مساجد:روحانی وفکری رہنمائی کے مراکزاحمد علی محمودیمسجدکے معنی
مسجد کےلغوی معنی’’ سجدہ گاہ‘‘ کے ہیں اور اسلامی اصطلاح میں وہ جگہ جو نماز کے لیے وقف کر دی جائے ‘اسے مسجد کہا جاتاہے ۔مسجد مسلمانوں کی عبادت گاہ کا نام ہے‘جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
{وَلَوْ لَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللہِ کَثِیْرًا ۭ} (الحج:۴۰)
’’اور اگر اللہ تعالیٰ ایک دوسرے کے ذریعہ لوگوں کا زور نہ توڑتا تو راہبوں کے خلوت خانے‘عیسائیوں کے گرجے‘یہودیوں کے معبد اور مسلمانوں کی مساجدجن میں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے گرا دی جاتیں ۔‘‘
اس آیت ِ مبارکہ سے یہ ثابت ہوگیا کہ مسجد مسلمانوں کی عبادت گاہ کا نام ہے۔ چنانچہ مساجد کا شمار اسلامی شعائر میں ہوتا ہے ‘ جیسا کہ امام الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒاپنی کتاب ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں فرماتے ہیں: فضل بناء المسجد وملازمتہ وانتظار الصلاۃ فیہ ترجع الٰی انہ من شعائر الاسلام ’’مسجد بنانے‘اس میں حاضر ہونے اور وہاں بیٹھ کر نماز کا انتظار کرنے کی فضیلت کا سبب یہ ہے کہ مسجد شعائر اسلام میں سے ہے۔‘‘
مقدّس مقام
’’مسجد ‘‘کہنے کو تو ایک ظرف یعنی مقام(جگہ ) ہے جہاں اللہ ربّ العزت کے حضور سجدہ ریز ہواجاتا ہے‘جو دیکھنے کے اعتبار سے عام عمارتوں کی طرح اسی دُنیا کی بنی ہوئی عمارتی چیزوں کے ملانے سےہی بنتی ہے۔ اس میں آنے جانے والے‘صفائی کرنے‘ اذانیں دینے‘ نمازیں پڑھانے والے عام انسان ہی ہوتے ہیں۔اس میں اسی طرح کی ضروریاتِ زندگی بھی ہوتی ہیں جس طرح کسی گھر کی ضروریات مثلاًپانی وبجلی وغیرہ‘ لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ ایسی مقدّس جگہ ہےجہاں سر کو بارگاہِ ربّ العزت میں رکھ کر گڑگڑایا جاتا ہے۔دُنیا کے جھمیلوں میں اُلجھے ہوئےاور پریشان حال لوگوں کے دل کا درماںجس مطب اور دواخانہ میں ہے‘ وہ مسجد ہی ہے ۔ مسجدہی بے کسوں کی داد رسی کی جگہ ہے ۔ وہ‘ جسے اپنوں نےچھوڑا ہو ‘غیروں نے دھتکارا ہو‘جس کی شنوائی کسی در پر نہ ہو رہی ہو‘ اس کی شنوائی جس درپر ہوتی ہے‘ وہ یہی مقدّس مقام ’’مسجد ‘‘ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((اَحَبُّ الْبِلادِ اِلی اللہِ مَسَاجِدُھا، وَاَبْغَضُ الْبِلِادِ اِلَی اللہِ اَسْوَاقُھَا))(صحیح مسلم، کتاب المساجد)
’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب ترین جگہ مساجد ہیں اور ناپسندیدہ ترین جگہ بازار ہیں۔‘‘
اسی طرح حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
((خَیْرُ البقاعِ بُیوتُ اللہِ فِی الأرض)) (المعجم الاوسط للطبرانی‘ح: ۷۱۴۰)
’’زمین میں سب سے بہتر جگہ اللہ کے گھر ( مساجد ) ہیں ۔‘‘
روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کا گھر
مساجد روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں اور سب سے مبارک مقام بھی۔ اسلام میں مسجد کی بڑی عظمت اوراہمیت ہے‘ اس لیے کہ یہ اللہ عزّوجل کی بندگی‘ اُس کے ذکر اور قرآن مجید کی تلاوت کا مقام ہے۔چنانچہ جس جگہ اللہ تعالیٰ کو یاد کیا جائے‘ بندگی کے سجدے کیے جائیں اور اللہ تعالیٰ کو پکارا جائے‘ اس جگہ سے بڑھ کر اور کون سی جگہ مقدّس ہوسکتی ہے؟ جس طرح انسانوں کا نصیب ہوتا ہے اسی طرح زمین کے ٹکڑوں کا بھی نصیب ہوتا ہے اور زمین کے ہر ٹکڑے کا مقدّر اللہ تعالیٰ کا گھر بننا نہیں ہے ۔اللہ زمین کے جس حصے کو چاہتا ہے ‘اپنا گھر بنانے کے لیے چن لیتا ہے‘ اور زمین کا وہ ٹکڑا عزّت‘ شرف اور عظمت حاصل کرلیتاہے۔حدیث مبارکہ میں ہے کہ’’ جس طرح تم آسمان کے ستاروں کو چمکتا دمکتا دیکھتے ہو‘ آسمان والے زمین پر قائم مسجدوں کو اسی طرح روشن اور منور دیکھتے ہیں‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسجدو ں کی تعمیر کا کام انبیاء کرام علیہم السلام سے لیا۔ قرآن پاک میں خانہ کعبہ کے بارے میں یہ حقیقت بیان ہوئی ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے اس کی تعمیر فرمائی۔ ارشاد ِربّانی ہے:
{وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰہٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمٰعِیْلُ ط رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاط اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۱۲۷)} (البقرۃ)
’’اور (وہ بھی کیا وقت تھا) جب ابراہیم خانہ کعبہ کی بنیادیں اونچی کررہے تھے‘ اور (ان کے ساتھ ان کے بیٹے) اسماعیل بھی تھے۔ (اور وہ دونوں ان الفاظ میں اللہ سے دعا کررہے تھے:) اے ہمارے پالنے والے! ہم سے (اس خدمت کو) قبول فرمالے! بے شک تُو (ساری فریادیں) سننے والا (اور فریاد کرنے والے انسانوں کے حالات) جاننے والا ہے۔‘‘
چنانچہ کعبۃ اللہ کو دُنیا کی پہلی مسجد ہونے کا شرف حاصل ہے ۔اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کے ذریعے مسجد اقصیٰ کی تعمیر ہوئی‘ اور کائنات کے سب سے عظیم پیغمبر اور نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نےمدینہ منورہ پہنچنے کے بعد مسجد نبوی کی بنیاد رکھی اور اس مسجد کی تعمیر میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے ساتھ حضور اکرم ﷺ خود بھی شریک ہوئے۔ چنانچہ تعمیر کے وقت خود آپﷺ بھی پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے تھے۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ آپؐ زحمت نہ فرمائیں‘ مسجد کی تعمیر کے لیے ہم کافی ہیں‘ اس پر حضور اکرم ﷺ نے یہ بات ارشاد فرمائی تھی کہ’’ جس طرح تم اجر کے محتاج ہو‘ مَیں بھی اللہ کے اجر کا محتاج ہوں۔‘‘
سابقہ اُمتوں میں مساجد کا مقام
سابقہ اُمتوں میں بھی مساجد کا مقام بہت بلند تھا۔اللہ تعالیٰ نے ابراہیم اور اسماعیل علیہماالسلام کو مسجد الحرام کی صفائی ستھرائی کا حکم دیا:
{وَعَہِدْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰہٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَہِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ(۱۲۵)} (البقرۃ)
’’ہم نے ابراہیم اور اسماعیل سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھر کو طواف اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھو گے ۔‘‘
جناب عمران کی اہلیہ نے بھی اپنے نو مولود کی مسجد اقصیٰ کی خدمت کےلیے نذر مانی تھی:
{رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا} (آل عمران: ۳۵)
’’پروردگار! مَیں نے نذر مانی ہے کہ جو کچھ میرے بطن میں ہے وہ (مسجد اقصٰی کی خدمت کے لیے) آزاد ہے۔‘‘
مسجد کی تاریخ
مسجد کی تاریخ معلوم کرنے کے لیے اتنی بات ہی کافی ہے کہ مسجد دُنیا میں اللہ تعالیٰ کا پہلا گھر ہے اوردُنیا کی آبادی کی ابتدا مسجد سے ہی ہوئی۔تعمیر انسانیت کا پہلا شاہ کار ہونے کا شرف اسی مسجد کو حاصل ہےجس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے‘ اور اس مبارک مقام کو برکت اور ہدایت کا مرکز بنادیا گیا ہے۔قرآن کریم نے اس بات کو صراحت کے ساتھ ذکر کیا ہے‘فرمایا:
{اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ(۹۶)} (آل عمران)
’’ بے شک وہ پہلا گھر جسے لوگوں کے (عبادت کرنے کے ) لیے بنایا گیا ‘وہ بکّہ (مکّہ مکرمہ ) میں ہے‘ مبارک ہے اور دونوں جہانوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے فرستادہ بندے جہاں کہیں گئے‘سب سے پہلے انہوں نےوہاں مسجد کی بنیاد رکھی یا رکھنے کی ترغیب دی ‘چاہے وہ پہلے نبی حضرت سیدنا آدم علیہ السلام ہوںیا آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰﷺ‘تمام برگزیدہ ہستیوں نے مساجد کو تعمیر کیا۔بلکہ اگر تاریخ مکہ اور تاریخ کعبہ کو دیکھا جائے تو صرف خانۂ کعبہ کی تعمیر دس مرتبہ ہوئی ہے‘جن میں سب سے پہلی تعمیر فرشتوں کی ہے جو انہوں نے ٹھیک بیت المعمور کے مدّ ِمقابل کعبۃ اللہ کی تعمیر کی ‘ جسے عبادت کے لیے بنایا گیا ۔
رسول اللہ ﷺ نبوت ملنے کے بعد جب تک مکہ مکرمہ میں رہے‘ مسجد حرام میں نمازیں ادا کیا کرتے تھے ‘کیونکہ مسجد پہلے سے بنی تھی اور بنانے والے بھی نبی تھے۔مسجد حرام کوسب سے پہلے بنانے والے ابوالانبیاء سیدنا آدم علیہ السلام تھے‘ ان کے بعد حضرت شیث علیہ السلام اور پھر ان کے بعد حضرت سیدنا ابراہیم اور سیدنا اسماعیل علیہما السلام تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے ہجرت فرمائی اور مدینہ منورہ پہنچنے سے پہلے ہی ایک جگہ آپ ﷺاور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قیام فرمایا تو اسی دوران آپﷺ نے سب سے پہلی مسجد کی بنیاد رکھی‘جسے آج ’’مسجد قباء‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ مسجد بنانے کے بعد جب آپ ﷺمدینہ منورہ پہنچے تو وہاں بھی آپ ﷺ نے پہنچ کر جو سب سے اہم کام کیا وہ مسجد کے بنانے کا ہی تھا ‘جس کی تعمیر میں خود آپﷺ باقاعدہ شریک ہوئے۔ اس طرح مسجد قباء کومحمد رسول اللہﷺ کے مبارک ہاتھوں سے بننے والی پہلی مسجد کا شرف ملا اور مسجد نبوی شریف کو مدینہ منورہ میں بننے والی پہلی مسجد کا اعزاز حاصل ہوا۔
اس سے بڑھ کر مسجد کی تاریخ کو کیا بیان کیا جائے‘ جسے دُنیا میں اوّلیت کا شرف حاصل ہو‘جس سے دُنیا کی تعمیرات کی ابتدا کی گئی ہو ‘بلکہ بعض روایات کے مطابق جس کی ابتدا فرشتوں کے ذریعے کروائی گئی ہو‘جس سے نظامِ دُنیا کی بساط بچھائی گئی ہو‘ اس سے عظیم تر کوئی چیز کیسے ہوسکتی ہے؟ اس سے قدیم ہونے کا دعویٰ کیوںکر کیا جاسکتا ہے؟
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ کون سی مسجد سب سے پہلے بنائی گئی ؟ آپﷺ نے فرمایا : ’’مسجد ِحرام‘‘۔میں نے عرض کیا پھر؟ تو فرمایا:’’ مسجد ِاقصیٰ !‘‘
مساجد اللہ کی ملکیت ہیں!
اسلام میں مساجد کو خصوصی حیثیت حاصل ہے ‘کیونکہ کسی زمین کو مسجد کے لیے وقف کرنا‘اس حصّہ ٔ زمین کو براہِ راست اللہ کے حوالہ کردینا ہے‘اب گویا وہ براہِ راست اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
{وَاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلہِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللہِ اَحَدًا(۱۸)} (الجن )
’’بے شک مسجدیں اللہ کے لیے ہیں ‘اس لیے ( مساجد میں ) اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو۔‘‘
اس آیت میں مسجد کے بجائے ’’ مساجد ‘‘ یعنی واحد کے بجائے جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے‘یعنی جو حکم بیان کیا جارہا ہے وہ کسی ایک مسجد کا نہیں ہے‘بلکہ تمام مساجد کا ہے ۔ اسی لیے مشہور مفسر قرآن حضرت عکرمہؒ نقل کرتے ہیں کہ یہ آیت تمام مساجد کے بارے میں ہی نازل ہوئی ہے۔ (مختصر تفسیر ابن کثیر : ۳؍۵۸۶ )
مذکورہ بالا آیت میں ایک بات یہ بیان کی گئی کہ مسجدیں اللہ ہی کی ملکیت ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات بھی واضح فرمادی کہ مسجد کے اللہ کی ملکیت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ جگہ ہمیشہ کے لیے اللہ کی عبادت کے لیے مخصوص ہے۔اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
{وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہِ اَنْ یُّذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ وَسَعٰی فِیْ خَرَابِہَاط} (البقرۃ:۱۱۴)
’’اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ کی مساجد میں اللہ کا نام لینے سے روک دے اور اس کو ویران کرنے کے درپے ہو!‘‘
اس آیت میں بھی مساجد کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے اور جو جگہ اللہ کی عبادت کے لیے بنائی گئی ہو‘اس میں اللہ کی عبادت کے روک دینے کو بہت بڑا ظلم قرار دیا گیا ہے۔یہ آیت اگرچہ مسجد حرام سے متعلق نازل ہوئی ہے‘لیکن جمع کے صیغہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تمام مساجد کا یہی حکم ہے۔ (تفسیر قرطبی : ۲؍۵۳‘نیز دیکھیے : تفسیرطبری : ۱؍۳۵۲) اسی لیے قاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒنے فرمایا کہ’’ اگرچہ یہ آیت ایک خاص واقعہ کے پس منظر میں نازل ہوئی ہے‘لیکن یہ حکم عام ہے‘‘۔ (تفسیر مظہری : ۱؍۱۱۶)------ آیت میں مذکور مسجد کو ویران کرنے سے مراد اس کو منہدم کرنا یا اس میں عبادت کو روک دینا ہے۔(تفسیر ابی السعود : ۱؍۱۴۹)
مساجد کی شرعی حیثیت
مساجد کی شرعی حیثیت کے سلسلہ میں رسول اللہ ﷺ کے ارشادات سے بھی روشنی ملتی ہے ۔حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا : ’’زمین میں مساجد اللہ کے گھر ہیں اور یہ بات اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے کہ جو اللہ کے گھر کی زیارت کرے‘اللہ تعالیٰ اس کا اکرام فرمائے ‘‘۔ (معجم طبرانی کبیر‘کتاب الصلاۃ‘ باب لزوم المساجد) اس حدیث میں مسجدوں کو اللہ تعالیٰ کا گھر قرار دیا گیا ہے‘اس کا مطلب ظاہر ہے کہ مسجدیں اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ جب انسان اس کا مالک و مختار نہیں ہےتو اس کو اس میں کسی تصرف اور اس کی حیثیت اور کیفیت کو بدلنے کا حق کس طرح ہوسکتا ہے ؟
مسلمانوں کے مساجد سے وابستہ مفادات
مسلمانوں کےمساجدسے وابستہ مفادات دو طرح کے ہیں : دنیوی اوراخروی۔ دنیوی مفادات بھی دو قسم کے ہیں :اجتماعی اورانفرادی ۔انسان کے دونوں قسم کے مفادات کا تعلق مسجد سے ہی ہے‘چاہے اس کی بیداری ہو یا اس کا اپنے رب کے حضور سر بسجود ہونا‘ اس کا اجتماعی جگہوں میں شریک ہونا ہو یا اس کا کسی کی غم خواری وہمدردی کرنا‘اس کے مسائل کا حل ہو یا اس کے اعتکاف ومناجات۔ امت مسلمہ کے بہت سارے دینی و دنیوی مفادات مساجد سے ہی وابستہ ہیں ۔
تاریخ شاہد ہے کہ مساجد کو آباد کرنے والے کامیاب رہے اور اسے ویران کرنے یا ویرانی کی کوشش کرنے والے تباہ وبرباد ہوئے۔پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ مساجد کی تعمیر کی توفیق ہر فرد کو نہیں ہوتی‘نہ اس کی خدمت کا موقع ہر ایک کو دیا جاتا ہے۔اس کی تعمیر وخدمت کا کام انبیائےکرام علیہم السلام اور خصوصاً دین ابراہیمی کا خاصہ رہا ہے۔اس خدمت وتعمیر کا صلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امامت کی صورت میں دیا گیاہے ۔
مسجد زمین کا وہ حصّہ ہے جو اللہ ربّ العزت کو سب سے زیادہ پسند ہے۔ اور یہ وہ جگہ ہے جس میں شاہ وگدا سب برابر ہیں۔جس کی عظمت واحترام کا حال یہ ہے کہ ناپاکی کی حالت میں اس میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔یہ الفت ومحبّت کا درس دیتی ہے اور باہمی بھائی چارہ اور اخوت کا مظہر ہے۔جس کی طرف چلنا ایمان کی علامت اور اس سے روکنا کفر وعصیان اور ظلم کی علامت ہے۔جسے آباد رکھنا تقویٰ والوں کا اورجسے ویران کرنا فساق وفجار کاکا کام ہے۔جس کی صفائی وپاکیزگی انبیاءکرام علیہم السلام کا اور اسے گندا کرنا مشرکین اور ان کے حواریوں کاکا کام ہے۔اسے تعمیر کرنا مسلم حکمرانوں کا اوراسے منہدم ومسمار کرنا اللہ کے نافرمانوں کا شیوہ رہا ہے۔اسے ذکر وفکراورعلمی مجالس سے آباد کرنا مسلمانوں کااور اسے کلیساؤں‘ تفریح گاہوں‘چراہ گاہوں میں بدلنا یہود ونصاریٰ اوران کے پیروکاروں کا وطیرہ رہا ہے ۔
مساجد کی اہمیت :قرآن کریم کی روشنی میں
مسجد صرف ایک عمارت یا اس کے در ودیوار کا نام نہیں ہے ‘بلکہ مسجد وہ نظام عالم ہے جو سرور کونین ﷺنے اس اُمّت کو دیا ہے۔مساجد مسلمانوں کا صرف مذہبی ہی نہیں‘ بلکہ معاشرتی‘ تعلیمی اور سیاسی مراکز بھی ہیں۔
قرآن کریم کی وہ آیات جن کا مسجد اور اس کے بنیادی اہداف و مقاصد کے بیان سے تعلق ہے‘ وہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ مساجد توحید ِخداوندی اور اسلام کی دعوت کے مراکز ہیں‘ اور دین میں اخلاص پیدا کرنے کا سرچشمہ ہیں۔ نیز ان کی آباد ی اللہ کے ذکر‘ نماز اور عبادت سے ہوتی ہے۔اللہ جل شانہٗ کا ارشاد ہے:
{وَاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلہِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللہِ اَحَدًا(۱۸)} (الجن )
’’اور یہ کہ مساجداللہ کی یاد کے واسطے ہیں‘ سو مت پکارو (ان میں)اللہ کے ساتھ کسی کو۔‘‘
یہ آیت مسجد میں توحید کا پرچار کرنے اور مساجد کو ہر نوع کے شرک سے دور رکھنے کی ہدایت کرتی ہے۔اللہ جل شانہ کا ایک اور فرمان ہے:
{وَاَقِیْمُوْا وُجُوْھَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ڛ} (الاعراف: ۲۹)
’’اور سیدھے کرو اپنےچہرے ہر نماز کے وقت اور پکارو اللہ کو خالص اُس کے فرمانبردار ہو کر۔‘‘
یہ ارشاد مساجد میں اخلاص کے ساتھ عبادت کرنے اور اخلاص کے منافی ہر عمل سے بچنے کی ہدایت دیتا ہے۔سورۃ النور میں فرمایا:
{فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللہُ اَنْ تُرْفَعَ وَ یُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ ۙ} (آیت۳۶)
’’اُن گھروںمیں جن کے بلند کیےجانےاور ان میں اپنے نام کے ذکر کیے جانےکا اللہ نے حکم دیا ۔‘‘
جمہور مفسرین کی رائے کے مطابق یہ آیت مساجد کے مقاصد کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
مساجد کے فضائل واہمیت :احادیث رسول ﷺکی روشنی میں
مسجد کو مسلمانوں کے مرکز ہونے کا شرف حاصل ہے‘اس کی مرکزیت کا انکار نہیں کیا جاسکتااورنہ اس کی مرکزیت کو ختم کیا جاسکتا ہے۔اس مرکزیت کو اگر کوئی ختم کرنا بھی چاہے تو وہ ناکام ونامراد ہی ہوگا اور اس کی مرکزیت کو ختم نہیں کرسکے گا۔اس مرکزیت کی بنیاد پر مساجد کے بنانے کی ترغیب دی گئی‘اس کی طرف جانے کی‘ اس میں بیٹھے رہنے کی‘اس کے ساتھ دلی تعلق قائم کرنے کی‘اس کی خدمت وصفائی کی‘اس میں اذان دینے‘نماز پڑھنے پڑھانے کی‘اس کے ساتھ دل معلق رہنے کی‘اس کی طرف چل کر جانے کی اور اسے آباد رکھنے کی اس قدر روایات ہیں جو دینی شغف رکھنے والے مسلمانوں کے لیے محتاجِ بیان نہیں ہیں‘اور انہیں اگر جمع کیا جائے تو مستقل کتاب کی شکل اختیار کرجائے ۔
مساجد بنانا عبادت اورانبیاء ِکرام علیہم السلام کی مبارک سُنّت ہے۔اللہ تعالیٰ نے مسجد بنانے والے سے جنت کا وعدہ فرمایاہے۔حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
((مَنْ بَنٰی مَسْجِدًا يَبْتَغِي بِهِ وَجْهَ اللہِ عَزّوجل بَنَی اللہُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ )) (مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ، وَهٰذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ)
’’جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے مسجد بنائی‘ اللہ تعالیٰ اس کا گھر جنت میں بنائے گا۔ ‘‘
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں‘آپ ﷺ نے فرمایا :
((مَنْ بَنٰی لِلہِ مَسْجِدًا، صَغِيْرًا کَانَ أَوْ کَبِيْرًا، بَنَی اللہُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ)) (رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ يَعْلَی)
’’جس نے اللہ تعالیٰ (کی رضا) کے لیے چھوٹی یا بڑی مسجد بنائی‘اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔‘‘
ایک حدیث کی روسے جو شخص پرندے کے گھونسلے کے برابر بھی مسجد کی تعمیر میں حصّہ لے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنّت میں گھر بنائے گا۔ چنانچہ یہ صرف ترغیب نہیں‘ بلکہ رسول اللہ ﷺ نے مساجد تعمیر کرنے کا حکم دیا ہے اورمسجد کی تعمیر میں خود شریک ہوکر اس کی فضیلت کو عملی طور پر بھی بیان کیا اور اس میں کام کرنے والے صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے کپڑوں سے خود گردو غبار بھی جھاڑتے رہے۔آپ ﷺ کا یہ عمل مسجد کی خدمت کرنے والوں کے لیےتاقیامت ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔
اور یہ سب کچھ کیوں نہ ہوتا؟جب کہ آپ ﷺنے خود ارشاد فرمایا :’’ زمین کے حصوں میں سب سے زیادہ پسندیدہ جگہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں مساجداور بدترین جگہیں بازار ہیں۔‘‘ اور یہ بھی بتادیا کہ ’’قیامت کے دن سات لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے عرش کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گاجس روز اُس کے سائے کے علاوہ کوئی اور سایہ نہیں ہوگا۔ان میں سے ایک وہ ہے: ((وَرَجُلٌ قَلْبُہٗ مُعَلَّقٌ فِی الْمَسَاجِدِ)) ’’وہ شخص جس کا دل مساجد کے ساتھ معلق رہے۔‘‘ (متفق علیہ)
امام ابوبکر احمد بن عمروالبزارؒ(متوفی۲۹۲ھ) کی نقل کردہ روایت کے مطابق تو مسلمان کی بیٹھک مسجد میں ہی ہونی چاہیے‘کیونکہ جو لوگ مساجد میں رہتے ہیںاللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کو پل صراط پار کرانے کی ضمانت دیتے ہیں ۔
مساجد سے محبّت
مساجد سے محبّت رکھنا‘ان کو آباد رکھنے کی فکر کرنا اور ان میں اعمالِ خیر انجام دینا مسلمانوں کی بنیادی ذمہ داری ہے۔مساجد سے محبّت ایمان کی نشانی ہے۔حضرت ابو سعید الخدری ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((إِذَا رَأَيْتُمُ الرَّجُلَ يَعْتَادُ الْمَسْجِدَ، فَاشْھَدُوْا لَهُ بِالْإِيْمَانِ. قَالَ اللہُ تَعَالٰی:﴿اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ﴾ [التوبة:۱۸])) (رَوَاه أَحْمَدُ وَالترمِذِيُّ وَقَالَ : حَدِيْثٌ حَسَنٌ)
’’جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ مسجد میں آنے جانے کا عادی ہے تو اس کے ایمان کی گواہی دو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’اللہ کی مساجد کو صرف وہی شخص آباد کرتا ہے جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لایا۔‘‘
مسجد سے جڑے ہوئے چھوٹے سے چھوٹے عمل پر بھی اجر وثواب رکھا گیا ہے‘ چنانچہ فرمانِ نبوی ﷺہے: ’’میری اُمّت کے اعمال میرے سامنے پیش کیے گئے تو مَیں نے دیکھا کہ میری اُمّت کے کسی فرد نے مسجد سے تنکا اٹھا کر باہر ڈال دیا‘ اس کا اجر بھی اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیا گیا۔‘‘(ابودائود و ترمذی)
مساجد کی طرف اُٹھنے والے قدم
مساجد کی طرف پیش قدمی کے لیے اُٹھنے والے ہر قدم کے بدلے ایک درجے کی بلندی اور ایک خطا کی معافی کا وعدہ کیا گیاہے‘ ہر صبح و شام مسجد کی طرف جانے کے بدلے جنت میں صبح و شام کی خاص مہمان نوازی کا اعلان کیا گیاہے‘ جیسا کہ صحیح حدیث ِ مبارکہ میں منقول ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
((مَنْ غَدَا إلی المَسْجِدِ وَرَاحَ أعدَّ اللہُ لہُ نُزُلَہُ مِنَ الجَنَّۃِ کُلَّمَا غَدا أوْ رَاحَ)) (متفق علیہ)
’’جوشخص صبح کو او رشام کو مسجد کی طرف جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں مہمان نوازی کاسامان(ہرمرتبہ) تیار کردیتاہے جب بھی وہ صبح یاشام کے وقت جاتا ہے۔‘‘
((مَنْ تَوَضَّأَ وَجَاءَ إلی المَسْجِدِ فھُو زائرُ اللہِ عزَّ وجلَّ وَحَقَّ علی المَزُورِ أن یُکْرِمَ الزَّائِرَ)) (الصحیحۃ للالبانی:۱۱۱۹)
’’جوشخص وضوکرے اور مسجد کی طرف آئے تو وہ اللہ عزوجل کامہمان ہے، اور میزبان (اللہ تعالیٰ) پر یہ حق ہے کہ وہ مہمان کا اکرام کرے۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے مطابق رسول اللہﷺ کا ارشادِ گرامی ہے : ’’جب کوئی شخص مسجد میں داخل ہوتا ہے تو جب تک وہ اپنے مصلّے پر با وضو رہے فرشتے اس کے لیے یوں دعا کرتے رہتے ہیں: ’’اے اللہ! اس کی مغفرت فرما‘اے اللہ! اس پر رحم فرما‘‘۔ (متفق علیہ)
آپﷺ کا ارشاد ہے :’’ جب تم جنت کے باغوں سے گزرو تو خوب چرو‘‘۔ سوال کیا گیا کہ جنت کے باغ کیا ہیں؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ مساجد۔‘‘(سنن الترمذی)
ذکر اور علم کے ذریعےمساجد کی آباد کاری
نبی کریم ﷺ نے مساجد کی آباد کاری کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا:
((إِنَّمَا هِيَ لِذِکْرِ اللہِ عزَّ وجلَّ وَالصَّلَاةِ وَقِرَائَةِ الْقُرْآنِ)) (متفق علیہ)
’’بے شک! مساجد تو ذکر الٰہی‘ نماز اور تلاوتِ قرآن کےلیے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے مساجد کو نیکیوں سے آباد کرنے والوں کی تعریف فرمائی اور یہ اعزاز بخشا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دُنیا کے فتنے سے محفوظ فرما لیا ہے:
{یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ (۳۶) رِجَالٌ ۙ لَّا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِاللہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَاۗءِ الزَّکٰوۃِ ۽ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ (۳۷)} (النور)
’’ان (مساجد) میں یہ لوگ صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت ذکر ِالٰہی‘ نماز کی پابندی اور زکوٰۃ کی ادائیگی سے غافل نہیں کرتی۔ وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن قلوب اور نظریں پھر جائیں گی۔‘‘
بلکہ ان کے لیے مؤمن اور ہدایت یافتہ ہونے کی گواہی بھی دی ۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
{اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللہَ ۣ فَعَسٰٓی اُولٰۗئِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ(۱۸)} (التوبۃ)
’’اللہ کی مساجد کو آباد کرنا تو اس کا کام ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے‘ نماز قائم کرے‘ زکوٰۃ ادا کرے اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرے۔ امید ہے کہ ایسے ہی لوگ ہدایت یافتہ ہوں گے۔‘‘
فرشتے بھی مساجد میں آتے ہیں اور خطبہ سنتے ہیں‘نیز مساجد میں قائم ہونے والی علمی و فکری مجالس کو اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں۔رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ کے کسی گھر میں لوگ جمع ہوں‘ قرآن مجید کی تلاوت کریںاوراس کا باہمی مذاکرہ کریں تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے‘ انہیں رحمت ِخداوندی ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں‘ نیز اللہ تعالیٰ ان کا اپنے ہاں تذکرہ فرماتا ہے۔ (رواہ مسلم)
مساجدمسلمانوں کے لیے اعزاز‘باعث شرف اور دینی شعائر ہیں۔ مساجد کو نمازوں اور ذکر ِالٰہی کے ساتھ آباد کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ رفعت اور سعادت سے نواز کر ان کو شرح صدر فرما دیتا ہے۔ مساجد میں قرآن و سُنّت کی تعلیم مساجد کی آبادکاری کے لیے حکمِ ربانی کی تعمیل ہے‘ اس سے احیائے سُنّت نبویﷺ کے ساتھ وقت اور عمل میں برکت ہوتی ہے اور انسان خود کو اور اپنی اولاد کو بہتری کی جانب گامزن کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص مساجد کی خیر سے محروم ہے یا اس خیر میں رکاوٹ بنتا ہے تو وہ بہت سی فضیلتوں سے محروم ہے۔
باہمی الفت اور اتحاد کی فضا پیدا کرنا مساجد کے اہداف میں سے ہے‘ اس لیے مساجد کو گروہ بندی اور اختلاف کا ذریعہ بنانا جائز نہیں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
{وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّکُفْرًا وَّتَفْرِیْقًۢا بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَاِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ مِنْ قَبْلُ ۭ وَلَیَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَآ اِلَّا الْحُسْنٰی ۭ} (التوبۃ:۱۰۷)
’’اور وہ لوگ جنھوں نے مسجد بنائی تکلیف دینے اور کفر پھیلانے اور ایمان والوں کے درمیان تفریق ڈالنے کے لیے اور گھات لگانے کے لیے‘ جنھوں نے اس سے پہلے اللہ اور اس کے رسول (ﷺ)سے لڑائی کی (وہ یقیناً خسارے میں ہیں) اور یقیناً وہ ضرور قسمیں اٹھائیں گے کہ ہم نے بھلائی کے سوا کچھ ارادہ نہیں کیا ۔‘‘
اسلامی تعلیمات کا عملی نمونہ
یہ حقیقت بھی سمجھنے کی ہے کہ مسجد صرف عبادت اور بندگی کے لیے نہیں ہے‘ یہاں سے انسانیت کو اور مسلمانوں کو زندگی گزارنے کے سلسلے میں رہنما ہدایات حاصل ہوتی ہیں۔ مساجد اللہ تعالیٰ کی توحید کے اعلان اور بیان کا مرکز ہیں‘ یہاں سےباربار یہ صدابلند ہوتی ہے کہ اللہ سب سے بڑاہے‘اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔ مساجد میں نہ تو کوئی تصویر ہوتی ہے اور نہ نمازیوں کے آگے کوئی مجسمہ‘ وہ صرف ایک اللہ کے آگے جھکتے ہیں‘ اور اسی کے آگے جھکنے کو اپنی عزّت تصوّر کرتے ہیں۔ مساجد سے مساوات کا بھی درس ملتا ہے کہ دُنیا کے سب انسان برابر ہیں‘ کسی کو کسی پرسوائے تقویٰ کے کوئی برتری حاصل نہیں۔مساجد کی صفوف میں امیراور غریب میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ بڑے سے بڑا عالم نماز پڑھ رہا ہوتو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرے دائیں بائیں کوئی جاہل کھڑا نہ ہو۔ مسجد میں آنے کے بعد سارے فرق مٹ جاتے ہیں اور دُنیا کو یہ درس ملتا ہے کہ مسجد اسلام کی اس تعلیم کا عملی نمونہ ہے کہ ’’کسی عربی کو کسی عجمی پر‘ کسی عجمی کو کسی عربی پر‘ کسی کالے کو کسی گورے پر‘اور کسی گور ے کوکسی کالے پر ‘سوائے تقویٰ کے‘ کوئی برتری حاصل نہیں‘‘۔ اسی طرح مسجد سے طہارت ونظافت‘ صفائی اور پاکیزگی‘ وقت کی پابندی اور منظم زندگی کا بھی درس ملتا ہے۔
مساجد میں حصولِ علم
مساجد میں حصولِ علم متاعِ دُنیا سے افضل ہے‘رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
’’تم میں سے کوئی مسجد جا کر علم حاصل کیوں نہیں کرتا یا قرآن کریم کی دو آیتیں ہی کیوں نہیں پڑھتا؟ یہ دو آیتیں اس کے لیے دو اونٹنیوں سے بہتر ہیں‘ تین آیات تین اونٹنیوں سے بہتر ہیں‘ چار آیات چار اونٹنیوں سے بہتر ہیں‘جتنی آیات اتنی ہی اونٹنیوں سے بہتر ہیں۔‘‘( رواہ مسلم)
نبی مکرمﷺ نے اپنی مسجد کو تعلیم کے لیے استعمال کیا‘ جس کے نتیجے میں ایسی کھیپ تیار ہوئی‘ جس کا ثانی نہ کوئی تھا اور نہ ہی ہو گا۔ آپ ﷺ مسجد نبوی میں علم اور ذکر کے حلقوں میں شامل ہونے کی ترغیب دیتے تھے۔
مسجد کی خدمت کرنے والے کامقام
اسلام نے خادمِ مسجد کی بڑی عزّت افزائی فرمائی ہے۔ چنانچہ نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺ نے مسجد میں جھاڑو دینے والی خاتون کے بارے میں استفسار کیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے بتایا وہ تو فوت ہو گئی ہےتو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے اس کی قبر بتلاؤ‘‘۔ صحابہ کرام ؓ نے آپ ﷺکو ان کی قبر بتلا دی‘ تو نبی ﷺ نے وہاں جاکران کا جنازہ پڑھا ۔( رواہ البخاری)
مسجد میں داخل ہونے والے کے لیے عظیم بشارتیں
مسجد میں داخل ہونے والے مسلمان کے لیے ثواب اور اجر عظیم کی بشارتوں کے سلسلے میں کئی روایات منقول ہیں۔رسول اللہ ﷺ کا فرمان عالی شان ہے:
’’مسجد جانے والےکے لیے ہر قدم کے بدلے میں نیکی ہے‘ اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند اور اس کی ایک برائی مٹا دیتا ہے۔‘‘( روا ہ مسلم)
بلکہ مسجد سے واپس گھر آتے ہوئے بھی اسی طرح نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ ایک آدمی نے آپؐ سے عرض کیاکہ مَیں چاہتا ہوں کہ میرا مسجد جانا اور مسجد سے واپس گھر آنا دونوں ہی بطورِ ثواب لکھا جائے تو آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے یہ سب کچھ لکھ دیا ہے۔‘‘(رواہ مسلم)
’’مساجد کی جانب زیادہ سے زیادہ چل کر جانا اور مساجد میں نمازوں کا انتظار کرنا رباط (راہِ الٰہی میں پہرہ دینے) کے مترادف ہے۔ جو شخص صبح کے وقت مسجد جائے یا شام کے وقت‘ وہ جب بھی صبح یا شام کو مسجد جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں مہمان نوازی کی تیاری فرماتا ہے‘‘۔(متفق علیہ)
’’نماز کے لیے جو جتنا دُور سے چل کر آئے گا ‘اس کا اجر بھی اتنا ہی زیادہ ہو گا‘ اور امام کے ساتھ نماز ادا کرنے کے لیے انتظار کرنے والے کا اجر اس شخص سے زیادہ ہے جو (تنہا) نماز پڑھ کر سو جائے ۔‘‘( متفق علیہ)
مساجد کی جانب چل کر جانا بھی گناہوں کی بخشش کا باعث ہے۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے:’’جو شخص نماز کے لیے اچھی طرح وضو کرے‘پھر فرض نماز ادا کرنے کےلیے چلے‘ پھر لوگوں کے ساتھ یا جماعت کے ساتھ یا مسجد میں (جماعت ہو چکی ہو تو اکیلے)نماز ادا کرے تو اللہ تعالیٰ اُس کے گناہ بخش دیتا ہے۔‘‘( رواہ مسلم)
’’مسجد میں داخل ہونے کے بعد مسلمان اس وقت تک نماز کی حالت میں ہوتا ہے جب تک نماز اسے مسجد میں روکے رکھے‘ اور جب تک وہ اپنی جائے نماز پر بیٹھا رہے تو اس کےلیے فرشتے دعائیں کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’ یا اللہ! اسے بخش دے‘ یا اللہ! اس پر رحم فرما۔‘‘ (صحیح البخاری)
روح کی تسکین کامقام
مساجد میں روح کو سکون اور چین ملتا ہے‘ اس لیے مساجد میں چیخنا چلانا‘ لڑائی جھگڑا کرنا یا شور مچانا جائز نہیں ہے۔ نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے:’’مسجد میں اپنے آپ کو بازاری شور سے بچاؤ۔‘‘( مسلم) یہی وجہ ہے کہ جس وقت حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کچھ لوگوں کو مسجد میں آواز بلند کرتے ہوئے سنا تو انہیں بلا کر فرمایا: ’’اگر تم یہاں کے رہائشی ہوتے تو سخت سزا دیتا‘ تم رسول اللہﷺ کی مسجد میں آوازیں بلند کرتے ہو!‘‘( رواہ البخاری)
مساجد امن وسکون اور اطمینان کی جگہیں ہیں‘ آپ ﷺ نے فرمایا:’’جو بھی ہماری مسجد یا بازار میں نیزہ لے کر گزرے تو وہ اس کے پھل سے پکڑ لے تاکہ وہ کسی مسلمان کو زخمی نہ کردے۔‘‘( متفق علیہ)
مسجد میں عبادت کرنے والے کی اتنی شان ہے کہ اسے چھو کر بھی اذیت دینا جائز نہیں۔ چنانچہ ایک شخص جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے آیا تو آپ ﷺ نے اسے فرمایا:’’ بیٹھ جاؤ! تم ایذا پہنچا رہے ہو۔‘‘( رواہ ابو داؤد)بلکہ بدبو سے بھی مسجد میں عبادت کرنے والے کو تکلیف دینا جائز نہیں۔ آپ ﷺ نے ایسے شخص کو بطورِ سزا مسجد میں جانے سے روک دیا جس سے بد بو آ رہی ہو۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے:’’جو شخص لہسن یا پیاز کھائے تو وہ ہم سے دور رہے یا ہماری مسجد سے دور رہے اور گھر بیٹھا رہے۔‘‘( متفق علیہ )ابن اثیرؒ کے مطابق: ’’یہ ممانعت بطور عذر نہیں ‘بلکہ مسجد سے دوری کا حکم بطورِ سزا ہے۔‘‘
مساجد راحت وسکون اور آخرت کو یاد کرنے کی جگہیں ہیں‘ یہاں پر دُنیا داری سے کٹ کر اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق مضبوط کیا جاتا ہے‘ اسی لیے مساجد میں خرید و فروخت منع ہے‘ بلکہ اس پر ڈانٹ بھی پلائی گئی ہے۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے:
’’جب تم کسی کو مسجد میں خرید و فروخت کرتے ہوئے دیکھو تو کہو: اللہ تمہاری تجارت میں نفع نہ دے‘‘۔(سنن الترمذی)
مزید برآں مساجد میں دُنیاوی پریشانیوں میں مشغول ہونے سے بھی روکا اور فرمایا:
’’جو شخص مسجد میں کسی کو اپنی گم شدہ چیز کا اعلان کرتے ہوئے سنے تو اُسے کہہ دے: اللہ تمہاری چیز نہ لوٹائے۔ مساجد اس لیےتو نہیں بنائی گئیں۔‘‘(رواہ مسلم)
مسجد کے آداب
مسجد میں آنے کے آداب میں یہ شامل ہے کہ اچھے لباس کے ساتھ آئیں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
{یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ} (الاعراف:۳۱)
’’اے بنی آدم ! جب بھی کسی مسجد میں جاؤ تو (لباس سے) آراستہ ہو کر جاؤ۔‘‘
مسجد کے آداب میں یہ بھی شامل ہے کہ مسجد میں آ کر سکون اور وقار کے ساتھ رہے۔ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے:’’جب نماز کی اقامت ہو جائے تو دوڑتے ہوئے مسجد میںنہ آؤ‘ بلکہ پُر وقار انداز سے چلتے ہوئے آؤ‘ نماز کا جو حصہ مل جائے وہ پڑھ لو اور جو رہ جائے وہ بعدمیں پورا کر لو۔‘‘( متفق علیہ)جب مسجد میں داخل ہو تو مسجد کے احترام میں پہلے اپنا دایاں قدم اندر رکھے‘اور چونکہ مسجد عبادت‘ رحمت اور دعا کی جگہ ہے اس لیے داخل ہوتے وقت کہے:
اَللَّهُمَّ افْتَحْ لِيْ اَبْوَابَ رَحْمَتِكَ ’’یا اللہ! میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے!‘‘
اور جب مسجد سے باہر نکلے تو کہے:
اَللّٰهُمَّ اِنِّيْ اَسْئَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ (مسلم) ’’یا اللہ! مَیں تجھ سے تیرا فضل مانگتا ہوں۔‘‘
اورمسجدمیں اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک دو رکعت تحیۃ المسجد نہ پڑھ لے۔
مساجد‘ صراطِ مستقیم کاسرچشمہ
مساجد سعادت مندی اورصراط ِمستقیم کاسرچشمہ ہیں۔چنانچہ جب رسول اللہﷺسفر سے واپس آتے تو سب سے پہلے مسجد میں نماز ادا کرتے۔(بخاری)
ہر مسلمان کی اوّلین ذمہ داری ہے کہ صرف ایک اللہ کی بندگی کرے اور مسجد کے اندر یا مسجد سے باہر کہیں بھی اللہ کے سوا کسی اور کو نہ پکارے۔ نیز مساجد زندہ لوگوں کے مستفید ہونے کی جگہ ہے۔ لہٰذا مساجد میں قبریں بنانا‘ اس مقصد کے منافی اور غیر اللہ کی بندگی کا ذریعہ ہے۔
گناہ ویسے تو ہر مکان و آن ہی برے ہوتے ہیں ‘لیکن مساجد میں غیبت‘بد نظری اور موبائل وغیرہ سے گانے بجانے سننے پر گناہوں کی سنگینی مزید بڑھ جاتی ہے۔
شریعت ِاسلامیہ کا حسن
شریعت ِاسلامیہ کا یہ حسن ہے کہ اس کا پیش کردہ ہر نظام جس مرتب انداز پر اُستوار ہے‘ وہ خوبی و کمال کی اتنی نوعیتیں اپنے اندر سمویا ہوا ہے کہ انسانی عقل اس کے پیش کردہ نظام سے بہتر اور مکمل نظام کا تصوّر بھی نہیں کر سکتی۔ چنانچہ پنج گانہ نمازیں جو اُمت پر روزانہ فرض ہیں‘ بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں ۔ ان نمازوں کے مکمل ثمرات اور عمدہ برکات عظیم اجروثواب کی صورت میں یقیناً جنت میں ہی ملیں گی‘ جہاں کی نعمتیں بے مثل وبے نظیر ہیں۔
ہر نماز کے لیے اذان جیسے عظیم الشان مسنون عمل کے ذریعے لوگوں کو جمع کرنے کاحسین طریقہ مقرر کیا گیا‘پھر ان نمازوں کے لیے خاص جگہیں ہیں‘ جن کا نام مساجد رکھا گیا۔ یومیہ پانچ مرتبہ لوگوں کا اس طرح جمع ہوناجہاں اُمّت ِ مسلمہ کے روحانی اجتماع کا باعث بنتاہے‘ وہیں اس کے ذریعے باہمی تعارف‘الفت و محبّت‘ اور افرادِ اُمّت کو ایک دوسرے سے قریب ہونے کا موقع بھی فراہم کیا گیاہے۔
پھراس پنج وقتہ اجتماع کے دائرے کو جامع مسجد کے ذریعے مزید وسعت دی گئی۔ شکرانے اور خوشی کے دو تہواروںیعنی عید الفطر اور عید الاضحی کے لیے کھلے میدان میں باجماعت نماز کا اجتماع مقرر کرکے اس دائرے کو مزید کشادہ کیا گیا‘ اور پھر ان تمام اجتماعات سے بڑھ کر حج بیت اللہ کا اجتماع مقرر کیا گیا۔ اگر اُمت ِ مسلمہ کی جانب سے کماحقہ قدر دانی ہو توشریعت کا عطا کردہ ہر نظام مسلمانوں میں دینی‘ اجتماعی اور ثقافتی روح بیدار کرنے کا بہترین ذریعہ ہے‘اور اہل اسلام کو قدر دانی پر آمادہ کرنا چنداں مشکل نہیں۔ یہ مقصد ترغیب و ترہیب‘ وعظ و نصیحت اور قدردانی کرنے والوں کے اجر عظیم کا بار بار تذکرہ کرکے حاصل کیا جا سکتا ہے‘اوراس طرح شوق دلاکر اگر لوگوں کو عمل پر آمادہ کیا جائے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ جو شخص ان حقائق کو اچھی طرح جانتا اور سمجھتا ہو اور بلند کردار کا طالب ہو‘ وہ اُسے جاننے کے بعد بھی احکامِ اسلام کی پاسداری نہ کرے۔ جماعت کے ساتھ نماز کی ادائیگی کے لیے ان بابرکت مساجد کا نظام ایسا ہے کہ انسانی عقل اس سے ارفع اور بہتر نظام کا سوچ بھی نہیں سکتی۔اس نظام کی مندرجہ ذیل بنیادی خصوصیات ملاحظہ کیجیے:
ایک شخص ایک سے زائد مرتبہ اللہ کی عظمت و جلالت اور اللہ کی توحید بیان کرتا ہے‘ اور حضورﷺ کی نبوت و رسالت کا اعلان کرتا ہے‘ پھر لوگوں کو نماز کی دعوت دیتا ہے ‘جو ہر قسم کی ہدایت اور بھلائی کا منبع ہے‘ پھر اسی طرح اُخروی کامیابی کی دعوت بھی دیتا ہے‘اور بقول علامہ راغب اصفہانی ؒ: ’’جس کامیابی کی بقا کو فنا کا‘جہاں کی مالداری کو فقر کا‘ اور جہاں ملنے والی عزّت کو ذلّت کا کوئی اندیشہ نہیں‘ وہاں کا علم ہر جہل سے مبرا ہے۔‘‘ (المفردات فی غریب القرآن‘ مادہ:فلح) اس پر مزید اضافہ کیجیے کہ وہاں کی راحت میں تکان کا گزر نہیں۔ اس جامع اور انوکھی دعوت کو دیکھیے‘ پھر یہ بھی ذہن میں رہے کہ اس آواز کو مسلمانوں کے گوش گزار کرنے کے لیے مینار اورمحراب و منبر جیسے وسائل کا انتخاب کیا گیا‘ جن میں آج کی سائنسی پیش رفت کے بعد لاؤڈ اسپیکر اور مائیک کا بھی اضافہ ہو چکا ہے۔ اس اہمیت کے ساتھ مسجد میں آنے کی دعوت خود ایک عجیب شان رکھتی ہے۔
مسجد‘ کتاب وسُنّت کی تعلیم وتربیت کا مرکز
اسلام کی عظیم الشان تاریخ ہمیں مسجد نبوی میں حضورﷺ کی حیات میں قائم ہونے والے دینی تعلیم کے حلقوں کا پتہ دیتی ہے۔ یہ تاریخ ہمیں بتلاتی ہے کہ فقراء اصحابِ صفہؓ حضورﷺ کے مقدّس کلام کو سننے اور یاد کرنے کے لیے جمع ہونے والا پہلا قافلۂ علم تھا۔ یہ حضرات مسجد نبوی اور صُفّہ ہی میں رہتے‘ تاکہ قرآن کی کوئی آیت جو بصورتِ وحی آپؐ پر نازل ہو یا آپﷺ کا کوئی فرمان گرامی سننے سے رہ نہ جائے۔ ان میں وہ قراء کرام بھی تھے‘ جنہیں بئر معونہ پر رعل‘ ذکوان اور عصیہ نامی قبائل کے افراد نے دھوکہ سے شہید کیا‘ اور آپؐ نے ان قبائل کے خلاف ایک مہینے تک نمازِفجر میں قنوتِ نازلہ کے ذریعے بددعا فرمائی۔ انہی اصحابِ صفہؓ میں وہ لوگ بھی تھے جن کے بارے میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :
’’میں نے اصحاب ِصفہؓ میں سے ستّر افراد ایسے دیکھے ہیں کہ ان میں سے کسی کے پاس تن ڈھانپنے کے لیے مکمل کپڑا نہ ہوتا تھا‘ ازار ہوتی یا بڑی چادر ہوتی‘ جس کو گردن پر باندھ لیتے‘ کسی کی یہ چادر نصف پنڈلی تک پہنچتی‘ کسی کی ٹخنوں تک پہنچتی‘ تو وہ اس چادر کو سمیٹ سمیٹ کر بیٹھ جاتے‘ مبادا ستر ظاہر ہو جائے۔‘‘ (صحیح البخاری‘ کتاب الصلوٰۃ‘ باب نوم الرجال فی المسجد)
اصحاب ِصفہؓ جو نبی کریمﷺ کے شاگردتھے‘ ان ہی میں سے ایک انتہائی باکمال اور باصلاحیت عبقری شخصیت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تھی۔ آپ ؓ کا شمار حفاظِ حدیث صحابہؓ میں ہوتا ہے۔ عہدِنبوت کے صرف تین سالوں میں آپ ؓ نے علوم ِحدیث کے وہ عظیم خزانے حاصل کیے جن کی کثرت نے ایک عالم کو انگشت بدنداں کر دیا۔ آپ ؓ سے نبی کریم ﷺ سے روایت کردہ احادیث جو ہم تک پہنچی ہیں‘ ان کی تعداد پانچ ہزار تین سو چوہتر(۵۳۷۴) ہے۔ یہ ایک بڑی تعداد ہے اور ’’صحیح بخاری‘‘ کی مکررات کو حذف کرکے بقیہ روایات سے زیادہ ہے۔
صرف مسجد ِنبوی اور مسجد ِحرام ہی کیا‘ دُنیا میں جہاں کہیں بصرہ‘ کوفہ‘ بغداد‘ شام وغیرہ ممالک فتح ہوئے تو وہاں مساجد کی تعمیر عمل میں آئی ۔ یہ مساجد درس و تدریس کے مراکز تھےجو بڑی بڑی جامع مساجد میں قائم تھے‘ گویا علم کے چشمے تھے جو اُبل پڑے تھے اور فراوانی سے بہہ رہے تھے۔ عراق کی فتح کے بعد جامع مسجد کوفہ سب سے پہلی مسجد تھی‘ جس کی بنیاد حضرت سعدبن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رکھی تھی ۔یہ مسجد احادیث نبویہ کی تعلیم کا مرکز تھی‘ جہاں براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلے صحابی تھے ‘جنہوں نے احادیث نبویہ کی تعلیم شروع فرمائی۔ اسی طرح بعدکے ادوار میں بھی مساجد دین کی درسگاہیں ہی ہوا کرتی تھیں۔ ان میں سب سے زیادہ شہرت قاہرہ کی جامع ازہر‘ تیونس کی جامع زیتونہ اور اندلس کی جامع قرطبہ کو حاصل ہوئی۔ان کے علاوہ بھی کئی ایسی جامع مساجد تھیں جو کہ علومِ اسلامیہ کی باقاعدہ یونیورسٹیاں تھیں‘ جن سے علم کے چشمے جاری تھے‘ جن سے نکلنے والی نہریں کرہ ٔارض کے مختلف گوشوں میں پھیل چکی تھیں‘ اور ان نہروں سے چھوٹے بڑے سب ہی اہل علم مستفید ہو رہے تھے۔ ان تاریخی روایات کو مدّ ِنظر رکھ کر یہ بات بجا طور پر کہی جا سکتی ہے کہ اسلامی سلطنت و سطوت کے زمانے میں عرب و عجم کے جس شہر میں بھی کوئی مسجد قائم ہوئی‘ وہ کتاب و سُنّت کی تعلیم کا مرکز رہی ہے۔
الغرض نمازوں کے اجتماعات کے ساتھ ساتھ یہ مساجد دراصل توحید کی طرف دعوت‘تبلیغ دین‘ احکامِ شریعت کی تعلیم اور فکری تربیت ورہنمائی‘ قلبی اور روحانی اصلاح کا عنوان ہیں‘ جیسا کہ ماضی میں یہی مساجد قضاء‘ افتاء اور عدالتی فیصلوں کا بھی عنوان ہوا کرتی تھیں۔
دُعا ہے کہ اللہ تبارک ہماری مساجدکوحرمین شریفین خصوصاً مسجد ِنبوی کے دورِ اول کاحقیقی نمونہ بنادے۔آمین یا ربّ العالمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025