(تذکرہ و تبصرہ) جُدا ہو دیں سیاست سے …! - ڈاکٹر اسرار احمد

7 /

جُدا ہو دیں سیاست سے …!ڈاکٹر اسرار احمد ؒ

بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد ملکی سیاسی معاملات پر گہری نظر رکھتے تھے اور ان کےبارے میں ’’میثاق ‘‘ کے اداریوں اور اپنے خطابات میں گاہے بگاہے اظہارِ خیال فرماتے رہتے تھے۔ ۲جون ۱۹۹۳ء کو مسجد دار السلام باغِ جناح لاہور میں ڈاکٹر صاحبؒ نے دین و سیاست کے بارے میں اپنا موقف نہایت معیّن اور دو ٹوک انداز میں بیان کیا کہ سیاست میں حصّہ لینا ان کے نزدیک حرام ہے یا فرض و واجب؟کیا پاکستان کو ایک اسلامی ریاست قرار دیا جا سکتا ہے؟ اور اگر نہیں تو اس کے سیاسی امور کے ضمن میں ہمارا طرزِعمل کیا ہونا چاہیے؟ وغیرہ۔ پھر قرآن اکیڈمی کراچی میں ۹ جون کے خطابِ جمعہ میں یہ موضوع زیر ِگفتگو رہا اور پھر قدرے تفصیل سے اس پر ۱۶ جون کو لاہور کے اجتماعِ جمعہ میں مزید گفتگو ہوئی۔ ان تینوں خطابات کو یکجا مرتب کر کے جولائی ۱۹۹۳ء کے میثاق میں’’پاکستان کی موجودہ سیاست اور تنظیم اسلامی اور تحریک خلافت کا موقف ‘‘ کے عنوان سے شائع کر دیا گیا تھا تاکہ امیر تنظیم اسلامی و داعی تحریک خلافت کا موقف پوری وضاحت کے ساتھ رفقاء و احباب کے سامنے آ سکے۔
سالانہ اجتماع ۲۰۲۲ء میں امیر تنظیم اسلامی جناب شجاع الدین شیخ کی جانب سے رفقاء ِتنظیم کو جو اہداف دیے گئے ان میں بانی محترمؒ کے اس خطاب کا مطالعہ بھی شامل ہے۔ چنانچہ یہ فکر انگیز خطاب میثاق میں ’’قند ِمکرر‘‘ کے طور پر شائع کیا جا رہا ہے۔

معزز حاضرین و محترم خواتین!
یہ بڑی غیر معمولی سی بات ہے کہ آج ہم نے خطابِ جمعہ کے لیے خالص سیاسی عنوان معیّن کیا ہے: ’’پاکستان کی موجودہ سیاست اور تنظیم اسلامی اور تحریک خلافت کا موقف!‘‘ اس کا سبب یہ ہے کہ بالعموم میرا خطابِ جمعہ اصلاً تو قرآن مجید کی آیات کے حوالے سے مختلف دینی موضوعات پر مشتمل ہوتا ہے لیکن آخر میں اختصار کے ساتھ ملکی حالات کا جائزہ لیا جاتا ہے اور ان پر تبصرہ ہوتا ہے‘ کیونکہ اپنے ملکی و ملی معاملات سے بھی ہم بالکل صرفِ نظر نہیں کر سکتے۔ اس طرح کم وقت میں اختصار کے ساتھ اور جلدی میں جو بات کہی جاتی ہے وہ پورے طور پر واضح نہیں ہوتی۔ چنانچہ ہمارے بہت سے بہی خواہ‘ متّفقین اور معاونین حضرات بھی کچھ اُلجھ جاتے ہیں اور بہت سے پرانے رفقاء کی سمجھ میں بھی بات پورے طور پر نہیں آتی۔پھر ظاہر بات ہے کہ مخالفین کو تو ایسا موقع مطلوب ہوتا ہے کہ ایسی کوئی صورت ہو جس کو وہ اپنے مقاصد کے لیےاستعمال کر سکیں۔ لہٰذا میری خواہش یہ ہے کہ آج اس موضوع پر اپنا نقطۂ نظر پورے دلائل کے ساتھ‘ جچے تلے الفاظ میں ذرا تفصیل سے پیش کردوں‘ تاکہ اس ضمن میں ہمارا جو موقف ہے اس کا نہ صرف یہ کہ صغریٰ کبریٰ پوری طرح واضح ہو جائے ‘بلکہ جیسا کہ سورۃ الانفال کی آیت۸ میں الفاظ آئے ہیں: {لِیُحِقَّ الْحَقَّ وَیُبْطِلُ الْبَاطِلَ} ’’تاکہ اللہ حق کا حق ہونا ثابت کر دے اور باطل کاباطل ہونا واضح کر دے‘‘ اسی طرح ہمارا موقف بھی پوری وضاحت کے ساتھ سامنے آ جائے۔ پھر جسے اس سے اختلاف ہو وہ علیٰ وجہ البصیرت اختلاف کرے‘ کسی مغالطے یا غلط فہمی کی بنا پر نہ کرے۔ اس لیے کہ اختلاف تو ہرحال میں ہو سکتا ہے‘ ہر شخص کی رائے کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ مَیں اگر دوسروں کی آراء سے اختلاف کرتا ہوں تو دوسروں کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ مجھ سے اختلاف کریں۔ لیکن وہ اختلاف وضاحت کے ساتھ ہو کہ آپ کی فلاں بات کو ہم درست نہیں سمجھتے‘ لہٰذا اس سے ہمیں اختلاف ہے۔
سورۃ الانفال ہی کی آیت ۴۲ میں الفاظ وارد ہوئے ہیں: {لِیَھْلِکَ مَنْ ھَلَکَ عَنْم بَیِّنَۃٍ وَّیَحْیٰی مَنْ حَیَّ عَنْ بَیِّنَۃٍط} ’’تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ حجت قائم ہونے کے بعد ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ بھی دلیل کے ساتھ زندہ رہے‘‘۔ یعنی جسے ہلاک ہی ہونا ہے وہ بھی بات کے واضح ہونے کے بعد‘ جانتے بوجھتے ہلاک ہو۔ وہ اگر حق کو قبول نہیں کرنا چاہتا تو بھی یہ بات اس پر منکشف ہو جائے کہ حق تو یہ ہے‘ مَیں اگراسے قبول نہیں کر رہا تو اپنے تمرد‘اپنے تکبر‘ اپنی سرکشی اور اپنے حسد کی وجہ سے نہیں کر رہا۔ اور جسے زندہ رہنا ہے وہ بھی دلیل کےساتھ زندہ رہے ۔یعنی جسے اتفاق کرنا ہو وہ بھی علیٰ وجہ البصیرت اتفاق کرے‘ مبہم سا اتفاق نہ ہو۔ جسے بات قبول کرنی ہے وہ محض اس وجہ سے قبول نہ کرے کہ چونکہ فلاں شخص کی بات ہے‘ لہٰذا قبول کر رہا ہوں‘ فلاں سے مجھے محبت ہے اس لیےاس کی تو ہر بات میرے لیے واجب الاطاعت ہے۔ یوں نہیں‘ بلکہ جس شے کو قبول کرے دلیل کی بنیاد پر اور علیٰ وجہ البصیرت قبول کرے۔ مبہم اور غیر واضح اتفاق اشتراکِ ِعمل کو جنم نہیں دیتا۔ واضح اتفاق ہو تو پھر آدمی صحیح طور پر ساتھ دیتا ہے‘ ہم سفر بنتا ہے‘ دست و بازو بنتا ہے‘ انصار و اعوان میں شریک ہوتا ہے۔ اسی اعتبار سے مَیں نےان آیات کا حوالہ دیا ہے۔
تاہم یہ نہ سمجھئے کہ میری یہ گفتگو خالص سیاسی ہو گی‘ بلکہ فی الاصل یہ دینی گفتگو ہے۔ صرف ترتیب بدل جائے گی کہ پہلے ہم دینی نصوص‘قرآن و سُنّت سے بات شروع کر کے اسے ملکی حالات تک پہنچاتے تھے‘ آج ترتیب برعکس ہو گی‘ لیکن بات وہی رہے گی ۔ حق تو ایک حقیقت ِ واحدہ ہے ‘ اس میں آپ کسی بھی دروازے سے داخل ہو جائیں‘ کسی بھی ترتیب سے رسائی حاصل کر لیں‘ وہ تو حق ہی ہے۔
دین اور سیاست
اس تمہید کے بعد جو سب سے پہلی بات مَیں عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ سیاست کے بارے میں ہمارا موقف کیا ہے۔ آیا سیاست کا دین سے کوئی تعلق ہے یا نہیں ہے؟ سیاست میں حصّہ لینا گناہ ہے ؟یا واجب یا فرض ہے ؟اس بارے میں ہمیں پورے طور سے صحیح رائے قائم کرنی چاہیے۔چنانچہ اس کے ضمن میں مَیں پانچ باتیں عرض کروں گا۔
پہلی بات یہ کہ اسلام میں سیاست شجر ممنوعہ نہیں‘ یہ کوئی گناہ یا معصیت کا کام نہیں‘ بلکہ اسلام چونکہ دین ہے اور مذہب و سیاست دونوں کا جامع ہے‘ اس لیے سیاست اسلام کاجزوِ لاینفک ہے۔ یہ اس کا لازمی حصّہ ہے جو اس سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ اس فکر کو از سر ِنو علامہ اقبال نے جس قوت سے پیش کیا اس پر ہم ان کے ممنونِ احسان ہیں۔ چنانچہ اس حقیقت کی انہوں نے ان دو اشعار میں بہت صحیح تعبیر کی ہے کہ ؎
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جُدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
اور ؎
ہوئی دین و دولت میں جس دم جُدائی
ہوس کی امیری ہوس کی وزیری
اسلام میں تو دین ودولت ایک ہیں‘ مذہب و سیاست ایک ہیں۔ چنانچہ اسلام کے نزدیک سیاست کوئی دنیاداری کا فعل نہیں ہے بلکہ یہ تو دین کا جزو ہے۔ ہمارے نزدیک تو مسلمانوں کے زوال اور اضمحلال کا سب سے بڑا مظہر ہی یہ ہے کہ سیاست اور مذہب علیحدہ ہو گئے۔ خلافت راشدہ کے بعد سے تدریجاً یہ علیحدگی شروع ہوئی اور چند صدیوں کے اندر اندر بالکل علیحدہ علیحدہ خانے بن گئے کہ یہ اہل سیاست و حکومت ہیں اور یہ رجالِ دین ہیں۔ بعد میں اہل دین میں مزید تقسیم ہو گئی کہ یہ علماء ہیں اور یہ صوفیاء ہیں۔ اس طرح عالم اسلام میں قیادت کی تثلیث قائم ہوگئی۔ اقبال نے اپنے اس شعر میں اسی تثلیث کی طرف اشارہ کیا ہے ؎
باقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیری
اے کشتہ سلطانی و مُلّائی و پیری!
چنانچہ مسلمانوں کی قیادت تین حصوں میں منقسم ہو گئی۔ ایک طرف ملّا یعنی علماء‘ دوسری طرف پیر یعنی صوفیاء اور تیسری طرف بادشاہ یعنی سلاطین و ملوک۔ یوں یہ تثلیث وجود میں آ گئی‘ جبکہ توحید کا تقاضا یہ ہےکہ یہ تمام چیزیں یکجا ہوں‘ جیسا کہ خلافت راشدہ کے دور میں تھا۔ مسلمانوں کی قیادت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں تھی تو وہ ایک بہت بڑے عالم بھی تھے‘ وہی مسجد نبوی کے خطیب اور امام تھے اور وہی مسلمانوں کے سیاسی سربراہ یعنی امیر المومنین اور خلیفۃ المسلمین بھی تھے۔
دوسری بات یہ کہ اگر اسلامی ریاست بالفعل موجود ہو‘ اسلام کا نظامِ اجتماعی عملاً قائم ہو تو اس کی سیاست نہ صرف عبادت بلکہ کارِ نبوت ہے۔ یہ بات مَیں بغیر دلیل کے نہیں کہہ رہاہوں۔ میرے ہر دعوے کی دلیل میرے پاس موجود ہے۔ میری دو آنکھیں اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسولﷺ کے فرامین ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
((کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَاءُ‘ کُلَّمَا ھَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہٗ نَبِیٌّ))(متفق علیہ)
یعنی بنی اسرائیل کی سیاست انبیاء کے ہاتھوں میں ؑ تھی ‘ جیسے ہی کوئی نبی فوت ہوتا تھا تواس کا جانشین بھی نبی ہوتا تھا۔چنانچہ سابقہ اُمّت ِمسلمہ یعنی بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ ؑ سے لے کر حضرت عیسیٰ ؑ تک نبوت کا یہ تار ٹوٹا ہی نہیں۔ یہ چودہ سو برس ایسے ہیں کہ دنیا میں ایک ہی نسل میں نبوت کا سلسلہ چلتا رہا اور ہر وقت ایک نہ ایک نبی ان کے مابین موجود رہا۔پھراس میں سیاست اور نبوت کا جو امتزاج ہے وہ اس سے ظاہر ہے کہ وقت کانبی ہی ان کا سربراہ ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ جب حکومت قائم ہو گئی تو حضرت دائود ؑ نبی بھی تھےاور بادشاہ اور خلیفہ بھی تھے۔ پھر ان کے وار ث ہوئے حضرت سلیمان ؑ ‘ تو وہ بھی نبی بھی تھے اور بادشاہ بھی تھے۔ یہاں توہم کہہ سکتے ہیں کہ نبوت اور سیاست‘ یعنی بادشاہت اور نبوت گویا ایک جسد واحد بن گئے ۔ لہٰذا اسلامی ریاست کی سیاست محض عبادت ہی نہیں ‘کارِ نبوت ہے۔
اس سے آگے بڑھ کر تیسری بات یہ کہ غیر اسلامی نظامِ حکومت میں بھی کسی مسلمان کا‘ اُس کی طلب کے بغیر‘مقتدر یا مقتدرین کی جانب سے حکومت کے کسی منصب کی پیشکش پر اس منصب کو قبول کرنا جائز ہی نہیں بعض اوقات ضروری ہو جاتا ہے۔ یہ ایک استثنائی صورت ہے جس کی مثال سُنّت ِیوسفی ہے۔ مصر میں اُس وقت اسلامی نظام قائم نہیں تھا۔ نہ وہاں کے لوگ آپؑ پرایمان لائے تھے اور نہ بادشاہِ وقت‘ لیکن وہ حضرت یوسف ؑ کا معتقد ہو گیا تھا کہ یہ بہت نیک آدمی ہے‘ پاک دامن ہے‘ اس پر جو الزام لگا تھا جھوٹا ثابت ہو۱‘اسے ناحق جیل میں ڈالا گیا‘ پھر اتنا ذہین و فطین اور سمجھ دار انسان ہے کہ اس نے میرے خواب کی نہ صرف صحیح صحیح تعبیر بتا دی اور متنبہ کر دیا کہ کتنی بڑی مصیبت آنے والی ہے‘ سات سال کا عظیم قحط پڑنے والا ہے‘بلکہ اس سے بچائو کا طریقہ بھی بتا دیا‘ تو بادشاہ جو مقتدرِ مطلق تھا‘ وہ ذاتی طو رپر حضرت یوسف ؑ کا معتقدہو گیا‘ چنانچہ حضر ت یوسف ؑ نےوہاں عوام کی بہبود کی خاطر ایک عہدہ قبول کر لیا۔ اس سے مَیں جو نتیجہ نکال رہا ہوں وہ یہ ہے کہ اس قسم کے استثنائی حالات میں غیر اسلامی نظام حکومت میں کوئی عہدہ قبول کر لینا قطعاً حرام نہیں ہے۔ لیکن اس کے لیے چند شرطیں ہیں‘ مثلاً اس کے لیے آپ نے نہ صرف یہ کہ کوئی جوڑ توڑ اورسازش نہ کی ہو بلکہ خود کوئی جدّوجُہد نہ کی ہو۔ اس کے برعکس جو مقتدر شخص یا لوگ ہوں وہ خود آپ سے متاثر ہو کر پیشکش کریں کہ آیئے‘ یہ منصب سنبھالیے۔ پھر معاملہ بھی کسی قومی یا اجتماعی مسئلے سے متعلق ہو‘ عوام کی بہبود کا ہو‘ کہ اگر اس معاملے کو صحیح طو رپر حل نہ کیا گیا تو قیامت واقع ہو جائے گی‘ ملک برباد ہو جائے گا اور لاکھوں انسان فاقوں سے مر جائیں گے ۔ اس طرح کی صورتِ حال میں حضرت یوسف ؑ نے وہ منصب سنبھال کر اس طرح کا بندوبست کیا کہ خوشحالی کے سات سالوں میں غلہ ذخیرہ کیا جو قحط سالی کے سات سالوں میں کام آیا۔ چنانچہ اس طرح کے استثنائی حالات میں غیر اسلامی حکومت میں بھی کوئی ذمہ داری قبول کر لینا جائز ہے۔
چوتھی بات یہ کہ اگر نظامِ حکومت غیر اسلامی ہو تو اقتدار کی رسہ کشی میں شریک ہو کر‘ اس کے لیے خود جدّوجُہدکر کے اقتدارحاصل کرنے کی کوشش کرنا میرے نزدیک ناجائز ہی نہیں حرام کے درجے میں ہے۔ یہاں ’’حرام‘‘ کا لفظ مَیں فقہی اعتبار سے نہیں‘ بلکہ اس کی حقیقی روح کے اعتبار سے استعمال کر رہا ہوں۔ یہ چیز کسی بھی درجے میں اسلام میں پسندیدہ نہیں ہو سکتی۔ فقہی اعتبار سے بھی اگر اس کا جائزہ لیا جائے توچاہے حرامِ مطلق نہ ہو‘ مکروہِ تحریمی تو قرار پائے گی۔ خاص طور پر جبکہ اس کے لیے کچھ جوڑ توڑ بھی کرنے پڑیں‘ اپنے اصولوں کی قربانی بھی دینی پڑے‘ بہت سے اصولوں پر مفاہمت اور compromise بھی کرنا پڑے ‘بہت کچھ اونچ نیچ بھی کرنی پڑے‘ کوئی دائیں بائیں کے حربے بھی اختیار کرنے پڑیں تو یوں سمجھئے کہ اس میں خباثت پر خباثت کا اضافہ ہو گیا‘ لہٰذا یہ حرام در حرام ہے۔ اور اس کی حرمت کا فتویٰ عالم عرب کے بہت سے علماء نے دیا ہے۔ اس کے لیے ان کے پاس دلیل یہ ہے کہ اگر نظامِ حکومت غیر اسلامی ہے تو دستور بھی غیر اسلامی ہو گا۔ اب اگر کوئی شخص الیکشن لڑ کر پارلیمنٹ میں جاتا ہے تو سب سے پہلے اُسے اس غیر اسلامی دستور کا حلف اٹھانا پڑے گا اور غیر اسلامی دستور کا حلف اٹھانا حرام ہے۔ ویسے تو ایک عام شہری جو غیر اسلامی دستور والے ملک میں رہتا ہے وہ بھی ایک اعتبار سے گناہگار ہے‘ لیکن وہ اس طرح کھڑا ہو کر حلف نہیں اٹھاتا جس طریقے سے وزراء اور ارکانِ اسمبلی دستور سے وفاداری کا حلف استوارکرتے ہیں۔
پانچویں بات یہ کہ اسلامی ریاست میں‘ عوام کی بہبود کے لیے‘ نظامِ مملکت کو بہتر طور پر چلانے کے لیے‘ یا اسلام کی خدمت کے لیے‘ انتخابات میں حصّہ لینا اور آگے بڑھ کر ذمہ داریاں  سنبھالنا یقیناًناجائز نہیں ہے بلکہ یہ تو کارِ ثواب اور کارِ عبادت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی اصولی طو رپرواضح رہنی چاہیے کہ اپنی ذات کے لیے اقتدار کی خواہش کرنا قطعاً حرام ہے۔ اس کا تعلق انسان کی نیت سے ہے جس کا فیصلہ مَیں اور آپ نہیں کر سکتے۔ تاہم اپنی ذات کے لیے اقتدار کی خواہش اور سربلندی کی طلب نص قرآنی کی رو سے حرام ہے۔ فرمایا گیا:
{ تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًاط وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ(۸۳) } (القصص)
’’یہ آخرت کا گھر (یعنی جنت) تو ہم نے اُن لوگوں کے لیے مخصوص کر رکھا ہے جو نہ تو زمین میں اپنے لیے سربلندی (اقتدار و اختیار) کے طالب ہوتے ہیں اور نہ فتنہ وفساد کے خواہاں ہوتے ہیں۔ اور عاقبت تو ہے ہی پرہیزگاروں کے لیے۔‘‘
اس لیے کہ یہ طلب ِحکومت اور طلب ِاقتدار ہی ہے جو فسادپیدا کرتی ہے۔ فتنہ و فساد درحقیقت اقتدار کی کشاکش یا پاور پالیٹکس ہی سے جنم لیتاہے‘جبکہ آخرت کا گھر تو مخصوص ہی اُن لوگوں کے لیے ہے جو اس میدان میں قدم ہی نہ رکھیں۔ البتہ جیسا کہ مَیں نے عرض کیا کہ اگر نیت عوام کی بہبود کی ہو تو پھر حکومتی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے تگ و دو کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کسی دور میں جو یہ کہا گیا کہ ’’امیدواری حرام ہے‘‘تو میرے نزدیک یہ بھی شدّت پسندی ہے۔ اصل میں امیدواری کا معاملہ انسان کی نیت پر منحصر ہے۔ اگر انسان کی نیت یہ ہو کہ مَیں اسلام کی خدمت کے لیے ‘ عوام کی بہبود کے لیے اوراسلامی نظام کو بہتر انداز سے چلانے کے لیے ذِمہ داری قبول کرتا ہوں تواس میں حرام والی کوئی بات نہیں۔ البتہ یہ واضح رہے کہ یہاں بات اسلامی ریاست کی ہو رہی ہے‘ یعنی وہ جگہ جہاں اسلامی نظام پہلے سے قائم ہو۔
پاکستان کے معروضی حالات
سیاست کے بارے میں پانچ بنیادی نکات کی صراحت کے بعد اب ہمیں پاکستان کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر معیّن کرنا ہو گا کہ اس تناظر میں پاکستان کی حقیقت کیا ہے۔ یہاں بھی پانچ ہی باتیں مدّ ِنظر رکھنی ہوں گی۔
پہلی بات یہ کہ پاکستان ایک مسلمان ملک تو ہے‘ اسلامی ریاست ہرگز نہیں ہے۔ اسے اسلامی ریاست بنانے کا مرحلہ ابھی باقی ہے۔ تحریک پاکستان کے دنوں میں مولانا مودودی مرحوم نے یہ بات بڑے زوردار انداز میں کہی تھی کہ تم ایک ’’قومی تحریک‘‘ لے کر چل رہے ہو جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی ’’قومی ریاست‘‘ تو قائم ہو جائے گی‘ ایک ’’اسلامی ریاست‘‘ ہرگز قائم نہیں ہوگی۔ اور آج کی تاریخ تک تو ہم نے مولانامرحوم کے اس قول کوصحیح ثابت کیا ہے۔
اُس وقت ایک رائے یہ تھی کہ اگر مسلمانوں کی اکثریت کا ملک وجود میں آجائے تو وہاں پر اسلامی ریاست قائم کرنا آسان ہوگا۔ اب مستقبل میں تو شاید کہ ہم یہ کر گزریں اور اس طرح تحریک پاکستان کا موقف درست ہو جائے گا ‘لیکن تاحال تو یہ بات پوری طرح صحیح ہے کہ مسلمانوں کی ایک قومی ریاست تو وجود میں آ گئی ہے مگر اس پر ’’اسلامی ریاست‘‘ کا لیبل چسپاں کرنا کسی بھی اعتبار سے درست نہیں! یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ دنیامیں اس وقت پچاس ساٹھ مسلمان ممالک ہیں جہاں نام کے مسلمان یقیناً اکثریت میں ہیں‘ لیکن ان میں سے کسی ایک کو بھی اسلامی ریاست نہیں کہا جا سکتا۔
دیگر مسلم ممالک کی طرح پاکستان بھی مسلمانوں کا ملک تو ہے‘ لیکن اسلامی ریاست نہیں ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ یہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے‘مسجدیں محفوظ ہیں اور ایودھیا کی بابری مسجد کی طرح یہاں کوئی مسجد گرائی نہیں جا سکتی‘ لیکن اسلامی نظام یہاں قائم نہیں۔ بلکہ نظام تو بہت بڑی بات ہے‘یہاں کے قوانین تک اسلامی نہیں ہیں اور اسلامی حدود و تعزیرات تک نافذ نہیں ہیں۔ یہاں چوری کرنے پر کسی کا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا‘ زانی کو سنگسار نہیں کیا جاتا‘ کوڑے نہیں لگائے جاتے‘ نہ نظامِ صلوٰۃ قائم ہے اور نہ وہ نظامِ زکوٰۃ کہ جس میں تمام اموالِ ظاہرہ پر زکوٰۃ لازماً وصول کی جائے اور ہر شہری کی بنیادی ضروریات اور معاشی کفالت کا ذمہ لیا گیا ہو۔ آپ خود ہی فیصلہ کیجیے کہ جس نظامِ معیشت کے رگ و پے اور ریشے ریشے میں سود سرایت کیے ہوئے ہو‘ کیا اسے اسلامی نظام کہیں گے؟ -------- پھر حقیقت یہ ہے کہ ہمارا قومی مزاج بھی سیکولرہے۔ مَیں صرف لیڈروں یا سرمایہ داروں کو موردِ الزام نہیں ٹھہرارہا‘ بلکہ معاشرے کا عام رجحان سیکولر ہے‘ ہمارے عوام کی اکثریت کا مزاج بھی سیکولر ہے۔ وہ مذہب کو نماز روزے تک محدود رکھتے ہیں‘ باقی کاروبارِ دنیوی میں حلال وحرام کی پرواہ کسی کو بھی نہیں ہے۔
قومی مزاج کے سیکولر ہونے کی شہادت حاصل کرنی ہو تو ہر شخص اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لے۔ ایک طرف ہمارے ایمان کی سطح اتنی نیچی ہے کہ صرف عقیدہ ہے‘ ایمان نہیں۔ ہر شخص سوچ لے کہ ایک طرف ایمان ہو اور دوسری طرف مفاد ہو تو وہ کدھر جائے گا‘ مفاد کو ترجیح دے گا یا ایمان کو؟ یہ اُس کے ایمان کا لٹمس ٹیسٹ(litmus test) ہے۔ سیدھی سی بات ہے ‘ ہرشخص ذاتی محاسبہ کرے کہ پیسے میں زیادہ وزن ہے یا اللہ کے حکم میں؟آج اچھے بھلے مسلمان لوگ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ اجی سود حرام ہوگا لیکن اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا -------توکیا ہمارا معاشرہ اُسی رخ پر نہیں جارہاجو خالص سیکولر نقطۂ نظر ہے۔
پاکستان کے بارے میں دوسری بات یہ کہ اس کی وجہ جواز بھی صرف اسلام تھی اور اس کی بقاء اور اس کے دوام و استحکام کی بنیاد بھی صرف اسلام ہے۔مَیں نے اپنی تالیف ’’استحکامِ پاکستان‘‘ میں اس پر وضاحت سے لکھا ہے کہ ہندوستان کی یہ تقسیم باقی ہر اعتبارسے مصنوعی اور غیر فطری ہے اوراس کے لیے سوائے مذہب کی بنیاد کے اور کوئی بنیاد سرے سے موجود نہیں ہے۔ لسانی اعتبار سے یہ غیر فطری ہے‘ کیونکہ مشرقی پنجاب کا سکھ بھی پنجابی بولتا ہے اور مغربی پنجاب کا مسلمان بھی پنجابی بولتاہے۔ نسلی اعتبار سے بھی اس کی کوئی بنیاد نہیں بنتی‘ کیونکہ وہی جاٹ سکھ ہے اور وہی جاٹ مسلمان ہے۔ ایک ہی راجپوت نسل ہے‘ مسلمان بھی راجپوت ہے اور ہندو بھی راجپوت ہے۔ وہی شیخ مسلمان ہو گئے تو شیخ کہلاتے ہیں اور ہندو ہیں تو بنیے کہلاتے ہیں۔ اسی طرح جغرافیائی اعتبار سے بھی یہ تقسیم غیر فطری اور غیر منطقی ہے۔ زمینی تقسیم اس طرح کی گئی کہ دریا بھی کاٹ دیے گئے۔ ہمار ے اور بھارت کے درمیان کوئی فطری سرحد موجود نہیں۔ بھارت نے تو سینکڑوں میل تک تار لگا کر اس میں بجلی کا کرنٹ دوڑایا ہے‘ ورنہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی حقیقی رکاوٹ ہے ہی نہیں۔ تو لسانی‘ نسلی اور جغرافیائی‘ ہر اعتبار سے پاکستان کا قیام بلاجواز ہے‘ اور اس کے لیے سوائے اسلام کےاور کوئی وجہ جواز نہیں۔
یہ ملک دو قومی نظریے کی بنیاد پر قائم ہوا‘ یعنی ہمارا نظام‘ ہمارا قانون‘ ہماری تہذیب اور ہمارا تمدن ہندو سے بالکل مختلف ہے اور ہماری قومیت کی بنیاد ہمارا مذہب ہے۔ چنانچہ تحریک پاکستان کا نعرہ یہی تھا ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ!‘‘ -------- اور اس سے بھی بڑھ کر‘ صد فی صد درست بات ہے کہ اس کی بقا اور استحکام بھی صرف اسلام کے ساتھ وابستہ ہے۔ یہ اگر مستحکم ہو سکتا ہے تو صرف اسلام کی بنیاد پر‘ ورنہ اس کو مستحکم کرنے کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔ دنیا کی دوسری مسلمان قومیں بغیر اسلام کے بھی زندہ رہ سکتی ہیں‘ لیکن پاکستان بغیر اسلام کے زندہ نہیں رہ سکتا۔ مثال کے طور پر ترکی ایک مسلمان ملک ہے جس میں اسّی فیصد لوگ ترک ہیں اور ایک ہی زبان بولتے ہیں۔ تو لسانی اور نسلی وحدت انہیں جمع رکھ سکتی ہے‘مگر ہمیں کیا چیز جمع کرے گی؟ہمیں مجتمع رکھنے والی کوئی شےاسلام کے سوا ہے ہی نہیں۔ علّامہ اقبال کا یہ شعر ؎
اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِؐ ہاشمی
پاکستان پر تو صد فی صد منطبق ہوتا ہے‘ جبکہ کسی دوسرے مسلمان ملک پر اس شعر کا بتمام و کمال انطباق نہیں ہوتا۔

تیسری بات یہ کہ اگر یہاں اسلام نہ آیا تو یہ ملک اپنا جواز کھو دے گا‘ لہٰذا یہ قائم نہیں رہے گا اور اس کے ٹکڑے ہو جائیں گے ۔ جو چیز اپنا جواز کھو دے وہ ہو سکتا ہے کچھ دن دوسروں کے سہارے‘ دوسروں کی مصلحتوں کی وجہ سے باقی رہ جائے‘ لیکن آخرکار قائم نہیں رہ سکتی۔ صرف وقت کا معاملہ ہے کہ اس کے ٹوٹنے یا ختم ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے۔ مشرقی پاکستان تو آج (۱۹۹۳ء) سے بائیس برس قبل بنگلہ دیش بن چکا۔ یہ باقی کا بچا کھچا پاکستان بھی اسلام کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا‘ بلکہ اس کے کئی ٹکڑے ہو جائیں گے۔ اگر بے نظیر صاحبہ اور ان کی پارٹی اس ملک کو سیکولر بنانا چاہتی ہیں تو یہ گویا اس ملک کی نفی ہے۔ وہ اگر یہ سمجھتی ہیں کہ سیکولرازم کی بنیاد پر یہ ملک مستحکم ہو جائے گا تو قطعاً ناممکن ہے ع ’’ایں خیال است و محال است و جنوں!‘‘ وہ دراصل پاکستان کےgenesisسے واقف نہیں۔ انہوںنے چاندی بلکہ سونے کا چمچہ منہ میں لے کر آنکھ کھولی ہے۔ وہ پاکستان میں اقتدار کے ایوانوں میں ضرور گھومی پھری ہیں لیکن انہیں کیا پتہ کہ یہ ملک کس طور سے بنا تھا‘ کن کی قربانیوں سے بنا تھا‘ کن نعروں سے بنا تھا۔ اسی طریقے سے اگر نواز شریف صاحب یا ان کے ساتھیوں کایہ خیال ہو کہ ہم اس ملک کو کوریا بنا دیں گے‘ یا ہانگ کانگ یا سنگا پور بنا دیں گے اور اس سے یہ ملک مستحکم ہو جائے گا تو یہ بھی پرلے درجے کی احمقانہ بات ہے۔ یہ چیز بھی اس ملک کے استحکام کی بنیاد نہیں ہو سکتی۔ اس ملک کا جواز بھی اسلام سے ہے اور اس کے استحکام کی واحد بنیاد بھی اسلام ہے۔
چوتھی بات یہ کہ جب اس ملک کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ مسلمانوں کا ملک تو ہے‘ اسلامی ریاست ہرگز نہیں ہے تو اب یہاں سیاست کی کیا حیثیت ہے۔ اس میں حصّہ لیا جائے یا نہ لیا جائے؟ اس کا تجزیہ بھی مَیں نے اپنی کتاب ’’استحکامِ پاکستان‘‘ میں کیا ہے۔ دراصل سیاست کے دو حصے ہیں :(i) نظری سیاست‘اور (ii) عملی سیاست۔ نظری سیاست یہ ہے کہ ملک اور قوم کے حالات و مسائل پر غور وفکر کیا جائے‘ اس کے بارے میں سوچ سمجھ کر صحیح رائے قائم کی جائے اور پھر اسے لوگوں کے سامنے بیان کیا جائے۔ نظری سیاست ملک کے ہرباشعور شہری کا فرض ہے اور ہر باشعور مسلمان کا تو فرضِ عین ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک باشعور مسلمان اپنے آپ کو اس سے منقطع کر لے۔ یہ گویا سیاست کا پچاس فیصد ہے۔ اس نظری سیاست میں سب سے بڑا حصّہ صحافی حضرات لیتے ہیں جبکہ انہیں ’’سیاست دان‘‘ کوئی نہیں کہتا۔ وہ لوگوں کی سوچ کا رخ معیّن کرتے ہیں‘ اُن کی رائے بناتے ہیں لیکن وہ سیاست دان نہیں ہیں۔یہود ساری دنیا پر‘ خاص طور سے امریکہ پر ذرائع ابلاغ ہی کی وجہ سے چھائے ہوئے ہیں۔ ٹیلی ویژن ہو یا پریس‘ تمام ذرائع ابلاغ ان کے قبضے میں ہیں‘ اوراسی وجہ سے وہ پوری امریکی قوم کی سیاست کا رخ معیّن کرتے ہیں‘ بقول اقبال ع ’’فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے!‘‘ مَیں خود نظری سیاست کا نہ صرف قائل ہوں بلکہ اس میں خود حصّہ لیتا رہا ہوں‘ ہماری تنظیم اسلامی بھی اس میں بھرپور حصّہ لیتی رہی ہے اور میرے نزدیک ہر مسلمان کو اس میں حصّہ لینا چاہیے۔
البتہ سیاست کا دوسرا حصّہ عملی سیاست ہے۔ اس عملی سیاست کو بھی دو حصوں میں تقسیم کرلیجیے۔ عملی سیاست کا ایک پہلو ہے ملک میں جو نظام قائم ہے اسے چلانے کے لیے سیاست‘ جبکہ اس کا دوسرا پہلو ہے موجودہ نظام کو غلط سمجھتے ہوئے اسے بدلنے کے لیے سیاست۔اوّل الذکر انتخابی سیاست ہے اور مؤخر الذکر انقلابی سیاست۔ ملک میں جو نظام قائم ہے اسے اگر آپ درست سمجھتے ہیں تو اسے چلانے کے لیے الیکشن میں حصّہ لیجیے‘ اپنا منشور دیجیے‘ اپنی پالیسی دیجیے‘ الیکشن میں اپنے امیدوار کھڑے کیجیے‘ پھر الیکشن میں جن کو بھی عوام ووٹ دے دیں گے وہ نظامِ حکومت چلائیں گے۔ اگر آپ کو عوام نے منتخب نہیں کیا تو اپوزیشن میں بیٹھ کر اپنا رول ادا کرتے رہیے اور منتظر رہیے‘ ہوسکتا ہے اس سے اگلے الیکشن میں لوگ آپ کوووٹ دے دیں۔ لیکن یہ جو سیاسی عمل ہے ‘جسے انتخابی عمل کا نام دیا جاتا ہے ‘یہ نظام کو بدلنے کے لیے نہیں ہوتا‘بلکہ پہلے سے قائم نظام کوچلانے کے لیے ہوتا ہے۔ امریکہ کے انتخابات میں حصّہ لینے والے ڈیموکریٹس ہوں یا ری پبلکن ہوں وہ نظام نہیں بدلنا چاہتے‘وہ اسی نظام کو چلاناچاہتے ہیں۔ گویاامریکہ میں قائم پارلیمانی جمہوری نظام ان کے مابین متفق علیہ ہے۔ اسی طرح برطانیہ کی کنزرویٹو پارٹی یا لیبر پارٹی‘ ان میں سے برطانیہ کے نظام کو کوئی بھی نہیں بدلنا چاہتا‘ البتہ اس کو بہتر سے بہتر انداز میں چلانے کے لیے یہ اپنی طرف سے بہتر سے بہتر پالیساں پیش کرتے رہتے ہیں۔ تو یہ ہے کسی نظام کو چلانے کی سیاست جو عہدِحاضر میں ’’انتخابی سیاست‘‘ کہلاتی ہے۔ اس میں اور ’’انقلابی سیاست‘‘ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
انقلابی سیاست پہلے سے موجود نظام کو بدلنے کی سیاست ہے۔ جو شخص موجودہ نظام ہی کو غلط سمجھتا ہے اسے الیکشن میں حصّہ لے کر کیا کرنا ہے۔یہ اُس کے وقت کا ضیاع ہے۔ فرض کریں اگر امریکہ میں کمیونسٹ ہوں تو وہ الیکشن میں حصّہ لیں گے؟نہیں! بلکہ وہ تو کچھ اور ہی کام کریں گے‘ اگر ان کا دائو چل جائے تو وہ انقلاب کی جدّوجُہد کریں گے۔ انتخابات میں آ کر اپنی منزل کھوٹی نہیں کریں گے۔ دنیا میں جیسے انقلاب آتے ہیں وہ سب کو معلوم ہے۔ جیسے روس کا انقلاب آیا تھا‘ جیسے فرانس کا انقلاب آیا تھا اور جیسے ایران میں انقلاب آیا تھا وہ کس کو معلوم نہیں؟خمینی صاحب وہاں قیامت تک انتخابات کے ذریعے برسراقتدار نہیں آ سکتے تھے۔ اور وہاں جو بھی تبدیلی جس درجے میں بھی آئی ہے‘وہ نہ انتخابات کے ذریعے آسکتی تھی اور نہ ہی وعظ و نصیحت اور تلقین و تبلیغ کے ذریعے آ سکتی تھی۔ وہاں جو تبدیلی آئی ہے اس سے ہمارا اتفا ق ضروری نہیں ہے۔ ہمیں کمیونزم سے اتفاق نہیں ہے‘ لیکن اس کی بھی مثال تو دے رہے ہیں کہ اس کے عنوان سے ایک انقلاب تو دنیا میں آیا تھا۔
ہم نے اپنے لیے جو راستہ منتخب کیا ہے وہ اسی انقلابی سیاست کا ہے‘ انتخابی سیاست کا نہیں ہے۔ اس طرح مَیں اور میرے ساتھی ۷۵ فیصد سیاست میں ہیں‘ لیکن ۲۵ فیصد سیاست میں نہیں ہیں اور وہ ہے انتخابی سیاست۔ ہمارے نزدیک یہاں جو جائز سیاست ہے وہ انقلابی سیاست ہے۔ یعنی یہاں کے نظام کو بدلنے کی جدّوجُہد کی جائے‘اس کے لیے جماعت بنائی جائے‘ طاقت فراہم کی جائے‘ باطل نظام کے ساتھ ٹکرایا جائے اور اس کو بیخ و بُن سے اُکھیڑ کر رکھ دیا جائے اور اس کی جگہ اسلام کا نظام قائم کیا جائے۔ اس کو چھوڑ کر انتخابی سیاست میں حصّہ لینا ہمارے نزدیک وقت کا ضیاع ہے۔ یہ ملک کے لیے بھی صحیح نہیں ‘اور جیسا کہ مَیں کہہ چکا ہوں‘ دینی اعتبار سے بھی صحیح نہیں ہے۔
انقلابی سیاست کا مفہوم
اس سلسلے کی اگلی بحث یہ ہے کہ وہ انقلابی سیاست ہے کیا؟اسے اختصار کے ساتھ واضح کردیتا ہوـں۔ یہ وہ موضوع ہے جس پر مَیں نے پوری پوری مفصل تقریریں کی ہیں۔ اس ضمن میں ’’منہج ِانقلابِ نبویﷺ‘‘ کے عنوان سے کتاب بھی موجود ہے جو میرے گیارہ خطباتِ جمعہ پر مشتمل ہے۔ پھر اس کو مزید مختصر کر کے اس سال قرآن آڈیٹوریم میں پانچ خطابات میں بیان کیا ہے‘ جس کے ویڈیو کیسٹ بھی تیار ہو گئے ہیں۔ یہاں مَیں اسی بات کو چند جملوں میں بیان کر رہا ہوں۔یہ بات اچھّی طرح جان لیجیے کہ اس ملک میں اسلام کبھی بھی انتخابی سیاست کے راستے سے نہیں آ سکتا‘بلکہ جب بھی آئے گا انقلابی عمل کے ذریعے ہی سے آئے گا۔ انقلابی سیاست یا انقلاب کا عمل یہ ہے کہ سب سے پہلے لوگوں میں ذہنی اور فکری تبدیلی برپا کی جائے۔ جس طرح ہرعمارت کسی بنیاد پر قائم ہوتی ہے اسی طرح ہر نظام کسی فکر اور کسی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر پہلے سے موجود نظام کو بدلنا ہے تو متبادل فکر اور نظریہ (alternate idealogy) پیش کرنا ہوگا اور اسے لوگوں کے ذہنوں میں اتارنا ہوگا۔ یہ متبادل فکر جب ذہنوں میں راسخ ہوجائے گا تو لوگوں کے اعمال اور اخلاق میں بھی انقلاب آ جائے گا۔ سوچ بدلے گی تو عمل بھی لازمی طور پر بدلے گا۔ کسی بھی انقلاب کے لیے یہ دو بنیادی تبدیلیاں ناگزیر ہیں‘ یعنی سوچ اور فکر کی تبدیلی‘ اور عمل اور اخلاق کی تبدیلی۔
البتہ یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ یہ تبدیلی اکثریت میں نہیں آیا کرتی‘ ہمیشہ ایک اقلیت میں آتی ہے۔لیکن وہ اقلیت منظم ہو کر اپنی تنظیم کے بل پر نہایت مؤثر ہوجاتی ہے‘ جیسے آپ کہتے ہیں:ایک اکیلا دو گیارہ اور تیسرا لگ گیا تو ایک سو گیارہ‘ چوتھا لگ گیا تو ایک ہزار ایک سو گیارہ۔ اس اعتبار سے وہ اقلیت منظم ہونے کے بل پر غالب آتی ہے اور نظام کو بدل دیتی ہے۔ورنہ ایسے لوگ کبھی بھی دنیا میں اکثریت میں نہیں ہوئے۔ خود رسول اللہﷺ کے زمانے میں بھی پورے جزیرہ نمائے عرب کی تعداد کے اعتبار سے دیکھیں تو اکثریت مومنین صادقین کی نہیں تھی۔ یہاں کسی کو کوئی مغالطہ نہ ہو‘ مَیں پورے جزیرہ نمائے عرب کی بات کر رہا ہوں کہ وہاں اکثریت مومنین صادقین کی نہیں تھی‘ صرف مکہ اور مدینہ کی بات نہیں کررہا۔ اگر پورے ملک عرب میں اکثریت مومنین صادقین کی ہوتی تو کیا مسیلمہ کذاب کا ساتھ دینے کے لیے لاکھوں آدمی نکل آتے؟کیا زکوٰۃ کا انکار کرنے والے لاکھوں آدمی میدان میں آجاتے؟
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مؤمن صادق ہو اور پیچھے ہٹ جائے۔ ع ’’ایں خیال است و محال است و جنوں!‘‘ جو مؤمن صادق ہے اس کے تو چاہے بخیے ادھیڑ دیے جائیں‘ اس کے جسم کی دھجیاں اُڑا دی جائیں تب بھی وہ پیچھے نہیں ہٹتا۔ معلوم ہوا کہ وہاں پر بھی عرب کی اکثر آبادی کے اعتبار سے اصل حکم وہی تھا جو سورۃ الحجرات میں بایں الفاظ وارد ہواہے:
{قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا ۭ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ ۭ } (الحجرات:۱۴)
’’یہ بدو دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے۔ (اے نبیﷺ! ان سے) کہہ دیجیے کہ تم ہرگز ایمان نہیں لائے ہو‘ بلکہ یوں کہو کہ ہم مسلمان ہو گئے ہیں‘ اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔‘‘
تو یہ ایک مثال ہے جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ فکر و عمل کی تبدیلی کبھی اکثریت میں نہیں آیا کرتی۔کیا انقلابِ روس کے وقت روس کے اندر اکثریت کمیونسٹوں کی ہو گئی تھی؟یہ تو کبھی بھی نہیں  ہوئی‘ آخری وقت تک نہیں ہوئی۔ کمیونسٹ پارٹی کے ممبر تو ہمیشہ چند لاکھ ہی رہتے تھے جبکہ ملک کی آبادی کروڑوں پر مشتمل تھی۔ تو انقلابی عمل میں کبھی اکثریت تبدیل نہیں ہوا کرتی‘ ہمیشہ اقلیت منظم ہوتی ہے‘لیکن یہ اقلیت ہوتے ہوئے اپنی تنظیم اور اپنی قربانی کے بل پر اکثریت پر غالب آ جاتی ہے۔ اگر کہیں دس آدمی ہوں لیکن وہ سب کے سب اپنی جان بچانے کی فکر میں ہوں‘ اور دوسری طرف صرف دو آدمی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر آ جائیں تو وہ دس فوراً بھاگ کھڑے ہوں گے۔ وہ ان دو کا مقابلہ نہیں کر سکتے جوجان ہتھیلی پر رکھے ہوئے ہیں ؎
منحصر مرنے پہ ہو جس کی اُمید
ناامیدی اُس کی دیکھا چاہیے
جسے موت زندگی سے زیادہ خوش آئند ہو جائے اُسے خوف کا ہے کا؟اب اُسے کیا شے ڈرائے گی؟ ان دو تبدیلیوں کے بعد یہ اقلیت جب معتدبہ تعداد میں منظم ہو جاتی ہے تو پھر ٹکرائو مول لیتی ہے اور اس کا اس نظام کے ساتھ تصادم ہوتا ہے۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ آج کے زمانے میں اس تصادم اور ٹکرائو کی صورت کیا ہوگی۔ حضورﷺ کے زمانے میں تو یہ تلوار کے ساتھ تلوار کا ٹکرائو تھا‘ لیکن آج کے زمانے میں معاملہ اس اعتبار سے مختلف ہے کہ مدّ ِمقابل بھی مسلمان ہیں‘خواہ نام کے مسلمان ہی ہوں۔ سیکولر ذہن والے بھی اور ملحدانہ نظریات رکھنے والے بھی مسلمان ہیں‘بھٹو صاحب بھی مسلمان تھے‘ بے نظیر بھی مسلمان ہے اور نواز شریف بھی مسلمان ہے جس نے نفاذِ شریعت ایکٹ کے اندر سود کو جاری رکھنے کا اعلان کر دیا۔ نواز شریف تو خیر سے نمازی بھی ہے اور ان کا گھرانہ بھی مذہبی گھرانہ ہے۔ دوسرے یہ کہ آج کل کی حکومتوں کے پاس قوت بہت زیادہ ہوتی ہے اور عوام نہتے ہوتے ہیں‘ لہٰذا حکومت کے خلاف کوئی مسلح جدّوجُہد کامیاب نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ موجودہ حالات میں اس کے لیے جو طریق کار اختیار کیا جانا چاہیے اس کی مثال ایرانیوں نے ہمارے سامنے پیش کردی ہے۔ یعنی نہتے عوام سڑکوں پر آ کر حکومتی نظام کو معطل کر دیں‘ منکرات کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں کہ ہم اپنے جیتے جی یہ نہیں ہونے دیں گے۔ ان پر تشدد کیا جائے تو برداشت کریں‘ گولیاں چلیں تو اپنے سینوں پر گولیاں کھائیں اور راہِ حق میں جان دے دیں۔ یقیناً اس سے بڑھ کر نفع کا سودا اور کوئی نہیں ؎
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مؤمن
نہ مالِ غنیمت ‘ نہ کشور کشائی!
آپ دیکھتے ہیں کہ ایرانیوں نے اس طریقے سے بادشاہ کو راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور کر کے دکھا دیا۔ انہوں نے نہ تو بغاوت کی‘ نہ کوئی توڑ پھوڑ کی اور نہ کوئی چھاپہ مار کارروائیوں کا سلسلہ شروع کیا‘ لیکن ایران کی اڑھائی ہزار سالہ عظمت رفتہ کی بازیافت کے خواب دیکھنے والے ’’شہنشاہ آریہ مہر‘‘ کو ایران سے فرار ہونے پر اس طرح مجبور کر دیا کہ ع ’’دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں!‘‘ یہ بڑی عظیم مثال ہے جو آج کے دور میں ہمارے سامنے آئی ہے اور اسی طریق کار سے اس ملک میں اسلام کا نظام قائم کیا جا سکتا ہے۔
مَیں پھر کہہ رہا ہوں کہ اسلام یہاں نہ تو الیکشن کے راستے سے آ سکتا ہے اور نہ صرف وعظ و نصیحت کے ذریعے سے۔ اگرصرف وعظ و نصیحت سے اسلام آ جاتا تورسول اللہﷺ کسی مسلمان کی جان تو کجا کسی کافر کی جان کا ضیاع بھی گوارا نہ کرتے۔ آپؐ سے بڑا معلم‘ آپؐ سے بڑا مبلغ‘ آپؐ سے بڑا واعظ‘ آپؐ سے بڑا مربی اور آپؐ سے بڑا مزکی بھلا کوئی ہو سکتا ہے؟اگر کوئی سمجھتا ہے کہ محض دعوت و نصیحت اور تبلیغ و تلقین ہی سے نظام بدل جائے گا تو وہ جنت الحمقاء میں بستا ہے‘ اور میرے نزدیک وہ شخص محمد رسول اللہﷺ کی ذات پر طعن کر رہا ہے کہ انہوں نے اس راستے میں اپنا اور اپنے ساتھیوں کے خون کا نذرانہ کیوں دلوایا؟دامن اُحد میں خود آنحضورﷺ کا خون زمین میں جذب ہوا ہے اور سینکڑوں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی جانیں اس راہ میں قربان ہوئی ہیں۔ آپﷺ کے ایک صحابیؓ کی جان آج کے لاکھوں مسلمانوں کی جانوں سے زیادہ قیمتی ہے یا نہیں؟
اسی طرح بعض تحریکوں نے یہ جو تیسرا راستہ اختیار کر لیا پُرتشدد چھاپہ مار کارروائیوں کا‘ تو اس راستے سے بھی اسلام نہیں آ سکتا۔ ایسی کارروائیاں باہر سے آئی ہوئی قابض افواج کے خلاف تو کامیاب ہو سکتی ہیں جن کی سپلائی لائن بہت طویل ہو‘ لیکن قومی فوج کے خلاف کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں ۔ چنانچہ اس وقت الجزائر اور مصر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ میرے نزدیک صحیح طریقہ نہیں ہے۔ اگرچہ مجھے ان لوگوں کے ساتھ بڑی ہمدردی ہے اورمصر کی ’’جماعہ اسلامیہ‘‘ کے لوگوں کو تومَیں بہت قیمتی سمجھتا ہوں‘ لیکن انہوں نے جو طریقہ اختیار کر لیا ہے وہ غلط ہے‘ چاہے وہ حکومتی تشدد کے ردّ ِعمل میں اختیار کیا ہو۔ان تینوں راستوں کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ یہ اسلام لانے کے راستے نہیں ہیں۔ اسلام لانے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے انقلابی راستہ۔ اس انقلابی عمل کےلیے دینی اصطلاحات مَیں بعد میں بتائوں گا‘ ابھی تو عمومی انداز میں یہ بتایا ہے کہ انقلاب کسے کہا جاتا ہے۔
اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ(i) ایک انقلابی نظریے کے تحت‘ ایک معتدبہ تعدادمیں فکری اور نظری تبدیلی اور اس کے نتیجے میں عملی اور اخلاقی تبدیلی برپا کرنا۔ (ii)پھر ان لوگوں کو ایک جماعت کی صورت میں منظم کرنا۔ (iii)پھر نظامِ باطل کے ساتھ ٹکرائو مول لینا۔ بقولِ اقبال ؎
با نشہ درویشی در ساز و دمادم زن
چوں پختہ شوی خود را بر سلطنت جم زن!
دینی اصطلاح میں پہلی بات یہ ہو گی کہ سب سے پہلے کچھ لوگوں میں شعوری ایمان پیدا کیا جائے۔ ایمان ایک فکر بھی ہے‘ فلسفہ بھی ہے‘ ایک رائے بھی ہے‘ ایک Metaphysics (مابعد الطبیعیات) بھی ہے‘ نفسیات بھی ہے‘ لیکن انقلاب کے لیے مطلوب یہ ہے کہ ایک معتدبہ تعداد میں بھی شعوری ایمان پیدا ہوجائے‘ اور اس کے نتیجے میں عملی تبدیلی یعنی تقویٰ پیداہو جائے۔
یہ مضمون سورئہ آلِ عمران کی آیات ۱۰۲ تا ۱۰۴ میں وارد ہوا ہےاور ان تین آیات کے حوالے سے میری ایک کتاب بھی ’’اُمّت ِمسلمہ کے لیے سہ نکاتی لائحہ عمل‘‘ کے عنوان سے موجود ہے۔ ان تین آیات میں تین نکات بیان ہوئے ہیں۔ پہلا نکتہ یہ کہ:
{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(۱۰۲)}
’’اے ایمان (کا دعویٰ کرنے) والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ اُس کے تقویٰ کا حق ہے ‘اور (دیکھنا !)تمہیں ہرگز موت نہ آنے پائے مگر فرمانبرداری کی حالت میں۔‘‘
یعنی جب اللہ پر ایمان لائے ہوتو اُس کے تقویٰ کا حق بھی ادا کرو اور تمہارا کوئی لمحہ بھی اُس کی معصیت میں بسرنہیں ہوناچاہیے۔ اب جو لوگ یہ مرحلہ طے کر لیں اور اللہ کے سامنے اپنے اختیار کو اُس کے قدموں میں ڈال دیں وہ مل جل کر ایک طاقت بنیں۔ چنانچہ اگلی آیت میں دوسرا نکتہ بیان فرمایا: { وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْاص}’’اورسب مل کر اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اور باہم متفرق نہ ہو‘‘۔اللہ کی رسّی کے ساتھ چمٹ جائو‘ قرآن کو اپنا امام اور راہنما بنائو اور مل جل کر ایک قوت بنو ‘ طاقت بنو‘ حزب اللہ بنو‘ پھر منتشر نہ ہو۔ یہ ایک جماعت بنانا ہے ‘جس کے لیے رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((آمُرُکُمْ بِخَمْسٍ: بِالْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَالْھِجْرَۃِ وَالْجِھَادِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ))
’’(مسلمانو!) مَیں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دے رہا ہوں: جماعت (کی شکل اختیار کرنے) کا‘ (پھر اس جماعت میں جو حکم ملے اسے)سننے اور ماننے کا‘ اور ہجرت کا اور جہاد کا۔‘‘
ان پانچ چیزوں سے انقلاب برپا ہو گا۔ یہی مضمون سورۃ التغابن میں بایں الفاظ آیا ہے:
{فَاتَّقُوا اللہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا وَاَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَنْفُسِکُمْ ۭ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰۗئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (۱۶)}
’’پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اپنی حد امکان تک ‘ اور سنو اور اطاعت کرو‘ اور خرچ کرو اپنے بھلے کو۔ اور جو کوئی بچا لیا گیا اپنے جی کے لالچ سے تو یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘
تو پہلے شعوری ایمان پیدا ہو‘ پھر اپنی زندگی میں اور اپنے دائرئہ اختیار میں‘ یعنی اپنے گھر میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ گویا اپنی ذات میں اللہ کے خلیفہ بن جائو‘ اپنے وجود پر اللہ کی حاکمیت نافذ کرو۔ اپنے گھر میں اللہ کے خلیفہ بن جائو‘ اللہ کے احکام اپنے گھر میں نافذ کرو۔ پھر مل جل کر ایک جماعت بنو‘ طاقت بنو‘ حزب اللہ بنو۔ پھر اس کے بعد تیسرا نکتہ یہ کہ:
{ وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ۭ وَاُولٰۗئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (۱۰۴)}
’’اور چاہیے کہ تم سے ایک ایسی جماعت وجود میں آ ئے جو خیر کی دعوت دے‘ نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے۔ اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘
یعنی تمہاری جو اجتماعیت وجود میں آئے گی اسے تین کام کرنے ہوں گے : (i) دعوت الی الخیر(ii) امر بالمعروف‘ اور (iii) نہی عن المنکر۔ سب سے پہلا کام خیر کی دعوت دو‘ خیر کی طرف بلائو! اور سب سے بڑا خیر اللہ کا کلام ہے جس کے بارے میں سورئہ یونس میں فرمایا گیا: {ھُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ(۵۸)} کہ جو دولت تم جمع کرتے ہو‘ جو روپیہ اور مال و اسباب جمع کرنے کی تم تگ و دو کررہے ہو ‘ان سب سے بڑھ کر خیر‘ خیر مطلق یہ قرآن ہے۔ تو دعوت الی الخیر کا مطلب دعوت الی القرآن ہے۔ دوسرا کام ہے امر بالمعروف‘ نیکی کا حکم دو! اور تیسرا نہی عن المنکر ‘ بدی سے روکو!
پھر ان میں سے تیسری چیز ’’نہی عن المنکر‘‘ کے تین درجے رسول اللہﷺ نے بیان فرما دیے ۔ مسلم شریف کی بہت مشہور حدیث ہے جو حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ مَیں نے خود رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
((مَنْ رَآی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ‘ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلَسَانِہٖ‘ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ‘ وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ))

’’جو کوئی بھی تم میں سے کسی منکر کودیکھے تو وہ اپنے ہاتھ سے اسے بدلے! اگر اس کی استطاعت نہ رکھتاہو تو اپنی زبان سے (اس برائی کو روکے!) اور اگر اس کی استطاعت بھی نہ ہو تو اپنے دل سے(اس کے خلاف نفرت رکھے)‘اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔‘‘
یعنی نہی عن المنکر کا پہلا درجہ ’’بالید‘‘ کا ہے-------- کہ کوئی برائی نظر آئے تو اپنے زورِ بازو سے اس کو روک دیا جائے۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب اس برائی سے نمٹنے کے لیے مؤثر قوت موجود ہو۔ بصورتِ دیگر بندئہ مؤمن کا فرض ہے کہ وہ اس قوت کے حصول کے لیے کوشاں ہواور اس کے ساتھ ہی ’’نہی عن المنکر باللسان‘‘ کا فریضہ اداکرتا رہے۔ یعنی زبان سے لوگوں کو روکا جائے کہ خدا کے لیے اس سے باز آ جائو‘اس برائی کو چھوڑدو۔ زبان کے علاوہ قلم اور نشر واشاعت کے دیگر ذرائع بھی اسی ذیل میں آتے ہیں۔ اور اگر اس کی بھی استطاعت نہیں ہے تو کم از کم دل سے تو اسے برا سمجھے‘ برائی کے خلاف دل میں نفرت تو موجود ہو۔ آخر میں فرمایا کہ یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے‘ یعنی اگر یہ بھی نہیں تو ایمان ہی نہیں۔
اسی مضمون کی ایک دوسری حدیث کا ہم ابھی مطالعہ کریں گے‘ اس کے آخر میں الفاظ آئے ہیں: ((وَلَیْسَ وَرَاءَ ذٰلِکَ مِنَ الْاِیْمَانِ حَبَّۃُ خَرْدَلٍ)) کہ اس کے بعد تو ایمان رائی کے دانے کے برابر بھی نہیں! خواہ اپنے آپ کو مؤمن اور متقی سمجھتے رہو‘ لیکن اگر منکر سے نفرت ہی ختم ہو گئی ہے تو ایمان کی یکسر نفی ہو گئی ہے۔ اگر راتوں کی نیند بھی حرام نہیں ہوتی کہ یہ ماحول میں کیا ہو رہا ہے اور مَیں اس کے خلاف کچھ کر نہیں پا رہا‘اگر منکرات کو دیکھ کر چہرے کا رنگ بھی متغیر نہ ہو اور انسان اندر سے تلملا نہ اُٹھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی غیرتِ ایمانی دم توڑ گئی ہے۔ اور حضورﷺ فرما رہے ہیں کہ اس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان باقی نہیں رہا۔ اَعَاذَنَا اللّٰہُ مِنْ ذٰلِکَ!
دوسری حدیث اس سے بھی زیادہ واضح ہے جو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔ یہ بھی صحیح مسلم کی روایت ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کبارِ صحابہؓ اور فقہائِ صحابہؓ میں سے ہیں ۔ فقہ حنفی دراصل فقہ عبداللہ بن مسعودؓ ہے اور حضرت امام ابوحنیفہؒ دو واسطوں سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ((مَا مِنْ نَبِیٍّ بَعَثَہُ اللّٰہُ فِیْ اُمَّۃٍ قَبْلِیْ)) ’’کوئی نبی ایسا نہیں گزراجسے اللہ نے مجھ سے پہلے کسی اُمّت میں مبعوث فرمایا ہو۔‘‘ ((اِلَّا کَانَ لَہٗ مِنْ اُمَّتِہٖ حَوَارِیُّوْنَ وَاَصْحَابٌ)) ’’مگر یہ کہ اس کے لیے اس کی اُمّت میں سے کچھ حواری اور اصحاب ضرور ہوتے تھے‘‘۔گویا ہر نبیؑ کے کچھ نہ کچھ حواری اور اصحاب ضرور ہوتے تھے‘ کم ہوں یا زیادہ۔ بارہ ہوں ‘ ۷۲ ہوں‘ سینکڑوں ہوں یا ہزاروں۔’’حواری‘‘ حضرت عیسیٰ ؑ کے ساتھیوں کو کہا جاتا ہے اور ’’صحابہ‘‘ اور ’’اصحابؓ‘‘ محمد رسول اللہﷺ کے ساتھیوں کو۔اب آگے فرمایا جا رہا ہے کہ یہ حواری اور اصحاب کرتے کیا تھے: ((یَاْخُذُوْنَ بِسُنَّتِہٖ وَیَقْتدُوْنَ بِاَمْرِہٖ)) ’’وہ اُس (نبیؑ) کی سُنّت کو مضبوطی سے پکڑتے تھے اور اُس کے حکم کے مطابق چلتے تھے۔‘‘
((ثُمَّ اِنَّھَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِھِمْ خُلُوْفٌ)) ’’پھر (ہمیشہ ایسا ہوتا رہا کہ) ان کے بعد ایسے ناخلف لوگ آ جاتے ‘‘ -------- جیسے ہم ناخلف ہیں۔آج کے مسلمان پوری دنیا میں اسلام کو بدنام کرنے والے اور اس کی حرمت کو بٹہ لگانے والے ہیں‘ خواہ تعداد میں وہ ۱۳۰ کروڑ ہوں۔ یہ ناخلف لوگ کیا کرتے تھے؟فرمایا: ((یَقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَ وَیَفْعَلُوْنَ مَا لَا یُؤْمَرُوْنَ)) ’’کہتے وہ تھے جو کرتے نہیں تھے‘ اور کرتے وہ تھے جس کا انہیں حکم نہیں دیا گیا تھا‘‘۔یعنی قول و فعل کے زبردست تضاد کا شکار ہوجاتے تھے‘جیسے اس وقت ہمارا حال ہے کہ دعوے بہت بلند بانگ لیکن عمل کے اعتبار سے صفر ہیں۔ عشق ِرسولﷺ کے دعووں میں زمین وآسمان کے قلابے ملائے جا رہے ہیں لیکن خود اپنے وجود اور اپنی شکل و صورت میں بھی سُنّت ِرسولؐ کا التزام نہیں ہے۔ سیرت النبیﷺ کے عنوان سے جلوس نکالا جا رہا ہے اور اس میں بھنگڑا ڈالا جا رہا ہے ۔ ہم وہ کچھ کر رہے ہیں جس سے ہمیں رسول اللہﷺ نے منع فرمایا تھا۔ پھر ((یَفْعَلُوْنَ مَا لَا یُؤْمَرُوْنَ)) سے وہ بدعات اور نئی نئی رسومات بھی مراد ہیں جو بعد کے ادوار میں ایجاد کر لی جاتی ہیں‘ جن کا نہ اللہ کی کتاب میں کوئی حکم ہے‘ نہ اُس کے رسولﷺ کی سُنّت اور صحابہ کرامؓ کے طرزِعمل میں ان کا کوئی ثبوت ملتا ہے۔
جب یہ صورت پیدا ہو جائے تو اب مؤمنین صادقین کو کیا کرنا ہوگا؟آپﷺ نے فرمایا: ((فَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِیَدِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ)) ’’تو جو کوئی ان سے جہاد کرے گا اپنے ہاتھ سے تو وہ مؤمن ہے۔‘‘ ((وَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِلِسَانِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ)) ’’اور جو کوئی ان سے اپنی زبان سے جہاد کرے گا تو وہ بھی مؤمن ہے۔‘‘ ((وَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِقَلْبِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ)) ’’اور جو کوئی بھی ان (ناخلف لوگوں) سے اپنےدل سے جہاد کرے گا تو وہ بھی مؤمن ہے‘‘۔اس کے بعد آپﷺ نےفرمایا: ((وَلَیْسَ وَرَاءَ ذٰلِکَ مِنَ الْاِیْمَانِ حَبَّۃُ خَرْدَلٍ)) ’’اور اس کے بعد تو ایمان رائی کے دانے کے برابر بھی نہیں ہے۔‘‘
تو یہ ہے قرآن حکیم اور احادیث ِ نبویؐ کے حوالے سے اس انقلابی عمل کی تعبیر ‘کہ جب تک وہ جماعت اتنی تعداد میں نہیں ہے کہ وہ چیلنج کر سکے اور میدان میں آ کر مقابلہ کرسکے اُس وقت تک وہ نہی عن المنکر باللسان کرتی رہے گی کہ خدا کے لیے باز آ جائو‘ ان حرام کاموں کو چھوڑ دو‘ بے حیائی کو ختم کرو‘ اخبارات کے صفحات کو عورتوں کی رنگین تصاویر سے مزین نہ کرو! سودی لین دین حرام ہے‘ یہ اللہ اور اُس کے رسولﷺ کے خلاف اعلانِ جنگ ہے‘ اس سے باز آ جائو! اس کے لیے ہاتھ جوڑیں گے‘ خوشامدیں کریں گے۔ پھر مظاہرے کریں گے‘ پلے کارڈ لے کر سڑکوں پر نکلیں گے ‘ ذرائع ابلاغ میں سے جو بھی ہم استعمال کر سکیں گے‘ کریں گے ‘ جو کچھ کہہ سکتے ہیں کہیں گے ‘ جو کچھ چھاپ سکتے ہیں چھاپیں گے‘ آڈیو اور ویڈیوکا استعمال کریں گے۔ یہ سب کچھ نہی عن المنکر باللسان کے درجے میں ہے-------- اور جب کافی طاقت فراہم ہوجائے گی تو پھر میدان میں آئیں گے کہ ہم یہ سب کچھ نہیں ہونے دیں گے۔ پھر ہم منکرات کے خلاف سینہ تان کر کھڑے ہوںگے‘ باطل نظام کو چیلنج کریں گے اور اسے چلنے نہیں دیں گے۔ سسٹم کوبلاک کریں گے‘ یہاں تک کہ ترکِ موالات کریں گے ‘ ٹیکس نہیں دیں گے کیونکہ یہ نظام درست نہیں ہے۔
ظاہر بات ہے کہ اس کے بعد پھر بھٹی دہک اُٹھے گی۔ جب آپ کہیں گے کہ ہم اس باطل نظام کو چلنے نہیں دیں گے تو اس نظام کے ساتھ جن کے مفادات وابستہ ہیں‘ جنہیں اس میں مراعات حاصل ہیں‘ جن کی چودھراہٹیں‘ سیادتیں اور قیادتیں اس کے ساتھ وابستہ ہیں وہ اس کا دفاع کریں گے ع ’’نظامِ کہنہ کے پاسبانو یہ معرضِ انقلاب میں ہے!‘‘ پھرٹکرائو ہوگا -------- یہ ٹکرائو جیسا کہ مَیں نے عرض کیا‘ حضورﷺ کے زمانے میں تو تلوار کا تلوار سے اور انسانوں کا انسانوں سے ہوا‘ لیکن موجودہ دور میں اس ٹکرائو کی جو صورت ہوگی وہ ’’یک طرفہ جنگ‘‘ کی ہوگی۔ یعنی جب آپ سڑک پر نکل کر سسٹم کو بلاک کریں گے تو آپ کو تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا‘ آپ کو یہ تشدد برداشت کرنا ہوگا‘ لیکن مقابلے میں ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں ہوگی۔اگر گولیاں چلتی ہیں تو انہیں سینے پر سہنا ہوگا اور اس راستے میں جان کا نذرانہ دینا ہو گا۔ اسلامی انقلاب کا طریق کار یہی ہے‘ اس کے سوا کسی دوسرے راستے سے اسلام نہیں آ سکتا۔ تو یہ ہے پاکستان کے حالات کے اعتبار سے ہمارا موقف۔
درمیانی عرصے میں کرنے کا کام
اب آیئے چوتھی بات کی طرف۔ جب تک اس ملک میں اسلامی نظام قائم نہیں ہوتا اور یہ بالفعل ایک اسلامی ریاست کی حیثیت اختیار نہیں کرتا اس درمیانی عرصے میں کرنے کا کام کیا ہے؟دعوت کا یہ کام تو ہم اپنی بساط بھر کر رہے ہیں‘یعنی دعوتِ دین‘ توبہ اور تجدید ِایمان کی دعوت‘ اصلاحِ اعمال کی دعوت‘ تنظیم میں شمولیت کی دعوت‘ اسلام کے نظامِ عدلِ اجتماعی کو لوگوں میں متعارف کروانے کے لیے تحریک خلافت کی معاونت کی دعوت -------- لیکن اس عرصے کے دوران کیا ملکی سیاست کے بارے میںہم صرفِ نظر کر لیں یا اس حوالے سے بھی ہماری کوئی ذمہ داری بنتی ہے یا نہیں؟اس ضمن میں ہماری سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ یہ چونکہ بہرصورت ایک مسلمان معاشرہ ہے‘ گو اسلامی ریاست نہیں مگر مسلمان ملک تو ہے‘ یہاں کے بسنے والے ۹۵ فیصد سے زائد نام کے مسلمان تو ہیں‘ محمد رسول اللہﷺ کے نام لیوا تو ہیں‘ کلمہ گو تو ہیں‘ لہٰذا اس کی وقتی سیاست کے حوالے سے بھی ہم پر ایک دینی فریضہ عائد ہوتا ہے۔
مَیں یہ بات آج خاص طور سے بہت وضاحت سے کہہ رہا ہوں ‘کیونکہ بہت سے حضرات مجھے بہت ہی خیر خواہی سے مشورہ دیا کرتے ہیں کہ آپ خواہ مخواہ سیاسی تبصرے کرتے ہیں‘ تجزیے کرتے ہیں اور اس ضمن میں مشورے دیتے رہتے ہیں‘ جبکہ اس کا فائدہ تو کچھ ہوتا نہیں۔ نہ بے نظیر آپ کی سنتی ہے‘ نہ نواز شریف‘ اور نہ ہی صدر اسحاق سنتے ہیں۔ اور تو اور ضیاء الحق صاحب نے نہیں سنی‘ تو اس سے فائدہ کیا؟آپ کیوں خوا مخواہ وقت ضائع کرتے ہیں؟ دوسرے یہ کہ جو بات آپ کرتے ہیںوہ کسی کے حق میں چلی جاتی ہے اور کسی کے خلاف ۔ تو آپ کی بات جس کے خلاف چلی گئی وہ آپ سے ناراض ہو جاتا ہے اور جس کے حق میں چلی گئی اس کا جو مخالف ہے وہ آپ سے ناراض ہوتا ہے‘ تو اس سے فائدہ کیا؟ اس سے تو بہتر ہے کہ آپ خاموش رہیں۔ یہ بات بظاہر بڑی وزنی نظر آتی ہے اور اس کو خلوص کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ ہمارے چاہنے والے‘ ہمارے کام سے دلچسپی رکھنے والے‘ ہمارے خیر خواہ یہ مشورہ دیتے رہے ہیں۔ آج مَیں اس کا جواب دے رہا ہوں‘وہ یہ کہ مَیں یہ کام اپنا دینی فریضہ سمجھ کر کرتا ہوں۔ گویا مَیں اگر ملکی معاملات پر اظہارِ رائے کرتا ہوں تو اپنا دینی فریضہ سمجھ کر ۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ دینی فریضہ تو کتاب و سُنّت کی بنیاد پر ہو سکتا ہے‘ لہٰذا مَیں اس کی دلیل کے طور پر یہ حدیث پیش کر رہا ہوں۔
حضرت تمیم داری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ((اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ)) یعنی دین تو نام ہی نصیحت کا ہے۔ نصیحت کا ترجمہ خیر خواہی بھی ہے‘ خلوص بھی ہے‘ وفاداری بھی ہے اور کسی کی خیر خواہی میں کوئی بات کہنا بھی ہے۔ آپ اپنے چھوٹے کو نصیحت کرتے ہیں کہ دیکھو بھائی یہ جو تم کر رہے ہو صحیح نہیں ہے۔ دیکھو سگریٹ چھوڑ دو‘ اس سے پیسے بھی ضائع ہوتے ہیں اورتم اپنے پھیپھڑے بھی جلا رہے ہو۔ یہ سب چیزیں نصیحت ہیں۔ تو نصیحت کا معنی اصل تو خیر خواہی اور وفاداری ہے‘لیکن اسی خیر خواہی کے جذبے کے تحت آپ کسی کو مشورہ دیتے ہیں تو وہ بھی نصیحت ہےاور اردو میں تو نصیحت کالفظ صرف اسی معنی میں مستعمل ہے۔ تو حدیث کے الفاظ ہیں: ((اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ)) ’’دین تو نام ہی نصیحت کا ہے‘‘۔ قِیْلَ لِمَنْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ ’’پوچھا گیا:اے اللہ کے رسولﷺ! کس کے لیے نصیحت؟‘‘ آپؐ نے جواباً ارشاد فرمایا: ((لِلّٰہِ وَلِکِتَابِہٖ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِاَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ وَعَامَّتَھِمْ)) ’’اللہ کے ساتھ‘ اُس کی کتاب کے ساتھ اور اُس کے رسولؐ کے ساتھ وفاداری اور مسلمانوں کے قائدین اور اُن کے عوام کے ساتھ نصح و خیر خواہی۔‘‘
یہ حدیث جوامع الکلم میں سے ہے۔ رسول اللہﷺ کاارشاد ہے : ((اُوْتِیْتُ جَوَامِعُ الْکَلَمِ)) ’’مجھے (اللہ کی طرف سے) بڑے جامع کلمات عطا کیے گئے ہیں۔‘‘ آپﷺ کااپنا دعویٰ ہے : ((اَنَا اَفْصَحُ الْعَرَبِ)) ’’میں عرب کا فصیح ترین انسان ہوں‘‘۔ عرب کی فصاحت اور بلاغت آپﷺ پر ختم ہے۔ آپؐ کے کلام سے بالاتر تو پھر صرف اللہ کا کلام ہے‘ کوئی اور انسانی کلام حضورﷺ کے کلام سے بالاتر نہیں ہے۔ اس مرتبہ میں نے اس حدیث کو اپنا موضوع بنا کر اس کے الفاظ پر غور کیا تو مجھ پر اس کی عظمت کا عجیب انکشاف ہوا۔ فرمایا گیا کہ تمہاری اولین وفاداری تو اللہ کی ذات کے ساتھ ہے‘ اس میں کوئی شک ہی نہیں۔
دوسری وفاداری اللہ کی کتاب کے ساتھ ہے۔ اور بڑی عجیب بات ہے کہ یہاں کتاب کو رسولؐ پر مقدّم کیا گیا۔ یہ نکتہ قابل غور ہے۔ کتاب اللہ کو مقدّم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کا کلام ہمارے لیے ابد الآباد تک اللہ کے قائم مقام ہے۔ پھر اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ وفاداری‘ چوتھے نمبر پر مسلمانوں کے قائدین اور اماموں کے ساتھ وفاداری اور نصیحت۔ یہاں بھی عجیب نکتہ ہے کہ ’’اَئِمَّۃ الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ ’’اَئِمَّۃ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘ کے ہیں۔ تم مسلمانوں  کے اماموں‘ لیڈروں اور قائدوں کے روبروسچی بات کہتے رہو۔ کسی کو اچھّی لگے یا بری لگے اس کی کوئی فکر نہ کرو ۔ جو تمہارے نزدیک صحیح بات ہے خیر خواہی کے جذبے کے تحت ضرور کہا کرو۔
اور آخر میں فرمایا: ((وَعَامَّتِھِمْ)) ’’اور مسلمان عوام کے ساتھ نصح و خیر خواہی‘‘-----یہاں بھی نوٹ کیجیے کہ مسلمان عوام کو بعد میں لائے ہیں اور مسلمانوں کے قائدین کو پہلے۔ اس لیے کہ جو شخص بھی قائد ہے ‘ وہ خواہ آپ کو پسند ہے یا نہیں‘ وہ مسلمانوں کا امام اورسربراہ تو ہے۔ اس کی چھوٹی سی غلطی لاکھوں کروڑوں مسلمانوں پر اثر انداز ہوسکتی ہے اور اس کا چھوٹا سا صحیح عمل لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کے لیے مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ لہٰذا ائمۃ المسلمین کو عامۃ المسلمین سے مقدّم کیا۔ گویا مسلمانوں کے ائمہ‘ قائدین‘ سربراہ‘ وہ لوگ کہ جن کی طرف مسلمان رہنمائی کے لیے دیکھتے ہیں یا جن کے ہاتھوں میں بالفعل ان کی زمامِ کار ہے انہیں خلوص ‘ اخلاص اور وفاداری کے ساتھ مشورہ دینا اور عام مسلمانوں کو بھی صحیح مشورے دینا لازمی ہے۔
تو یہ پانچ ’’نصیحتیں‘‘ جو اس حدیث میں بیان ہوئی ہیں ـ وہ میرے ایمان کا تقاضا ہے اور مجھ پر فرض کے درجے میں عائد ہیں۔اب کیا مَیں ایک دینی فریضے سے محض اس وجہ سے رک جائوں کہ یہ بات فلاں کو اچھّی نہیں لگے گی‘ فلاں کو خواہ مخواہ مخالفت پرابھار دے گی؟یہی تو نہی عن المنکر باللسان کا فریضہ ہے جو مَیں ادا کر رہا ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ اس وقت جبکہ میری عمر کا ۶۳ واں برس ہے‘ مَیں آخرت کی منزل سے قریب تر ہوں اور دنیا سے اپنی بساط لپیٹ رہا ہوں‘ مَیں پورے انشراحِ صدر کے ساتھ کہہ رہاہوں کہ آج تک میں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ میری بات کس کو اچھّی لگے گی اور کس کو بُری لگے گی۔ مَیں نے ہمیشہ یہ دیکھا ہے کہ میرے نزدیک حق کیا ہے‘ میں اللہ کی عدالت میں اپنی بات کوjustifyکر سکوں گا یا نہیں؟ اور مَیں اپنے ضمیر کو اس کے اوپر مطمئن پاتا ہوں یا نہیں؟اس کے سوا مجھے کسی کی پروا نہیں۔ کسی کو اچھا لگے کسی کو برا لگے۔ چاہے وہ ضیاء الحق کا دور تھا‘ چاہے ایوب خان کا دور تھا اور چاہے وہ بھٹو صاحب کا دور تھا‘ جو بات صحیح سمجھی ہےکہی ہے‘ چاہے وہ عوام کو بری لگے یا اچھّی لگے‘ چاہے کسی قائد کو اچھّی لگے یا بری لگے۔ اب جب بھی کوئی سیاسی مشورہ دیتا ہوں وہ لامحالہ وقتی طو رپر کسی کے حق میں جاتا ہے اورکسی کے خلاف‘ تو اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سب کو معلوم ہے کہ میری کسی سے دوستی نہیں‘ کسی سے دشمنی نہیں‘ مَیں کسی کا حلیف نہیں‘ کسی کا حریف یا مخالف نہیں۔ ہماری دوستی صرف پاکستان اور اسلام کے ساتھ ہے۔ اور میں بیان کر چکا ہوں کہ ہم ان دونوں کو ایک وحدت سمجھتے ہیں‘ کیونکہ پاکستان کی وجہ جواز بھی صرف اسلام ہے اور اس کی بقا اور استحکام کا انحصار بھی صرف اسلام پر ہے۔ اس حوالے سے جان لیجیے کہ میرے نزدیک اس انقلابی جدّوجُہد کے ساتھ ساتھ‘ ملک اور قوم کے مسائل پر غور و فکر کرتے ہوئے‘ جسے میں نے نظری سیاست کہا ہے‘ اپنی آراء پیش کرنا میرا دینی فریضہ ہے اور میں نے ہمیشہ وہی کہا ہے جسے اس ملک کے حق میں بہتر سمجھا ہے۔

پاکستانی سیاست کے بارے میں مستقل موقف

اب اس ضمن میں مَیں کچھ مشورے پیش کر رہا ہوں۔ ان میں کچھ میرے مستقل مشورے ہیں اور میرے سننے والے اور پڑھنے والے گواہی دیں گے کہ جب سے وہ مجھ سے واقف ہیں وہ یہ مشورے سن رہے ہیں۔
میرا پہلا مستقل مشورہ اس ملک کے اعتبار سے یہ ہے کہ یہاں مارشل لاء کبھی نہیں آنا چاہیے۔ اس لیے نہیں کہ مارشل لاء حرام ہے۔ میرے نزدیک سارے مروّجہ نظام ایک جیسے حرام ہیں۔ مغربی جمہوریت سب سے بڑی حرام شے ہے۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ پھر مارشل لاء سے کون سی قیامت آجائے گی؟یہ دراصل حلال و حرام کا مسئلہ نہیں ہے‘ بلکہ یہ مسئلہ ملکی حالات کے حوالے سے ہے۔ اسلام کی رو سے تو مغربی جمہوریت کفر ہے اور اس دور کا سب سے بڑا شرک ہے‘ کیونکہ وہ حاکمیت عوام کے تصور پر مبنی ہے۔ ہم تو خلافت ِعوام کے قائل ہیں‘ حاکمیت ِعوام کو شرک سمجھتے ہیں۔ لیکن ہم مارشل لاء کے اس لیے مخالف ہیں کہ مارشل لاء اس ملک کے لیے زہر قاتل ہے اور اس کا ایک خاص سبب ہے۔ ترکی جیسے ملک کے لیے یہ سم قاتل نہیں ہے‘ لیکن ہمارے لیے ہے۔ اس لیے کہ ہمارا یہ ملک اسلام کے نام پر‘ لیکن الیکشن کے ذریعے وجود میں آیا تھا۔ تو اس کی پیدائش (genesis)میں دو چیزیں شامل ہوئیں۔ ایک تو اسلام کا نعرہ ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا اِلٰہ الا اللہ!‘‘ اور دوسرے ووٹ کا ذریعہ۔ ۱۹۴۶ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کی فیصلہ کن کامیابی ہی سے پاکستان معرضِ وجود میں آیا تھا!
پھر اس مسئلے کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ہماری فوج ایک خاص علاقے سے تعلق رکھتی ہے۔ یعنی صوبہ سرحد کے وسطی اضلاع (مردان‘ کوہاٹ اور پشاور) اور پنجاب کے شمالی علاقوں سے۔ ہماری فوج میں نہ سندھ سے کوئی نفری شامل ہے نہ بلوچستان سے۔ لہٰذا جب بھی فوج کی حکومت قائم ہوتی ہے تو وہ ایک علاقے کی حکومت سمجھی جاتی ہے۔ اس سے دوسرےعلاقوں میں ایک احساسِ محرومی پیدا ہو جاتا ہے کہ ایک خاص علاقہ ہم پر حکومت کر رہا ہے۔ اسی احساسِ محرومی نے ایوب خان کے زمانے میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے لیے فضا ہموار کی۔ہمارے مشرقی پاکستانی بھائیوں کے جذبات یہ تھے کہ ہم پنجابی کے غلام بننے کے لیے تو پاکستان میں شامل نہیں ہوئے تھے۔یحییٰ خان کے مارشل لاء کو وہ ’’پنجابی فوج کی حکومت‘‘ کا نام دیتے تھے۔ بیچارے مولوی فرید احمد مرحوم کی اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے‘ وہ سچے مسلمان اور پکے پاکستانی تھے۔ وہ جب ڈھاکہ ایئر پورٹ پر اترے تو ان کے خلاف یہ نعرے لگائے گئے :’’پنجابار دلال پھری جائو!‘‘ (اے پنجاب کے دلال واپس چلے جائو!) تمہیں یہاں ڈھاکہ ایئر پورٹ پر اترنے کا کوئی حق حاصل نہیں! اس لیے کہ ان کے نزدیک مارشل لاء کا مطلب پنجاب کی حکومت تھا۔ یہی مسئلہ آج بھی جوں کا توں موجود ہے۔
مارشل لاء کے بارے میں میرا یہ موقف اتنا مستقل ہے کہ جب ۱۸ /اگست ۱۹۸۰ء کو ضیاء الحق مرحوم سے میری پہلی ملاقات ہوئی تو میں نے اُسی وقت یہ کہا تھا کہ مارشل لاء اس ملک کے لیے خود کشی کے مترادف(suicidal)ہے ۔ پھر ۱۹۸۲ء میں مَیں نے ضیاء الحق صاحب کی شوریٰ میں اعلانیہ طور پر کہا کہ اگر آپ نے یہاں انتخابی عمل کو روکے رکھا تو آپ’’ الذوالفقار‘‘ کی تشدد پرست سرگرمیوں کو جواز عطا کر دیں گے۔ ہم ’’پی ایل او‘‘ کو اپنی تشددپسندانہ سرگرمیوں میں اسی لیے حق بجانب قرار دیتے ہیں کہ ان کے لیے کوئی اور راستہ کھلا نہیں رہا تھا۔ یہی معاملہ آج ہے کہ آپ نے الیکشن کا راستہ روک کر لوگوں کے لیے اظہارِ رائے اور اپنے حقوق کے حصول کاذریعہ بند کر دیا ہے‘ جس کا ردعمل ہو کر رہے گا۔ پھر دسمبر۱۹۸۲ء میں تو مَیں نے انہیں وہ خط بھی لکھ دیا تھا‘ جوجنگ میں بھی چھپا تھا‘ کہ اگر آپ نے مارشل لاء کا یہ تسلسل برقرار رکھا تو مجھے اندیشہ ہے کہ مستقبل کا مؤرخ کہیں یہ نہ لکھے کہ ۱۹۴۷ءمیں وقت کی جوعظیم ترین مسلمان مملکت قائم ہوئی تھی اسے پہلے تو ۱۹۷۱ء میں دولخت کیا ایک شرابی اور زانی ٹولے (یحییٰ خان اینڈ کمپنی) نے اور پھر اس کے مزید حصے بخرے ایک ایسے شخص کے ہاتھوں ہوئے جو نمازی اور پرہیزگار آدمی تھا۔ بہرحال مارشل لاء کے بارے میں میرا یہ موقف آج نہیں بنا بلکہ مستقل اور دائم ہے اور ۱۹۸۰ءسے ۱۹۹۳ء تک کم سے کم ۱۳ برس کا تسلسل تو میں ریکارڈ کے ساتھ ثابت کر سکتا ہوں۔
اس ضمن میں میرا دوسرامشورہ یہ ہے کہ جب تک یہاں اسلامی انقلاب نہیں آتا‘ اسلامی ریاست قائم نہیں ہوتی‘ یہاں عہد حاضر کے معروف اور مسلمہ معیارات پر سیاسی عمل یعنی انتخابی عمل کو جاری رہنا چاہیے۔ غیر مشروط‘ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا تسلسل ملکی سالمیت کے لیے ناگزیر ہے۔ میری اس بات پر عام طو رپر ایک اعتراض وارد کیاجاتا ہے کہ ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ الیکشن کے ذریعے اسلام نہیں آ سکتا‘ دوسری طرف آپ کاموقف یہ ہے کہ الیکشن ہوتے رہنے چاہئیں ‘تو ان باتوں میں تضاد ہے۔ اس کا جواب میں ایک سادہ سی مثال سے دیا کرتا ہوں کہ ایک ہے کسی شخص کا مسلمان ہونا‘ ایک ہے اس کا زندہ رہنا۔ ان دونوں کے تقاضے جدا ہیں یا نہیں؟زندہ رہنے کے لیے ہر انسان کو‘ خواہ وہ مسلمان ہو‘ ہندو ہو‘ سکھ ہو‘ پارسی ہو‘ عیسائی ہو‘ تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے‘ یعنی ہوا‘ پانی اور غذا۔ ان میں سے آپ ایک شے بھی روک دیں گے تو وہ مرجائے گا۔ ہوا رُک گئی تو چند منٹوں میں ختم ‘ پانی رُک گیا تو چند دنوں میں ختم اور غذا رُک گئی تو شاید چند ہفتے گزار لے‘ لیکن آخر کار مر جائے گا‘ چاہے وہ مومن ہو چاہے کافر۔ تویہ زندہ رہنے کے تقاضے ہیں‘ جبکہ مسلمان ہونے کے تقاضے کچھ اور ہیں۔ اس کے لیے ایمان چاہیے۔ دل میں کسی قدر یقین والا ایمان ہوگا تبھی تو وہ مسلمان بنے گا۔ اسی پر قیاس کر لیجیے کہ پاکستان کو اسلامی ریاست بنانے کے تقاضے کچھ اور ہیں (یعنی منہج ِانقلابِ نبوی ﷺپر مبنی انقلابی جدّوجُہد) اور پاکستان کی سالمیت کو برقرار رکھنے کے تقاضے کچھ اور ہیں۔ اگر یہاں پر آپ نے انتخابی عمل کو روکے رکھا یا مشکوک بنا دیاجسے عوام کا اعتماد حاصل نہ ہوا تو یہ اس ملک کے لیے خودکشی کے مترادف ہے۔اس کے نتیجے میں‘ خاکم بدہن‘ اس کے ٹکڑے ہو جائیں گے‘ حصے بخرے ہوجائیں گے۔ چنانچہ یہ عمل نہ صرف جاری رہنا چاہیے بلکہ اس انداز سے جاری رہنا چاہیے جیسے انگریزی کا مقولہ ہے:
" Justice should not only be done, it should also appear to have been done."
میرا تیسرا مشورہ اگرچہ ذرا ضمنی قسم کا ہے لیکن بہت اہم ہے۔ اور یہ بات شاید بعض لوگوں کو کڑوی بھی لگے۔ وہ یہ ہے کہ انتخابی میدان میں یا تو مذہب کا نعرہ کوئی نہ لگائے‘ اس لیے کہ اس طرح مذہب ایک الیکشن ایشو اور پارٹی ایشو بن جائے گا اور یہ بہت خوفناک بات ہے۔ اس طرح آپ کے سیاسی مخالف مقابلے میں آ کر لامحالہ مذہب کے خلاف بولنے پر مجبور ہو جائیں گے -------- اور اگر مذہب کا نعرہ لگانا ہی ہے تو اس کی شرطِ لازم یہ ہے کہ تمام مذہبی سیاسی جماعتیں متحد ہو کر ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر آجائیں۔ اس طرح چونکہ ووٹ تقسیم نہیں ہوں گے‘ لہٰذا کامیابی کے کسی حد تک روشن امکانات ہوں گے۔ اگر آپ کو مذہب کی بنیاد پر ہی قوم کی سیاسی صف بندی کروانی ہے تو یہ مذہب چار جگہوں پر تقسیم تو نہ ہو کہ یہ مولانا نورانی میاں کا مذہب ہے‘ یہ مولانا فضل الرحمٰن کا مذہب ہے‘ یہ قاضی حسین احمد کا مذہب ہے‘ اور یہ اہل حدیث حضرات کا مذہب ہے۔اس صورت میں تو تباہی ہی تباہی اور بربادی ہی بربادی ہے۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں مذہبی سیاسی جماعتوں کا اس طرح کا اتحاد محال ہے‘ جو نہ کبھی ہوا ہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ ہمارے ہاں تو یہ ہوتا ہے کہ ہر مذہبی جماعت کسی سیکولر جماعت کے ساتھ تو جڑجاتی ہے لیکن دو مذہبی جماعتیں آپس میں نہیں جڑتیں۔ میرے نزدیک یہ بہت بڑی بات ہوئی ہے جو جمعیت علماء پاکستان (نورانی گروپ) اور جمعیت علماء اسلام (فضل الرحمٰن گروپ) ابھی تک آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ لیکن ان کا اصل ٹیسٹ بھی الیکشن میں ہو گا۔ اگر انتخابات میں بھی یہ اتحاد برقرار رہا تب واقعی اسے اتحاد کہا جائے گا۔ اتحادی جماعتوں کا اصل جھگڑا ہی انتخابات میں ہوتا ہے اور یہ جھگڑا بسا اوقات صرف ایک سیٹ پر ہو جاتا ہے۔اس وقت تو واقعی صورت حال یہ ہے کہ اتنے فرنٹ اور محاذ وجود میں آ چکے ہیں جتنی سیاسی جماعتیں ہیں‘ لہٰذا اس کا نتیجہ وہی ’’ڈھاک کے تین پات‘‘ کی صورت میں نکلے گا جو پہلے نکلتا رہا ہے کہ مذہب کے حامیوںکے ووٹ تقسیم ہو جائیں گے اور سیکولر قوتوں کو فتح حاصل ہو جائے گی۔ گویا ’’راج کرے گا خالصہ .....‘‘
ان تین مشوروں کی روشنی میں اب ہمیں بحالاتِ موجودہ کیا کرنا ہوگا! سب سے پہلی بات جو مَیں ۱۹۹۰ء کے الیکشن کے بعد کہہ رہا ہوں یہ ہے کہ اس الیکشن کا مینڈیٹ مشکوک تھا‘ لہٰذا ایک غیر جانبدارانہ نگران حکومت کے زیرانتظام نئے سرے سے الیکشن کرائے جائیں۔ مجھے بے نظیر کی قومی حکومت کی تجویز سے شدید اختلاف ہے‘ اس لیے کہ قومی حکومت کا چلانا بہت مشکل شے ہے۔ ہم تو یہاں ایک پارٹی کی حکومت نہیں چلا سکتے‘ قومی حکومت چلانا تو اس سے د س گنا زیادہ مشکل کام ہے۔ پھر یہ کہ اس قومی حکومت میں چونکہ سب پارٹیاں شریک ہوں گی لہٰذ ا ان کے لوگ اپنی اپنی پارٹیوں کے لیے کام کریں گے۔ میرے نزدیک غیر جانبدار حکومت یا تو ایسے ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل ہو جن کی کوئی سیاسی وابستگیاں نہ ہوں‘ یا ایسے ریٹائرڈ فوجی جرنیلوں پر مشتمل ہوجو سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوں اور فوج کی نگرانی میں انتخابات ہوں۔ اس ایک مسئلہ میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ وقتی طور پر بے نظیر کے ساتھ میرا اتفاقِ رائے ہے ‘یعنی فوج کے ذریعے سے انتخابات کرائے جائیں۔ آخر ہمارے ملک کے اندر کوئی ارضی یا سماوی آفت آجاتی ہے تو فوج کو بلاتے ہیں یا نہیں ؟کہیں کوئی سیلاب آ جائے یا زلزلہ آ جائے تو امدادی کارروائیوں کے لیے فوج کو طلب کیا جاتا ہے یا نہیں؟ چند برس قبل بشام اور کوہستان میں زلزلہ آیا تھا تو فوج ہی گئی تھی۔ پچھلے سال پنجاب میں سیلاب آیا تو فوج ہی آئی تھی۔ سندھ میں ڈاکوئوں کا مسئلہ تھا تواس سے بھی تاحال فوج ہی نمٹ رہی ہے۔ انتخابات کامسئلہ تو ان سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ اس ملک میں سیاسی عمل جو کہ پٹڑی سے اترا ہوا ہے اس کو صحیح لائن پر چڑھایا جائے۔ تو میرے نزدیک انتخابات کے لیے فوج کی خدمات حاصل کرنا لازم ہے‘ اسی سے اعتماد قائم ہو گا اور الیکشن منصفانہ ہوں گے۔
اب یہ بھی جان لیجیے کہ ۱۹۹۰ء کے انتخابات کا مینڈیٹ میرے نزدیک کن بنیادوں پر مشکوک ہے؟ایک یہ کہ وہی غلام اسحاق خان جس کے اس وقت خاکے اُڑ رہے ہیں‘ کارٹون بن رہے ہیں‘ جس کو تھوک کے حساب سے گالیاں دی جا رہی ہیں اس نے اُس وقت بھی ایسا ہی کھیل کھیلا تھا جو کچھ لوگوں کے حق میں پڑ گیا تو اسے بہت ہی نیک‘ مدبر اور سینئر سیاستدان کہا گیا اور آج اس کا کھیل کسی کے خلاف چلا گیا تو گویا ہر برائی اس کے سر آ گئی۔ آدمی تو وہی ہے یا نہیں؟ کیا اس کی سرشت بدل گئی کہ پہلے فرشتہ تھا‘ اب شیطان ہو گیا۔ وہی آدمی ہے‘ یہی کھیل اس نے اُس وقت کھیلا تھا۔ ایک مخالف پارٹی کےجوبدترین دشمن ہو سکتے تھے ان سب کو نگران حکومتوں میں بٹھا دیا تو ایسی نگران حکومتوں کے تحت ہونے والے الیکشن پرکوئی اعتماد ہو سکتا ہے؟دوسرے یہ کہ اب یہ راز طشت ازبام ہو چکا ہے کہ’’ آئی جے آئی‘‘(اسلامی جمہوری اتحاد) آئی ایس آئی نے بنوائی تھی۔ ملک کے سب سے زیادہ حساس ادارے کے سب سے بڑے حساس شعبے نے سیاست میں عمل دخل دیا اور الیکشن کے لیے ’’آئی جے آئی‘‘ بنوائی۔ تو کیا اب بھی آپ کہیں گے کہ الیکشن کا مینڈیٹ صحیح تھا؟ تیسرے یہ کہ ’’شَھِدَ شَاھِدٌ مِّنْ اَھْلِھَا‘‘ کے مصدا ق خود اُس وقت کے نگران وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے۔ اور آخری بات کہہ رہا ہوں کہ یہ مینڈیٹ جیسا کچھ بھی تھا وہ کسی پارٹی یا کسی شخص کو نہیں ملا تھا‘ بلکہ وہ’’ آئی جے آئی‘‘ کو ملا تھا اور اسلام کے نام پر ملا تھا۔ نہ یہ نواز شریف کو ملا تھا اور نہ مسلم لیگ کو۔ وہ مشکوک مینڈیٹ بھی اب ختم ہو چکا‘ کیونکہ آئی جے آئی سے ’’جے آئی‘‘ (جماعت اسلامی) بھی نکل چکی ہے اور ’’جے یو آئی‘‘ (جمعیت علماءِ اسلام) بھی۔ اب اس میں رہ کیا گیا؟
جماعت اسلامی بحیثیت مجموعی‘ اور جے یو آئی‘ اہل حدیث اور جے یو پی کے دھڑے جمع ہو گئے تو ’’آئی جے آئی‘‘ بنی تھی جس نے مذہب کےنام پر الیکشن لڑا۔ الیکشن جیت کر نواز شریف نےمذہب سے غداری کی۔ اس نے ’’نفاذِ شریعت ایکٹ‘‘ وہ پاس کروایا جس میں سود کو برملا جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ اسی لیے میاں طفیل محمد صاحب نے برسرعام اپنی جماعت کی قیادت کو ڈانٹا تھا کہ ’’تمہاری مت ماری گئی تھی کہ تم نے اس نام نہاد نفاذِ شریعت ایکٹ پر دستخط کر دیے؟‘‘ تواسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت میں یہ تماشا بھی ہوا کہ سود کو جاری رکھنے کے لیے ایک قانون بنایا گیا اور اس کا نام ’’نفاذِ شریعت ایکٹ‘‘ رکھا گیا۔ پھر ’’آئی جے آئی‘‘ سے جماعت اسلامی بھی علیحدہ ہو گئی اور جے یو آئی بھی تو ’’آئی جے آئی‘‘ بھی ختم ہوئی۔گویا اول تو واقعہ یہ ہے کہ وہ مینڈیٹ تھا ہی داغدار‘ مشکوک اور ناقابل اعتماد ‘ پھر جتنا تھوڑا سا تھا وہ بھی ان اسباب کی بناء پر ختم ہو چکا جو میں نے ابھی گِنوائے ہیں۔ لہٰذا موجودہ حکومت کے قائم رہنے کا کوئی جواز ہے ہی نہیں۔
مَیں اس سے کوئی بحث نہیں کر رہا کہ صدر نے جو اسمبلی توڑی تو صحیح توڑی یا غلط‘نہ مَیں عدالت عظمیٰ کے فیصلہ پر کوئی تبصرہ کر رہا ہوں‘نہ اس پر اظہارِ رائے کر رہا ہوں کہ اسے اس کا حق حاصل تھا یا نہیں۔ میرے نزدیک تو جڑ بنیاد ہی سے یہ حکومت کوئی حقیقی جواز نہیں رکھتی۔ چنانچہ بہترین صورت یہ ہے کہ جلد از جلد اس ملک کے اندر عام انتخابات کروائے جائیں۔ ہمارا سیاسی بحران روز بروز گہرے سے گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا میں پاکستان کا مذاق اُڑ رہا ہے ۔ جو کچھ آج ہو رہا ہے ایسا آج تک کبھی نہیں ہوا تھا۔ ویسے تو ہماری سیاسی تاریخ کا اس سے بھی بدتر باب ملک غلام محمد جیسے بیوروکریٹ کا دور تھا‘ لیکن اس کی باتیں اکثر و بیشتر لوگوں کے علم میں نہیں آئی تھیں اور ویسے بھی اُس وقت تک عالمی پریس اور ذرائع ابلاغ میں پاکستان کا ابھی اتنا چرچا نہیں تھا۔ جو کچھ ہو رہا تھا وہ ڈھکا چھپا کچھ لوگوں کو معلوم تھا۔ یہ تواب ’’شہاب نامہ‘‘ میں پڑھیے کہ اُس وقت کون شخص کس طور سے حکومت کر رہا تھا۔ ایک مفلوج شخص جس کی رال ٹپکتی رہتی تھی اور بات کر نہیں سکتا تھا وہ یہاں کے گورنر جنرل کی حیثیت سے مختارِ مطلق بن کر بیٹھا ہوا تھا۔ اسی طرح کا مسئلہ آج ہے‘ دنیا کے اندر پاکستان کی بہت رسوائی ہو رہی ہے۔ آپ کی ایڈمنسٹریشن کا بیڑا غرق ہو چکا ہے۔ اب اس کو اسی طریقے سے طول دینا ملک کے حق میں ہرگز مفید نہیں ہے‘بلکہ سخت نقصان دہ ہے۔چنانچہ یہاں عام انتخابات جلد از جلد ہونے چاہئیں۔ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن میں ہونے چاہئیں۔
مجھے یہ ملک اسلام کے مستقبل کے اعتبار سے بہت عزیز اور بہت پیارا ہے۔ اس حوالے سے نعیم صدیقی صاحب کا وہ شعر میں نے بارہا سنایا ہے ؎
اے آندھیو سنبھل کے چلو اِس دیار میں!
اُمید کے چراغ جلائے ہوئے ہیں ہم
اس مملکت میں ابھی تک ہماری امید کے چراغ جل رہے ہیں۔ شاید اللہ تعالیٰ اس قوم کا رخ درست کر دے‘ زبردستی اسے سیدھے راستے پر ڈال دے اور اسے اس منزل کی جانب موڑ دے جس پر پہنچنے کے ارادے سےسفر کا آغاز کیا گیا تھا کہ ع ’’کبھی بھولی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو‘‘۔اس لیے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا تھا اور بے شمار قربانیاں دے کر بنا تھا۔ اور پھر اس خطے کی چار سو برس کی تاریخ میرے سامنے ہے۔ گیارہویں صدی ہجری سے لے کر چودھویں صدی ہجری تک چار سو برس کا تجدید دین کا جو سارا اثاثہ ہے اس کی وارث یہی سرزمین پاک و ہند ہے۔ حضرات مجدد الف ثانی ‘ شاہ ولی اللہ دہلوی‘ سید احمد بریلوی اور شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہم اللہ جیسے مجددین ملت اسی سرزمین میں پیدا ہوئے۔چودھویں صدی ہجری کے دوران شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کے علاوہ علّامہ اقبال جیسے مفکر‘ مولانا مودودیؒ جیسے مصنف اور مولانا الیاسؒ جیسے مبلغ کے برابر کی شخصیتیں پورے عالم اسلام میں کہیں نظر نہیں آتیں۔ یہ بہت بڑا ورثہ ہے‘ بہت بڑی وراثت ہے جس کی یہ قوم امین ہے۔
اس ضمن میں بھارت کے مسلمان نے تو پاکستان بنوا کر گویا اپنا فرضِ کفایہ ادا کر دیا تھا‘ اب ذمہ داری کا سارا بوجھ پاکستانی مسلمان کے کندھے پر ہے۔ اسے کاش کہ احساس ہو جائے‘ کاش کہ ہوش آ جائے! لیکن اگر خدانخواستہ یہ ملک ہی ٹکڑے ہو گیا‘ ملکی سالمیت ہی باقی نہ رہی‘ کوئی حصّہ سندھو دیش بن گیا‘ کوئی گریٹر بلوچستان میں ضم ہوگیا‘ کوئی پختونستان میں جذب ہو گیا اور کوئی سکھا شاہی کی نذر ہو گیا تو قیامِ نظامِ اسلام کا خواب کیسے شرمندئہ تعبیر ہو سکےگا؟میں نے سکھا شاہی کی بات اس لیے کی ہے کہ مَیں یہ یقین کے ساتھ جانتا ہوں کہ خدانخواستہ پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچا اور اس کی balkanization ہوئی تو سب سے بڑی آفت پنجاب پر آئے گی اور وہ آفت سکھاشاہی کے دوبارہ لوٹ آنے کی صورت میں ہو گی۔ اس لیے کہ سکھ اس وقت بہت بڑی زندہ قوم بن چکے ہیں۔ انہوں نے خالصتان کی تحریک کو اپنےخون سے سینچا ہے۔ اس دور میں سب سے زیادہ خون افغان قوم نے دیا ہے اور اس کے بعد سکھ قوم نے ‘ اور یہ حقیقت ہے کہ جو قوم خون دینا سیکھ لے اس میں بڑی جان پیدا ہو جاتی ہے۔ اور یہ سکھ قوم اگر کبھی اٹھ کھڑی ہوئی تو اس کی یلغار کا رخ مغربی پنجاب کی طرف ہو گا۔ ستلج کے پار تو اس کی عظمت کبھی رہی ہی نہیں۔ اس کی اصل عظمت کے نشان تو اسی مغربی پنجاب میں ہیں۔ ان کے ہیرو رنجیت سنگھ کی سمادھی لاہور میں بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ کے درمیان موجود ہے۔ اسی طریقے سے بابا گرونانک کی جنم بھومی ننکانہ صاحب ضلع شیخوپورہ میں ہے۔ پنجہ صاحب شمالی پنجاب میں ہے۔ ہری پور‘ ہری سنگھ نلوہ کا آباد کردہ شہر ہے اور مانسہرہ راجہ مان سنگھ کا ’’سہرا‘‘ ہے۔ ان کی تو ساری عظمت رفتہ کی تاریخ یہیں سے وابستہ ہے‘ اُدھر کیا ہے؟تو اللہ نہ کرے‘ خاکم بدہن ‘ اس ملک کو اب کوئی زک پہنچی تو سب سے بڑا نقصان پنجاب کو برداشت کرنا ہوگا‘ کیونکہ اس کے حصے میں سکھا شاہی آئے گی۔ باقی جس کا جو حشر ہو گا وہ ہوگا۔ سندھ شاید سب سے زیادہ نفع میں رہے کہ وہ ساحل سے ملحقہ علاقہ ہے ‘ خشکی میں محصور (land locked) تو نہیں ہے۔ بلوچستان بھی نفع میں رہے گا کیونکہ اس کے پاس ساحل کے علاوہ بے حساب معدنی دولت بھی ہے جس کی وہ بڑی سے بڑی قیمت وصول کر سکتا ہے۔ پٹھانوں کے لیے پختونستان بن سکتا ہے جس کے لیے نسلی او رلسانی بنیاد موجود ہے۔ گویا وہی بات ہو گی جو کبھی اکبر الٰہ آبادی نے کہی تھی ؎
مرزا کے اتحاد کو مجلس کی ہائے ہے
ہندو کے اتحاد کو گنگا ہے گائے ہے
پر شیخ جی کے واسطے مرکز کوئی نہیں
ہر پیر ہر جواں کی جداگانہ رائے ہے
بہرحال اللہ نہ کرے کہ وہ برا دن آئے۔
اور مَیں یہ مشورہ جو دیتا ہوں کہ اس ملک میں دنیا کے مسلمہ معیارات کے مطابق منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابی عمل کو جاری رہنا چاہیے وہ اسی لیے ہے کہ اگرچہ اس عمل سے اسلام نہیں آئے گا‘لیکن یہ ملک تو باقی رہے گا اور اس کے استحکام کے لیے اسلام کی جدّوجُہد کرنے کے مواقع باقی رہیں گے۔ اور اگر خدانخواستہ اس ملک کے حصے بخرے ہوجائیں‘ یا خاکم بدہن‘ کہیں یہاں اغیار کی بالادستی قائم ہو جائے تو معاذ اللہ ثم معاذ اللہ‘ ہو سکتا ہے یہاں سپین کی تاریخ دہرائی جائے اور جنوبی ایشیا سےمسلمانوں کے خاتمے کے لیے ان کے نسلی صفایا (ethnic cleansing) کا وہی عمل شروع ہو جائے۔ میری کتاب ’’استحکامِ پاکستان اور مسئلہ سندھ‘‘ میرے ان مضامین پر مشتمل ہے جو پہلےروزنامہ ’’جنگ‘‘ میں چھپے تھے۔ اس کتاب کے سیکنڈ ٹائٹل پر میں نے یہ جملہ لکھا تھا:
’’۹۳ھ مطابق ۷۱۲ء میں اسلام بیک وقت برعظیم ہند میں براستہ سندھ (محمد بن قاسمؒ کی قیادت میں) اور برعظیم یورپ میں براستہ سپین (طارق بن زیادؒ کی قیادت میں) داخل ہوا تھا۔ سپین سے اسلام اور مسلمانوں کا خاتمہ ہوئے پانچ سو برس ہو چکے ہیں! کیا اب وہی تاریخ سندھ میں بھی دہرائی جانے والی ہے ؟ ‘‘
آپ کو معلوم ہےکہ سپین میں مسلمانوں کی حکومت ۸۰۰ برس تک رہی تھی لیکن پھر وہاں سے اسلام اور مسلمانوں کا صفایا ہو گیا۔ خدانخواستہ‘ خدانخواستہ اگر پاکستان قائم نہ رہا تو بعینہٖ وہی تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی اور اس علاقے سے اسلام‘ پاکستان اور مسلمانوں کے نام کا خاتمہ ہو جائے گا۔ میرا یہی احساس مجھے مجبور کرتا ہے کہ ملکی سیاسی حالات کے تناظر مَیں جو بھی سیاسی مشورہ میں صحیح سمجھتا ہوں وہ مَیں دیتا ہوں اور اسے اپنا ایک دینی فریضہ سمجھ کر دیتا ہوں۔
اس سلسلے کی آخری بات مجھے یہ کہنی ہے کہ ملک کی سیاسی صورت حال میں اس وقت جوتبدیلی آئی ہے اس کا بھی ہمیں پوری طرح شعو رحاصل ہونا چاہیے۔ اس تبدیلی کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ نواز شریف صاحب بھی اپنی ذاتی حیثیت میں ایک قومی قائد بن کر سامنے آ چکے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک ہمارے ہاں ایک خلا تھا‘ کیونکہ یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہاں سیاسی قوت ایک ہی ہے اور وہ ہے بے نظیر اور پیپلز پارٹی۔ اس کے مقابلے میں کوئی دوسری سیاسی قوت موجود نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کا مقابلہ ہمیشہ ’’آئی جے آئی‘‘ جیسے اتحاد بنا کر کیا گیا۔ لیکن اب نواز شریف صاحب اپنی ذاتی حیثیت میںایک قومی لیڈر بن چکے ہیں اور ملک کا ایک خاص طبقہ یعنی تاجر اور صنعت کار طبقہ ان کی پشت پر ہے اور شہروں کے اندر سیاست اسی طبقے کے ہاتھ میں ہے۔مَیں سمجھتا ہوں کہ نواز شریف صاحب کے لیے فریش مینڈیٹ لینے کا یہ بہترین موقع ہے۔ مَیں نے انہیں ایک مشورہ اُس وقت بھی دیا تھا جب مرکز میں بے نظیر کی حکومت بنی تھی اور وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے تھے کہ خدا کے لیے آپ وزارتِ اعلیٰ کو اہمیت نہ دیں‘ بلکہ آپ مسلم لیگ کو منظم کریں۔ خدا نے آپ کو اس کی صلاحیت دی ہے‘ آپ محنت کر سکتے ہیں‘ بھاگ دوڑ کر سکتے ہیں لہٰذا آپ پارٹی کو منظم کریں۔ آج مَیں ان کو یہ مشورہ دے رہا ہوں کہ انہیں عام انتخابات کروا کے نئے سرے سے عوامی مینڈیٹ حاصل کر لینا چاہیے۔ اس وقت ملک میں ان کے حق میں جتنی فضا سازگار ہے شاید اس کے بعد یہ پوزیشن برقرار نہ رہے۔ اس لیے کہ چاہے پارلیمانی سیاست ہو یا صدارتی سیاست ‘ دنیا کے مروّجہ اور مسلّمہ سیاسی معیارات کے اعتبار سے جمہوری نظام میں دو مستحکم سیاسی پارٹیوں کا ایک دوسرے کے مدّمقابل ہونا ضروری ہے۔ اگر ایک ہی پارٹی ہو گی تو سیاست کی گاڑی نہیں چلے گی۔ سیاست کے میدان میں ابھی مونوریل(monorail) دریافت نہیں ہوئی۔ اس میدان میں تو دو پہیے چاہئیں۔ اور مَیں سمجھتا ہوں کہ اب ان میں وہ بصیرت بھی پیدا ہو چکی ہے جو ایک سیاسی قائد کے لیے ضروری ہوتی ہے۔
انہوں نے بڑی پیاری بات کہی ہے کہ اب ہمیں یہ باتیں نہیں کرنی چاہئیں کہ کون مارشل لاء کی چھتری کے نیچے پروان چڑھا اور مارشل لاء کا سہارا لے کر اقتدار میں آیا تھا۔ چونکہ ان کو یہ گالی دی جاتی تھی کہ یہ تو درحقیقت ضیاء الحق صاحب کے پروردہ ہیں‘ ان کے مارشل لاء کا دود ھ پی کر جوان ہوئے ہیں تو انہوں نے اس کا ترکی بہ ترکی جواب دیا ہے کہ بے نظیر کا باپ ذوالفقار علی بھٹو بھی تو مارشل لاء کی چھتری کے نیچے پروان چڑھا تھا اور جب بھٹو کی حکومت بنی تھی تب بھی سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے۔ لہٰذا ان بحثوں کو چھوڑدو‘ ان کا کوئی فائدہ نہیں۔اب تو آگے کی بات کرنی چاہیے کہ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے کے مقابل آئیں‘ الیکشن لڑیں‘ ایک کو حکومت کا مینڈیٹ ملتا ہے تو دوسرا اسے تسلیم کرے اور اپوزیشن کا کردار ادا کرے۔ اپوزیشن کا رول بھی مثبت ہونا چاہیے‘ جو آج کل کے سیاسی عمل کے لیے ضروری ہے۔ میں اس تبدیلی کو اس اعتبار سے خوش آئند قرار دے رہا ہوں کہ اب ہمارے ملک کی پارلیمانی سیاست کی گاڑی پٹڑی پر چڑھ سکتی ہے جو کہ پٹڑی سے اتر گئی تھی ۔
البتہ اس تبدیلی کا دوسراپہلو تشویشناک ہے اور وہ اس اعتبار سے کہ اس ملک میں پہلی مرتبہ تاجروںاور صنعت کاروں کو ہیروملاہے۔سب جانتے ہیں کہ نواز شریف صاحب کی سیاست کا اصل محور تاجر برادری اور صنعت کار ہیں۔اب تک یہ تاجر برادری اور صنعت کار پیپلز پارٹی کے مقابلے میں کچھ دوسری مذہبی اور دینی جماعتوں سے تعاون کرتے تھے‘ انہیں اپنی حمایت کا یقین دلاتے تھے ‘ انہیں چندے دیتے تھے‘ ان کے لیے استقبالیے منعقد کرتے تھے۔ یہ سب اس امید پر تھا کہ یہ مذہبی جماعتیں ان کے لیے پیپلز پارٹی کے مقابلے میں ڈھال ثابت ہوں گی۔ چونکہ پیپلزپارٹی کے دورِ حکومت میں نیشنلائزیشن کے نام پر صنعت کاروں کو خاص طور سے اپنے کارخانوں سے محروم ہونا پڑا تھا لہٰذا اس سے بچائو کے لیے وہ مذہبی جماعتوں کی چھتری کے نیچے پناہ ڈھونڈتے تھے۔ لیکن اب وہ وہاں سے کھسک کر نواز شریف صاحب کے تھیلے میں جا رہے ہیں۔ اس سے مذہبی قوتوں کو ضعف پہنچنے کا حقیقی خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس پر تو مجھے کوئی تشویش نہیں ہے‘ بلکہ جو مذہب کے نام پر اپنی دکان چمکا رہے تھے انہیں تشویش ہو گی‘ لیکن مجھے بھی اس اعتبار سے تشویش ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ ٹھیک ہے کہ سود حرام ہے‘ لیکن اس کے بغیر معیشت کی گاڑی نہیں چلتی۔ یہ کلمہ دینی اعتبار سے بہت بڑا باغیانہ کلمہ ہے اور یہ انتہائی تشویش ناک امر ہے کہ یہ بات اب تاجروں اور صنعت کاروں کی زبان پر بلاجھجک آ جاتی ہے۔ وہ برملا کہہ دیتے ہیں کہ سود ہماری معیشت کا لازمی جزو بن چکا ہے‘ اس کے بغیر گاڑی نہیں چل سکتی اور ہمیں اپنی گاڑی چلانی ہے۔ آ پ اپنے فتوے اپنے پاس رکھیے! یہ انداز یقیناً اس ملک میں اسلام کے مستقبل کے اعتبار سے خوفناک ہے۔
مزید برآں اب نواز شریف صاحب اسلام کا نام بھی نہیں لیتے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے حالات کو بھانپ لیا ہے اور انہیں محسوس ہو گیا ہے کہ عام آدمی کو تو صرف اپنی معاشی بہتری سے دلچسپی ہے‘ لہٰذا اب اپنی حالیہ تقریروں میں انہوں نے اسلام کا نام تک نہیں لیا۔ دوسری طرف انہیں اس کا بھی خطرہ ہے کہ اگر اسلام کا نام لیا تو امریکہ کے کاغذات میں فنڈامنٹلسٹ کی حیثیت سے نام درج ہوجائے گا اور یہ دھمکی تو خود امریکہ کا ایئرچیف یہاں آکر دے گیا ہے کہ امریکہ کی حیثیت اس وقت ایک مست ہاتھی کی سی ہے ‘ جو بھی اس کے سامنے آئے گا کچلا جائے گا۔ چنانچہ اب نواز شریف صاحب اسلام کے نعرے اور اسلام کے نام سے بھی کنی کتراتے ہوئے امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ملک میں سود کو اتنے وسیع پیمانے پر عام کر دیا ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ ’’روزگار سکیم اور ییلو کیب‘‘ کے نام پر لاکھوں نوجوانوں کو سودی کاروبار میں ملوث کر دیا ہے۔ اب تک تو صرف تاجر ‘ صنعت کار اور کاروباری لوگوں کی اس پر اجارہ داری تھی کہ بینکوں سے قرضے لیں اور کاروبار چمکائیں۔ نواز شریف صاحب نے خود کہا ہے کہ یہ درست ہے کہ ہم نے کارخانے بنائے ہیں‘ لیکن ہم نے قرضے لیے‘ ان پر سود ادا کیا۔ گویا کہ دھڑلے سے کہہ رہے ہیں کہ ہم نےیہ حرام کام کیااور اس کی بناپر ہم نے اپنے کاروبار چمکائے۔
اب نواز شریف صاحب مغرب کے کاروباری اصولوں کو اپناتے ہوئے فری مارکیٹ اکانومی قائم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کو ہاتھ جوڑ جوڑ کر سرمایہ کاری کی دعوت دے رہے ہیں۔ امریکہ نے تو خود ہی امداد بند کر دی تو آپ نے ’’کشکول توڑ دیا‘‘ لیکن اس کے بدل کے طور پر آپ ملٹی نیشنلزکوجو لا رہے ہیں تو یہ امریکہ سے بڑی لعنت ہیں۔ ان کی اکثریت یہود کی آلۂ کار ہے جو اپنے ہتھکنڈوں سے ملکوں کی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دیتے ہیں۔ مجھے نعیم صدیقی صاحب کی ایک نظم کے چند مصرعے یاد آ رہے ہیں جو انہوں نے ۱۹۵۱ء میں کہی تھی ؎
ڈالر مرے اس دیس کو ناپاک نہ کرنا!
تُو ظلم کا حاصل
تُو سحر ِملوکانہ کا اک شعبدئہ خاص
تُو سود کا فرزند!
تُوآئے تو ڈالر!
سو عیش تو ہوں گے‘ سکھ چین اڑیں گے
جامے تو سلیں گے‘ تن کم ہی ڈھکیں گے
اس دیس میں تُو آئے تو اے سونے کے ڈالر
آئے گا رِبا بھی
پھیلے گا جُوا بھی
چھائے گا زنا بھی
اُڑ جائے گا ہر پھول سے پھر رنگ ِحیا بھی
کیونکہ مغربی سرمایہ دارانہ نظام میں تو یہی کچھ ہوتا ہے اور اس کا نقشہ آپ جا کر امریکہ میں دیکھ سکتے ہیں کہ وہاں غلاظت کے ڈھیروں پر بھی انسان رہ رہے ہیں‘ جبکہ کچھ لوگوں کے پاس اس قدر دولت ہے کہ وہ چالیس چالیس بلین ڈالر کا ایک چیک لکھ سکتے ہیں۔ تو مغربی سرمایہ دارانہ نظام اپنانے سے تویہی کچھ ہو گا کہ دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں ہوتا چلا جائے گا اور سود کی لعنت جسے قرآن ’’اللہ اور اُس کے رسول ؐ سے جنگ کا الٹی میٹم‘‘ قرار دیتا ہے ‘ ملکی معیشت کے رگ و ریشے میں سرایت کرتی چلی جائے گی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارا عام آدمی بھی سود کے حق میں بات کرتا ہے۔ یہ صورت حال ہمارے لیے تشویش کا باعث ہے۔ لیکن بہرحال ہم چاہتے ہیں کہ سیاست میں جمود نہ ہو اور ملکی سیاست کی گاڑی دو پہیوں پر چلے۔ ہماری مذہبی سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی حکمت عملی اور طریق کار پر نظرثانی کریں۔
پاکستان کی مذہبی جماعتوں کا جائزہ
اپنی گفتگو کے آخری حصے میں مجھے پاکستان کی مذہبی جماعتوں کے بارے میں اپنا جائزہ پیش کرنا ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مذہبی جماعتوں سے میری مراد مذہبی سیاسی جماعتیں ہیں۔قبل ازیں میرے بعض خطابات اور انٹرویوز کی اخباری رپورٹنگ سے بعض مذہبی حلقوں نے بڑا برا منایا ہے‘ لہٰذا یہ وضاحت کر رہا ہوں کہ وہ مذہبی جماعتیں جو تبلیغ واشاعت کا کام کر رہی ہیں یا اصلاحِ عقائد اور اصلاحِ اعمال وغیرہ کی نوعیت کے کام کر رہی ہیں وہ ہماری اس بحث سے خارج ہیں۔ مَیں چونکہ پاکستان کی سیاست کے بارے میں تجزیہ کر رہا ہوں لہٰذا اس اعتبار سے ان مذہبی جماعتوں کے بارے میں بھی جن کا اس ملک میں کوئی سیاسی رول بھی ہے‘ اپنا موقف بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
اس ضمن میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس ملک میں ’’دینی اور انقلابی تحریک‘‘ صرف ایک تھی اور وہ جماعت اسلامی تھی۔یہاں ’’دینی ‘‘ اور ’’انقلابی‘‘ کے الفاظ کی اہمیت پیش نظر رہے۔ میرے نزدیک جماعت اسلامی ایک ’’مذہبی‘‘ نہیں ’’دینی‘‘ اور ایک ’’سیاسی جماعت‘‘ نہیں بلکہ ’’انقلابی تحریک‘‘ تھی۔ لیکن اب جو صورت حال ہے وہ بالکل مختلف ہے۔ اس نے سیاست کے میدان میں آ کر اپنا ’’دینی‘‘ اور ’’انقلابی‘‘ ہونےکا کردار داغدار کر لیا ہے۔
باقی سب مذہبی جماعتوں میں دو وصف لازمی طور پرپائے جاتے ہیں۔ ایک تو وہ ’’دینی‘‘ نہیں ’’مذہبی‘‘ ہیں ‘یعنی ان کے سامنے نظام کا تصور نہیں ہے بلکہ دین صرف شریعت کے درجے میں ہے۔ اور دوسرے یہ کہ وہ فرقہ وارانہ ہیں اور فرقہ وارانہ بنیاد پر سیاست کرتی ہیں۔ اہلحدیث‘ بریلوی اور دیوبندی مسلک کی جماعتیں اپنے اپنے فرقے کے نعرے لگا کر ووٹ لیتی ہیں۔ لہٰذا جہاں جہاں ان کے کچھ فرقہ وارانہ اثرات اور کچھ دائرئہ اثر و نفوذ ہے وہی ان کا سیاسی دائرہ کار ہے۔ میرے نزدیک ان کی اصل حیثیت علماء کی ٹریڈ یونینز کی ہے۔ جیسے ہر شعبے کی ٹریڈیونینزہوتی ہیں‘ ڈاکٹروں کی یونینز‘ کلرکوں کی یونینز‘ اساتذہ کی یونینز‘ اسی طرح چونکہ مذہب بھی ہمارے ہاں ایک پیشے (profession) کا درجہ اختیار کر گیا ہے لہٰذا ان فرقہ وارانہ مذہبی جماعتوں کی حیثیت بھی ٹریڈ یونینز کی ہے‘ البتہ جہاں کہیں ان کا حلقۂ اثر ہے وہاں یہ سیاست بھی کرتی ہیں۔ تاہم ایک جماعت اس سے مستثنیٰ ہے۔ وہ خالص غیر سیاسی بھی ہے اور فرقہ واریت سے بالاتر بھی ‘مزید برآں تحریک بھی ہے اگرچہ انقلابی نہیں۔ یہ تبلیغی جماعت ہے ۔ یہ ایک مذہبی تحریک ہے‘ ان کے ہاں دین یا نظام کا تصور نہیں ہے۔ ان کا سارا تصور مذہبی ہے جو عبادات‘ اتباعِ سُنّت اور فضائل اعمال وغیرہ تک محدود ہے۔ اسے آپ ایک اصلاحی تحریک کہہ سکتے ہیں لیکن دینی تحریک اس معنی میں نہیں کہ نظام کو بدلنے میں کوشاں ہو۔
ان سب کے بعد چوتھے نمبر پر ہماری تنظیم اسلامی یا تحریک خلافت ہے جو حجم کے اعتبار سے ابھی کسی شمار قطار میں نہیں۔ ہمیں چاہے کوئی پانچوں سوار کہہ لے چاہے ساتواں سوار کہہ لے یا کوئی اور توہین آمیز لفظ استعمال کرنا چاہے‘ ہمیں قبول ہے۔مَیں اپنےبارے میں یا تنظیم اسلامی یا تحریک خلافت کےبارے میں کسی مغالطے کا شکار نہیں ہوں۔ لیکن اصولی اعتبار سے تنظیم اسلامی علامہ اقبال‘ مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا مودودی کے دینی انقلابی فکر کا تسلسل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری کوشش یہ ہے کہ اس اصولی انقلابی فکر کے ساتھ تبلیغی جماعت کا تدین‘ اس کا تعبدی انداز‘ عبادات سے شغف اور اتباعِ سُنّت کے جذبہ کا عنصر جمع کر دیا جائے۔ رہی یہ بات کہ ہم اس میں کس درجے میں کامیاب ہوں گے یا ہوئے ہیں تو اس کا فیصلہ ہم نہیں کرسکتے‘ بلکہ یہ فیصلہ تو وقت کرے گا یا مستقبل کامؤرخ۔ تاہم مجھے یہ یقین حاصل ہے کہ اپنی اس نیت اور ارادے کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے سامنے سرخرو ہوں گا کہ میں نے اپنے امکان بھر جو کوشش کی تھی وہ یہ تھی کہ جماعت اسلامی کے اصولی دینی انقلابی فکر اور تبلیغی جماعت کے تعبدی انداز کو ایک جماعت میں جمع کردیا جائے۔ یعنی یہ تصوّر بھی واضح رہے کہ دین اور دنیا ایک وحدت ہیں اور دین کے اجتماعی نظام کو قائم کرنا اور دین کے غلبہ کی جدّوجُہد کرنا ہمارا فرض ہے‘ لیکن یہ جدّوجُہد کرتے ہوئے عبادات سے شغف اوراتباعِ سُنّت کے رنگ کو اپنی شخصیتوں کے اندر پختہ کیا جائے‘ گہرا اتار ا جائے۔
مولانا مودودی مرحوم سے اتفاق اور اختلاف
چونکہ فکری اعتبار سے ہمارا سب سے قریبی رشتہ مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے ساتھ ہے‘ لہٰذا اس حوالے سے ان کا ذکر میری تقریروں اور تحریروں میں بار بار آتا ہے۔ بہت سے لوگ اس پر ناراضگی کا اظہار بھی کرتے ہیں‘ کچھ خیر خواہانہ مشورہ بھی دیتے ہیں کہ آپ نے جو بات کہنی تھی وہ ایک بار کہہ دی‘ بار بار کہنے سے کیا فائدہ؟آج اپنی گفتگو کو مکمل کرتے ہوئے میں چاہتا ہوں کہ اس ضمن میں بھی کچھ باتیں مثبت طور پر آپ کے سامنے رکھ دوں تاکہ اس پر ہمارا موقف واضح ہو جائے۔
جہاں تک مولانا مودودی کے اساسی فکر کا تعلق ہے اس کو مَیں قریباً صحیح سمجھتا ہوں۔ اپنی زندگی کے آخری دور میں انہوں نے ’’خلافت و ملوکیت‘‘ نامی جو کتاب لکھی تھی اس سے مجھے شدید اختلاف ہے۔ لیکن ان کےجس فکر پر ۱۹۴۱ء میں جماعت قائم ہوئی تھی اس سے مجھے اگر سو فیصد نہیں تو ۹۰۔۹۵ فیصد اتفاق ضرور ہے۔ اور میرے نزدیک یہ فکر دراصل علّامہ اقبال ہی کے فکر کا تسلسل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میںنے بے نظیر کے اس بیان پر شدید گرفت کی تھی کہ ’’ہمیں مودودی کا اسلام نہیں‘ علامہ اقبال کا اسلام چاہیے‘‘۔ میںنے کہا تھا کہ مولانا مودودی اور علامہ اقبال دونوں کا اسلام ایک ہے اور ان دونوں میں تفریق کرنا بڑی عیاری اور مکاری کی بات ہے۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ مولانا مودودی کو حیدر آباد دکن سے لاہور بلانے والے علامہ اقبال ہی تھے۔ مولانا مودودی تو حیدر آباد دکن سے رسالہ نکالتے تھے اور کتابیں شائع کرتے تھے۔ علامہ اقبال نے انہیں حیدرآباد دکن سے لاہور منتقل ہونے کی دعوت دی‘ کیونکہ وہ ۱۹۳۰ء میں یہ خواب دیکھ چکے تھے کہ اس علاقے میں ایک آزاد مسلمان ریاست قائم ہو گی۔ ۱۹۳۰ء کے خطبہ الہ آباد میں ان کے یہ الفاظ موجود ہیں کہ یہ بات نوشتہ تقدیر ہے کہ ہندوستان کے شمال مغربی علاقے میں ایک آزاد مسلمان ریاست قائم ہو گی۔ علامہ اقبال ہی کے ایک عقیدت مند چودھری نیاز علی خان نے انہی کے کہنے پر پٹھان کوٹ میں ادارہ ’’دارالاسلام‘‘ بنایا اور وہاں آ کر مولانا مودودی نے قیام کیا۔
اگر مولانا مودودی کے اسلام سے اقبال کو اختلاف ہوتا تو کیا وہ مولانا مودودی کو نقل مکانی کے لیے دعوت دے سکتے تھے اور انہیں یہاں پائوں جمانے کے لیے مدد دے سکتے تھے ؟ تو کم سے کم ۱۹۳۸ء تک جب علامہ اقبال کا انتقال ہوا‘ یا ۱۹۳۷ء تک کہہ لیجیے جب علامہ اقبال نے مولانا مودودی کو نقل مکانی کی دعوت دی‘ مولانا مودودی نے جو کچھ لکھا تھا اس کے ساتھ علامہ اقبال کو کامل اتفاق تھا۔ بہرحال میرے نزدیک مولانا مودودی کا فکر دراصل فکر اقبال ہی کی بڑے عمدہ پیرائے اور سلیس انداز سے تشریح و توضیح ہے۔ فکر اقبال کے بارے میں میرے مضامین نوائے وقت میں ’’تفکر و تذکر‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئے ہیں‘ جنہیں پھر یکجا کر کے میثاق میں بھی شائع کیا جا چکا ہے۔(محترم ڈاکٹر صاحبؒ کی کتاب ’’سابقہ اور موجودہ مسلمان اُمتوں کا ماضی‘ حال اور مستقبل-------- اور مسلمانانِ پاکستان کی خصوصی ذمہ داری‘‘ انہی کالموں پر مشتمل ہے۔) ان میں مَیں نے تفصیل سے لکھا ہے کہ اس صدی میں اسلام کو ازسرنو دین کی حیثیت سے پیش کرنا اقبال کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ پھر اس کے لیے عملی جدّوجُہد شروع کرنے کا سہرا ابوالکلام آزاد کے سر ہے۔ یعنی ۱۹۱۲ء سے لے کر ۱۹۲۰ء تک ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ والے ابوالکلام۔ میرے نزدیک یہ تین شخصیتیں اس اعتبار سے بہت نمایاں ہیں: علامہ اقبال‘ مولانا آزاد اور مولانا مودودی۔ فکر میں یہ تینوں تقریباً ایک ہیں‘ انیس بیس کا فرق تو ہوتا ہے ۔اور اس فکر سے مجھے ۹۰۔۹۵ فیصد اتفاق ہے۔
جہاں تک مولانا مودودی کے عملی رویے کا تعلق ہے‘ ا س سے مجھے کتنا اتفاق ہے اور کتنا اختلاف ہے‘ یہ مَیں تین درجوں میں واضح کر کے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ مولانا مودودی کی زندگی کے جو مختلف ادوار ہیں ان میں ۱۹۳۹ء سے ۱۹۴۷ء تک کے آٹھ سالہ دور سے مجھے ۸۵ فیصد اتفاق ہے‘ ۱۵ فیصد اختلاف ہے۔ مولانا مرحوم نے ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی قائم کی‘ لیکن اس سے قبل ۱۹۳۹ء۔۱۹۴۰ء میں وہ اپنا فکر ’’ترجمان القرآن‘‘ میں پیش کر چکے تھے۔ انہی اصولوں پر انہوں نے جماعت بنائی اور ۱۹۴۷ء تک انہی اصولوں پر چلتے رہے۔اس سے اکثر و بیشتر مجھے اتفاق ہے۔ صرف تین چیزوں میں معمولی سااختلاف ہے۔
اوّلاً -------- ایمان اور اُس کی باطنی کیفیات پر جتنا زور دیا جانا چاہیے تھا اتنا نہیں دیا‘اور تقویٰ اور تدین کی جتنی ناگزیر اور کم از کم ضرورت تھی ان کا اتنا اہتمام بھی نہیں کیاگیا‘ حالانکہ دین میں ان کی اہمیت مسلّم ہے۔ اسلام کا اگرایک ظاہر ہے تو اس کا ایک باطن بھی ہے۔ نماز کا ظاہر قیام اور رکوع و سجود ہے تو اس کا باطن خشوع و خضوع ہے‘ جو اس کی اصل روح ہے۔ نماز کے ظاہر کا علم فقہ کی کتابوں سے حاصل ہوجاتا ہے‘ لیکن اس کی اصل روحِ باطنی کا علم یا تو صوفیاء کی کتابوں میں ملے گا یا حدیث کی کتابوں میں۔نماز میں خشوع و خضوع کی یہ کیفیت مطلوب ہے کہ جب سجدے میں سر رکھا جائے تو محسوس یہ ہو کہ اپنے ربّ کے قدموں میں سر رکھ دیا۔ اگر یہ کیفیت پیدا نہیں ہوئی تو اگرچہ سجدہ تو ہو گیا لیکن وہ بے روح سجدہ ہوا۔ وہ سجدہ نہ ہوا جس کے بارے میں اقبال نے کہا ہے ؎
وہ سجدہ روحِ زمیں جس سے کانپ جاتی تھی
اُسی کو آج ترستے ہیں منبر و محراب
آج منبر پر کھڑے ہو کر ہاتھ اٹھا اٹھا کر تقریریں کرنے والے بہت ہیں اور محراب میں کھڑے ہو کر بڑی اعلیٰ قراء ت کے ساتھ امامت کرنے والے بہت ہیں لیکن یہ منبر و محراب آج اس سجدے کو ترس گئے ہیں جس سے روحِ زمیں لرز اٹھتی تھی!
ثانیاً -------- مولانا مودودی مرحوم نے تحریک پاکستان کی جس شدّت سے مخالفت کی اتنی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ مولانا کا یہ فرمانا اپنی جگہ بالکل درست تھا کہ یہ مسلمانوں کی قومی تحریک ہے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی قومی ریاست تو وجود میں آجائے گی‘ لیکن اس راستے سے اسلام نہیں آئے گا۔ یہ بات تو ڈنکے کی چوٹ کہنی چاہیے تھی‘ لیکن قومی تحریک کی اتنی شدت سے مخالفت کرنا ہرگز مناسب نہیں تھا کہ اسے غیر اسلامی قرار دے دیا جائے‘ کیونکہ مسلمانوں کی آزادی اور ان کے لیے ایک علیحدہ ملک کی جدّوجُہد کوئی بُرا کام نہیں تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کے ذریعے بنی اسرائیل جیسی بگڑی ہوئی قوم کو فرعون کی غلامی سے نجات دلوائی۔ لہٰذا مسلمانانِ ہند کے بڑے حصے کے لیے آزادی کی تحریک چلانا کوئی غلط کام نہیں تھا۔ اور مسلمانوں کی دُنیوی فلاح و بہبود اور ان کے سیاسی اور معاشی حقوق کے تحفظ کی کوشش کو غیر اسلامی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ میرے نزدیک اس میں بھی کچھ انتہاپسندی اور زیادتی کا عنصر شامل تھا۔
ثالثاً -------- مولانا مودودی مرحوم کا اپنا ذہن اگرچہ یہی تھا (اور مَیں اپنے اس دعوے کو ثابت کر سکتا ہوں) کہ اقامت ِدین کی جدّوجُہد کرنے والی جماعت بیعت کی بنیاد پرقائم ہونی چاہیے اور اس کے امیر کو وسیع اختیارات حاصل ہونے چاہئیں‘ لیکن بعض اسباب کی بناء پر انہوں نے مغربی جمہوری انداز کا دستور بنا کر ایک دستوری تنظیم بنائی اور پھر {فَمَا رَعَوْھَا حَقَّ رَعَایَتِھَا} کے مصداق اپنی رائے اور مزاجی ساخت کی بنا پر اس کا حق بھی ادا نہ کر سکے۔ الغرض‘ ان تین امور کو پانچ پانچ فی صد کے حساب سے جمع کر لیجیے تو پندرہ فیصد اختلاف ہے‘ ورنہ میں مولانا مودودی کے ۱۹۳۹ء سے ۱۹۴۷ء کے طریق کار سے ۸۵ فیصد اتفاق کرتا ہوں۔
لیکن تقسیم ہند اور قیامِ پاکستان کے بعد مولانا مودودی نے جو موقف اختیار کیا اور اضافی طو رپر جو دو کام کیے ان میں سے ایک کو مَیں صد فی صد صحیح سمجھتا ہوں اور دل میں اک ہوک سی اٹھتی ہے کہ کاش مولانا یہی ایک کام کرتے چلے جاتے اور دوسرا کام نہ کرتے جو صد فی صدغلط تھا۔ قیام پاکستان کے بعد صحیح کام دستورِ اسلامی کا مطالبہ تھا۔انہوں نے اس کے لیے مہم چلائی کہ آپ نے پاکستان اسلام کے نام پر بنایا ہے‘ اب یہاں دستور بھی اسلامی ہونا چاہیے۔ مولانا مودودی یہ مطالبہ لے کر کھڑے ہوئے تو پوری قوم نے ان کا ساتھ دیا اور ان کی آواز میں آواز ملائی۔ اور چونکہ اُس وقت تک جماعت اسلامی ایک سیاسی پارٹی نہیں تھی لہٰذا مسلم لیگ کے مخلص لوگوں نے بھی اس مطالبے کی حمایت کی۔ یہاں تک کہ ’’قراردادِ مقاصد‘‘ پاس کرانے میں فیصلہ کن کردار مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے ادا کیا۔ انہوں نےدستور ساز اسمبلی میں یہ دھمکی دی تھی کہ اگر تم نے یہ ’’قرارداد پاس‘‘ نہ کی تو مَیں ابھی استعفاءدے کر جاتا ہوں اور عوام کو بتاتا ہوں کہ مسلم لیگ نے اسلام کا نام لے کر دھوکہ دیا تھا۔ اس دھمکی کی بنیاد پر قراردادِ مقاصد پاس ہوئی ۔ لیکن وہ جماعت اسلامی کے آدمی تو نہیں تھے‘ وہ مسلم لیگی تھے‘ قائد اعظم کے سپاہی تھے۔ اسی طرح عمر حیات ملک جو پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے‘ قائد اعظم کے ادنیٰ سپاہی تھے۔ ان لوگوں نے ساتھ دیا کہ یہ اسلام کی بات ہے‘ یہ کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ہے‘ اسلام تو ہم سب کی مشترک متاع ہے۔ اور یہ اسی لیے ہوا کہ اُس وقت تک اسلام ایک پارٹی ایشونہیں بنا تھا۔ اسی راستے پر قدم آگے بڑھنے چاہئیں تھے اور یہی ایک کام جاری رہنا چاہیے تھا۔
قراردادِ مقاصد کی منظوری کے بعد اسلامی دستور کی طرف عوامی دبائو کے ساتھ قدم بقدم آگے بڑھنا چاہیے تھا‘اس کے لیے رائے عامہ کو مزید منظم کر کے اس میں تمام طبقات کا تعاون حاصل کرنے کی ضرورت تھی۔ لیکن دوسرے قدم نے بیڑا غرق کر دیا۔ ۱۹۵۱ء کے الیکشن میں حصّہ لےکر جماعت اسلامی ایک سیاسی پارٹی کی حیثیت اختیار کر گئی اور اس طرح اس نے مذہب کو ایک پارٹی ایشو بنا دیا۔ اب جماعت اسلامی کی حیثیت مسلم لیگ کی حریف سیاسی جماعت کی ہو گئی۔ اب ظاہر ہے کہ اس کی ہر بات کو ایک مخالف کی بات سمجھا گیا۔ اب بھلا مسلم لیگی جماعت اسلامی کی بات کی تائید کیسے کرتے؟اللہ تعالیٰ مولانا مودودی کو معاف فرمائے‘ انہوں نے جو کچھ کیا نیک نیتی سے کیا‘ لیکن میرے نزدیک یہ بہت بڑی غلطی تھی کہ مولانا مودودی ۱۹۵۱ء میں انتخابی میدان میں اُترے اور پنجاب کے الیکشن میں حصّہ لیا۔ اس اقدام نے انہیں ایک علیحدہ سیاسی جماعت کی حیثیت سے سیاسی اکھاڑے کا پہلوان بنا کر اسلام کو ایک پارٹی ایشو اور الیکشن ایشو بنا دیا۔ یہ میرے نزدیک اسلام کے مستقبل کے اعتبار سے اس ملک میں بہت بڑی بدقسمتی کا آغاز تھا۔
جماعت اسلامی کے تیسرے دور کا آغاز ۱۹۵۸ء سے ہوتا ہے۔ ۱۹۵۸ء میں ایوب خان کے مارشل لاء کے بعد مولانا مودودی مرحوم نے جو لائحہ عمل اختیار کیا وہ پچاس فیصد درست تھا اور پچاس فیصد غلط۔ درست یہ کہ مارشل لاء کی مخالفت کی‘ جو آج ہم بھی کر رہے ہیں‘ کیونکہ مارشل لاء اس ملک کے لیے زہر قاتل ہے ------لیکن پچاس فیصد غلطی یہ ہوئی کہ بحالی ٔجمہوریت کے لیے سیکولر قوتوں کے ساتھ مل کر اپنی ساری توانائی اسی کام میں صرف کر دی۔ حالانکہ دیکھنا یہ چاہیے تھا کہ سیکولر جماعتوں کی جدّوجُہد سے جو جمہوریت آئے گی وہ تو سیکولر جمہوریت ہوگی‘ آپ کا اس میں کیا بھلا ہو گا؟اور اسلام کا اس میں کیا بھلا ہو گا؟لیکن مولانا مودودی اور جماعت اسلامی نے گیارہ سالہ ایوبی دور (۱۹۵۸ء۔۱۹۶۹ء) میں اپنی تمام مساعی اسی بحالی ٔجمہوریت کی تحریک میں وقف کیے رکھیں۔ اس کا نقصان جماعت کو یہ ہوا کہ اس کی اپنی تنظیمی بنیادیں مستحکم نہیں ہوئیں اور اپنے کارکنوں کی تربیت پر توجہ نہیں دی جا سکی جس کے نتیجے میں وہ اصل قوت فراہم نہیں ہو سکی کہ اپنے بل پر کھڑے ہو کر باطل نظام کو چیلنج کیا جا سکے‘ بلکہ اپنی قوتیں ضائع کر دیں۔ مولانا مودودی مرحوم کی زندگی میں جماعت کے یہ تین دور ہیں۔
جماعت اسلامی کے چوتھے دور کا آغاز وہاں سے ہوتا ہے جب مولانا مودودی نے جماعت کی امارت چھوڑ دی اور میاں طفیل محمد صاحب امیر جماعت بنے۔ یہ چوتھا دور گومگو کا دور ہے۔اس سے پہلے گیارہ سالہ دور میں جمہوریت کے لیے جہاد کیا گیا تھا اور مارشل لاء کی مخالفت کی گئی تھی‘ لیکن اس دور میں ضیاء الحق صاحب کے مارشل لاء سے تعاون کیا گیا۔ اس کےبارے میں زیادہ تفصیل میں جانا نہیں چاہتا۔البتہ اس کے بعد جو دور آیا ہے جس میں قاضی حسین احمد صاحب منظر عام پر آئے ہیں اس کے بارے میں کچھ اظہارِ خیال کرنا چاہتا ہوں۔
قاضی حسین احمد اور ان کی آراء
مَیں نے اس سے پہلے بھی کہا تھا‘ آج پھر کھل کر کہہ دینا چاہتا ہوں کہ قاضی صاحب جوان ہیں‘ باہمت ہیں‘ ان میں حرکت ہے‘ اس میں کچھ شک نہیں ہے۔ اور جس طرح مَیں نے نواز شریف صاحب کے بارے میں کہا اسی طرح قاضی صاحب کے بارے میں بھی کہہ رہا ہوں کہ وہ اپنی ذاتی حیثیت میں قائد بن کر اُبھرے ہیں (He is a leader in his own right) وہ جماعت اسلامی میں امارت کے منصب پر اپنی ذاتی حیثیت سے فائز ہوئے ہیں۔ وہ مولانا مودودی کے اشارے سے یا کسی اور کے کہنے سے امیر نہیں بنے۔ شروع میں ان کےاندر جوش زیادہ‘ ہوش کم تھا۔ چنانچہ ایک دور میں وہ صدام حسین کی رو میں بھی بہہ گئے تھے اور لال قلعہ دہلی پر پرچم لہرانے کی باتیں بھی برسرعام کر رہےتھے‘ حالانکہ ایسی باتیں دل میں ہوں تو بھی زبان پر لانے کی نہیں ہوتیں۔ کسی قائد کو ایسی باتیں زبان سے نکالنا زیب نہیں دیتا۔ دل میں ایسی اُمنگ ضرور ہونی چاہیے اور اس کے لیے کوشش بھی کرتے رہنا چاہیے۔ خود رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے: ((اسْتَعِیْنُوا عَلٰی قَضَاءِ حَوَائِجِکُمْ بِالْکِتْمَان)) (السلسلۃ الصحیحۃ:۱۴۵۳) یعنی اپنے ارادوں کو مخفی رکھ کر اپنی ضرورتیں پوری کرو۔یہ نہیں کہ اپنے سارے کارڈ ٹیبل پر رکھ دیں۔ اس سے تو دنیا کو آپ کے خلاف زبان کھولنے کاموقع مل جائے گا۔ اس اعتبار سے ان میں ہوش کی کمی اور جوش کی زیادتی رہی ہے لیکن اب ان میں کچھ سنجیدگی آئی ہے۔
مجھے قاضی حسین احمد صاحب کی تین باتوں سے صد فی صد اتفاق ہے۔ پہلی بات یہ کہ ان کا عالمی حالات کا شعورو ادراک یعنی Global perception صحیح ہے۔ وہ بالکل درست کہہ رہے ہیں کہ اس وقت امریکہ پوری دنیا کی سیاست اور معیشت پر چھا گیا ہے۔ بلکہ مَیں تو اس سے آگے بڑھ کر کہتا ہوں کہ یہ دراصل امریکہ نہیں یہودی ہیں جو دنیا پر چھا چکے ہیں۔ امریکہ تو خود ان کے ہاتھ میں کٹھ پتلی ہے۔ بائبل کےعہد نامہ جدید کے آخری حصے میں حضرت مسیح ؑ کے حواری یوحنا کے مکاشفات درج ہیں‘ ان میں دنیا کے آخری دور کے حالات کے مکاشفات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک بہت بڑا درندہ (beast)ہو گا جس کے سات منہ اور دس بڑے بڑے سینگ ہوں گے اور اس درندے کے اوپر ایک عورت سوار ہو گی۔ اس مکاشفہ میں دجالی فتنے کا تصور پیش کیا گیا ہے۔ تو واقعہ یہ ہے کہ آج عیسائی دنیا خاص طورپر ’’وائٹ اینگلو سیکسن پروٹیسٹنٹس‘‘ (WASP) اس درندے کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ ان کی درندگی‘ ان کی قوت اور ان کے اسلحے کی ایک ہلکی سی جھلک دنیا خلیج کی جنگ میں دیکھ چکی ہے۔ یہ لوگ ایک چھوٹے سے ملک (عراق) کے خلاف کیسے کیسے دیوہیکل جہاز لے کر آئے تھے‘ حالانکہ ان کے مقابلے میں اس کی کیا حیثیت تھی۔ لیکن یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا کہ وہ چاہتے تھے کہ اس کا اس طور سے بھرکس نکالا جائے کہ ہمارا ایک آدمی بھی نہ مرے‘ ورنہ اگر یہاں سے لاشوں کی بوریاں (deadbody bags) جانا شروع ہو گئیں تو امریکی رائے عامہ قیامت برپا کر دے گی۔ بہرحال اس ’’درندے‘‘ کے اوپر اس وقت یہود سوار ہیں ‘ جنہیں ان کی بزدلی کی وجہ سے مکاشفہ میں عورت کی شکل میں دکھایا گیا ہے۔
خود قرآن کہتا ہے کہ ان میں جرأت اور ہمت نہیں ہے ۔ یہ تو دوسروں کے کھونٹے کے اوپر ناچ رہے ہیں۔ ورنہ اگر امریکہ کہیں ایک دن کے لیےان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لے تو آج کا گیا گزرا عرب بھی اسرائیل کی تکا بوٹی کر کے رکھ دے اور ۱۹۷۳ء میں مصریوں نے یہ کر کے دکھایا تھا۔ ۱۹۶۷ء میں مصریوں کی پیشانی پر جو کلنک کا ٹیکہ لگا تھا وہ انہوں نے ۱۹۷۳ء کی رمضان جنگ میں دھو کر دکھا دیا تھا‘ یہاں تک کہ وہ ’’بار لیولائن‘‘ عبور کرگئے تھے جس کے بارے میں اسرائیل کو وہم و گمان تک نہ تھا کہ کوئی ان کی اس دفاعی لائن کو بھی عبور کر سکتا ہے۔ لیکن جب امریکہ اس کا پشت پناہ بن کر پہنچا تو اس کا مقابلہ کون کرتا!-------- تو قاضی صاحب کا یہ فرمانا درست ہے کہ اس وقت امریکہ دنیا پر چھایا ہوا ہے اور یہ بات بھی بلاشبہ درست ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی قوتیں امریکہ کے سامنے سربسجود ہیں‘ خواہ بے نظیر اور اُن کی پیپلز پارٹی ہو اور خواہ نوا ز شریف اور اُن کے ساتھی ہوں۔
دوسرے یہ کہ اندرونی طور پر ملک کے بارے میں ان کا یہ ادراک درست ہے جس کا وہ برملا اظہار کر رہے ہیں کہ اس ملک سے جب تک سرمایہ داری اور جاگیرداری کا جنازہ نہیں نکلتا حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔ جب تک سیاست ان لوگوں کےہاتھ میں ہے کوئی مثبت تبدیلی نہیں آ سکتی۔ ان کی یہ بات بالکل درست ہے اگرچہ ان کا عمل اس کے خلاف ہے۔ وہ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے جنازہ نکالنے کی بات ۱۹۹۰ء کے انتخابات سے پہلے بھی کر رہے تھے‘ لیکن پھر انہی سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے ساتھ ’’آئی جے آئی‘‘ میں شریک ہو گئے۔ بہرحال ادراک (perception)کی حد تک ان کی یہ بات درست ہے اور اس سے کون اختلاف کی جرأت کرے گا۔اس کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا ؎
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تری منتظر اے روزِ مکافات!
لیکن اس سرمایہ پرستی اور جاگیرداری کا سفینہ ڈبونے کے لیے تو انقلابی جدّوجُہد کی ضرورت ہے‘ یہ انتخابی عمل سے کیسے ہو جائے گا؟
تیسری بات وہ یہ کہتے ہیں کہ مذہبی جماعتوں کا متحدہ محاذ بنانے کا کوئی فائدہ نہیں‘ ایک قائد کی قیادت میں لوگ جمع ہوں گے تو کوئی پیش رفت ہو گی۔ یہ تو وہی بات ہے جو میں کہتا آ رہا ہوں اور جس کی وجہ سے میری مخالفت ہوتی ہے۔ قاضی صاحب نے کہا ہے کہ اب ہم جماعتوں کا اتحاد نہیں بنائیں گے ’’اسلامک فرنٹ‘‘ میں لوگ افراد کی حیثیت سے آ جائیں۔ اس کے لیے وہ دوسری دینی جماعتوں کے کارکنوں کو بھی کھینچنا چاہ رہے ہیں۔ اس ضمن میں میری رائے کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ’’متحدہ شریعت محاذ‘‘ کے تجربے کے بعد تنظیم اسلامی نے یہ پختہ فیصلہ کر لیاتھا کہ اب کبھی کسی مذہبی محاذ میں شامل نہیں ہوں گے۔ حدیث ِ نبویؐ کی رُو سے مؤمن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈساجاتا۔ ہم نے اُس وقت دیکھ لیا تھا کہ متحدہ محاذ میں جتنی بھی جماعتیں شامل ہیں ان کے اندر کوئی جان نہیں ہے اور وہ منظم ہو کر کام کرنے کے لیے تیار بھی نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے دنوں مولانا سمیع الحق صاحب ازراہِ کرم چل کر میرے پاس آئے لیکن میں نے ان سے معذرت کر دی کہ میں کسی ایسے اتحاد میں شرکت نہیں کر سکتا۔ میں نے کہا کہ آپ انتخابی سیاست سے پسپائی اختیار کر کے آیئے تو ہم آپ کے قدموں میں ہوں گے۔ لیکن آپ یہ انتخابی کھیل بھی کھیلتے رہیں‘ سینٹ میں آپ کی سیٹ بھی پکی رہے اور اس کے لیے آپ کا جوڑ توڑ بھی جاری رہے اور ساتھ کے ساتھ آپ ہمارا تعاون بھی چاہیں تو یہ ناممکن ہے! اس کے بعدپروفیسر ساجد میر صاحب میرے پا س آئے تو میں نے ان سے بھی معذرت کر دی۔
بہرحال قاضی صاحب کی یہ تین باتیں وہ ہیں کہ ’’متفق گردید رائے بو علی بارائے من‘‘ کے مصداق ان کے بارے میں میری رائے قاضی صاحب کی رائے سے موافقت رکھتی ہے ----- لیکن میرے نزدیک ان تینوں باتوں کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ آپ انتخابی میدان سے پسپائی اختیار کریں۔ اس ضمن میں بھی تین ہی باتیں مَیں عرض کرنا چاہتا ہوں:
پہلی بات یہ کہ مَیں ڈنکے کی چوٹ کہتا ہوں کہ کوئی سیاسی حکومت امریکہ کے دبائو کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ سیاسی حکومت کو تو ہر وقت اپنے ارکانِ اسمبلی کی خبرگیری کرنا پڑتی ہے کہ کوئی مینڈک پھدک کر اُدھر تو نہیں چلا گیا‘ پھر یہ کہ عوام ساتھ ہیں یا نہیں؟قربانی دینے کے لیے آمادہ ہوتے ہیں یا نہیں؟ وہ تو انقلابی حکومت ہوتی ہے جو ڈٹ کر کھڑی ہو جاتی ہے اور عوام بھی اس کے پیچھے مرنے کے لیے تیار ہو کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس کے لیے بھی موجودہ دور میں ہمارے پاس ایک ہی مثال ہے۔ جہاں تک عقائد اور دوسرے مسائل کا تعلق ہے ان میں مجھے شیعیت سے جو اختلاف ہےوہ سب کو معلوم ہے‘لیکن انقلابی جدّوجُہد کے ضمن میں عہد ِحاضر میں ایک ایران ہی کی مثال میرے سامنے آتی ہے‘ کیونکہ اگر بالفعل کچھ کر کے دکھایا ہے تو ایرانیوں نے کر کے دکھایا ہے۔ امریکہ کے مدمقابل بھی اگر کھڑے ہوئے ہیں تو صرف ایرانی کھڑے ہوئے ہیں۔ یا اب سوڈان نے تھوڑی سی ہمت دکھائی ہے اور وہ ایک مثال پیدا کر رہا ہے‘ جو دیکھتے ہیں کب تک کر سکےگا‘ لیکن ایران نے امریکہ اور روس دونوں کو شیطان قرار دے کر اور امریکہ کو ’’شیطان بزرگ‘‘ اور ’’شیطانِ اکبر‘‘ قرار دے کر عظیم مثال قائم کی ہے۔ اور یہ اس لیے ہوا کہ انہوں نے پہلے شاہ کے خلاف ایجی ٹیشن میں ہزاروں جانوں کی قربانی دی۔ اور پھر عراق کے مقابلے میں ان کے لاکھوں بچوں نے گولیاں کھائیں اور جانیں دی ہیں‘ جبکہ پوری مغربی قوت عراق کے پیچھے تھی‘ تمام عرب ممالک عراق کے پشت پناہ تھے‘ لیکن ایرانیوں کا بچہ بچہ مرنے کے لیے تیار ہو گیا۔ اور یہ حقیقت ہے کہ جو قوم مرنے کے لیے تیار ہو جائے اسے کوئی ختم نہیں کرسکتا۔ لیکن یہ جذبہ تو پیدا نہ ہو اور آپ امریکہ کے مقابلے میں کھڑے ہوجائیں‘ یہ ناممکن ہے! یہ جذبہ انقلابی عمل سے پیدا ہوتا ہے‘ آپ انتخابی محاذ بنا کر چاہے کتنے ہی لوگوں کو جمع کر لیں اس سے کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔
دوسرے یہ کہ اگر آپ دوسری جماعتوں کے مخلص کارکنوں کو کھینچنا چاہتے ہیں تو وہ آپ کے ساتھ کیسے آئیں گے‘ جبکہ وہی کام جو آپ کر رہے ہیں وہ خود بھی کر رہے ہیں۔ آپ بھی انتخاب لڑنا چاہتے ہیں اور ان کی جماعتیں بھی انتخاب لڑتی ہیں۔ جمعیت علماء اسلام کا اپنا ایک سیاسی حلقۂ اثر ہے‘ صوبہ سرحد اور بلوچستان میں ان کے بڑے مضبوط گڑھ ہیں جہاں عوام ان کے ساتھ ہیں‘تو ان کے کارکن اپنی جماعت کو چھوڑ کر آپ کے پاس کاہے کو آئیں گے؟ ہاں  آپ انہیں راستہ دوسرا دکھائیں جس کےلیے لوگوں کے اندر امنگ موجود ہے تووہ آپ کی طرف کھنچے چلے آئیں گے۔ اس ضمن میں ایک ہوائی سفر کے دورا ن میری گفتگو ایک صاحب سے ہوئی جن کا تعلق جماعت اسلامی ہی سے ہے اور وہ صوبائی وزیر رہ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نظری طور پر آپ کی بات صد فی صد درست ہے‘ لیکن یہاں کوئی جان دینے کے لیے میدان میں نہیں آئے گا۔ میں نے کہا کہ آپ بالکل غلط کہہ رہے ہیں‘ قوم میں جان دینے کا جذبہ تو موجود ہے‘ کیا لوگوں نے ختم نبوت کے نام پر جانیں نہیں دیں؟اور انہوں نے دی ہیں جن کا مذہب سے براہِ راست کوئی تعلق بھی نہیں تھا‘ جنہیں آپ گامے ماجھےکہتے ہیں انہوں نے گریبان کھول کھول کرگولیاں کھائی ہیں۔ پھر حال ہی میں سپاہِ صحابہؓ نے اپنے کارکنوں میں کس طرح جانیں دینے کا جذبہ بیدار کیا ہے۔ تو لوگ توجان دینے کو تیار ہیں‘ انہیں قیادت کی ضرورت ہے۔ اس قوم میں اصل کمی جان دینے والوں کی نہیں ہے‘ بلکہ اصل کمی مستقل اور پیہم کام کرنے والوں کی اور اپنے آپ کو بدلنےوالوں کی ہے ؎
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
ہمارے عوام کا حال یہ ہے کہ مسجد کی حرمت پرکٹ مریں گے لیکن نماز نہیں پڑھیں گے‘ رسولﷺ کے نام پر جان دے دیں گےلیکن اتباعِ سُنّت مشکل کام ہے۔تو میرا اس قوم کے بارے میں جو مشاہدہ ہے وہ بڑا مختلف ہے۔ تاریخ کا کوئی مرحلہ بتا دیجیے جس پر یہ قوم جان دینے میں پیچھے رہ گئی ہو! لیکن اصل کمی وہی ہے جو میں نے ابھی عرض کیا‘ یعنی اپنے آپ کو بدلنا۔ اوراللہ تعالیٰ کی سُنّت یہ ہے کہ { اِنَّ اللہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ ط}(الرعد:۱۱) ؎
خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا!
لہٰذا اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے آپ کو اللہ اور ا س کے رسولؐ کی مرضی کے مطابق بدلو! اپنےوجود پر اللہ کے خلیفہ بنو اور اس پر اللہ کی حکومت قائم کرو! اپنے گھر میں اللہ کے خلیفہ بنو اور وہاں اللہ کا دین نافذ کرو!حکومت الٰہیہ کا چھوٹا سا نقشہ اپنے گھر کے اندر قائم کر کے دکھائو اور پھر باطل کو للکارنے کے لیے میدان میں آئو تو اسی صورت میں تمام دینی حلقوں کے وہ مخلص کارکن آپ کی جانب کھنچ آئیں گے جو انتخابی سیاست سے تو مایوس ہو چکے ہیں لیکن کوئی متبادل صورت موجود نہ ہونے کے باعث چار وناچار اسی میں لگے ہوئے ہیں۔
تیسری بات یہ کہ اگر آپ الیکشن میں حصّہ لیتے ہیں تو‘ خواہ آپ جماعت اسلامی کے نام سے الیکشن لڑیں یا اسلامک فرنٹ کےنام سے‘ اس میں آپ کی اجارہ داری (monoply) تو قائم ہونے سے رہی۔ ۱۹۹۰ء کے انتخابات میں آئی جے آئی کی بھی اجارہ داری تو نہیں تھی۔ اگرچہ اس میں بھی ایسے لوگ شامل تھے جن کے بارے میں بعد میں خود آپ نے کہا کہ انہوں نے مذہب کا نعرہ صرف اپنے سیاسی مقصد کے لیے استعمال کیا۔ آئی جے آئی سے علیحدگی کے وقت آپ کا نواز شریف پر یہی الزام تھا۔ لیکن اُس وقت بعض مذہبی جماعتیں ایسی بھی تھیں جو آئی جے آئی میں شامل نہیں تھیں۔ مثلاً جے یو آئی (فضل الرحمٰن گروپ) اس سے علیحدہ تھی۔ تو جب بھی آپ انتخاب کے میدان میں اتریں گے تو ووٹ تو لازماً تقسیم ہوں گے‘ آپ کی اجارہ داری تو قائم نہیں ہو گی۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آپ اپنے خطابات میں یہ باتیں کرتے رہتے ہیں‘ لیکن جماعت کی قیادت سے ملاقات کر کے ان سے گفتگو کیوں نہیں کرتے؟تو مَیں ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ میں نے جماعت اسلامی کے دوسرے لوگوں کے علاوہ اس کے تین چوٹی کے قائدین سے ملاقات کر کے ان سے اس ضمن میں گفتگو کی ہے۔ کراچی میں مَیں نے محمود اعظم فاروقی صاحب سے جو جماعت اسلامی کے سب سے پرانے ایم این اے ہوتے تھے اور پروفیسر عبدالغفور احمد صاحب سے جو اب بھی جماعت کے ایک اہم قائد ہیں‘ ملاقاتیں کیں۔ یہاں پر قاضی حسین احمد صاحب کو خط لکھ کر ان سے ملاقات کا وقت لیا اور پھر ان کی خدمت میں حاضر ہو کر ان سے بات کی۔ اس ملاقات میں بھی مَیں نے حسن اتفاق سے تین ہی نکتے بیان کیے جو مَیں ریکارڈ پرلے آنا چاہتا ہوں۔ مَیں نے ان سے کہا کہ اگر آپ انتخابات کامیدان چھوڑ کر ایک مزاحمتی تحریک (Resistance Movement) کو منظم کرنے کا بیڑا اٹھا لیں تو آپ کو تین فائدے نقد حاصل ہوں گے:
اولاً یہ کہ ہر انتخاب کے بعد ایک بات جو ہمیشہ سامنے آتی ہے یعنی یہ کہ لوگ مذہبی جماعتوں کو گالیاں دیتے ہیں کہ ان کی آپس کی پھوٹ کی وجہ سے ووٹ تقسیم ہوئے اور بیڑا غرق ہوا‘ تو کم از کم آپ تو اس جرم میں شریک نہیں ہوں گے‘یہ ’’badwill‘‘ آپ کے حصے میں تو نہیں آئے گی‘ لوگوں کا یہ الزام آپ پر تو نہیں آئے گا۔ اور اس طرح آپ جو ’’goodwill‘‘ حاصل کریں گے یہ آئندہ کسی انقلابی جدّوجُہد کے لیے بہت قیمتی سرمایہ ثابت ہو گی۔
ثانیاً یہ کہ جماعت اسلامی انتخابات میں حصّہ لے یا نہ لے‘ یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ اس کا کچھ نہ کچھ ’’ووٹ بینک‘‘ تو ہے‘ لاکھوں کی تعداد میں اس کے ووٹ تو بہرحال ہیں۔ توتمام مذہبی جماعتیں آپ کی طرف رجوع کریں گی کہ آپ ہمیں ووٹ دیجیے۔ اس طرح آپ کے اور دیگر مذہبی جماعتوں کے مابین کشیدگی کم ہو گی اور بجائے مرکز گریز (centrifugal) رجحان کے ‘مرکز پسند (centripetal) رجحان پیدا ہو گا۔ مزید یہ کہ آپ ان سے اپنی شرائط بھی منوا سکیں گے کہ اگر آپ ہماری یہ شرائط پوری کرتے ہیں تو ہم آپ کوووٹ دیں گے۔ اس سے اتحاد اور خیر کی طرف پیش قدمی ہو گی۔
ثالثاً یہ کہ جب آپ ’’نہی عن المنکر بالید‘‘ کی روش اختیار کریں گے تو دوسری جماعتوں کے مخلص کارکن بھی آپ کی طرف متوجہ ہوں گے۔ مخلص کارکن ہر جماعت میں موجود ہوتے ہیں۔ غلط پالیسیاں‘ غلط نقطہ نظر یا غلط طرزِعمل کا معاملہ تو چوٹی کی قیادت کی طرف سے ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر جماعت کے مخلص کارکن آپ کی طرف آئیں گے۔ مجھے اس کا تجربہ ہوا تھا جب ۱۹۸۲ء میں مَیں نے خواتین کے پردے سے متعلق اسلامی احکام کو برملا بیان کیا اور اس کے جواب میں مغربی تہذیب کی دلدادہ خواتین کی طرف سے میری مخالفت ہوئی تو دیوبندی‘ بریلوی اور اہلحدیث تمام مکاتیب فکر کی مساجد سے میری بھرپور تائید ہوئی تھی۔ جماعت اسلامی کے اُس وقت کے امیر میاں طفیل محمد صاحب نے حیدرآباد کے جلسہ عام میں میری تائید میں فرمایا کہ یہ بات بالکل درست ہے۔ گورنر سندھ کی بیوی کی قیادت میں مٹھی بھر خواتین نے کراچی ٹی وی سٹیشن کے باہر میرے خلاف مظاہرہ کیا تو اس کے جواب میں جماعت اسلامی حلقہ خواتین کی طرف سے میری حمایت میں بھرپور مظاہرہ کیا گیا جس میں بڑی تعداد میں باپردہ خواتین نے شرکت کی۔ تو آپ اس نہج پر کام کریں گے تو آپ کو اس قوم کے اندر سے مدد ملے گی‘ تعاون ملے گا‘ رفاقت میسر آئے گی۔
لیکن ------ افسوس صد افسوس کہ ان کا پرنالہ اب بھی انتخابی عمل کی طرف ہی بہہ رہا ہے۔ بہرحال مَیں یہ باتیں کہتا ہوں‘ کہتا رہا ہوں اور کہتا رہوں گا ؎
اِک طرزِ تغافل ہے سو وہ اُن کو مبارک
اِک عرضِ تمنّا ہے سو ہم کرتے رہیں گے!
لیکن یہ حق نصیحت ہے ‘ حق خیر خواہی ہے جو ہمیں اپنا دینی فریضہ سمجھ کر ادا کرنا ہے۔ یہ نہ تو ان کی بدخواہی ہے اور نہ ہی مخالفت ہے۔ مَیں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آخری وقت تک حق کہنے کی توفیق دیتا رہے۔ باقی یہ کہ لوگوں کا رجوع ہو یا نہ ہو‘ یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔ ہم کس کھیت کی مولی ہیں‘ دنیا میں کتنے ہی انبیاء ایسے گزر گئے کہ ان کی دعوت کی طرف لوگوں کا کوئی رجوع نہیں ہوا۔ لیکن ان کے لیے یہ نہ تو ناکامی کا مقام تھا اور نہ تشویش کا۔ وہ اس دنیا سے کامیاب و کامران گئے ہیں‘ کیونکہ ان پر جو ذمہ داری تھی وہ انہوں نے ادا کر دی۔ انبیاء کی سُنّت یہی ہے کہ حق کی بات آخری وقت تک اور آخری سانس تک کہتے رہیے۔ اگر کوئی قبول کرے گا تو اپنے بھلے کو‘ اور جو اسے رد کرے گا یا اس کی مخالفت کرے گا تووہ اس کا اللہ کے حضور جواب دہ ہوگا۔ اگر کوئی آپ کی نیت پر حملہ کرے گا تو اس کی جواب دہی بھی اُسی کے ذمے ہو گی‘ اس کے پلے میں اگر کوئی بھلائی یا نیکی ہے تو وہ آپ کو مل جائے گی اور آپ کے اعمال نامے میں اگر کوئی برے اعمال ہیں تو انہیں وہ اپنےاعمال نامے میں درج کروا لےگا۔ اس طرح ہمارے لیے تو ہرحال میں نفع ہی نفع ہے‘ نقصان کاکوئی معاملہ ہے ہی نہیں ------ لیکن اپنی بات مَیں نے آج اس لیے واضح طو رپر بیان کر دی کہ ہمارا صحیح صحیح موقف سب کے سامنے آجائے اور سورۃ الانفال کے الفاظ {لِیَھْلِکَ مَنْ ھَلَکَ عَنْ بَیِّنَۃٍ وَّیَحْیٰی مَنْ حَیَّ عَنْ بَیِّنَۃٍط} کے مصداق اس کے بعدجسے ہم سے اختلاف کرنا ہو وہ علیٰ وجہ البصیرت کرے‘ اور تعین کے ساتھ کرے کہ آپ کی فلاں بات غلط ہے‘ لہٰذا ہم اسے نہیں مانتے۔ اس کے برعکس مبہم سا اختلاف اور مبہم انداز میں نیتوں پر حملے کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے!!
اَقُوْلُ قَوْلِی ھٰذَا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات