(عرض احوال) مسئلۂ سُود اور وفاقی شرعی عدالت کافیصلہ - ادارہ

8 /

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مسئلۂ سُود اور وفاقی شرعی عدالت کافیصلہ

فیڈرل کورٹ کے ’’ربا‘‘کے خلاف حالیہ فیصلے کے پس منظر میں سابقہ تین عدالتی فیصلے اور ۲۰۱۳ ءسے جاری حالیہ عدالتی کارروائی کی ۵۸ سماعتوں کی طویل تاریخ کارفرما ہے۔حالیہ فیصلے میں بیان کردہ ربا کی مذکورہ بالا وضاحت سے رباکی وہ تمام شکلیں ممنوع و منسوخ قرار دی جاچکی ہیں جو سودی نظام کی بنیادی تشکیل کا ذریعہ ہیں۔ ان میں رباالنسیئہ‘جورباالقرآن بھی کہلاتاہے‘ کی تمام ممکنہ شکلیں بیان ہوگئیں۔ اسی طرح رباالفضل‘جسے ربا السنہ بھی کہا جاتا ہے‘کوبھی پہلے سے زیادہ صراحت کے ساتھ ممنوع و منسوخ قرار دیا گیا ہے۔ عدالت کی جانب سے یہ صراحت اوروضاحت آنے کے بعد اب یہ بحث ہردور کے لیے ختم ہوچکی کہ یہ جوماڈرن کمرشل انٹرسٹ ہے یہ ربا ہے یا نہیں ہے ۔اور جوساتویں صدی عیسوی کا ربا تھا اس میں اورموجودہ اکیسویں صدی کے کمرشل انٹرسٹ میں کوئی فرق ہے یا نہیںہے ۔
جن آٹھ بینکوں نے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی انہوں نے اپیل واپس لے لی ہے مگر فائن ٹون کرنے کے بعد دوبارہ سپریم کورٹ میں جاناچاہتے ہیں اور سٹیٹ بینک نے تو ریویو کے لیے پٹیشن دائر کر رکھی ہے۔ حکومت کی طرف سے وزیراعظم اور وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ ہم اس فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کو تحسین کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور ہم کوشش کریں گے کہ اس کی روح کے مطابق عمل کیاجاسکے۔پھر ایک ٹاسک فورس بنادی گئی ہے جس میں مفتی محمد تقی عثمانی سمیت مختلف علماء کرام اور حکومتی ذمہ داران شامل ہیں ۔ لیکن یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے اگر حکومت وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پرعمل درآمد کرانے کے لیے ٹاسک فورس بنا رہی ہے توسٹیٹ بینک اپنی پٹیشن واپس کیوں نہیں لیتا؟اس پٹیشن کاسپریم کورٹ میں جانایہ واضح کررہا ہے کہ نیک نیتی نہیںہے ۔ اگر آپ کوفیصلے کے حوالے سے کوئی وضاحت یا تشریح چاہیے تو آپ وفاقی شرعی عدالت میں جائیں تاکہ وہیں پرمعاملہ حل ہو۔سپریم کورٹ میں جانے کامطلب یہ ہوگا وہ فیصلہ stay کاشکار ہو جائے گا۔اور یہی چیز ہم پچھلے پچاس برسوں سے دیکھتے آ رہے ہیں کہ مختلف حیلے بہانوں سے معاملے کو لٹکایا جارہا ہے۔ پھر کمیشن اور ٹاسک فورس پہلے بھی بنتے رہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور سٹیٹ بینک کی کمیٹیوں نے بھی بڑے کام کیے ہیں لیکن اصل تقاضا ابھی تک پورا نہیں ہوا۔ بہرحال ہم نیک نیتی اس وقت محسوس کریں گے جب کوئی ایک قابل ذکرعملی قدم اٹھالیاجائے گا۔
وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ ۳۱۹ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں بہت سارے کام کرنے کو دیے گئے جن میں کچھ فوری نوعیت کے ہیں جو فوری ہوسکتے ہیں ۔حکومت اگر نیک نیت ہے تووہ پہلا کام یہی کرے کہ سٹیٹ بینک کاپٹیشن واپس لے کردکھائے اور کسی تشریح کی ضرورت ہے تو وفاقی شرعی عدالت سے رجوع کرے ۔ ہماری دوسری گزارش یہ ہے کہ ٹاسک فورس میں ان علماء کو بھی شامل کریں جوموجودہ اسلامی اکانومی اور معیشت کے میکنزم کو بھی سمجھتے ہوں۔ اس کے علاوہ کچھ سٹیک ہولڈرز اور بھی ہوسکتے ہیں ۔خاص طور پر وہ جماعتیں اور حضرات جو پچھلے بیس سال وفاقی شرعی عدالت میں اس کیس کی سماعت کے دوران بڑے صبرآزما مراحل سے گزرے ہیں اور انہوں نے اس مقدمے کے سارے اُتارچڑھاؤ دیکھے ہیں‘ان حضرات کوبھی آن بورڈ لینے کی ضرورت ہے ۔
مستقبل کے حوالے سے ہمارا لائحہ عمل واضح ہے کہ جس طرح تنظیم اسلامی نے دوسری جماعتوں بالخصوص جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر انسدادِسود مہم میں کوششیں کیں‘ ہمارے اور جماعت اسلامی کے وکلاء نے مل کر عدالت میں کوششیں کیںاسی طرح آئندہ بھی کوشش جاری رکھیں گے اور تنظیم اسلامی اس حوالے سے ایک مہم کاآغاز ۱۹ /اگست۲۰۲۲ءسے باقاعدہ طور پر کر چکی ہے ۔ کچھ اہل ِعلم حضرات کی طرف سے بھی اس کوشش کو جاری رکھنے کی بات آئی ہے ۔ مفتی تقی عثمانی صاحب اورمفتی منیب الرحمٰن صاحب نے بھی کچھ فورمز پر بات کی ہے کہ ہمیں اس فیصلے کے نفاذ کے لیے محنت کرنے اور اس حوالے سے پریشر ڈالنے کی ضرورت ہے ‘ کیونکہ یہ مسئلہ سب کے نزدیک متفقہ ہے ‘سود کی حرمت کاکوئی انکار نہیں کرتا۔
بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرارا حمدؒ فرمایا کرتے تھے کہ شریعت کے نفاذ کامطالبہ لے کرہم کھڑے ہوں توپہلے ہمیں چندمنکرات کو ٹارگٹ کرنا ہوگااور کسی متفق علیہ منکر کے خلاف مہم کی بنیاد پر نفاذ شریعت کے مطالبے کو آگے بڑھانے کی کوشش کرنی ہوگی۔بہرحال اس حوالے سے تنظیم اسلامی عوام الناس اورعلماء کرام کوآگاہ کرنے کے لیے کوشش کررہی ہے ۔ مولانازاہد الراشدی جیسے علماء بھی انسداد سودِ کے حوالے سے محنت کررہے ہیں اور دوسرے لوگوں کی طرف سے بھی دباؤ بڑھانے کی بات آرہی ہے ۔ ہم پُرامن ایجی ٹیشن کی بات کرتے ہیں ۔شریعت کے نفاذ کے لیے آخری اقدام کوہم تحریک کہیں گے‘ اس سے پہلے ہم مہمات چلاتے ہیں۔ آگاہی منکرات مہمات کی طرح سود کے خلاف بھی ایک مہم شروع کی جا چکی ہے جوایک مشترکہ کوشش ہوگی اور تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی کے اصول کے تحت تنظیم اسلامی اپنا حصّہ ضرور ڈالے گی ۔
تنظیم اسلامی اس سے پہلے بھی منکرات کے خلاف مہمات کااہتما م کرتی رہی ہے ۔ ہم پہلے پارلیمنٹ کے تمام ممبران ‘ججز‘ صحافیوں‘ائمہ حضرات وغیرہ سب کو خطوط لکھتے ہیں ۔چونکہ ہم نے یہ ملک اسلام کے نام پرلیاہے لہٰذا ہم چاہتے ہیں کہ ان تک بھی بات پہنچائی جائے۔ ہمارے پاس زورِ بازو سے منکر کوختم کرنے کی طاقت نہیں تو زبان سے اس کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جہاں تک دینی سیاسی جماعتوں کاتعلق ہے تو ان سے ہم دست بستہ گزارش کرتے ہیں کہ ۷۵برس کا بہت بڑا تجربہ ہمارے سامنے ہے کہ اس انتخابی سیاست کے نتیجے میں شریعت کا نفاذ ممکن نہیں ہے ‘ کیونکہ یہ فرسودہ نظام کی میوزیکل چیئر گیم ہے ۔البتہ جب دینی جماعتوں نے کسی متفق علیہ معاملے پر انتخابی سیاست سے ہٹ کر کوئی تحریک چلائی ‘ مثلاً قادیانیوں کے خلاف‘تحفظ ِناموسِ رسالتؐ کے قانون کی تبدیلی کی کوشش کے خلاف تواللہ تعالیٰ نے کامیابی دی ۔ پھر سندھ اسمبلی میں خلافِ اسلام قانون ہویانام نہاد گھریلو تشدد بل ہواس کے خلاف دینی جماعتوں نے آواز بلند کی توان کاپریشر قبول کیاگیااور اللہ نے کامیابی دی ۔ہم دینی سیاسی جماعتوں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ انتخابی سیاست کوچھوڑ کرانقلابی سیاست کا راستہ شریعت کے احکام کے نفاذ کے لیے اپنائیں‘ کیونکہ پاکستان میں نفاذ شریعت کے لیے یہی صحیح تر راستہ ہے ۔
اب‘کیاآگے کے چیلنجز ہیں۔ یہ نعمت ِ ہدایت اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک مرتبہ پھراس فیصلے کے ذریعے عطا کی ہے‘اس کی کیسے قدر کی جائے اور کون سے اقدامات اب ضروری ہوں گے ۔ اس ضمن میں تین امور کی جانب توجّہ ضروری ہے‘جو اس عدالتی کیس کے اسکوپ سے باہر ہونے کی وجہ سے کورٹ کے فیصلے میں مناسب طور سے ایڈریس نہیں ہو سکے۔ سب سے پہلا فوریکس ٹریڈ اورMoney Market کے امور میں ربا کی آمیزش کا معاملہ ہے۔ اس کے لیے ربا کے عمومی احکام کے علاوہ ’’احکام الصرف‘‘ کو ملحوظ رکھتے ہوئے کرنسی کے تبادلے میں مستقبل کے سودوں کی موجودہ شکلوں اور اس کے لیے ملکی قوانین میں دی گئیprovisions کا قرآن و سُنّت کی روشنی میں جائزہ از حد ضروری ہے۔ دوسرا معاملہ قیمتوں کی اشاریہ بندی (indexation) سے متعلق ہے۔ حالیہ فیصلے میں عدالت نے بوجوہ اس ایشو پر حتمی پوزیشن لینے سے گریز کیا ہے۔ اس کا جائزہ لیے بغیر طویل مدّتی مالی معاہدات میں افراطِ زر کے اثرات پر قرآن وسُنّت کی رہنمائی میں compensation کا طریقہ واضح نہیں ہوسکتا۔
تیسرا اور اہم ترین معاملہ اسلامی بینکاری کے موجودہ طریقوں اور آلاتِ تمویل کا ہے۔ حالیہ فیصلے میں پیرا نمبر۹۰اور ۹۱ میں کہاگیا ہے کہ غیر سودی بینکاری قابل عمل بھی ہے اور ایک حقیقت بھی ہے۔ دورانِ سماعت اسلامی بینکاری کے حوالے سے عدمِ اعتماد کا اظہار ہوا اور اس میں غیر شرعی حیلوں کی آمیزش کی طرف توجّہ دلائی گئی‘لیکن چونکہ کسی نے ان کے متعلقہ آلات تمویل یا قوانین کو باضابطہ چیلنج نہیں کیااور اس سے متعلقہ کوئی پروویژن آف لاء کے خلاف کوئی باضابطہ پٹیشن دائر شدہ نہیں ہے‘اس لیے ہم نے اس معاملے کو کھلارکھاہے۔ تواب ہم موقع دیتے ہیں کہ جس نے ان کوچیلنج کرناہے وہ نئی پٹیشن دائر کرسکتا ہےاور اسلامی بینکنگ میں جوحیلے اور غیرشرعی طریقے در آئے ہیں ان کوسامنے لائیں تاکہ ہم سود کیdefinitions کی روشنی میں یہ متعین کرسکیں کہ اس میں ہونے والے کا م کس حدتک اسلامی ہیں اور مقاصد شرعیہ کو پورا کرتے ہیں یانہیں کرتے۔
ہم سمجھتے ہیںکہ یہ بھی ایک کام ہے ان لوگوں کے لیے کہ جو اسلامائیزیشن آف اکانومی کے سلسلے میں کوئی حقیقی پیش رفت کرناچاہتے ہیں (خاص طور پر وہ حضرات جو آئے دن’’اسلامی بینکاری‘‘کے ’’اسلامی‘‘ہونے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہتے ہیں‘لیکن کسی ٹھوس تجویز کے ساتھ سامنے بھی نہیں آتے)کہ وہ ان طریقوں کو ہائی لائٹ کریں‘ ان قوانین کوچیلنج کریں کہ جن کے اند رابھی شرعی اعتبار سے اشکالات نظر آرہے ہیں۔ اس کام کے لیے البتہ ضروری ہوگا کہ جو فیصلہ آچکا ہے اس پر اخلاص کے ساتھ عمل درآمد کا آغاز کیا جائے اور قانونی و عملی رکاوٹوں کو پورے عزم و ارادے سے دور کرنے کی سعی کی جائے۔بصورتِ دیگر نہ یہ فیصلہ مؤثر العمل ہوسکے گا اور نہ ہی مملکت خداداد پاکستان کے قیام کے بنیادی فلاحی مقاصد کی طرف کوئی پیش رفت ممکن ہو سکے گی۔
[تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو ’’حکمت ِقرآن‘‘ (جولائی ۔ستمبر۲۰۲۲ء) کا اداریہ از حافظ عاطف وحید صاحب]