(بیان القرآن) سُورۃُ المُرسَلٰت - ڈاکٹر اسرار احمد

10 /

دورۂ ترجمۂ قرآن
سُوْرَۃُ الْمُرْسَلٰتِ
ڈاکٹر اسرار احمدتمہیدی کلماتسورۃ المرسلات انتیسویں پارے کی آخری سورت ہے۔ جوڑے کے اعتبار سے اس کاتعلق تیسویں پارے کی پہلی سورت یعنی سورۃ النبا کے ساتھ ہے۔ دونوں سورتوں کے مضمون‘ اسلوب اور آیات کی ترتیب میں گہری مشابہت پائی جاتی ہے۔ سورۃ المرسلات پچاس آیات پر مشتمل ہے۔ اس کے پہلے رکوع میں چالیس جبکہ دوسرے رکوع میں دس آیات ہیں۔ سورۃ النبا کی کل چالیس آیات ہیں۔ اس کے پہلے رکوع میں تیس آیات ہیں‘جبکہ سورۃ المرسلات کی طرح اس کا بھی دوسرا رکوع دس آیات پر مشتمل ہے۔ سورۃ المرسلات کے آغاز میں پے در پے قسموں کا ذکر ہے۔اس خصوصی انداز کے اعتبار سے یہ قرآن مجید کی تیسری سورت ہے۔ اس سے پہلے ہم ایسی دو سورتوں کامطالعہ کر چکے ہیں جن کا آغاز اسی طرح پے در پے قسموں سے ہوتا ہے۔ یعنی تیئیسویں پارے کی سورۃ الصافات اور چھبیسویں پارے کی سورۃ الذاریات ۔سورۃ الصافات کے آغاز کی قسموں کا مفہوم تو بالکل واضح ہے کہ ان میں فرشتوں کی خصوصیات بیان ہوئی ہیں۔ اسی طرح سورۃ الذاریات کی قسموں کے بارے میں بھی مفسرین کا اجماع ہے کہ ان سے ہوائیں مراد ہیں‘ لیکن زیر مطالعہ سورت کی قسموں کے بارے میں مفسرین کی آراء مختلف ہیں۔ کچھ مفسرین ان سے ہوائیں مراد لیتے ہیں‘جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ ان میں فرشتوں کا ذکر ہے۔
آیات ۱ تا ۴۰بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

آیت ۱{وَالْمُرْسَلٰتِ عُرْفًا(۱)} ’’قسم ہے اُن ہوائوں کی جو چلائی جاتی ہیں بڑی آہستگی سے۔‘‘
اللہ تعالیٰ ان ہوائوں کو خاص مقاصد کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت چلاتا ہے۔
آیت۲ {فَالْعٰصِفٰتِ عَصْفًا(۲)}’’پھر تیز و تند جھکڑ کی صورت میں چلتی ہیں۔‘‘
آیت ۳{وَّالنّٰشِرٰتِ نَشْرًا(۳)} ’’اور اُن ہوائوں کی قسم جو (بادلوں کو) پھیلا دیتی ہیں۔‘‘
آیت۴{فَالْفٰرِقٰتِ فَرْقًا(۴)} ’’پھر تقسیم کرتی ہیں جُدا جُدا۔‘‘
سورۃ الذاریات میں ہوائوں کی اس خصوصیت کا ذکر {فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا(۴)} کے الفاظ میں ہوا ہے۔یعنی ہوائیں سمندر سے بخارات کو بادلوں کی صورت میں دور دراز علاقوں تک لے جاتی ہیں‘ پھر وہ اس پانی کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق مختلف علاقوں میں بارش کی صورت میں تقسیم کرتی ہیں۔ اس تقسیم میں ان کا معاملہ ہر جگہ یکساں نہیں ہوتا بلکہ جُدا جُدا ہوتا ہے۔ کہیں اللہ تعالیٰ کی حکمت اور مشیت سےجل تھل ہو جاتا ہے اور کوئی علاقہ خشک رہ جاتا ہے۔
آیت ۵{فَالْمُلْقِیٰتِ ذِکْرًا(۵)} ’’پھر قسم ہے ان (فرشتوں) کی جو ذکر کا القاء کرتے ہیں۔‘‘
گزشتہ چار آیات کے بارے میں تقریباً تمام مفسرین متفق ہیں کہ ان میں ہوائوں کا ذکر ہے۔ البتہ اس آیت کے حوالے سے زیادہ تر مفسرین کا خیال ہے کہ اس سے فرشتے مراد ہیں ‘جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی لے کر آتے ہیں ۔البتہ بعض لوگوں کی رائے یہ ہے کہ اس آیت میں بھی ہوائوں ہی کا تذکرہ ہے ۔اس حوالے سے ان مفسرین کا استدلال یہ ہے کہ کسی نبی یا کسی داعی کی آواز بھی تو ہوا ہی کے ذریعے سے لوگوں تک پہنچتی ہے۔ یعنی پیغامات و معلومات کی ترسیل و تقسیم کا ذریعہ(medium)تو بہرحال ہوا ہی ہے۔
آیت ۶{عُذْرًا اَوْ نُذْرًا (۶)} ’’عذر کے طور پر یا خبردار کرنے کے لیے۔‘‘
وحی یا ذکر (یاد دہانی) کا ابلاغ یا تو اس لیے ہوتا ہے کہ لوگوں پر اتمامِ حُجّت ہو اور ان کا عذر ختم ہو جائے۔ جیسا کہ سورۃ النساء کی آیت ۱۶۵ میں انبیاء و رسل علیہم السلام کی بعثت کا مقصد واضح کرتے ہوئے فرمایا گیا : {لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ ط} ’’تا کہ نہ رہ جائے لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی حُجّت (دلیل) رسولوں ؑکے آنے کے بعد‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام رسولوںؑ کو دنیا میں اسی لیے بھیجا تھا کہ ان کی بعثت کے بعد لوگوں کے پاس اُس کے ہاں پیش کرنے کے لیے کوئی عذرنہ رہ جائے ۔ وحی یا یاددہانی کا دوسرا مقصد یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ لوگوں کو خبردار کرنے (نُذْرًا) کے لیے ہوتی ہے کہ اگر وہ جاگنا چاہیں تو جاگ جائیں اور راہِ راست پر آنا چاہیں تو آجائیں۔
اب اگلی آیت میں ان قسموں کے مقسم علیہ کا ذکر ہے کہ یہ قسمیں کس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے کھائی گئی ہیں:
آیت ۷{اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَـوَاقِعٌ (۷)} ’’جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ واقع ہو کر رہے گی۔‘‘
یعنی جس قیامت کے بارے میں تم لوگوں کو بار بار متنبہ کیا جا رہا ہے وہ ضرور آ کر رہے گی۔ واضح رہے کہ سورئہ قٓ سے لے کر سورۃ الناس تک مکّی سورتوں کا موضوع انذارِ آخرت ہے ۔اس لیے سورۃ الذاریات کی قسموں کا مقسم علیہ بھی انذارِ آخرت ہی سے متعلق تھا: {اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌ(۵) وَّاِنَّ الدِّیْنَ لَوَاقِعٌ(۶)} ’’جو وعدہ تمہیںدیا جا رہا ہے وہ یقیناً سچ ہے۔ اور جزا و سزا ضرور واقع ہو کر رہے گی‘‘۔البتہ سورۃ الصافات کے آغاز میں مذکور قسموں کا انداز تو بالکل ایسا ہی ہے لیکن وہاں ان قسموں کے مقسم علیہ کا تعلق توحید سے ہے : {اِنَّ اِلٰہَکُمْ لَوَاحِدٌ(۴)} ’’یقیناً تمہارا اِلٰہ ایک ہی ہے‘‘۔ اس لیے کہ سورۃ الصافات کا تعلق سورتوں کے جس گروپ سے ہے اس گروپ کا مرکزی مضمون ہی توحید ہے۔
آیت ۸{فَاِذَا النُّجُوْمُ طُمِسَتْ(۸)} ’’پس جب ستارے مٹا دیے جائیں گے۔‘‘
یعنی بے نور کر دیے جائیں گے اور ان کی روشنی ختم ہو جائے گی۔
آیت ۹{وَاِذَا السَّمَآئُ فُرِجَتْ(۹)} ’’اورجب آسمان میں شگاف پڑ جائیں گے۔‘‘
ایسی آیات ہمارے لیے آیاتِ متشابہات کا درجہ رکھتی ہیں۔ البتہ توقع کی جا سکتی ہے کہ جیسے جیسے سائنسی ترقّی کی بدولت انسان کی معلومات بڑھیں گی‘ ان آیات کا مفہوم بتدریج واضح ہوتا چلا جائے گا۔
آیت ۱۰{وَاِذَا الْجِبَالُ نُسِفَتْ(۱۰)} ’’اور جب پہاڑ (ریت بنا کر) اُڑا دیے جائیں گے۔‘‘
قیامت کے زلزلے کے باعث پہاڑ ریز ہ ریزہ ہو کر ریت کے ٹیلوں کی مانند ہو جائیں گے اور ان ٹیلوں کے ذرّات ہوا میں اُڑتے پھریں گے۔
آیت۱ ۱{وَاِذَا الرُّسُلُ اُقِّتَتْ(۱۱)} ’’اور جب رسولوں ؑ(کے کھڑے ہونے) کاوقت آ پہنچے گا۔‘‘
جب انبیاء ورسل علیہم السلام اللہ تعالیٰ کی عدالت میں شہادتیں دینے کے لیے کھڑے ہوں گے۔
آیت ۱۲{لِاَیِّ یَوْمٍ اُجِّلَتْ(۱۲)}’’(یہ معاملہ) کس دن کے لیے مؤخر کیا گیا ہے؟‘‘
آیت ۱۳{ لِیَوْمِ الْفَصْلِ (۱۳) } ’’فیصلے کے دن کے لیے۔‘‘
یعنی انبیاء و رسل ؑکی اپنی اپنی قوموں کے خلاف گواہی (کہ اے اللہ! ہم نے تیرا پیغام ان لوگوں تک پہنچا دیا تھا‘ اب یہ لوگ خود جوابدہ ہیں)اور خود متعلقہ اقوام کے افراد سے پوچھ گچھ جیسے معاملات اسی فیصلے کے دن کے لیے مؤخر کیے گئے ہیں۔
آیت ۱۴{وَمَآ اَدْرٰىکَ مَا یَوْمُ الْفَصْلِ(۱۴)} ’’اور تم لوگ کیا سمجھتے ہو کہ فیصلے کا دن کیا ہے؟‘‘
آیت ۱۵{وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّ بِیْنَ(۱۵)} ’’(ہلاکت اور) بربادی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔‘‘
لفظ ’’وَیْل‘‘ کے معنی تباہی اور بربادی کے بھی ہیں اور یہ جہنّم کی ایک وادی کا نام بھی ہے‘ جس کی سختیوں سے خود جہنّم بھی پناہ مانگتی ہے۔
آیت ۱۶{اَلَمْ نُہْلِکِ الْاَوَّلِیْنَ(۱۶)} ’’کیا ہم نے پہلوں کو ہلاک نہیں کیا ؟‘‘
آیت ۱۷{ثُمَّ نُتْبِعُہُمُ الْاٰخِرِیْنَ(۱۷)} ’’پھر ہم ان کے پیچھے لگاتے رہے بعد میں آنے والوں کو۔‘‘
اس سے نوعِ انسانی کی مختلف نسلوں کا یکے بعد دیگرے معمول کے مطابق دنیا میں آنا بھی مراد ہے اور ایک قوم کی تباہی کے بعد اس کی جگہ دوسری قوم کا اٹھایا جانا بھی۔ جیسے قومِ نوحؑ کی ہلاکت کے بعد قومِ عاد اور قومِ عادکی بربادی کے بعد قومِ ثمود کو پیدا کیا گیا۔
آیت ۱۸{کَذٰلِکَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمِیْنَ(۱۸)} ’’اسی طرح ہم کرتے رہے ہیں مجرموں کے ساتھ۔‘‘
آیت ۱۹{وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّ بِیْنَ(۱۹)}’’(ہلاکت اور) بربادی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔‘‘
یہ اس سورت کی ترجیعی (بار بار دہرائی جانے والی) آیت ہے جو اس میں دس مرتبہ آئی ہے۔
آیت ۲۰{اَلَمْ نَخْلُقْکُّمْ مِّنْ مَّآئٍ مَّہِیْنٍ (۲۰)} ’’کیا ہم نے تمہیں حقیر پانی سے پیدا نہیں کیا؟‘‘
انسان کا مادئہ تخلیق ایسی گھٹیا چیز ہے کہ جس کا نام بھی کوئی اپنی زبان پر لانا پسند نہیں کرتا۔ سورۃ الدھر میں اس حقیقت کا ذکر اس طرح آیا ہے:{ہَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّہْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا(۱)} ’’کیا انسان پر اس زمانے میں ایک ایسا وقت بھی گزرا ہے جبکہ وہ کوئی قابل ِذکر شے نہیں تھا؟‘‘
آیت ۲۱{فَجَعَلْنٰــہُ فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ(۲۱)}’’پھر ہم نے اس (نطفے) کو رکھ دیا ایک محفوظ مقام میں۔‘‘
یعنی اس حقیر پانی کی بوند کو مختلف مراحل سے گزارنے کے لیے ہم نے اسے ایک محفوظ مقام یعنی رحم ِمادر میں رکھا جو اس کے لیے ایک مضبوط قلعے کی حیثیت رکھتا ہے۔
آیت۲۲ {اِلٰی قَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ(۲۲)} ’’ایک طے شدہ مدّت تک۔‘‘
آیت۲۳ {فَقَدَرْنَا ق فَنِعْمَ الْقٰدِرُوْنَ(۲۳)} ’’تو ہم نے اندازہ مقرر کیا ‘اور ہم کیا ہی اچھے ہیں اندازہ مقرر کرنے والے!‘‘
اس آیت کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ ہم نے یہ سب کچھ اپنی قدرت سے کیا اور ہم کیا ہی اچھی قدرت رکھنے والے ہیں!
آیت ۲۴{وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّ بِیْنَ(۲۴)} ’’(ہلاکت اور) بربادی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔‘‘
آیت ۲۵{اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ کِفَاتًا(۲۵)} ’’کیا ہم نے زمین کو نہیں بنا دیا سمیٹ لینے والی؟‘‘
آیت۲۶ {اَحْیَآئً وَّاَمْوَاتًا(۲۶)}’’زندوں کو بھی اور مُردوں کو بھی!‘‘
اللہ تعالیٰ نے یہ زمین ایسی بنائی ہے کہ یہ اپنے اوپر موجود ہر زندہ وجود کی تمام ضروریات پوری کر رہی ہے اور ہر قسم کے مردہ کو بھی تحلیل کر کے اپنے اندر جذب کرلیتی ہے۔ اس حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے اس زمین میں ایسی گنجائش رکھی ہے کہ یہ تاقیامِ قیامت تمام زندوں اور تمام مُردوں کے لیے کفایت کرے گی۔
آیت ۲۷{وَّجَعَلْنَا فِیْہَا رَوَاسِیَ شٰمِخٰتٍ وَّاَسْقَیْنٰـکُمْ مَّآئً فُرَاتًا(۲۷)} ’’اور ہم نے اس کے اندر بنا دیے خوب جمے ہوئے اونچے اونچے پہاڑ اور ہم نے تمہیں پلایا (اس میں سے) تسکین بخش پانی ۔‘‘
آیت ۲۸ {وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِیْنَ(۲۸)}’’(ہلاکت اور) بربادی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔‘‘
ان تمام آیات میں تذکیر بآلاء اللہ کا انداز ہے ۔یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرتوں ‘نعمتوں اور اُس کے احسانات کے ذکر سے یاد دہانی کرائی جا رہی ہے۔
آیت۲۹ {اِنْطَلِقُوْٓا اِلٰی مَا کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّ بُوْنَ(۲۹)}’’چلو اب اُسی چیز کی طرف جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔‘‘
یعنی جہنّم کی آگ کی طرف ۔ یہ وہ حکم ہے جو میدانِ محشر میں اہل ِجہنّم کو سنایا جائے گا۔
آیت ۳۰{اِنْطَلِقُوْٓا اِلٰی ظِلٍّ ذِیْ ثَلٰثِ شُعَبٍ(۳۰)} ’’چلو اُس تین شاخوں والے سائے کی طرف!‘‘
میدانِ محشر کی چلچلاتی دھوپ اور شدید گرمی میں جب وہ لوگ جہنّم کو دیکھیں گے تو دور سے وہ انہیں تین اطراف میں پھیلے ہوئے سائے والی کسی جگہ کی طرح نظرآئے گی۔ چنانچہ انہیں کہا جائے گا کہ اگر تمہیں وہ سایہ نظر آتا ہے تو چلو اُس سائے کی طرف!لیکن اس ’’سائے‘‘ کی حقیقت یہ ہوگی کہ:
آیت۳۱{لَّا ظَلِیْلٍ وَّلَا یُغْنِیْ مِنَ اللَّہَبِ(۳۱)} ’’نہ تو وہ سایہ دار ہے اور نہ ہی آگ کی تپش سے بچانے والا ۔‘‘
آیت ۳۲{اِنَّہَا تَرْمِیْ بِشَرَرٍ کَالْقَصْرِ(۳۲)}’’وہ آگ اتنے بڑے بڑے انگارے پھینک رہی ہوگی جیسے کہ وہ محل ہوں۔‘‘
آیت ۳۳{کَاَنَّـہٗ جِمٰلَتٌ صُفْرٌ(۳۳)} ’’(یا) جیسے وہ زرد رنگ کے اونٹ ہوں۔‘‘
آیت ۳۴{وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّ بِیْنَ(۳۴)}’’(ہلاکت اور) بربادی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔‘‘
آیت ۳۵{ہٰذَا یَوْمُ لَا یَنْطِقُوْنَ(۳۵)} ’’یہ ہے وہ دن جس میں یہ بول نہیں سکیں گے۔‘‘
آیت ۳۶{وَلَا یُؤْذَنُ لَہُمْ فَیَعْتَذِرُوْنَ(۳۶)}’’اور نہ ہی انہیں اجازت دی جائے گی کہ وہ کوئی عذر تراشیں۔‘‘
آیت ۳۷{وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّ بِیْنَ(۳۷)} ’’(ہلاکت اور) بربادی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔‘‘
آیت۳۸{ہٰذَا یَوْمُ الْفَصْلِج} ’’یہ ہے فیصلے کا دن‘‘
{جَمَعْنٰکُمْ وَالْاَوَّلِیْنَ(۳۸)} ’’ہم نے جمع کر لیا تمہیں بھی اور پہلوں کو بھی۔‘‘
آیت ۳۹{فَاِنْ کَانَ لَکُمْ کَیْدٌ فَکِیْدُوْنِ(۳۹)}’’اب اگر تمہارے پاس کوئی چال ہے تو میرے خلاف وہ چال چل دیکھو۔‘‘
آیت ۴۰{وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّ بِیْنَ(۴۰)}’’(ہلاکت اور) بربادی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔‘‘
آیات ۴۱ تا ۵۰

اب دوسرے رکوع کی دس آیات میں تصویر کا دوسرا رخ دکھایا جا رہا ہے ۔یہاں شروع میں اہل ایمان کا احوال بیان ہوا ہے اور آخر میں انتہائی اختصار کے ساتھ کُفّار کا ذکر آیا ہے۔
آیت ۴۱{اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِی ظِلٰلٍ وَّعُیُوْنٍ(۴۱)} ’’(اس دن) متقین یقیناً سائے اورچشموں کے ماحول میں ہوں گے۔‘‘
آیت ۴۲{وَّفَوَاکِہَ مِمَّا یَشْتَہُوْنَ(۴۲)} ’’اور ایسے پھلوں کے اندر جو انہیں پسند ہوں گے۔‘‘
انہیں ایسے پھل دیے جائیں گے جنہیں کھانا انہیں بہت مرغوب ہو گا۔
آیت ۴۳{کُلُوْا وَاشْرَبُوْا ہَنِیْٓئًا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۴۳)} ’’(اور ہم ان سے کہہ دیں گے) کھائو‘ پیو مزے سے رَچتا پچتا ‘ان اعمال کے انعام کے طور پر جو تم کرتے رہے تھے۔‘‘
آیت ۴۴{اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(۴۴)}’’یقیناً ہم اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں اپنے محسن بندوں کو۔‘‘
آیت ۴۵{وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّ بِیْنَ(۴۵)}’’(ہلاکت اور) بربادی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔‘‘
اس کے بعد اب روئے سخن پھر کُفّار و مشرکین کی طرف ہو گیا ہے۔
آیت ۴۶{کُلُوْا وَتَمَتَّعُوْا قَلِیْلًا اِنَّکُمْ مُّجْرِمُوْنَ(۴۶)} ’’(اے کُفّار و مشرکین!) تم کھا پی لو تھوڑی دیر کے لیے ‘یقیناً تم لوگ مجرم ہو۔‘‘
تم لوگ اپنی دُنیوی زندگی میں عیش کر رہے ہو تو کرتے جائو۔ بالآخر قیامت کے دن تمہیں مجرموں کی حیثیت سے ہمارے سامنے پیش ہونا ہے۔
آیت ۴۷{وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّ بِیْنَ(۴۷)} ’’جس دن ہلاکت اوربربادی ہو گی (تمہارے جیسے تمام) جھٹلانے والوں کے لیے۔‘‘
آیت ۴۸{وَاِذَا قِیْلَ لَہُمُ ارْکَعُوْا لَا یَرْکَعُوْنَ(۴۸)}’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ (اپنے رب کے سامنے) جھکو تو یہ جھکتے نہیں ہیں۔‘‘
آیت ۴۹{وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّ بِیْنَ(۴۹)}’’(ہلاکت اور) بربادی ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے۔‘‘
آیت ۵۰{فَبِاَیِّ حَدِیْثٍ م بَعْدَہٗ یُؤْمِنُوْنَ(۵۰)}’’تو اب اس (قرآن) کے بعد یہ اور کس کلام پر ایمان لائیں گے؟‘‘
قرآن جیسا کلام سن کر بھی جس انسان کی آنکھیں نہیں کھلیں ‘تو اس کے بعد اس کی آنکھیں بھلا کب کھلیں گی؟