(عرض احوال) باطل کے سامنے اُمّت ِمسلمہ کاسرنڈر ؟ - ادارہ

7 /

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
باطل کے سامنے اُمّت ِمسلمہ کاسرنڈر ؟اُمّت قطر میں فیفا ورلڈ کپ کے انعقاد پردنیا بھر کے مسلمان خوشی کا اظہار کر رہے ہیں ۔ اس لیے بھی کہ قطر نے دورانِ ورلڈ کپ شراب ‘ ٹرانسجینڈرز وغیرہ کے حوالے سے پابندیاں لگا کر اپنی اَقدار اور خوداختیاری کے حوالے سے ایسے فیصلے کیے جو مغربی تسلط کے اس دور میں قابل تحسین ہیں ۔ اکثریت اس بات پر بھی خوش ہے کہ نعرہ ہائے تکبیر بلند ہوتے رہے ‘ فلسطینیوں کے حق میں ’’سر ِعام ‘‘ نعرے لگتے رہے ‘ وغیرہ۔ ہمارا سیکولر طبقہ جو اُمّت ِمسلمہ کے زوال اور شکست خوردگی کی اصل وجہ مادّی ترقی اور تعلیم و ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ جانا گردانتا رہا ہے ‘ اب ممکن ہے عالم ِعرب کی مادّی ترقی میں صلاحیت و اہلیت پر کچھ مارکس دینے پرراضی ہو جائے‘ تاہم یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہم اس قدر گر چکے ہیں کہ اب ورلڈ کپ کے انعقاد کو اپنی سب سے بڑی کامیابی گردان رہے ہیں ۔ کیا ایسی عارضی اور دنیوی کامیابی اںہی اُمّت ِمسلمہ کو کفایت کر جائیں گی ؟
اس میں شک نہیں کہ اسباب کے لحاظ سے مادّی ترقی ‘ تعلیم ‘ سائنس اور ٹیکنالوجی بھی ضروری ہیں‘مگر کامیابی کا انحصار صرف ان چیزوں پر ہی ہوتا تو افغانستان میں پوری دنیا کے وسائل ‘ سائنس و ٹیکنالوجی جھونکنے کے باوجود عالمی طاقتیں یوں رسوا ہو کر نہ نکلتیں ۔ معلوم ہوا صرف مادّی وسائل و اسباب ہی کامیابی اور فتح کے لیے کافی نہیں‘ورنہ بدر کے میدان میں صرف ۳۱۳بے سر وسامان کیل کانٹے سے لیس ایک ہزار کےلشکر پر یوں حاوی نہ ہو جاتے۔ پھر جب فاتحین ِبدر کے وارثین کو عالمی حکومت نصیب ہوئی تو ایک وقت آیا کہ فتح و کامرانی کے اصل راز کو بھلا کر اس نے بھی صرف تعلیم ‘ سائنس ‘ آرٹس ‘مال و دولت اور دنیوی شان و شوکت کو فضیلت کامعیار سمجھا۔ دنیا کے علوم و فنون کا مرکز بغداد تھا۔ فلسفہ ‘ علم الکلام ‘ سائنس ‘ طب ‘ فلکیات میں عالم ِاسلام کے ماہرین کا شہرہ سن کر پوری دنیا سے لوگ حصولِ علم کے لیے جوق در جوق بغداد کا رُخ کر رہے تھے ۔ یہ شہر اپنی ترقی و خوشحالی ‘ مال و دولت ‘ تجارت ‘ مارکیٹس‘ یونیورسٹیز اور لائبریریز کی بدولت موجودہ دور کے نیویارک ‘ واشنگٹن ‘ شنگھائی کی طرح دنیا بھر میں کشش کا حامل تھا ۔ خلیفہ کے محلات زر وجواہر ‘ عیش و عشرت ‘ شان و شوکت میں اپنی مثال آپ تھے ۔ لیکن یہ سب مال و اسباب اور شان و شوکت ہونے کے باوجود آسمان نے وہ دن بھی دیکھا جب اہلِ بغداد کی کھوپڑیوں کے مینار بنائے گئے اور اتنا خون بہا کہ کہا جاتا ہے دریائے دجلہ کا پانی چند دن سرخ ہو کر بہتا رہا اور پھر سیاہ پڑ گیا۔ سرخی کی وجہ اہلِ بغداد کا وہ خون تھاجو ہلاکو خان کے ہاتھوں قتل عام کی وجہ سے گلیوں میں بہ بہ کر دریا میں شامل ہوتا رہا اور سیاہی کی وجہ دریا برد کی گئی کتب کا وہ انبار تھا جو علوم وفنون کی ترقی کے لیے چھاپا گیا تھا۔ یونان ‘ روم اور دنیا بھر سے کتب منگواکر ان کے ترجمے شائع کیے جارہے تھے جن سے بغداد کی لائبریریاں ‘ کتب خانے اور مدرسے بھرے ہوئے تھے۔
ہلاکو خان کا وزیر نصیر الدین طوسی (جو اُس وقت وہاں موجود تھا ) بیان کرتا ہے کہ خلیفہ کو چند دن بھوکا رکھنے کے بعد اس کے سامنے ایک ڈھکا ہوا خوان لایا گیا۔ بھوکے خلیفہ نے بے تابی سے ڈھکن اٹھایا تو دیکھا کہ خوان ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا ہے۔ ہلاکو نے کہا: کھاؤ! مستعصم باللہ نے کہا: ہیرے کیسے کھاؤں؟ ہلاکو نے جواب دیا:اگر تم ان ہیروں سے اپنے سپاہیوں کے لیے تلواریں اور تیر بنا لیتے تو میں دریا عبور نہ کر پاتا۔عباسی خلیفہ نے جواب دیا:خدا کی یہی مرضی تھی۔ہلاکو نے کہا:اچھا‘ تو اب میں جو تمہارے ساتھ کرنے جا رہا ہوں وہ بھی خدا کی مرضی ہے۔ اس نے خلیفہ کومحلات کے قیمتی قالینوں میں لپیٹ کر ان کے اوپر گھوڑے دوڑا دیے اور خلیفہ ذلّت کی موت مر گیا۔
ہلاکو خان باطل لشکر کا سپہ سالار تھا۔ اُس کے نزدیک فتح و کامرانی کا راز صرف تیر و تلوار اور فنونِ سپہ گری میں تھا۔ اس لیے اس نے خلیفہ کو بھی یہی آدھا سبق یاد دلایا ‘حالانکہ ان سب چیزوں کے باوجود خود ہلاکو خان کا جو انجام ہوا اُس نے ثابت کردیا کہ پورا سبق کچھ اور ہے ۔ بغداد پر ہلاکوخان کا حملہ دراصل اُمّت اور اس کے غافل حکمرانوں کو وہی بھولا ہوا پورا سبق یاد دلانے کے لیے تھا جو شروع میں ہی اس اُمّت کو پڑھا دیا گیا تھا اور قرآن میں محفوظ بھی کر دیا تھا مگر اُمّت اسے بھول گئی تھی:
{لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ وَرُسُلَہٗ بِالْغَیْبِ ط اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ(۲۵)} (الحدید)
’’ہم نے بھیجا اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں کے ساتھ اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان اُتاری تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔اور ہم نے لوہا بھی اُتارا ہے ‘اس میں شدید جنگی صلاحیت ہے اور لوگوں کے لیے دوسری منفعتیں بھی ہیں‘ اور تاکہ اللہ جان لے (ظاہر کردے) کہ کون مدد کرتا ہے اُس کی اور اُس کے رسولوں کی غیب میں ہونے کے باوجود۔ یقیناً اللہ بہت قوت والا‘ بہت زبردست ہے۔‘‘
اللہ کی مرضی یہ نہیں تھی کہ دوسرے لوگوں کی طرح یہ اُمّت بھی کھیل کود ‘ دنیوی شان و شوکت ‘ زرو جواہرات اور مالِ دنیاکو فضیلت کا معیار سمجھ لے‘ بلکہ مشیت ِایزدی یہ تھی کہ اُمّت وہ اہم فریضہ ادا کرے جس کے لیے اسے اٹھایا گیا تھا :
{کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ ط} (آلِ عمران:۱۱۰)
’’تم وہ بہترین اُمّت ہو جسے لوگوں کے لیے برپا کیا گیا ہے‘ تم حکم کرتے ہو نیکی کا ا ور تم روکتے ہو بدی(منکر) سے‘ اور تم ایمان رکھتے ہو اللہ پر۔‘‘
جنگی صلاحیت ‘ فنونِ سپہ گری ‘سائنس ‘ اقتصادی ترقی و خوشحالی اسباب کے لحاظ سے ضروری ہے تاکہ رسولوں کے مشن کو جاری رکھتے ہوئے دنیا میں باطل کا راستہ روکنے اور انصاف کو قائم کرنے میں آسانی ہو‘مگر اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نےایک لازمی شرط بیان کی اور وہ ہے الکتاب اور میزان ۔ اُمّت کا اصل مشن قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں نظامِ عدل قائم کرنا تھا تاکہ انصاف قائم ہو۔ اہلِ بغداد نے یونان ‘ روم ‘ مصراور دنیا بھر سے فلسفہ اور علم الکلام کی کتابیں منگوا کر ان کے ترجمے کروائے ‘ جواچھی بات تھی‘ لیکن ان کے مقابلے میں ’’الکتاب‘‘ کو پسِ پشت ڈال دیا۔ انہوں نے سائنس ‘ طب ‘ فلکیات اور دوسرے علوم وفنون کو فروغ دیا لیکن ’’المیزان‘‘ کو قائم کرنا بھول گئے۔ مال و دولت ‘ شان و شوکت کو لازم سمجھا‘ لیکن باطل ‘ برائی اور طاغوت کے خلاف جہاد کی تیاری کرنا بھول گئے ۔ بحیثیت اُمّت یہی وہ بڑے جرائم تھے جن کی سزا اللہ نے ہلاکو کو بھیج کر دی اور بغداد چند دنوں میں انسانی خون اور لاشوں سے اس قدر تعفن زدہ ہو گیا کہ خود ہلاکو خان کو شہر سے باہر جاکر خیمہ لگانا پڑا ۔ قرآن حکیم کی مندرجہ ذیل آیات کس قدر فکر انگیز ہیں:
{وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکَ لَیَبْعَثَنَّ عَلَیْہِمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَنْ یَّسُوْمُہُمْ سُوْٓئَ الْعَذَابِ ط اِنَّ رَبَّکَ لَسَرِیْعُ الْعِقَابِ ج وَاِنَّہٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۶۷) وَقَطَّعْنٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اُمَمًاج مِنْہُمُ الصّٰلِحُوْنَ وَمِنْہُمْ دُوْنَ ذٰلِکَ ز وَبَلَوْنٰہُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَالسَّیِّاٰتِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ (۱۶۸)} (الاعراف)
’’اور (یاد کرو) جب آپؐ کے ربّ نے یہ اعلان کر دیا کہ وہ لازماً مسلط کرتا رہے گا ان پر قیامت کے دن تک ایسے لوگوں کو جو انہیں بدترین عذاب میں مبتلا کرتے رہیں گے۔ یقیناً آپ کا رب سزا دینے میں بہت جلدی کرتا ہے‘ اور یقیناً وہ غفور بھی ہے اور رحیم بھی۔ اور ہم نے انہیں زمین کے اندر منتشر کر دیا فرقوں کی صورت میں‘ ان میں سے کچھ لوگ صالح ہیں اورکچھ وہ بھی ہیں جو دوسری طرح کے ہیں۔ ہم انہیں بھلائی اور برائی سے آزماتے رہے ہیں کہ شاید یہ لوگ لوٹ آئیں۔‘‘
جب بھی نصیحت پر مشتمل ایسی آیاتِ قرآنی ہمارے ’’ خواص‘‘ و عوام کے سامنے بیان کی جاتی ہیں تو ان کا اطلاق فوراً بنی اسرائیل پر کرنا تو ہمیں یاد رہتا ہے لیکن خود اپنے بارے میں بھول جاتے ہیں کہ ہم بھی ایک مسلمان اُمّت ہیں اور بحیثیت ِاُمتی ہماری بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ اگر اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے بنی اسرائیل پر ایسے عذاب آسکتے ہیں تو ہم کیا اللہ تعالیٰ سے سرٹیفکیٹ لیے بیٹھے ہیں کہ ہمارے کرتوت خواہ جیسے بھی ہوں‘ اُس نے بہر صورت ہماری مدد کا وعدہ کررکھا ہے؟ اور یہ کہ بس محمد رسول اللہ ﷺ کا اُمتی ہونے کی وجہ سے ہمیں ہر حال میں شفاعت مل جائے گی ؟ حالانکہ اللہ کے رسول ﷺ قسم کھاکر تنبیہ فرمارہے ہیں :
’’قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے‘ تم لازماً نیکی کا حکم دوگے اور بدی سے روکوگے‘ ورنہ اندیشہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر ایسا عذاب لے آئے گا کہ پھر تم دعائیں مانگو گے لیکن اللہ تعالیٰ تمہاری دعا قبول نہیں کرے گا۔ ‘‘ (ترمذی)
جب اللہ کے رسول ﷺ قسم کھا کر ایسا فرما رہے ہیں تو پھر اس بات میں کیا شک باقی رہ جاتا ہے کہ یہ اُمّت اپنے اصل دینی فریضہ کو ترک کر دینے کی وجہ سے اللہ کے عذاب کا شکار نہیں ہوگی؟ آج برما ‘ کشمیر ‘ فلسطین ‘ سنکیانگ ‘ چیچنیا ‘ بھارت سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں کا گھیرا تنگ ہے۔ ان کا قتل عام کیا جارہا ہے ‘زمینوں پر قبضے کیے جارہے ہیں ‘ مساجد کو گرایا جا رہا ہے۔ ان کی عورتوں کے حجاب نوچے جارہے ہیں اور طرح طرح کے مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔ دنیا میں سب سے بڑے مذہبی ‘ دینی اجتماعات بھی مسلمانوں کے منعقد ہورہے ہیں۔ حج ‘ عمرہ ‘ رمضان میں کروڑوں مسلمان رو رو کر دعائیں مانگ رہے ہیں لیکن اللہ کی مدد و نصرت کیوں نہیں آرہی ؟یہاں تک کہ آزاد مسلم ریاستیں بھی شکنجہ ٔ باطل میں ہیں ۔ وجہ صاف ظاہر ہے ۔ پاکستان میں تین مرتبہ سود کے خلاف عدالتی فیصلے آنے کے باوجود حکومتیں اس کو ختم کرنے پر تیار نہیں ہو رہیں۔ عالم عرب جو اسلام کا مرکز تھا آج شیطانی ایجنڈوں کا گڑھ بن گیا ہے۔ سعودی خاندان نے حجاز کی مقدّس سرزمین پر شیطانی رسوم کو انٹرٹینمنٹ کے نام پر عوام کے اندر فروغ دینا شروع کر دیا ہے۔ گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی ۳۱ /اکتوبر کو ’’ہالووین‘‘ کا شیطانی جشن منایا گیا جس میں سعودی جوانوں نے خوفناک میک اپ ‘ خون آلود لباس اور ڈراؤنے ماسک پہن کر ریاض کی سٹرکوں پر مارچ کیا۔ اس سے پہلے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ملک میں جوئے‘ شراب نوشی‘ رقص‘ مرد عورتوں کی مشترکہ پارٹیوں‘ سنیماؤں میں مغربی فلموں کی نمائش اور دوسری اسلام مخالف چیزوں کی اجازت دے چکے ہیں۔ شرک اور بت پرستی اسلام میں سب سے بڑا گناہ ہے لیکن دبئی میں سب سے بڑا مندر بنایا گیا جس کی افتتاحی تقریب میں ’’وزیر ِ رواداری و ہم آہنگی‘‘ شیخ نہیان بن مبارک النہیان اور انڈیا کے سفیر سنجے سدھیر بھی شریک تھے ۔ خبر رساں ادارے رؤٹرز کے مطابق یہ مندر دبئی میں نہ صرف’’ عبادت‘‘ کی جگہ ہو گی بلکہ ایک ’’علم کا مرکز‘‘ اور معاشرے میں ’’ہم آہنگی ‘‘پیدا کرنے کے لیے بھی اہم ثابت ہو گا۔بنی اسرائیل کا جرم کیا تھا ؟
{ وَلَمَّا جَآئَ‘ہُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمْ نَـبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ ق کِتٰبَ اللّٰہِ وَرَآئَ ظُہُوْرِہِمْ کَاَنـَّــہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(۱۰۱) وَاتَّـبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰی مُلْکِ سُلَیْمٰنَ ج } (البقرۃ)
’’اور جب آیا اُن کے پاس اللہ کی طرف سے ایک رسول(یعنی محمدﷺ) تصدیق کرنے والا اُس کتاب کی جو ان کے پاس موجود ہےتو اہلِ کتاب میں سے ایک جماعت نے اللہ کی کتاب کو پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیا گویا کہ وہ جانتے ہی نہیں۔(اور)انہوں نے پیروی کی اُس علم کی جو شیاطین پڑھا کرتے تھے سلیمان ؑ کی بادشاہت کے وقت۔‘‘
اسی نام نہاد ہم آہنگی ‘روشن خیالی ‘ ماڈرنائزیشن اور رواداری کے زعم میں عالم ِعرب سمیت پورا عالم ِ اسلام اس وقت شیطان پرستی ‘ شرک ‘ بے حیائی ‘ سود ‘ فحاشی ‘ ٹرانسجینڈر قوانین جیسے دجالی ایجنڈوں کی زد میں ہے ۔ سورۂ آل عمران کی مذکورہ بالا آیت (۱۱۰) کی رو سے اس اُمّت کو فضیلت ایک عظیم مقصد کے لیے دی گئی تھی۔ اللہ نے اس اُمّت کے رسول ﷺ کو ایک مشن دے کر بھیجا تھا :{ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ لا وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ(۳۳)} (الصف) ’’وہی تو ہے جس نے بھیجا ہے اپنے رسول ؐ کو الہدیٰ اور دین حق دے کر تا کہ غالب کردے اسے کل کے کل دین (نظامِ زندگی) پر‘خواہ یہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔‘‘
اب جب اُمّت خود اپنی فضیلت کے معیار اور اپنے عظیم مقصد سے سرنڈر کر چکی ہے تو محض فیفا ورلڈ کپ کا انعقاد ‘اس میں گونجنے والے نعرۂ تکبیر اورفلسطینیوں کے حق میں نعرے ‘ جھوٹی شان و شوکت اسے کیا فائدہ پہنچائے گی ؟ اللہ تعالیٰ نے زمانے کی قسم کھا کر سورۃ العصر میں بتا دیا کہ پوری انسانیت عظیم خسارے (جہنم) سے دوچار ہونے والی ہے‘سوائے ان چند کے جو چار شرائط پر مشتمل چارٹر آف ڈیمانڈ کو پورا کریں گے ۔ ان چار شرائط میں تواصی بالحق اور صبر بھی ہیں جو نام نہاد روشن خیالی‘ رواداری ‘ ہم آہنگی ‘ اعتدال پسندی اور دنیا پرستی کی نذر ہو چکی ہیں ۔یہ تو آخرت کے حوالے سے وارننگ ہے‘لیکن اگر دنیا میں بھی ہمارا طرزِعمل اہل ِبغداد جیسا رہا تو پھر ہمیں کسی اور ہلاکو خان کا انتظار کرنا چاہیے‘کیونکہ اسی نام نہاد روشن خیالی ‘ رواداری اور ہم آہنگی کے نام پر اہل ِبغداد بھی باطل نظریات اور افکار سے سمجھوتہ کر چکے تھے ۔