‘
احیائی مساعی  میں تنظیم اسلامی کا مقام
افغانستان میں اللہ کے وفادار سپاہیوں نے بالکل نہتے اور بے سرو سامان ہونے کے باوجود نصرت ِخداوندی کے زور پر عالمی دجالی قوتوں کو شکست و ہزیمت سے دو چار کیا۔ لیکن یہ چار سو سالہ علمی ‘ فکری اور تحریکی خزانہ اور وراثت کی امانت اس وقت پا کستان کے پاس ہے اور یہاں تنظیم اسلامی کے کاندھوں پر ہے۔تنظیم اسلامی سے وابستہ حضرات مبارک باد کے مستحق ہیں کہ اللہ نے انہیں اس عظیم مقصد کے لیے چُن لیا ہے: {هُوَ اجْتَبٰىكُمْ} ’’اُس نے تمہیں چُن لیا ہے!‘‘یعنی شہادت علی الناس اور اقامت ِ دین کے فریضہ کی ادائیگی کے لیے اللہ نے چن لیا ہے۔ بقول اقبال ع
اپنی خودی پہچان! او غافل افغان!
اسی مناسبت سے کہہ رہا ہوں کہ ’’اپنی خودی پہچان‘ اےرفیق ِتنظیم!
تنظیم کیا ہے؟ افراد سے مل کر تنظیم بنی ہے اورچار سو سالہ احیائی مساعی کی امانت کا بارِگراں اب ہمارے کاندھوں پر ہے ۔امانت کے حوالے سے رسول اللہﷺ کا فرمان ہے:
((لَا اِیمانَ لِمَنْ لَا أَمَانَةَ لَہ وَلَا دِینَ لِمَنْ لَا عَھْدَ لَہ)) (سنن البیھقی)
’’ جس میں امانت داری کا وصف نہیں اس میں ایمان نہیں اور جس شخص میں معاہدہ کی پابندی نہیں اس میں دین نہیں ۔‘‘
رسول اللہﷺ نے یہ بھی فرمایا:
((آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ: ‏‏‏‏‏‏إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ‘ ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ‘ ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَان )) (رواہ البخاری)
’’منافق کی علامتیں تین ہیں:جب بات کرے توجھوٹ بولے‘ جب وعدہ کرے تواس کی خلاف ورزی کرے‘ اور جب اس کو امین بنایا جائے تو خیانت کرے۔‘‘
یہ ایک اولمپک ٹارچ ہے جو اس وقت تنظیم اسلامی کے پاس ہے۔ یہ ٹارچ مجدد الف ثانی کے ہاتھوں سے ہوتی ہوئی شاہ ولی اللہ تک‘ شاہ ولی اللہ سے تحریک شہیدین تک ‘ تحریک شہیدین سے شیخ الہند ‘ علامہ اقبال اور ابوالکلا م تک ‘پھر ابوالکلام سے سیّد مودودی تک ‘ سید مودودی سے بانیٔ تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر اسرار احمد(رحمہم اللہ )تک اوراب تجدیدی اور احیائی مساعی کی یہ اولمپک ٹارچ تنظیم اسلامی کے پاس امانت ہے۔ ہمیں اپنے مقام اور اپنے کام کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ کہیں ہمارا بھی وہ حال نہ ہو کہ آب ِحیات پاس ہے اور پیاس سے مر رہے ہیں۔ کوہِ نور کا ہیرا پاس ہو اور کانچ کے ٹکڑوں کے پیچھے بھاگتے رہیں۔ اس ضمن میں بانی تنظیم اسلامی عرشی بھوپالی کے یہ اشعار پڑھا کرتے تھے:؎
ساتھیو! مشعلوں کو تیز کرو!
جنگ بازوں کا ‘ ملک گیروں کا
موت کے سر پھرے نقیبوں کا
قافلہ تیز گام ہے کتنا
اور بھی قافلوں کو تیز کرو!
اور بقول علامہ اقبال ؎
’’تیز ترک گام زن منزلِ ما دور نیست!‘‘اور یہ ہوگا دعوت سے‘لہٰذاہمیں اپنی انفرادی اور اجتماعی دعوت تیز تر کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا ربّ العالمین!!
اقول قولی ھذا واستغفراللہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات