(حُسنِ تکلّم) افصح العربﷺ کے ’’جوامع الکلم‘‘ - ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی

10 /

افصح العرب ﷺ کے ’’جوامع الکلم ‘‘
(اقوالِ زرّیں)
محمد نجیب قاسمی سنبھلی

فصاحت وبلاغت کے پیکر اور عرب کے بے مثال ادیب حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ نے اپنی خصوصیات گنواتے ہوئے ارشاد فرمایا :((وَاُوتِیتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ))(متفق علیہ) ’’اور مجھے جوامع الکلم سے نوازا گیا ہے‘‘۔ اس خصوصیت کا حاصل یہ ہے کہ آپ ﷺ چھوٹی سی عبارت میں بڑے وسیع معانی کو بیان کرنے کی قدرت رکھتے تھے۔ آپﷺ کی بے شمار خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جس وقت آپؐ پر پہلی وحی نازل ہوئی اور پڑھنے کے لیے کہا گیاتو آپﷺ نے’’مَا اَنَا بِقَارِیٔ‘‘ کہہ کر معذرت چاہی‘ لیکن پھر اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایسی خاص الخاص تربیت ہوئی کہ آپﷺ کے قول وعمل کو رہتی دنیا تک اُسوہ بنادیا گیا۔آپﷺ کے اقوال زریں سے مستفید ہونے والے بڑے بڑے ادیب وفصیح وبلیغ بن کر دنیا میں چمکے۔ آپؐ کی زبان مبارک سے نکلے بعض جملے عربی زبان کے محاورے بن گئے۔ آپﷺ کے وعظ ونصیحت‘ خطبے‘ دعا اور رسائل سے عربی زبان کو الفاظ کے نئے ذخیرہ کے ساتھ ایک منفرد اسلوب بھی ملا۔
یہ ایک معجزہ ہی تو ہے کہ’’مَا اَنَا بِقَارِیٔ‘‘ کہنے والا شخص کچھ ہی عرصہ بعد ایک موقع پر ارشاد فرماتا ہے:(( اَنَا اَفْصَحُ الْعَرَبِ‘ بَیْدَ اَنِّیْ مِنْ قُرَیْشٍ‘ وَاسْتُرْضِعْتُ فِی بَنِیْ سَعْد )) (الفائق فی غریب الحدیث للزمخشری) ’’مَیں عرب میں سب سے زیادہ فصیح ہوں‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں قبیلہ قریش سے ہوں اور میری رضاعت قبیلہ بنی سعد میں ہوئی۔‘‘ یہ دونوں قبیلے اُس وقت زبان وادب میں خصوصی مقام رکھتے تھے۔ اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ رسولِ مکرم ﷺ سے فرمایا: لَقَدْ طُفْتُ بِالْعَرَبِ وَسَمِعْتُ فُصَحَائَہُمْ فَمَا سَمِعْتُ اَفْصَحَ مِنْکَ، فَمَنْ اَدَّبَکَ؟ ’’مَیں سرزمین عرب بہت گھوم چکا ہوں‘ بڑے بڑے فصحاء کے کلام کو سناہے‘ لیکن آپؐ سے زیادہ فصیح کسی شخص کو نہیں پایا۔ آپؐ کو کس نے ادب سکھایا؟‘‘ حضوراکرمﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا:((اَدَّبَنِیْ رَبِّیْ فَاَحْسَنَ تَاْدِیْبِیْ)) ’’مجھے میرے رب نے ادب سکھایا اور بہترین ادب سے نوازا۔‘‘ یہ حدیث امام شوکانی ؒ نے ’’الفوائدالمجموعۃ‘‘(۱۰۲۰) میں نقل کی ہے۔مذکورہ حدیث کی سند پر علماء نے اگرچہ کچھ کلام کیا ہے مگر اس میں وارد معنی ومفہوم کو سب ہی نے تسلیم کیا ہے۔
غرضیکہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے فصاحت وبلاغت کا ایسا معیار آپﷺ کو عطا کیا گیا جس کی نظیر قیامت تک ملنا ناممکن ہے ۔ آپؐ کے اقوالِ زریں انسانیت کے لیے مشعل راہ ہیں۔ رسول اللہﷺ کے خطبے خاص طور پر حجۃ الوداع کے موقع پر دیا گیا آخری خطبہ نہ صرف جوامع الکلم میں سے ہے بلکہ حقوق انسانی کا بنیادی منشور بھی ہے۔ اس خطبہ مبارکہ میں آپﷺ نے آج سے چودہ سو سال قبل مختصر وجامع الفاظ میں انسانیت کے لیے ایسے اصول پیش کیے جن پر عمل کرکے آج بھی پوری دنیا میں ایک مثالی معاشرہ قائم کیا جاسکتا ہے۔
جہاں نبی اکرمﷺ کے اقوالِ زریں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے‘ وہیں شریعت اسلامیہ میں ان کو یاد کرکے محفوظ کرنے کی بھی خاص فضیلت وارد ہوئی ہے۔ چنانچہ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ جو شخص میری امت کے فائدہ کے واسطے دین کے کام کی چالیس احادیث یاد کرے گا‘ اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن عالموں اور شہیدوں کی جماعت میں اٹھائے گا اور فرمائے گا کہ جس دروازہ سے چاہے جنت میں داخل ہوجائے۔‘‘ یہ حدیث حضرت علی‘ حضرت عبداللہ بن مسعود‘ حضرت معاذ بن جبل‘ حضرت ابودرداء‘ حضرت ابوسعید‘ حضرت ابوہریرہ‘ حضرت عبداللہ بن عباس‘ حضرت عبداللہ بن عمر‘ حضرت عبداللہ بن عمرو‘ حضرت جابر اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے روایت ہے اور حدیث کی مختلف کتابوں میں وارد ہے۔ بعض علماء نے حدیث کی سند میں کچھ کلام کیا ہے مگر اس میں مذکورہ ثواب کے حصول کے لیے سینکڑوں علماء کرام نے اپنے اپنے طرز پر چالیس احادیث جمع کی ہیں۔ صحیح مسلم کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے امام شرف الدین نووی ؒ کی چالیس احادیث پر مشتمل کتاب ’’الاربعین النوویۃ‘‘ پوری دنیا میں کافی مقبول ہوئی ہے۔
صحیح بخاری وصحیح مسلم میں وارد نبی مکرم ﷺ کے چالیس فرمان پیش خدمت ہیں‘ جن میں علم ومعرفت کے خزانے سمودیے گئے ہیں۔ یہ اعلیٰ اخلاق اور تہذیب وتمدن کے زریں اصول ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان احادیث کو یاد کرکے ان پر عمل کریں اور دوسروں کو بھی پہنچائیں تاکہ غیرمسلم بھی آپﷺ کی صحیح تعلیمات سے واقف ہوکر اسلام سے متعلق اپنے شکوک وشبہات دور کرسکیں۔
۱) ’’تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔‘‘ (صحیح بخاری‘ صحیح مسلم)
۲) ’’ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا‘ والدین کی نافرمانی کرنا‘ کسی کو بے گناہ قتل کرنا اور جھوٹی شہادت دینا کبیرہ گناہ ہے‘‘۔ (صحیح بخاری )
۳) ’’سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو‘‘۔ صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ! وہ سات بڑے گناہ کون سے ہیں (جو انسانوں کو ہلاک کرنے والے ہیں)؟ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ شرک کرنا‘ جادو کرنا‘ کسی شخص کو ناحق قتل کرنا‘ سود کھانا‘ یتیم کے مال کو ہڑپ کر جانا‘ میدان (جنگ) سے بھاگنا‘ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا۔‘‘ (صحیح بخاری ‘صحیح مسلم)
۴) ’’منافق کی تین علامتیں ہیں: جھوٹ بولنا‘ وعدہ خلافی کرنا‘ امانت میں خیانت کرنا۔‘‘ (صحیح بخاری ‘صحیح مسلم)
۵) ’’ تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے جو قرآن کریم سیکھے اور سکھائے ۔‘‘ (صحیح بخاری )
۶) ’’اللہ کے نزدیک تمام اعمال میں وہ عمل زیادہ محبوب ہے جو دائمی ہو‘ اگرچہ تھوڑا ہو۔‘‘ (صحیح بخاری‘صحیح مسلم)
۷) ’’ مَیں آخری نبی ہوں‘ میرے بعد کوئی نبی پیدا نہ ہوگا۔‘‘ (صحیح بخاری‘صحیح مسلم)
۸) ’’ پاک رہنا آدھا ایمان ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)
۹) ’’ اللہ کے نزدیک سب سے محبوب جگہ مسجدیں ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم)
۱۰) ’’ جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجا‘ اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ رحمتیں نازل فرمائے گا۔‘‘ (صحیح مسلم)
۱۱) ’’ مؤمن ایک بل سے دوبارہ ڈسا نہیں جاتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری ‘صحیح مسلم)
۱۲) ’’ پہلوان وہ نہیں جو لوگوں کوپچھاڑدے‘ بلکہ پہلوان وہ شخص ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے۔‘‘ (صحیح بخاری ‘صحیح مسلم)
۱۳) ’’ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں: سلام کا جواب دینا‘ مریض کی عیادت کرنا‘ جنازہ کے ساتھ جانا‘ دعوت قبول کرنا‘ چھینک کا جواب یَرْحَمُکَ اللّٰہُ کہہ کردینا۔‘‘ (صحیح بخاری ‘صحیح مسلم)
۱۴) ’’ اللہ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔‘‘ (صحیح بخاری ‘صحیح مسلم)
۱۵) ’’ ظلم قیامت کے روز اندھیروں کی صورت میں ہوگا۔‘‘ (صحیح بخاری ‘صحیح مسلم)
۱۶) ’’ چغل خور جنت میں نہیں جائے گا۔ ‘‘(صحیح بخاری ‘صحیح مسلم)
۱۷) ’’ دنیا میں ایسے رہوجیسے کوئی مسافر یا راہ گزر رہتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)
۱۸) ’’ رشتہ توڑنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔‘‘ (صحیح بخاری‘صحیح مسلم)
۱۹) ’’ اگر کوئی شخص (روزہ رکھ کر بھی) جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہیں چھوڑتا تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘ (صحیح بخاری )
۲۰) ’’ انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ جو بات سنے (بغیر تحقیق کے) لوگوں سے بیان کرنا شروع کردے۔‘‘ (صحیح مسلم)
۲۱) ’’وہ شخص جنت میں نہ جائے گا جس کا پڑوسی اس کی ایذاؤں سے محفوظ نہ ہو۔‘‘ (صحیح بخاری‘ صحیح مسلم)
۲۲) ’’تم میں سے وہ شخص میرے نزدیک زیادہ محبوب ہے جو اچھے اخلاق والا ہو۔‘‘ (صحیح بخاری‘صحیح مسلم)
۲۳) ’’صدقہ دینے سے مال میں کمی نہیں آتی‘ اور جو بندہ درگزر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھاتا ہے‘ اور جو بندہ اللہ کے لیے عاجزی اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا درجہ بلند کرتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)
۲۴) ’’اگر کوئی شخص اپنے گھر والوں پر خرچہ کرتا ہے تو وہ بھی صدقہ ہے۔ یعنی اس پر بھی اجر ملےگا۔ ‘‘(صحیح بخاری ‘ صحیح مسلم)
۲۵) ’’ اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو بھی نکاح کی استطاعت رکھتا ہو اسے نکاح کرلینا چاہیے‘ کیونکہ یہ عمل نظر کو نیچی رکھنے والا اور شرم گاہ کی حفاظت کرنے والا ہے۔ اور جو کوئی نکاح کی استطاعت نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ روزے رکھے کیونکہ یہ اس کے لیے نفسانی خواہشات میں کمی کا باعث ہوگا۔ ‘‘ (صحیح بخاری)
۲۶) ’’ عورت سے نکاح (عموماً) چار چیزوں کی وجہ سے کیا جاتا ہے: اس کے مال کی وجہ سے‘ اس کے خاندان کے شرف کی وجہ سے‘ اس کی خوب صورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے۔ تم دین دار عورت سے نکاح کرو‘ اگرچہ گرد آلود ہوں تمہارے ہاتھ۔ یعنی شادی کے لیے عورت میں دین داری کو ضرور دیکھنا چاہیے‘ خواہ تمہیں یہ بات اچھی نہ لگے۔ ‘‘ (صحیح بخاری ‘صحیح مسلم)
۲۷) ’’حلال واضح ہے اورحرام بھی واضح ہے۔ ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جن کو بہت سارے لوگ نہیں جانتے۔ جس شخص نے شبہ والی چیزوں سے اپنے آپ کو بچالیا اس نے اپنے دین اور عزت کی حفاظت کی۔ اور جو شخص مشتبہ چیزوں میں پڑے گا وہ حرام چیزوں میں پڑ جائے گا اس چرواہے کی طرح جو دوسرے کی چراگاہ کے قریب بکریاں چراتا ہے کیونکہ بہت ممکن ہے کہ اس کا جانور دوسرے کی چراگاہ سے کچھ چرلے۔ اچھی طرح سن لو کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے‘ یاد رکھو کہ اللہ کی زمین میں اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ اور سن لو کہ جسم کے اندر ایک گوشت کا ٹکڑا ہے‘ جب وہ سنور جاتا ہے تو ساراجسم سنور جاتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے۔سن لو کہ یہ (گوشت کا ٹکڑا) دل ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)
۲۸) ’’اللہ کی قسم! مجھے تمہارے لیے غریبی کا خوف نہیں ہے بلکہ مجھے خوف ہے کہ پہلی قوموں کی طرح کہیں تمہارے لیے دنیا یعنی مال ودولت کھول دی جائے اور تم اس کے پیچھے پڑ جاؤ‘ پھر وہ مال ودولت پہلے لوگوں کی طرح تمہیں ہلاک کردے۔ ‘‘ (صحیح بخاری ‘صحیح مسلم)
۲۹) ’’اللہ تعالیٰ بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہے۔‘‘ (صحیح مسلم)
۳۰) ’’جب امانتوں میں خیانت ہونے لگے تو بس قیامت کا انتظار کرو۔‘‘ (صحیح بخاری)
۳۱) ’’حرام کھانے‘ پینے اور حرام پہننے والوں کی دعائیں کہاں سے قبول ہوں!‘‘ (صحیح مسلم )
۳۲) ’’مسکین اور بیوہ عورت کی مدد کرنے والا اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔‘‘ (صحیح بخاری‘صحیح مسلم)
۳۳) ’’تمہیں اپنے کمزوروں کے طفیل سے رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)
۳۴) ’’اللہ تعالیٰ ایسے شخص پر رحم کرے جو فروخت کرتے وقت‘ خریدتے وقت اور تقاضا کرتے وقت (قرض وغیرہ کا) فیاضی اور وسعت سے کام لیتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)
۳۵) ’’کھاؤ ‘پیئو ‘پہنو اور صدقہ کرو‘ لیکن فضول خرچی اور تکبر کے بغیر۔‘‘(صحیح بخاری)
۳۶) ’’رشک دو ہی آدمیوں پر ہوسکتا ہے۔ ایک وہ جسے اللہ نے مال دیا اور اسے مال کو راہ حق میں لٹانے کی پوری طرح توفیق ملی ہوئی ہے۔ اور دوسرا وہ جسے اللہ نے حکمت دی ہے اور وہ اس کے ذریعہ فیصلہ کرتا ہے اور اس کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)
۳۷) ’’مؤمنین کی مثال ان کی دوستی اور اتحاد اور شفقت میں بدن کی طرح ہے۔ بدن میں سے جب کسی عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا بدن نیند نہ آنے اور بخار آنے میں شریک ہوتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)
۳۸) ’’آپس میں بغض نہ رکھو‘ حسد نہ کرو‘ پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو‘ بلکہ اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔ اور کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے کسی بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراض رہے۔‘‘ (صحیح بخاری)
۳۹) ’’(سچا) مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان (کے ضرر) سے مسلمان محفوظ رہیں۔ مہاجر وہ ہے جو اُن کاموں کو چھوڑدے جن سے اللہ نے منع کیا ہے۔ ‘‘(صحیح بخاری)
۴۰) ’’اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں بھلائی فرض کی ہے‘ لہٰذا جب تم (کسی کو قصاص میں) قتل کرو تو اچھی طرح قتل کرو۔ اور جب ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو اور تم میں سے ہر ایک کو اپنی چھری تیز کرلینی چاہیے اور اپنے جانور کو آرام دینا چاہیے۔‘‘ (صحیح مسلم)
خاتم النبیین وسیّد المرسلین وخیر البریہ حضور اکرمﷺ کے مذکورہ بالا ارشادات کی روشنی میں ہم‘ ان شاء اللہ‘ بڑے بڑے گناہ خاص طور پر شرک‘ والدین کی نافرمانی‘ قتل نفس‘ جھوٹ‘ چغل خوری‘ جادو‘ سود‘ ظلم و زیادتی‘ وعدہ خلافی‘ امانت میں خیانت‘ قطع رحمی‘ پڑوسیوں کو ایذا رسانی‘ حرام اور مشتبہ چیزوں کے استعمال‘ فضول خرچی‘ تکبّر‘ حسد اور بغض جیسی بیماریوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں گے جو ہمارے معاشرہ میں ناسور بن گئی ہیں۔ اپنے نبی مکرمﷺ کی تعلیمات کے مطابق صرف اور صرف اللہ ربّ العزت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے نیک اعمال کریں گے اور اپنے اخلاق کو بہتر سے بہتر بناکر استقامت کے ساتھ دنیاوی فانی زندگی میں ہی اخروی دائمی زندگی کی تیاری کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں فصاحت وبلاغت کے پیکر حضرت محمدمصطفیٰ احمد مجتبیٰﷺ کے جوامع الکلم (اقوال زریں ) کو سمجھ کر پڑھنے والا‘ ان کے مطابق عمل کرنے والا اور ان قیمتی پیغامات کو دوسروں تک پہنچانے والا بنائے۔ آمین‘ ثم آمین!