(انوار ھدایت) شرک کا گناہ - پروفیسر محمد یونس جنجوعہ

7 /

شرک کا         گناہپروفیسر محمد یونس جنجوعہانسان کمزورپیدا کیا گیا ہے اوراس کمزوری کے تحت اس سے گناہوں کا صدور ہو جاتا ہے۔ خالق نے انسان کی اس کمزوری کا اُسے بھرپور فائدہ دیا ہے۔ انسان دنیا کی زینت میں کھو کر یا فوری فوائددیکھ کر کوئی گناہ کر بیٹھتا ہے۔ پھر جب وہ اس گناہ پر پشیمان ہو کر توبہ کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ نہ صرف اس کا گناہ معاف کر دیتا ہے بلکہ اس بندے سے راضی ہو جاتا ہے۔ جب بندہ کسی گناہ کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو مہلت دیتا ہے ۔اگر وہ اپنا ارادہ پورا نہیں کرتا تو اس کو ایک نیکی عطا کر دی جاتی ہے ‘ اور اگر وہ اپناارادہ پورا کر کے گناہ کا وہ کام کر لیتا ہے تو وہی ایک گناہ اُس کے نامہ عمال میں لکھا جاتا ہے۔ لیکن اگر وہ کوئی نیکی کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس ارادے پر ہی اُسے ایک نیکی کا اجر دیا جاتا ہے ‘اور اگر وہ اپنے ارادے کے مطابق نیکی کر گزرتا ہے تو اسے دس نیکیوں کا ثواب دیا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ہے‘ اسے اپنے بندوں کو معاف کرنا پسند ہے۔ اس کا فرمان ہے: {وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ(۳۰)} (الشوریٰ) ــ’’اور جو مصیبت بھی تم پر واقع ہوتی ہے وہ تمہارے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہوتی ہے‘ اور بہت سے گناہ تو وہ معاف بھی کرتا رہتا ہے۔‘‘ یعنی انسان اپنے گناہوں کی وجہ سے بہت سی مصیبتوں کا شکار بنتا ہے مگر اللہ تعالیٰ اس سے بہت سی مصیبتیں ویسے ہی ٹال دیتا ہے ۔اسی طرح اس نے وعدہ کر رکھا ہے کہ اگر کوئی شخص بڑے بڑے گناہوں سے بچے گاتو اُس کے چھوٹے چھوٹے گناہ خود ہی بخش دیے جائیں گے ۔قرآن مجید میں ارشادہے:{اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَــآئِـرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُـکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَنُدْخِلْکُمْ مُّدْخَلًا کَرِیْمًا(۳۱)}(النساء) ’’اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے اجتناب رکھو گے تو ہم تمہاری چھوٹی برائیوں کو تم سے دَورکر دیں گے اور تمہیں عزّت کی جگہ پر داخل کریں گے۔‘‘ یعنی انسان اگر بڑے بڑے گناہوں مثلاً سود‘قتل‘ بدکاری‘ وعدہ خلافی‘ جھوٹ‘ غیبت‘ فحاشی وغیرہ سے بچ کر زندگی گزارے تو اس کے چھوٹے چھوٹے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ مائل بہ کرم ہے ‘وہ نیکی کرنے والے کو کم از کم دس گنا اجر دیتا ہے ‘ مگر گناہ گار کو اس کے گناہ کی مقدار ہی میں سزا ملے گی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :{مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِہَاج وَمَنْ جَآئَ بِالسَّیِئَۃِ فَلَا یُجْزٰٓی اِلَّا مِثْلَہَا وَہُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ(۱۶۰)} (الانعام) ’’جو کوئی(اللہ کے حضور)نیکی لے کر آئے گا اس کو ویسی دس نیکیاں ملیں گی ‘اور جو برائی لائے گا اسے ویسی ہی سزا ملے گی اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر خاص مہربانی ہے کہ نیکیوں کو تو وہ پروان چڑھاتا ہے اور کئی گنا بڑھاتا ہے مگر اکثر گناہوں کو تو معاف ہی کر دیتا ہے یا گناہ کو ایک ہی لکھا جاتا ہے۔ بخاری اور مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے‘ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کو نیکیاں اور برائیاں لکھنے کا حکم دیا‘ اس طرح پر کہ جو شخص نیکی کا ارادہ کرے اور اس پر عمل نہ کر سکے تو اللہ تعالیٰ اس کو ایک پوری نیکی شمار کر لیتا ہے‘ اورجو شخص نیکی کا ارادہ کر کے اس پر عمل کرے اس کے حساب میں ایک نیکی کے بدلہ میں دس نیکیوں سے سات سو نیکیوں تک بلکہ اس سے بھی زیادہ لکھی جاتی ہیں‘اور جو شخض برائی کا ارادہ کرے اور برائی کو عمل میں نہ لاسکے تو اللہ تعالیٰ اپنے ہاں اس کے حساب میں ایک پوری نیکی لکھ لیتا ہے ‘اور جو شخض برائی کا ارادہ کر کے اس کو عمل میں بھی لائے تو صرف ایک برائی اس کے نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ جس طرح اپنی ذات میں بے مثل اور بے مثال ہے اسی طرح اس کی ہر صفت بھی لامحدود اور بے کنار ہے۔ اور اس کی صفت رحمت تو سب سے بڑھ کر ہے ۔قرآن مجید میں ارشادہے:{وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍط}(الاعراف:۱۵۶) ’’اور میری رحمت چھائی ہوئی ہے ہر شے پر ـ‘‘۔ گناہ کو چھوڑ کر سچے دل سے توبہ کرنے والے تو ایسے ہیںکہ فرشتے بھی اُن کے لیے بخشش کی دعا کرتے ہیں۔ارشاد ہے:{رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْءٍ رَّحْمَۃً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا}(المؤمن:۷) ’’اے ہمارے پروردگار! تیری رحمت ہر چیز پر پھیلی ہوئی ہے ‘پس تُوبخش دے ان لوگوں کو جو توبہ کریں۔‘‘ اللہ تعالیٰ کو بندے کا گناہوں کو چھوڑ کر سچے دل سے توبہ کرنا اس قدر پسند ہے کہ ایسے شخص کے گناہوں کو وہ نیکیوں میں بدل دیتا ہے۔ سورۃ الفرقان میں کبیرہ گناہوں کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد ہوا :{ اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍ ط وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۷۰)} ــ’’مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور اچھے کام کیے تو ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں میں بدل دے گا ۔اور اللہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ گویا سالہا سال تک گناہوں میں لتھڑا ہوا انسان بھی اگر گناہوں کو چھوڑ کر سچے دل سے تائب ہو جائے تو اس کے گناہوں کو قلم زدکر دیا جاتا ہے‘ بلکہ اللہ تعالیٰ کی بے حساب رحمت اس کے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیتی ہے۔
قرآن و حدیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کی خطائوں سےدرگزر کرتا رہتا ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ اگر بندے سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے اور وہ گناہ کے بعد نیکی کرے تو وہ نیکی اس گناہ کو مٹا دے گی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ہمارا پروردگار رات کے آخری تہائی حصے میں آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور کہتا ہے: کون ہے جو مجھ سے مانگے تاکہ میں اس کے سوال کو پورا کروں؟کون ہے جو مجھ سے مغفرت چاہے اور میں اُس کو بخش دوں؟‘‘(متفق علیہ)
چھوٹے بڑے سارے گناہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مہربانی سے بخشے جا سکتے ہیں‘مگر ایک گناہ ایسا ہے کہ جس کی بخشش سے اللہ تعا لیٰ نے انکار کر دیا ہے۔ اس گناہ کو ظلم عظیم کہا گیا ہے اور وہ ہے شرک۔ قرآن مجید میںارشادہے:{اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ(۱۳)}(لقمان) ’’بیشک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘ شرک اس لیے ظلم عظیم ہے کہ اِس کا مرتکب اپنے عمل سے ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘  کو جھٹلا تا ہے‘ جب کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ ایمان کی بنیاد ہے۔ اللہ کے دَر کو چھوڑ کر اللہ کی مخلوق کے افراد کے سامنے دعا کے لیے ہاتھ پھیلانا اور ان کے اندر خدائی صفات ماننا نا سمجھی ہے۔
شرک کیا ہے؟
جس طرح اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں لا شریک ہے‘ اسی طرح اس کی ہر صفت بھی بے مثال اور بے نظیر ہے۔شرک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کو کـمـاھی مخلوق کے کسی فرد میں تسلیم کرنا۔نیز مخلوق کے کسی فرد کی صفت کو اللہ کی صفت کی طرح وسیع ماننا بھی شرک ہے۔ شرک توحید کا الٹ ہے۔ توحید کا تقاضا تو یہ ہے کہ تمام مراسم عبودیت خالص اللہ کے لیے ہیں۔ صرف وہی ہے کہ جس سے دعا کی جائے۔ وہی رکوع اور سجدے کے لائق ہے۔ تمام نیک عمل اسی کی رضا کے لیے کیے جائیں۔ صدقہ وخیرات‘ نذرونیاز‘ قربانی صرف اللہ کے لیے ہو۔ اللہ تعالیٰ کو بے نیاز اور اُسے ہر چیزکا خالق مانا جائے۔ اس کی مخلوق کا کوئی فرد ایسا نہیں جس میں خدائی صفات موجود ہوں۔ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے اور کوئی ذات بے نیاز نہیں‘ بلکہ مخلوق کا کوئی فرد‘ انسان ہو‘جن ہو‘ یا فرشتہ ‘اُس کا نیازمند ہے۔ مخلوق کے جس فرد میں کوئی صلاحیت یا خوبی ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کی عطا کردہ ہے۔ وہی موت و حیات کا مالک ہے‘ روزی رساں ‘ مشکل کشا اور بگڑی بنانے والا ہے۔ الغرض جس طرح اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں اکیلا ہے اسی طرح وہ صفات میں بھی یکتا ہے۔
شرک وہ گناہ ہے جس کی زد توحید باری تعالیٰ پر پڑتی ہے۔ اس لیے ایسا شخص اللہ کا باغی ٹھہرتا ہے اور باغی سخت ترین سزا کے لائق ہوتا ہے۔ بس یہی ایک گناہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ناقابل بخشش قرار دیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے نبی مکرمﷺ کو بھی اور مومنین کو بھی شرک کے مرتکب کے لیے دعائے مغفرت مانگنے سے روک دیا ہے۔
ارشاد ہوا:{مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَلَوْ کَانُوْٓا اُولِیْ قُرْبٰی مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ(۱۱۳)} (التوبۃ) ’’پیغمبر اور مسلمانوں کو یہ روا نہیں کہ وہ مشرکین کے لیے بخشش مانگیں خواہ وہ اُن کے قرابت دار ہی کیوں نہ ہوں اس کے بعد جب کہ ان پر واضح ہو چکاکہ وہ لوگ جہنمی ہیں‘‘۔ شرک کے ناقابل بخشش ہونے کا اعلان خود اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں کر دیا: {اِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ ط وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللہِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا بَعِیْدًا (۱۱۶)} (النساء) ’’اللہ تعالیٰ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا (اور گناہ) جس کے لیے چاہے بخش دے گا۔ اور جس نے اللہ کے ساتھ شریک بنایا وہ رستے سے دُور جا پڑا۔‘‘ سورۃ النساء ہی میں اس طرح ہے: {اِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ ج وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللہِ فَقَدِ افْتَرٰٓی اِثْمًا عَظِیْمًا(۴۸)} ’’ اللہ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اوراس کے سوا اور گناہ جس کو چاہے معاف کر دے گا۔ اور جس نے اللہ کا شریک مقرر کیا اُس نے بڑا بہتان باندھا۔‘‘
شرک کی شناعت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ سورۃالانعام میں ۱۸ پیغمبروں کے ناموں کا ذکر کر کے فرمایا: {وَلَوْ اَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۸۸)} ’’اگر وہ لوگ بھی شرک کرتے تو جو عمل وہ کرتے تھے وہ سب ضائع ہو جاتے۔‘‘ اگرچہ یہ محال ہے کہ اللہ کا کوئی نبی شرک کرے تاہم شرک کی شناعت واضح کرنے کے لیے رسول اللہﷺ کومخاطب کرکے بھی فرمایا گیا: {وَلَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْکَ وَاِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ ج لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (۶۵)}(الزمر) ’’اور (اے محمدﷺ!)تمہاری طرف اور ان (پیغمبروں) کی طرف جو تم سے پہلے ہو چکے ہیں یہی وحی بھیجی گئی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارے عمل برباد ہو جائیں گے اور تم نقصان اٹھانے والوں میں ہو جائو گے۔‘‘
شرک کے سوا کوئی ایسا گناہ نہیں جس کاارتکاب کرنے والے کے بارے میں یہ کہا گیا ہو کہ وہ جنت میں داخل نہ ہوگا بلکہ اُس کے لیے جنت میں داخلہ حرام ہوگا۔ شرک کی برائی اس قدر واضح کر دی گئی ہے کہ ہر وقت آدمی خبردار رہے کہ اُس سے کوئی ایسا کام نہ ہو جائے جس میں شرک کا ادنیٰ سا بھی شائبہ ہو۔
اہل کتاب کی طرح مسلمانوں میں بھی یہ خام خیال در آیا ہے کہ ہمارے لیے ختم المرسلین محمد مصطفیٰﷺ کی اُمّت میں ہونا ہی بڑی فضیلت ہے‘ ہم لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ  کا اقرار کرنے والے ہیں‘ ہمیں مشرک کیسے کہا جا سکتا ہے! مگر قرآن مجید کے اندربڑے واضح الفاظ میں اس غلط فہمی کا ازالہ کر دیا گیا ہےکہ اللہ پر ایمان رکھنے والے بھی اکثر شرک کا ارتکاب کرنے والے ہیں۔ ارشاد ہوا:{وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ بِاللہِ اِلَّا وَہُمْ مُّشْرِکُوْنَ(۱۰۵)} (یوسف) ــ’’اور اکثر لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے مگر (اس کے ساتھ) شرک کرتے ہیں۔‘‘
پس مسلمانوں پر لازم ہے کہ شرکیہ کاموں سے سخت اجتناب کریں‘ بلکہ ایسے کاموں سے بھی دور رہیں جن کے کرنے میں شرک کا شک و شبہ ہو‘ تاکہ اُن کے لیے جنت کا داخلہ بند نہ ہو جائے اور ناقص ایمان ان کے لیے سزا کا موجب نہ بن جائے۔