عظمت ِمصطفیٰﷺ
غیر مسلموں کا اعترافِ حقیقتڈاکٹر اسرار احمدؒ
بیسویں صدی عیسوی اس اعتبار سے نمایاں ترین صدی ہے کہ سابقہ صدیوں کے دوران حضورﷺ کی ذاتِ مبارک سے جو تعصب غیر مسلموں کو تھا وہ رفتہ رفتہ اس صدی کے دوران ختم ہوا ہے اوراب آپﷺ کی عظمت کا اس پہلو سے اعتراف اور اقرار تدریجاًپوری دنیا میں ہواہے۔ اس صدی کے آغاز میں اسی شہر لاہور میں ایم این رائے نے ۱۹۲۰ء میں ’’بریڈلے ہال‘‘ میں ایک لیکچر دیا تھا جس کا موضوع ’’The Historical Role of Islam‘‘ تھا۔ اسی نام سے کتاب اب بھی ہندوستان میں طبع ہوتی ہے‘ جسے بمبئی کا ایک ناشر شائع کرتا ہے۔ میں نے حیدر آباد‘دکن میں اس کا نسخہ دیکھا ہے‘ لیکن پاکستان میں یہ کہیں دستیاب نہیں ہے۔ ایم این رائے کون تھا؟ یہ ’’کمیونسٹ انٹرنیشنل ‘‘ کا ممبر تھا۔ روس میں ۱۹۱۸ء میں اشتراکی انقلاب آیا اور پوری دنیا میں اس کا بڑا چرچا ہوا۔ اس کے بعد عالمی سطح پر کمیونزم کی جو تنظیم قائم ہوئی وہ ’’کمیونسٹ انٹر نیشنل ‘‘ کہلاتی تھی۔ دنیا کے چوٹی کے انقلابی لوگ اس کے ممبر تھے۔ ایم این رائے ہندوستان کی جانب سے اس کاممبر تھا۔ وہ بہت بڑاانقلابی تھا‘ لیکن مذکورہ بالا کتاب میں بڑے واضح اور تفصیلی انداز سے لکھتا ہے کہ تاریخ انسانی کا عظیم ترین انقلاب وہ تھا جو محمد عربی(ﷺ) نے برپا کیا تھا۔ حضورﷺ کے جانشینوں اور جاں نثاروں نے نہایت سرعت کے ساتھ فتوحات حاصل کیں اور عراق ‘شام‘ایران‘ مصر تیزی کے ساتھ فتح کیے۔اگرچہ اس تیزی کے ساتھ تاریخ انسانی میں فتوحات پہلے بھی ہوئی ہیں‘ ریکارڈ پر ہے کہ سکندرِ اعظم مقدونیہ سے چلا تھا اور دریائے بیاس تک پہنچا اور وہ جس تیزی کے ساتھ فتح کرتا ہوا آیا وہ اپنی جگہ بہت بڑی مثال ہے۔ وہ تو مغر ب سے مشرق کی طرف آیا تھا جبکہ اَٹیلا مشرق سے مغرب کی طرف گیا تھا‘ چین کے شمال میں صحرائے گوبی سے نکل کر وہ ڈینور کی وادی تک جاپہنچا تھا۔ ایم این رائے کہتا ہے کہ ان فاتحین کی فتوحات محض ہوسِ ملک گیری کا شاخسانہ تھیں۔ اُس نے انہیں ’’brute military campaigns‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اِن کے نتیجے میں کوئی نئی تہذیب یا کوئی نیا تمدن و جود میں نہیں آیا۔ دنیا میں کوئی روشنی نہیں پھیلی‘ کوئی علم کا فروغ نہیں ہوا۔ جبکہ محمد عربی( ﷺ) اور آپؐ کے جانشینوں کے ذریعے سے شرقاًغرباً جو فتوحات بڑی تیزی کے ساتھ ہوئی ہیں ان کے نتیجے میں ایک نیا تمدن ‘ نئی تہذیب‘ علم کی روشنی اور انسانی اقدار کا فروغ وجود میں آیا۔ ایک ایسا معاشرہ وجود میں آیا جو ہر طرح کی زیادتیوں سے پاک تھا۔ اس میں سیاسی جبر نہیں تھا۔ اس میں معاشی استحصال نہیں تھا۔ اس میں کوئی سماجی فرق وتفاوت نہیں تھا۔ جیسا کہ علّامہ اقبال نے محمد رسول اللہ ﷺ کے بارے میں کہا ہے کہ ؎
در شبستانِ حرا خلوت گزید
قوم و آئین و حکومت آفریددنیا میں اور بھی بڑے بڑے لوگ رہے ہیں جو سالہا سال تک پہاڑوں کی غاروں کے اندر تپسیائیں کرتے رہے ہیں‘ لیکن محمد عربی ﷺ نے غارِ حرا میں چند روز کے لیے جو خلوت گزینی اختیار کی تھی وہ اس قدر productive اور نتیجہ خیز تھی کہ اس سے نئی قوم‘ نیا تمدن‘ نیا آئین اور نئی حکومت وجود میں آگئی۔ یہ ہے آنحضورﷺکی وہ عظمت کہ جس کا اظہار ایم این رائے نے اس صدی کے ربع اوّل کے آخری سالوں میں کیا‘ جو مسلمان نہیں بلکہ ہندوکمیونسٹ تھا۔
دوسری طرف اس صدی کے ربع آخر کے ابتدائی سالوں میں امریکہ میں ڈاکٹر مائیکل ہارٹ کی کتاب ’’The Hundred‘‘ ۱۹۷۸ء میں منظر عام پر آئی‘ جس میں اس نے پوری معلوم تاریخ انسانی کا جائزہ لیا ہے کہ تاریخ کے سفر کے دوران کن کن شخصیات نے اس تاریخی دھارے کا رخ موڑا ہے۔ اس نے ایسے سو افراد کو چن کر ان پر کتاب لکھی ہے اور ان کے اندر بھی درجہ بندی (gradation) کی ہے کہ کس شخصیت نے سب سے زیادہ تاریخ کے دھارے کو متاثر کیا ہے اور سب سے زیادہ گھمبیر انداز میں اسے موڑا ہے۔اس درجہ بندی میں اس نے حضرت محمدﷺ کو سب سے اوپر رکھا ہے۔ کتاب کا مصنف تاحال عیسائی ہے اور ابھی زندہ ہے۔ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تیسرے نمبر پر جبکہ نیوٹن کو دوسرے نمبر لایا ہے۔ نیوٹن کی فزکس نے جس طرح سے تاریخ انسانی کو متاثر کیا ہے‘ اس میں واقعۃً کوئی شک نہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے پورے explosion کا نقطۂ آغاز نیوٹن ہے۔ شخصیات کے انتخاب اور درجہ بندی میں مؤلف نے کوئی مذہبی پہلو مدّ ِنظر نہیں رکھا‘ نہ ہی اپنے عقائد کو پیش نظر رکھا ہے‘ بلکہ اس کا موضوع ہی یہ ہے کہ تاریخ انسانی کے دھارے کے رخ کو موڑنے والی کون کون سی شخصیات ہیں۔ ان شخصیات میں نمبر ایک پر محمد رسول اللہ ﷺ‘ نمبر دو پر نیوٹن اور نمبر تین پر حضرت مسیح ؑہیں۔ مسلمانوں میں سے اس نے ایک اور شخصیت کو ان سو (۱۰۰ )افراد کی فہرست میں شامل کیا ہے اور وہ ہیں ٹھیک پچاسویں نمبر پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے‘ بلکہ اس نے خود سوال اٹھایا ہے کہ میں ایک عیسائی ہوں اور عیسائی ہوتے ہوئے محمد(ﷺ) کو مَیں نمبر ایک پر کس اعتبار سے رکھ رہا ہوں ! اس کا جواب وہ خود دیتا ہے:
" He was the only man in history who was supremely successful on both the religious and the secular levels."
یہ بہت گھمبیر اور معنی خیز جملہ ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ اس وقت کی عالمی فضا میں انسانی زندگی کو دوجداگانہ گوشوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ ایک مذہب کا گوشہ ہے۔اس کا تعلق اجتماعیات سے نہیں بلکہ صرف افراد سے ہے کہ ہر فرد کو اجازت ہے کہ جس کو چاہے مانے‘ جس پر چاہے یقین رکھے۔ ایک خدا کو مانے ‘ سوکو مانے‘ کسی کو نہ مانے‘فرد کو اس کی پوری آزادی حاصل ہے۔ جسے چاہے پوجے۔ پتھروں کو پوجے‘ درختوں کو پوجے‘ ستاروں کو پوجے‘ چاند کو پوجے‘ اسے اجازت ہے۔ یہ معاملہ انفرادی ہے۔ اس میں مراسم عبودیت (rituals) کے علاوہ کچھ سماجی رسومات(social customs)کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے۔ مثلاً بچے کے پیدائش ہوئی ہے تو اس کی خوشی کیسے منائیں؟کوئی فوت ہوگیا ہے تو اس کی میت کو کیسے ٹھکانے لگائیں؟ جلائیں‘ دفن کریں یا کہیں رکھ دیں کہ چیل اور کوے کھا جائیں؟وغیرہ۔ اس کی بھی ہر شخص کو آزادی ہے۔ یہ تینوں چیزیں یعنی عقیدہ (dogma) ‘ مراسم عبودیت (rituals) اور سماجی رسوم (social customs) انفرادی زندگی سے متعلق ہیں۔ دوسری طرف معاشرتی‘ معاشی اور سیاسی نظام کا تعلق زندگی کے سیکولر میدان سے سمجھا جاتا ہے جس کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ اس پر تو لوگ خود غور کریں گے‘ ان کے نمائندے بیٹھیں گے اور طے کریں گے‘ اور وہ بیٹھ کر اکثریت سے جو طے کر لیں وہی سماجی اقدار فروغ پا جائیں گی۔ جو بھی اکثریت سے طے کر لیں کہ یہ سماجی برائیاں ہیں ان کا وہ قلع قمع کریں گے۔ اگر وہ شراب کی اجازت دینا چاہیں تو دیں اور اگر شراب پر پابندی لگانا چاہیں تو پابندی لگائیں۔ زنا کو قابل دست اندازیٔ پولیس جرم قرار دینا چاہیں گے تو دے دیں گے‘ اگر زنابالرضا ہے تو اس میں کوئی جرم والی بات ہی نہیں۔ اگر اس میں کسی شوہر کا حق مارا گیا ہو تو وہ جائے اور سول کورٹ میں مقدمہ دائر کردے۔ اسی طرح اگر چاہیں گے تو دو مَردوں کی شادی کو بھی قانونی حیثیت دے دیں گے کہ ٹھیک ہے‘ ایک شخص ملکی قانون میں شوہر کی حیثیت اور دوسرا شخص بیوی کی حیثیت رکھتا ہے۔ گویا سماجی‘ معاشی‘ یا سیاسی معاملات میں سے کسی کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ یہ secular field of life ہے۔
اب نوٹ کیجیے کہ ڈاکٹر مائیکل ہارٹ کا یہ بات کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تاریخ انسانی میں جتنی عظیم شخصیات ہیں وہ اگر ایک پہلو سے بلندی کی حامل ہیں تو دوسری طرف ان کا سرے سے کوئی مقام نہیں۔ ممکن ہے وہ کسی معاملے میں صفر ہوں‘ بلکہ شاید ان کے لیے کوئی minus value معیّن کی جائے۔ مثلاً مشرق میں گوتم بدھ اور مغرب میں حضرت مسیحؑ‘ دونوں کی مذہب اور روحانیت کے میدان میں اور پیروکاروں کی تعداد کے اعتبار سے کتنی عظمت ہےلیکن ریاست‘ سیاست اور معاملاتِ ملکی میں ان کا کوئی مقام اور کوئی حصّہ نہیں۔ اس میں وہ دونوں صفر تھے۔ دوسری طرف اٹیلا ہو‘ سکندراعظم ہو یا اور بہت بڑے بڑے حکمران جو دنیا میں گزرے ہیں‘ یہ سیکولر میدان میں تو بہت بلندی پر ہیں لیکن مذہبی میدان میں اس درجے پستی کا شکار ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ صفر سے بھی کام نہ چلے بلکہ منفی ویلیو لانی پڑے۔ مائیکل ہارٹ کا کہنا یہ ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں محمد(ﷺ) صرف اور صرف واحد انسان ’’The only man‘‘ ہیں جو دونوں میدانوں میں انتہائی بلندی پر ہیں۔یعنی اور کوئی ہے ہی نہیں ‘ اس کا تقابل کیا ہو گا؟
یہ مَیں نے آپ کو صدی کے ایک سرے اور دوسرے سرے سے دومثالیں دی ہیں۔ اب ذرا صدی کے درمیان سے بھی مثال دے دوں۔ برطانیہ سے تعلق رکھنے والا H.G. Wells سائنس فکشن رائٹر کی حیثیت سے بڑی شہرت رکھتا ہے۔ اس نے تاریخ عالم پر دوکتابیں ’’Short History of the World‘‘ اور ’’Concise History of the World‘‘ لکھیں۔ مؤخرالذکر کتاب زیادہ ضخیم ہے اور اس میں آنحضورﷺ پر جوباب ہے اس میں اُس نے (مَیں اپنے دل پر جبر کرکے آپ کو بتا رہا ہوں کہ) ابتدا میں حضورﷺ کی ذاتی ‘ نجی اور خانگی زندگی پر نہایت رکیک حملے کیے ہیں ۔ یوں سمجھئے جیسے دو ملعون نام نہاد مسلمانوں ‘ انگلینڈ میں سلمان رشدی اور بنگلہ دیش میں تسلیمہ نسرین نے ‘ آنحضورﷺ کی شخصیت پر جس قدر چھینٹے اڑائے ہیں اسی طرح کے چھینٹے H.G.Wells نے حضورﷺ کی ذاتِ مبارکہ پر خصوصاً ازدواجی زندگی کے حوالے سے اڑائے ہیں‘ لیکن جب وہ اس باب کے آخر میں پہنچتا ہے اور خطبہ حجۃ الوداع کا ذکر کرتاہے تو آنحضورﷺ کی عظمت کے سامنے گھٹنے ٹیک کر خراجِ تحسین پیش کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ وہ آپ ﷺ کے الفاظ نقل کرتا ہے:
’’لوگو! کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں! اسی طرح کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں! کسی سرخ و سفید رنگت والے شخص کو کسی سیاہ فام پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور اسی طرح کسی سیاہ فام کو کسی سفید فام پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ فضیلت کی بنیاد صرف تقویٰ ہے۔ تمام انسان آدمؑ کی اولاد ہیں اور آدمؑ کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے۔‘‘
ان جملوں کا وہ باقاعدہ حوالہ دیتا ہے اور پھر لکھتا ہے:
’’اگرچہ انسانی حریت‘ اخوت اور مساوات کے وعظ تو دنیا میں پہلے بھی بہت سے کہے گئے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ ان چیزوں کے بارے میں مسیح ناصری کے ہاں بھی بہت سے مواعظ حسنہ ملتے ہیں‘ لیکن یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ یہ صرف محمد عربی(ﷺ) تھے جنہوں نے تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ بالفعل ایک باضابطہ معاشرہ انہی اصولوں پر قائم کر کے دکھایا۔‘‘
آپ اندازہ کیجیے کہ یہ دشمن کا خراج تحسین ہے جو کہ معتقد نہیں ہے۔سچ ہے کہ اصل فضیلت تو وہ ہے جس کا اعتراف وا قرار دشمن بھی کریں۔ گویا جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔ جو دوست ہے‘ عقیدت مند ہے اور محبت کرنے والا ہے‘ اس کی نگاہ تو محبوب کی کسی خامی کو دیکھ ہی نہیں سکتی‘ اُس کی طرف سے تو گویا وہ نابینا ہو جاتی ہے ‘جبکہ دشمن کو کوئی خیر اور خوبی نظر نہیں آتی۔ لیکن اگر کوئی دشمن بھی کسی کی فضیلت کا اعتراف کرے تو پھر اس معاملے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی۔الفَضلُ مَا شَھِدَتْ بِہِ الأعْداءُ!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024