(بیان القرآن) سُوْرَۃُ الطَّلَاقِ - ڈاکٹر اسرار احمد

8 /

سُوْرَۃُ الطَّلاقِ

تمہیدی کلمات

زیرمطالعہ مدنی سورتوں کے گلدستے کا آخری اور نہایت ہی حسین جوڑا سورۃ الطلاق اور سورۃ التحریم پر مشتمل ہے۔ ا ن دونوں سورتوں کی باہمی مناسبت اور مماثلت کی ایک علامت تو یہ ہے کہ دونوں کا آغاز یٰٓــاَیُّہَا النَّبِیُّ کے کلمہ سے ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کا مضمون بھی مشترک ہے۔ دونوں سورتوں میں اسلام کے معاشرتی نظام بلکہ خاص طور سے عائلی نظام سے متعلق نکات زیر بحث آئے ہیں۔ عائلی قوانین اور معاشرتی اقدارکی جزئیات و تفصیلات کو قرآن مجید میں جس اہتمام سے بیان کیا گیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ موضوع خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس حوالے سے قرآن مجید پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تومعلوم ہوگا کہ سورۃ البقرۃ کے مسلسل چار رکوع اور سورۃ النساء کے متعدد مباحث اس موضوع کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ پھر سورۃ النور اور سورۃ الاحزاب میں بھی اس موضوع سے متعلق تفصیلی ہدایات دی گئی ہیں۔ سورۃ المجادلہ کا آغاز بھی ایک عائلی مسئلے (ظہار) سے ہوتا ہے اور پھر سورۃ الطلاق اور سورۃ التحریم دو مکمل سورتیں بھی اسی مضمون سے متعلق ہیں۔
میاں بیوی کا جوڑا چونکہ انسانی معاشرے کی بنیادی اکائی ہے اس لیے معاشرے کو درست رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان دو افراد کے باہمی تعلقات توازن اور اعتدال کی حدود کے اندر رہیں۔ اس کی مثالی صورت تو یہ ہے کہ دونوں میاں بیوی بحیثیت مسلمان ایک طرف اللہ تعالیٰ کے حقوق کماحقہ ادا کرنے والے ہوں اور دوسری طرف وہ ایک دوسرے کے ان حقوق کی ادائیگی پر بھی کمر بستہ رہتے ہوںجو اسلام نے ان پر عائد کیے ہیں۔ یہاں ضمنی طور پر یہ بھی سمجھ لیجیے کہ مرد اور عورت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ بنیادی دینی فرائض تو ایک جیسے ہی ہیں‘ مثلاً نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ‘ حج وغیرہ کی ادائیگی کا اہتمام شرعی احکام و حدود کی روشنی میں اپنی اپنی جگہ دونوں کو کرنا ہے۔ البتہ دعوت و تبلیغ کی فرضیت کے حوالے سے عورت کا دائرۂ عمل عورتوں اور محرم مَردوں تک محدود ہوجاتا ہے۔جبکہ اقامت ِدین کی جدّوجُہد (خصوصی طور پر جہاد و قتال)میں عورتیں حسب ِاستطاعت بالواسطہ کردار ادا کرنے کی ہی مکلّف ہیں۔ مثلاً وہ اپنے بیٹوں‘ بھائیوں اور شوہروں کو ایسے سازگار حالات اور مواقع فراہم کرسکتی ہیں جن میں وہ اقامت ِدین کے حوالے سے اپنی ذِمّہ داریاں یکسوئی کے ساتھ ادا کر سکیں۔ بہرحال ایک مثالی اور متوازن عائلی زندگی کا نقشہ یہی ہے کہ میاں بیوی دونوں اپنے اپنے فرائض ذِمّہ داری اور خوش اسلوبی سے اداکرنے والے ہوں۔
اس حوالے سے دوسری امکانی صورت یہ ہے کہ میاں بیوی کی طبیعتوں میں عدم موافقت کی وجہ سے گھر کے معاملات معمول کے مطابق نہ چل رہے ہوں اور حقوق و فرائض کی ادائیگی میں بھی مسلسل کوتاہی ہو رہی ہو۔ ظاہر ہے اس کی وجہ سے گھر میں ہرو قت لڑائی جھگڑے کا ماحول رہے گا‘ اور اگر یہ اختلاف بڑھتا جائے گا تو طلاق کی نوبت بھی آ سکتی ہے۔ چنانچہ ایسی صورتِ حال سے متعلق مسائل سورۃ الطلاق میں بیان ہوئے ہیں (واضح رہے کہ طلاق کے مسائل اور قوانین و ضوابط کا ذکر سورۃ البقرۃ اور سورۃ النساء میں بھی آیا ہے)۔گھریلو زندگی میں عدمِ توازن کی دوسری انتہا یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی بیو ی اور اہل و عیال کی اس حد تک دلجوئی کرے کہ اس میں شریعت کے احکام اور دعوت واقامت ِدین کی جدّوجُہد کے تقاضوں کا بھی خیال نہ رہے ۔ یہ موضوع سورۃ التحریم میں آ ئے گا۔
یہاں پر یہ نکتہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ اگرچہ ان دونوں سورتوں میں خصوصی طور پر یٰٓــاَیُّہَا النَّبِیُّ کے الفاظ میں براہِ راست حضورﷺ کو مخاطب کیا گیا ہے ‘لیکن اصل میں اس سے اُمّت کی تعلیم مقصود ہے اور اس مقصد کے لیے حضورﷺ کو اُمّت کے معلم کی حیثیت سے مخاطب کیاگیا ہے۔ یہ نکتہ سورۃ الطلاق کی پہلی آیت کے حکم سے مزید واضح ہو جاتا ہے ۔یعنی اس حکم کا حضورﷺ کی ذات سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ آپؐ نے نہ تو اپنی کسی زوجہ کو طلاق دی اور نہ ہی آپؐ کو طلاق دینے کی اجازت تھی۔ اس لیے کہ سورۃ الاحزاب کی آیت۶ میں حضورﷺ کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کو اُمّت کی مائیں قرار دیا گیا ہے اور سورۃ الاحزاب کی آیت ۵۳ کے مطابق حضورﷺ کے بعد بھی وہ کسی اور سے نکاح نہیں کر سکتی تھیں۔ لہٰذا آپؐ کا اپنی ازواجِ مطہراتؓ میں سے کسی کو طلاق دینے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔اسی لیے سورۃ الاحزاب ہی کی آیت ۵۰ میں آپؐ کو چار ازواج کے بعد مزید نکاح کرنے کی خصوصی اجازت مرحمت فرمائی گئی---- ان دونوں سورتوں پر میرے مفصل لیکچرز کی ریکارڈنگ دستیاب ہے ۔ مزید تفصیل جاننے کے خواہش مند خواتین و حضرات اس ریکارڈنگ سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
آیات ۱ تا ۷بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
آیت۱{یٰٓــاَیُّہَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَطَلِّقُوْہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ وَاَحْصُوا الْعِدَّۃَج}’’اے نبی(ﷺ!) جب آپ لوگ اپنی عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدّت کے حساب سے طلاق دو اور عدّت کا پورا لحاظ رکھو۔‘‘
نوٹ کیجیے ! حضورﷺ کو صیغہ واحد میں مخاطب کرنے کے بعد فوراً جمع کا صیغہ (طَلَّقْتُمْ) آگیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مسئلہ خود حضورﷺ کی ذات سے نہیں ‘عام اہل ِایمان سے متعلق ہے اور آپؐ کواہل ایمان کے نمائندہ‘ معلم اورہادی کی حیثیت سے مخاطب کیا گیا ہے۔عدّت کے حساب سے طلاق دینے اور عدّت کا لحاظ رکھنے کے بہت سے پہلو ہیں۔ مجموعی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نازک اور حساس معاملے میں شریعت کی طے کردہ حدود و قیود کا لحاظ رکھو اور متعلقہ قوانین کی سختی سے پابندی کرو۔مثلاً حیض کی حالت میں طلاق نہ دو‘ تینوں طلاقیں اکٹھی نہ دو‘ ہر طلاق کی عدّت کا حساب رکھو‘ عدّت کے دوران عورت کا نکاح نہ کرو۔ میاں بیوی کے درمیان ایک یا دو طلاقوں کے بعد ہونے والی علیحدگی کی صورت میں ان دونوں کے آپس میں دوبارہ نکاح کے حق کو تسلیم کرو ‘وغیرہ وغیرہ۔
{وَاتَّقُوا اللہَ رَبَّـکُمْ ج} ’’اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جو تمہارا ربّ ہے۔‘‘
{لَا تُخْرِجُوْہُنَّ مِنْ  بُیُوْتِہِنَّ} ’’انہیں مت نکال باہر کرو ان کے گھروں سے‘‘
ایسا نہ ہو کہ غصے میں طلاق دی اور کہا کہ نکل جائو میرے گھر سے‘ ابھی اور اسی وقت! یہ طریقہ قطعاً غلط ہے۔
{وَلَا یَخْرُجْنَ اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّـبَـیِّنَۃٍط} ’’اور وہ خود بھی نہ نکلیں‘ سوائے اس کے کہ وہ ارتکاب کریں کسی کھلی بے حیائی کا۔‘‘
عام حالات میں تو طلاق کے فوراً بعد عورت کو گھر سے نہیں نکالا جاسکتا ‘اور نہ ہی اسے از خود نکلنے کی اجازت ہے۔ لیکن اس دوران اگر وہ بدکاری وغیرہ میں ملوث ہو جائے تو ایسی صورت میں اسے اس گھر سے نکالا جا سکتا ہے۔
{وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللہِ ط} ’’اور یہ اللہ کی حدود ہیں۔‘‘
{وَمَنْ یَّـتَعَدَّ حُدُوْدَ اللہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ ط}’’اور جو کوئی اللہ کی حدود سے تجاوز کرے گا تو اُس نے اپنی ہی جان پر ظلم کیا۔‘‘
{لَا تَدْرِیْ لَـعَلَّ اللہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا(۱)} ’’تمہیں نہیں معلوم کہ شاید اس کے بعد اللہ کوئی نئی صورت پیدا کرد ے۔‘‘
طلاق کے بعد اگر عورت شوہر کے گھر میں ہی عدّت گزار رہی ہو تو حالات بہتر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ کیا معلوم اللہ تعالیٰ ان دونوں میں بہتری کی کوئی صورت پیدا کر دے اور وہ پہلی طلاق کے بعد ہی رجوع کر لیں اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی مشیت سے حالات ہمیشہ کے لیے سازگار ہو جائیں۔
آیت۲ {فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَاَمْسِکُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ فَارِقُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ}’’پھر جب وہ اپنی (عدّت کی) میعاد کو پہنچنے لگیں تو اب ان کو یا تو (اپنے نکاح میں) روک رکھو معرو ف طریقے سے ‘ یا جدا کردو معروف طریقے سے‘‘
یعنی ایک یادو طلاق دینے کی صورت میں عدّت پوری ہو جانے سے پہلے مرد کو حتمی فیصلہ کرنا ہو گا۔ اگر تو وہ رجوع کرنا چاہتا ہے تو شریعت کے طے کردہ طریقے سے رجوع کر لے اور اگر اس نے طلاق ہی کا فیصلہ کر لیا ہے تو پھر بھلے طریقے سے عورت کو گھر سے رخصت کر دے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اسے ستانے کی غرض سے روکے رکھے ۔
{وَّاَشْھِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنْکُمْ}’’اور اپنے میں سے دو معتبر اشخاص کو گواہ بنا لو‘‘
یعنی اگر کوئی طلاق کے بعد رجوع کرنا چاہے تو وہ اپنے لوگوں میں سے کم از کم دو معتبر اشخاص کی موجودگی میں ایسا کرے۔
{وَاَقِیْمُوا الشَّہَادَۃَ لِلہِ ط}’’اور گواہی قائم کرو اللہ کے لیے۔‘‘
{ذٰلِکُمْ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِط}’’یہ ہے جس کی نصیحت کی جا رہی ہے ہراُس شخص کو کہ جو ایمان رکھتا ہو اللہ پر اور یومِ آخر پر۔‘‘
اس سے ملتے جلتے الفاظ سورۃ الاحزاب کی آیت ۲۱ میں حضورﷺ کے اُسوہ اور سورۃ الممتحنہ کی آیت ۶ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپؑ کے ساتھیوں کے اُسوہ کے بارے میں بھی آئے ہیں۔ مطلب یہ کہ حضورﷺ کا اُسوئہ کاملہ تو اپنی جگہ پر موجود ہے ‘اسی طرح حضرت ابراہیم ؑاور آپؑ کے ساتھیوں کی زندگی بھی مثالی نمونہ ہے ‘لیکن کس کے لیے؟{لِمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ} یعنی حضورﷺ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اُسوئہ حسنہ سے استفادہ صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور یومِ آخرت کی حاضری کی امید رکھتا ہے۔ چنانچہ آیت زیر مطالعہ کے اس جملے کا مفہوم بھی یہی ہے کہ مسائل ِطلاق سے متعلق یہ وعظ اور نصیحت صرف اسی شخص کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہے جو واقعی اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو۔
{وَمَنْ یَّــتَّقِ اللہَ یَجْعَلْ لَّـہٗ مَخْرَجًا(۲)}’’اور جو شخص اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا ‘اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا راستہ پیدا کر دے گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کا مقام و مرتبہ واضح کرنے کا یہ بہت حسین اور دلکش انداز ہے اور اس اعتبار سے یہ قرآن مجید کا منفرد مقام ہے۔ یہاں پر ایک اہم نکتہ یہ سمجھ لیں کہ حقیقی تقویٰ دل کا تقویٰ ہے‘ جس کے بارے میں حضورﷺ نے ایک مرتبہ اپنے دست ِ مبارک سے اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :((اَلتَّقْوٰی ھٰھُنَا، اَلتَّقْوٰی ھٰھُنَا، اَلتَّقْوٰی ھٰھُنَا))(۱) کہ اصل تقویٰ یہاں (دل کے اندر) ہوتا ہے۔ آپؐ نے یہ بات تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔اس کا مطلب یہ ہے کہ تقویٰ کا براہِ راست تعلق انسان کے دل کے ساتھ ہے۔ اگر دل میں تقویٰ نہیں تو جبہ ودستار کا اہتمام اور متقیانہ وضع قطع کی حیثیت بہروپ سے زیادہ کچھ نہیں۔ چنانچہ اس آیت میں اہل ِتقویٰ کو بہت بڑی بشارت سنائی جا رہی ہے کہ اگر کسی بندئہ مؤمن کا تقویٰ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں مقبول و منظور ہوا تو اُس کے لیے مشکل سے مشکل صورتِ حال سے نکلنے کا کوئی نہ کوئی راستہ ضرور پیدا کر دیا جائے گا‘ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکلے تو فرعون نے انہیں ساحل ِسمندر پر جا لیا۔ اب آگے سمندر تھا اور پیچھے فرعون کالشکر ۔بظاہر بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا ‘مگر اللہ تعالیٰ نے سمندر کو پھاڑ کر ان کے لیے راستہ پیدا کر دیا۔
اسی طرح جب حضورﷺ غارِ ثور میں تشریف فرما تھے تو مشرکینِ مکّہ میں سے کچھ لوگ آپؐ کے کھوج میں غار کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔ انہیں دیکھ کر حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ حضورﷺ !اگر ان لوگوں نے نیچے اپنے قدموں کی طرف بھی دیکھ لیا تو ہم انہیں نظر آجائیں گے۔ حضورﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا: {لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَاج} (التوبۃ:۴۰) کہ آپ فکر مت کریں‘ اللہ ہمارے ساتھ ہے!اس موقع پر بھی اللہ تعالیٰ نے ایسی صورتِ حال پیدا فرما دی کہ مشرکین آپؐ کو نہ دیکھ سکے ۔ حضورﷺ کے سفر ِطائف کی مثال لیں تو بظاہر وہاں سے آپؐ خالی ہاتھ واپس آئے تھے ‘ لیکن اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے لیے مدینہ سے کھڑکی کھول دی اور ایسے حالات پیدا فرما دیے کہ آپؐ کے مدینہ تشریف لے جانے سے پہلے ہی وہاں انقلاب آگیا۔ یہ مثالیں گواہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ مشکل سے مشکل حالات میں بھی اپنے متقی بندوں کے لیے ضرور ’’مخرج‘‘ پیدا فرماتا ہے۔ چنانچہ اقامت ِدین کی جدّوجُہد میں مصروف اہل ِایمان کے لیے آیت زیر مطالعہ کے ان الفاظ میں یہ خوشخبری ہے کہ وہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے اپنی کوششیں پورے خلوص سے جاری رکھیں۔ جب اللہ تعالیٰ کو ان کوششوں کی کامیابی منظور ہو گی تو حیرت انگیز طریقے سے منزل خود چل کر ان کے سامنے آ جائے گی۔
آیت ۳{وَّیَرْزُقْـہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ ط} ’’اور اسے وہاں سے رزق دے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہو گا۔‘‘
اس دنیا میں رہتے ہوئے انسان کا سب سے بڑا مسئلہ رزق یعنی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کاہے۔ اس لیے جب کوئی اللہ کا بندہ اپنے دل کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے فرمانِ الٰہی :{اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۱۶۲)}(الانعام) کو اپنا نصب العین بنانا چاہتا ہے تو اُس کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ یہ اندیشہ بنتا ہے کہ ضروریاتِ زندگی کیسے پوری ہوں گی؟ چنانچہ اس حوالے سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان اہل ِ ایمان کے لیے بہت بڑی خوشخبری ہے کہ اے میرے بندو! تمہارا رازِق تو مَیں ہوں اور تمہیں رزق دینے کے لیے مَیں وسائل و اسباب کا محتاج نہیں ہوں ۔تم لوگ ایمان و یقین کے ساتھ مجھ پر اعتماد کرکے دیکھو ‘ میں تمہیں وہاں سے رزق دوں گا جہاں سے تمہیں گمان بھی نہیں ہو گا۔
{وَمَنْ یَّـتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ ط}’’اور جو کوئی اللہ پر توکّل کرتا ہے تو اُس کے لیے وہ کافی ہے۔‘‘
جو شخص اللہ تعالیٰ پر توکّل کر کے اپنے معاملات اُس کے سپرد کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی ضروریات و حاجات کو اپنے ذِمّہ لے لیتا ہے۔ اسی بات کو کسی شاعر نے اس طرح بیان کیا ہے :
کار سازِ ما بہ فکر کارِ ما
فکر ما در کارِ ما آزارِ ما!
کہ ہمارا کارساز تو اللہ ہے ‘اور وہ ہمارے کاموں کی فکر میں مصروف ہے ‘اس لیے ہم اپنے کاموں کی فکر کے جھنجھٹ میں کیوں پڑیں! ظاہر ہے اگر ہم خود اپنے کاموں کی فکر کریں گے تو غلطیاں بھی کریں گے‘ نقصان بھی اٹھائیں گے اور ٹھوکریں بھی کھائیں گے ‘تو کیوں نہ ہم اپنے کام اُسے سونپ کر خود کو اُس کے کام (اقامت ِدین کی جدّوجُہد) میں لگا دیں ۔اللہ تو ایسا قدردان ہے کہ اگر اس کا کوئی بندہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد کرتا ہے تو وہ بدلے میں اس کا مددگار بن جاتا ہے۔ حضورﷺ کا فرمان ہے: ((مَنْ کَانَ فِیْ حَاجَۃِ اَخِیْہِ کَانَ اللہُ فِیْ حَاجَتِہٖ))(۲) کہ جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کی کوئی ضرورت پوری کرنے میں اپنا وقت صَرف کرتا ہے تو اللہ اس کی ضرورتیں پوری کرنے میں لگ جاتا ہے۔چنانچہ اگر اللہ کا کوئی بندہ اپنی ذاتی ترجیحات کو پس ِپشت ڈال کر خود کو براہِ راست اللہ تعالیٰ کے کام میں لگا دے گا تو کیا اللہ اس کے معاملات کو خراب ہونے کے لیے چھوڑ دے گا؟ ہرگز نہیں! ایسا تو دنیا میں ہم انسانوں کے ہاں بھی نہیں ہوتا‘ بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس انسان میں تھوڑی سی بھی شرافت اور مروّت ہوتی ہے وہ دوسرے انسان کی وفاداری کا بدلہ ضرور چکاتا ہے ۔چنانچہ جب ایک انسان بھی دوسرے انسان کی وفاشعاری کا صلہ دینا ضروری سمجھتا ہے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ایک وفاشعار اور متوکّل بندے کی کس کس انداز سے دست گیری فرمائے گا ۔ یاد رکھیں! توکّل کا تعلق بندے کے ایمان سے ہے۔جس قدر گہرا اور پختہ کسی کا ایمان ہوگا‘ اسی قدرمضبوط اس کا توکّل ہو گا۔ آج ہمارے لیے اللہ تعالیٰ پر بھرپور توکّل کرنا اس لیے مشکل ہے کہ ہمارا ایمان کمزور ہے۔ تو آیئے! ہم اپنا ایمان مضبوط کر کے اللہ پر توکّل کریں۔ اپنے معاملات کی منصوبہ بندیوں کا دردِسر مول لینے کے بجائے تفویض الامر الی اللہ کی حکمت عملی اپنائیں ۔اپنے معاملات اُس کے سپرد کرد یں اور اُس کے کام کو اپناکام سمجھ کر اُس کے لیے اپنا تن من دھن کھپا دیں!------{وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْٓ اِلَی اللہِ ط اِنَّ اللہَ بِصِیْرٌج بِالْعِبَادِ(۴۴)} (المؤمن)
{ اِنَّ اللہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ ط} ’’اللہ تو یقیناً اپنا کام پورا کر کے ہی رہتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے تو اپنے دین کو غالب کرنا ہی ہے‘ لیکن اس عظیم الشان کام کے لیے جدّوجُہد کی سعادت وہ اپنے بندوں کے نام کرنا چاہتا ہے۔ اب اس کے لیے ہر انسان کو خود فیصلہ کرنا ہے کہ وہ اس منافع بخش ’’کاروبار‘‘ میں شریک ہونا چاہتا ہے یا اپنی محرومی پر قناعت کر کے بیٹھے رہنے کو پسند کرتا ہے۔ جیسے حضرات ابوبکر‘ عمر‘ عثمان‘ علی‘ عبدالرحمٰن بن عوف اور ان کے ساتھی (رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین) اس جدّوجُہد میں شریک ہو کر ہمیشہ کے لیے سرخروہو گئے‘ جبکہ ابوجہل‘ ابولہب اور ان کے ہم نوائوں نے اس سے بے اعتنائی دکھائی اور ابدی محرومیاں اپنے نام کرالیں۔ آج ہمیں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ قیامِ قیامت سے پہلے پہلے اس کرئہ ارضی پر دین ِاسلام کو غالب تو ہونا ہے اور یقیناً ہم جیسے انسانوں کی کوششوں اور قربانیوں سے ہی ہوناہے‘ تو کیا ہم اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کو تیار ہیں یا محرومین کی صفوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں؟ مَیں تو سمجھتا ہوں کہ اگر ہمارا تن من دھن غرض سب کچھ اس جدّوجُہد میں کھپ جائے اور ہماری ہڈیاں چُورا بن کر بھی اسلام کی تعمیر ِنو میں کام آ جائیں تو یہ ہماری بہت بڑی کامیابی اور خوش قسمتی ہو گی۔
{قَدْ جَعَلَ اللہُ لِکُلِّ شَیْ ئٍ قَدْرًا(۳)} ’’اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔‘‘
یہ بہت خوبصورت اور سبق آموز جملہ ہے۔ غلبہ ٔدین کی جدّوجُہد کے تناظر میں دیکھیں تو اس کا مفہوم واضح تر ہو جاتا ہے‘ کہ اے راہِ حق کے مسافرو!تمہاری محنت اور جدّوجُہد کس کس گھاٹی سے ہوتی ہوئی کب ‘کہاں پہنچے گی اور اللہ کی مدد کب تمہارے شامل حال ہوگی‘اللہ کے ہاں یہ سب کچھ طے ہے۔ یقیناً اس راستے میں کامیابی کا دارومدار اللہ کی مدد پر ہے‘ لیکن اللہ کی مدد تو تبھی آئے گی جب تم خود کو اس کا اہل ثابت کرو گے۔ اس کے لیے تمہیں منہج ِنبوی ﷺ کو اپناتے ہوئے ہر اُس راستے سے گزرنا ہو گا جس راستے سے حضورﷺ اور آپؐ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین گزرے اور ہر وہ سختی برداشت کرنا ہو گی جو آپؐ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر برداشت کی۔ جب ان تمام امتحانات سے سرخرو ہو کر آگے بڑھو گے تو خود کو ایک ایسے میدان میں کھڑا پائو گے جس کے نشیب و فراز سرزمین ِبدر کے نشیب و فراز سے ملتے جلتے ہوں گے۔ اس میدان کی مخالف سمت سے اسلحہ کی جھنکار اور’’ لَا غَالِبَ لَـکُمُ الْیَوْمَ‘‘ کے نعروں کی گونج سنائی دے رہی ہو گی‘جبکہ اس کی فضا ملکوتی تقدس کے احساس سے معمور ہوگی۔جب تم یہ سب کچھ دیکھو اور محسوس کرو تو جان لینا کہ تمہاری جدّوجُہد کا فیصلہ کن موڑ آ پہنچا ہے۔ بس اس موقع پر تم سجدے میں گرجانا اور رو رو کر دعا کرنا کہ اے اللہ! ہم نے تیرے داعی کی دعوت پر لبیک کہا! ہم تیرے پیغام کو لے کر قریہ قریہ گھومے!گلی گلی پھرے! ایک عرصہ تک ہم نے اپنی صبحیں اور اپنی شامیں اسی فکر میں بتا دیں! ہم نے اس راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو پھلانگنے اور ہر مشکل گھاٹی کو عبور کرنے کی کوشش کی!ا ے اللہ !ہم نے یہ سب کچھ تیری رضا کے لیے کیا ‘اور تیری ہی توفیق اور مشیت سے کیا۔اے ہمارے پروردگار! ہمیں معلوم ہے کہ اس راستے پر چلتے ہوئے ہم کوشش‘ محنت ‘ ایثار اور قربانی کا حق ادا نہیں کر سکے! لیکن ہم سے جو ہو سکا وہ ہم نے پوری دیانت داری اور اخلاص سے کیا۔ پروردگار! ہم نے اپنی سالہاسال کی محنت کو آج اس میدان میں تیرے حضور پیش کر دیاہے! اے گناہوں کو معاف کرنے والے ! تُو ہمارے گناہوں کومعاف کر دے اور ہماری کوتاہیوں کو نظرانداز کر تے ہوئے ہماری اس حقیر سی کمائی کو قبول فرما لے …!
اگر یہ دعائیں مذکورہ تمام مراحل طے کرنے کے بعد مانگی جائیں گی تو ضرور قبول ہوں گی‘تب اللہ کی مدد بھی آئے گی ‘ فرشتے بھی اُتریں گے اور دنیوی کامیابی بھی نصیب ہو گی۔ لیکن اگر کوئی سمجھتا ہے کہ کاروبار بھی چلتا رہے‘ معیارِ زندگی بھی برقرار رہے‘ معمولاتِ زندگی میں بھی خلل نہ پڑے‘ مال و جان بھی محفوظ رہے‘ بچوں کے کیریئرز بھی بن جائیں اور ہمارے ہی ہاتھوں سے اقامت ِدین کا ’’کارنامہ‘‘ بھی انجام پا جائے تو یہ اُس کی خوش فہمی ہے۔ ایسے لوگ کسی جماعت کے اراکین کی فہرست میں نام لکھوا کر سمجھتے ہیں کہ بس انہوں نے اپنا فرض ادا کر دیاہے ۔ اس کے بعد وہ انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں کہ اب اللہ تعالیٰ کی مدد آئے گی‘ دین غالب ہو جائے گا اور اس کے لیے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر کے مستحق ٹھہریں گے۔ گویا اللہ تعالیٰ کو تو معلوم ہی نہیں کہ کس نے کیا قربانی دی ہے‘ کس نے کتنا وقت لگایا ہے‘ کس نے کس مرحلے پر کس مہم میں کتنا حصّہ ڈالا ہے۔ نہیں! یہ کوئی اندھیر نگری نہیں! اللہ کے ہاں ہر چیز اور ہر انسان کے ہر عمل کاحساب موجود ہے! قَدْ جَعَلَ اللہُ لِکُلِّ شَیْ ئٍ قَدْرًا اُس نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے!
اب آئندہ آیات میں پھر طلاق سے متعلق مسائل کاذکر ہے :
آیت۴ {وَالّٰٓئِیْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَآئِکُمْ} ’’اور تمہار ے ہاں کی خواتین میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں‘‘
یعنی ایسی عمر رسیدہ خواتین جن کے حیض کا سلسلہ بند ہو چکا ہو۔
{اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلٰثَۃُ اَشْہُرٍ} ’’اگر تمہیں شک ہو تو اُن کی عدّت تین ماہ ہو گی‘‘
ایسی خواتین کے معاملے میں چونکہ تین طہر اور تین حیض کا حساب کرنا ممکن نہیں ‘اس لیے ان کی عدّت کا شمار مہینوں میں کیا جائے گا۔ چنانچہ ان کی عدّت کی مدّت تین ماہ ہو گی۔
{وَّالّٰٓئِیْ لَمْ یَحِضْنَ ط} ’’اور (ان کی بھی) جن کو ابھی حیض آیا ہی نہیں۔‘‘
اگر کسی لڑکی کا کم سنی میں نکاح ہو گیا اور ابھی اسے حیض آنا شروع نہیں ہوا تھا کہ طلاق ہو گئی تو اس کی عدّت بھی تین ماہ ہی شمار ہوگی۔
{وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُہُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ ط} ’’اور حاملہ خواتین کی عدّت یہ ہے کہ ان کا وضع حمل ہوجائے۔‘‘
ایسی صورت میں وضع حمل جب بھی ہو جائے گا عدّت ختم ہو جائے گی ‘چاہے اس میں نو ماہ لگیں یا ایک ماہ بعد ہی وضع حمل ہو جائے ---- اس کے بعد پھر سے تقویٰ کے بارے میں یاد دہانی کرائی جا رہی ہے۔ اس سے قبل پہلی اور دوسری آیت میں بھی تقویٰ کا ذکر آچکا ہے:
{وَمَنْ یَّـتَّقِ اللہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا(۴)} ’’اور جو کوئی اللہ کاتقویٰ اختیار کرتا ہے وہ اُس کے کاموں میں آسانی پیدا کر دیتا ہے۔‘‘
جیسا کہ سورۃ الیل میں فرمایا گیا ہے:{ فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی (۵) وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی(۶) فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْیُسْرٰی (۷)} ’’تو جس نے (اللہ کی راہ میں) مال دیا اور (اللہ کی نافرمانی سے) پرہیز کیا‘ اور بھلائی کو سچ مانا‘ اس کو ہم آسان راستے کے لیے سہولت دیں گے۔ ‘‘
آیت ۵{ذٰلِکَ اَمْرُ اللہِ اَنْزَلَـہٗٓ اِلَـیْکُمْ ط}’’یہ اللہ کا حکم ہے جو اُس نے نازل کر دیا ہے تمہاری طرف۔‘‘
یعنی اُس حکم کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ذِمّہ داری لے لی ہے کہ میرے بندوں میں سے جو کوئی میرا تقویٰ اختیار کرے گا مَیں اُس کے معاملات میں ضرور آسانیاں پیدا فرمائوں گا۔
{وَمَنْ یَّـتَّقِ اللہَ یُـکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّاٰتِہٖ} ’’اور جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرے گا وہ اُس کی بُرائیوں کو اس سے دُور فرمادے گا‘‘
اس حکم کا تعلق خصوصی طور پر آخرت سے ہے ۔یعنی اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے والے شخص کے دنیوی معاملات میں بھی آسانیاں پیدا کر دی جائیں گی اور آخرت کے احتساب کے حوالے سے بھی اس کے نامہ اعمال کو گناہوں سے پاک کر دیا جائے گا۔
{وَیُعْظِمْ لَـہٗٓ اَجْرًا(۵)} ’’اور اسے بہت بڑا اجرو ثواب عطا کرے گا۔‘‘
آیت ۶{اَسْکِنُوْہُنَّ مِنْ حَیْثُ سَکَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِکُمْ}’’اور ان عورتوں کو وہیں رکھو جہاں تم خود رہتے ہواپنی حیثیت کے مطابق‘‘
پہلی آیت میں واضح حکم آ چکا ہے : {لَا تُخْرِجُوْہُنَّ مِنْ م بُـیُوْتِہِنَّ وَلَا یَخْرُجْنَ} کہ طلاق کے بعد انہیں فوری طور پر گھر سے مت نکالو اور نہ ہی وہ از خود نکلیں۔اسی حوالے سے اس آیت میں مزید وضاحت کی جا رہی ہے کہ عدّت کے دوران مطلقہ خاتون کو بدستور ویسی ہی رہائش فراہم کی جائے جیسی کہ تمہارے اپنے استعمال میں ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اُسے گھر سے تو نہ نکالو لیکن کسی ملازمہ کی کوٹھڑی میں ڈال دو۔
{وَلَا تُضَآرُّوْہُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْہِنَّ ط}’’اور انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچائو ‘انہیں تنگ کرنے کے لیے۔‘‘
گھر سے نکالنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حیلے بہانے سے اسے بار بار اس قدر ستایا جائے کہ وہ تنگ آکر خود ہی گھر سے نکل جائے۔ چنانچہ بدنیتی پر مبنی یہ طریقہ استعمال کرنے سے بھی منع کردیا گیا ۔
{وَاِنْ کُنَّ اُوْلَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْھِنَّ حَتّٰی یَضَعْنَ حَمْلَھُنَّ ج} ’’اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر خرچ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ حمل سے فارغ ہو جائیں۔‘‘
دین ِاسلام‘ہمدردی اور غم گساری کا دین ہے اور اس کا ایک ثبوت مندرجہ بالا حکم ہے۔ حاملہ عورت کو انتہائی نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے‘ اس لیے یہاں خصوصی طور پر حکم دیا گیا کہ طلاق دینے کے بعد بھی حاملہ عورت کا خیال رکھتے ہوئے اس کی تمام ضرورتوں کو پورا کرتے رہو۔
{فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَـکُمْ فَاٰتُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ ج} ’’پھر اگر وہ تمہارے لیے (تمہارے بچّے کو) دودھ پلائیں تو انہیں ان کا معاوضہ ادا کرو۔‘‘
{وَاْتَمِرُوْا بَیْنَـکُمْ بِمَعْرُوْفٍ ج} ’’اور آپس میں مشورہ کر لیا کرو بھلے طریقے سے۔‘‘
یعنی دودھ پلانے کی اُجرت اور عدّت سے متعلق معاملات مناسب طور سے آپس کے مشورے سے طے کیے جانے چاہئیں۔ اگر طلاق کے بعد وہ دونوں میاں بیوی نہیں رہے تو کیا ہوا‘ آخر دونوں انسان تو ہیں۔ چنانچہ انہیں چاہیے کہ تمام معاملات باہمی گفت و شنید سے طے کریں اور ایک دوسرے سے ایسا رویّہ اختیار کریں جیسا کہ ایک شریف انسان کو دوسرے شریف انسان سے اختیار کرنا چاہیے۔
{وَاِنْ تَـعَاسَرْتُمْ} ’’اوراگر تم ایک دوسرے سے تنگی محسوس کرو‘‘
مثلاًخاتون ضد میں آ کر دودھ پلانے سے انکار کر دے یا اس قدر معاوضہ مانگے جو مرد ادا نہ کر سکے‘ یا مرد معاوضہ دینے سے انکار کر دے ‘یا کسی اور طریقے سے ایک فریق دوسرے پر زیادتی کرنے کی ٹھان لے:
{ فَسَتُرْضِعُ لَــہٗٓ اُخْرٰی(۶)} ’’توپھر کوئی اور عورت اس کے لیے دودھ پلائے گی۔‘‘
آیت ۷{لِیُنْفِقْ ذُوْ سَعَۃٍ مِّنْ سَعَتِہٖ ط}’’چاہیے کہ خرچ کرے وسعت والا اپنی وسعت کے مطابق۔‘‘
{وَمَنْ قُدِرَ عَلَیْہِ رِزْقُہٗ فَلْیُنْفِقْ مِمَّـآ اٰتٰـىہُ اللہُ ط} ’’اور جس پر اس کا رزق تنگ کر دیا گیاہے وہ خرچ کرے اس میں سے جو اللہ نے اس کو دیا ہے۔‘‘
{لَا یُـکَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا مَـآ اٰتٰىہَاط} ’’اللہ کسی جان کو ذِمّہ دار نہیں ٹھہراتا مگر اسی قدر جو اُس نے اسے دے رکھاہے۔‘‘
یعنی عدّت کے دوران مطلقہ کی رہائش‘ حمل کے دوران اس کا نان نفقہ‘ رضاعت کی اجرت وغیرہ کے معیار کا انحصار مرد کی مالی حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے۔ اگر کشادگی ہے تو مطلقہ پر بھی اسے اسی انداز سے خرچ کرنا چاہیے اور اگر تنگ دستی کی کیفیت ہے تو ظاہر ہے وہ اسی حد تک مکلّف ہے جس حد تک اس کی استطاعت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے حالات سے باخبر ہے۔
{سَیَجْعَلُ اللہُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا(۷)} ’’عنقریب اللہ تنگی کے بعد آسانی بھی پیدا کر دے گا۔‘‘
آیات ۸ تا ۱۲

آیت ۸{وَکَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ عَتَتْ عَنْ اَمْرِ رَبِّہَا وَرُسُلِہٖ}’’اور کتنی ہی بستیاں ایسی ہیں جنہوں نے اپنے رب کے حکم اور اُس کے رسولوں ؑسے سرکشی کی ‘‘
{فَحَاسَبْنٰـہَا حِسَابًا شَدِیْدًالا وَّعَذَّبْنٰـہَا عَذَابًا نُّکْرًا(۸)} ’’تو ہم نے ان کا محاسبہ کیا بہت شدید محاسبہ اور ہم نے ان کو عذاب دیا بہت ہولناک عذاب۔‘‘
آیت ۹{فَذَاقَتْ وَبَالَ اَمْرِہَا} ’’تو انہوں نے اپنے معاملے کی پوری سزا بھگت لی‘‘
{وَکَانَ عَاقِبَۃُ اَمْرِہَا خُسْرًا(۹)} ’’اور ان کے کام کا انجام خسارہ ہی تھا۔‘‘
آیت ۱۰{اَعَدَّ اللہُ لَہُمْ عَذَابًا شَدِیْدًالا} ’’اللہ نے ان کے لیے بہت شدید عذاب تیّار کر رکھا ہے‘‘
{فَاتَّقُوا اللہَ یٰٓــاُولِی الْاَلْبَابِج الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاط} ’’تو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اے ہوش مندو‘ جو ایمان بھی لائے ہو!‘‘
نوٹ کیجیے !یہاں پھر تقویٰ کے بارے میں تاکید کی جا رہی ہے ۔قبل ازیں پہلے رکوع میں چار مرتبہ تقویٰ کا ذکر آ چکا ہے۔
{قَدْ اَنْزَلَ اللہُ اِلَـیْکُمْ ذِکْرًا(۱۰)} ’’اللہ نے تمہاری طرف ذکر نازل کردیا ہے۔‘‘
آیت۱ ۱{رَّسُوْلًا یَّـتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِ اللہِ مُـبَـیِّنٰتٍ لِّـیُخْرِجَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِط}’’(یعنی) ایک رسولؐ جو اللہ کی آیاتِ بینات تم لوگوں کو پڑھ کر سنا رہا ہے ‘تاکہ وہ نکالے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کیے اندھیروں سے نور کی طرف۔‘‘
یہاں وضاحت کر دی گئی کہ ذکر سے مراد اللہ کا رسولؐ اور اللہ کی کتاب (اٰیٰتِ اللّٰہِ مُـبَـیِّنٰتٍ) ہے۔ سورۃ البینہ میں اس موضوع کی مزید وضاحت آئی ہے۔
{وَمَنْ یُّؤْمِنْ بِاللہِ وَیَعْمَلْ صَالِحًا}’’اور جو کوئی اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور نیک عمل کرتا ہے‘‘
دین کے تقاضوں کا درست فہم نہ ہونے کی وجہ سے آج ہمارے ہاں ’’اعمالِ صالحہ‘‘ کا تصوّر بھی محدود ہو کر رہ گیا ہے ۔ اعمالِ صالحہ سے اصل مراد یہ ہے کہ ایک بندئہ مؤمن ایمان کے جملہ تقاضوں کو پورا کرے ۔ مکّی دورمیں جبکہ ابھی شراب‘ جوا‘ سود وغیرہ کی حرمت نہیں آئی تھی اور نماز‘ روزہ‘ جہاد و قتال وغیرہ کا حکم نہیں آیا تھا‘ اُس دَور میں اہل ِایمان کے لیے ’’اعمالِ صالحہ‘‘ یہی تھے کہ وہ ایمان کی دعوت دیں اور اس راستے پر جو تکلیفیں اور آزمائشیں آئیں انہیں استقامت سے برداشت کریں۔ پھر مدنی دَور میں جیسے جیسے مزید احکام آتے گئے ویسے ویسے ایمان کے تقاضے بھی بڑھتے گئے اور رفتہ رفتہ نماز ‘روزہ‘ زکوٰۃ‘ عشر ‘ حج ‘ انفاق ‘ جہاد و قتال وغیرہ بھی اعمالِ صالحہ میں شامل ہو گئے۔ گویا جس وقت ایمان کاجو تقاضا ہو اُسے پورا کرنے کا نام ’’عمل ِصالح‘‘ہے۔ آج ایک عام مسلمان جب قرآن میں ’’عمل ِصالح‘‘ کی اصطلاح پڑھتا ہے تو اس سے اس کے ذہن میں صرف نماز‘ روزہ اور ذکر اذکار کا تصوّر ہی آتا ہے‘ جبکہ منکرات کے خلاف جدّوجُہد اور اقامت ِدین کے لیے محنت جیسے اہم تقاضوں کو آج اعمالِ صالحہ کی فہرست سے ہی خارج کر دیا گیا ہے۔ تو جو کوئی ایمان لانے کے بعد ایمان کے تقاضوں کو بھی پورا کرے گا:
{یُّدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَـآ اَبَدًاط}’’وہ اُسے داخل کرے گا اُن باغات میں جن کے نیچے ندیاں بہتی ہوںگی ‘ جن میں وہ لوگ رہیں گے ہمیشہ ہمیش۔‘‘
{قَدْ اَحْسَنَ اللہُ لَـہٗ رِزْقًا(۱۱)}’’اللہ نے اُس کے لیے بہت عمدہ رزق فراہم کیا ہے۔‘‘
آیت ۱۲{اَللہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَہُنَّ ط}’’اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے ہیں اور زمین میں سے بھی انہی کی مانند۔‘‘
یہ آیت ’’آیاتِ متشابہات‘‘ میں سے ہے۔ ابھی تک انسان سات آسمانوں کی حقیقت سے بھی واقف نہیں ہو سکا۔ ’’زمین میں سے انہی کی مانند‘‘ کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ جتنے آسمان بنائے اتنی ہی زمینیں بھی بنائیں‘ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جیسے اُس نے متعدد آسمان بنائے ہیں ویسے ہی متعدد زمینیں بھی بنائی ہیں۔ قرآن حکیم کے بعض مقامات پر ایسے اشارے ملتے ہیں کہ جاندار مخلوقات صرف زمین پر ہی نہیں ہیں‘ عالم ِبالا میں بھی پائی جاتی ہیں۔ مفسرین نے اپنے اپنے اندازوں سے اس آیت کی تفسیر کی ہے‘ لیکن اس کا قطعی مفہوم ہم ابھی نہیں جان سکتے۔ بہرحال کسی وقت اس کی حقیقت انسان پر منکشف ہو جائے گی۔
{یَتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَیْنَہُنَّ}’’ان کے درمیان (اللہ کا) امر نازل ہوتا ہے‘‘
اس سے مراد تدبیر ِکائنات سے متعلق اللہ تعالیٰ کے احکام ہیں۔ اس بارے میں مزید وضاحت سورۃ السجدۃ کی اس آیت میں ملتی ہے :
{یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآئِ اِلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٓٗ اَلْفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ(۵)}
’’وہ تدبیر کرتا ہے اپنے امر کی آسمان سے زمین کی طرف پھر وہ (اَمر)چڑھتا ہے اُس کی طرف(یہ سارا معاملہ طے پاتا ہے) ایک دن میں جس کی مقدار تمہاری گنتی کے حساب سے ایک ہزار برس ہے۔‘‘
گویا یہ اللہ تعالیٰ کی ہزار سالہ منصوبہ بندی سے متعلق احکام کا ذکر ہے جو زمین کی طرف ارسال کیے جاتے ہیں۔ متعلقہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ان احکام کی تنفیذ عمل میں لاتے رہتے ہیں‘ یہاں تک کہ ہزار سال کے اختتام پر یہ ’’امر‘‘ اٹھا لیا جاتا ہے اور اگلے ہزار سال کا امر نازل کردیاجاتا ہے۔
{لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْــرٌلا}’’تاکہ تم یقین رکھو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘
اس دورئہ ترجمہ قرآن کے دوران کئی مرتبہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں دو صفات خصوصی اہمیت کی حامل ہیں اور قرآن مجید میں ان دو صفات کی بہت تکرار ملتی ہے۔ یعنی اللہ کا عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْــرٌاور بِکُلِّ شَیْ ئٍ عِلِیْمٍ ہونا۔ لہٰذا ان دو صفات کے بارے میں ایک بندئہ مؤمن کا مراقبہ بہت گہرا ہونا چاہیے‘ تاکہ اللہ تعالیٰ کے علم اور اختیارکے بارے میں اُس کے یقین میں کسی لمحے کوئی کمزوری نہ آنے پائے۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی ان دونوں صفات کا ذکر آیا ہے۔
{وَّاَنَّ اللہَ قَدْ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عِلْمًا(۱۲)}’’اور یہ کہ اللہ نے اپنے علم سے ہر شے کا احاطہ کیا ہوا ہے۔‘‘
پہلے اللہ تعالیٰ کی قدرت کے بارے میں بتایا گیا اور اب اُس کے علم کا ذکر آگیا۔ یعنی کائنات کی کوئی چیز اُس کی قدرت سے باہر نہیں اور نہ ہی کوئی چیز اس کے علم سے پوشیدہ ہے۔
حواشی
۱۔ صحیح مسلم‘ کتاب البر والصلۃ والآداب‘ باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ…وسنن الترمذی‘ کتاب البر والصلۃ والآداب‘ باب ما جاء فی شفقۃ المسلم علی المسلم۔
۲۔ صحیح البخاری‘ کتاب المظالم والغضب‘ باب لا یظلم المسلم المسلم ولا یسلمہ‘ ح:۲۴۴۲ و ۶۹۵۱۔ وصحیح مسلم‘ کتاب البر والصلۃ والآداب‘ باب تحریم الظلم‘ ح:۲۵۸۰۔