(دعوتِ فکر) انسانیت کی تکریم یا تذلیل؟ - انجینئر محمد رشیدعمر

10 /

انسانیت کی تکریم یا تذلیل؟انجینئر محمد رشید عمر

لوگوں کے بنائے ہوئے لادینی نظام ہائے زندگی کی مثال ظلمات کی طرح ہے جبکہ دین اسلام کی مثال نور کی ہے جو صرف ایک ہی ہے۔ اس وقت افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے جس میں اسلامی قوانین نافذ ہیں۔ ان قوانین کی برکت یہ ہے کہ غربت اور افلاس کے باوجود لوگوں کے مال اور جانیں محفوظ ہیں۔ یہ ملک کسی عالمی مالیاتی ادارے کا مقروض نہیں ہے۔ نفسانی خواہشات کی پوجا کرنے والی دنیا اس کی قدر نہیں پہچان رہی اور بطور آزاد ملک اس کی حیثیت تسلیم نہ کرکے ناعاقبت اندیشی کا ثبوت دے رہی ہے۔ اس کے علاوہ دین اسلام کسی ملک میں بھی عملی شکل میں قائم نہیں ہے ‘جبکہ لادینیت کے اثرات سے اپنے آپ کو بچانا ان لوگوں کے لیے بھی مشکل ہے جو اس کے فرائض و نوافل کی ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں۔
دوسری عالمی جنگ(۱۹۴۵ء) کے بعد دو سپرپاورز امریکہ اور روس کے درمیان ایک سرد جنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا جو کئی دہائیوں تک چلا۔ بالآخر امریکن بلاک اس میں فتح یاب ہوکر نکلا۔ مذہب کو تو دونوں قوتیں دیس نکالا دے چکی تھیں لیکن امریکن بلاک جس نظریاتی بنیاد پر چل رہا تھا وہ آزاد جمہوریت اور سرمایہ دارانہ سوچ تھی۔ چنانچہ ان کے دانش وروں نے یہ دعویٰ کیا کہ لبرل ڈیموکریسی اور کپیٹل ازم پر مبنی نظام دنیا کی آخری امید ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور نظام نہیں ہو سکتا جو دنیا کو کامیابیاں دلاسکے۔ اس کو انہوں نے End of History (فوکو یا ماکی کتاب کا نام) کا نام دیا۔ مطلب یہ تھا کہ جو نظام انسان کو سیاسی زندگی اور سرمایہ داری کی دوڑ میں آزاد چھوڑ دیتا ہے اس کا مقابلہ کوئی اور نظام نہیں کر سکتا۔ یہ آخری سوچ ہے جہاں تک انسان جا سکتا تھا۔ اسی نظام پر چلتے چلتے اب دنیا اپنے انجام کو پہنچے گی۔ End of History کا مطلب یہ نہیں تھا کہ دنیا ختم ہوجائے گی یا دنیا سے نزاعات یا واقعات ختم ہوجائیں گے بلکہ اس سے مراد یہ تھی کہ لبرل ڈیموکریسی اور فری کپیٹل ازم سے آگے انسان کچھ اور نہیں سوچ سکتا۔ ان دو بنیادوں پر چلنے والا نظام ہی وہ آخری راہِ عمل ہے جو انسانی خواہشات کی تسکین اور تکمیل کا راستہ فراہم کرتی ہے۔
اس دعویٰ کے پیچھے ان کے نزدیک انسانی نفسیات کی دو ناگزیر کمزوریاں تھیں:
(۱) ہر انسان اپنی پہچان کرانا چاہتا ہے‘ اپنے آپ کو منوانا چاہتا ہے۔
(۲) ہر انسان کی شدید خواہش ہے کہ اس کے پاس زندگی کی آسائشوں کے لیے اتنا وافر سرمایہ ہو کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق ان سے مستفید ہوسکے۔
اوّل الذکر نفسیاتی مسئلہ کے مطابق انہوں نے انسانوں کو دوقسموں میں تقسیم کیا۔ ایک وہ لوگ جو اپنا غلبہ چاہتے ہیں۔ تاریخ میں ان کی نمایاں مثالیں فرعون‘ نمرود اور ہٹلر ہیں۔ان میں ایسے تمام لوگ بھی شامل ہیںجو ان کرداروں کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور خواہش رکھتے ہیں کہ کاش وہ بھی ان جیسا مقام حاصل کر سکیں۔ دوسرے لوگ ایسے ہیں جن کے اندر شدید خواہش ہے کہ بھلے وہ دوسروں کو مرعوب نہ کر سکیں‘ ان پر غلبہ حاصل نہ کر سکیں لیکن ان کی آزاد مرضی کا احترام کیا جائے۔ ان کی آزاد خیالی اور آزاد عمل میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالے۔ بے شک ان پر کوئی دوسرا غالب ہو لیکن اس غالب قوت کو بھی ان کی خواہشات میں رکاوٹ نہیں ڈالنا چاہیے بلکہ اس عمل میں سہولت کار ہونا چاہیے۔ ایسی سوچ کے حامل لوگوں کو غلامانہ سوچ کے حامل لوگ کہا گیا ہے۔انہیں اس امر سے کوئی غرض نہیں کہ ان پر کون حاکم ہے‘ بس ایک یہی خواہش ہے کہ ان کی آزاد خیالی اور آزاد عمل میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے ۔
انسانی نفسیات کی دوسری کمزوری سرمایہ کے حصول میں آزادی ہے۔ یعنی جیسے بھی ممکن ہو‘ ہر انسان کا حق ہے کہ وہ جتنا چاہے سرمایہ اکٹھا کر لے۔ اس میں جائز ناجائز کا کوئی تصوّر نہیں‘ صرف باہمی رضامندی ہونی چاہیے۔ چاہے وہ سود کے ذریعے ہو‘ شراب فروشی سے یا جسم فروشی سے ۔ انسانی خواہشات کے تابع اس نظام کو ورلڈ آرڈر کا نام دیا جا رہا ہے‘ یعنی ایسا نظام جس پر چل کر ایک عالمی مشترکہ نظامِ زندگی کو جنم دیا جا سکتا ہے۔ اس نظام کی تباہ کاری جو انسان کو انسانی شرف ہی سے محروم کر دیتی ہے‘ا س کی نشان دہی رابرٹ بورک نے کی ہے۔ بورک امریکہ کے عدالتی نظام میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے اور امریکی معاشرہ کے مسائل سے خوب آگاہ ہے۔ اس کی کتاب کا نام ہے:
Slouching Towards Gomorra: Modern Liberalism and American Decline 

جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے ‘ یہ آزادی پورے امریکی معاشرے کو قومِ لوط جیسی تباہی سے دو چار کرنے والی شاہراہ پر گامزن کر رہی ہے۔ جیسے سدوم اور عامورہ کی بستیاں اللہ تعالیٰ کے عذاب کا شکار ہو کر عبرت کا سامان بن گئیں‘ اسی طرح امریکی معاشرہ اس تباہی کی طرف بگٹٹ بھاگ رہا ہے۔
ایک دوسری کتابThe Clash of Civilizationsسیموئیل پی ہنٹنگٹن نے لکھی ہے‘ جس میں اس نے واضح کیا ہے کہ دنیا میں صرف دو سپرپاورز ہی نہیں بلکہ مزید سپر پاورز بھی وجود میں آ چکی ہیں۔ دنیا اب صرف بائی پولر نہیں رہی بلکہ ملٹی پولر بن چکی ہے۔ ان طاقتوں کے وجود میں آنے کے اسباب ایٹمی قوت کے ساتھ ان قوتوں کا نظریاتی‘ تہذیبی اور ثقافتی پس منظر ہے۔ اس کے نزدیک اب تہذیبوں کے تصادم کا ماحول بن چکا ہے۔ اس نے دنیا کی آٹھ تہذیبوں کی نشان دہی کی ہے:
(۱) کنفیوشس یعنی چینی تہذیب (۲) اسلامی تہذیب
(۳) افریقی تہذیب (۴) لاطینی امریکہ کی تہذیب
(۵) آرتھوڈوکس عیسائیت (۶) ہندو تہذیب
(۷) جاپانی تہذیب (۸) مغربی بالا دستی کی تہذیب
مستقبل میں ان میں سے کوئی بھی تہذیب قوت کے بل بوتے پر اپنے تمدن اور نظریات کو دنیا پر مسلط کرنے کے خبط کا شکار ہو سکتی ہے‘ جیسے اس وقت مغربی افکار اور نظریات کی بالادستی کا تصوّر ہے۔ البتہ ان میں سے کسی بھی تہذیب کی بالادستی انسانیت کو حقیقی کامیابی سے ہم کنار نہیں کرسکتی۔ ہر تہذیب کا تانا بانا انسانی خواہشات سے تیار کردہ ہے سوائے اسلام کے۔ اسلام کی نظریاتی اور اخلاقی سچائیاں اس کی اصل قوت ہیں۔ ان سچائیوں کے حامل افراد کے سامنے ساری دنیا ایک دفعہ پہلے سرنگوں ہو چکی ہے۔ مسلمانوں میں جب تک ان سچائیوں کے حامل افراد کی کثرت رہی‘ اسلام بطور نظام زندگی دنیا میں غالب رہا۔ اس نے دنیا کو ہر شعبے میں متاثر کیا۔ علوم و فنون میں ترقی کی شاہراہ پر چلنااسلام ہی نے دنیا کو سکھایا۔ ایک فلاحی مملکت کن بنیادوں پر چل سکتی ہے ‘وہ بھی اسلام ہی نے فراہم کیں۔ جوں جوں مسلمانوں میں نظریاتی اور اخلاقی سچائیوں کے حامل افراد کی کمی آتی گئی‘ ان کی قوت میں اضمحلال آتا گیا جبکہ غیرمسلم اقوام جنہوں نے علوم و فنون میں ترقی کرکے قوت کا جھکائو اپنے حق میں کر لیا تھا وہ نظریاتی اور اخلاقی سچائیوں کے بغیر بھی دنیا پر چھاتے چلے گئے۔ آج وہ لوگ جن کا معاشرتی‘ معاشی اور سیاسی نظام خواہشاتِ نفس پر مبنی ہے‘ کہہ رہے ہیں کہ دنیا کا مقدر اسی نظام کی پیروی میں ہے جبکہ ’’شَھِدَ شَاھِدٌ مِّنْ اَھْلِھَا‘‘ کے مصداق انہی میں سے ایک آدمی رابرٹ بورک ثابت کر رہا ہے کہ ہماری تہذیب ڈوب رہی ہے۔ بجائے اس کے کہ یہ تہذیب انسانیت کو بلندیوں کی طرف اٹھاتی‘ اسے اسفل سافلین میں گرا رہی ہے۔
ایک تاریخی حقیقت پر غور کیجیے۔ بنی اسرائیل وہ قوم ہے جس کو فرعون نے غلام بنایا ہوا تھا۔ یہ فرعون کے بدترین استحصال کا شکار تھے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کو فرعون کے جبرو استبداد سے نجات دلائی۔ ان کی قیادت کی معجزانہ شان اور برکتیں سب کے سامنے تھیں۔ سمندر کا پھٹ کر ان کے لیے بارہ راستے بنانا‘ رہائش کے لیے انہیں گھر تعمیر نہیں کرنا پڑے‘ کھانا تیار کرنے کے لیے آگ جلا کر دیگیں چڑھانا نہیں پڑیں‘ صحرا کی گرمی میں بادلوں کا سایہ کیا‘ بغیر مشقّت کے من و سلویٰ دیا‘ ہر قبیلے کے لیے پانی کا چشمہ الگ سے دیا! لیکن انہوں نے کیا کیا؟ لوگوں کو بت پوجتے ہوئے دیکھا تو حضرت موسیٰؑ سے کہنے لگے: ہمارے لیے بھی اس طرح کا اِلٰہ بنا دیجیے۔ سامری کے تیار کردہ بچھڑے کی محبت کے دل دادہ ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا مطالبہ انہوں نے کیا اور جب حضرت موسیٰؑ نے جہاد کا حکم دیا تو صاف کہہ دیا: {فَاذْہَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوْنَ(۲۴)} (المائدۃ)
یہ اُن کے قرونِ اولیٰ کے کردار کی جھلک ہے۔ اس کی وجہ سے یہ کئی بار اللہ کے غضب کا شکار ہوئے۔ بنی اسرائیلی قرونِ اولیٰ کے یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے تعلقات سنوار کر رکھنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اس کے مقابلے میں اسلام کے قرونِ اولیٰ کے لوگ اور آسمان و زمین کا خدا باہم متحد اور متفق تھے‘ بلکہ بعد کے دو ادوار کو بھی شامل کر لیں تو یہ وہ بہترین دور تھا جس میں خدا اور بندے ایک ہی صفحہ پر تھے۔ یہ انسانیت کی کامیابیوں کا بہترین دور تھا۔ ایک ہزار سال تک انسانیت اس کے ثمرات سے بہرہ مند ہوتی رہی۔ مسلمانوں کے زوال کے بعد دنیا پر اس وقت ان لوگوں کی باقیات غالب ہیں جن کے قرونِ اولیٰ کے لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیطان کی پیروی کی تھی۔ انہوں نے شیطانی نظامِ زندگی کو اس طرح مزین کر کے دنیا پر مسلط کیا ہے کہ جو لوگ اسلام کے فرائض و نوافل ادا کرنے والے ہیں وہ بھی ان کی شیطانی چالوں سے محفوظ نہیں‘ اِلا ما شاء اللہ! لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ بس اسی پر دنیا کا خاتمہ ہونے والا ہے؟ کیا اصلاح کا نمونہ باقی نہیں رہا؟ نہیں‘ ایسا نہیں ہے۔ آج بھی ہر سال دین اسلام کی ایک بستی ایسے بستی ہے کہ اس میں صرف اللہ کی دی ہوئی ہدایات اور اس کے دیے ہوئے نظام پر پوری دنیا سے جمع ہونے والے مختلف النسل لوگ زندگی گزارنے کا عملی نمونہ پیش کرتے ہیں۔ اس موقع پر سچے نظریہ اور سچے اخلاق کے نفاذ کا مشاہدہ ہر شخص خود کر سکتا ہے۔ وہ ہے حج کا اجتماع۔ تعداد میں بڑھتے ہوئے ۸ذوالحجہ سے ۱۳ ذوالحجہ تک یہ سب سے زیادہ ہوتا ہے‘ پھر کم ہوتے ہوتے اس اجتماع کا دورانیہ چالیس بیالیس دنوں میں مکمل ہو جاتا ہے۔ اس سال پچیس لاکھ مرد و زن پر مشتمل نفوس نے بغیر کسی اختلاف اور تصادم کے‘ دل میں خوشی کی اُمنگوں کے ساتھ یہ دورانیہ مکمل کیا۔ پوری دنیا کے لوگ اس کو دیکھ رہے تھے۔ کیا یہ شہادت کافی نہیں ہے کہ یہ ہدایات عالمی نظام کے طور پر پوری دنیا کے لیے کفایت کر سکتی ہیں ‘جن پر عمل کر کے دنیا ایک وحدت کے طور پر مطمئن زندگی گزار سکتی ہے۔ یہ ہدایات سورۃ البقرہ کی آیات ۱۹۶ تا ۲۰۲ میں موجود ہیں۔ اس سے پہلے یہ بات جان لینی چاہیے کہ انسان کے خالق نے جب اس کو زمین پر آباد ہونے کا حکم دیا تو اسی وقت فیصلہ فرما دیا :
{فَاِمَّا یَاْتِیَنَّـکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ(۳۸) } (البقرۃ)
’’پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جو میری ہدایت پر چلیں گے ان پر نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘
خوف اور غم سے امن میں صرف وہی لوگ ہوں گے جو انسان کو بنانے والی ہستی کے احکام کی پیروی کریں گے۔ شیطان ان کا دشمن ہے۔ اس کی چالوں کو مات دے کر انہیں مالک کے بتائے ہوئے راستہ پرہی چلتے رہنا ہوگا۔ خواہشاتِ نفس کی پیروی اور اکثریت کی اطاعت راہِ راست سے بھٹکا دے گی۔ فرمایا:
{قُلْ لَّآ اَتَّبِعُ اَہْوَآءَکُمْ لا قَدْ ضَلَلْتُ اِذًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُہْتَدِیْنَ(۵۶)} (الانعام)
’’ کہہ دو :مَیں تمہاری خواہشات کے پیچھے نہیں چلتا‘ کیونکہ مَیں پھر گمراہ ہوجائوں گا اور ہدایت پانے والوں میں سے نہ رہوں گا۔‘‘
وَاِنْ تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْکَ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ ط اِنْ یَّـتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ ہُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ(۱۱۶) (الانعام)
’’اور اگر تم اکثریت کا کہا مانو گےجو دنیا میں ہیں تو وہ تمہیں اللہ کی راہ سے ہٹا دیں گے۔ وہ تو اپنے خیال پر چلتے ہیں اور قیاس آرائیاں کرتے ہیں۔‘‘
انسانوں کے عالمی اجتماع کی بہتری کے لیے خالق کائنات نے جو ہدایات اور قواعد و ضوابط دیے ہیں‘ اس ضمن میں سورۃ البقرۃ کی متذکرہ سات آیات (۱۹۶ تا ۲۰۲) سے متعلقہ حصوں کا مطالعہ اور ان کی روشنی میں اپنی حقیر استطاعت کے مطابق عالمی اسلامی نظام کی ہدایات کا استنباط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
(۱) {وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلہِ ط}
ترجمانی:’’اور (جب حج اور عمرہ کرنا ہو تو) اس حج اور عمرہ کو اللہ تعالیٰ (کو راضی کرنے) کے واسطے پورا پورا ادا کیا کرو۔‘‘ ( معارف القرآن)
استنباط:حج اور عمرہ کو اللہ کی رضا کے لیے پورا کرنے سے ہم پوری انسانیت کے لیے حکم اخذ کرنا چاہیں تو مطلب یہ ہوگا کہ اے انسانو! اپنی زندگی کے دورانیے کو اللہ کی رضا کے حصول کے لیے مکمل کرو۔ پیدا کرنے والے نے انسانوں اور جنوں کی تخلیق کا یہی مقصد بیان فرمایا:
{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (۵۶) } (الذاریات)
اور امام الناس نبی کریمﷺ کی زبان سے یہ الفاظ کہلوائے گئے :
{قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (۱۶۲) } (الانعام)
’’آپ کہہ دو کہ میری نماز اور میری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ ربّ العالمین ہی کے لیے ہے۔‘‘
عالمی انسانی معاشرے کا ہدف صرف اور صرف اپنے خالق کی رضا ہوگا۔ بقیہ معاملاتِ زندگی کے لیے تگ و دو محض اس مقصد کے حصول میں معاونت کے لیے ہوگی۔ آیت کے آخر میں الفاظ آئے ہیں:
{ وَ اتَّقُوا اللہَ وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ (۱۹۶)}
’’اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ (مخالفت کرنے والوں کو) سخت سزا دیتے ہیں۔‘‘
استنباط:جس طرح احکام حج کو توڑناباعث ِ عذاب ہے‘ اسی طرح نظام زندگی کے احکام کو توڑنا بھی جرم شمار ہوگا‘ جس کی سزا شریعت کے قانون کے مطابق ہوگی۔
(۲) {فَمَنْ فَرَضَ فِیْہِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ ط}
ترجمانی:’’ان ایام میں جو کوئی اپنے ذمے حج کی ادائیگی فرض کرے (حج کا احرام باندھے) تو پھر (اس شخص کے لیے) نہ کوئی فحش بات (جائز) ہے نہ کوئی نافرمانی (درست) ہے اور نہ کسی قسم کا نزاع (اورتکرار) زیبا ہے۔‘‘ (معارف القرآن)
(ا ) {فَلَا رَفَثَ} : رفث ایک جامع لفظ ہے جس میں عورت سے مباشرت‘ اس کے مقدمات‘ یہاں تک کہ زبان سے عورت کے ساتھ اس کی کھلی گفتگو بھی داخل ہے۔ حالت ِاحرام میں یہ سب چیزیں حرام ہیں۔ (معارف القرآن)
احرام کی پابندیاں ختم ہوجانے کے بعد تعلقاتِ زن و شو میں کوئی پابندی نہیں۔ مطلب اس کا یہ ہوا کہ عالمی اسلامی نظامِ زندگی میں رفث کی جائز شکلوں کو اختیار کرنا لازم ہے۔ اس کے لیے عورت اور مرد کو رشتۂ نکاح میں باندھنے کا حکم ہے۔ ایک مرد ایک وقت میں چار عورتوں سے نکاح کر سکتا ہے یا لونڈیوں سے استمتاع کی اجازت ہے۔ اس سے آگے بڑھنے یا شہوتِ نفس کی تسکین کے لیے ناجائز راستہ اختیار کرنے والوں کے لیے عبرت ناک سزائوں کا قانون موجودہے۔ فحاشی اور بے حیائی کے فروغ کی اسلامی نظامِ زندگی میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ لا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ط وَاللہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹)} (النور)
’’جولوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی پھیلے ان کو دنیا اور آخرت میں دکھ دینے والا عذاب ہوگا ۔اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘
بے حیائی اور فحاشی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے نزدیک اس قدر ناپسندیدہ ہیں کہ بڑے گناہوں کی فہرست میں سب سے پہلے فحاشی کی حرمت کا ذکر فرمایا:
{قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَاَنْ تُشْرِکُوْا بِاللہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۳۳) } (الاعراف)
’’کہہ دو کہ میرے پروردگار نے تو بے حیائی کی باتوں کو ظاہر ہوں یا پوشیدہ اور گناہ کو اور ناحق زیادتی کرنے کو حرام کیا ہے اور اس کو بھی کہ تم کسی کو اللہ کا شریک بنائو جس کی اس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس کو بھی کہ اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کہو جن کا تمہیں کچھ علم نہیں۔‘‘
(ب) { وَلَا فُسُوْقَ}: پانچ دن کی عالمی بستی میں آباد ہونے کے لیے لوگ کس کس طرح پہنچے‘ اللہ تعالیٰ نے سفر اور رہائش کے مسائل کس طرح حل فرمائے اور اس مقام پر پہنچایا تو اس ہستی کے حکموں کی نافرمانی نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح تمام دنیا کے انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے زمین میں ٹھکانا دیا‘ زندگی کی سہولتیں فراہم کیں ‘کھانا دیا‘ پانی دیا‘ ہوا دی‘ تندرستی دی‘ ہدایت دی‘ پہچان دی غرض کہ کس کس طرح تمہیں نوازا ۔پس چاہیے کہ پوری دنیا کے لوگ اللہ کے حکموں کی نافرمانی نہ کریں۔
(ج) {وَ لَا جِدَالَ} :جس طرح حج میں جھگڑا کرنے کی اجازت نہیں‘ اسی طرح عالمی انسانی معاشرہ بھی جنگ و جدال سے پاک ہونا چاہیے۔ اگر کوئی نزاع وجود میں آتا ہے تو اس نظام میں اس کے سد ِباب کا پورا پورا بندوبست ہونا چاہیے‘ چہ جائیکہ دوسروں کو نیچا دکھانے یا مفادات کے حصول کے لیے جھگڑے پیدا کیے جائیں اور طاقتور ان سے فائدہ اٹھائیں۔
(۳) { وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی }
’’اور(جب حج کو جانے لگو تو)خرچ ضرور ساتھ لے لیا کرو ‘سب سے بہترین بات (اور خوبی) خرچ میں (گداگری سے) بچے رہنا ہے۔‘‘ (معارف القرآن)
استنباط:انفرادی سطح پر کسی پر زیادتی ہواور وہ بدلہ لینے کی قدرت کے باوجود معاف کردے تو یہ طرزِ عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہایت پسندیدہ ہے‘ لیکن اجتماعی سطح پر بدلہ لینے اور قصاص کی اجازت ہے۔ اسلامی نظام عدالت اس کی معاونت کرتا ہے۔ اسی طرح انفرادی سطح پر سائلین‘ محرومین اور یتیموں اور مسکینوں کی مدد اسلامی نظام کی بنیادی باتوں میں سے ہے‘ یہاں تک کہ اس بات کو جہنم میں جانے کے اسباب میں سے گنا گیا کہ لوگوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے اور یتیموں کے ساتھ ناروا سلوک کرتے تھے۔ لیکن عالمی اسلامی اجتماع میں معاشی خود کفالت کا حکم دیا گیا ہے۔ دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے بچنے کو بہترین روش کہا گیا ہے ۔ اس طرح عالمی اسلامی نظام زندگی میں مختلف قوموں اور ملکوں کے لوگوں کے لیے ہدایت یہ ہے کہ وہ معاشی طور پر خودکفیل ہوں۔ بھکاری قوم اور بھکاری ملک کا کوئی تصور عالمی اسلامی نظام میں نہیں ہونا چاہیے۔
(۴) {لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّکُمْ}
ترجمانی: ’’(اور حج میں کچھ اسبابِ تجارت ہمراہ لے جانا مصلحت سمجھو تو) تم کو اس میں ذرا بھی گناہ نہیں کہ (سفر حج کے دوران) معاش تلاش کرو (جو تمہاری قسمت میں) تمہارے پروردگار کی طرف سے لکھی ہے۔ ‘‘
استنباط:جیسے حج کی عالمی بستی کے مکینوں کو باہمی رضامندی سے تجارت کی اجازت ہے جس کے اندر بے شمار فوائد ہیں‘ اسی طرح عالمی اسلامی نظام میں باہمی تجارت کو فروغ دینے کی اجازت ہے۔ یہ عمل مختلف اقوام اور علاقوں کے لوگوں کے درمیان واسطہ کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ ضروریاتِ زندگی کی سہولیات فراہم ہوتی ہیں ۔اسلامی نظامِ معیشت کا عظیم اصول ہے کہ سرمایہ محض دولت مندوں کے ہاتھوں میں نہیں رہنا چاہیے‘ یہ گردش میں رہنا چاہیے۔ اس اصول کی برکت کا ظہور ہوتا ہے۔ باہمی تجارت عوام کے ہر طبقے تک سرمائے کی گردش کا بہترین ذریعہ ہے ۔اس سے محنت کی قدر بڑھتی ہے۔ البتہ یہ تجارت حلال اور شرعی طور پر جائز چیزوں کی ہونا چاہیے‘ منشیات اور مخرب اخلاق چیزوں کی نہیں ہونا چاہیے۔
(۵){فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْکُرُوا اللہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَ اذْکُرُوْہُ کَمَا ہَدٰىکُمْ وَاِنْ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ (۱۹۸)}
ترجمانی: ’’پھر جب تم عرفات (میں ٹھہرکر وہاں) سے واپس آنے لگو تو مشعر حرام کے پاس (یعنی مزدلفہ میں آکر شب کو وہاں قیام کر کے) اللہ کو یاد کرو اور (یاد کرنے کے طریقے میں اپنی رائے کو دخل مت دو بلکہ) اسی طرح یاد کرو جس طرح تم کو (اللہ تعالیٰ نے) بتلا رکھا ہے اور حقیقت میں قبل اس بتلانے کے تم محض ناواقف ہی تھے۔‘‘ (معارف القرآن)
استنباط:دورانِ حج نظامِ عبادت صرف اور صرف وہی اللہ کو پسند ہے جو اس نے بتایا ہے۔ ظاہر ہے نبی کریمﷺ نے جیسے اللہ کی عبادت کی ہے وہ اللہ کا پسندیدہ طریقہ ہے۔ کسی کو اپنی طرف سے کمی بیشی کی اجازت نہیں ہے۔ عالمی نظام زندگی میں بھی عبادات کا نظام سُنّت ِ رسولﷺ کے مطابق ہوگا۔ سرد و گرم علاقے کے لوگوں کو بھی اپنے مزاج سے کمی بیشی کی اجازت نہیں۔ گویا پورے کرۂ ارضی کے لوگ ایک ہی انداز میں یہ اعمال بجا لائیں گے۔ یہ اللہ کا رنگ ہے‘ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو ایک ہی رنگ میں رنگا دیکھنا چاہتا ہے۔ یہی اسلامک ورلڈآرڈر ہے۔ یہ نظام پوری دنیا کے انسانوں کو ایک وحدت کی شکل دے دیتا ہے۔
(۶) {ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ ……}
’’پھر (اس میں اور بات بھی یاد رکھو کہ جیسے قریش نے دستور نکال رکھا تھا کہ تمام حجاج تو عرفات میں ہو کر پھر وہاں سے مزدلفہ کو آتے تھے اور یہ مزدلفہ ہی میں رہ جاتے تھے‘عرفات نہیں جاتے تھے۔ یہ جائز نہیں بلکہ) تم سب کو (قریش ہو یا غیر قریش) ضروری ہے کہ اسی جگہ سے ہوکر واپس آئو جہاں اور لوگ جا کر وہاں سے واپس آتے ہیں۔‘‘ (معارف القرآن)
استنباط:اس ارشادِ قرآنی سے اصولِ معاشرت کا ایک اہم اصول معلوم ہوا کہ رہن سہن اور قیام و مقام میں بڑوں کو چاہیے کہ چھوٹوں سے الگ اور ممتاز ہو کر نہ رہیں بلکہ مل جل کر رہیں۔ اس سے باہمی اخوت‘ ہمدردی اور تعلق پیدا ہوتا ہے اور امیر و غریب کی تفریق مٹتی ہے۔ مزدور اور سرمایہ دار کی جنگ ختم ہوجاتی ہے۔ رسول اللہﷺ نے اپنے آخری حج کے خطبہ میں اس کو خوب واضح کر کے ارشاد فرمایا کہ کسی عربی کو عجمی پر یا گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں۔ فضیلت کا مدار تقویٰ اور اطاعت ِ خداوندی پر ہے۔ (معارف القرآن)
عالمی اسلامی نظامِ زندگی میں اشرافیہ کے طبقہ کی کوئی گنجائش نہیں ۔کوئی طبقہ مراعات یافتہ نہیں۔
(۷) {فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَ مَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ(۲۰۰) وَمِنْہُمْ مّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ (۲۰۱) اُولٰٓـئِکَ لَہُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا کَسَبُوْاط}
ترجمانی: ’’سو بعض آدمی ایسے ہیں جو دعا میں یوں کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار ہم کو جو کچھ دینا ہے‘ دنیا میں دے دیجیے ( سو ان کو جو کچھ ملنا ہوگا دنیا میں ہی مل کر رہے گا) اور ایسے شخص کو آخرت میں کوئی حصہ نہیں ملے گا ۔اور بعض آدمی (جو کہ مومن ہیں) ایسے ہیں جو (دعا میں) یوں کہتے ہیں کہ اے پروردگار ہم کو دنیا میں بھی بہتری عنایت کیجیے اور آخرت میں بہتری دیجیے اور ہم کو عذابِ دوزخ سے بچائیے۔ (سو یہ لوگ اوپر کے لوگوں کی طرح بے بہرہ نہیں بلکہ) ایسے لوگوں کو (دونوں جہان میں) بڑا حصہ ملے گا۔‘‘ (معارف القرآن)
انبیاء کرامؑ کی سُنّت یہ ہے کہ جس طرح وہ آخرت کی بھلائی اور بہتری اللہ سے مانگتے ہیں اسی طرح دنیا کی بھلائی اور آسائش بھی اللہ ہی سے طلب کرتے ہیں۔ (معارف القرآن)
استنباط:عالمی اسلامی معاشرے کا تعلق اللہ تعالیٰ سے جڑا ہوتا ہے ۔یہ اجتماعیت دنیا کی بھلائیوں کی بھی حریص ہوتی ہے جبکہ آخرت کی بھلائیوں کی دنیا سے بڑھ کر چاہنے والی ہوتی ہے۔ دنیا میں صحت و تندرستی‘ رزقِ حلال‘ اعمالِ خیر کی طرف سبقت‘ قوت و طاقت کا حصول بھی اللہ سے مانگتے ہیں اور آخرت میں جنت کی نعمتوں کے بھی وہ طالب ہوتے ہیں۔ ان کے لیے ہر خیر کی عطا کا منبع اور سرچشمہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات ہوتی ہے۔
(۸) سورۃ البقرۃ کی آیات ۱۹۶ تا ۲۰۲ میں حج کے عالمی اجتماع کے لیے ہدایات کے علاوہ سورۃ الحج میں قربانی کا حکم بھی ملاحظہ ہو:
{وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰہَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآئِرِ اللہِ لَکُمْ فِیْہَا خَیْرٌق فَاذْکُرُوا اسْمَ اللہِ عَلَیْہَا صَوَآفَّ ج فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُہَا فَکُلُوْا مِنْہَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ط کَذٰلِکَ سَخَّرْنٰہَا لَکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ(۳۶) لَنْ یَّنَالَ اللہَ لُحُوْمُہَا وَلَا دِمَآؤُہَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ ط کَذٰلِکَ سَخَّرَہَا لَکُمْ لِتُکَبِّرُوا اللہَ عَلٰی مَا ہَدٰىکُمْ ط وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ(۳۷) اِنَّ اللہَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاط اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُوْرٍ(۳۸) } (الحج)
’’اور قربانی کے اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیے شعائر اللہ میں سے بنایا ہے‘ تو (قربانی کے وقت) قطار باندھ کر ان پر اللہ کا نام لو۔ پھرجب پہلو کے بل گرپڑیں تو ان میں سے کھائو اور قناعت سے بیٹھ رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلائو ۔اس طرح ہم نے ان کو تمہارے زیر فرمان کردیا ہے تاکہ تم شکر کرو۔ اللہ تک نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے اورنہ خون بلکہ اس تک تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے۔ اس طرح اللہ نے ان کو تمہارے لیے مسخر کردیا ہے تاکہ تم لوگ اللہ کی تکبیر بیان کرو اُس ہدایت پر جس سے اُس نے تمہیں سرفراز فرمایا ہے ۔اور (اے پیغمبر!) نیکوکاروں کو خوشخبری سنادو۔‘‘
استنباط:قارن اور متمتع حاجی پر ضروری ہے کہ اللہ کی راہ میں جانورقربان کرے۔ قربانی کے عمل کو تمام دنیا کے مسلمانوں تک پھیلا دیا گیا ہے۔ اس عمل کے ذریعے کس قدر بڑی معاشی سرگرمی وجود میں آتی ہے ‘کس قدر سرمایہ گردش میں آتا ہے ‘کتنی بڑی تعداد میں مخلوقِ خدا کی روزی روٹی کا بندوبست ہوجاتا ہے‘ اس کا شمار نہیں کیا جاسکتا ۔ اس عمل کی اصل روح یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کی رضا کے لیے جان دینے کے لیے تیار رہے۔ اس کے دین کی سربلندی اور اس کے باغیوں اور سرکشوں کو راہ راست پر لانے کے لیے جان لینے اور جان دینے سے دریغ نہ کرے۔
حج کے دوران ان ہدایات کی پشت پر دین اسلام کا پورا نظام ہے‘ جس کی نظریاتی سچائی کی جڑیں تحت الثریٰ تک ہیں اور شاخیں سدرۃ المنتہیٰ تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اس کی نظریاتی سچائی عبادات‘ رسم و رواج‘ نظام معاشرت‘ معیشت اور سیاست میں رچی بسی ہے ۔زندگی کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا عمل ایسا نہیں ہے جس کے لیے اس میں راہنمائی موجود نہ ہو۔
یہ ہے دین اسلام جو ان پانچ دنوں میں اپنی پوری شان کے ساتھ دنیا کے سامنے حجت بن کر شاہدًا و مبشرًا ونذیرًا کا حق ادا کر رہا ہوتا ہے۔ کوئی آنکھوں اور دل کا اندھا انسان ہی کہہ سکتا ہے اسلام پرانا نظام زندگی ہے ‘اس دور میں اس پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔ اہل ِایمان کو اس نعمت عظیمہ کی قدر پہچاننا ہوگی اور خم ٹھونک کر دنیا کو اس طر ف متوجہ کرنا ہوگا۔ دنیا جس چیز کے لیے ترس رہی ہے یعنی سکونِ قلب اور اطمینان ‘وہ اس نظام کے اپنانے والوں کو ہی مل سکتا ہے۔
شہواتِ نفس کے غلام جو بطن وفرج کی تسکین کے ٹھکانوں کا چکر کاٹتے زندگی گزار رہے ہیں انہیں وہاں سے نکال کر اس نظام کے تابع کرنا اس دور کا چیلنج ہے‘ جو اہل ِایمان کے سامنے کھڑا ہے۔ دنیاوی قوت و طاقت سے پہلے نظریاتی سچائی پر یقین اور اخلاقی سچائیوں پر عمل پیرا ہونا اصل قوت ہے‘ جسے حاصل کر کے تہذیبوں کے تصادم کے دور میں سرخرو ہوا جا سکتا ہے۔
امریکن سٹائل ورلڈ آرڈر میں شیطان کی پوجا‘ ہر گھنٹے نامعلوم کتنے ریپ اور کتنی خودکشیاں‘ لوگ anxietyاور ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔
اسلامک سٹائل ورلڈ آرڈر کا نمونہ پانچ دن کی عالمی بستی میں ایک خالق کائنات کی پرستش‘ خیر البشر حضرت محمدﷺ کے نقش قدم کی پیروی‘ ریپ اور خود کشی کا تصور تک نہیں۔امن و سکون ایسا کہ لوگ دوبارہ اس بستی میں آنے کی دعائیں مانگتے ہیں۔