(بیان القرآن) دورۂ ترجمۂ قرآن سُوْرَۃُ الْحَآقَّۃِ - ڈاکٹر اسرار احمد

7 /

سُوْرَۃُ الْحَآقَّۃِ
آیات ۱ تا ۳۷

آیت ۱ {اَلْحَآقَّۃُ(۱)} ’’وہ حق ہو جانے والی!‘‘
یعنی قیامت جس کا وقوع پذیر ہونا حق ہے‘اس کا واقع ہونا ایک مسلّمہ صداقت اور اٹل حقیقت ہے جس میں قطعاً کوئی شک نہیں۔
آیت۲ {مَا الْحَآقَّۃُ(۲)}’’کیا ہے وہ حق ہو جانے والی؟‘‘
آیت ۳{وَمَآ اَدْرٰىکَ مَا الْحَآقَّۃُ(۳)}’’اور تم نے کیا سمجھا کہ وہ حق ہونے والی کیا ہے؟‘‘
آیت۴ {کَذَّبَتْ ثَمُوْدُ وَعَادٌ بِالْقَارِعَۃِ(۴)}’’جھٹلایا تھا ثمود نے بھی اور عاد نے بھی اس کھڑکھڑا دینے والی کو۔‘‘
القَارِعَۃ سے مراد بھی قیامت ہے۔ قَـرَعَ کا معنی ہے ایک سخت چیز کو دوسری چیز سے ٹکرانا‘ کوٹنا‘ ریزہ ریزہ کردینا‘ کھڑکھڑا دینا‘ یا بہت زور سے کھٹکھٹانا۔ الحَاقَّۃ اور القَارِعَۃ ان دونوں الفاظ کے مابین ایک نسبت یہ بھی ہے کہ یہ دوسورتوں کے نام ہیں اور ان دونوں سورتوں کے آغاز کا انداز بھی ایک جیسا ہے ۔ چنانچہ سورۃ القَارِعَۃ کا آغاز بھی بالکل اسی طرح ہو رہا ہے: {اَلْقَارِعَۃُ(۱) مَا الْقَارِعَۃُ(۲) وَمَـآ اَدْرٰىکَ مَا الْقَارِعَۃُ(۳)}
آیت ۵{فَاَمَّا ثَمُوْدُ فَاُہْلِکُوْا بِالطَّاغِیَۃِ(۵)}’’پس ثمود تو ہلاک کر دیے گئے ایک حد سے بڑھ جانے والی آفت سے۔‘‘
الطَّاغِیَۃ کے لغوی معنی حد سے گزر جانے والی چیز کے ہیں ۔یعنی انتہائی شدّت والی چیز۔اس کے لیے قرآن حکیم کے مختلف مقامات پر الرَّجفۃ (زبردست زلزلہ) ‘ الصَّیْحَۃ (زور کا دھماکہ یا کڑک)‘ صَاعِقَۃ (گرج) الفاظ مذکور ہیں‘ جو عذاب کی مختلف کیفیات کو بیان کرتے ہیں۔
آیت ۶ {وَاَمَّا عَادٌ فَاُہْلِکُوْا بِرِیْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِیَۃٍ(۶)} ’’اور عاد ہلاک کر دیے گئے ایک جھکڑ والی تیز آندھی سے۔‘‘
آیت ۷{سَخَّرَہَا عَلَیْہِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّثَمٰنِیَۃَ اَیَّامٍ لا حُسُوْمًالا فَتَرَی الْقَوْمَ فِیْہَا صَرْعٰی لا کَاَنَّہُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَۃٍ (۷)} ’’اللہ نے مسلط کر دیا اسے اُن پر مسلسل سات راتوں اور آٹھ دنوں تک ‘ اُن کی بیخ کنی کے لیے ‘ تو تم دیکھتے اُن لوگوں کو کہ وہاں ایسے پچھڑے پڑے ہیں جیسے کھجور کے کھوکھلے تنے ہوں۔‘‘
قومِ عاد کے لوگ بہت قد آور تھے ‘اس لیے انہیں کھجور کے تنوں سے تشبیہہ دی گئی ہے۔
آیت ۸{فَہَلْ تَرٰی لَہُمْ مِّنْ  بَاقِیَۃٍ(۸)} ’’تو کیا تم ان میں سے کسی کو دیکھتے ہوباقی بچا ہوا؟‘‘
آیت ۹ {وَجَآئَ فِرْعَوْنُ وَمَنْ قَبْلَہٗ وَالْمُؤْتَفِکٰتُ بِالْخَاطِئَۃِ(۹)} ’’اور (اسی طرح) فرعون اور اس سے پہلے والوں نے‘ اور الٹ دی جانے والی بستیوں( کے باسیوں) نے بھی خطاکاری کی روش اختیار کی تھی۔‘‘
الٹائی جانے والی بستیوں سے مراد قومِ لوط کی بستیاں ہیں۔
آیت ۱۰{فَعَصَوْا رَسُوْلَ رَبِّہِمْ} ’’تو انہوں نے نافرمانی کی اپنے ربّ کے رسول کی‘‘
{فَاَخَذَہُمْ اَخْذَۃً رَّابِیَۃً(۱۰)}’’تو اللہ نے ان کو اپنی سخت گرفت میں دبوچ لیا۔‘‘
آیت۱ ۱ {اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَآئُ حَمَلْنٰـکُمْ فِی الْجَارِیَۃِ(۱۱)}’’جب (سیلابِ نوحؑ کا) پانی طغیانی پر آیا تھا تو ہم نے تمہیں سوار کرا لیا تھا کشتی پر۔‘‘
اس سیلاب کے بعد نوعِ انسانی کی نسل حضرت نوح علیہ السلام کے انہی تین بیٹوں سے چلی جو اس کشتی میں سوار تھے ‘اس لیے آیت کے اسلوب سے یہ تأثر ملتا ہے جیسے پوری نوعِ انسانی کشتی میں سوار تھی۔
آیت ۱۲ {لِنَجْعَلَہَا لَکُمْ تَذْکِرَۃً وَّتَعِیَہَآ اُذُنٌ وَّاعِیَۃٌ(۱۲)}’’تاکہ ہم اس کو تمہارے لیے ایک یاددہانی بنا دیں اور وہ کان جو حفاظت کرنے والے ہیں اس کو پوری حفاظت سے یاد رکھیں۔‘‘
ان آیات میں ’’التَّذْکِیر بایَّامِ اللّٰہ‘‘ کا بیان تھا۔ اس کے بعد اب آخرت کا ذکر آ رہا ہے۔ ایک لحاظ سے تو یہ بھی اَیَّام اللّٰہ ہی کے تذکرے کا حصّہ ہے ‘کیونکہ وقت کی ڈور میں ایک طرف اگر گزشتہ اقوام کے عبرت ناک واقعات پروئے ہوئے ہیں تو اسی ڈور کا دوسرا سرا آخرت ہے۔
آیت ۱۳ {فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِ نَفْخَۃٌ وَّاحِدَۃٌ(۱۳)}’’تو جب صور میں پھونکا جائے گا یکبارگی۔‘‘
یعنی اُس وقت کو یاد رکھو جب ایک ہی بار صور میں پھونک مار دی جائے گی۔
آیت ۱۴{وَّحُمِلَتِ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُکَّتَا دَکَّۃً وَّاحِدَۃً(۱۴)}’’اور جب زمین اور پہاڑوں کو اُٹھا کر ایک ہی بار میں پاش پاش کر دیاجائے گا۔‘‘
آیت ۱۵{فَیَوْمَئِذٍ وَّقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ(۱۵)} ’’تو اُس روز وہ واقعہ رونما ہو جائے گا۔‘‘
آیت ۱۶{وَانْشَقَّتِ السَّمَآئُ } ’’اور آسمان پھٹ جائے گا‘‘
{فَہِیَ یَوْمَئِذٍ وَّاہِیَۃٌ(۱۶)} ’’تو وہ اُس دن بہت بودا سا ہو جائے گا۔‘‘
آیت ۱۷{وَّالْمَلَکُ عَلٰٓی اَرْجَآئِہَاط}’’اور فرشتے ہوں گے اس کے کناروں پر۔‘‘
{وَیَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّکَ فَوْقَہُمْ یَوْمَئِذٍ ثَمٰنِیَۃٌ(۱۷)}’’اور اُس دن تیرے رب کے عرش کو اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے آٹھ فرشتے۔‘‘
آیت ۱۸{یَوْمَئِذٍ تُعْرَضُوْنَ} ’’اُس دن تمہاری پیشی ہو گی‘‘
{لَا تَخْفٰی مِنْکُمْ خَافِیَۃٌ(۱۸)} ’’تمہاری کوئی مخفی سے مخفی بات بھی چھپی نہیں رہے گی۔‘‘
آیت ۱۹{فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیْنِہٖ لا} ’’تو وہ شخص جس کو اُس کا اعمال نامہ دیا جائے گا اُس کے داہنے ہاتھ میں‘‘
{فَـیَقُوْلُ ہَـآؤُمُ اقْرَئُ وْا کِتٰبِیَہْ(۱۹)} ’’تووہ کہے گا :آئو آئو! دیکھو میر ا اعمال نامہ!‘‘
اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ! آمین!
آیت ۲۰{اِنِّیْ ظَنَنْتُ اَنِّیْ مُلٰقٍ حِسَابِیَہْ(۲۰)} ’’(وہ کہے گا:) مجھے یقین تھا کہ مجھے اپنے حساب سے دوچار ہونا ہے۔‘‘
مجھے یقین تھا کہ مجھے میرے اعمال کا بدلہ ضرور ملے گا۔
آیت ۲۱ {فَہُوَ فِیْ عِیْشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ(۲۱)} ’’پس وہ پسندیدہ زندگی بسر کرے گا۔‘‘
وہ خوش نصیب دل پسند عیش میں ہو گا۔ اسے ایسی زندگی عطا کی جائے گی جس میں ہر طرح کی رضا ہی رضاہو گی۔
آیت۲۲ {فِیْ جَنَّۃٍ عَالِیَۃٍ(۲۲)} ’’بڑے ہی بلند باغ میں۔‘‘
آیت۲۳ {قُطُوْفُہَا دَانِیَۃٌ (۲۳)} ’’اس کے خوشے جھکے ہوئے ہوں گے۔‘‘
آیت ۲۴ {کُلُوْا وَاشْرَبُوْا ہَنِٓـیْئًا  بِمَآ اَسْلَفْتُمْ فِی الْاَیَّامِ الْخَالِیَۃِ(۲۴)} ’’(کہہ دیا جائے گا:) کھائو اور پیو رچتا پچتا ان اعمال کے صلے میں جو تم نے گزرے دنوں میں کیے۔‘‘
آیت ۲۵{وَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتٰـبَہٗ بِشِمَالِہٖ لا} ’’اور جس شخص کا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ میں دیاجائے گا‘‘
{فَیَقُوْلُ یٰـلَیْتَنِیْ لَمْ اُوْتَ کِتٰبِیَہْ(۲۵)}’’وہ کہے گا :اے کاش! مجھے میرا اعمال نامہ دیا ہی نہ گیاہوتا۔‘‘
ع’’مرا اے کاش کہ مادر نہ زادے ‘‘ کاش! میری ماں نے مجھے جنا ہی نہ ہوتا!
آیت۲۶ {وَلَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِیَہْ (۲۶)} ’’اور مجھے معلوم ہی نہ ہوتا کہ میرا حساب کیا ہے!‘‘
آیت ۲۷{یٰـلَیْتَہَا کَانَتِ الْقَاضِیَۃَ(۲۷)} ’’اے کاش کہ وہی موت قصّہ پاک کردینے والی ہوتی!‘‘
کاش کہ وہی موت جو مجھے دنیا میں آئی تھی فیصلہ کن ہوتی‘ اُس موت کے بعد میں معدوم ہوگیا ہوتااور میرے دوبارہ زندہ ہونے کی نوبت نہ آتی۔
آیت ۲۸{مَآ اَغْنٰی عَنِّیْ مَالِیَہْ(۲۸)} ’’میرا مال و اسباب کچھ بھی میرے کام نہ آیا۔‘‘
آیت۲۹ {ہَلَکَ عَنِّیْ سُلْطٰنِیَہْ(۲۹)} ’’میرا اقتدار بھی مجھ سے چھن گیا۔‘‘
میرے دُنیوی اختیار و اقتدار اور میری شان و شوکت میں سے کچھ بھی باقی نہ بچا‘ سب کچھ نیست و نابود ہوگیا۔ ایسے ہر شخص کے لیے فرشتوں کو حکم دیا جائے گا :
آیت ۳۰{خُذُوْہُ فَغُـلُّوْہُ(۳۰)} ’’پکڑو اسے اور اس کی گردن میں طوق ڈال دو!‘‘
آیت۳۱ {ثُمَّ الْجَحِیْمَ صَلُّوْہُ(۳۱)} ’’پھر اسے جہنم کے اندر جھونک دو!‘‘
آیت ۳۲{ثُمَّ فِیْ سِلْسِلَۃٍ ذَرْعُہَا سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فَاسْلُکُوْہُ(۳۲)} ’’پھر ایک زنجیر میں اس کو باندھ دو جس کا طول ستر گزہے۔‘‘
آیت ۳۳{اِنَّہٗ کَانَ لَا یُؤْمِنُ بِاللہِ الْعَظِیْمِ(۳۳)} ’’ یہ اللہ پر ایمان نہیں رکھتا تھا جو عظمت والا ہے۔‘‘
آیت ۳۴{وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ(۳۴)}’’اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔‘‘
اسے خود تو کسی مسکین کو کھانا کھلانے کی کبھی توفیق نہیں ہوئی‘ کسی دوسرے شخص کو بھی اس نے بھلائی کے اس کام کی کبھی ترغیب نہیں دی۔
آیت ۳۵{فَلَیْسَ لَہُ الْیَوْمَ ہٰہُنَا حَمِیْمٌ(۳۵)}’’تواس کے لیے یہاں کوئی گرم جوش دوست نہیں ہے۔‘‘
آیت ۳۶{وَّلَا طَعَامٌ اِلَّا مِنْ غِسْلِیْنٍ(۳۶)}’’اور نہ ہی کچھ کھانے کو ہے سوائے زخموں کے دھوون کے۔‘‘
آیت ۳۷{لَّا یَاْکُلُہٗٓ اِلَّا الْخَاطِئُوْنَ(۳۷)} ’’نہیں کھائیں گے اس کو مگر وہی جو خطاکار تھے۔‘‘
آیات ۳۸ تا ۵۲

سورۃ الحاقہ کے دوسرے رکوع کی سورۃ الواقعہ کے آخری رکوع سے گہری مشابہت ہے۔ چنانچہ اگلی آیات کو پڑھتے ہوئے سورۃ الواقعہ کی ان آیات کو بھی ذہن میں تازہ کر لیجیے :{فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ (۷۵) وَاِنَّہٗ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِیْمٌ(۷۶) اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ(۷۷)} ’’تو نہیں! قسم ہے مجھے ان مقامات کی جہاں ستارے ڈوبتے ہیں۔ اور یقیناً یہ بہت بڑی قسم ہے اگر تم جانو!یقیناً یہ بہت عزّت والا قرآن ہے۔‘‘
آیت۳۸{فَلَآ اُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُوْنَ(۳۸)} ’’تو مَیں قسم کھاتا ہوں اُس کی جو تم دیکھتے ہو۔‘‘
آیت ۳۹{وَمَا لَا تُبْصِرُوْنَ(۳۹)} ’’اور اُس کی بھی جو تم نہیں دیکھتے ہو۔‘‘
آیت ۴۰{اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ (۴۰)} ’’یہ قول ہے ایک رسولِ کریم کا۔‘‘
اصل میں تو یہ اللہ کا کلام ہے ۔اللہ تعالیٰ سے حضرت جبرائیل ؑنے سنا۔ پھر حضرت جبرائیل سے حضرت محمدﷺ نے سنا اور اب وہ لوگوں کو سنا رہے تھے۔ چنانچہ ایک لحاظ سے یہ جبرائیل ؑ کا قول تھااور دوسرے لحاظ سے حضورﷺ کا قول۔
آیت ۴۱{وَّمَا ہُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍط} ’’اور یہ کسی شاعر کا قول نہیں ہے۔‘‘
{قَلِیْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ (۴۱)} ’’کم ہی ہے جو تم یقین کرتے ہو۔‘‘
آیت ۴۲{وَلَا بِقَوْلِ کَاہِنٍ ط} ’’اور نہ ہی یہ کسی کاہن کا کلام ہے۔‘‘
{قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ (۴۲)} ’’کم ہی ہے جو تم غور کرتے ہو۔‘‘
آیت ۴۳{تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ (۴۳)}’’اس کا اتارا جانا ہے تمام جہانوں کے رب کی طرف سے۔‘‘
یہ آیت جوں کی توں سورۃ الواقعہ (آیت ۸۰) میں بھی ہے۔
آیت ۴۴{وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِیْلِ(۴۴)} ’’اور(بالفرض) اگر یہ (نبیﷺ) خود گھڑ کر بعض باتیں ہماری طرف منسوب کردیتے۔‘‘
تَقَوَّلَ باب تفعل ہے ‘ اس باب میں تکلف کے معنی پائے جاتے ہیں‘ یعنی ارادے‘ محنت اور کوشش سے کوئی بات کہنا۔
آیت ۴۵{لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ(۴۵)} ’’تو ہم پکڑتے ان کو داہنے ہاتھ سے۔‘‘
اس فقرے کے مفہوم میں دو امکانات ہیں۔ ایک یہ کہ ہم اپنے دائیں ہاتھ سے انہیں پکڑتے‘ یا یہ کہ ہم انہیں ان کے داہنے ہاتھ سے پکڑتے۔
آیت ۴۶{ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ(۴۶)} ’’پھرہم ان کی گردن کاٹ ڈالتے۔‘‘
اس اسلوب اور لہجے میں جو سختی ہے یہ دراصل اُن لوگوں کے لیے ہے جو قرآن کو کلام اللہ ماننے کے لیے تیّار نہیں تھے اور کہتے تھے کہ محمد(ﷺ) خود اپنی طرف سے باتیں بنا کر اللہ کی طرف منسوب کررہے ہیں۔ انہیں بتایا جا رہا ہے کہ بدبختو !تم ہمارے رسول کریمﷺ کے مرتبے کو کیا سمجھو! کسی رسول کا یہ مقام نہیں ہے کہ وہ اپنے رب کے کلام میں اپنی طرف سے کوئی ملاوٹ کرے۔وہ تم لوگوں تک ٹھیک ٹھیک وہی کچھ پہنچا رہے ہیں جو ہمارا کلام ہے۔ بفرضِ محال اگر وہ اپنی طرف سے کوئی بات گھڑ کر ہماری طرف منسوب کر دیں تو یہ کوئی معمولی سا جرم نہیں ہے جس کا نوٹس نہ لیا جائے۔
آیت ۴۷{فَمَا مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ عَنْہُ حٰجِزِیْنَ(۴۷)}’’پھر تم میں سے کوئی بھی (ہمیں) اس سے روکنے والا نہ ہوتا۔‘‘
آیت ۴۸{وَاِنَّہٗ لَتَذْکِرَۃٌ لِّلْمُتَّقِیْنَ(۴۸)} ’’اور یقیناً یہ تو ایک یاد دہانی ہے متقین کے لیے۔‘‘
یہ کلام اُن لوگوں کے لیے نصیحت ہے جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور نیکی و بدی میں تمیز کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
آیت ۴۹{وَاِنَّا لَنَعْلَمُ اَنَّ مِنْکُمْ مُّکَذِّبِیْنَ(۴۹)} ’’اور ہمیں خوب معلوم ہے کہ تم میں کچھ لوگ جھٹلانے والے بھی ہیں۔‘‘
وہ ہمارے کلام کو جھٹلانے پر کمربستہ ہو چکے ہیں کہ جو چاہے ہو‘ وہ اسے اللہ کا کلام نہیں مانیں گے۔
آیت ۵۰{وَاِنَّہٗ لَحَسْرَۃٌ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ(۵۰)} ’’اور یقیناً یہ کافروں کے لیے حسرت کا باعث بن جائے گا۔‘‘
ایک وقت آئے گا جب قرآن ان جھٹلانے والوں کے لیے حسرت اور پچھتاوے کا سبب بن جائے گا۔ حضورﷺ کا فرمان ہے :((اَلْـقُرْآنُ حُجَّۃٌ لَکَ اَوْ عَلَیْکَ)) کہ یہ قرآن حُجّت ہے تمہارے حق میں یا تمہارے خلاف۔ اگر تو تم اس کے حقوق ادا کرو گے ‘اس پر ایمان لائو گے‘ اسے اپنا امام بنا کر اس کے پیچھے چلو گے اور اس کا پیغام دوسروں تک پہنچانے کا اہتمام کرو گے تو یہ قیامت کے دن تمہاری شفاعت کرے گا‘اور اگر تم اس کے حقوق اد ا کرنے میں کوتاہی کرو گے تو قیامت کے دن یہ تمہارے خلاف گواہ بن کر کھڑا ہو گا۔
آیت ۵۱{وَاِنَّہٗ لَحَقُّ الْیَقِیْنِ(۵۱)} ’’اور یقیناً یہ (قرآن) بالکل یقینی حق ہے۔‘‘
یہ ایسا یقین ہے جو سراسر حق ہے ‘ جس میں باطل کی ذرا ملاوٹ تک نہیں۔
آیت ۵۲{فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ(۵۲)} ’’پس آپؐ تسبیح کیجیے اپنے رب کے نام کی جو کہ بہت عظمت والا ہے۔‘‘
نوٹ کیجیے‘ سورۃ الواقعہ کا اختتام بھی اسی آیت پر ہوتا ہے۔