(حسن معاشرت) خود پسندی اور اس کا علاج - احمد علی محمودی

10 /

خودپسندی اور اس کا علاجاحمد علی محمودیمعنی و مفہوم
خود پسندی کو عربی میں ’’عُجْب‘‘ کہتے ہیں جس کےلغوی معنی غرور‘ تکبّر‘ گھمنڈ اور خودبینی کے ہیں۔اصطلاح میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ معاشرتی زندگی بسر کرتے ہوئے سب سے کٹ کر اپنے آپ میں محو رہنا اورخود کو سب سے اعلیٰ واہم سمجھنا ۔اپنے اندر موجود کسی اچھی صفت مثلاً علم و عمل‘ حسب نسب‘حسن اور مال و دولت کی کثرت و فراوانی وغیرہ کو ذاتی کمال سمجھنا۔اس کے مظاہر اپنے ہی حسن کا دیوانہ بنا پھرنا‘ لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھنا‘دوسروں کےحقوق غصب کرنا‘حق بات کو ٹھکرانا‘اِترانا‘تکبّر کرنا‘ نعمتوں کی ناقدری کرنا‘دیندار لوگوںکا تمسخر اُڑانا‘ قوتوں وصلاحیتوں کاغلط استعمال کرنا‘ صاحب ِاقتدارلوگوں کا قرب تلاش کرنا ہیں۔
خودپسندی اور تکبّرمیں فرق
خود پسندی بھی تکبّر ہی کی ایک شاخ ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ تکبّر میں تو دوسرے لوگوں کے مقابلے میں اپنے نفس کو بڑا سمجھا جاتاہے جبکہ خود پسندی میں دوسرے لوگوں سے قطع نظر اپنے نفس کو کامل سمجھ لیا جاتا ہے۔ نعمتوں کواللہ تعالیٰ کا فضل وکرم سمجھنے کے بجائے اپنا استحقاق سمجھنا اور ان کے زوال سے بے خوف ہوجاناخود پسندی اور عُجب کہلاتاہے۔
خود پسندی: قرآنی آیات کی روشنی میں
عزّت وذِلّت کامالک اللہ
{قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَاۗءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَاۗءُ ۡ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاۗءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاۗءُ ۭ بِیَدِکَ الْخَیْرُ ۭ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ (۲۶) }(آلِ عمران)
’’کہو :اے اللہ !تمام بادشاہت کے مالک !کل ملک تیرے اختیار میں ہے۔ تُو حکومت اور اختیار دیتاہے جس کو چاہتا ہے ‘اورتُو سلطنت چھین لیتا ہے جس سے چاہتا ہے‘ اورتُو عزت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور تُو ذلیل کردیتا ہے جس کو چاہتاہے۔ تیرے ہی ہاتھ میں سب خیر ہے ۔یقیناً تُو ہر چیز پر قادرہے ۔‘‘
اس کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہتمام تر خیر و خوبی اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دوسرے یہ کہ اے اللہ! تیرے ہاتھ میں خیر ہی خیر ہے۔ بسا اوقات انسان جسے اپنے لیے شر سمجھ بیٹھتا ہے وہ اس کے لیے خیر ہوتا ہے اور جسے وہ اپنے لیے خیر سمجھ بیٹھتا ہے وہ اس کے لیےشر ہوتا ہے۔
درد ناک عذاب
{لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَفْرَحُوْنَ بِمَآ اَتَوْا وَّیُحِبُّوْنَ اَنْ یُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْا فَلَا تَحْسَبَنَّھُمْ بِمَفَازَۃٍ مِّنَ الْعَذَابِ ۚ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۸۸) }(آلِ عمران)
’’آپؐ ان کے بارے میں خیال نہ کریں جو اپنے کیے پرخوش ہوتے ہیں اور(اس سے بھی بڑھ کر ) چاہتے ہیں کہ اُن کی تعریف کی جائے ایسے کاموں پر جو انہوں نے کیے ہی نہیں ‘تو آپ ان کے بارے میں یہ خیال نہ کریں کہ وہ عذاب سے بچ جائیں گے‘ اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے ۔‘‘
بعض لوگ اگر کبھی بھلائی کا کوئی کام کر لیتے ہیں‘ کسی کو کچھ دے دیتے ہیں تو اس پر بہت اتراتے ہیں‘ اکڑتے ہیں کہ ہم نے یہ کچھ کر لیا ہے۔ آج کل اس کی سب سے بڑی مثال سپاس نامے ہیں جو تقریبات میں مدعو شخصیت کو پیش کیے جاتے ہیں۔ ان میں ان حضرات کے ایسے کارہائے نمایاں بیان کیے جاتے ہیں جو شاید ان کی پشتوں میں سے بھی کسی نے نہ کیے ہوں۔ اس طرح ان کی خوشامد اور چاپلوسی کی جاتی ہے ‘ جس سے وہ خوش ہوتے ہیں۔
انتہائی ناپسندیدہ کام
{ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یُزَکُّوْنَ اَنْفُسَھُمْ ۭ بَلِ اللہُ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَاۗءُ وَلَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا(۴۹) } (النساء)
’’کیا تم نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کوجواپنےآپ کو بڑا پاکیزہ ٹھیراتے ہیں ؟ بلکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو پاک کرتاہے جس کو چاہتا ہے اوران پر ذرا بھی ظلم نہیں کیاجائے گا ۔‘‘
یہاں یہود کے فلسفے کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو بہت پاک باز اور دوسروں سے اعلیٰ وارفع سمجھتے ہیں ۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ہم اللہ کے منظورِ نظر لوگ ہیں۔ سورۃ المائدہ میں ان کا یہ قول نقل ہوا ہے: {نَحْنُ اَبْنٰٓـــؤُا اللہِ وَاَحِبَّـــآؤُہٗ ط} (آیت۱۸) ’’ ہم اللہ کے بیٹے ہیں اور اُس کے بڑے چہیتے ہیں۔‘‘ ان کے نزدیک دوسرے تمام لوگ GoyimsاورGentilesہیں‘ جو دیکھنے میں انسان نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں حیوان ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کو دھوکا دیں‘ ان کا استحصال کریں‘ ہم پر کوئی گرفت نہیں ہوگی۔
ظاہری وباطنی گناہوں سے بچاؤ
{وَذَرُوْا ظَاھِرَ الْاِثْمِ وَبَاطِنَہٗ ۭ اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْسِبُوْنَ الْاِثْمَ سَیُجْزَوْنَ بِمَا کَانُوْا یَقْتَرِفُوْنَ (۱۲۰) } (الانعام)
’’اورچھوڑدو(ہرطرح کے ) گناہ کو ‘وہ کھلا ہو یا چھپا ہو۔یقیناً جولوگ گناہ کماتے ہیں  اُنہیں جلد ہی بدلہ ملے گا اس کا جو وہ جمع کررہے ہیں ۔‘‘
نعمتیں عطاکرنے والی ذات
{وَمَا بِکُمْ مِّنْ نِّعْمَۃٍ فَمِنَ اللہِ ثُمَّ اِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُّ فَاِلَیْہِ تَجْئَرُوْنَ(۵۳)}(النحل)
’’اورجو نعمت بھی تمہیں میسّر ہے وہ اللہ ہی کی طرف سے ہے ‘پھر جب تمہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اُسی کےسامنے تم فریا دکرتے ہو ۔‘‘
تکلیف کی کیفیت میں تم اللہ کو ہی یاد کرتے ہو‘ اُسی کی جناب میں گڑگڑاتے ہو‘ آہ وزاری کرتے اور دعائیں مانگتے ہو۔ اس حالت میں تمہیں کوئی دوسرا معبود یاد نہیں آتا۔
متکبّرانہ چال
{وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا ۚ اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا(۳۷) } (بنی اسرائیل)
’’اور زمین میں اکڑ کر نہ چلو‘ نہ توتم زمین کو پھاڑ سکوگے اور نہ ہی پہاڑوںکی بلندی کو پہنچ سکوگے۔‘‘
تم جس قدر چاہو طاقت ور ہو جائو‘ اور ہماری زمین پر جتنا بھی اکڑ اکڑ کر اور پائوں مار مار کر چل لو‘ تم اپنی طاقت سے زمین کو پھاڑ نہیں سکتے‘ اور جس قدرچاہو گردن اکڑا لو اور طُرّہ و دستار سے سر بلند کر لو‘ تم قد میں ہمارے پہاڑوں کے برابر تو نہیں ہوسکتے۔
مومنوں کی خوبی
{وَیَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَیَخَافُوْنَ عَذَابَہٗ ۭ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحْذُوْرًا(۵۷)}(بنی اسرائیل)
’’اوروہ اُمیدوار ہیں اُس کی رحمت کے اورڈرتے رہتے ہیں اُس کے عذاب سے ۔ واقعتاً آپ ؐ کے رب کا عذاب چیز ہی ڈرنے کی ہے۔‘‘
مزید ارشاد فرمایا :
{اِنَّ الَّذِیْنَ ھُمْ مِّنْ خَشْیَۃِ رَبِّھِمْ مُّشْفِقُوْنَ (۵۷)} (المؤمنون)
’’یقیناً وہ لوگ جو اپنے رب کے خو ف سے لرزاں وترساں رہتے ہیں ۔‘‘
انسان کا ایک بہت بڑادھوکا
سورۃ القصص کا آخری سے پہلا رکوع قارون کے تذکرہ پر مشتمل ہے۔ ارشاد ہوا:
{اِنَّ قَارُوْنَ کَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰی فَبَغٰی عَلَیْھِمْ ۠ وَاٰتَیْنٰہُ مِنَ الْکُنُوْزِ مَآ اِنَّ مَفَاتِحَہٗ لَتَنُوْۗاُ بِالْعُصْبَۃِ اُولِی الْقُوَّۃِ ۤ اِذْ قَالَ لَہٗ قَوْمُہٗ لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ(۷۶) وَابْتَغِ فِیْمَآ اٰتٰىکَ اللہُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا وَاَحْسِنْ کَمَآ اَحْسَنَ اللہُ اِلَیْکَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِ ۭ اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ(۷۷) قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ ۭ اَوَلَمْ یَعْلَمْ اَنَّ اللہَ قَدْ اَھْلَکَ مِنْ قَبْلِہٖ مِنَ الْقُرُوْنِ مَنْ ھُوَ اَشَدُّ مِنْہُ قُوَّۃً وَّاَکْثَرُ جَمْعًا ۭ وَلَا یُسْئَلُ عَنْ ذُنُوْبِھِمُ الْمُجْرِمُوْنَ(۷۸) }
’’یقینا ًقارون موسیٰ ؑ کی قوم ہی سے تھا‘ لیکن اُس نے اِن کے خلاف سر کشی کی‘ اور اُس کو ہم نے اتنے خزانے دے رکھے تھے کہ اُن کی چابیاں ایک طاقتور جماعت مشکل سے اُٹھا سکتی تھی۔ جب اُس سے کہا اُس کی قوم کے لوگوں نے کہ اِترائو مت‘ یقیناً اللہ اِترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔اور جو کچھ اللہ نے تمہیں دیا ہے اُس سے دارِ آخرت حاصل کرنے کی کوشش کرو‘اور مت بھولو تم دنیا سے اپنا حصہ‘اور لوگوں کے ساتھ احسان کروجیسے اللہ نے تمہارے ساتھ احسان کیا ہے‘ اور زمین میں فساد مت مچائو‘ یقیناً اللہ فساد مچانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اُس نے کہا کہ مجھے تویہ سب کچھ ملا ہے اُس علم کی بنیاد پر جو میرے پا س ہے۔کیا اُسے معلوم نہیں کہ اللہ اس سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کرچکا ہے جو طاقت اور مال و اسباب کی فراوانی میں اس سے کہیں بڑھ کر تھیں‘اور (اللہ کے ہاں) مجرم لوگوں سے ان کی خطائوں کے بارے میں پوچھا بھی نہیں جاتا۔‘‘
اس کی تشریح میں داعی ٔ قرآن ڈاکٹر اسرار احمدؒ فرماتے ہیں:
’’یہاں قارون نامی شخص کے حوالے سے جس کردار اور رویّےکا ذکر کیا گیاہے وہ محض ایک فرد کا نام نہیں بلکہ یہ کردار ایک پورے طبقے کی نمائندگی کرتا ہے۔ ایک ایسا طبقہ جوکسی محکوم قوم کے اندر حکمرانوں کے ہاتھوں جنم لیتا ہے اور ان کے سائے میں نشوونما پاتا ہے۔ دراصل کسی بھی ملک میں فاتح اور غاصب حکمرانوں کا طرزِ حکمرانی ظلم و ناانصافی سے عبارت ہوتا ہے۔ ایسے نظام میں عزّت و شرافت کے نئے معیار جنم لیتے ہیں۔‘‘
اس مضمون میں قارون کا تذکرہ اُس کی خود پسندی اور اپنے مال ودولت پر اِترانے کے حوالے سے کیا جا رہا ہے۔ جب اُس کی قوم میں سے کچھ بھلے لوگوں نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی تو وہ مزید اِتراتے ہوئے کہنے لگا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ دولت مجھے اللہ نے دی ہے! یہ تو مَیں نے اپنی ذہانت‘ سمجھ بوجھ ‘محنت اور اعلیٰ منصوبہ بندی کی وجہ سے کمائی ہے۔ یہ خالص مادّہ پرستانہ سوچ ہے اور ہر زر پرست شخص جو عملی طور پر اللہ کے فضل کا منکر ہے‘ ہمیشہ اسی سوچ کا حامل ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میری سب کامیابیاں میرے علم اور تجربے ہی کی مرہونِ منّت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اِس شخص کا انجام بایں الفاظ بیان فرمایا:
{فَخَسَفْنَا بِہٖ وَبِدَارِہِ الْاَرْضَ قف فَمَا کَانَ لَہٗ مِنْ فِئَۃٍ یَّنْصُرُوْنَہٗ مِنْ دُوْنِ اللہِ ز وَمَا کَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِیْنَ(۸۱)}
’’تو ہم نے اُسے اور اُ س کے محل کو زمین میں دھنسا دیا۔ تو اُس کے لیے نہ تو کوئی ایسا لشکر تھا جو اُس کی مدد کرتا اللہ کے مقابلے میں‘اور نہ وہ خود اِس قابل تھا کہ بدلہ لینے والوں میں ہوتا۔‘‘
وہ اپنے لائو لشکر اور تمام تر جاہ و جلال کے باوجود اس قابل نہ تھا کہ (معاذاللہ!) اللہ تعالیٰ سے اپنی بربادی کا انتقام لے سکتا۔
حضر ت لقمان کی اپنے بیٹے کو نصیحت
{وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا ۭ اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ (۱۸) وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ وَ اغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَ ۭ اِنَّ اَنْکَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ(۱۹) } (لقمان)
’’اور اپنے گالوں کو پھلا کر مت رکھو لوگوں کے سامنے‘اور زمین میں اکڑ کر مت چلو۔یقیناً اللہ ہر شیخی خورے‘ تکبّر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرواور اپنی آواز کو پست رکھو۔یقینا ًسب سے نا پسندیدہ آواز گدھے کی آواز ہے۔‘‘
کسی بحث و تمحیص کے دوران اونچی آواز میں چیخنے کے بجائے ٹھوس دلیل کے ساتھ پُر وقار انداز میں گفتگو کی جانی چاہیے۔ عام طور پر بحث کرتے ہوئے آدمی اونچی آواز میں چیخ چیخ کر اس وقت بولتا ہے جب اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہو۔ گویا وہ آواز کے زور سے اپنی دلیل کی کمی پوری کرنا چاہتا ہے۔ خوا مخواہ بلند آواز سے بولنے میں انسان کی کوئی بڑائی نہیں ہے۔ اس میں اگر کوئی بڑائی ہوتی تو اس کا سب سے زیادہ مستحق گدھا قرار پاتا جس کی آواز غیر معمولی طور پر بلند اور زور دار ہوتی ہے۔
فضیلت کا معیار
{یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّاخَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗئِلَ لِتَعَارَفُوْا ۭ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىکُمْ ۭ اِنَّ اللہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ (۱۳)} (الحجرات)
’’اے لوگو! ہم نے تمہیں پیداکیا ہے ایک مرد اورایک عورت سے اورہم نے تمہیں  مختلف قوموں اورقبیلوں میں تقسیم کردیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔یقیناً تم میں سب سے زیادہ باعزت اللہ کے ہاں وہ ہے جو تم میں سب سے بڑھ کر متقی ہے ۔ یقیناً  اللہ سب کچھ جاننے والا ‘ہرچیز سے باخبر ہے ۔‘‘
یہاں دراصل اس اہم نکتے کی طرف توجّہ دلانا مقصود ہے کہ انسانوں کے درمیان رنگ و نسل کا فرق اور اقوام و قبائل میں ان کی تقسیم‘ اعلیٰ و ادنیٰ کی تمیز و تفریق کے لیے نہیں بلکہ ان کی باہمی جان پہچان اور تعارف کے لیے ہے۔
اللہ خوب جانتاہے
{فَلَا تُزَکُّوْٓا اَنْفُسَکُمْ ۭ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی (۳۲)} (النجم)
’’پس تم خودکو بہت زیادہ پاک باز نہ ٹھہراؤ۔وہ اُسے خوب جانتاہے جو تقویٰ اختیار کرتا ہے۔‘‘
اپنے نفس کی پاکی کے دعوے نہ کرو۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ واقعتاً متقی کون ہے! دراصل اپنی پرہیزگاری کا ڈھنڈورا پیٹنے کی ضرورت اس شخص کو ہی محسوس ہوتی ہے جس کا دل’’تھوتھا چنا باجے گھنا‘‘ کے مصداق تقویٰ سے خالی ہے۔ جہاں تقویٰ کی روح کو نظر انداز کیا جا رہا ہو گا وہاں سارا زور تقویٰ کے مظاہر پر ہو گا۔اندر سے حرام خوری جاری ہو گی اور اس کو چھپانے کے لیے اوپر سے چھوٹی چھوٹی دینی علامات کو اپنا کر تقویٰ کا لبادہ اوڑھ رکھا ہو گا۔
مال اوراَولاد
{اِنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ ۭ} (التغابن:۱۵)
’’تمہارے مال اورتمہاری اولاد تمہارے لیے امتحان ہیں ۔‘‘
ناپسندیدہ چیزوں میں مال و اولاد کی محبتوں کی قربانی سر فہرست ہے ۔ آج اگر کسی شخص کے بارے میں آپ یہ معلوم کرنا چاہیں کہ اس کے دل میں کتنا ایمان ہے تو یہ دیکھ لیجیے کہ وہ اپنی اولاد کو کیا بنانا چاہتا ہے۔ بظاہر ایک شخص چاہے عالم دین‘ صوفی‘ مسندنشین اور پیر طریقت ہو لیکن اپنی اولاد کو ایمان وآخرت کے راستے پر ڈالنے کے بجائے پیسے بنانے والی مشین بنانے کی کوشش میں ہے تو جان لیجیے کہ اس کے باطن میں دین اور دینی اقدار کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
خود پسندی:احادیث ِ مبارکہ کی روشنی میں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ‘ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((ثَلَاثَةٌ لَا یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَلَا یُزَکِّیْھِمْ وَلَا یَنْظُرُ إِلَیْھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ: شَیْخٌ زَانٍ وَمَلَكٌ کَذَّابٌ وَعَائِلٌ مُسْتَکْبِرٌ))(صحیح مسلم:۱۵۶)
’’تین آدمیوں سے اللہ تعالیٰ قیامت والے دن کلام نہیں کریں گے‘نہ ہی ان کو پاک کریں گے اور نہ ان کی طرف دیکھیں گے اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا: بوڑھا زانی‘ جھوٹا بادشاہ‘اورغریب متکبر۔‘‘
عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((مَا مِنْ رَجُلٍ يَتَعاظَمُ في نَفْسِه وَ يَخْتَالُ في مِشْيَتِه إلا لقيَ اللّٰهَ وَهُوَ عَلَيهِ غضبانُ)) (أخرجہ الحاکم:۲۰۱)
’’جوشخص اپنے آپ کو بڑا سمجھتا اوراکڑ کر چلتاہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہوگا۔‘‘
ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے ایک شخص کو دوسرے کی تعریف کرتے ہوئے سنا جو مدح سرائی میں مبالغہ کررہا تھا ‘آپؐ نے فرمایا:
((لَقَدْ أَهْلَكْتُمْ أَوْ قَطَعْتُمْ ظَهْرَ الرَّجُلِ)) (صحیح مسلم:۳۰۰۱)
’’تم نے اس کو ہلاک کردیا ‘ ‘ یا فرمایا: ’’تم نے اس شخص کی کمر توڑ دی۔‘‘
رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:
((إِنْ كَانَ أَحَدُكُمْ مَادِحًا أَخَاهُ لَا مَحَالَةَ، فَلْيَقُلْ: أَحْسِبُ فُلَانًا، إِنْ كَانَ يُرَى أَنَّهُ كَذٰلِكَ ، وَلَا أُزَكِّي عَلَى اللّٰهِ أَحَدًا))(صحیح مسلم:۳۰۰۱)
’’جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کی لامحالہ تعریف کرنا ہی چاہے تو یوں کہے: مَیںخیال کرتا ہوں کہ وہ ایسا ہے‘ اور مَیں اللہ کے لیے کسی کی تعریف نہیں کرتا۔(یعنی معلوم نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کیسا ہے کیوں کہ یہ علم تواللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اورکوحاصل نہیں) ۔‘‘
حارثہ بن وھب الخزاعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
((أَلاَ أُخْبِرُكُمْ بِأَهْلِ الجَنَّةِ؟ كُلُّ ضَعِيفٍ مُتَضَعِّفٍ، لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللّٰہِ لَأَبَرَّهُ، أَلاَ أُخْبِرُكُمْ بِأَهْلِ النَّارِ: كُلُّ عُتُلٍّ، جَوَّاظٍ مُسْتَكْبِرٍ))(صحیح البخاری: ۴۹۱۸)
’’کیا مَیںتمہیں جنّت والوں کی خبر نہ دوں؟ہرکمزور وتواضع کرنے والا‘ اگر وہ اللہ کا نام لے کر قسم کھالے تو اللہ اس کی قسم کوپورا کردے۔ کیا مَیں تمہیں دوزخ والوں کی خبر نہ دوں؟ ہر تندخو‘ اَکڑ کر چلنے والامتکبر۔‘‘
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
((يُحْشَرُ الْمُتَكَبِّرُونَ يَوْمَ القِيَامَةِ أَمْثَالَ الذَّرِّ فِي صُوَرِ الرِّجَالِ يَغْشَاهُمُ الذُّلُّ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ، فَيُسَاقُونَ إِلَى سِجْن فِي جَهَنَّمَ يُسَمَّى بُولَسَ تَعْلُوهُمْ نَارُ الأَنْيَارِ يُسْقَوْنَ مِنْ عُصَارَةِ أَهْلِ النَّارِ طِينَةَ الخَبَالِ))(سنن الترمذی: ۲۴۹۲)
’’قیامت کے دن متکبرین کو انسانی شکلوں میں چیونٹیوں کی مانند اٹھایا جائے گا‘ ان پر ہر طرف سے ذلّت چھائی ہوئی ہوگی‘ اُنہیں جہنم میں موجود قید خانے کی طرف ہانکا جائے گا جس کا نام بولس ہے۔ بہت بڑی آگ اُن پر غالب ہوگی‘ اُن کو دوزخیوں کی پیپ پلائی جائے گی جس کانام طینۃ الخبال ہے۔‘‘
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
((بَيْنَمَا رَجُلٌ يَمْشِي فِي حُلَّةٍ، تُعْجِبُهُ نَفْسُهُ، مُرَجِّلٌ جُمَّتَهُ، إِذْ خَسَفَ اللّٰہُ بِهِ، فَهُوَ يَتَجَلْجَلُ إِلٰى يَوْمِ القِيَامَةِ))(صحیح البخاری: ۵۷۸۹)
’’ایک شخص خوبصورت حُلّہ زیب تن کیے اپنے آپ پر اتراتے ہوئے اپنے بالوں میں کنگھی کیے چلاجارہا تھا‘ اچانک اللہ تعالیٰ نے اسے زمین میں دھنسا دیا‘ پس وہ قیامت کے دن تک زمین میں دھنستا چلاجائے گا۔‘‘
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں‘ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((ثَلَاثٌ مُنْجِيَاتٌ وَثَلَاثٌ مُهْلِكَاتٌ، فَاَمَّا الْمُنْجِيَاتُ: فَتَقْوَى اللّٰهِ فِي السِّرِّ وَالْعَلَانِيَةِ، وَالْقَوْلُ بِالْحَقِّ في الرِّضٰى وَالسَّخَطِ، وَالْقَصْدُ فِي الْغِنٰى وَالْفَقْرِ. وَاَمَّا الْمُهْلِكَاتُ: فَهَوًى مُتَّبَعٌ، وَشُحٌّ مُطَاعٌ، وَإعْجَابُ الْمَرْءِ بِنَفْسِهٖ، وَهِيَ اَشَدُّهُنَّ)) (روى البيهقي في شعب الإيمان)
’’تین چیزیں باعث ِنجات ہیں اور تین چیزیں باعث ِہلاکت ہیں۔ باعث ِنجات چیزیں یہ ہیں: ظاہر و باطن میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنا‘ رضا و ناراضی میں حق بات کرنا‘ اور تونگری و محتاجی میں میانہ روی اختیار کرنا۔اور باعث ہلاکت چیزیں یہ ہیں: ایسی خواہش جس کی اتباع کی جائے‘ ایسا بخل جس کی اطاعت کی جائے‘ اور انسان کی خود پسندی‘ اور یہ اِن سب سے زیادہ مہلک ہے۔ ‘‘
حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہےکہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((اِنَّ الْعُجْبَ لَیُحْبِطُ عَمَلَ سَبْعِیْنَ سَنَۃً)) (جامع الصغیر:۲۰۷۴)
’’خود پسند ی ستر سال کے عمل کو برباد کر دیتی ہے۔‘‘
کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نےارشاد فرمایا :
((مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلَا فِي غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَهَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْءِ عَلَى الْمَالِ وَالشَّرْفِ لِدِينِهِ)) (رواه الترمذي والدارمي)
’’ دو بھوکے بھیڑیے ‘ جنہیں بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑا جائےوہ اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا مال اور مرتبے کی حرص کرنے والا اپنے دین کے لیے نقصان دِہ ہے ۔‘‘
خود پسندی: سَلَفِ صالحین کی نظر میں 
(۱) حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود پسندی سے بہت زیادہ ڈرتے تھے ۔ جب لوگ آپ کی تعریف کرتے تو آپ دعا مانگتے :’’یااللہ! مجھے اس سے بہتر بنا دے جو کچھ یہ کہتے ہیں‘ اور جو کچھ یہ نہیں جانتے میرا وہ عمل بخش دے ۔‘‘
اسی طرح جب لوگ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعریف کرتے تو وہ دعا مانگتے :’’یااللہ! مَیں اس چیز کے شر سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں جو کچھ یہ کہتے ہیں‘ اور تجھ سے اُس عمل کی بخشش چاہتا ہوں جس کا اِنہیں علم نہیں۔‘‘ (تنبیہ المغترین‘ ص۲۴۱-۲۴۲)
(۲) حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ’’توفیق بہترین قائد ہے‘ حسنِ اخلاق بہترین دوست ہے‘ عقل بہترین ساتھی ہے‘ادب بہترین میراث ہے اور خود پسندی سے زیادہ شدید کوئی وحشت نہیں۔‘‘ (شعب الایمان: ۴۶۶۱)
(۳) حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :’’رحمت ِالٰہی سے مایوسی ‘یا خود پسندی میں مبتلا ہونا اِن دونوں میں ہلاکت ہے۔‘‘ (الزواجر عن اقتراف الكبائر : ۱۲۱/۱)
(۴) حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ جب منبر پر خطبہ دیتے تو خود پسندی سے ڈرتے ہوئے گفتگو چھوڑ کر اُس عمل کی طرف منتقل ہو جاتے جس میں خود پسندی نہ ہو ۔ بعض اوقات ایسا ہوتا کہ خط لکھتے وقت خود پسندی کے خوف سے پھاڑ دیتے اور کہتے:’’یااللہ! مَیں اپنے نفس کے شر سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں۔‘‘(تنبیہ المغترین‘ ص۲۳۹-۲۴۰)
(۵) بشر حافی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’مَیں نے ایسا شخص نہیں دیکھا جو شہرت کا طالب ہو اور اُس کا دین برباد نہ ہوا ہو اور ا س کے حصے میں رسوائی نہ آئی ہو۔‘‘ (کیمیائے سعادت)
(۶) محمد بن واسع رحمہ اللہ اپنے زمانے کے عبادت گزاروں سے فرماتے تھے:’’ تم پر افسوس ہے‘ تمہارے اعمال کم ہونے کے باوجود اِن میں خود پسندی داخل ہو گئی اور تم سے پہلے لوگ اپنے اعمال کی کثرت کے باوجود اِن پر تکبّر نہیں کرتے تھے۔ اللہ کی قسم ! پہلے لوگوں کی عبادت کو دیکھا جائے تو(اس کے مقابلے میں )تم محض کھیلنے والے ہو ۔‘‘ (تنبیہ المغترین: ص۲۴۲)
(۷) یحییٰ بن معاذ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’تم خود پسندی سے بچو کیونکہ یہ خود پسندی کرنے والے کو ہلاک کر دیتی ہے‘ اور بے شک خود پسندی نیکیوں کو اس طرح کھا جاتی ہے جیسے آگ لکڑیوں کو۔‘‘ (شعب الایمان: ۷۲۴۸)
(۸) زید بن اسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اپنے آپ کو نیکوکار قرار نہ دو‘ یعنی یہ نہ کہو کہ مَیں نیک ہوں کیونکہ یہ تو عُجب یعنی خود پسندی ہے۔‘‘
(۹) امام ماوردی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’خودپسندی سے اخلاقِ حسنہ غائب ہوجاتےہیں اور خودپسندی کا مطلب ہے نفس اورذات کو شریک بنانا اور تکبّر کا معاملہ ایسا ہی ہے۔ اس لیے ریا اور خودنمائی سے کام لینے والا اِیّاکَ نَعْبُدُ کے مقام کو نہیں پہنچ سکتا اور خود پسندی سے کام لینے والا اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کی منزل کو نہیں پاسکتا۔ جس نے اِیّاکَ نَعْبُدُ کو اپنی زندگی میں اپنالیا اس نے گویا اپنے آپ کو ریا اور خودنمائی سے پاک کرلیا اور جس نے  اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کی منزل طے کرلی گویا خودپسندی کی دلدل سے نکل گیا۔‘‘
(۱۰) الشیخ ابن قدامہ المقدسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ جان لو کہ خودپسندی کبروتکبّرکو دعوت دیتی ہے‘ اس لیے کہ خودپسندی سے کبر پیدا ہوتا ہے اور کبر کے نتیجے میں بے شمار آفتیں پیدا ہوتی ہیں۔‘‘
(۱۱) علّامہ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اپنی نیکیوں کی تعریف نہ کروکیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حالات کا خود جاننے والا ہے۔ وہ ان کی ابتداءِ ہستی سے ایامِ آخر تک کےتمام جملہ احوال ومعاملات جانتا ہے ۔ ‘‘
خود پسندی اورریاکاری سے بچتےہوئے اگر نعمت ِالٰہی کے اعتراف ‘ ادائے شکر اور دوسروں  کو نیکی پراُبھارنے کی نیت سے اپنے کسی اچھے کام کا ذکر کیا جائے تویہ پسندیدہ عمل ہے ۔
خودپسندی کی علامات
(۱) اپنی اہمیت کا انتہائی احساس
(۲) کامیابی اور طاقت کے بارے میں وہم ہونا
(۳) اپنے آپ کو انوکھا اور منفرد خیال کرنا
(۴) سراہے جانے کی حد سے زیادہ طلب
(۵) ہر چیز پر اپنا حق سمجھنا
(۶) باہمی رشتوں میں صرف اپنے بارے میں سوچنا
(۷) ہمدردی کے احساس کی کمی
(۸) ہر ایک پر شک کرنا
(۹) غرور اور گھمنڈمیں مبتلاہونا
(۱۰) حق کو ٹھکرانا اور لوگوں کو ذلیل و حقیر سمجھنا
(۱۱) دانشمندوں اوراہل علم سے مشورہ نہ لینا
(۱۲) اپنی عبادت و ریاضت کو بہت زیادہ اہم خیال کرنا
(۱۳) اپنے علم پر فخرکرنا
(۱۴) طعن وتشنیع کرنا
(۱۵) حسب نسب اورخوبصورتی پر اترانا
(۱۶) متقی و پرہیزگارعلماء کی شان میں بے ادبی کرنا
(۱۷) گناہوں کو بھلادینا اور اسی حالت پر قائم رہنا
(۱۸) غلطی کو باربار دہرانا
(۱۹) کمال کے درجے پر پہنچنے کے گمان سے اطاعت وفرماںبرداری میں کمی کرنا۔
خودپسندی کے اسباب
(۱) جہالت(۲) تقویٰ و خیرخواہی کی کمی(۳) بدنیتی(۴) کسی کی حد سے زیادہ تعریف کرنا‘ تاکہ پلٹ کروہ بھی اس کی تعریف کرے(۵) دنیا کے فتنے میں پڑکر خواہشات کااتباع (۶)غور و فکر کا فقدان
خودپسندی کے نقصانات
(۱) نیک اعمال کا برباد ہوجانا
(۲) اخلاقِ حسنہ کا غائب ہوجانا‘ خرابیوں اور برے اخلاق کا عام ہوجانا
(۳) اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور غضب کا باعث بننا
(۴) تکبّر ‘ حسد ‘ کینہ اوربغض کا پیدا ہونا
(۵) خودپسندی کفر کابھی سبب بن جاتی ہے جیسا کہ ملعون ابلیس کے ساتھ ہوا‘ جب اُس نے اپنی اصلیت اور عبادت پر فخر کیاتوخودپسندی نے اِسے کبرمیں مبتلا کردیا ‘جس کی وجہ سے اُس نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کرکے اللہ تعالیٰ کے حکم سے روگردانی کی ۔
خودپسندی کا علاج
(۱) اپنے قلب کی خوب صورتی وجمال پر توجہ دیں۔
(۲) اپنی تخلیق پر غورکریں۔
(۳) اپنی موت اور قبر کی تنہائی کو یاد کریں۔
(۴) اپنی کمزوریوںاورخطاؤں پر نظررکھیں۔
(۵) ظالم‘ متکبر اور خودپسند انسانوں کے انجام پرغور کریں۔
(۶) اپنے مزاج میں تواضع و انکساری پیدا کریں۔
(۷) نبی اکرم ﷺ سے ثابت شدہ درج ذیل دعا کا اہتمام کریں:
((اَللّٰهُمَّ آتِ نَفْسِیْ تَقْوَاھَا، وَزَکِّھَا اَنْتَ خَيْرُمَنْ زَکَّاھَا، اَنْتَ وَلِيُّهَا وَ مَوْلَاھَا))(صحیح مسلم:۲۷۲۲)
’’اے اللہ! میرے نفس کو تقویٰ عطا فرما۔ اور اس کو پاک کر دے‘ تُو ہی اس کا بہترین پاک کرنے والا ہے۔ تُو ہی اس کا آقا اور مولا ہے۔‘‘
اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان تمام باتوں پر راقم الحروف اورتمام قارئین کو پورے خلوص واخلاص کے ساتھ عمل کرنے اوراس پیغام کو دوسرے لوگوں تک پہنچانے کی بھی توفیق عطافرمائے۔ آمین یا ربّ العالمین!