بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بعد از خدا بزرگ توئی قصّہ مختصر!
نوٹ: یہ اداریہ قبل ازیں۲۰۱۰ء میں ماہ ربیع الاوّل میں شائع ہو چکا ہے۔ اداریہ نویس کافی غور و خوص کرنے کے باوجود تیرہ سال پہلے اپنے لکھے ہوئے اس اداریے میںکسی قسم کا حک و اضافہ نہ کر سکا‘ لہٰذا اسی تحریر کو مِن و عَن قند ِ مکرر کے طور پر شائع کیا جارہا ہے۔
اللہ ربّ العزت کی تخلیق کا ذروۂ سنام کون ہے؟ حسنِ خلق کی انتہا کون ہے؟ بندگی کی معراج پر کون ہے؟ کائنات میں بے مثل کون ہے؟ حکمت اور دانائی کے بلند ترین مقام پر کون فائز ہے؟ کس کی رسائی وہاں تک ہوئی جہاں پہ فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں؟ آدم و حوا کی اولاد میں سے وہ واحد ہستی کون سی ہے جس کا اٹھنا بیٹھنا ‘ چلنا پھرنا‘ کھانا پینا‘ سونا جاگنا‘ دیکھنا سننا‘ رہنا سہنا اور پہننا اتارنا تاریخ نے مقدّس امانت کے طور پر محفوظ کر لیا؟ وہ کون ہے جس کی تجارت دیانت کی علامت تھی؟وہ کون سی ہستی ہے جس کی امانت داری کی قسم اُس کی جان کے دشمن بھی کھاتے تھے؟ غریب کی پشت پناہی ‘ یتیم کی سرپرستی‘ بچوں سے شفقت‘ بڑوں کی عزّت و احترام‘ بیمار کی تیمارداری میں کون تمام انسانوں میں سرِفہرست ہے؟ عورتوں کے حقوق اور غلاموں سے اچھے سلوک کا دنیا میں مبلغ ِاعظم کون ہے؟ عہد نبھانا‘وعدہ وفا کرنا دنیا کو کس نے سکھایا؟ وہ کون سی ہستی ہے جس کی زبان پر صرف حق جاری ہوتااور جس سے صرف عدل کا صدور ہوتا؟کسے جدید دور کے محققین نے تاریخ کا دھارا موڑ دینے والوں میں سرِفہرست قرار دیا‘ یعنی عظیم ترین انقلابی تسلیم کیا؟ ایک مسلمان کے لیے اِس پرچۂ سوالات کا جواب دینا آسان ترین کام ہے‘ جس کے لیے ایک لمحہ بھی سوچ بچار کی ضرورت نہیں۔ یقینا یہ وہی ہستی ہے جس پر کائنات کے خالق و مالک نے خود درود و سلام بھیجا!---- لیکن مقامِ افسوس ہے کہ محبّت کے تقریری اور تحریری دعووں کے باوجود اِس مقدّس ترین ہستی کے فرمودات پر عمل اور اُس کی سُنّت کی پیروی آج مسلمان کے لیے مشکل ترین کام بن گیا ہے۔ کمالِ مہربانی سے ماہ ربیع الاوّل حضورﷺ کو الاٹ کر دیا گیا ہے‘ جب نعت بھی ہو گی ‘آپ ؐکے اوصافِ حمیدہ کا چرچا بھی ہو گالیکن فرد اور معاشرہ کی سطح پر کوئی عملی تبدیلی رونما نہیں ہو گی۔
۱۲ربیع الاوّل پہلے بارہ وفات کہلاتی تھی ‘پھر عید میلاد النبیؐ بن گئی۔ہم اِس بحث میں نہیں اُلجھتے کہ آپﷺ کی حقیقی تاریخ پیدائش یہی ہے یا نہیں! مؤرخین کی اکثریت ربیع‘الاوّل کی مختلف تاریخیں بتاتی ہے۔ بعض محققین ربیع الاوّل کے علاوہ دوسرے مہینوں کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ روزِ قیامت کسی مسلمان سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ بتاؤہم نے کس ماہ اور کس دن اپنے محبوب کو دنیا میں بھیجا تھا اور تم نے اُس روز جشن منایا تھا یا نہیں!آپؐ کی ولادت کا جشن منانے والوں کی خدمت ِعالیہ میں عرض ہے کہ وہ اُمّت ِ مسلمہ کے نوجوانوں کو یہ بھی بتائیں کہ یومِ طائف آپﷺ پر کیا گزری تھی۔ حرم شریف میں حالت ِ سجدہ میں آپؐ کے سر مبارک پر اونٹ کی اوجڑی رکھ دی گئی تھی۔ آپﷺ اپنے قبیلہ سمیت شعبِ ابی طالب میں تین سال قید رہے اور معاشی بائیکاٹ کا سامنا کیا‘جس کے دوران آپؐ اور اہل ِ قبیلہ درختوں کے پتے چباتے اور سوکھے ہوئے چمڑے اُبال کر اُس کا پانی پیتے رہے تاکہ جان و جسم کا رشتہ برقرار رکھا جا سکے۔ غزوۂ اُحد میں دندانِ مبارک بھی شہید ہوئے۔ لیکن اِس سب کچھ کے باوجود آپﷺ اپنے مقدّس مشن سے ایک لمحہ کے لیے بھی غافل نہ ہوئے۔ اِسی طرح لالچ اور ترغیب کے تمام ہتھکنڈوں کے جواب میں فرمایا کہ اگر تم میرے ایک ہاتھ پر چاند اور دوسرے ہاتھ پر سورج بھی رکھ دو تب بھی احکاماتِ خداوندی سے سرِموانحراف نہیں کروں گا۔ آپﷺ پر درود بھیجنا کہ یہ سُنّت اللہ ہے اور آپ ؐکے اوصاف اور محاسن کا ذکر کرنا یقیناً عبادت ہے‘ لیکن اس کے باوجود آپ ؐکے احکامات پر عمل پیرا ہونے سے گریز کرنا اور سُنّت ِ نبویؐ کو اپنانے سے راہِ فرار اختیار کرنا کھلی منافقت ہے۔اللہ ربّ العزت کو منافقت سے شدید نفرت ہے‘ اسی لیے اُس نے جہنم کی بدترین وادی کو منافقوں کا ٹھکانا بنایا ہے۔
خطبہ حجۃ الوداع کا غور سے مطالعہ کریں ۔حضورﷺنے جہاں اپنے فرضِ منصبی کی ادائیگی کا گواہ مسلمانوں کے انبوہِ کثیر کو بنایا وہاں اُمّت کو یہ ذمہ داری بھی سونپی کہ وہ اِس دعوت کو دنیا بھر میں پھیلانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔ ہم غور کرنے کی تکلیف گوارا کریں تو بڑی آسانی سے اِس نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں کہ اُمّت ِمسلمہ آج ذِلّت و رسوائی سے کیوں دوچار ہے‘ دشمن کا خوف ہمارے اذہان و قلوب پر کیوں مسلط ہے اور شکست و ہزیمت ہمارا مقدّر کیوں ٹھہر گیا ہے!یہ سب اس لیے ہے کہ محسن ِانسانیت ﷺسے ہماری زبانی محبت‘ اطاعت کی آمیزش نہیں رکھتی۔ نبی اکرمﷺ کا مقصد ِبعثت اللہ کی کبریائی کو دنیا میں کارفرما کرنا اور اُس نظامِ عدل و قسط کو قائم کرنا تھا جس کے بنیادی اصول و قواعد اللہ ربّ العزت نے اپنی آخری کتاب میں نازل کر دیے تھے۔ پھر یہ کہ اُمّت ِمسلمہ کو اُمّت ِوَسط قرار دیا تھا اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو اِس کا بنیادی فریضہ بتایا گیا تھا۔ لیکن یہ قوم دوسروں کو معروف کا حکم کیا دیتی اور منکر کے راستے کا پتھر کیا بنتی‘ اس کا اپنا حال یہ ہے کہ ستاون اسلامی ممالک میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے کہ اُسے صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست کہا جا سکتا ہو‘ جہاں ہر کام سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہو کہ اللہ کا حکم کیا ہے‘ پیارے نبیﷺ کی سُنّت کیا ہے!
آخرت میں سرخرو ہونے کے لیے اور دنیا میں عزت و وقار کا مقام حاصل کرنے کے لیے ہمیں سیرتِ نبویؐ سے روشنی حاصل کرنی ہو گی اور صحابہؓ کے کردار کا جائزہ لینا ہو گا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین آپ کے یوم پیدائش پر جشن تو نہیں مناتے تھے ‘لیکن جہاں حضورﷺ کا پسینہ گرتا تھا وہاں صحابہؓ کا خون گرتا تھا۔وہ آپ ؐکے اشارۂ ابرو پر جان کی بازی لگانے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ مکہ کی بے آب و گیاہ زمین کے یہ مکین قیصر وکسریٰ پر حاوی ہو گئے۔ ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں تلوار پکڑ کر وہ بحروبر کو روندتے چلے گئے۔ صحرا ‘جنگل اور پہاڑ کوئی ان کے راستے میں حائل نہ ہو سکا‘حالانکہ ہماری طرح اُن کے بھی دو ہاتھ دو پائوں تھے ‘لیکن اُن کے قلوب قرآن کی دولت سے مزین تھےاور سُنّت ِ رسول ؐاُن کا ہتھیار تھا۔ آج بھی ہمارے مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ ہم اپنے قول و فعل کا تضاد دور کریں۔ ہماری زبانیں اگر حضورﷺ کی نعت سے تر ہوں تو ہمارے افعال ارشادِ نبویؐ کے مطابق ہوں۔ ہم سُنّت ِ رسولؐ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیں اور صرف ماہ ربیع الاوّل ہی نہیں ہر دن ہر شب کی نسبت حضور ﷺسے جوڑ دیں۔ کسی صورت اللہ کے حکم کی خلاف ورزی نہ ہو اور کبھی سُنّت ِرسولؐ کا دامن ہمارے ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ ہماری زندگی اس بات کی گواہ ہو کہ: ع بعدازخدا بزرگ توئی قصّہ مختصر!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024