(انوار ھدایت) فکر ِآخرت - پروفیسر محمد یونس جنجوعہ

8 /

فکر ِآخرت

پروفیسر محمد یونس جنجوعہ

ہر انسان کی فطرت میں اچھائی اور بُرائی کی تمیز رکھی گئی ہے اور ہر انسان کو آزاد چھوڑ دیا گیا ہے کہ برائی اختیار کرے یا بھلائی۔چنانچہ یہاں لوگ برائیاں بھی کر رہے ہیں اور اچھے کام بھی۔ کوئی ایسا بھی ہے جو کسی دوسرے انسان کے مفاد کی خاطر اپنا نقصان برداشت کر لیتا ہے‘ کسی کی جان بچانے کے لیے اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتا‘ بھوکے پیاسے کو دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہے اور اس کی بھوک پیاس مٹانے میں لگ جاتا ہے‘ راستے میں ایک نابینا سڑک پار کرنا چاہتا ہے ایک شخص اس کا بازو پکڑ کر سڑک پار کرا دیتا ہے‘ کہیں حادثہ ہو جائے توزخمی کی مددکر کے اسے ہسپتال پہنچانے کی کوشش کرتا ہے‘ کسی کا سامان اس کی سواری سے گر جاتا ہے تو دوسرا شخص اس کا سامان سواری پر رکھوا دیتا ہے۔ یہ سب بھلائی کے کام ہیں اور بھلائی کرنے والا اپنے دل میں خوشی محسوس کرتا ہے کہ میں نے کسی ضرورت مند کی مدد کی ہے۔ اسے خیال آتا ہے کہ اگر یہی پریشانی مجھے لاحق ہو جاتی تو میرا کیا حال ہوتا۔
اسی طرح ایک شخص ایسا ہے کہ دوسروں کا مال چھین لیتا ہے‘ اس کی جائیداد پر قبضہ کر لیتا ہے ‘ کسی کی امانت واپس نہیں کرتا‘ کسی کمزور پر ظلم کرتا ہے‘ اپنے مخالف کا بدخواہ ہوتا ہے اور موقع پا کر اسے قتل بھی کر دیتا ہے‘ ایسا سنگ دل شخص ضرورت مندوں کی مدد نہیں کرتا بلکہ انہیں دکھ اور تکلیف میں دیکھ کر سمجھتا ہے کہ یہ تکلیف انہی کا حصّہ ہے۔ظاہر ہے کہ جو شخص یہ اچھے کام کرتا ہے اسے ان اچھے کاموں کا کوئی انعام یا صلہ نہیں ملتا بلکہ اکثر اوقات وہ کسی ناکردہ جرم کی سزا پا لیتا ہے‘ جبکہ برائیاںکرنے والوں کو اکثر نہ کوئی سزا ملتی ہے اور نہ ہی وہ کسی مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں‘ بلکہ غرور اور تکبّر کے ساتھ کمزوروں کو اذیت پہنچانے میں لگے رہتے ہیں۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ نیکی کرنے والے کو دنیا میں ہی اس کا اچھا بدلہ مل جاتا ہے اور ظالم کسی مصیبت میں گرفتار ہوجاتا ہے‘ لیکن ایسی مثالیں بہت کم ہیں جو محض دنیا والوں کی عبرت کے لیے ہوتی ہیں۔ ہر صاحب عقل وشعور کا دل چاہتا ہے کہ اچھوں کوہر اچھائی کا اور بروں کو ہر برائی کا بدلہ ضرور ملنا چاہیے۔ چنانچہ اس کے لیے’’بدلے کادن‘‘ برپا کیا جائے گا جہاں اچھے کام کرنے والوں کو اعلیٰ سکون و اطمینان کی لمبی زندگی ملےگی‘ جس میں وافر نعمتیں ہوں گی ۔ بروں کو ان کی برائی کی سزا میں مبتلا کیا جائے گا۔
اسی حقیقت کو قرآن مجید میں مختلف مقامات پر واضح کیا گیا ہے۔ مثلاً :{فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ (۷) وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ(۸)} (الزلزال) ’’(فیصلے کے دن) جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہو گی وہ بھی اسے دیکھ لے گا‘‘۔ قیامت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:{فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہٗ(۶) فَہُوَ فِیْ عِیْشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ(۷) وَاَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُہٗ(۸) فَاُمُّہٗ ہَاوِیَۃٌ(۹) وَمَـآ اَدْرٰىکَ مَاہِیَہْ(۱۰) نَارٌ حَامِیَۃٌ(۱۱)}(القارعۃ) ’’جس کے (اعمال کے) وزن بھاری نکلیں گے‘ وہ دل پسند عیش میں ہوگا۔ اور جس کے وزن ہلکے نکلیں گے‘ اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہے۔ تم کیا سمجھے کہ وہ ہاویہ کیا چیز ہے؟ وہ دہکتی ہوئی آگ ہے۔‘‘مزید فرمایا: {اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ نَعِیْمٍ(۱۳) وَاِنَّ الْفُجَّارَ لَفِیْ جَحِیْمٍ(۱۴)} (الانفطار)’’بے شک! نیکوکار نعمتوں (کی بہشت) میں ہوں گے اور بدکردار دوزخ میں۔‘‘
فیصلے کے اس دن کو’’ یوم الدین‘‘ کہا گیا ہے جس دن دنیا کی زندگی کے اعمال کی اچھی بری جزا ملے گی۔ اس دن فیصلہ اللہ تعالیٰ کریں گے اور کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہو گی۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: {وَمَـآ اَدْرٰىکَ مَا یَوْمُ الدِّیْنِ (۱۷) ثُمَّ مَآ اَدْرٰىکَ مَا یَوْمُ الدِّیْنِ(۱۸) یَوْمَ لَا تَمْلِکُ نَفْسٌ لِّـنَفْسٍ شَیْئًاط وَالْاَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِّلہِ(۱۹)} (الانفطار) ’’اور تمہیں کیا معلوم جزا کا دن کیسا ہے۔ پھر تمہیں کیا معلوم کہ جزا کا دن کیسا ہے! جس دن کوئی کسی کا بھلا نہ کر سکے گا‘ اور حکم اس روز اللہ ہی کا ہو گا۔‘‘ نیز فرمایا:{عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّآ اَحْضَرَتْ(۱۴)} (التکویر)’’(قیامت کا دن وہ ہوگاکہ) ہر شخص معلوم کر لے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے۔‘‘ چونکہ وہ سچا فیصلے کا دن ہو گا لہٰذا کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا‘ ہر ایک کو اکیلے اکیلے حساب دینا ہو گا ‘ کسی متقی کے بیٹے کو اس کے باپ کا تقویٰ فائدہ نہ دے گا اور نہ ہی فاسق و فاجر کے بیٹے کو اس کے باپ کے فسق و فجور کی بنا پر سزا دی جائے گی ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:  {یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْئُ مِنْ اَخِیْہِ(۳۴) وَاُمِّہٖ وَاَبِیْہِ (۳۵) وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ(۳۶)} (عبس) ’’اُس دن آدمی اپنے بھائی سے دور بھاگے گا‘ اور اپنی ماں اور باپ سے‘ اور اپنی بیوی اور اپنے بیٹے سے۔‘‘گویا ہر شخص کو اپنی فکر ہو گی۔وقوعِ قیامت کی اس قدر وضاحت اور نیکی و بدی کے کاموں کی جزا و سزاکا یہ بیان انتہائی واضح ہے۔ اس کے باوجود اس مسلمان پر تعجب ہے جو قرآن مجید کو اللہ کی کتاب مانتا ہے‘ اس کے فیصلے اور بیانات کو حتمی سمجھتا ہے اور پھر وہ برائی کے کاموں پر دلیر ہے۔ انسان کی زندگی امتحان کا وقفہ ہے کہ دیکھیں کون بُرے کاموں میں پڑ کر یہ زندگی گزارتا ہے اور کون اچھے کام کرتا ہے۔ارشاد ہوا : {الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط} (الملک:۲) ’’اُس نے زندگی اور موت کو اس لیے پیدا کیا ہے تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون بھلے کام کرتا ہے۔‘‘
شیطان انسان کا دشمن ہے‘ اُس نے دھوکہ دیا اور آدم علیہ السلام کو جنت سے نکلوا دیا ۔ اب وہ اولادِ آدم کو برائیاں مزین کر کے دکھلاتا ہے اور انسان کو یہ بات فراموش کرادیتا ہے کہ اسے اپنے اعمال کا حساب دینا ہےجس کے نتیجے میں یاابدی راحت ہے یا بدترین عذاب۔ وہ انسان کو نقد منافع کا دھوکادیتا ہے اور انسان ہے کہ اس کے دھوکے میںآ جاتاہے۔ اس کا دھوکہ یہ بھی ہے کہ اے انسان! تُو جو چاہے کر‘ اللہ تعالیٰ بخش دے گا ۔ قرآن مجید میں شیطان کے دھوکے سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :{وَلَا یَغُرَّنَّـکُمْ بِاللّٰہِ الْغَرُوْرُ(۳۳)}(لقمان) ’’وہ بڑا دھوکے باز تمہیں اللہ کے معاملے میں دھوکے میں نہ ڈالے۔‘‘
انسان لوگوں کے مال چراتااور حقوق تلف کرتا ہے ‘حالانکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ کے حضور اسے پیش ہونا ہے جہاں اسے رشوت او ر بددیانتی سے کمایا ہوا پیسہ واپس کرنا ہو گا ۔ وہاں کسی کے پاس مال و دولت تو نہ ہو گی‘ کیونکہ ہر شخص دنیا سے خالی ہاتھ جاتا ہے ‘لہٰذا اسے ظلم سے لوٹے ہوئے مال کے بدلے اپنی نیکیاں دینی ہوں گی۔ اگر لوٹا ہوا مال اور دوسری حق تلفیاں بہت زیادہ ہوں گی تو اس آدمی پر مظلوموں کے گناہ لاد دیے جائیں گے اور اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا: ہم میں تو مفلس وہ ہے جس کے پاس نہ روپیہ پیسہ ہو اور نہ مال و اسباب۔ آپؐ نے فرمایا: ’’میری اُمت میں (سے قیامت کے روز) مفلس وہ ہو گاجو قیامت کے روز نماز‘ روزہ اور زکوٰۃ (ہر قسم کی عبادات لے کر آئے گا) اور ساتھ ہی کسی کو گالی دی ہوگی ‘ کسی پر تہمت لگائی ہو گی ‘ کسی کا مال کھایا ہو گا ‘ کسی کا ناحق خون بہایا ہو گا اور کسی کو مارا ہو گا (یہ سب گناہ لے کر آئے گا) تو مظلوموں کو بدلے میں اس کی نیکیاں عطا کی جائیں گی۔پھر جب نیکیاں ختم ہو جائیں گی ان حقوق کی ادائیگی سے پہلے جو اس پر واجب ہیں تو مظلوموں کی خطائیں اور برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی اور پھر اس کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ ‘‘(مسلم)
قیامت کے حساب کتاب کی یہ ایک جھلک ہے۔ اگر انسان اس لمحے کو یاد رکھے تو کبھی کسی گناہ کا ارتکاب نہ کرے اور حقوق العباد کے معاملے میں انتہائی محتاط ہوجائے کہ ہر چھوٹے بڑے حق کے بدلے میں نیکیاں دینی پڑیں گی اور اگر نیکیاں ختم ہو گئیں تو دوسروں کے گناہ اپنے سر لینے پڑیں گے۔ یہ تو اس کا حال ہے جس کے پاس نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ کی ادائیگی کی صورت میں نیکیاں ہوں گی‘ تو اس شخص کا کیا حال ہو گا جس کے پاس نماز روزے کی صورت میں نیکیاں نہ ہوں گی‘ بلکہ اس نے تمام زندگی اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکام کی خلاف ورزی میں گزاری ہو گی۔ کتنے ہی مسلمان ایسے ہیں جو نماز جیسے فرض سے غافل ہیں اور زکوٰۃ ادا نہیں کرتے۔ اور کتنے ہی ایسے ہیں جو بلاخوف و خطر چوریاں کر رہے ہیں ‘ ڈاکے ڈال رہے ہیں‘ رشوت لے رہے ہیں‘ دھوکے جھوٹ اور ملاوٹ کے ذریعے حرام کمائی کھا رہے ہیں۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ہر ایک نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور موت کے ساتھ ہی دارالعمل کا وقفہ ختم ہو جائے گا اور دار الجزاء کا وقت شروع ہو جائے گا۔ جب انسان کو قبر میں ڈالا جائے گا تو اسی وقت سوال جواب شروع ہو جائیں گے ۔ نیک آدمی کے لیے قبر کا گڑھا راحت اور آرام کی جگہ بن جاتا ہے اور ظالم کی قبر عذاب کی جگہ بن جاتی ہے۔رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے‘ پس اگر کوئی اس سے نجات پا گیا تو اس کے بعد کی منزلیں اس سے زیادہ آسان ہوں گی‘ اور اگر کوئی اس سے نجات نہ پا سکا تو اس کے بعد کی منزلیں اس سے زیادہ سخت ہوں گی۔جتنے بھی ہولناک منظر میں نے دیکھے ہیں قبر ان میں سب سے زیادہ ہولناک ہے۔ ‘‘(ابن ماجہ)
حضورﷺ صحابہؓ کے ساتھ ایک جنازے میں تھے۔ حضورﷺ ایک قبر کے کنارے بیٹھ گئے اور رونے لگے۔ یہاں تک کہ (آپ ؐکے آنسوئوں سے) مٹی گیلی ہو گئی۔ پھر آپ ﷺنے فرمایا کہ:’’ اے میرے بھائیو! اس منزل کے لیے تیاری کرو۔‘‘ (ابن ماجہ)
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلام ہانی کا بیان ہے کہ حضرت عثمانؓ جب کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو اتنا روتے کہ آنسوئوں سے آپ کی داڑھی تر ہوجاتی۔ان سے پوچھا گیا کہ جب جنت اور دوزخ کا ذکر کیا جاتا ہے تو آپ اتنا نہیں روتے‘ جتنا قبر پر کھڑے ہو کر روتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے:
((إِنَّ الْقَبْرَ أَوَّلُ مَنْزِلٍ مِنْ مَنَازِلِ الْآخِرَةِ، فَإنْ نَجَا مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَيْسَرُ مِنْهُ، وَإنْ لَمْ يَنْجُ مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَشَدُّ مِنْہُ))(رواہ الترمذی و ابن ماجہ و احمد)
’’قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے۔ اگر انسان اس میں نجات پا گیا تو بعد میں آنے والی منزلیں اس سے زیادہ آسان ہوں گی۔ اور اگر وہ اس میں نجات نہ پاسکا تو بعد میں آنے والی منزلیں اس سے زیادہ سخت ہوں گی۔‘‘
کسی شخص کو معلوم نہیں کہ اس کی زندگی ختم ہونے میں کتنا وقت باقی ہے‘ چند سال‘ چند مہینے‘ چند ہفتے ‘ چند دن یاچند لمحے۔ موت آئے گی تو مہلت کا یہ وقت ساتھ ہی ختم ہو جائے گا۔ اب نہ وہ اپنے گناہوں کی تلافی کر سکے گا اور نہ ہی اُسے نیک کام کرنے کا وقت دیا جائے گا‘ بلکہ وہ اگلی زندگی میں داخل ہو چکا ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کو اپنی زندگی کے ہر لمحے کو غنیمت جان کر بُرائیوں سے بچ کر گزارنا چاہیے اور بھلائی کے کاموں میں چستی کے ساتھ مشغول ہوجانا چاہیے تاکہ انجام کار وہ کامیاب ہوسکے۔
الغرض! ہر شخص کو چاہیے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی خوف ِ خدا کے ساتھ پابندی کرے۔ حق داروں کاحق ادا کرے۔ معصیت کے کاموں سے بچے‘ کثرت کے ساتھ استغفار کرتا رہے۔ زبان کو ہر وقت کلمہ طیبہ لا الٰہ الا اللہ کے ساتھ تررکھے‘ تاکہ مرتے وقت یہی الفاظ اس کی زبان پر ہوں۔ امید واثق ہے کہ جس شخص نے ان الفاظ کے ساتھ وفات پائی وہ جنّت میں جائے گا۔