برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی آمد
اور احیائی فکر کا ارتقاء (۳)قیصر جمال فیاضی
معاون شعبہ تعلیم و تربیت ‘تنظیم اسلامی
ڈاکٹر اسرار احمد ؒ ۲۶ اپریل ۱۹۳۲ء کو مشرقی پنجاب کےصوبہ ہریانہ کے ایک قصبہ حصار میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی میں علامہ اقبالؒ کی شاعری سے لگاؤ پیدا ہوگیا۔ میٹرک کے زمانۂ تعلیم میں عملاً مسلم لیگ یوتھ ونگ‘حصار کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے کام کیااور اسی حیثیت میں طلبہ کے ایک وفد کے ساتھ قائد اعظم کے ساتھ ملاقات کے لیے لاہور تشریف لائے۔ ۷ نومبر ۱۹۴۷ء کو ان کے خاندان نے پاکستان ہجرت کی ۔ ہجرت کے زمانہ میں’’قصبہ حصار‘‘ میں محصوری کے دوران ’’تفہیم القرآن ‘‘سے متعارف ہوئے۔ اس سے قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنے کی طرف رغبت ہوئی۔ اسی عرصہ کے دوران ’’الہلال‘‘ کے پرانے پرچے پڑھنے سے مولانا ابوالکلام آزاد سے بھی تعارف حاصل ہوگیا۔ ۱۹۴۹ء میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج‘ لاہور میں داخل ہوئے۔ ۱۹۵۰ء میں اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن بنے ۔۱۹۵۳ء میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوئے۔ جمعیت کی رکنیت کے زمانہ میں ہی قرآن حکیم کی درس و تدریس شروع کردی۔ اس دوران مولانا امین احسن اصلاحی کی تصانیف کا بھی مطالعہ کیا اور ان کےدروس سے بھی استفادہ کیا۔۱۹۵۴ء میں جماعت اسلامی کے رکن بنے۔اس کے فوراً بعد ہی محسوس ہوا کہ جماعت اسلامی انتخابی سیاست کا راستہ اختیار کر کے اپنے اصل رخ سے بھٹک گئی ہے‘ لہٰذا ۱۹۵۷ء میں جماعت اسلامی کی رکنیت سےاستعفیٰ دے دیا۔ بعد ازاں ڈاکٹر صاحب نے کوشش کی کہ جماعت کو چھوڑنے والے دوسرے اراکین کے ساتھ مل کر ایک نئی ہیئت اجتماعی قائم کی جائے۔ ان کوششوں کے نتیجے میں ۱۹۶۷ء میں’’ تنظیم اسلامی ‘‘کے نام سے ایک جماعت کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔ بوجوہ یہ قافلہ چل نہ سکا۔ اس موقع پر ڈاکٹر صاحب نے یہ طے کرلیا کہ اقامت دین اور اعلائے کلمۃ اللہ کے بلند و بالا مقصد کے لیے خالص اصولی اور انقلابی طریق پر جدّوجُہد‘ یا بالفاظ دیگر اسلامی انقلاب کی سعی کے لیے ٹھیٹھ اسلامی اصولوں پر کسی نئی تحریک کے اجراء اور تنظیم کے قیام کے لیے خود اپنی بساط کے مطابق کوشش جاری رکھیں گے‘ خواہ اس نئے سفر اور نئی تعمیر و تشکیل کے لیے انہیں تنہا ہی آغاز کیوں نہ کرنا پڑے ۔
جون ۱۹۶۷ء میں ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے اپنی پہلی معرکۃ الآرا تحریر ’’ اسلام کی نشاۃٔ ثانیہ: کرنے کا اصل کام‘‘ لکھی ۔ جنوری ۱۹۶۸ء میں سمن آبا د‘ لاہور میں ایک عزیز کے گھر درسِ قرآن شروع کیا۔ بعد ازاں شرکاء کی تعداد میں اضافہ ہونے کی وجہ سے یہ درس مسجد خضریٰ سمن آباد منتقل ہوگیا۔ ڈاکٹر اسرار احمد ؒ نے ایک منتخب قرآنی نصاب مرتب کیا تھا اور ان کے دروس اکثر اسی نصاب پرمبنی ہوا کرتے تھے۔ اس نصاب کی بنیاد’’سورۃ العصر‘‘ ہے۔ اس منتخب نصاب سے تصوّرِ دین اور دینی فرائض کا تصوّر خوب اچھی طرح واضح ہوجاتا ہےاور محدود مذہبی تصوّرات کی جڑیں خود بخود کٹتی چلی جاتی ہیں۔ البتہ اس کے تقاضے اس صورت میں پورے ہوسکتے تھے اگر اقامت ِدین کی جدّوجُہد کے لیے ایک ہیئت اجتماعیہ وجود میں آجائے۔ ان کی اس دعوت کے نتیجے میں ۱۹۷۲ء میں’’مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور‘‘ قائم ہوئی۔ انجمن کی قراردادِ تاسیس کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر اسرار احمد ؒ نے فرمایا:
’’اسلام کی نشا ٔۃِ ثانیہ اور غلبۂ دین حق کے دورِ ثانی کا خواب اُمّت ِمسلمہ میں تجدیدِ ایمان کی عمومی تحریک کے بغیر شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا اور اس کے لیے لازم ہے کہ اوّلاً منبع ایمان و یقین یعنی قرآن حکیم کے علم و حکمت کی وسیع پیمانے پر نشرو اشاعت کی جائے۔‘‘
مرکزی انجمن خدام القرآن کی تشکیل دراصل سمع واطاعت کے ٹھیٹھ اسلامی اصول پر مبنی ایک اسلامی جماعت کے قیام کی تمہید تھی۔ اس کا ذکر ڈاکٹر صاحب نے دستورِ انجمن میں’’دو ضروری وضاحتیں‘‘ کے عنوان کے تحت ان الفاظ میں کیا ہے:
’’واضح رہے کہ راقم الحروف اپنی ذہنی ساخت اور مزاج اور افتادِطبع کے اعتبار سے محض انجمن سازی پر نہ کبھی پہلے مطمئن ہو سکا ہے نہ اب مطمئن ہو سکتا ہے۔ بلکہ بحمدا للہ اس کے پیشِ نظر اعلائے کلمۃ اللہ اور اظہارِ دین حق کا بلند و بالا نصب العین ہے اور اس کے لیے ایک ہمہ گیر جدّوجُہد ہی اس کی زندگی کا اصل مقصد ہے۔‘‘
اس اسلامی جماعت کی بنیاد ۲۸ مارچ۱۹۷۵ء کو قرآن اکیڈمی لاہور میں منعقدہ ایک اجلاس میں رکھی گئی جس میں ڈاکٹر صاحب سمیت ۶۲ افراد نے شمولیت اختیار کی ۔ اس طرح تنظیم اسلامی کے نام سے غلبۂ دین حق کی جدّوجُہد کے لیے ایک قافلہ ترتیب پاگیا۔ڈاکٹر اسرار احمدؒ داعئ عمومی مقرر ہوئے ۔ بعد ازاں ۵ تا ۱۱ اگست ۱۹۷۷ءـکے سالانہ اجتماع میں سیر حاصل بحث کے بعدطے پایا کہ آئندہ تنظیم کا نظام بیعت کے اصول پر مبنی ہوگا۔ اس اجتماع میں ڈاکٹر صاحب نےتنظیم کی امارت کی ذمہ داری سنبھال لی ۔
پاکستان ٹیلی ویژن نے ۳۰ اپریل ۱۹۸۰ء سے’’الہدیٰ‘‘ کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا جس میں ڈاکٹر اسرار احمدؒ مطالعہ قرآن حکیم کے منتخب نصاب کا درس دیا کرتے تھے۔ اس پروگرام کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اس کے نشر ہونے کے دوران گلیاں اور بازار سنسان ہوجاتے تھےاور پورے کے پورے گھرانے اپنے تما م کام کاج سے فارغ ہو کر ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ جاتے تھے۔ اس طرح لاکھوں لوگوں تک’’قرآن کے ذریعے غلبۂ دین‘‘ کی دعوت پہنچی۔ ۱۲ تا ۱۸ مارچ ۱۹۸۲ء کو روزنامہ ’’جنگ‘‘ کے ہفتہ وار میگزین میں ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا ایک انٹرویو شائع ہوا جس میں انہوںنے پردے کے احکامات کے بارے میں اسلام کی تعلیمات پیش کیں۔ اس پر صوبہ سندھ کے گورنر کی اہلیہ کی قیادت میں روشن خیال خواتین نے کراچی ٹی وی سٹیشن کے باہر مظاہرہ کیا‘ جس کے نتیجے میں حکومت نے ’’الہدیٰ‘‘ پروگرام بند کردیا۔
اگست ۱۹۸۲ء میں حکومت نے ڈاکٹر اسرارا حمد ؒ کو ستارۂ امتیاز سے نوازا۔ اسی دورا ن صدر جنرل ضیاء الحق نے ڈاکٹر اسرار احمدؒ کووزارت کی پیش کش کی ‘ جسے انہوں نے ٹھکرادیا۔بعد ازاں جنرل صاحب نے وفاقی مجلس شوریٰ کے لیے ڈاکٹر صاحب کو نامزد کیا جسے انہوں نے اس بنا ء پر قبول کرلیا کہ حکومت کے کچھ اقدامات سے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اسلام کے نفاذ کے لیے کام کرنا چاہتی ہے۔ مگر صرف دو ماہ بعد ہی وہ اس نتیجےپر پہنچے کہ جنرل صاحب نفاذِ شریعت کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ لہٰذا انہوں نے مجلس شوریٰ سے استعفاء دے دیا۔
رمضان المبارک۱۴۰۴ھ( ۱۹۸۴ء) میں ڈاکٹر اسرار احمد ؒ نے قرآن اکیڈمی لاہور میں نماز تراویح کے ہمراہ دورۂ ترجمہ قرآن کا آغازکیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے شرفِ قبولیت عطا کیا۔ اس کے بعد وہ باقاعدگی سے ہر سال دورۂ ترجمہ قرآن کرتے رہے۔ بعد ازاں ڈاکٹر صاحب کے کئی تلامذہ نے بھی ترجمہ قرآن کرانا شروع کردیا۔ رمضان ۲۰۲۲ء کے دوران ملک میں دوسو سے زائد مقامات پر دورئہ ترجمہ قرآن اور خلاصۂمضامین قرآن کے پروگرام ہوئے۔ اس کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے کئی اور اداروں اور علماء نے بھی دورۂ ترجمہ قرآن کرانے شروع کردیے ہیں اور اب اکثر مساجد میں رمضان میں تراویح کے بعد خلاصۂ مضامین ِقرآن ِحکیم بھی بیان ہونے شروع ہوگئےہیں۔
مئی تا دسمبر۱۹۸۴ء کے خطاباتِ جمعہ میں ایک اور سنگ ِ میل عبور کرتے ہوئے ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے منہج ِانقلابِ نبوی ﷺ کے مراحل بیان کرتے ہوئے اقدام اور مسلح تصادم کے متبادل کے طور پر اپنی اجتہادی رائے پیش کی۔
تنظیم اسلامی کے آٹھویں سالانہ اجتماع مارچ ۱۹۸۵ ء کے ساتھ شام کے اوقات میں ’’محاضراتِ قرآنی‘‘ کا انعقاد کیا گیا ۔ ڈاکٹر صاحب نے’’فرائض دینی کا جامع تصوّر‘‘ پر اصحابِ علم و فضل کو تنقید و اصلاح کی دعوت دی ۔ ان محاضرات میں۲۱ افراد نے شرکت کی اور اکثریت نے بحیثیت مجموعی تصویب فرمائی۔
۱۹۸۶ء میں اکیس روزہ تربیت گاہ میں منتخب نصاب نمبر۲ پڑھایا جو تحریکی مسائل پر مشتمل ہے۔ بعد ازاں اسے’’حزب اللہ کے اوصاف‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع کردیا گیا۔
اواخر ۱۹۹۱ء میں تحریک ِخلافت پاکستان کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ۔
۱۴ فروری ۱۹۹۸ء کو چار سالہ طویل مشاورت کے نتیجہ میں حافظ عاکف سعید صاحب کی جانشینی کا اعلان کیاگیا۔
۱۷ ستمبر ۲۰۰۲ء کو مرکزی مجلس مشاورت کے اجلاس میں ڈاکٹر اسرار احمد ؒ اپنی علالت کی بناء پر تنظیم اسلامی کی امارت حافظ عاکف سعید صاحب کو سونپ کر خود سبک دوش ہوگئے۔انہوں نے خود بھی حافظ عاکف سعید صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ ڈاکٹر صاحب آخری دم تک تنظیم اسلامی کے رفیق رہے اور لوگوں کو بھی تنظیم میں شمولیت کی دعوت دیتے رہے۔
اس اجلاس میں ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے تنظیم کے ساتھیوں کو درج ذیل محکم اساساتِ اربعہ کو مضبوطی سے تھامنے کی وصیت کی:
(i) دعوت بذریعہ قرآن
(ii) تنظیم اسلامی میں شمولیت بذریعہ بیعت
(iii) انفرادی طور پر ہر رفیق کا اصل نصب العین رضائے الٰہی کا حصول اور اُخروی نجات ہے
(iv) غلبۂ دین کی جدّوجُہد کے لیے منہج ِانقلابِ نبویﷺ پر عمل
۱۴ اپریل ۲۰۱۰ء کو ڈاکٹر اسرار احمد ؒ نے اللہ تعالیٰ کی طرف مراجعت فرمائی۔
ان کے انتقال کے بعد بھی تنظیم اسلا می اسی راستےپر گامزن رہی جو ڈاکٹراسرار احمد ؒ متعین فرماگئے تھےاور اس سے سرِ مو انحراف نہ ہوا۔
محترم حافظ عاکف سعید کے دورِ امارت کے چند اہم اقدامات:
(۱) مرکزی شوریٰ جولائی ۲۰۰۳ء کے موقع پر تنظیم میں’’ اعانت‘‘ کے بجائے ’’انفاق فی سبیل اللہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنے کا فیصلہ ہوا۔ یہ بھی فیصلہ ہوا کہ آئندہ انفاق کے ضمن میں بازپُرس اور محاسبہ نہیں ہوگا‘ البتہ ترغیب و تشویق کا اہتمام ضرورکیا جائے گا۔ اس کے لیے کوئی کم ازکم حد مقرر نہیں کی گئی بلکہ رفقاء پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ حسب ِاستطاعت جتنا دیں گے وہ قبول کیا جائے گا۔
(۲) ۲۵تا ۲۷ ستمبر۲۰۰۳ء کل پاکستان ملتزم رفقاء کا تربیتی اجتماع کراچی میں منعقد ہوا۔ اس موقع پر تنظیم میں دعوت کے فروغ کے حوالے سے انفرادی دعوت کی فرضیت اور اہمیت پر مبنی ایک مؤثر نظامِ دعوت متعارف کروایا گیا۔
(۳) رمضان ۲۰۰۵ء میں پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں شدید زلزلہ آیا‘ جس کی وجہ سےامیر تنظیم نے اپنا دورہ ترجمہ قرآن ترک کرکے متاثرہ علاقہ کا دورہ کیا اور متاثرین کے لیے امدادی مہم کا آغاز بھی کیا۔علاوہ ازیں اس سال کا سالانہ اجتماع منسوخ کر دیا گیا اور اس کے لیے مختص کردہ رقم زلزلہ زدگان کی امداد اور تعمیرِ نو کے لیے خرچ کر دی گئی۔
(۴) ۲۰۰۵ء ہی میں محترم عاکف سعید صاحب نے بھر پور مشاورت کے بعد فیصلہ کیا کہ تنظیم اسلامی میں آئندہ زکوٰۃ کو ’’فی سبیل اللہ ‘‘ کی مد میں خرچ نہیں کیا جائے گا۔ چونکہ زکوٰۃ اصلاً فقراء و مساکین کا حق ہے اور ’’فی سبیل اللہ‘‘ میں تو سّع کے معاملہ پر علماء میں اختلاف پایا جاتا ہے ‘لہٰذا زکوٰۃ جیسے حسّاس معاملہ میں محتاط طرز عمل اختیار کرنا زیادہ بہتر ہوگا۔
(۵) آل پاکستان اُمراء مقامی تناظیم کے لیے خصوصی تربیتی کورس ۴ تا ۹ اپریل ۲۰۱۰ء فیصل آباد میں منعقدہوا ۔ اسی نہج پر ا ن کی امارت میں چار مزید خصوصی تربیتی کورسز منعقد ہوئے۔
(۶) مدرّسین کے لیے سالانہ ریفریشر کورس کے عنوان سے بتدریج ایک پانچ سالہ منصوبہ ترتیب دیا گیا اور ان کورسز کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا۔
(۷) ۲۰۱۵ء میں ملک گیر انسداد سود مہم ۹ نومبر تا ۲۵ دسمبر جاری رہی۔ یہ مہم بہت کامیاب رہی۔پورے ملک میں تنظیم اسلامی کا تعارف ہوا اور تنظیم کا بھر پور تأثر اُجاگر ہوا۔
(۸) سیکولر اور لبرل عناصر کی جانب سے نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریہ پر پیدا کردہ شکوک و شبہات کے تدارک کے لیے اور قوم کے سامنے قیامِ پاکستان کے مقاصد کو واضح کرنے کے لیے ۲ مارچ تا ۲۳ مارچ ۲۰۱۸ء استحکامِ پاکستان مہم چلائی گئی۔
محترم عاکف سعید نے تنظیم اسلامی کے لیے خالصتاً صرف اور صرف رضائے الٰہی کی خاطر بلا معاوضہ خدما ت سر انجام دیں ۔ انہوں نے نہ تو کوئی تنخواہ لی اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی مراعات ۔ ان کے زیر استعمال گاڑی ان کے قریبی رشتہ داروں کے کاروبار ی ادارے کی ملکیت تھی۔ اس گاڑی کی دیکھ بھال اور مرمت کے اخراجات بھی انہی لوگوں نے اپنے ذمے لیے ہوئے تھے۔تنظیمی مصروفیات کے لیے صرف پٹرول کا خرچہ مع ڈرائیور تنظیم کے ذمہ تھا۔ گاڑی کے ذاتی استعمال کی صورت میں پٹرول کا خرچ محترم حافظ عاکف سعید صاحب اپنی جیب سے ادا کرتے تھے۔
۱۴ جولائی ۲۰۲۰ء کو حافظ عاکف سعید صاحب نے اپنی علالت کی بناء پر تنظیم اسلامی کی امارت سے دست برداری کا اظہار کیا۔ اس کے نتیجے میں مرکزی مجلسِ شوریٰ کا اجلاس ہوا۔ شوریٰ کی واضح اکثریت نے شجاع الدین شیخ صاحب کے حق میں رائے دی۔ لہٰذا حافظ عاکف سعید صاحب نے نئے امیر شجاع الدین شیخ کے تقرر کا باقاعدہ اعلان فرمایا۔ اس موقع پر سابق امیر نے درج ذیل اساسی محکما ت کا خاص طور پر ذکر کیا:
(۱) ہمارا نصب العین صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت کی فلاح کا حصول ہے۔
(۲) ہماری اجتماعی جدّوجُہد کا ہدف اور مقصود اللہ کے دین کو بتمام و کمال ایک مکمل نظامِ اجتماعی کی شکل میں نافذ کرنا ہے۔
(۳) ہماری دعوت کا مرکز و محور قرآن حکیم ہے۔
(۴) ہمارا طریقِ کارتربیت و تزکیہ بھی ’’خانقاہی‘‘ نہیں ‘ بلکہ انقلابی یعنی نبوی طریق تزکیہ پر مبنی ہے۔
(۵) ہماری تنظیم کی اساس ’’ بیعت سمع و طاعت فی المعروف‘‘ پر قائم ہے۔
(۶) ہمارا منہج سیرتِ نبوی ﷺسے ماخوذ ہے۔
موجودہ امیر ِتنظیم ِاسلامی شجاع الدین شیخ۲۹ ستمبر۱۹۷۴ء کو کراچی میں پیدا ہوئے ۔ان کے آباء و اجداد ۱۹۴۷ء میں ہندوستان کے صوبہ گجرات سے ہجرت کر کے آئے تھے۔ ان کی دنیا وی تعلیم چارٹرڈ اکاؤنٹینسی میں ہے۔ انہوں نے تنظیم اسلامی میں ۱۹۹۸ء میں شمولیت اختیار کی۔ ۱۹۹۸ء ہی میں جامعہ کراچی سے اسلامیات میں ایم اے کیا ۔ اس سے قبل ۱۹۸۹ ء میں وہ عربی کے چند بنیادی کورسز کرچکے تھے۔ ۲۰۰۲ء میں انجمن خدام القرآ ن سندھ کے تحت قائم قرآن اکیڈمی سے ایک سالہ قرآن فہمی کورس بھی کرلیا۔ اللہ تعالیٰ کی خصوصی توفیق سے انہوں نے اپنی زندگی غلبۂ اسلام کے عظیم مقصد کے لیے وقف کردی۔ انہوں نے قرآن اکیڈمی کراچی میں ۲۰۰۲ء سے اپنی خدمات کا آغاز کیا۔ وہ کئی سال وہاں فیکلٹی ممبر بھی رہے اور ۲۰۲۰ء کے آغاز تک وہاں اکیڈمک ڈائریکٹر ‘ نقیب اُسرہ ‘ مقامی امیر‘ امیر حلقہ اور معاون شعبہ تربیت کے مناصب پر فائز رہے۔ ۲۰۰۱ء سے شجاع الدین شیخ مختلف سیٹیلائٹ چینلز اور سوشل میڈیا پر قرآن حکیم کے دروس دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف دینی پروگراموں میں بھی شرکت کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے سکول کے طلبہ کے لیے ’’مطالعہ قرآن حکیم‘‘ کا بھی ایک نصاب تیار کیا ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ سکول اپنے بچوں کو اس نصاب کے ذریعہ قرآن مجید کی تعلیم دیں ۔ الحمدللہ‘ وہ اپنی اس کوشش میں کافی کامیاب بھی ہیں۔
دورِ حاضر کی ہم عصر اسلامی تحریکات اور تنظیم اسلامی
آئیے یہاں کچھ دیر رک کر سیرتِ رسولﷺ اور اسلاف کی روایات کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں کہ پچھلی صدی کے اکابرین اور جماعتوں کے کام میں کن کن پہلوؤں کے لحاظ سے کمی رہ گئی اور تنظیم اسلامی اس کمی کی کس طرح تلافی کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد کا پوری اُمّت ِمسلمہ پر بالعموم اورحال اور مستقبل کی تمام احیائی تحریکوں پر بالخصوص احسان ہے کہ انہوں نے دو عظیم حقیقتوں کی طرف مسلمانوں کی توجّہ مبذول کرائی:
(i) غلبۂ دین کی جدّوجُہد کا کام ایک منظم اور سمع و طاعت کی خوگر جماعت کے قیام کے بغیر ممکن نہیں۔
(ii) مستقبل کا ’’اسلامی انقلاب ‘‘ بھی صرف اسی طریقہ کار پر عمل پیرا ہو کر برپا کیا جا سکتا ہے جس کے ذریعہ چودہ سو سال قبل نبی اکرمﷺ نے جزیرہ نمائے عرب میں برپا کر دیا تھا۔
پہلی بات کے لیے انہوں نے درج ذیل حدیث کا حوالہ دیا:
حضرت حارث الاشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
((اَنَا آمُرُکُم بِخَمسٍ (اَللّٰہُ اَمَرَنِی بِھِنَّ): بِالجَمَاعَۃِ وَالسَّمعِ وَالطَّاعَۃِ وَالھِجرَۃِ وَالجِھَادِ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ)) (سنن الترمذی)
’’ (مسلمانو!) میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں (مجھے ان کا حکم اللہ نے دیا ہے) یعنی جماعت کا حکم‘ سننے کا حکم‘ اطاعت کا حکم‘ ہجرت اور جہاد فی سبیل اللہ کا حکم۔‘‘
مولانا آزاد نے مسلمانانِ ہند کو اس حدیث مبارک کی طرف صرف متوجہ ہی نہیں کیا بلکہ ۱۹۱۳ءمیں بیعت کی اساس پر ’’حزب اللہ‘‘ کے نام سے ایک جماعت بھی قائم کر دی۔ پھر ۱۹۲۰ء میں علماء کے رویّہ سے مایوس ہو کر غلبۂ دین کی جدّوجُہد کو چھوڑ کر انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کر لی۔
الحمدللہ‘ ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے ’’تنظیم ِاسلامی‘‘ کے نام سے غلبۂ دین کی جدّوجُہد کے لیے ایک جماعت کی تشکیل کی اور اس میں شمولیت کا طریقہ کار درج بالا حدیث کے حوالے سے بیعت کا طریقہ کار اختیار کیا‘ اس فرق کے ساتھ کہ اب غیر مشروط اطاعت کی بجائے امیر سے ’’سمع و طاعت فی المعروف‘‘ کی بیعت کی جائے گی۔
جماعت میں شمولیت کے لیے بیعت کا طریقہ کار ہمارے علم کی حد تک بر ِصغیر پاک و ہند میں کسی جماعت نے اختیار نہیں کیا۔ تحریک جماعت اسلامی کا مطالعہ کریں تو واضح ہوتا ہے کہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی جماعت اسلامی میں شمولیت کے لیے بیعت کا طریقہ کار اختیار کرنا چاہتے تھے مگر بوجوہ وہ ایسانہ کر سکے۔
دوسری بات کے لیے مولانا ابوالکلام آزاد نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول کا حوالہ دیا جو انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نامزدگی کے موقع پر اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا تھا:
’’اس اُمّت کے آخری حصہ کی اصلاح ہرگز نہ ہو سکے گی مگر صرف اسی طریقہ پر جس پر پہلے حصہ کی اصلاح ہوئی تھی۔‘‘
ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے درج بالا قول کی روشنی میں دورِ حاضر میں غلبۂ دین کی جدّوجُہد کے لیے ’’منہج ِانقلابِ نبویﷺ‘‘ کے تمام مراحل بیان کیے اور مسلح تصادم کے متباول کے طور پر اپنی اجتہادی رائے پیش کی۔جماعت اسلامی کی تحریکی فکر میں ’’منہج ِ انقلاب‘‘ کے ضمن میں خلا نظر آتا ہے۔ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے اپنی تحریر ’’اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟‘‘ میں اسلامی انقلاب کے ابتدائی لوازم اور مراحل کو بہ کمال حسن وخوبی بیان کرنے کے بعد اس طرح کے الفاظ استعمال کرنے پر اکتفا کی ہے کہ ’’تب ایک طبعی نتیجہ کے طور پر وہ خالص نظامِ حکومت ابھر آتا ہے جس کے لیے ان طاقتور اسباب نے جدّوجُہد کی ہوتی ہے‘‘ اور ’’آخر کار ایک لازمی اور طبعی نتیجہ کے طور پر وہی حکومت قائم ہو جائے گی جس کے لیے اس طرز پر زمین تیار کی گئی ہو۔‘‘ اس طرح گویا آخری اقدام اور اس سے پیدا ہونے والے تصادم کے ذکر سے گریز کیا ہے۔
تیسری بات جس کی طرف ڈاکٹر اسرار احمد ؒ نے بڑی شدّ و مدّ سے توجہ دلائی‘ وہ تمسک بالقرآن ہے۔ علامہ اقبال کے بقول ’’اسلام کی نشا ٔۃ ِثانیہ‘‘ قرآن مجید پر غوروفکر اور عمل کے بغیر ممکن ہی نہیں۔؎
چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود
جاں چو دیگر شد ‘ جہاں دیگر شود!’’جب یہ قرآن کسی کے دل میں اتر جاتا ہے تو دل بدل جاتا ہے۔ جب دل بدل جاتا ہے تو سارا جہاں تبدیل ہو جاتا ہے۔‘‘
المیہ یہ ہے کہ دورِ حاضر کی اسلامی تحریکوں نے اس جانب کم ہی توجہ دی ہے۔ قرآن کو اپنے کارکنوں کے دلوں کے اندر اتارنا‘ قرآن کے ذریعے اپنے کارکنوں کی روحانی تربیت کرنا‘ یہ تنظیم اسلامی کا ایک اہم خاصّہ ہے۔ اسلامی انقلاب کی جدّوجُہد کے مرحلۂ اول یعنی دعوت و تبلیغ کا مکمل دارومدار اور مرکز و محور صرف قرآن حکیم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تزکیہ و تربیت کا آلہ اور ذریعہ بھی قرآن مجید ہی ہے۔ پھر شیطان لعین اور اس کی صُلبی و معنوی ذریت کے مقابلے کے لیے بھی واحد تلوار اور ہتھیار بھی اللہ کی کتاب ہی ہے۔
تبلیغی جماعت نے قرآن مجید کو دعوت و تبلیغ اور تربیت کا ذریعہ نہیں بنایا۔ جماعت اسلامی اپنے ابتدائی دور میں دروسِ قرآن پر زور دیتی نظر آتی ہے‘ تاہم اب قرآن کے ذریعہ دعوت ‘ تزکیہ و تربیت کی طرف توجہ پہلے جیسی نظر نہیں آتی۔ تنظیم اسلامی نے اس ضمن میں درج ذیل اہم اقدامات کیے ہیں:
(i) بنیادی یونٹ ’’اسرہ‘‘ کی سطح پر ’’حلقہ قرآنی‘‘ قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے‘ جو کہ عوام الناس کو دعوت دینے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
(ii) پاکستان میں قائم قرآن اکیڈمیز اور دارالاسلام مرکزتنظیم اسلامی میں ’’ایک سالہ‘‘ اور ’’دو سالہ‘‘ رجوع الی القرآن کورسز جاری ہیں۔ ان کے ذریعے ہر سال بڑی تعداد میں مدرسین تیار ہوتے ہیں جو اپنے اپنے مقام پر عوامی درس ِقرآن اور قرآنی حلقے قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
(iii) وہ لوگ جو اپنے آپ کو کل وقتی وقف نہ کر سکتے ہوں اور نہ ہی ملازمت یا کاروبار سے اپنے آپ کو ایک سال یا دو سال کے لیے فارغ کر سکتے ہوں‘ ان کے لیے قرآن اکیڈمیز اور مقامی تناظیم شام کے اوقات میں ’’فہم دین کورس‘‘ اور ’’اتوار پروگرام‘‘ ترتیب دیتی ہیں تاکہ عام لوگ بھی قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھ سکیں۔
تنظیم اسلامی کی دعوت و تحریک کے امتیازات
(ا) دین کا ہمہ گیر تصوّر:اسلام صرف مذہب نہیں بلکہ دین ہے۔ اسلام ایک مکمل نظام ہے جوزندگی کے انفرادی و اجتماعی تمام گوشوں سے متعلق ہدایات دیتا ہے۔
انسان کی انفرادی زندگی سے متعلق گوشوں کے لیے اسلام کی تعلیمات درج ذیل ہیں:
(i) عقائد: اس حوالے سے ہدایات کی بنیاد تین ایمانیات ہیں: توحید‘ رسالت اور آخرت۔
(ii) عبادات: اسلام جو عبادات بعض شرائط کے ساتھ بندوں پر فرض قرار دیتا ہے وہ چار ہیں: نماز‘روزہ‘ زکوٰۃ اور حج۔
(iii) رسومات: خوشی اور غمی کے حوالے سے اسلام میں اہم رسومات عقیقہ‘ نکاح ‘ تجہیز و تکفین اور تدفین ہیں۔
اجتماعی معاملات کے لیےاسلام کی تعلیمات حسب ِذیل ہیں:
i) سیاست : حاکم اللہ تعالیٰ ہے اور بندوں کے لیے خلافت ہے۔انسان دوسرے انسانوں کو اپنا محکوم اور غلام نہیں بنا سکتے۔
ii) معیشت: ہر شے کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ بندوں کے پاس جو کچھ ہے وہ امانت ہے۔
iii) معاشرت: اللہ تعالیٰ خالق ہے۔ بندوں کے لیے مساوات ہے۔ تمام انسان برابر ہیں اور ہر ایک کی جان ‘ مال اور عزت یکساں محترم ہے۔
(ب) دعوت‘ تزکیہ او رتربیت کے لیے مرکز و محور اور بنیادی آلۂ انقلاب قرآن کریم ہے: اس مقصد کے حصول کے لیے انجمن خدام القرآن نے درج ذیل کام کیے:
(i) عربی زبان کی تعلیم و تر ویج کے لیے عمومی کورسز شروع کیے گئے۔
(ii) قرآن مجید کے مطالعہ کی عام ترغیب و تشویق۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر گلی اور محلہ میں عوامی دروسِ قرآن ہوں اور یہ کام نہیں ہوسکتا جب تک ایک بڑی تعداد میں مدرّسین تیار نہ ہوجائیں۔ لہٰذا اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے ایک سالہ اور دوسالہ کل وقتی پروگرام شروع کیے گئے تاکہ مدرّسین کی ایک بڑی کھیپ (ٹیم) تیار ہوجائے۔
(iii) مزیدبرآں پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں ’’قرآن اکیڈمیز‘‘ تیار ہوگئیں جو ایک بڑی تعداد میں نوجوانوں کی مناسب تعلیم و تربیت کررہی ہیں۔
(ج) ایک مسلمان کے بنیادی دینی فرائض تین ہیں:
(i) وہ خود صحیح معنوں میں اللہ کا بندہ بنے۔
(ii) دوسروں کو حتی المقدور دین کی دعوت دے۔ ان تک دین کا پیغام پہنچائے۔
(iii) اللہ کے کلمہ کی سر بلندی اور دین حق کے بالفعل قیام اور غلبہ کے لیے تن من دھن سے کوشاں ہو۔
مندرجہ بالاتین بنیادی فرائض سے عہدہ بر آہونے کے لیے تین لوازم ضروری ہیں:
(۱)جہاد فی سبیل اللہ: جہاد کی پہلی منزل مجاہدہ مع النفس یعنی خود اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کا مطیع (تابع فرمان)بنانےکی جدّوجُہد ہے۔
جہاد کی دوسری منزل دعوت و تبلیغ کے لیے جان ‘ مال اور وقت کا کھپانا ہے۔
جہاد کی تیسری منزل غلبۂ دین کی جدّوجُہد ہے۔ اس کا اظہار سر دھڑ کی بازی لگانے اور جان ہتھیلی پر رکھ کر باطل قوتوں سے بالفعل پنجہ آزمائی کی صورت میں ہوتا ہے جس کے لیے اپنی جان‘ مال ‘ صلاحیت اور وقت لگا دینے کا عزم یہاں تک کہ اپنی جان بھی دے دینے کی آرزو کا ہونا لازمی ہے۔
(۲)لزوم جماعت:درج بالا تینوں فرائض کی بجا آوری کے لیے ضروری ہے کہ ایک مسلمان ’’سمع و طاعت فی المعروف‘‘ کے ٹھیٹھ اسلامی اصول پر مبنی کسی جماعت سے جڑجائے۔
اس جماعت میں شمولیت کا طریقہ ’’بیعت سمع وطاعت فی المعروف‘‘ پر مبنی ہو‘ جیسا کہ حضور اکرم ﷺ کی حدیث قدسی ہے:
آمُرُكُمْ بِخَمْسٍ: بِالْجَمَاعَةِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَالْهِجْرَةِ وَالْجِهَادِ فِيْ سَبِيۡلِ اللّٰهِ (رواہ احمد والترمذی‘ عن الحارث الاشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ )
(د)جہاد فی سبیل اللہ کا وسیع اور ہمہ گیر تصوّر:ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے مطابق جہاد فی سبیل اللہ کے ضمن میں ہمارے عوام و خواص سب کو یہ مغالطہ لاحق ہے کہ جہاد کے معنی ’’جنگ‘‘ کے ہیں ۔ گویا جہاد اور قتال کو ہم معنیٰ قرار دے دیا گیا۔ اس مغالطہ کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ جہاد کو فرضِ عین کے بجائے فرضِ کفایہ سمجھ لیا گیا اور جہاد کا تصوّر ہمارے دینی تصورات سے بحیثیت مجموعی خارج ہوگیا اور اس کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔
دوسرا مغالطہ یہ پیدا ہوگیا کہ مسلمان کی ہر جنگ جہاد فی سبیل اللہ بن گئی‘ خواہ وہ ہوسِ ملک گیری کی جنگ ہو‘دو مسلمان ممالک کی مادی مفادات کے تحت جنگ ہو یا پھر آزادی کی جنگ ہو۔
ڈاکٹر صاحب ؒ کے نزدیک جہاد فی سبیل اللہ ایمانِ حقیقی کا جزوِلازم بھی ہے اور نجاتِ اخروی کا لازمی تقاضابھی۔ جہاد فی سبیل اللہ کا مفہوم غلبۂ دین حق کے لیے جدّوجُہد ہے۔
(ھ)انقلابی جدّوجُہد کے لیے واحد راستہ منہج انقلابِ نبوی ﷺ ہے:ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کے مطابق دورِ حاضر میں بھی دین اسی طریقے پر غالب ہوگا جس طرح نبی اکرم ﷺ جزیرۃ العرب کی حد تک دین کو غالب کرگئے تھے۔ ان ؒ کے مطابق اس انقلابی جدّوجُہدکے درج ذیل مراحل ہیں:
(i) دعوت: نظریۂ توحید کو پھیلایا جائے ‘ عام کیا جائے۔ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا سمیت دورِ حاضر کے تمام ذرائع ابلاغ اس انقلابی نظریۂ تو حید کی نشرو اشاعت کے لیے استعمال کیے جائیں۔
(ii)تنظیم: جو لوگ اس نظریہ کو قبول کرلیں‘ انہیں ایک ہیئت اجتماعی کے تحت منظم کیا جائے۔ یہ تنظیم ’’ سمع و طاعت فی المعروف‘‘ کی بنیاد پر مضبوط ڈسپلن والی ہونی چاہیے۔
(iii)تربیت: اس تنظیم کے کارکنوں کی انقلابی تربیت ہونی چاہیے ‘ جس کا ہدف یہ ہو کہ کارکنوں میں اپنا تن‘من اور دھن سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ پیدا ہوجائے۔ ان کا ذوقِ عبادت روز افزوں ترقی کرتا چلا جائے۔ قرآن مجید کے ذریعہ ان کے نظریہ توحید اور انقلابی جذبہ کی آبیاری ہو۔ رکوع و سجود کا شوق پیدا ہوجائے اور قیام اللیل کے عادی بن جائیں۔
(iv)صبر ِمحض: وہ ہر قسم کی مخالفت ‘ کردار کشی‘ ایذا رسانی اور تشدد وتعذیب کو برداشت کرنے والے بن جائیں ۔ کسی قسم کی جوابی کارروائی کے بغیر اپنے مشن پر استقامت دکھائیں۔
(v) راست اقدام: اگر انقلابی جدّوجُہد کے قائدین اس نتیجے پر پہنچیں کہ اب ہماری تیاری مکمل ہے اور باطل کے ساتھ براہ راست ٹکر لی جاسکتی ہے تو راست اقدام کیا جائے گا۔
(vi)مسلح تصادم: انقلاب نبوی ﷺ میں تو یہ کام غزوۂ بدر سے فتح مکہ تک مسلح تصادم کی صورت میں ہوا تھا۔نبی اکرم ﷺ نے غزوۂ بدر سے پہلے آٹھ مہمات قریش کے خلاف بھیجی تھیں۔ گویا قریش کے لیے یہ چیلنج تھا کہ اب تمہارے تجارتی قافلے بحفاظت نہیں گزرسکتے‘ جس کے نتیجے میں غزوۂ بدر ہوا۔
دورِ حاضر میں چند وجوہات کی بنا پر مسلح تصادم ممکن نہیں رہا۔ ایک تو یہ کہ نبی اکرم ﷺ کے دور میں ایک جانب مسلمان تھے تو دوسری طرف کفار‘ جبکہ آج کے دور میں دونوں طرف مسلمان ہیں۔ دوسرے یہ کہ اُس دور میں طاقت کا فرق صرف تعداد کے اعتبار سے تھا۔ غزوۂ بدر میں ۳۱۳ مسلمان رضاکار تھے تو دوسری طرف ایک ہزار کافر رضاکار ۔ آج کے دور میں ایک طرف باقاعدہ تربیت یافتہ مسلح فوج ہے تو دوسری طرف نہتے عوام ۔ لہٰذا اب تصادم کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ایک پُر امن منظم عوامی تحریک اُٹھے جو توڑ پھوڑ نہ کرے۔ اَملاک کو نقصان نہ پہنچائے۔ہر شخص کی جان ‘ مال اور عزت محفوظ رہے گی۔ البتہ انقلابی کارکن خود جانیں دینے کے لیے تیار ہوں۔یہ لوگ سڑکوں پر آکر منکرات کے خلاف مظاہرے کریں‘ دھرنا دیں یا گھیراؤ کریں اور ببانگ ِدُہل کہیں کہ اب ہم اپنے جیتے جی یہ منکرات نہیں ہونے دیں گے۔
اس کا نتیجہ تخت یا تختہ ہوگا۔ اگر تو پہلے چاروں مراحل کی اچھی طرح تیاری کرلی گئی تھی اور صحیح وقت اور صحیح موقع پر راست اقدام کا فیصلہ کیا گیاہوگا تو ان شاء اللہ کامیابی ہوگی۔ بصورت دیگر دنیاوی سطح پر تو ناکامی ہوگی مگر آخرت میں اجر کے مستحق ہوں گے۔
آج دنیا انتہائی نازک دور سے گزر رہی ہے۔ پورے کرۂ ارضی پر فتنوں کا دور دورہ ہے۔ ہر طرف ظلم کی حکمرانی ہےاور خاص طور پر مسلمان اس کا شکار ہیں۔ ان حالات میں روشنی کی صرف ایک ہی کرن نظر آتی ہے کہ اللہ کا دین غالب آجائے اور ایک بار پھر خلافت کے نظام کی حکمرانی ہو جس کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہوا ہے۔ غلبہ دین حق کی جدّوجُہد کی اولمپک شمع ہمارے اسلاف‘ جماعتوں اور تحریکوں سے ہوتی ہوئی اب تنظیم اسلامی کے پاس ہے۔ تنظیم اسلامی کےساتھیوں کو چاہیےکہ اس جدّوجُہد میں اپنا تن من دھن لگانے کے جذبہ کی مزید آبیاری کریں۔ اب ان شاء اللہ ہماری منزل زیادہ دور نہیں رہ گئی۔
اللہ تعالیٰ سے قوی امید ہے کہ ہمارے بزرگوں کی کوششیں جلد بار آور ثابت ہوں گی اور اس کے نتیجے میں ان شاء اللہ تعالیٰ یہ خطہ غلبۂ دین کا نقطۂ آغازثابت ہوگا ۔ بالآخر تمام دنیا پر ایک بار پھر اسلام کا جھنڈا لہرائے گا اور پوری انسانیت سکھ کا سانس لے گی۔ع
تیز ترک گام زن‘ منزلِ ما دور نیست!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024