(علومِ قرآنی) اقسامِ وحی اورقرآن حکیم (۲) - پروفیسر حافظ قاسم رضوان

7 /

اقسامِ وحی اورقرآن حکیم (۲)پروفیسر حافظ قاسم رضوان

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مذکورہ بالا حدیث میں بیان کردہ وحی کے دو طریقوں کے علاوہ دوسری احادیث صحیحہ سے نزولِ وحی کے درج ذیل دیگر اہم طریقے بھی ثابت ہیں:
(۳) فرشتے کا اصلی شکل میں آنا:وحی کی تیسری صورت میں حضرت جبرئیل ؑ کسی انسان کی شکل اختیار کیے بغیر اپنی اصلی صورت میں دکھائی دیتے تھے۔ لیکن ایسا حضورﷺ کی زندگی میں صحیح سند کے مطابق صرف دو مرتبہ ہوا ہے‘ ایک مرتبہ اس وقت جب آپﷺ نے خود حضرت جبرئیل ؑ کو ان کی اصلی شکل میں دیکھنے کی خواہش ظاہر کی تھی‘ دوسری مرتبہ معراج کے موقع پر۔
(۴) رئویائے صادقہ : وحی کی چوتھی صورت یوں تھی کہ آپﷺ کو نزولِ قرآن سے قبل سچے خواب آیا کرتے تھے‘ جو کچھ آپ خواب میں دیکھتے بیداری میں ویسا ہی ہو جاتا۔ صحیح البخاری میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے :
اَوَّلُ مَا بُدِی بِہٖ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ مِنَ الْوَحیِ الرُّؤْیَا الصَّالِحَۃُ فِی النَّوْمِ‘ فَکَانَ لَا یَرٰی رُؤْیَا اِلَّا جَاءَت مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ
’’رسول اللہﷺ پر وحی کی ابتدا نیند کی حالت میں سچے خوابوں سے ہوئی‘ اس وقت آپؐ جو خواب بھی دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح سچا نکلتا۔‘‘
ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں ایک منافق نے حضورﷺ پر سحر (جادو) کر دیا تھا۔ اس کی اطلاع اور اس کا دفعیہ (دور کرنے کا طریقہ) بھی آپؐ کو خواب میں ہی بتایا گیا۔
(۵) کلامِ الٰہی :وحی کی اس صورت میں حضورﷺ کو بھی حضرت موسیٰ ؑ کی طرح اللہ تعالیٰ سے براہِ راست ہم کلام ہونے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ بیداری کی حالت میں یہ واقعہ صرف معراج کے موقع پر پیش آیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک مرتبہ خواب میں بھی آپؐ اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے ہیں۔ (الاتقان)
(۶) نفث فی الروع :وحی کی چھٹی صورت یہ تھی کہ حضرت جبرئیل ؑ کسی بھی شکل میں سامنے آئے بغیر حضورﷺ کے قلب مبارک میں کوئی بات القاء فرما دیتے تھے۔ ’’الاتقان‘‘ کی ایک اور روایت میں حضوراقدسﷺ کا ارشاد ہے : ((اِنَّ رُوحَ الْقُدُس نَفَثَ فِی رَوعِی)) ’’روح القدس (حضرت جبرئیلؑ) نے میرے دل میں یہ بات ڈالی‘‘۔مستدرک حاکم کی روایت میں آپﷺ کے یہ الفاظ ہیں: ((اِنَّ جِبْرِیْلَ عَلَیْہِ السَّلام اَلْقٰی فِیْ رَوْعِی اِنَّ احدًا مِنْکُمْ لَنْ یَخْرُجَ مِنَ الدُّنْیَا حَتّٰی یَتَکَمَّلَ رِزْقَہٗ)) ’’بے شک جبرئیل ؑ نے میرے دل میں یہ بات ڈالی ہے کہ تم میں سے کوئی بھی دنیا سے نہیں جائے گا‘ تاوقتیکہ وہ اپنا رزق پورا نہ کر لے۔‘‘
وحی اور کشف و الہام
وحی صرف انبیائے کرام علیہم السلام کے ساتھ خاص ہے اور کسی بھی غیر نبی کو ‘خواہ وہ تقدس اور ولایت کے جتنے بھی بلند مقام پر ہو‘وحی نہیں آ سکتی۔ البتہ بعض اوقات باری تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو کچھ باتیں بتادیتا ہے‘ اسے کشف یا الہام کہا جاتا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے کشف اور الہام میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ کشف کا تعلق حسیات سے ہے‘ یعنی اس میں کوئی چیز یا واقعہ آنکھوں سے نظر آ جاتا ہے‘ اور الہام کا تعلق وجدانیات سے ہے‘ یعنی اس میں کوئی چیز نظر نہیں آتی صرف دل میں کوئی بات ڈال دی جاتی ہے‘ اسی لیے عموماً کشف کی نسبت الہام زیادہ صحیح ہوتا ہے۔ وحی کی آخری صورت ’’نفث فی الروع‘‘بظاہر الہام سے بہت قریب ہے‘ کیونکہ دونوں کی حقیقت یہی ہے کہ دل میں کسی بات کا القاء کر دیا جاتا ہے‘ البتہ دونوں میں حقیقت کے اعتبار سے یہ فرق ہے کہ وحی میں (جو صرف نبی کو ہوتی ہے) ساتھ ساتھ یہ علم بھی ہوجاتا ہے کہ یہ بات کس نے دل میںڈالی ہے۔چنانچہ مستدرک حاکم کی مذکورہ بالا روایت میں آنحضرتﷺ نے صراحتاً بتلادیا کہ روح القدس نے میرے دل میں یہ بات ڈالی ہے‘ لیکن الہام ڈالنے والے کی تعیین نہیں ہوتی‘ بس یہ محسوس ہوتا ہے کہ دل میں کوئی بات آ گئی جو پہلے نہیں تھی (علامہ رشید رضا)۔ اسی بنا پر انبیائے کرام ؑ کی وحی سو فیصد یقینی ہوتی ہے اور اس کی پیروی فرض ہے‘ لیکن اولیائے کرام کا الہام یقینی نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی پیروی فرض ہے۔ بلکہ اگر کشف‘ الہام یا خواب کے ذریعے کوئی ایسی بات علم میں آئے جو قرآن و سنت کے معروف احکام کے مطابق نہ ہو تو اس پر یا اس کے تقاضے پر عمل کرنا کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں ۔(علامہ شاطبی)
وحی متلو اورغیر متلو
حضور اقدسﷺ پر دو قسم کی وحی نازل ہوئی ہے‘ ایک تو قرآن پاک کی آیات جن کے الفاظ اور معنی دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھے‘ اور جو قرآن کریم میں اس طرح محفوظ کر دی گئیں کہ ان کا ایک نقطہ یا شوشہ بھی نہ بدلا جا سکا ہے اور نہ ہی بدلا جا سکتا ہے۔ اس وحی کو علماء کی اصطلاح میں ’وحی متلو‘ کہا جاتا ہے ‘یعنی وہ وحی جس کی تلاوت کی جاتی ہے ۔دوسری وہ ہے جو قرآن مجید کا حصّہ نہیں بنی لیکن اس کے ذریعے آپﷺ کو بہت سے احکامات عطا کیے گئے ہیں‘ اس کو اصطلاح میں ’وحی غیر متلو‘ کہا جاتا ہے ‘یعنی وہ وحی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی۔ عموماً وحی متلو یعنی کلام اللہ میں دین اسلام کے اصولی عقائد اور بنیادی تعلیمات کی تشریح پر اکتفا کیا گیا ہے‘ ان تعلیمات کی تفصیل اور جزوی مسائل زیادہ تر وحی غیر متلو کے ذریعے بتائے گئے ہیں۔ وحی غیرمتلومستند احادیث کی شکل میں محفوظ ہے‘ اس میں عموماً صرف مضامین وحی کے ذریعے حضورﷺ پر نازل کیے گئے ہیں اور ان مضامین کی تعبیر کے لیے الفاظ کا انتخاب آپﷺ نے خود فرمایا ہے۔ (الاتقان)
وحی کی ان دو اقسام کے لیے بالترتیب وحی ٔجلی اور وحی ٔخفی کے الفاظ بھی استعمال کیے گئے ہیں۔
ایک حدیث میں حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد گرامی ہے : ((اُوْتِیْتُ الْقُرْآنَ وَمِثْلَہٗ مَعَہٗ)) ’’مجھے قرآن بھی دیا گیا ہے اور اس کےساتھ اس جیسی دوسری تعلیمات بھی‘‘۔اس میں قرآن عزیز کے ساتھ جن دوسری تعلیمات کا ذکر ہے‘ اس سے مراد یہی وحی غیر متلو ہے۔ اسلامی احکامات کی جزوی تفصیلات چونکہ اسی وحی غیر متلو کے ذریعے بتائی گئی ہیں‘ اس لیے جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہنے کے باوجود اسلامی احکام کی پابندیوں سے آزاد زندگی گزارنا چاہتے ہیں انہوں نے یہ شوشا چھوڑ رکھا ہے کہ وحی غیر متلو کوئی چیز نہیں‘آنحضرتﷺ پر جتنی وحی اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے وہ سب قرآن حکیم میں محفوظ ہے‘ اس کے علاوہ جو احکام آپﷺ نے دیے ہیں وہ ’’مرکز ِملت‘‘ یا سربراہِ مملکت و ریاست کی حیثیت سے دیے‘ جو صرف اس زمانے کے مسلمانوں کے لیے واجب العمل تھے‘ آج ان پر عمل کرنا لازم نہیں۔ لیکن یہ تصوّر بالکل غلط اور باطل ہے۔ خود قرآن مجید کی متعدد آیات سے پتا چلتا ہے کہ وحی الٰہی صرف کلام اللہ میں ہی منحصر نہیں‘ بلکہ آیاتِ قرآنی کے علاوہ بھی حضورﷺ کو بہت سی باتیں بذریعہ وحی بتائی گئی تھیں۔ اس دعویٰ کی تائید میںدرج ذیل قرآنی دلائل پر غور کریں:
(ا) سورۃ البقرۃ میں ارشادِ ربانی ہے :
{ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ ط } (آیت۱۴۳)
’’اور جس قبلہ کی طرف آپ پہلے (رخ کرتے) تھے‘ اسے ہم نے صرف اس لیے مقرر کیا تھا تاکہ ہم یہ جان لیں (ظاہر کر دیں) کہ کون رسول کی اتباع کرتا ہے اور کون اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاتا ہے۔‘‘
ہر مسلمان جانتا ہے کہ آنحضرتﷺ مدینہ طیبہ میں ایک عرصہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے ہیں۔ اس کے بعد جب دوبارہ بیت اللہ کی طرف رخ کرنے کا حکم ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم(باری تعالیٰ) نے بیت المقدس کی طرف منہ کرنے کا حکم صرف اس لیے دیا تھا کہ یہ بات واضح ہو جائے کہ کون اس حکم کی تعمیل کرتا ہے اور کون اس سے انکار ۔ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ اس آیت میں بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کے حکم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی جانب منسوب فرمایا ہے۔آپ قرآن کریم کو سورۃ الحمد سے لے کر سورۃالناس تک پڑھ جائیں‘ اس میں کہیں یہ حکم آپ کو نہیں ملے گا کہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھو۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حکم اللہ تعالیٰ نے کسی ایسی وحی کے ذریعے دیا تھا جو قرآن کریم میں کہیں مذکور نہیں ہےاور اسی کانام ’وحی غیر متلو ‘ ہے۔
(ب) سورۃ التحریم میں فرمایا گیا:
{ وَاِذْ اَسَرَّ النَّبِیُّ اِلٰی بَعْضِ اَزْوَاجِہٖ حَدِیْثًا ۚ فَلَمَّا نَبَّاَتْ بِہٖ وَاَظْھَرَہُ اللہُ عَلَیْہِ عَرَّفَ بَعْضَہٗ وَاَعْرَضَ عَنْ ۢ بَعْضٍ ۚ فَلَمَّا نَبَّاَھَا بِہٖ قَالَتْ مَنْ اَنْۢبَاَکَ ھٰذَا ۭ قَالَ نَبَّاَنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ(۳)}
’’اور جب نبی (ﷺ)نے اپنی بعض بیویوں سے ایک پوشیدہ بات کہی‘ پس جب اس (بیوی) نےاس بات کی خبر (دوسری کو) کر دی اور اللہ نے اپنے نبی کو اس پر آگاہ کر دیا تو انہوں نے تھوڑی سی بات تو بتا دی اور تھوڑی سی ٹال گئے۔ پھر جب نبی نے اپنی اس بیوی کو یہ بات بتلائی تو وہ کہنے لگی کہ اس کی خبر آپ کو کس نے دی؟فرمایا کہ سب کچھ جاننے والے ‘پوری خبر رکھنے والے (اللہ) نے مجھے یہ بتلایا ہے۔‘‘
اس آیت کی مختصر تشریح یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کی ایک زوجہ محترمہ نے ایک بات آپؐ سے چھپانی چاہی تھی‘ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی وہ بات حضورﷺ کو بتلا دی۔ اس پر انہوں نے آپؐ سے پوچھا کہ یہ بات آپ کو کس نے بتائی؟حضورﷺ نے جواب دیا کہ اس بات کی خبر مجھے علیم و خبیر ہستی یعنی اللہ تعالیٰ نے دی۔ اب اس آیت میں یہ تصریح ہے کہ وہ پوشیدہ بات ربِّ کائنات نے آپ کو بذریعہ وحی بتلائی تھی‘ حالانکہ پورے قرآن کریم میں اس بات کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اطلاع حضورﷺ کو وحی غیر متلو کے ذریعے دی گئی تھی۔ اور بھی متعدد آیات سے وحی غیر متلو کا ثبوت ملتا ہے‘ یہاں اختصار کے پیش نظر صرف انہی دو آیات پر اکتفا کیا گیا ہے۔ اگر تحقیق حق مقصود ہو تو یہ دو آیات بھی اس بات کا ناقابل انکار ثبوت مہیا کرنے کے لیے کافی ہیں کہ وحی غیر متلو بھی وحی کی ایک قسم ہے اور وہ بھی وحی متلو کی طرح بالکل یقینی اور واجب الاتباع ہے۔
کیا قرآن کے صرف معانی وحی ہیں؟
پیچھے ذکرہو چکا کہ وحی کی دو قسمیں ہیں: ایک وحی متلو یعنی قرآن مجید‘ اور دوسری وحی غیر متلو۔ اس دوسری قسم میں عموماً یہ ہوا ہے کہ صرف مضامین اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتے تھے اور انہیں تعبیر کرنے کے لیے الفاظ کا انتخاب حضرت جبرئیلؑ یا حضور اقدسﷺ فرماتے تھے‘ لیکن قرآن عظیم کا معاملہ یہ نہیں ہے‘ وہ لفظاً اور معناً پورے کا پورا اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ جس طرح اس کے مضامین خدائے بزرگ و برتر کی جانب سے ہیں اسی طرح اس کے الفاظ بھی من وعن اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئے ہیں‘ ان کے انتخاب یا ترکیب و انشاء میں نہ حضرت جبرئیل ؑ کا کوئی دخل ہے اور نہ ہی حضورِ اَقدسﷺ کا۔
جو لو گ وحی کے بارے میں مادہ پرستوں کے اعتراضات سے مرعوب ہیں‘ ان میں سے بعض کا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن کا صرف مفہوم بذریعہ وحی نازل ہوا تھا اور (معاذ اللہ!) اس کے الفاظ اور تراکیب وغیرہ سب حضرت جبریل یا آنحضرتﷺ کی ہیں‘ لیکن یہ خیال مکمل طور پر باطل‘ مہمل اور قرآن و سُنّت کے صریح دلائل کے بالکل خلاف ہے۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ اس کے الفاظ اور معانی دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے چند دلائل درج ذیل ہیں:
(ا) قرآن عظیم نے جابجا اپنی ایک صفت ’عربی‘ بیان کی ہے یعنی کہ اسے عربی میں نازل کیا گیا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اگر قرآن مجید کا صرف مفہوم وحی کے ذریعے نازل ہوا ہوتا تو پھر سورۃ الزخرف کی اس آیت کے کوئی معنی ٰہی نہیں بنتے: { اِنَّا جَعَلْنٰہُ قُرْءٰنًا عَرَ بِیًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ (۳)} ’’بے شک ہم نے اس کو عربی زبان کا قرآن بنایا ہے تاکہ تم سمجھ لو‘‘۔اور نہ ہی سورئہ یوسف کی اس آیت کا مفہوم سمجھ میں آتا : { اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ(۲)} ’’یقیناً ہم نے اس کو قرآن عربی (بنا کر)نازل کیا ہے کہ تم سمجھ سکو‘‘۔اس لیے کہ عربیت الفاظ کی صفت ہے‘ نہ کہ معانی کی۔
(ب) قرآن مجید میں کئی جگہ حضورِ اَقدسﷺ کے درج ذیل فرائض منصبی بیان کیے گئے ہیں‘ جیسے کہ سورئہ آل عمران میں ارشادِ خداوندی ہے:
{ لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْہِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ ۚ} (آیت ۱۶۴)

’’بے شک اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ انہی میں سے ایک رسول ان میں بھیجا جو انہیں اس (اللہ) کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ آنحضرتﷺ کے ذمے دو فرائض الگ الگ تھے‘ ایک آیاتُ اللہ کی تلاوت اور دوسرے ان کی تعلیم۔اب ظاہر ہے کہ تلاوت الفاظ کی ہوتی ہے معانی کی نہیں۔ لہٰذا حضورﷺ کے سب سے پہلے فریضہ ٔمنصبی کا تعلق صرف الفاظِ قرآن سے ہے‘ ان کے معانی سے نہیں۔
(ج) قرآن عظیم نے جابجا اپنے لیے ’الکتٰب‘ کا لفظ استعمال کیا ہے اور لفظ ’کتاب‘ کا اطلاق صرف ذہنی مضامین کے لیے نہیں ہوتا‘ بلکہ جب ان مضامین کو الفاظ کے سانچے میں ڈھال لیا جائے تب اسے ’کتاب‘ کہا جاتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ اورمعانی دونوں منزل من اللہ ہیں۔
(د) سورۃ القیامہ کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ جب حضرت جبرئیلؑ وحی لے کر آتےتو نبی کریمﷺ اسے یاد کرنے کے لیے جلدی جلدی الفاظ دہراتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
{ لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ (۱۶) اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ (۱۷) فَاِذَا قَرَاْنٰــہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ (۱۸) ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ (۱۹)}
’’(اے نبیﷺ!) آپ قرآن کو جلدی (یاد کرنے) کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں۔ اس کا جمع کرنا اور (آپ کی زبان سے) پڑھوانا ہمارے ذمے ہے۔ ہم جب (فرشتے کی زبانی) اسے پڑھ لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں۔ پھر اس کا واضح کر دینا ہمارے ذمہ ہے۔‘‘
یہ آیت ربانی صراحۃًاس بات کی دلیل ہے کہ حضرت جبرئیل ؑ جو الفاظ ِقرآنی لے کر آتے تھے‘ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہوتا تھا۔اسی لیے اس کے الفاظ یاد کرانے‘ اس کی تلاوت کا طریقہ سکھانے اور اس کے معانی کی تشریح کرنے کے تینوں کام اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لیے ہیں۔ ان واضح دلائل کی روشنی میں یہ گمان بالکل باطل ثابت ہوتا ہے کہ الفاظِ قرآنی وحی کے ذریعے نازل نہیں کیے گئے۔ اس مسئلے پر بحث کرتے ہوئے شیخ محمد عبدالعظیم زرقانی نے ’’مناہل القرآن‘‘ میں بڑی عمدہ بات لکھی ہے کہ ’’اس مقا م پر بحث کا لب لباب یہ ہے کہ قرآن کریم کے توالفاظ اور معنی دونوں بالاتفاق وحی کے ذریعے نازل ہوئےہیں‘ اور احادیث قدسیہ کے بارے میں مشہور قول یہی ہے کہ ان کے الفاظ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں‘ البتہ احادیث نبویہ کے صرف معنی وحی ہیں‘ الفاظ حضورﷺ کے اپنے ہیں‘ اور جو احادیث آپؐ نے اپنے اجتہاد سے ارشاد فرمائیں ان کے الفاظ اور معنیٰ دونوں حضورﷺ کے ہیں۔‘‘
دراصل جن لوگوں نے الفاظ قرآن کے وحی ہونے سے انکار کیا ہے‘ ان کے اس مغالطے کا منشا یہی ہے کہ وحی کے ذریعے الفاظ کا نزول ان کی سمجھ میں نہ آ سکا۔ لیکن وحی کی حقیقت اور اس کی عقلی ضرورت کو مدنظر رکھا جائے تو یہ شبہ خود بخود دور ہو جاتا ہے۔ اگر وحی واقعتاً ایک ضرورت ہے اور باری تعالیٰ اس پر قادر ہے‘ تو آخر کون سی معقول وجہ ہے کہ وہ ذاتِ برحق معنی تو نبی کے قلب پر اُتار سکے اور الفاظ اُتارنے پر (معاذ اللہ) قادر نہ ہو؟یہاں یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ علامہ بدرالدین زرکشی ؒنے ’’البرہان‘‘ اور علامہ سیوطی ؒنے ’’الاتقان‘‘ میں بعض لوگوں کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ان کے نزدیک کلام اللہ کے صرف مضامین اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور الفاظ حضرت جبرئیلؑ کے ہیں یا حضور ﷺکے‘لیکن قرآن و سُنّت اور اجماعِ اُمّت کے مضبوط دلائل کی روشنی میں یہ اقوال بالکل باطل ہیں۔ اُمّت ِمسلمہ کا اجتماعی عقیدہ ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ‘ معانی اور مفہوم سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ مذکورہ بزرگوں نے بھی ان اقوال کے قائلین کا کوئی حوالہ نہیں دیا‘ بلکہ قَالَ بَعْضُھُمْ (بعض لوگوں نے کہا ہے)کہہ کر یہ اقوال نقل کر دیے ہیں۔ علامہ سیوطی نے تواس کی صراحتاً تردید بھی کی ہے‘ اس لیے ان اقوال کو قطعاً اس مذہب باطل کی بنیاد نہیں بنایا جاسکتا۔
اس ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ احقر نے خود ڈاکٹر اسرار احمدؒ صاحب کی زبانی سنا ہے جو لاہور میں ہی غالباً ایف سی کالج کے انگریزپرنسپل اور علامہ اقبال کے درمیان پیش آیا۔ وہ دونوں کسی دعوت میں اکٹھے تھے کہ پرنسپل صاحب نے حضرت علامہ سے کہا کہ مَیں نے سنا ہے کہ آپ بھی verbal revelation (وحی بالالفاظ) کے قائل ہیں۔ اس پر علامہ اقبال کا جواب ان کی ذہانت پر دلالت کرتا ہے۔ آپ نے کہا کہ جی ہاں‘ مَیں verbal revelationکو نہ صرف مانتا ہوں‘ بلکہ مجھے تو اس کا ذاتی تجربہ بھی ہے۔ خود مجھ پر جب شعر نازل ہوتے ہیں تو وہ الفاظ میں ڈھلے ہوتے ہیں‘میں کوئی لفظ بدلنا چاہوں تو بھی نہیں بدل سکتا‘ گویا وہ میری تخلیق نہیں بلکہ مجھ پر نازل کیے جاتے ہیں۔ علامہ کے اس جواب کا مطلب یہ تھا کہ جب مجھ پر اشعار الفاظ کی شکل میں نازل ہوتے ہیں تو پھر حضورﷺ پروحی الفاظ کی شکل میں کیوں نہیں آ سکتی اور اس کے تسلیم کرنے میں کیا امر مانع ہے؟