(عکسِ سیرت) نبی اُمّیﷺ سے ہمارا تعلق - ڈاکٹر اسرار احمد

10 /

نبی اُمّیﷺ سے ہمارا تعلقڈاکٹر اسرار احمدؒ

اُمّت ِمسلمہ اس وقت جس صورتحال سے دوچار ہے اس کی تفصیل میں جانے کی چنداں ضرورت نہیں ۔ہر صاحب ِنگاہ آگاہ ہے کہ عزّت و وقاراور سر بلندی گویا کہ ہم سے چھین لی گئی ہےاور‘ اللہ تعالیٰ معاف فرمائے‘ واقعہ یہ ہے کہ جیسے مغضوب علیہم قوموں کا نقشہ قرآن مجید میں کھینچا گیا ہے‘ مختلف اعتبارات سے وہی نقشہ آج ہمیں اپنے اوپر منطبق ہوتا نظر آ رہا ہے۔ ہمارے ہاں افتراق ہے‘ باہمی خانہ جنگیاں ہیں‘ اختلافات ہیں۔ وحدتِ اُمّت جو اِس وقت بہت مطلوب ہے‘ اس کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔سوال یہ ہے کہ اس صورت ِحال کا حل کیا ہے؟ اس کے لیے ہم کس سے رجوع کریں؟ اس کا جواب اگر ایک جملےمیں جاننا چاہیں تو وہ یہ ہے کہ خلوص اور اخلاص کا رشتہ اور وفاداری کا تعلق ازسرِنو اللہ سے‘ اُس کی کتاب سے‘ اُس کے رسول ﷺ سے استوار کیا جائے اور صحیح بنیادوں پر قائم کیا جائے۔ ایک حدیث کی رو سے نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ((اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ)) ’’دین تو بس خیر خواہی ‘ خلوص و اخلاص اور وفاداری کا نام ہے۔‘‘ پوچھا گیا :کس کی وفاداری‘ کس سے خلوص و اخلاص؟ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: ((لِلّٰہِ وَلِکِتَابِہٖ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِاَئِمَّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ وَعَامَّتِھِمْ)) (رواہ مسلم‘ عن تمیم الداری) ’’اللہ سے‘ اُس کی کتاب سے‘ اُس کے رسولﷺ سے‘ مسلمانوں کے رہنمائوں اور قائدین سے اور عامۃ المسلمین سے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے ساتھ خلوص و اخلاص اور وفاداری کا جہاں تک تعلق ہے وہ مختصر ترین الفاظ میںیوں ادا کیا جا سکتا ہے: التزامِ توحید اور شرک کی ہر نوعیت سے اجتناب ۔ اگرچہ یہ کام آسان نہیں۔ بقول علّامہ اقبال ؎
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں
جہاں تک قرآن مجید اور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ خلوص و اخلاص کا معاملہ ہے تو یہ درحقیقت دو چیزیں نہیں ہیں ‘جیسے کہ فرمایا اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے۔ جب ان سے فرمائش کی گئی کہ ہمیں نبی اکرمﷺ کی سیرت بتایئے تو آپؓ نے سوال کیا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ جب جواب اثبات میں آیا تو آپؓ نے فرمایا :((کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنُ))’’آپﷺ کی سیرت قرآن ہی تو ہے‘‘۔ مزید فرمایا: کیا تم لوگ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں پڑھتے : {وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (۴) } (القلم) ’’اورآپؐ یقیناً اخلاق کے بلند ترین مرتبہ پر فائز ہیں۔‘‘ (مسند احمد)
اب ہمیں سوچنا چاہیے کہ نبی اکرمﷺ کے ساتھ خلوص و اخلاص کے تقاضے کیا ہیں! آنحضورﷺ کے ساتھ ہماری وہ نسبت کیسے قائم ہو سکتی ہے جس کے بارے میں علّامہ اقبال نے فرمایا ہے ؎
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبیست
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرمﷺ سے ہمارے تعلقات کی بنیادیں چار ہیں‘ جو سورۃ الاعراف کی آیت ۱۵۷ میں بیان ہوئی ہیں۔ اس آیت کا پس منظر بڑا عجیب ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب اپنے اور اپنی قوم کے لیے بارگاہِ خداوندی میں رحمت کا سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے جواباً ارشاد فرمایا: میری ایک رحمت توعام ہے جو ہر شے پر چھائی ہوئی ہے‘ اور جو میری رحمت خصوصی ہے تو اسے میں نے مخصوص کر دیا ہے ان لوگوں کے لیے جو میرے نبی اُمّی(ﷺ) سے اپنا صحیح تعلق قائم کریں گے۔ وہ تعلق کیا ہے؟ اس کو مذکورہ بالا آیت کے آخری حصے میں بیان کر دیا گیا ہے:
{فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٓٗ لا اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۵۷)}
’’بس جو لوگ ان(نبی اُمّیﷺ) پر ایمان لائیں گے‘ ان کی تعظیم کریں گے‘ ان کی نصرت و حمایت کریں گے اور جو نور ان کے ساتھ نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کریں گے وہ ہوں گے اصل معنی میں کامیاب( اور میری رحمت خصوصی انہی لوگوں کے حصے میں آئے گی)۔‘‘
اس آیہ مبارکہ کی روشنی میں غورکیا جائے تو حضورﷺ کے ساتھ ہمارے تعلق کی چار بنیادیں واضح طو رپر سامنے آتی ہیں:
(۱) تصدیق و ایمان
یہ تصدیق کرنا کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ آپﷺ نے جو کچھ فرمایا اپنی طرف سے نہیں فرمایا‘ بلکہ ازروئے الفاظِ قرآنی:
{وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی(۳) اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی(۴) } (النجم)
’’ اور وہ (ہمارا نبیﷺ) اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا۔ یہ تو ایک وحی ہے جو اُس پر کی جاتی ہے۔ ‘‘
اب اس ضمن میں یہ جاننا چاہیے کہ اس ایمان اور تصدیق کے دو درجے ہیں۔ ایک زبانی اقرار جس سے انسان اسلام کے دائرے میں آ جاتا ہے۔ وہ قانونی ضرورت پوری ہو جاتی ہے جو اُمّت ِمحمدﷺ میں شامل ہونے کے لیے لازمی اور ضروری ہے ۔لیکن اصلی ایمان دل سے تصدیق کا ہے۔ آنحضورﷺ کی رسالت و نبوت پر دل میں یقین کی کیفیت پیدا ہو جائے تو یہ ہے ایمانِ مطلوب۔ اس کے بغیرہم نبی اکرمﷺ کے جو دوسرے حقوق ہیں وہ ادا نہیں کر سکتے۔ پھر زبانی کلامی تعلق رہے گا جیسے کہ‘ اللہ معاف فرمائے ‘آج ہماری ایک عظیم اکثریت کا ہے۔
(۲)تعظیم و محبت
یہ لازمی تقاضا ہے یقین قلبی کا۔ اگر یہ یقین ہو کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں تو آپﷺ کی عظمت کا نقش قلب پر قائم ہوجائے گا‘ آپﷺ کی محبت دل میں جاگزیں ہوگی۔ جیسے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
((لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَلَدِہٖ وَوَالِدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ)) (متفق علیہ)
’’ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ مَیں اُسے محبوب تر نہ ہو جائوں اُس کے اپنے بیٹے سے‘ اس کے اپنے باپ سے اور تمام انسانوں سے۔ ‘‘
یعنی اگر ایک مؤمن کے دل میں آنحضورﷺ کی محبت اپنے تمام اعزہ و اقرباء اور تمام انسانوں سے بڑھ کر جاگزیں ہوئی ہے تو وہ حقیقتاً مؤمن ہے۔ اس حدیث میں بیٹے اور باپ کے ذکر سے تمام عزیزوں‘ رشتہ داروں‘ قبیلوں اور قوموں کا احاطہ کر لیا گیاہے۔ ان الفاظ میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ ایسا نہیں کہ بات واضح نہ ہو‘ بلکہ صاف صاف اور دو ٹوک انداز میں ارشاد ہوا ہے کہ حقیقی ایمان کا لازمی تقاضا ہے کہ حضورﷺ ایک بندۂ مومن کو دنیا کی تمام چیزوں سے محبوب تر ہو جائیں۔ ؎
ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم گردہ می آید جنید و بایزید ایں جا
تعظیم ظاہری بھی مطلوب ہے اور قلبی بھی۔ اسی طرح محبت کا زبانی اظہار بھی ہو اور دل میں بھی جاگزیں ہو۔ اس کا سب سے بڑا مظہر ہے حضورِ اَقدسﷺ پر درود بھیجنا‘ جس کے بارے میں یہ بھی فرمایا گیا کہ اگرکوئی شخص اپنی دعا کُل کی کُل صرف حضورﷺ پر درود بھیجنے پر مشتمل کر دے تو اس کا یہ عمل اُس کی تمام حاجات کے لیے کافی ہو جائے گا۔ یعنی یہ کہیں زیادہ بہترہو گا اس سے کہ وہ خود اپنے لیے کوئی سوالات کرتا رہے۔
ان پہلی دو بنیادوں کالازمی نتیجہ آنحضورﷺ کی اطاعت و اتباع ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جب آپﷺ کو اللہ کا رسول مانا تو اب آپﷺ کے حکم سے سرتابی چہ معنی دارد؟ آپ کا ہر حکم سر آنکھوں پر ہونا چاہیے۔ البتہ انسان تحقیق کا حق رکھتا ہے کہ واقعۃً محمد رسولﷺ نے یہ حکم دیا ہے یا نہیں! جب طے ہو جائے کہ یہ آپﷺ کا فرمان ہے تو اب چون و چرا کا کوئی سوال نہیں۔ اب تو اطاعت کرنی ہو گی اور اطاعت بھی ایسی جس کے بارے میں قرآن مجید میں فرمایا گیا:
{فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۶۵)}(النساء)
’’ پس نہیں‘ آپؐ کے ربّ کی قسم! یہ لوگ ہرگز مومن نہیں ہوں گے جب تک کہ اپنے نزاعات میں آپ ہی کو حَکم نہ مانیں‘ پھر جو کچھ آپ فیصلہ فرما دیں اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں‘ بلکہ اس کے آگے پوری دلی آمادگی اور خوشی کے ساتھ سرِ تسلیم خم کر دیں۔ ‘‘
یہی بات آنحضورﷺ نے بایں الفاظ ارشاد فرمائی:
((لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبَعًا لِّمَا جِئْتُ بِہٖ )) (رواہ ابن ابی عاصم والبیھقی)
’’ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اُس کی خواہش نفس اس ہدایت کے تابع نہ ہو جائے جو مَیں لے کر آیا ہوں۔ ‘‘
جب اطاعت کے ساتھ محبت کی شیرینی شامل ہو جائے تو اس طرز عمل کا نام ہے اتباع۔ اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ ظاہر ہے کہ اطاعت تو ان احکام کی ہو گی جو حضورﷺ نے دیے ہوں‘ لیکن اتباع ان تمام اعمال و افعال کا ہو گا جس کا صدور و ظہور ہوا نبی اکرم ﷺ سے‘ چاہے اس کو کرنے کا حکم آپﷺ نے بالفعل نہ دیا ہو۔ اس اتباع کا قرآن مجید میں جو مقام ہے وہ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ سورۃ آل عمران میں فرمایا:
{قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہُ وَیَغْفِرْ لَـکُمْ ذُنُـوْبَکُمْ ط وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱)}
’’(اے نبیﷺ ان سے )کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو تم لوگ میرا اتباع کرو ‘اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطائوں کو ڈھانپ لے گا۔ اور اللہ بہت معاف کرنے والا اور بہت رحم فرمانے والا ہے۔ ‘‘
اس آیت ِکریمہ سے اتباعِ رسولﷺ کی یہ اہمیت سامنے آتی ہے کہ اللہ سے محبت کا دعویٰ ہے تو جناب محمد رسول اللہﷺ کا اتباع لازم ولا بُد ہے۔ اسی اتباع کا ایک نتیجہ تو یہ نکلے گا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے محبت فرمائے گا اور دوسرا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہم اس کی مغفرت کے مستحق قرار پائیں گے۔ اس سے زیادہ ایک بندۂ مومن کی خوش بختی اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اللہ کا محبوب اور اس کی مغفرت کا سزاوار بن جائے!
(۳)نصرتِ رسولﷺ
یوں سمجھیے کہ یہ عروج ہے حضورﷺ کے ساتھ ہمارے تعلق کا۔ حضورﷺ ایک مشن لے کر تشریف لائے تھےاور آپﷺ کا مقصد بعثت عالمی سطح پر ہنوز شرمندۂ تعبیرہے ؎
وقت ِفرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے!
نبی اکرم ﷺ چونکہ خاتم الانبیاء و المرسلین ہیں ‘ لہٰذا دعوت و تبلیغ کے ساتھ اظہارِ دین حق اور غلبۂ دین متین بھی نہ صرف آپؐ کے فرائض ِرسالت میں شامل ہے‘ بلکہ آپؐ کی بعثت کی غایت ِ اولیٰ ہے۔ یہ مضمون مدنی دور کی تین سورتوں‘ سورۃ التوبہ(آیت۳۳)‘ سورۃ الفتح(آیت۲۸)اور سورۃ الصف(آیت۹) میں وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا:
{ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ}
’’وہی ہے(اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسول(محمد ﷺ) کو الہدیٰ(قرآن حکیم) اور دین ِ حق (اسلام) دے کر تاکہ وہ اِس کو پورے کے پورے دین (نظامِ حیات) پر غالب کر دے۔‘‘
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے دورانِ خلافت ِراشدہ اس عمل کو جہاں تک پہنچایا تھا ہم اپنی بے عملیوں کے طفیل وہ اثرات بھی ختم کر چکے ہیں۔ اب تو پیغام محمدیﷺ کی از سرِنو نشرواشاعت کرنی ہے۔ پیغامِ محمدی کو تمام اقوامِ عالم تک پہنچانا ہے اور اللہ کے دین کو ایک مرتبہ پھر پورے کرئہ ارضی پر فی الواقع قائم و نافذ کرنا ہے ۔اس کے لیے پہلے اللہ تعالیٰ جہاں بھی توفیق دے‘ جس خطۂ ارضی کی قسمت جاگے اس ملک کی خوش بختی اور خوش نصیبی پر تو واقعۃً رشک کرنا چاہیے۔ یہ ہے وہ فریضہ منصبی جو اُمّت کے حوالے کیا گیا ہے۔ آنحضورﷺ کا مشن زندہ و تابندہ ہے۔ حضورﷺ گویا اب بھی پکار رہے ہیں: {مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللہِ ط }(الصف:۱۴) ’’کون ہے اللہ کی راہ میں میرا مددگار؟‘‘ یعنی کون ہے جومیرے پیغام کی نشرواشاعت کا کام کرے۔ میرے دین کا علمبردار بن کر کھڑا ہو اورپورے کرئہ ارضی پر اس کا جھنڈا سر بلند کرنے کے لیے تن من دھن لگانے کے لیے آمادہ ہو جائے!
(۴) اتباعِ قرآن مجید
اسی ضمن میں آخری بات آتی ہے اس آیہ ٔمبارکہ میں کہ اس عمل کا ذریعہ کیا ہے! محمدرسول اللہﷺ نے جو انقلاب برپا کیا اس کا آلہ ٔانقلاب قرآن حکیم تھا: ؎
اُتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اِک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَق } (الجمعۃ:۲)
’’وہی (اللہ) ہے جس نے اُمیوں کے اندر ایک رسول خود انہی میں سے اٹھایا جو انہیں اُس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے‘ ان کی زندگی سنوارتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ ‘‘
پس معلوم ہوا کہ آپﷺ کی دعوت وتبلیغ کا مرکز و محور قرآن حکیم تھا۔ آپﷺ نے لوگوں کی ذہنیت بدلی تو قرآن حکیم سے۔ لوگوں کی سوچ میں انقلاب برپا کیا تو اسی قرآن حکیم سے۔ اذہان کی تطہیر فرمائی تو اسی قرآن کی آیاتِ بینات سے۔ تزکیۂ نفس فرمایا تو اسی قرآن کی آیات بینات اس کا ذریعہ بنیں۔ خارج و باطن سے منور ہوئے تواسی قرآن حکیم کے نور سے۔ وہ کتاب موجود ہے اور اسی کے اتباع کا ان الفاظ میں ذکر ہوا:
{ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٓٗ }
’’ اور اُس نور کا اتباع کیا جو ان (نبیﷺ) کے ساتھ اتارا گیا۔ ‘‘
وہ نور جونبی اُمّیﷺ کے ساتھ نازل کیا گیا وہ آپﷺ ہمارے حوالے کر کے گئے۔ وہ اُمّت کے پاس ہے۔ اس کے ساتھ اپنے تعلق کو درست کرنا ہے۔ یہ آنحضورﷺ کے ساتھ ہمارے صحیح تعلق کی آخری اور اہم ترین بنیاد ہے۔ یہ وراثت ِ محمدیﷺ ہے۔ اس کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم ہے اور اسی کو ’’حبل اللہ‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ یہی کتابُ اللہ اُمّت کے اندر از سرِنو اتحاد ویکجہتی پیدا کرے گی۔ اس سے وحدتِ فکر پیدا ہو گی۔ اس سے وحدت ِعمل پیدا ہو گی۔ اس سے ہماری جدّوجُہدیکجہتی کے ساتھ اپنے اصل ہدف کی طرف آگے بڑھے گی۔ اس کتاب کے حقوق کو پہچاننا ہمارے حقیقی و قلبی ایمان کے لیے ضروری ولابُدی ہے۔ یہی اصل لمحہ ٔ فکر یہ ہے۔چنانچہ نبی آخر الزماں محمد رسول اللہﷺ کی لائی ہوئی کتاب مبارک کے ساتھ اپنی نسبت کو پوریصحت ِفکر کے ساتھ بہ تمام و کمال از سرِنو استوار کریں۔ اس کتاب کو مانیں جیسا کہ اس کو ماننے کا حق ہے۔ اسے پڑھیں جیسا کہ اس کے پڑھنے کا حق ہے۔ اس کو سمجھیں جیسا کہ اس کے سمجھنے کا حق ہے۔ اس پر عمل کریں جیسا کہ اس پر عمل کرنے کا حق ہے۔ اور پھر اس کے مبلغ‘ داعی اور معلم بن جائیں جیسے کہ اس کی تبلیغ‘ دعوت‘ تعلیم اور تبیین کا حق ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان جملہ امور پر عمل کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم نبی اکرمﷺ کے مشن کی عالمی سطح پر تکمیل کے لیے صحیح سمت میں پیش قدمی کر سکیں۔