بیماری کامثبت پہلوپروفیسر محمد یونس جنجوعہ
انسان کمزور پیدا کیاگیا ہے‘ چنانچہ اس کے کردار میں خامیاں بھی ہیں ۔ ہمارے پاس قرآن مجید کی صورت میں زندگی گزارنے کا ضابطہ موجود ہے اور رسول اللہﷺ کا اُسوۂ حسنہ بھی ہمارے سامنے ہے ۔ مسلمانوں کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی زندگی قرآن مجید کی تعلیمات اور رسول اللہﷺ کے طریقے کے مطابق گزاریں۔ اس حوالے سے فطری کمزوری آڑے آتی ہے اور بندہ معصیت کے کام کر گزرتا ہے ۔ اس فطری کمزوری کا لحاظ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے کچھ گناہ دنیا میں ہی بخش دیتا ہے ۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا:
{ اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَــآئِـرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُـکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَنُدْخِلْکُمْ مُّدْخَلًا کَرِیْمًا(۳۱)}(النساء)
’’اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے بچو گے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے تو ہم تمہاری خطائوں کو معاف کر دیں گے اور تمہیں با عزت مقام میں داخل کریں گے۔‘‘
اگر انسان سے کوئی بڑا گناہ سرزد ہو جائے اور وہ دل سے ندامت محسوس کر کےتوبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے وہ گناہ بھی بخش دیتا ہے۔اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مہربان ہے ۔وہ مائل بہ کرم ہے ‘ گناہوں کو بخشنا چاہتا ہے ۔ بندوں پر خصوصی مہربانی فرماتا ہے اور صرف ان لوگوں کو سزا دیتا ہے جو گناہوں پر دلیرہو جاتے ہیں۔ایسے افرادخود کو سزا کا مستحق بنا کراللہ تعالیٰ کی مہربانی اور بخشش سے محروم رہ جاتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کی بخشش اور مہربانی کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ مسلم بندوں کے گناہوں کو مختلف عذروں کی بنا پر معاف کرتا رہتا ہے۔ بیماری بھی ایک ایسا ہی عذر ہے جس میں بندے کو پہنچنے والی تکلیف کو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کی بخشش کا سبب بنا دیتا ہے۔ جب قرآن مجید میں یہ الفاظ آئے :{مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓئً ا یُّجْزَ بِہٖ}(النساء:۱۲۳) ’’جو کوئی برائی کرے گا اس کو اس کی سزا ملے گی‘‘ تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ڈر گئے ۔ اس کیفیت میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے پوچھا: اللہ کے رسولؐ !اگر یہ بات ہے تو کون سزا سے بچ پائے گا؟ آپؐ نے فرمایا: ((غَفَرَ اللّٰہُ لَکَ یَا اَبَابَکْرٍ! اَلَسْتَ تَمْرَضُ؟ اَلَسْتَ تَنْصَبُ؟ اَلَسْتَ تَحْزَنُ؟ اَلَسْتَ تُصِیْبُکَ اللَّأواءُ؟)) ’’اللہ آپ کو معاف کرے اے ابوبکر!کیا آپ کبھی بیمار نہیں ہوتے؟ کیا آپ کو تھکاوٹ نہیں ہو تی؟ کیا آپ کو غم نہیں آئے؟ کیا آپ کو تکالیف نہیں آئیں ‘‘؟تو ابوبکرؓ نے عرض کیا: کیوں نہیں!اس پر آپﷺ نے فرمایا:((فَھُوَ مَا تُجْزَوْنَ بِہٖ))’’پس یہ بدلہ ہے آپ کی برائیوں کا‘‘۔ (مسند احمد) معلوم ہوا کہ اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ کے ہاں نہ صرف بیماریوں پر اجر ملتا ہے بلکہ دنیوی زندگی کی پریشانیوں‘مشقتوں‘ دکھوں‘ غموں اور دوسری تکالیف پر گناہ معاف بھی ہوتے ہیں۔ حضرت ابوسعید اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((مَا یُصِیْبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ وَلَا وَصَبٍ وَلَا ھمٍّ وَلَا حُزْنٍ وَلَا اَذًی وَلَا غَمٍّ ،حَتَّی الشَّوکَۃِ یُشَاکُھَا، اِلَّا کَفَّر اللّٰہ بِھَا منْ خَطَایَاہُ))(متفق علیہ)
’’مسلمان کو جو پریشانی‘ غم ‘رنج ‘تکلیف اور دکھ پہنچتا ہے‘ حتیٰ کہ اگر اسے کوئی کانٹا بھی چبھتا ہے‘ تو اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف کی وجہ سے اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے دریافت کرنے پر آپﷺ نے فرمایا :’’ بندے کو بخار اور مصیبت وغیرہ آتی ہے تو اللہ کی طرف سے مواخذہ ہے‘ حتیٰ کہ اگر وہ اپنی قمیص کی جیب میں کچھ رقم رکھ کراسے گم کر بیٹھتا ہے اور اس پر وہ پریشان ہوتا ہے (تو یہ بھی اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے)‘ حتیٰ کہ بندہ اپنے گناہوں سے اس طرح صاف ہو جاتا ہے جس طرح سرخ سونا بھٹی سے صاف ہو کر نکلتا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ‘ بحوالہ ترمذی‘ کتاب التفسیر)
بخار ایک عام سی بیماری ہے۔ اس میں پہنچنے والی تکلیف کی وجہ سے کبھی انسان بخار کو برا بھلا بھی کہہ دیتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے اس سے منع فرمایا۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اُمّ سائب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تشریف لے گئے تو فرمایا:’’تم کیوں کانپ رہی ہو؟ انہوں نے بتایا :’’بخار ہے۔ اللہ اسے برکت نہ دے‘‘۔اس پر آپﷺ نے فرمایا:
((لَا تُسَبِّی الْحمّٰی فَاِنَّھَا تُذْھِبُ خَطَایا ابْنِ آدَمَ کَمَا یُذْھِبُ الکِیرُ خَبَثَ الْحَدِیْدِ)) (رواہ مسلم)
’’بخار کو برا بھلا نہ کہو‘ کیونکہ وہ بنی آدم کے گناہوں کو اس طرح ختم کر دیتا ہے جس طرح بھٹی لوہے کی میل کچیل دور کر دیتی ہے۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کسی مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے‘ جسے بخار تھا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بھی ساتھ تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے(مریض سے) فرمایا: ((اَبْشِرْ فَاِنَّ اللّٰہَ یَقُولُ : ھِیَ نَارِی ، اُسَلِّطُھَا عَلٰی عَبْدِی الْمُؤْمِنِ فِی الدُّنْیَا لِتَکُونَ حَظَّہُ مِنَ النَّارِ فِی الٓاخِرَۃِ)) ’’خوش ہو جائو‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :بخار میری آگ ہے‘ میں اسے اپنے مؤمن بندے پر مسلط کرتا ہوں تاکہ وہ اس کے لیے روز قیامت کی آگ کا بدلہ ہو جائے۔‘‘ (رواہ احمد)
رسول اللہﷺ نے اس بات کو ناپسند فرمایا ہے کہ کوئی شخص فخریہ کہے کہ مَیں تو کبھی بیمار نہیں ہوا۔ ایسا کہنے والا بیماری کے سبب معاف کیے جانے والے گناہوں کی بخشش سے محروم رہتا ہے۔ یحییٰ بن سعیدؒ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص کو رسول اللہﷺ کے دور میں موت آئی تو کسی نے کہا: اس کی خوش نصیبی ہے کہ وہ کسی مرض میں مبتلا ہوئے بغیر فوت ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تجھ پر افسوس ہے‘ تمہیں کیا معلوم کہ اگر اللہ اسے کسی مرض میں مبتلا کر تا تو وہ اس کے گناہ مٹا دیتا۔ (موطا)امام مالکؒ نے اسے مرسل روایت کہا ہے۔
رسول اللہﷺ بیماری میں صبر کی تلقین کرتے تاکہ وہ مریض کے گناہوں کا کفار ہ بن جائے۔ حضرت شداد بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ کسی مریض کی عیادت کے لیے گئے تو پوچھا: تمہارا کیا حال ہے؟ اس نے کہا: مجھ پر نعمت اور فضل ہے۔ اس پر شدادؓ نے فرمایا: گناہوں اور خطائوں کے معاف ہوجانے پر خوش ہوجائو‘ کیونکہ مَیں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’بے شک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جب مَیں اپنے کسی مؤمن بندے کو آزماتا ہوں اور وہ میرے اس آزمانے پر میری حمد بجا لاتا ہے اور شکر کرتا ہے تو وہ اپنے اس بستر سے اس روز کی طرح گناہوں سے پاک صاف اُٹھتا ہے جس روز اس کی والدہ نے اسے جنم دیا تھا۔‘‘ اور ربّ تعالیٰ(فرشتوں سے) فرماتا ہے :’’مَیں نے اپنے بندے کو روکے رکھا اور اسے آزمائش میں ڈالا‘ تم اسے ویسے ہی اجر عطا کر دو جس طرح تم اسے اس کے صحت مند ہونے کی صورت میں اجر دیا کرتے تھے۔‘‘ (مشکوٰۃبحوالہ مسند احمد)
حضرت عطاء بن ابی رباح ؒ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا:کیا مَیں تمہیں ایک جنتی خاتون نہ دکھائوں؟ مَیں نے کہا: کیوں نہیں! ضرور دکھائیں۔انہوں نے فرمایا:یہ سیاہ فام خاتون رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو اس نے عرض کیا: اللہ کے رسولؐ ! مجھے مرگی کا دورہ پڑتا ہے تو میرا ستر کھل جاتا ہے ۔ آپﷺ اللہ سے دعا فرمائیں ۔ آپؐ نے فرمایا:’’ اگر تو چاہے تو صبر کراور تیرے لیے جنت ہے‘ اور اگر تو چاہے تو میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمہیں صحت عطا فرمائے‘‘۔ اس خاتون نے عرض کیا: میں صبر کروں گی۔ پھر اس نے عرض کیا :چونکہ (بیماری کے دورے کے دوران) میرا ستر کھل جاتا ہے لہٰذا آپ اللہ سے دعا فرمائیں کہ میرا ستر نہ کھلا کرے۔ آپﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی۔ (متفق علیہ)
صبر وہ چیز ہے جس سے بیماری گناہوں کی بخشش کا سبب بن جاتی ہے۔ بیماری کی عارضی تکلیف عاقبت کی بڑی تکلیف سے بچا لیتی ہے۔ حضرت شفیقؒ بیان کرتے ہیں: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیمار ہو گئے تو ہم ان کی عیادت کے لیے گئے۔ وہ رونے لگے تو اس پر ان کی ملامت کی گئی۔ انہوں نے فرمایا:مَیں مرض کی وجہ سے نہیں رو رہا‘ کیونکہ مَیں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’مرض (گناہوں کا) کفّارہ ہوتاہے۔ میں تو اس لیے روتا ہوں کہ یہ مرض مجھے بڑھاپے کی عمر میں لاحق ہوا ہے اور محنت اور مشقت کرنے کے دور میں لاحق نہیں ہوا (کیونکہ جب آدمی بیمار ہوتا ہے تو اس کے لیے اعمال کا وہی اجر لکھ دیاجاتا ہے جو اس کے بیمار ہونے سے پہلے لکھا جاتا تھا‘ اور اب صرف مرض نے اسے (وہ اعمال بجالانے سے) روک رکھا ہے۔ (مشکوٰۃ بحوالہ رزین)
جیسے اللہ تعالیٰ کی ہر صفت لامحدود ہے اسی طرح اس کی بخشش اور رحمت بھی بے انتہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح بندے کی بخشش کا سامان ہو جائے اور وہ جہنم سے بچ جائے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’جب بندے کے گناہ بہت زیادہ ہو جاتے ہیں اور اس کا کوئی ایسا عمل نہیں ہوتا جو ان گناہوں کا کفّارہ بن جائے تو اللہ اسے حزن و غم میں مبتلا کر دیتا ہے تاکہ وہ اس کے گناہوں کا کفّارہ بن جائے۔‘‘ (مسند احمد)
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مجھے میرے غلبہ اور جلال کی قسم!مَیں جسے بخشنے کا ارادہ کر لوں تو مَیں اُسے دنیا سے نہیں اٹھاتا حتیٰ کہ اسے بیمار کر کے یا اس کے رزق میں تنگی کر کے اس کے ذمے خطائوں کا پورا پورا حساب نہ کرلوں ۔ یعنی بخش نہ دوں۔‘‘(رواہ رزین)
مؤمن بندوں پر اللہ تعالیٰ کی شفقت کا یہ حال ہے کہ وہ نہیں چاہتا کہ کوئی مؤمن دوزخ کا ایندھن بن جائے‘ لہٰذا وہ اس کی بخشش کا سامان کرتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سناکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’جب میں اپنے بندے کو اس کی دو محبوب چیزوں یعنی دونوں آنکھوں سے محروم کر کے آزماتا ہوں اور وہ اس پر صبر کرتا ہے تو میں ان کے عوض اسے جنّت عطا کرتا ہوں۔‘‘ (صحیح بخاری) جو بندہ دنیا میں آنکھوں سے محروم رہا اور وہ زمین پر موجود اللہ کی مخلوق کو نہ دیکھ سکا‘ نیز اُس نے ماں باپ‘ بھائی‘ بہن‘ دوست احباب کے چہرے بھی نہ دیکھے تو اس محرومی کا بدلہ اسے جنت کی صورت میں ملے گا۔
محمد بن خالد سلمی ؒ اپنے والد سے اور وہ اس کے دادا سے روایت کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بے شک بندے کے لیے اللہ کے ہاں کوئی مقام و مرتبہ مقدر ہوتا ہے جہاں وہ اپنے عمل کے ذریعے نہیں پہنچ سکتا تو اللہ اسے اس کے جسم یا اس کے مال یا اس کی اولاد کے بارے میں آزماتا ہے ۔ پھر اس کو اس پر صبر کرنے کی توفیق عطا فرماتا ہے حتیٰ کہ وہ اسے اس مقام و مرتبہ تک پہنچا دیتا ہے جو اللہ کی طرف سے اس کے لیے مقدّر کیا گیا ہوتا ہے۔ (ابودائود‘ مسند احمد)
دنیا کی خوشحالی‘ مال کی فراوانی اور جسمانی آسودگی آخرت کی زندگی کو بہتر نہیں بناتیں بلکہ یہ سب دنیا میں کی جانے والی نیکیوں کا بدلہ بن جاتی ہیں اور عاقبت میں بس گناہ رہ جاتے ہیں۔ وہاں تو اچھے اعمال کام آئیں گے یا پھر دنیاوی زندگی کے دکھ ‘تکالیف ‘پریشانیاں اور بیماریاں انسان کے گناہوں کو مٹا دیں گی۔ اگر کسی شخص کی دنیوی زندگی عافیت میں ہی گزری تو وہ فیصلے کے دن مصیبت زدہ لوگوں کی جزا دیکھ کر تمنّا کرے گا کہ اسے بھی دنیاوی خوشحالی کی بجائے عسرت اور مرض سے سابقہ پڑتا تو اس کے گناہ بھی بخش دیے جاتے ۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جب آزمائش سے دوچار لوگوں کو روز قیامت جزا دی جائے گی تو اہل عافیت خواہش کریں گے کہ کاش دنیا میں ان کی جلدوں کو قینچیوں سے کاٹ دیا جاتا۔ ‘‘(ترمذی)
دنیا میں آسودہ زندگی اور نعمتوں کی فراوانی کوئی فخریہ چیز نہیں ہے۔ خوشحال لوگوں کی آسودگی آخرت میں ان کو کوئی فائدہ نہ دے گی۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے خیر اور بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے اس کے گناہوں کی سزادنیا ہی میں دے دیتا ہے‘ اور جب اپنے بندے سے شر کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کے گناہ کے معاملے کو مؤخر فرما دیتا ہے‘ حتیٰ کہ وہ اس کے بدلے روزِ قیامت اسے پورا بدلہ دے گا یعنی وہ اپنے گناہوں کی سزا بھگتے گا۔‘‘ (مشکوٰۃ‘ بحوالہ ترمذی)
صاحب حیثیت لوگوں کو اپنی خوشحالی پر مطمئن نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی بیمار اور نادار لوگوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔ عاقبت کی حقیقی زندگی میںدنیا کی خوشحالی اور اچھی صحت کام نہیں آئے گی بلکہ نیکیوں کے علاوہ صبر کے ساتھ گزارے ہوئے مصیبت اور ناداری کے حالات گناہوں کو مٹا کر فلاح کا باعث بنیں گے۔
بے حیثیت‘ نادار‘ دکھی‘ بیمار اور محتاج لوگوں کو دیکھ کر اپنی عافیت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور ان کمزوروں کے ساتھ حسنِ سلوک کر کے خالق کو خوش کرنا چاہیے ‘کیونکہ یہ لوگ بھی اللہ کے بندے اور اس کے پیارے ہیں بلکہ دوسروں کی نسبت اللہ تعالیٰ کے قریب تر ہیں۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025